القرآن: علم؛ وسعتِ نظری اور تحرک کا نام ہے

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محبوب حسین

علم کی ترقی کے مراحل کیا ہیں؟ اور ہماری زندگیوں اور معاشرے پر علم کا کیا اثر ہونا چاہیے؟ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن کے جوابات سے آگاہی ہر طالبعلم کے لیے ضروری ہے۔ ڈگری؛ Education (تعلیم) کے ایک مرحلے کی تکمیل ہے مگر تعلیم (Education)؛ علم (Knowledge) کو نہیں کہتے بلکہ Education ایک رسمی مرحلہ (formal process) اور ایک راستہ (Path) ہے جو علم کی طرف ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ یونیورسٹی، تعلیمی ادارے، اساتذہ، نصاب، ماحول، لائبریریز، لکھنا، پڑھنا اور سننا یہ تمام مراحل، تعلیم کا حصہ ہیں اور تعلیم ہمیں علم کی طرف لے جاتی ہے۔ تعلیم بذاتِ خود (itself) علم نہیں ہے بلکہ علم کا راستہ ہے۔ علم کی مختلف Forms اور مظاہر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علم مختلف شکلوں؛ آرٹس، سائنس، تاریخ، سوشیالوجی، میڈیکل سائنس، باٹنی، بیالوجی، زوالوجی، مائیکرو بیالوجی، فزکس، کیمسٹری، بائیو کیمسٹری اور مینجمنٹ سائنس وغیرہ میں reflect کرتا ہے اور اس سے ان مختلف مضامینِ علم کا ظہور ہوتا ہے۔

علم اور اس کے مختلف مظاہر

علم کا مطلب ہے: جاننا۔ جب بندہ اپنے آپ کو جاننا چاہتا ہے تو علم کا ظہور کسی اور شکل میں ہوتا ہے۔۔۔ جب بندہ کائنات کو جاننا چاہتا ہے تو علم کا مظہر (manifestation) بدل جاتا ہے۔۔۔ جب بندہ رحمِ مادر میں اپنی تخلیق کی ابتدا کو جاننا چاہتا ہے تو اس کا manifestation ظہور تبدیل ہوجاتا ہے۔۔۔ جب کائنات کی تخلیق کو جاننا چاہتا ہے تو اس کی (forms) شکلیں تبدیل ہوجاتی ہیں۔۔۔ جب بندہ اس کائنات کے ساتھ اپنے تعلق کو جاننا چاہتا ہے تو اس کا reflection تبدیل ہوجاتا ہے۔۔۔ یہ کائنات خود وجود میں آئی یا کوئی وجود میں لایا؟ یہ کائنات کس مقصد کے لیے وجود میں آئی؟ میرا رشتہ اس کائنات کے ساتھ کیا ہے؟ میری زندگی کی حقیقت کیا ہے؟ مرنے کے بعد میں ختم ہوجائوں گا یا رہوں گا؟ اس کی شکل کیا ہوگی؟ اس زندگی اور اس زندگی کا کوئی تعلق ہے؟ اگر ان عوامل کو جاننا چاہتا ہے تو اس علم کا manifestation بدل جاتا ہے۔۔۔ زندگی خوبصورت کیسے بنے اور بدصورت کیسے ہوتی ہے؟ زندگی سے انسانیت کو فائدہ کیسے پہنچے اور نقصان کیسے پہنچتا ہے؟ اس حوالے سے سوچے گا توmanifestation تبدیل ہوجائے گا۔۔۔ اس لیے میڈیکل سائنس، انجینئرنگ، سوشل اور ہیومن سائنسز یہ تمام بذاتِ خود (itself) علم نہیں ہیں بلکہ یہ سب علم کے مظاہر (forms and manifestation) ہیں۔

جب ان تمام یونٹس کو ضم (integrate) کرتے ہیں اور ایک جامع وحدت (comprehensive oneness) بناتے ہیں تو اس جامع وحدت کو’’ علم‘‘ کہتے ہیں۔ چھ، سات، آٹھ، نو یا سولہ سترہ سال کا جو عرصہ ہم سکولز، کالجز یا یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں تو یہ عرصہ ہمیں علم کی طرف بڑھنے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ Education gives us ability of learning۔ یہ نظامَِ تعلیم ہمیں سیکھنے کی قابلیت دیتا ہے تاکہ ہم سیکھیں۔

سیکھنے کے مراحل

ہر شخص جو اس تعلیمی مرحلہ(educational process) میں داخل ہوجاتا ہے، لازمی نہیں کہ وہ سیکھ بھی بھی لے۔ سیکھنے کے لیے طالب علم کا رویہ، اس کی طلب، اس کی پیاس اور ماحول نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ سارے عوامل اس کی learningکو facilitate کرتے ہیں۔ سیکھنے کے درج ذیل مراحل ہیں:

