تدریس اور اختلاف کے آداب

ڈاکٹر حسن محی الدین قادری

اسلامی تعلیمات میں’’ ادب‘‘ کو نہایت اہمیت حاصل ہے۔ قرآن مجید کی متعدد آیات، احادیث مبارکہ، صحابہ کرام کے اقوال اور سلف صالحین کے فرامین میں’’ ادب‘‘ کے حوالے سے حد درجہ تاکید نظر آتی ہے۔

ائمہ لغت ’’ادب‘‘ کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’الادب اسم یقع علی کل ریاضة محمودة یتخرج بها الانسان فی فضیلة من الفضائل.

(الزبیدی، تاج العروس، ج: 2، ص: 12)

ہر وہ اچھی ریاضت، exercise، activity اور ہر وہ خوبصورت کام جس کے ذریعے انسان فضائل میں سے کسی اچھی فضیلت کا حقدار ٹھہرجائے اور فضائلِ گلستان میں سے ایک اچھی فضیلت کا پھول اپنی زندگی کا حصہ بنالے اور اس مہک کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالے تواسے’’ ادب‘‘ کہتے ہیں۔

’’ادب‘‘؛ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

آئیے! اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ’’ادب‘‘ سے آشنائی حاصل کرتے ہیں:

1۔ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ.

(القلم، 68: 4)

’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)۔‘‘ مذکورہ آیت مبارکہ کی ایک تفسیر سے عموماً ہم واقف ہیں مگراس کی ایک اور تفسیر بھی ہے جسے امام عطیہ العوفی نے بیان کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس آیت سے یہ مراد بھی لیا جاتا ہے:

وانک لعلی ادب عظیم

اے محبوب ﷺ آپ درحقیقت ادبِ عظیم پر فائز ہیں۔

خلقِ عظیم بھی آپ ﷺ ہی کی زینت ہے اور ادبِ عظیم بھی آپ ﷺ ہی کی زینت ہے۔

2۔ اسی طرح قرآن مجید میں ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

یٰٓـاَیَّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَهْلِیْکُمْ نَارًا.

’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ ۔‘‘

(التحریم، 66: 6)

  • حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جب اس کی تفسیر کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

علموهم ادبوهم

(مختصر شعب الایمان، ج: 1، ص: 120)

یعنی اپنی اولاد کو دوزخ کے عذاب سے بچانا چاہتے ہو تو انہیں آداب سکھاؤ اور انہیں تعلیم دو۔

  • حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اس کی تفسیر یوں کی:

ففقهوهم و احسنوا تعلیمهم.

(رسالة قشیریة، ص: 283، 284)

یعنی انہیں فقہ کی تعلیم دو، ان میں سمجھ بوجھ اور شعور منتقل کرو اور انہیں دین کی بنیادی معلومات عطا کرو پھر انہیں آدابِ زندگی (اخلاقی اقدار، احسن برتاؤ اور مزاج وغیرہ) بھی سکھاؤ۔

3۔ امام سلمی ایک حدیث مبارک نقل کرتے ہیں جس میں آپ ﷺ نے فرمایا:

ان الله ادبنی فأحسن تأدیبی.

(السلمی، آداب الصحبة، ص: 124، الرقم: 208)

بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے آداب سکھائے اور اتنے خوبصورت آداب، اخلاق اور طریقے سکھائے کہ جس سے بہتر اور کوئی نہیں ہوسکتے تھے۔

4۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر فرمایا:

تادبوا ثم تعلموا.

(ابن مفلح المقدسی، الآداب الشرعیہ، ج: 3، ص: 522)

پہلے ادب سکھایا کرو اور پھر تعلیم دیا کرو۔

یعنی پہلے ادب کی بھٹی میں انہیں پگھلاؤ اور جب وہ کندن ہوجائیں تو پھر علم کے میدان میں اتارو۔

5۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص آپ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے اس سے فرمایا:

اے بندے اگر تو کچھ پانا چاہتا ہے اور خدا کی بارگاہ میں سرخرو ہونا چاہتا ہے تو میری ایک بات یاد کرلے۔ اس نے عرض کیا: حضور ﷺ ! ارشاد فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

ادب ابنک. فانک مسؤل عن ولدک.

(بیهقی، السنن الکبریٰ، ج: 3، ص: 84، الرقم: 4877)

یہ تجھ پر فرض ہے کہ سب سے پہلے اپنے بیٹے کو آداب سکھاؤ کیونکہ بیٹے سے متعلق تم سے سوال کیا جائے گا اورپوچھا جائے گا۔ عرض کیا کہ حضرت کیا پوچھا جائے گا؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ماذا ادبتہ وما ذا علمتہ۔

اے بندے تجھ سے یہ پوچھا جائے گا کہ ہم نے تجھے بیٹے کی نعمت سے نوازا یعنی اولاد عطا فرمائی تو اسے زندگی میں تو نے کیا آداب سکھائے اور کتنا علم منتقل کیا۔

6۔ امام عبدالرحمن القاسم فرماتے ہیں:

صحبت الامام مالک عشرین سنة فکان فیها ثمانئة عشرة فی تعلیم الادب وسنتان فی تعلیم العلم فلیتنی جعلت العشرین کلھا ادب.

