قانون کی پاسداری اور بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ

چیف ایڈیٹر: نوراللہ صدیقی

بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کا 146واں یوم پیدائش جوش و خروش کے ساتھ منایا جارہا ہے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کی شخصیت جب بھی تصور میں ابھرتی ہے تو ایک قانون پسند شخصیت کا مضبوط تاثر جنم لیتا ہے۔ ایک ایسی شخصیت جس نے نازک سے نازک مرحلہ پر بھی کبھی قانون ہاتھ میں لیا اور نہ ہی کسی بڑے سے بڑے مقصد کے حصول کی خاطر کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت دی۔ بانی ٔپاکستان ایک قانون دان تھے اور انہوں نے ہر موقع پر اخلاقی رویوں اور قانون کی عمل داری کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ تحریک پاکستان کی ساری جدوجہد قانون، اخلاق اور جمہوری اقدار کے دائرے میں روبہ عمل نظر آتی ہے۔ بانی پاکستان جن قوتوں کے خلاف آزادی کی جدوجہد کررہے تھے، ان کے نزدیک جائز اور ناجائز کی کوئی بحث روا نہیں تھی، وہ حلال اور حرام کے کسی تصور اور تذکرہ کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ ان کے نزدیک طاقت کے ذریعے کمزور کو دبانے اور مقصد حاصل کرنے کی ڈاکٹرائن ہی ایک ابدی حقیقت تھی۔ برصغیر کے استحصالی مقتدر حلقے کسی اخلاقی قوت کے ساتھ برصغیر پر قابض ہوئے اور نہ ہی انہوں نے کسی اخلاق اور قانون کے تحت اپنی حکومتی عمارت کھڑی کی۔ انہوں نے اپنے اقتدار کو مستحکم رکھنے کے لئے ہر ناجائز کو جائز سمجھا اور اپنے اقتدار کے غلبہ کے لئے برصغیر میں آباد انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا۔ ایک قابض اور غاصب کی حیثیت سے وہ سب کچھ کیا گیا جو ایک غاصب کسی خطہ پر قابض ہونے کے بعد کرتا ہے۔ لامحالہ جب کسی قابض اور غاصب کے خلاف مزاحمت یا جدوجہد سر اٹھاتی ہے تو اُس میں تشدد اور سختی کا عنصر فطری اعتبار سے نمایاں ہوتا ہے اور ایسی جدوجہد تیغ و تفنگ کے بغیر نتیجہ خیز نہیں سمجھی جاتی مگر ان تمام تاریخی اور زمینی حقیقتوں اور صداقتوں کے باوجود بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے کسی نازک سے نازک مرحلہ پر بھی قانون کو ہاتھ میں لیا اور نہ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت دی۔

بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ ایک صاحب مطالعہ شخصیت تھے انہوں نے جہاں شرق و غرب کی فلاسفی اور قانونی ابحاث کا عمیق نظری سے مطالعہ کیا تھا وہاں وہ قرآن و سنت کی تعلیمات پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی گفتگو میں قرآن مجید کے حوالہ جات اور حضور نبی اکرمa کی مبارک سنتوں کا تذکرہ اور آپa کا ذکر بکثرت ملتا ہے۔ ان کے اندر قانون کا احترام اور امن پسندی اسلام کے گہرے مطالعہ کا نتیجہ تھی۔ بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناحؒ کس قدر قانون کااحترام کرتے تھے، اس کا اندازہ ایک ہوشربا اور فکر انگیز واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے: رفیق نامی ایک شخص ملاقات کے بہانے آیا اور اس نے موقع پاتے ہی تیز دھار آلے سے بانی پاکستان پر حملہ کر دیا۔ اللہ رب العزت نے اس عظیم ہستی کو کسی بڑے مقصد کے لئے زندگی کی نعمت عطا کی تھی، اُسی مالک کائنات نے بانی پاکستان کی حفاظت کا راستہ نکالا اور بانی پاکستان عمر رسیدہ ہونے کے باوجود جواں سال قاتل کے شہ رگ پر کئے جانے والے کاری وار کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوگئے اور اس قاتلانہ حملہ میں آپ معمولی زخمی بھی ہوئے۔ حملہ کے دوران شور و غوغا اٹھنے پر آس پاس کام کرنے والے خدمات گار فوراً بانی پاکستان کی طرف لپکے اور انہوں نے قتل کی نیت سے حملہ آور ہونے والے شخص پر قابو پا لیا۔ اس نازک ترین مرحلہ پر بھی بانی پاکستان ہوش و حواس میں رہے اور اس موقع پر آپ نے اپنے محافظوں کو جو حکم دیا، وہ یہ تھا کہ قتل کی نیت سے آنے والے اس شخص کو کوئی نقصان نہ پہنچنے پائے، اس کے ساتھ جو معاملہ بھی ہوگا، وہ قانون کے مطابق ہو گا اور پھر انہوں نے مجرم کو مقامی پولیس سٹیشن کے حوالے کر دیا۔