1۔ فہم و معرفت

جب آدمی سیکھتا ہے تو یاد رکھیں! learning انسان کو سمجھنے (understanding) کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ learning (سیکھنا) بندے کو معرفت دیتی ہے۔ معرفت کے لیے ضروری ہے کہ جو چیز پڑھائی گئی، اس کو سمجھ جائیں کہ یہ اصل میں کیاہے؟ اس کی حقیقت کیا ہے؟ اس کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں؟ کہاں سے بنی اور کس مقصد کے لیے بنی؟ اس کے فوائد اور نقصانات کیا ہیں؟ الغرض جب ہمیں اس کی پہچان ہو جاتی ہے یا سمجھ آ جاتی ہے تو اسے معرفت کہتے ہیں۔

2۔ گہری سوچ

پھر یہ معرفت (Understanding) ہمیں گہری سوچ (deep thinking)کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ یعنی معرفت کے بعد ہی بندہ گہرائی میں جاکر اس حقیقت کا ادراک کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ اس deep thinking کے لیے مراقبہ کیا جاتا ہے۔

یاد رکھیں! ہم کوئی بھی چیز اس وقت تک نہیں پاسکتے جب تک دیوانہ وار اس کو نہ چاہیں، اس کے ساتھ عشق نہ ہو اور وہ عشق جنون کے درجے کا نہ ہو۔ میں آپ کو اپنی زندگی کا ایک واقعہ بتاتا ہوں۔ یہ بات زمانہ طالب علمی کی ہے کہ میں صبح کے ایک ہلکے سے ناشتے کے علاوہ تین تین دن تک کھانا نہیں کھاتا تھا کہ میری ساری سیرابی پڑھنے سے ہوجاتی تھی۔ پڑھنا میری بھوک کو ختم کردیتا تھا اور میرے کلاس فیلوز اس بات کے گواہ ہیں کہ اس کھانا نہ کھانے سے جو پیسے بچتے تھے، میں ان سے کتابیں خریدتا تھا۔ چوتھے دن کھانا کھاتا اور پھر اگلے تین دن فاقہ کرتا۔ گھر سے پیسوں کی کمی نہیں تھی اور سکالر شپ بھی ملتا تھا۔ سکالر شپ کے پیسے غریب کلاس فیلوز پر خرچ کرتا تھا اور گھر سے بھیجے گئے پیسوں سے کتابیں خریدتا تھا اور اس فاقے میں اتنا سیر ہوتا تھا کہ بھوک بھی نہیں لگتی تھی اور کمزوری بھی نہیں ہوتی تھی۔

سمجھانا یہ مقصود ہے کہ جب ہمیں کسی چیز کی طلب ہوتی ہے تو یہ طلب تڑپ میں بدلتی ہے اور جب یہ تڑپ پیاس میں بدل جائے، عشق اور جنون بن جائے تو پھر یہ خیال نہیں رہتا کہ کیا کھایا اور کیا نہیں کھایا۔ جنون کی حد تک گئے بغیر ہم جس شے کو لینا چاہتے ہیں، وہ نہیں ملتی۔ مجنوں بنے بغیر لیلیٰ نہیں ملتی۔۔۔ عاشق بنے بغیر رب نہیں ملتا اور رب کی نشانی نہیں ملتی۔ کسی شے کا قرب اس وقت تک نہیں ملتا جب تک طلب؛ عشق سے بڑھ کر جنون میں داخل نہ ہوجائے۔

ایک خاص توجہ طلب بات یہ بھی ہے کہ نخرے سے علم نہیں آتا۔ ہم چاہتے ہیں کہ نخرہ بھی رہے اور علم بھی حاصل ہو، ایسا نہیں ہوتا۔ یاد رکھ لیں! علم اور نخرہ اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ علم کا اپنا نخرہ ہی بہت ہے۔ علم ایک بہت بڑی دولت ہے۔ یہ اللہ کی صفات (attributes) میں سے ہے۔ ارشاد فرمایا:

اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ.

(الرحمٰن، 55: 1-2)

’’(وہ) رحمن ہی ہے۔ جس نے (خود رسولِ عربی a کو یا ان کے ذریعے اِنسان کو) قرآن سکھا یا۔‘‘

اللہ معلم ہے اور اس نے اپنی تعریف علم کے حوالے سے کی ہے اور قرآن کو علم کہا ہے۔ اسی طرح حضورنبی اکرمa کی تعریف بھی علم سے کی ہے۔ یاد رکھیں! فوق کل ذی علم علیم۔ لہٰذا علم کی کوئی حد نہیں ہے اور یہ انتہائی بلند شے ہے۔ وہ شخص جو زمانے کی گرم سرد ہوائوں کا گلہ کرتا ہے، بھوک پیاس کی شکایت کرتا ہے کہ ’’فلاں شے نہیں ملی، فلاں ختم ہوگئی، اب کیا کروں‘‘ تو اس طرح کے شکوے شکایات سے تنگ آکر علم کہتا ہے: ’’جا! میں نے تیرے ساتھ نہیں رہنا۔‘‘ جو تھکتا ہے، اکتاتا ہے یا نخرے دکھاتا ہے علم اس کے پاس نہیں آتابلکہ علم اپنے حقیقی طلبگار کی تلاش میں رہتا ہے۔