(الشعرانی، الانوارالقدسیه فی معرفة قواعد الصوفیة، ج: 1، ص: 58)

میں نے امام مالک کی بارگاہ میں بیس سال گزارے جس میں سے اٹھارہ سال ادب سیکھنے میں گزارے اور صرف دو سال میں نے صرف علم سیکھنے پر صرف کیے۔ جب مجھے سمجھ آگئی اور شعور نصیب ہوا تو میں بڑا پچھتایا اور اپنے آپ سے کہا کہ اے عبدالرحمن کاش وہ دو سال بھی ادب سیکھنے میں لگادیتے تو کچھ اور مل جاتا۔

7۔ امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں نے علم کے لیے قدم رکھا اور گھر سے باہر جانا شروع ہوا تو میری والدہ نے مجھے کہا کہ اے مالک!

اذهب الی ربیعة متعلماً من ادبه قبل علماً.

(ابن فرحون المالکی، الدیباج المذهب، ص: 20)

اے مالک بن انس رضی اللہ عنہ تجھے نصیحت کرتی ہوں کہ جاؤ پہلے حضرت ربیعہ کی صحبت اختیار کرو اور علم سیکھنے سے پہلے ان سے کچھ اچھے آداب، رویے اور احسن مزاج سیکھ کر اپنی زندگی کا زیور بنالو۔

8۔ امام ابن وھب فرماتے ہیں:

ما تعلمنا من ادب مالک اکثر ما تعلمنا من العلم.

(الذهبی، سیراعلام النبلاء، ج: 8، ص: 113)

ہم نے امام مالک کی صحبت میں ان کے علم سے زیادہ ان کے ادب سے سیکھا۔

9۔ ابن جماعۃ فرماتے ہیں کہ اسلاف میں سے ایک بزرگ نے اپنے بیٹے کو تعلیم دینے کے لیے بھیجا اور کہا:

یا بنی لان تعلم بابا من الادب احب الی من ان تتعلم سبعین بابا من العلم.

(ابن جماعة، تذکرة السامع والمتکلم۔۔۔۔، ص: 32)

اے میرے بیٹے سن لو! میں تجھے کس مقصد کے لیے بھیج رہا ہوں۔ ادب کا صرف ایک باب سیکھ لینا علم کے ستر باب سے زیادہ فضیلت والا اور میرے ہاں محبوب تر ہے۔

10۔ امام حبیب ابن البصری فرماتے ہیں:

یابنی اذهب الفقهاء والعلماء وتعلم منهم وخذ من ادبهم فان ذالک احب الی من کثیر من الحدیث.

اے میرے بیٹے! فقہاء اور علماء کے پاس جاؤ اور ان سے علم سیکھو اور ان کا دامن تھام کر ان سے ادب سیکھو۔ یہ عمل مجھے احادیث کا ذخیرہ جمع کرنے سے زیادہ محبوب تر ہے۔

11۔ امام عبداللہ ابن مبارک فرماتے ہیں:

کاد الادب ان یکون ثلث الدین.

(ابن الجوزی، صفة الصفوة، ج: 2، ص: 330)

ادب دین کا دو تہائی حصہ ہے۔

12۔ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:

لاینبل الرجل بنوع من العلم مالم یزین علمه بالادب.

(ابن مفلح المقدسی، الآداب الشریعة ۔۔۔، ج: 3، ص: 523)

اس وقت تک کوئی شخص کسی میدان میں عالم نہیں بن سکتا جب تک وہ اپنے علم کو ادب کی زینت سے مزیّن نہیں کرلیتا۔

معلم، متعلم، علم اور اختلاف کے آداب

کچھ آداب ایسے ہیں جو استاذ کو مزین کرتے ہیں، انہیں آداب المعلم کہتے ہیں۔ کچھ آداب ایسے ہیں جو متعلم کو مزین کرتے ہیں، انہیں آداب المتعلم کہتے ہیں۔ کچھ آداب ایسے ہیں جو علم کو چار چاند لگادیتے ہیں، انہیں آداب العلم کہتے ہیں اور کچھآداب ایسے ہیں جو بحث و مباحثہ کی نشستوں کو خوبصورت بنادیتے ہیں، انہیں ادب الاختلاف کہتے ہیں۔

1۔ اوصاف و آدابِ معلم

اوصاف معلم کے باب میں امام ابن الحاج، امام قرطبی کا ایک بیان نقل کرتے ہیں کہ اے استاذ اگر تم درحقیقت اپنے میدان میں کچھ ایسا کرکے جانا چاہتے ہو جو طلبہ کے لیے رول ماڈل بن جائے تو درج ذیل بارہ نکات سیکھ لو:

1۔ سب سے پہلے عالم کے لیے یہ ضروری اور ناگزیر ہے کہ وہ شبہات اور تشکیک کے راستوں سے محفوظ رہے اور احکام شریعت کے حوالے سے وہ ان طرق اور راستوں سے بچے جہاں شبہ، شک اور تشکیک کی گنجائش ہو۔ وہ صرف ان احکام پر عمل کرے جہاں واضحیت ہو اور جو بیّن ہوں۔

(ابن الحاج، المدخل، ج: 1، ص: 67)

2. و یقلل الضحک والکلام بما لافائدة فیه.