بانی پاکستان پر حملہ کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ اب بانی پاکستان کو دوسری تشویش یہ لاحق ہوئی کہ مجھ سے محبت کرنے والے لاکھوں مسلمان کہیں ردعمل میں کسی کو نقصان نہ پہنچا دیں یا کوئی لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ کھڑا نہ ہو جائے۔ اس خدشے کے پیش نظر بانی پاکستان نے دوسرا بیان جو پریس کو جاری کیا، وہ مسلمانوں کو پرامن رہنے کے متعلق تھا اور آپ نے بیان جاری کیا کہ میں خیریت سے ہوں اور کوئی کسی کو نقصان نہ پہنچائے اور نہ ہی قانون کو ہاتھ میں لے۔ ایسے پہاڑ صفت حوصلے اور قانون پسند لوگ ہی انسانیت کا وقار ہوتے ہیں اور اشرف المخلوقات ہونے کی صفت پر پورا اترتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہوتے ہیںجو اپنے کردار اور عمل سے قوموں اور تاریخوں کا رخ بدل دیتے ہیں اور اس عارضی دنیا میں ہمیشہ کے لئے امر ہو جاتے ہیں۔

بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کی امن اور قانون پسندی کے مظاہر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ کے ہاں بکثرت ملتے ہیں۔ شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ بھی ایک وکیل اور قانون دان ہیں۔ آپ نے بھی استحصالی قوتوں کے خلاف تاریخِ پاکستان کی بے مثل اور پرامن جدوجہد کے مثالی باب رقم کئے۔ آپ پر بھی قاتلانہ حملے ہوئے، دھمکیوں کے تار آئے، خطوط لکھے گئے، میڈیا مہمات لانچ کی گئیں مگر آپ نے بھی ہمیشہ اپنے کارکنان کو پرامن رہنے اور قانون ہاتھ میں نہ لینے کی ہدایت کی۔ یہاں تک کہ قومی ایشوز پر آپ نے لاکھوں افراد کے ہمراہ جدوجہد بھی کی اس جدوجہد کے دوران آپ کا اپنے کارکنان کو ایک ہی حکم ہوتا تھا کہ کوئی گملا نہ ٹوٹنے پائے اور کوئی پتہ نہ گرنے پائے۔ یہ احکامات ایسے حالات میں جاری کئے جاتے رہے، جب مخالفین نے معصوم کارکنوں کا خون پانی کی طرح بہایا اور ظلم کو اس کی ہر شکل کے ساتھ آزمایا مگر شیخ الاسلام نے کبھی اپنی قانون اور امن پسندی کی فکر پر سمجھوتہ نہیں کیا۔

لیڈران کے انہی رویوں سے قومیں نمو اور بقاپاتی ہیں۔ افسوس آج معمولی سے مفادات کے لئے عوامی جذبات سے کھیلا جاتا ہے اور اس کے لئے مذہب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ امن قائم کرنا جن کی ذمہ داری ہوتی ہے، شو مئی قسمت کہ وہی لوگ فساد فی الارض کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ شاید انہی متشدد اور بے رحم رویوں کا نتیجہ ہے کہ پاکستان آج بھی کولہوکے بیل کے سفر پر ہے اور اس سفر کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔ پاکستان انہی متشدد رویوں کی وجہ سے ان ممالک سے بہت پیچھے رہ گیا جو ہم سے بہت بعد میں آزاد ہو کر بہت آگے بڑھ گئے۔ دنیا کی کوئی ایسی سماجی، سیاسی ڈاکٹرائن نہیں ہے جو امن اور خوشحالی کے لئے جنگ و جدل اور فتنہ و فساد کو سپورٹ کرے۔ حضور نبی اکرم a جب مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لے گئے تو انہوں نے سب سے پہلے امن کے قیام پر توجہ دی اور متحارب قبائل کی صلح کروائی اور مدینہ کے ہر شہری کے جان، مال، عزت، کاروبار ،مذہبی و ثقافتی روایات کو تحفظ دیا تاکہ امن قائم ہو۔ امن ہی ترقی اور خوشحالی کا پہلا زینہ ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری رواں صدی میں امن کے سب سے بڑے پیامبر ہیں۔ انہوں نے فروغ امن اور انسداد دہشت گردی کے لئے سیکڑوں کتب تحریر کیں، امن نصاب اور ہزار ہا لیکچرز دئیے۔ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک محفوظ اور خوشحال نہیں ہو سکتا جب تک وہ قانون کی بالادستی کو دل و جان سے قبول نہ کر لے۔ اللہ رب العزت بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کے درجات کو بلند کرے اور ان کی لحد کو جنت کے باغات میں سے ایک باغ بنائے۔