3۔ تفکر اور احساس

گہری سوچ(deep thinking) سے تفکر آتا ہے۔ اس کے نتیجے میں احساس (realization) کا مرتبہ آتا ہے۔ اس مرحلہ پر ہم ان حقائق کو realize کرتے ہیںجن کے لیے کوشش کر رہے ہوتے ہیں اور اس دوران بہت سے پردے اٹھتے چلے جاتے ہیں۔

4۔ حکمت و بصیرت

realiztation ہوجائے تو یہ wisdom بصیرت و حکمت کی طرف رہنمائی(lead)کرتی ہے۔ جب ہم حقائق، حالاتsituation، given subject اور subject under research کو صحیح realize کرتے ہیں، اس کو analyze (تجزیہ) کرتے ہیں تو اس سے wisdom (حکمت) ملتی ہے۔

5۔ قوتِ استنباط و استخراج

جب حکمت wisdomملے تو اس سے inference استنباط و استخراج کی قابلیت آتی ہے۔ حکمت و بصیرت (wisdom) کے بغیر بندہ دیکھ توسکتا ہے مگر اس میں سے infer (استنباط و استخراج) نہیں کرسکتا۔

جب ہم علم کے راستے میں ہوتے ہیںتو اس قابل ہو رہے ہوتے ہیں کہ wisdom کے ذریعے پیش آمدہ واقعہ میں سے کچھ اخذ کرسکیں، اس کے پس پردہ حقائق تک پہنچ سکیں، اس کے اسباب کو دیکھ سکیں، اس کی مطابقت (relevance) کو دیکھ سکیں، اس کے ساتھ جڑی حقیقت (connected reality) کو دیکھ سکیں اور اس سے استنباط و استخراج(infer) کرسکیں۔

6۔ تخلیق

جب استنباط و استخراج کرتے ہیں تو تب اس کا کہیں اطلاق کرسکتے ہیں۔ inference (استنباط و استخراج) حکمت (wisdom) کے نتیجے میں آتا ہے اس لیے inferance ہمیں creativity دیتا ہے اور علم میں تخلیق آتی ہے۔ بصورتِ دیگر علم صرف توجیہی رہتا ہے، صرف interpret (تشریح) اور explain کرتا ہے کہ یہ لکھا ہے، فلاں نے یہ کہا ہے، اس کا یہ معنی ہے یعنی وہ لکھے ہوئے کی وضاحت کرتا ہے اور علم خود تخلیق (create) نہیںکرسکتا۔

اہلِ علم کی اقسام

knowledgeable اہلِ علم دو طرح کے ہوتے ہیں:

1۔ ایک وہ لوگ جن کے پاس توجیہی علم ہوتا ہے، ان کو لکھا ہوا نہ ملے تو وہ گونگے ہیں۔ لکھا ہوا ملے تو explain اچھا کرلیتے ہیں۔

2۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو علم کی تخلیق کرتے ہیں۔ ان کا علم کتابوں کی سطروں تک محدود نہیں ہوتا، وہ Books اور lines میں محدود نہیں ہوتے بلکہ ان سطور (lines) سے بڑھ کر وہ خود ان سطور (lines) کو Create تخلیق کرتے ہیں۔ جب creativity ہے تو اس سے original ideasآتے ہیں۔ گویا wisdom سے inference، (استنباط اور استخراج) آگیا۔ inferanceکے نتیجے میں creativity یعنی تخلیقی صلاحیت آگئی۔ جب creative knowledge آتا ہے تو تب علم میں expansion ترقی و توسیع ہوتی ہے۔ اب وہ آدمی نقال نہیں رہتا بلکہ خلاق ہوجاتا ہے۔۔۔ ناقل نہیں رہتا بلکہ خالقِ علم ہوتا ہے۔۔۔ وہ لکھے ہوئے کو نقل نہیں کرتا بلکہ وہ لکھنے کے لیے علم کو تخلیق کرتا ہے۔۔۔ پھر لوگ اس کے کیے ہوئے کو تلاش کرتے ہیں کہ یہ اس نے کس کتاب سے بیان کیا، یہ کس کتاب میں ہے، ہم نے تو کسی کتاب میں نہیں دیکھا۔ بقول علامہ اقبال:

اب وہ صاحبِ علم خود صاحبِ کتاب ہوجاتا ہے۔۔۔ اس کے سینے کو کتاب بنادیا جاتا ہے۔۔۔ اس کے سینے پر علم کا ورود اور نزول ہوتا ہے۔۔۔ اس کے اندر علم کا ایک چشمہ کھل جاتا ہے جو نہ صرف اسے بلکہ اس کے ارد گرد موجود ہر فرد کو سیراب کرتا ہے۔۔۔ اس طرح علم میں expansion (توسیع) پیدا ہوتی ہے۔