وہی معلم کامیاب ہوتا ہے جو زیادہ ہنسنے سے پرہیز کرے اور اس کلام سے پرہیز کرے جس کا کوئی فائدہ نہیں۔ یعنی بے فائدہ کلام پر گفتگو سے اجتناب کرے۔

3. و یأخذ نفسه بالحلم و الوقار.

معلم اپنے لیے حلم اور وقار کا لباس چن لے اور وہی پہنا کرے۔ یعنی پیکرِ حلم اور پیکرِ وقارو متانت بن جائے۔

4. وینبغی له ان یتواضع للفقراء و یجتنب التکبر و الاعجاب.

معلم کو چاہیے کہ فقراء کے لیے تواضع اور انکساری کا پیکربن جائے۔یعنی رحماء بینہم کی عملی تفسیر بن جائے، جب کوئی فقیر الی سبیل اللہ مل جائے تو اس کے لیے بچھتا چلا جائے اور تکبر و خود پسندی سے پرہیز کرے۔ اگر کوئی اس کے لیے تعریف کرے تو اسے اپنی ذات کی بجائے اپنے شیخ کی طرف منسوب کرے۔

5. ویتجافی عن الدنیا وابنائها ان خاف علی نفسه الفتنة.

وہی معلم کامیاب ہے جو دنیا پرست لوگوں کی صحبت سے اجتناب کرے۔ اگر اسے خود دنیا کے فتنے میں مبتلا ہونے کا خطرہ لاحق ہو تو پھر یقینا اجتناب کرے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اس کا حل یوں عطا فرمایا کہ اے میرے طلبہ! اگر دنیا میں رہنا چاہتے ہو تو یہ کلیہ ذہن نشین کر لو کہ دنیا میں رہو مگر دنیا کو اپنے اندر نہ آنے دو۔ دنیا پر سوار ہوکر چلو مگر دنیا کو اپنے اوپر سوار مت ہونے دو۔

6. وان لم یخف خالطهم بالظاهر مع سلامة باطنه لیبلغهم احکام ربهم علیهم.

معلم کو اگر دنیاداری ومافیھا کا حصہ بننے اور دنیا میں دھنسنے کا خطرہ نہ ہو تو ظاہراً دنیا والوں سے میل جول رکھے مگر اپنے باطن کو دنیاداری سے بچاکے رکھے تاکہ احکامِ شریعت بھی دنیا دار اور دنیا والوں تک پہنچا سکے۔

7. وینبغی له ان یکون ممن یؤمن شره ویرجی خیره ویسلم من ضره.

معلم کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسی شخصیت کا مالک بن جائے کہ لوگ اس کے شر سے محفوظ ہوجائیں اور ہمیشہ اس سے خیر خواہی کی ہی امید رکھی جائے اور اس کی ایذاء رسانی سے لوگ محفوط ہوجائیں۔

8۔ معلم وہی ہے جو اپنی مجلس کو چغل خوروں سے محفوظ رکھے۔ یعنی کوئی شخص اس کی مجلس میں کسی کی چغلی کے لیے آئے تو وہ اسے مجلس سے پیار سے دور کردے۔

9۔ معلم ایسے لوگوں کی صحبت میں جائے جو ہمیشہ اس کی خیر خواہی کا سبب بنیں۔۔۔ خیر اور سچائی کا راستہ دکھانے کی طرف اس کی رہنمائی کرنے میں مددگار ہوں۔۔۔ اس کو برے اخلاق سے بچا رہے ہوں اور اچھے اخلاق اس کی شخصیت میں منتقل کرنے میں مددگارہوں۔

10. وینبغی ان یکون خائفا علی نفسه من التقصیر.

معلم وہی ہے جو ہر وقت اپنی ذات سے کسی قسم کی کوتاہی ہوجانے پر خائف رہے اور ہر وقت یہ سوچتا رہے کہ کہیں میری پکڑ نہ ہوجائے، کہیں کسی عمل میں مجھ سے کمی نہ رہ جائے۔

11. مستعدا علی نفسه فی التبلیغ.

اگر تبلیغ کی بات ہو تومعلم اپنی ذات سے آغاز کرے اور اپنی ذات کو ہر طرح کی تبلیغ ، تعلیم، تدریس، بھلائی اور رشد و ہدایت کے لیے مستعد اور حاضر پائے۔

12. یری نفسه انها لیست اهلا لذلک.

(القرطبی، الجامع الاحکام القرآن، ج: 1، ص: 21)

معلم کو جب کوئی منصب دے دیا جائے، کسی مسند پر بٹھا دیا جائے تو ہمیشہ یہ سوچے کہ یہ تو اس کا کرم ہے کہ مجھے یہاں بٹھادیا میں تو اس قابل نہ تھا۔ جب اسے کوئی انعام دے دیا جائے، کچھ اکرام کردیا جائے، اسے نواز دیا جائے، کچھ عطا کردیا جائے، اس کو فقیہ یا خطیبِ اعظم کا کوئی Title دے دیا جائے تو وہ ایاز کی طرح صندوق کھول کر بیٹھ جائے اور کہے کہ یہ تو محمودکا کرم ہے کہ آج میں ایاز اس کے ساتھ ہوں۔ لہٰذا معلم اور شیخ وہی ہے جو محمود ہو اور متعلم وہی ہے جو ایاز ہو۔

مذکورہ اوصاف اور آداب معلم کے لیے ضروری ہیں کیونکہ شاگرد اپنے شیخ، مربی اور استاد کا آئینہ ہوتا ہے اور شیخ، معلم اور مربی پیکر اگر ان خوبصورتیوں سے مزیّن ہوگیا اور اس کے اندر یہ حسن پیدا ہوگیا تویہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ان اوصاف کو اپنے شاگردوں میں منتقل نہیں کرے گا۔

2۔ علم، ذات اور نفس کے آداب

1۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ میری ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے اور جب بھی میرا علم منتقل ہوتا تھا تو میں یہی سوچتا تھا:

علم مجھ سے منتقل ہوجائے مگر کوئی ایک شخص بھی اس علم کو میری ذات سے منسوب نہ کرے۔ کوئی ایک حرف بھی مجھ سے منسوب نہ ہو مگر علم پھیلتا چلا جائے۔

(ابو نعیم، حلیة الاولیاء، ج: 9، ص: 118)

پس جب عالم اس مقام پر فائز ہوجائے تووہ عالم نہیں رہتا بلکہ عارف ہوجاتا ہے۔

2۔ سیدنا غوث الاعظمؓ فرماتے ہیں:

کن مع الحق بلاخلق و مع الخلق بلانفس.

(مدارج السالکین، ج: 2، ص: 326)

اے بندے جب اللہ سے اپنا رابطہ قائم کرو تو ایسے ہوجاؤ جیسے درمیان میں خلق ہے ہی نہیں اور جب اللہ کی مخلوق سے رابطہ قائم کرو تو ایسے ہوجاؤ جیسے درمیان میں نفس ہے ہی نہیں۔

پھر فرمایا:

یا قوم أریدوا بعلمکم اللہ.

(الفقیه و المتفقه، ج: 2، ص: 69)

اپنے علم کے ذریعے سے خدا کو پالینے کا ارادہ کیا کرو۔

پھر فرماتے ہیں: میں جب بھی کسی مجلس میں تواضع اور انکساری کی نیت سے بیٹھا تو اٹھنے سے پہلے پوری مجلس پر فائق ہوچکا ہوتا اور جب بھی کسی مجلس میں فوقیت کی نیت سے بیٹھا تو اٹھنے سے پہلے میں رسوا ہوچکا ہوتا۔

3۔ امام اعظم ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں:

من طلب الریاسة فی غیر حینه لم یزل فی ذل مابقی.

(الانتقاء، ج: 1، ص: 162)

جو شخص وقت سے پہلے منصب کی تلاش میں لگ جاتا ہے وہ ساری زندگی ذلیل و رسوا ہوتا رہتا ہے۔ یعنی اگر کوئی ایسا پھل کھا لے جو ابھی پکا نہ ہو تو وہ ہمیشہ بیمار ہی رہتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی ایسا منصب مانگ لے جس کے ابھی اہل نہ ہو تو منصب ملنے کے باوجود وہ ہمیشہ رسوا ہی رہے گا۔

3۔ مناظرے کے آداب

1۔ امام شافعی فرماتے ہیں:

ما ناظرت احدا قط علی الغلبه و ددت اذا ناظرت احدا ان یظهر الله الحق علی یدیه.

(النووی، تهذیب الاسماء، ج: 1، ص: 74)

اپنے مدمقابل عالم کو پچھاڑنے کی غرض سے مناظرہ نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی ہار جیت پر شور و غوغا کرتے ہیں۔پھر فرماتے ہیں کہ میں نے جب بھی کسی سے مناظرہ کیا تو خواہش یہ رہی کہ وہ جیت جائے اور میں ہار جاؤں۔

جب کوئی عالم یہ ارادہ کرلے تو پھر وہ عام عالم نہیں رہتا بلکہ وہ ان ائمہ کے آداب سے مزین بھی ہوتا ہے اور ان کی بارگاہ کی خیرات کو اپنے اندر پاتا بھی ہے اور امت میں تقسیم بھی کرتا ہے۔

4۔ اختلافِ رائے کا ادب

ضروری نہیں کہ اختلافِ رائے علماء، فقہاء، محدثین، باحثین اور محققین کی زندگی کا حصہ نہ ہو بلکہ اختلاف رائے ہر میدان سے تعلق رکھنے والے شخص کا حق ہوتا ہے مگر اس اختلاف کو خوبصورتی کے ساتھ انجام تک پہنچانا اور کنارے لگانا ہی اد ب الاختلاف کہلاتا ہے۔آقا علیہ السلام نے فرمایا:

الاختلاف فی امتی رحمة.