ہر لمحہ نئی تخلیق

جس طرح اس کائنات کا آغاز اور تخلیق تو ایک نقطہ اور ایک وحدت سے ہوئی مگر پھر expand ہوتی چلی جارہی ہے۔

کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکون

ہر لمحہ ایک نئی تخلیق ہورہی ہے اور ہر لمحہ اس کائنات میں creationکا ایک عمل ہوتا ہے۔ تخلیق کے اس عمل میں کبھی تکرار (repetition) نہیں ہوتا۔ دیکھنے میں ایک جیسا لگتا ہے کہ پچھلے لمحے میں بھی یہی action of creation تھا، اگلے لمحے میں بھی وہی عملِ تخلیق ہے۔ بظاہر ایک جیسا لگتا ہے مگر یہ تکرار repetitionنہیں ہوتابلکہ ابتدا سے انتہاء تک کبھی repetition نہیں ہوتا اور تخلیق ہر لمحہ آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔

عالمِ نباتات، عالمِ حیوانات، عالمِ انس و جن، خلا، cosmology، astrophysics الغرض جس بھی حوالے سے غور کریں، ہر لمحہ بغیر تکرار کے نئی تخلیق ہورہی ہے۔ ہم سورج کو ہر روز ایک ہی وقت پر ایک ہی مقام سے طلوع ہوتا اور ہر روز ایک ہی وقت پر ایک ہی مقام پر غروب ہوتا دیکھتے ہیں۔ ہماری نگاہ سمجھتی ہے کہ یہrepetitionہے مگر وہ تکرار نہیں ہوتا بلکہ ہر لمحہ اور ہر دن نیا ہے۔ اس کا ایک سفر ہے۔ لہذاکائنات میں ہر لمحہ تکرار نہیں بلکہ توسیع ہورہی ہے۔

علم؛ وسعت کا نام ہے

علم کا کردار جب اپنے creative مرحلے پر پہنچتا ہے تو اس میں تنگی نہیں رہتی۔ اس وجہ سے اہلِ علم تنگ نظر نہیں ہوتے اور جو تنگ نظر ہوتے ہیں، وہ صاحبانِ علم نہیں ہوتے۔یعنی انہیں علم نہیں ملا ہوتا۔ اس لیے کہ علم تنگ نظر رہنے ہی نہیں دیتا بلکہ نگاہ، دل، خیالات، تصورات، اخلاق، مزاج اور رویوں میں وسعت دیتا ہے۔

یاد رکھ لیں! علم نام ہی سراسر وسعت اور expansion کا ہے۔ جن کے دل و دماغ تنگ ہوتے ہیں، وہ اس وجہ سے ہوتے ہیں کہ وہ ابھی جہالت کے اندھیروں میں ہیں،خواہ وہ بورڈ علم کا لگالے، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ جیسے شراب کی بوتل پر آبِ زم زم لکھ لیں تو وہ شراب آبِ زم زم تو نہیں بن جائے گی۔ کوئی آدمی بڑی داڑھی رکھ لے، پگڑی پہن لے اور اپنے آپ کو عالمِ دین کہے، جو چاہے کہلاتا رہے مگر اس سے علم تو نہیں آجائے گا۔ علم کا ایک اپنا کردار اور کرشمہ ہے، علم کی اپنی ایک تاثیر، حیثیت اور status ہے۔ اس کو اس مثال سے بھی سمجھیں کہ جو چیز ہمیں گیلا نہ کرے، ہم لاکھ بار کہیں کہ یہ پانی ہے مگر وہ پانی نہیں کیونکہ وہ ہمیں گیلا نہیں کررہا، ہماری پیاس نہیں بجھا رہا تو وہ پانی کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔؟ جس کا رنگ سفید نہیں ہے، وہ دودھ کیسے ہے۔۔۔؟ جو میٹھا نہیں ہے، وہ شربت کیسے ہوسکتا ہے؟ سمجھانا یہ مقصود ہے کہ ہر چیز کا اپنا ایک کردار ہے۔ جو ہمیں نفرت سکھا رہا ہے وہ علم کیسے ہے۔۔۔؟ علم تو محبت کا نام ہے۔ جو ہمیں تنگ نظری دے رہا ہے، وہ علم کیسے ہے۔۔۔؟ علم تو وسیع النظری کا نام ہے۔ جو ایک دوسرے کے گلے کاٹنے پر ہمیں تیار کررہا ہے، وہ علم کیسے ہے۔۔۔؟ وہ تو دہشت گردی ہے۔ انتہا پسندی، نفرت، گالی گلوچ اور تنگ نظری علم نہیں، اس لیے کہ علم سراسر وسعت ہے۔۔۔ علم؛ رحمۃ للعالمین کا عکس ہے۔۔۔ علم؛ رب العالمین کا عکس ہے۔۔۔ جس طرح اس کی ربوبیت میں وسعت ہے کہ وہ ہر ایک کو بلا تفریق ایمان و اسلام اور رنگ و نسل ہر کافر و مشرک اور مومن و مسلم کو دنیاوی نعمتیں عطا کرتا ہے، اسی طرح اس کی عطا کردہ نعمتِ علم میں بھی وسعت ہے۔

علم؛ جمود نہیں تحرک کا نام ہے

جب علم میں وسعت آتی ہے تو اس سے ارتقاء development اور evolution (ارتقاء) پیدا ہوتی ہے، اس کے بعد علم پھر static اور جامد نہیں رہتا۔ جو جامد ہوجائے وہ علم نہیں ہے۔ چونکہ علم طہارت ہے اور جو جامد ہوجائے اس سے طہارت زائل ہو جاتی ہے۔ مثلاً: ایک تالاب میں پانی کھڑا ہوجائے اور اس میں بہائو نہ ہو تو اس سے وضو جائز نہیں ہوتا اور اگر ایک دریا یا ندی نالا بہہ رہا ہو، اس میں اگر کسی جانور یا انسان کی غلاظت بھی گر جائے تو پھر بھی آدمی اسی پانی سے وضو کرسکتا ہے۔ طہارت اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ بہتے ہوئے متحرک پانی میں کسی قسم کی غلاظت آ جانے کے باوجود اس کی طہارت زائل نہیں ہوتی۔ اسی طرح جو علم متحرک ہوجائے، creative ہوجائے، جس کا جمود ختم ہوجائے تو اس علم کی طہارت اتنی ہوتی ہے کہ وہ جہان کو طہارت اور نور دیتا ہے۔ علم جب progress کرتا ہے، develope ہوتا ہے تو اس سے اس میں comprehenssion آجاتی ہے، وہ ہر پہلو aspectکو comprehendکرتا ہے اور کلیت totality اور جامعیت کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔

یونیورس اور یونیورسٹی میں مطابقت

جب علم میں comprehension آتی ہے تو وہ علم universe کی طرح ہوجاتا ہے۔ اسی سے لفظ University ہے۔ ڈکشنریز میں ایسے معانی نہیں ملتے۔ اس لیے کہ یہ اس کا موضوع ہی نہیں۔ ڈکشنری University کے بارے بتائے گی کہ ایک ایسا ادارہ جس میں اونچے درجے کی تعلیم ہوتی ہے، وہ ادارہ یونیورسٹی کہلاتا ہے۔ ہر ڈکشنری University کو ایک ادارہ دکھائے گی۔ میں نے آج تک ایسی ڈکشنری نہیں دیکھی جو University کو کائنات بتائے۔ Universe اور University میں ایک تعلق ہے۔ لفظ uni کا بھی حُسن ہے اور verse کا بھی حُسن ہے۔ uni وحدت کا اشارہ دیتا ہے اور verse ورائٹی کا اشارہ دیتا ہے۔ Universe کائنات کو کہتے ہیں۔ ایک ایسی کائنات جس میں زمین، آسمان، سورج، چاند، ستارے، فضائیں، تحت و بالا سارا سب کچھ ہے۔ اس میں مختلف verities ہیں۔ ساری کائنات میں جو مختلف verities ہیں وہ سب آپس میں ایک پیٹرن اور ایک سٹائل کے ساتھ پروئی گئی ہیں۔ کائنات میں زمین، آسمان، سورج، چاند، ستارے، فضاء کس سٹائل کے تحت آپس میں بندھی ہوئی ہیں، یہ سٹائل فزکس بتائی ہے۔۔۔ انسان میں کون سی verities پائی جاتی ہیں، یہ سٹائل بیالوجی اور دیگر مضامین بتاتے ہیں۔۔۔ الغرض کائنات کے اندر ایک پیٹرن اور ایک connectivity ہے۔ جیسا کہ کائناتیں مختلف ہیں مگر ہر شے دوسری سے جڑی ہوئی ہے۔ پس ایک پیٹرن کے تحت جڑنے والی ان مختلف دنیائوں کے مجموعہ (collection) کو Universe کہتے ہیں۔

بڑے بڑے نامور actor (فنکار) ہوتے ہیں جنہیں جو role (کردار) دے دیں وہ ادا کرلیتے ہیں، انہیں verse style کہتے ہیں۔ یعنی ان کے پاس بے شمار Skills ہوتی ہیںجو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ جڑی ہوتی ہیں۔ اسی سے verses کا لفظ ہے۔ جیسا کہ قرآن، بائبل، مذہبی کتابیں ہوں یا نظم و نثر جب مختلف الفاظ ایک نظم کے ساتھ لائنوں اور سطور میں جڑے ہوئے ہوں اور ان کے اندر ایک ربط ہو تو اس کو verse کہتے ہیں۔