(الجصاص، احکام القرآن، ج: 2، ص: 314)

میری امت میں جو اختلاف ہے وہ درحقیقت رحمت و وسعت کا باعث ہے۔

لازم ہے کہ اس خوبصورت انداز سے اختلاف کیا جائے کہ کسی کو محسوس بھی نہ ہو۔ صحابہ کرام اس خوبصورت انداز سے اختلاف کرتے تھے کہ وہ اتفاق میں بدل جاتا۔ذیل میں اس سلسلہ میں کچھ واقعات بیان کیے جارہے ہیں:

1۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے غزوۂ احزاب کے بعد فرمایا کہ کوئی شخص عصر کی نماز نہ پڑھے مگر بنی قریظہ میں جاکر۔صحابہ کرامؓ بنو قریظہ کی طرف چل پڑے۔راستے میں جب عصر کا وقت ہوا توکچھ صحابہ کرامؓ نے کہا ہم اس وقت تک نماز نہیں پڑھیں گے جب تک بنی قریظہ نہیں پہنچ جاتے۔کچھ صحابہؓ نے وقت پر نماز ادا کرلی اور خودسے استدلال و استنباط بھی کرلیا کہ آقا علیہ السلام نے نماز پڑھنے سے تو منع نہیں فرمایا بلکہ جلد از جلد پہنچنے کی غرض سے یہ فرمایا تھا۔

جب یہ معاملہ حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں پیش کیا گیا تو آپ ﷺ نے کسی ایک فریق کے ساتھ بھی ناراضگی کا اظہار نہیں فرمایا۔ یعنی دونوں کے لیے مشروعیت کا ایک خاموش حکم جاری فرما دیا۔ اب یہاں سے دو مشرب وجود میں آئے:

ایک مشربِ علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ہے جو اپنی نماز کا قضاء ہونا تو قبول کر لیتے ہیں مگر آپ ﷺ کے حکم پر عمل کو ہر صورت ممکن بناتے ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم ﷺ کے آرام کو مقدم جانا اور عصر کی نماز تو قضاء کروانا پسند کر لی مگر آپ ﷺ کی نیند میں خلل ڈالنا گوارا نہ کیا۔

دوسرا مشرب وہ ہے جو اپنے استدلال و استنباط پر عمل کرتے ہوئے حکم کی روح اور اصل کو پیش نظر رکھتے ہیں۔

آقا علیہ السلام نے جب دونوں کو اجازت دے دی تو ایک گروہ ظاہر النص پر عمل کرکے درست ہوگیا اور دوسرا گروہ اشارۃ النص پر عمل کرکے درست ہوگیا۔ پتہ چلا کہ یہ اختلاف تھا مگر اس اختلاف نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جدا نہیں کیا بلکہ یکجان اور یک قالب ہی رکھا۔

2۔ علامہ ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں مذاہب اربعہ کو ہمیشہ سے ایک سوال کا سامنا رہا کہ کیا ایسے امام کے پیچھے نمازپڑھنا جائز ہے جو کسی دوسرے فقہی مذہب سے تعلق رکھتا ہو؟ پھر آپ اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ جب ہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی حیات طیبہ کو دیکھتے ہیں اور پھر تابعین، اتباع التابعین، تبع اتباع التابعین کے ادوار کو دیکھتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ کوئی بسم اللہ الرحمن الرحیم بالجہر پڑھتا ہے اور کوئی بالاخفاء پڑھتا ہے۔۔۔ کوئی آمین بالجہر کہتا ہے اور کوئی آمین بالاخفاء اور بالسر کہتا ہے۔۔۔ کوئی فجر کی نمازمیں قنوت نازلہ پڑھتا ہے اورکوئی نہیں پڑھتا۔۔۔ کوئی اونٹ کا گوشت اور بھنا ہوا گوشت کھانے کے بعد وضو کا اعادہ کرنا ضروری سمجھتا ہے اور کوئی نہیں سمجھتا۔۔۔ کوئی حجامہ یا قے کے بعد وضو کا اعادہ کرنا ضروری سمجھتا ہے اور کوئی نہیں سمجھتا ۔لیکن ان فروعی مسائل میں اختلاف رائے رکھتے ہوئے بھی وہ ایک دوسرے کے پیچھے نمازیں پڑھتے رہے اور ایک دوسرے سے جدا نہ ہوئے۔

علامہ ابن تیمیہ، امام احمد بن حنبل کاایک واقعہ نقل کرتے ہیں کہ ایک روز امام احمد بن حنبل سے پوچھا گیا کہ حضرت حجامہ کرانے کے بعد اور حجامہ کے ذریعے خون نکلنے کے بعد آپ کا فتویٰ یہ ہے کہ وضو کا اعادہ ضروری ہے۔ اب سوال یہ ہے آپ امام مالک کی بارگاہ میں ہوں یا سعید بن مسیب کی بارگاہ میں ہوں جن کا قول یہ ہے کہ وہ اس صورت میں وضو کے اعادہ کے قائل نہیں توکیا آپ ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے؟

امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا کہ فتویٰ اپنی جگہ مگر احمد بن حنبل اگر امام دارالہجرۃ کے پاس ہو تو وہ ان کی اقتداء میں نمازنہ پڑھنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔

3۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، حجۃ اللہ البالغہ میں نقل کرتے ہیں کہ امام شافعی، امام اعظم کے مزار شریف پر حاضری کے لیے گئے اور وہاں فجر کا وقت ہوگیا۔ آپ نے جب فجر کی نماز پڑھی تو اس میں قنوت نازلہ نہ پڑھی۔ جب آپ کے شاگرد نے دیکھا کہ امام شافعی نے قنوت نازلہ جسے وہ سنت موکدہ کا درجہ دیتے ہیں، نہیں پڑھی تو شاگرد نے پوچھا: حضرت آج آپ نے سنت موکدہ چھوڑ دی، اس کا سبب کیا ہے؟ فرمایا: میں امام اعظم کی زیارت کے لیے آؤں اور پھر ان کی مخالفت کرتا پھروں، یہ حسنِ ادب کے خلاف ہے۔

(شاہ ولی اللہ، حجۃ اللہ البالغه، ج: 1، ص: 335)

4۔ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد میں نقل کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن مبارکؒ فرماتے ہیں کہ میں امام اوزاعی کی بارگاہ میں ملک شام میں حاضر ہوا۔ جب ان سے ملاقات ہوئی تو وہ مجھے کہتے ہیں: اے خراسانی یہ کون سا بدعتی ہے جس کا ظہور کوفہ میں ہوا ہے اور اس کی کنیت ابوحنیفہ ہے۔ میںیہ سن کر خاموش ہوگیا۔ جب میں واپس گھر لوٹا تو امام اعظم کی ساری کتابیں نکال لیں اور ان کو کھنگالا۔ دو دن عرق ریزی کے بعد تیسرے دن آپ کی ایک کتاب اٹھا کر امام اوزاعی کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔ اس کتاب پر نعمان بن ثابت لکھا ہوا تھا۔ جیسے ہی امام اوزاعی کی کتاب پر نظر پڑی تو مجھے فرمانے لگے کہ اے خراسانی یہ کس کی کتاب ہے؟ میں نے کتاب پیش کردی اور آپ نے اس کتاب کو پڑھنا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ اس کا ابتدائی حصہ مکمل پڑھ لیا۔ اتنے میں نماز کا وقت بھی ہوگیا، آپ نے جماعت کروائی۔ نماز پڑھنے کے بعد پھر کتاب کو اٹھایا اور مکمل پڑھ ڈالا۔ پھر کہنے لگے: اے عبداللہ ابن مبارکؒ! میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ یہ بہت بڑے فقیہ کی کتاب ہے، جو علم کا سمندر ہے، اس کتاب سے استفادہ کیا کرو۔

امام عبداللہ ابن مبارک کہتے ہیں کہ جب میںنے امام اوزاعی کے یہ کلمات سنے تو مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے کہا: حضرت یہ وہی کوفی ہیں جن کے لیے آپ منع کررہے ہیں۔ یہ سن کر آپ خاموش ہوگئے۔

حضرت عبداللہ ابن مبارک فرماتے ہیں کہ پھر میں مکہ چلا گیا اور ایک روز امام اوزاعی کے ساتھ امام اعظم کو کسی مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے سنا، بحث بڑھتی چلی گئی اور امام اعظم دلائل کا سمندر بہاتے چلے گئے۔ جب نشست برخاست ہوئی تو اس کے بعد امام اوزاعی اور امام اعظم جدا ہوگئے۔ میں امام اوزاعی کے پاس چلا گیا اور ان کا دامن تھام کر کہا کہ حضرت اب اس نعمان بن ثابتؓ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ فرماتے ہیں: خدا کی عزت کی قسم! میں نے ابوحنیفہ کو علم کا سمندر اور عقل میں بے مثال و بے نظیر، صاحب وفور عقل اور کثرت علم پایا ہے کہ جیسے جیسے میں نے ان کا علم بہتے ہوئے دیکھ رہا تھا مجھے تو ان پر رشک آرہا تھا۔ فرماتے ہیں کہ میں اللہ سے مغفرت کرتا ہوں کہ میں خطا پر تھا اور یہ درست تھے۔ جب میں حقیقت میں ان سے ملا تو انہیں ان معلومات سے مختلف پایاجو مجھ تک پہنچتی رہیں۔ عبداللہ ابن مبارک! میں تجھے نصیحت اور وصیت کرتا ہوں کہ ساری زندگی جب تک یہ حیات ہیں، ان کے دامن سے وابستہ رہنا اور ان سے استفادہ کرتے رہنا۔

(الخطیب البغدادی، تاریخ بغداد، ج: 13، ص: 338)

اس سے اخذ یہ ہوا کہ بڑی ہستیوں کے بڑے ظرف ہوتے ہیں۔ سلف صالحین علم کی بنیاد پر اختلاف کرتے تھے اور دلیل کی بنیاد پر اتفاق کرتے تھے۔