پھر اسی Universe سے لفظ ’’یونیورسٹی‘‘ نکلا ہے یعنی جو علم کے بے شمار مظاہر کو کھول دے۔ یونیورسٹی تب تک یونیورسٹی نہیں بنتی جب تک وہ سارے مظاہر کسی ایک تصور پر باہمی unified نہ ہوں یا ان کے اندر unity نہ ہو، یعنی ان کے اندر ایک پیٹرن اور connectivityنظر آنی چاہیے۔ جیسے گلاب کے جس پھول کو بھی دیکھیں اس میں پائی جانے والی پتیوں میں سے ہر پتی ایک جیسی شکل و صورت میں نظر آتی ہے اور تمام پتیاں ایک جیسے سٹائل کے ساتھ جڑی ہوئی ہوتی ہیں۔ اسی طرح درخت کے پتوں کو دیکھیں تو ہزارہا پتے ہیں مگر سب ایک جیسے نظر آتے ہیں۔ یعنی ان پتوں کی کثرت کے اندر ایک وحدت unity ہے اور جب کثرت میں وحدت ہو تو اسے یونیورسٹی کہتے ہیں۔

آج Universities معاشرے کو طرح طرح کے علوم و فنون کی مختلف verities دے رہی ہیں، لیکن علم کے اِن بے شمار مظاہر کے اندر کوئی ایک پیٹرن نہیں جو انہیں connect کر سکے۔ connectivityکا وہ پیٹرن اور سٹائل ’’اخلاق اور کردار‘‘ ہے جو زندگی کو ایک پیٹرن دے سکتا ہے۔۔۔ جو سوچ، فکر اور behavior کو ایک پیٹرن، ایک طریقہ، نشوونما کا ایک ڈھب اور ایک انداز دے سکتا ہے۔ کیونکہ جس پیٹرن میں وحدت نہ جھلکے وہ یونیورسٹی ہی نہیں۔

منہاج یونیورسٹی اسی پیٹرن اورconnectivity کو لے کر معاشرے میں کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ جس میں مظاہرِ علم بھی ہوں اور ان کے اندر unity بھی ہو اور جس کے تحت تمام مظاہر connected نظر آئیں تاکہ یہاں کے فاضلین کردار اور فکر کا پیٹرن لے کر جہاں بھی جائیں تو ان کی خوشبو اور مہک قائم رہے۔ جب علم میں ایسی progression اور comprehension آتی ہے، تب وہ علم بقا دینے والا Survivor بنتا ہے، اس علم میں بقا آتی ہے اور صاحبِ علم کو باقی کردیتا ہے۔

علم؛ بقاء کا حامل کیسے ہوتا ہے

علم کے survive کا سوال اس وقت پیدا ہوتا ہے جب مختلف چیلنجز پیش آئیں اور علم ان چیلنجز کو face نہ کرسکے تو وہ علم شکست کھا جاتا ہے۔ اب علم کے اوپر depend کرتا ہے کہ وہ ہر دور کے ابھرتے ہوئے چیلنج کو face کیسے کرتا ہے۔۔۔؟ علم اگر اس چیلنج اور مسئلہ کا حل نہ دے تووہ خود محلول کی طرح بہہ جائے گا۔ علم اگر solution نہ دے تو خود dissolve (تحلیل) ہوجاتا ہے۔ زندہ اور باقی علم وہ ہے کہ زمانہ بدلتا رہے، سوالات نئے سے نئے آتے رہیں، حالات بدلتے رہیں، چیلنجز بدلتے رہیں، مگر علم ہر دور میں بدلے ہوئے حالات کو face کرسکے اور ہر اٹھنے والے مسئلے کا حل دے سکے، ہر چیلنج کا مقابلہ کرسکے اور جو اس علم کے followers ہیں، ان کی کشتی کو اس منجھدار سے نکال کر کنارے لگاسکیں۔

منہاج القرآن کا contribution یہ ہے کہ جب 80ء اور 90ء کی دہائی کے حالات تھے اور لوگوں کی اپروچ مختلف تھی تو چالیس سال پہلے ہم نے چیلنجز فیس کیے ہیں۔ جب بھی کوئی ایک نیا step اٹھاتے تو فتوئوں کا ایک طوفان آجاتا تھا، حتی کہ کفر کے فتوے آتے اور لوگ لرز جاتے تھے۔ میرے ساتھی کہتے تھے کہ بڑا بولڈ step ہے، ہر طرف سے مخالفت اور کفر کے فتوے ہیں، تھوڑا نرم ہاتھ رکھ لیں۔ میں کہا کرتا تھا کہ نہیں، آپ اس وقت تک leading role، پیٹرن set کرنے والے، دنیا کو سٹائل دینے والے اور دنیا کی سمت متعین کرنے والے نہیں بن سکتے، جب تک چیلنجز کو جرأت کے ساتھ face نہیں کریں گے۔ نتیجتاً کیا ہوتا تھا کہ سالوں بعد وہ فتوے دینے والے خود ہماری بات کو follow کرنے لگ جاتے اور اسی راستے پر چل پڑتے۔ منہاج القرآن کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔

جب ہم علم کو اللہ کی وحی اور divine light سے اخذ (derive) کرتے ہیں تو وہ علم survivor ہے۔ وہ آپ کو بھی بچاتا ہے اور خود بھی بچ کر آگے چلتا ہے۔ یہ وہ بنیادی چیز ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ علم کی راہ میں ڈگری صرف recognition (پہچان) ہے۔ یعنی اس بات کو تسلیم کرنا ہے کہ اس طالبعلم نے جو تعلیمی مرحلہ مکمل کیا ہے، اس کے بعد اسے علم حاصل کرنے کا طریقہ اور سلیقہ آگیا ہے، لہٰذا اب اسے علم کی طرف بڑھنا چاہیے۔

مقصدِ حیات

یاد رکھیں! کہ ہمارا مقصد ایک اعلیٰ انسان بننا ہے، وہ انسان جس کے ذریعے اللہ کی پہچان ہوسکے۔ حدیثِ قدسی ہے کہ اللہ رب العزت نے فرمایا:

کنت کنزا مخفیا فاحببت ان اعرف فخلقت الخلق لیعرفنی.

(مقدمه ابن خلدون، ج: 1، ص: 471)

میں (علم، کمال اور حسن و جمال کا) ایک چھپا ہوا خزانہ تھا میں نے چاہا کہ مجھے پہچانا جائے، سو میں نے مخلوق کو پیدا کیا اور اس لیے پیدا کیا تاکہ خلق مجھے پہچانے۔

اللہ نے ساری مخلوق میں سے سب سے اعلیٰ ارفع، اکمل، اجمل اور اجمع یعنی جامع خلق جسے بنایا، اس کا نام انسان ہے۔ اسی لیے خلافت اورنیابت فرشتوں کو نہیں دی بلکہ انسان کو دی۔ فرمایا:

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ.

(التین، 95: 4)

’’بے شک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے۔‘‘

انسان کو سب سے اعلیٰ خلق اس لیے بنایا کہ اسے دیکھ کر اللہ کی جتنی اعلیٰ پہچان ہوسکتی ہے، اس سے بہتر پہچان کسی اور مخلوق کو دیکھ کر نہیں ہوسکتی۔ ہمیں وہ انسان بننا ہے کہ ہم اپنے علم، عمل، اخلاق، کردار، behaviour، اٹھنے بیٹھنے، برتائو، شخصیت، لباس، کھانے پینے، توازن، اعتدال، رحمت، شفقت، امن محبت، قناعت اور توکل کے پیکر بن کر اور طبیعت سے حرص، لالچ، غصہ و نفرت اور تنگ نظری نکال کر اتنے وسیع اور اتنے کامل بنیں کہ اس انسان کے مرتبے کی طرف جاسکیں کہ جس میں لوگوں کو اللہ نظر آنے لگے۔

اللہ رب العزت نے ساری مخلوقات میں سب سے اکمل خلق انسان کو اس لیے بنایا کیونکہ اس نے انسان کو اپنی صفات کا مظہر بنایا ہے۔ حدیث پاک میں ارشاد فرمایا گیا:

فان اللّٰه خلق آدم علیٰ صورته.

(صحیح ابن حبان، ج 12، ص 420)

اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔

اس کا معنی یہ ہے کہ آدمی اپنی صورتِ اخلاق، اپنی صورتِ صفات، اپنے اخلاق اور شخصیت کو جتنا چمکاتا جائے گا اتنا ہی اللہ کی صفات اور اس کے اخلاق اس میں چمکتے چلے جائیں گے، اس لیے کہ انسان کے اندر اللہ کی صفات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسان آسانی سے اللہ کے ساتھ connect ہوجاتا ہے۔