5۔ ابو نعیم حلیۃ الاولیاء میں فرماتے ہیں کہ ایک روز خلیفہ ہارون الرشید، سیدنا امام مالک بن انسؓ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور ان سے سوال کیا: اگر آپ اجازت دیں تو آپ کی کتاب کعبۃ اللہ سے لٹکادوں تاکہ شرق تا غرب جو زائرین آئیں، وہ اسے دیکھیں، اسے پڑھیں اور اس کے احکامات پر عمل کریں۔ دوسرے لفظوں میں مقصود یہ تھا کہ اس کتاب کے ذریعے میں سب کو فقہ مالکیہ کا ماننے والا بنادوں۔ اب کوئی اور ہوتا تو کہتا کہ اس سے زیادہ اور کیا کرم ہوسکتا ہے مگر امام مالک نے فرمایا: میں اپنی کتاب’’ مؤطا‘‘ کو کعبۃ اللہ کے ساتھ آویزاں کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دوں گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آقا علیہ السلام کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین دونوں مشرب کے حاملین تھے اور اختلاف رائے کو حسن سمجھتے تھے۔ ان کے پیروکار شرق تا غرب پھیل گئے ہیں، اب یہ ممکن نہیں کہ کسی ایک کتاب پر اتفاق ہوسکے۔ لہذا میں حضور ﷺ کی امت کو اختلاف رائے کے حسن سے محروم نہیں کرسکتا۔

6۔ امام احمد بن حنبل کا شمار امام شافعی کے تلامذہ میں ہوتاہے مگر اس کے باوجود امام احمد بن حنبل نے الگ سے فقہ حنبلی کی بنیاد رکھی اور اپنے استاد امام شافعی کی فقہ شافعی سے کئی امور میں اختلاف کیا۔ ایک مرتبہ امام احمد بن حنبل کے صاحبزادے آپ سے پوچھتے ہیں کہ بابا جان! یہ امام شافعی کون ہیں؟ آپ نے وضاحت پوچھی کہ کیوں پوچھتے ہو؟ کہا: اس لیے پوچھتا ہوں کہ آپ دن رات اپنے سجدوں میں گڑ گڑا کر ان کے لیے دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ فرمایا: بیٹے امام شافعی دنیا کے لیے سورج اور لوگوں کے لیے عافیت اور سکون ہیں۔ نہ سورج کا کوئی بدل ہوسکتا ہے اور نہ عافیت و سکون کا کوئی بدل ہوسکتا ہے۔ سمجھ لو کہ اس دور میں امام شافعی کا کوئی بدل ہی نہیں۔

7۔ امام احمد بن حنبل کے صاحبزادے صالح بن احمد بیان کرتے ہیں کہ ایک روز امام یحییٰ بن معین نے مجھ سے کہا کہ اے بیٹے! یہ تمہارے والد صاحب کو کیا ہوا ہے کہ جو کچھ وہ کرتے پھرتے ہیں اس پر انہیں کوئی خیال نہیں آتا۔ بیٹے نے کہا کہ حضرت! میرے والد صاحب نے ایسا کیا کیا ہے؟ فرمایا: میں نے ابھی دیکھا ہے کہ گھوڑے پر امام شافعی سوار ہیں اور آپ کے والد جو امام ہیں ، وہ ننگے پاؤں گھوڑے کے ساتھ ساتھ چلتے جارہے ہیں اور گھوڑے کی رکابیں بھی تھام رکھی ہیں۔ جب آپ کے صاحبزادے نے یحییٰ بن معین کی باتیں اپنے والد گرامی سے بیان کیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بیٹے جب وہ دوبارہ ملیں تو انہیں میرا یہ پیغام دینا اور کہنا:

ان اردت ان تتفقه فتعال فخذ برکابه الآخر.

(ابن عبدالبر، الانتقاء، ج: 1، ص: 75)

اے یحییٰ بن معین اگر تم اس وقت کے فقیہ بننا چاہتے ہو تو گھوڑے کی دوسری رکاب خالی ہے، آکر اسے پکڑلو۔

8۔ اسحاق بن راہویہ بیان کرتے ہیں کہ میں مکہ مکرمہ میں گیا اور احمد بن حنبل کا اپنے شیخ کی بارگاہ میں ادب کا یہ عالم دیکھا کہ مجھے پکڑ کرکہتے ہیں: آؤ! تمہیں ایک ایسا شخص دکھاتا ہوں جس جیسا حسین تیری آنکھ نے آج تک نہ دیکھا ہوگا۔ لہذا مجھے پکڑ کرلے حرم میں لے گئے اور اشارہ کیا کہ وہ دیکھو۔ میں نے دیکھا کہ سامنے امام شافعی طواف کر رہے تھے۔

9۔ امام شافعی ، امام احمد بن حنبل کے استاذ ہیں لیکن اگر احادیث روایت کرتے ہوئے امام احمد بن حنبل کا نام بطور راوی آ جاتا تو تو ان کے احترام میں ان کا نام نہیں لیتے تھے بلکہ کہتے کہ کسی بہت بڑے ثقہ راوی نے مجھے یہ خبر دی اور پھر دہراتے کہ ان سے بڑا کوئی ثقہ راوی نہیں۔

10۔ عبداللہ بن عبدالعظیم عنبری بیان کرتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل، امام علی بن المدینی کے ساتھ ایک نشست میں موجود تھے اور ان کے درمیان دخولِ جنت کی گواہی دینے پر مناظرہ ہورہا تھا۔ کہتے ہیں کہ وہ تکرار اتنا طوالت اختیار کرگیا کہ اسی دوران ان کی آواز اونچی ہوگئی۔ مجھے خطرہ لاحق ہوا کہ کہیںیہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوجائیں۔ مگر اس کے برعکس بڑی خوبصورتی سے وہ مناظرہ ختم ہوگیا۔ بعد ازاں امام احمد بن حنبل کھڑے ہوئے اور امام علی بن المدینی کی سواری لے آئے اور ان کی رکابیں خود پکڑ کر بڑے احترام کے ساتھ انہیں سوار کروایا۔

گویا آپ نے اپنے اس عمل سے یہ پیغام دیا کہ اختلاف اپنی جگہ ہے مگر احترام اپنی جگہ ہے۔

11۔ امام یونس صدفی بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام شافعی سے بڑھ کر اپنے وقت کا عاقل، ذہین اور فطین کوئی شخص نہیں دیکھا۔ ایک روز میرے اور ان کے درمیان ایک بحث چھڑگئی اور اختلاف رائے قائم ہوگیا۔ اس کے بعد ہم جدا ہوگئے۔ پھر ایک عرصے کے بعد امام شافعی مجھے ملے اور میرا ہاتھ تھام لیا اور کہنے لگے: اباموسیٰ! اختلاف اپنی جگہ، دلیل تمہیں پسند نہیں آئی یا مجھے پسند نہیں آئی اختلاف ہوگیا کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم بھائی بھائی ہوکر رہیں اور اختلاف اپنی جگہ رہے۔

خلاصۂ کلام

قارئین! یہ وہ حسنِ اختلاف کا رویہ، مزاج اور وسعتِ قلبی کا مظاہرہ تھا جس کی وجہ سے سلف صالحین تاقیامت امت کے لیے علم کے دروازے کھول گئے۔ یہی وجہ ہے کہ کہیں پر استدلال کی بنیاد پر اختلاف ہے اور کہیں استنباط کی بنا پر اختلاف ہے، کہیں پر تفردات کی بنا پر اختلاف ہے توکہیں تشریحات و توضیحات کی بنیاد پر اختلاف ہے مگر اہلِ علم وہ تھے جو اختلاف کو امت کے لیے رحمت سمجھا کرتے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ ان کا علم آج تک ختم نہیں ہوسکا بلکہ سمندر کی طرح بہہ رہا ہے۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ جدل و جدال، بحث و مباحثے اور مناظرے کی صورت میں طعن و تشنیع اور تکفیری رویہ چھوڑ کر حسنِ اختلاف رائے کی روش اپنائی جائے جو سلف صالحین کی روش تھی۔ آج ہمیں ان ائمہ کی سنت پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ علم کی عظمت و رفعت اسی میں ہے کہ غلطی پر ہوں تو غلطی کا اعتراف کرکے صحیح رائے کو تھام لیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ سے لے کر صحابہ، تابعین، تبع تابعین، اتباع التابعین، اولیاء و صوفیاء اور ہر دور کے علماء ربانیین اور مصلحین کی سنت ہی یہی ہے کہ اختلاف برائے اختلاف نہیں بلکہ اختلاف برائے اتفاق امت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہستیاں روشن چراغ ہوگئیں اور آج ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔

یہ جملہ ائمہ اپنے اپنے مذاہب کے امام بھی ہیں، ان کے درمیان استاذ اور شاگرد کے رشتے بھی ہیں مگر احترام انسانیت، احترام آدمیت اور علم کو کبھی نہیں بھولے۔آج ہم اختلاف کرتے ہیں مگر افسوس اس اختلاف کو ذاتی مخالفت کا رنگ دے کر دل میں کینہ اور بغض پالتے رہتے ہیں۔ ہمیں آج ان ائمہ کرام کے مشرب کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ اگر ان ائمہ کے طریق کو اپنالیا تو یہ امت پیکر رحمت ہوجائے گی اور ان کا باہمی اختلاف بھی باعث رحمت ہوگا۔ لہذا حسنِ اختلاف و ادبِ اختلاف سے اپنی زندگیوں کو مزین کریں۔ اختلاف کے نتیجے میں اس قدر فاصلے نہ بڑھائیں کہ بعد میں ایک دوسرے سے مل بھی نہ سکیں اور نہ ہی ایک دوسرے کا سامنا کرنے کی ہمت ہوسکے۔ اگر دلیل مل جائے تو پھر متفق ہوجایا کریں۔اللہ تعالیٰ ہمارے علم و عمل میں اضافہ فرمائے اور اسلام کی حقیقی تعلیمات سے اپنے ظاہر وباطن کو منور فرمائے۔ اٰمین بجاہ سید المرسلین ﷺ