ہر جگہ اللہ کی صفات کا رنگ نمایاں ہے

جب ہم کائنات کو دیکھتے ہیں زمین و آسمان کو دیکھتے ہیں تو اللہ کی وسعت نظر آتی ہے۔۔۔ جب سمندروں کی غیر محدودیت کو دیکھتے ہیں تو اللہ کی ذات کی صفات کی جامعیت نظر آتی ہے۔۔۔ جب انسان کو دیکھتے ہیں کہ کتنی خوبصورتی سے اس کے اعضا باہم مربوط ہیں، جب کائنات کو دیکھتے ہیں کہ اس کے سارے اجزاء ایک خاص نظم کے تحت باہم جڑے ہوئے ہیں تو اللہ رب العزت کا ever living (حی قیوم) ہونا نظر آتا ہے۔۔۔ جب ہم کسی صاحبِ علم کو دیکھتے، پڑھتے اور سنتے ہیں تو اس کے علم سے جو روشنی ملتی ہے، اس سے اللہ کا علیم الخبیر ہونا نظر آتا ہے۔۔۔ جب کسی ڈاکٹر کو دیکھتے ہیں تو اللہ کا شافی ہونا نظر آتا ہے۔۔۔ ماں کی مامتا کو دیکھتے ہیں تو اللہ کی شفقت و رحمت نظر آتی ہے۔۔۔ باپ کے پالنے کی تدبیر کو دیکھتے ہیں تو اللہ کی ربوبیت نظر آتی ہے۔۔۔ الغرض اپنے اندر اور اپنے باہر جس شے پہ بھی ہم نگاہ ڈالیں تو ہر چیز میں کوئی نہ کوئی صفت اور کوئی نہ کوئی خلق اللہ رب العزت کا نظر آتا ہے۔ حتی کہ دنیا میں جو متضاد صفات ہیں، ان سے بھی اللہ کی صفات آشکار ہوتی ہے۔ کوئی شخص سخی ہے تو اس کی سخاوت کو دیکھ کر اللہ کی صفتِ عطا کا پتہ چلتا ہے اور جب ایک کنجوس کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ روکنے والا بھی ہے۔۔۔ موت سے بچانے والے کسی شخص کا life giving attitude دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے اللہ زندگی عطا کرنے والا بھی ہے اور جب کسی قاتل کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ موت دینے والا بھی ہے۔۔۔ ایک ہدایت یافتہ شخص کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ہادی ہے۔۔۔ اسی طرح ایک شخص اگر گمراہ ہے تو اس کی گمراہی دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ مضل بھی ہے۔۔۔ الغرض جس بھی جہت اور زاویہ سے جو کچھ کائنات میں ظہور پذیر ہے اس سے اللہ کی کوئی نہ کوئی صفت نمایاں نظر آتی ہے۔ یعنی انسان کی اپنی جان میں اور کائنات میں ہر طرف اللہ کی صفات ہیں۔

اسی طرح ایسے لوگ بھی ہیں جو ضرر رساں ہیں اور ایسے بھی ہیں جو نفع بخش ہیں۔۔۔ جیسے جیسے ہمارے اندر انسانیت کو نفع دینے والا کردار، انسانیت کو فیض پہنچانے والا کردار، دکھی انسانیت کو سکھ دینے والا کردار روتے ہوئوں کو مسکرا دینے والا کردار، محروم کو عطا کردینے والا کردار اور گرے ہوئوں کو اٹھا دینے والا کردار نمایاں ہوتا چلا جائے گا، ویسے ویسے ہم احسنِ تقویم یعنی اچھا انسان بنتے چلے جائیں گے حتی کہ فرشتوں سے بھی اعلیٰ ہوجائیں گے اور جیسے جیسے ہمارے کردار میں انسانیت کو نقصان پہنچانے واضح ہوتا چلا جائے گا، بخیلی، بدبختی، تنگ نظری دہشتگردی، انتہا پسندی، بداخلاقی، گالی گلوچ اور لوگوں کو نقصان پہچانے کا کردار غالب ہوتا چلا جائے گا، ویسے ویسے ہم بدترین جانور سے بھی ابتر ہوتے چلے جائیں گے۔

معلوم ہوا کہ انسان ایک ایسا وجود ہے کہ چاہے تو فرشتوں سے بھی اعلیٰ ہوجائے اور چاہے تو حیوانات سے بھی بدتر ہوجائے۔ ہم سب سے اعلیٰ بھی ہیں اور اعلیٰ علیین بھی ہیں۔۔۔ اسی طرح اسفل بھی ہیں اور اسفل سافلین بھی ہیں۔۔۔ انسان نور بھی ہے اور اندھیرا بھی ہے۔۔۔خیر بھی ہے اور شر بھی ہے۔۔۔ یہ سب dependکرتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کو کس رخ پر لے جاتے ہیں اور جو علم حاصل کررہے ہیں، اس علم کا اطلاق کس طرح اپنی جان پر کرتے ہیں۔

تعلیم کی ڈگریوں کے ساتھ ساتھ ایک اچھا انسان بننے کی ڈگری بھی ہمیں حاصل کرنی ہے۔ تعلیم کی ڈگری یونیورسٹی کے امتحان سے ملے گی اور اچھا و اعلیٰ مرتبے کا انسان بننے کی ڈگری ہمیں زندگی کے امتحان سے ملے گی۔ کسی کالج یا یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد انسان زندگی کی ایک بڑی امتحان گاہ میں داخل ہوتا ہے۔جہاں بڑے چیلنجز اور طوفان ہیں، جنہیں face کرنا ہوتا ہے۔ علم کو ہدایت میں منتقل کرنا ہوگا تاکہ علم کے ذریعے وہ کردار ملے جس کردار سے اللہ رب العزت کی شناسائی ہو اور بھولے بھٹکے لوگ ہم سے رہنمائی پائیں۔۔۔ پریشان حال ہم سے سکھ چین اور راحت پائیں۔۔۔ رونے والوں کو ہمارے وجود سے مسکراہٹ ملے۔۔۔ محروموں کو ہمارے وجود سے راحت ملے۔ اس پیغام کو پھیلانے اور خود پر اس کے اطلاق کی ضرورت ہے تاکہ علم؛ علمِ نافع بنے اور نہ صرف ہماری زندگی بلکہ سوسائٹی اور انسانیت کو بھی فائدہ پہنچے۔