انسانی اخلاق کی اصلاح کا لائحہ عمل

ڈاکٹر نعیم انور نعمانی

ارشاد باری تعالی ہے:

وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ.

(القلم، 68: 4)

’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)۔‘‘

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کریمانہ کیا تھے؟ آپ نے جواب دیا:

کانخلقه القرآن.

(مسند احمد، حدیث نمبر: 11171)

’’آپ کے خلق وہی ہیں جو قرآن میں ہیں۔‘‘

یعنی آپ ﷺ کے ہر ہر خلق پر خلق قرآنی کا رنگ چڑھ گیا تھا اور ہر خلقِ رسول؛خلقِ قرآنی اور خلقِ الہٰی سے متصف ہوگیا تھا۔ گویا ہر خلق ِقرآنی کا مصداق اتم آپ ﷺ کی ذات ِاقدس بن چکی تھی۔مذکورہ آیت مبارکہ میں باری تعالیٰ نے آپ ﷺ کے اخلاق کے بارے میں اس امر کا اعلان فرمایا کہ آپ ﷺ خلقِ عظیم صرف رکھتے ہی نہیں بلکہ آپ خلق عظیم پر قائم ہیں۔۔۔ آپ ﷺ خلقِ عظیم کے مالک ہیں۔۔۔ ہر خلقِ عظیم کا ظہور اور صدور آپ ﷺ کی ذات ِاقدس سے ہورہا ہے۔۔۔ آپ ﷺ خلقِ عظیم کا منبع و سرچشمہ اورمصدرِ اعظم ہیں۔۔۔ اور آپ ﷺ ہر انسانی خلق میں عروج و کمال پر پہنچ چکے ہیں۔ اسی لیے ساری انسانیت آپ ﷺ کے خلق و خصائل کی پیروکار ہے۔۔۔ آپ ﷺ کا اخلاق دوسروں کے لیے اسوہ و نمونہ ہے۔۔۔ آپ کی ذات دوسروں کے لیے باعث ِخیر اور باعثِ ہدایت بن چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانوں کی کامیابی و نجات آپ ﷺ کی سیرت اقدس میں ہے۔ اسی سیرت کی پیروی کا حکم دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰه اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ.

(الاحزاب، 33: 21)

’’فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اللہ ( ﷺ کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂ (حیات) ہے۔‘‘

اخلاقیات اور اخلاق کا مفہوم

اخلاقیات کو انگریزی زبان میں Ethics کہتے ہیں، جس کا مطلب ہے: ایک گروہ کے وہ قواعدِ حیات اور رسوم ِزندگی جو اسے دوسرے گروہ سے ممتاز اور منفرد کرتے ہیں۔ اخلاقیات وہ علم ہے جو انسان پر بھلائی اور برائی کی حقیقت کو واضح کردے۔ جو انسان کو یہ بات سکھادے کہ دوسروں کے ساتھ کس طرح کا حسنِ معاملہ اختیار کیا جائے۔۔۔؟ اپنی زندگی کے اعمال میں کس چیز کو مطمعِ نظر اور اپنا مقصدِ حیات سمجھا جائے۔۔۔؟ اخلاقیات کا علم انسان کو مفید اور کار آمد باتوں کی طرف راہنمائی کرتے ہیں اور انسان کو زندگی میں فضائلِ اعمال اور رزائل ِاعمال کی خبر دیتے ہیں کہ انسان کس طرح خود کو خصائلِ اخلاق سے آراستہ کرے اور کس طرح خود کو رزائلِ اخلاق سے محفوظ کرے۔

  • اخلاق؛ خلق کی جمع ہے، جس کا معنی، عادت، خصلت، خوئے طبعی اور مروت ہے۔یعنی انسان میں اچھی عادات، عمدہ خصائل، خوش طبعی، ملنساری اور بشاشت کے وصف کا پایا جانا اخلاق ہے۔ اگر یہ علامات کسی بندے میں پائی جائیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اخلاقِ حسنہ کا مالک ہے۔

اخلاق؛ ہیئت راسخہ کا نام ہے

علم الاخلاق کے امام، علامہ جلال الدین دوانی خُلق کی تعریف کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں:

خلق؛ نفس کے اس ملکہ کا نام ہے جو اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ کوئی بھی فعل نفس سے بغیر کسی تامل اور تفکر کے صادر ہونے لگے۔ خلق؛ انسان کے اندر ایک ملکہ اور ایک کیفیتِ راسخہ بن جاتا ہے جو انسان کے اندر قائم و دائم ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے انسان سے اچھے اعمال صادر ہونے لگتے ہیں۔

  • امام غزالی اپنی کتاب احیاء العلوم میں خُلق کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

خلق؛ انسانی نفس کی اس ہیئت راسخہ کا نام ہے جس کی وجہ سے اس سے تمام افعال بلا تکلف اور بلاغوروفکر صادر ہوں۔ اگر انسان کے اندرموجود یہ کیفیت مستقلاً ہو کہ اس سے ایسے افعال سرزد ہوں جو عقلاً اور شرعاً قابل ِتعریف ہوں تو ایسی ہیئت اور حالت ِنفس کو خلقِ حسن کہتے ہیں اور اگر اس سے ایسے اعمال صادر ہوں جو عقلاً اور شرعاً قابل ِمذمت ہوں تو انسان کی ایسی حالت کو خلقِ بد اور خلقِ سیئہ کہتے ہیں۔

ان تعریفات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انسان کے خلق میں دو صفات پائی جانا ضروری ہیں:

1۔ خلق کو ہیئت راسخہ کی صفت حاصل ہو

2۔خلق؛ انسان سے بلاتکلف اور بلاتامل صادر ہوں

1۔ خلق کی پہلی صفت یہ ہے کہ اسے انسان میں ہیئت راسخہ اور کیفیتِ راسخہ حاصل ہو۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اتفاقاً یا کسی خاص ضرورت کے پیش نظر دوسرے انسان پر مال خرچ کرتا ہے تو اس کو ہم سخی اور فیاض نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس کی طبیعت میں فیاضی اور سخاوت کا ملکہ اور ہیئت ِراسخہ موجود نہیں ہے۔ یہ کام اس نے اپنی مستقل عادت اور طبیعت کے ساتھ نہیں کیا۔ ایک ضرورت پڑی اور ایک اتفاقی معاملہ پیش آیا تو وہ یہ کام کر گزرا، اس لیے کہ خلق؛ انسان کی ایک مستقل حالت کا نام ہے۔ یہ انسان کے اندر کسی عارضی اور ہنگامی حالت کا نام نہیں ہے۔ مزید یہ کہ انسان کے اندر خلق کسی خارجی دباؤ کی وجہ سے ظاہرنہیں ہوتا۔

2۔ خلق کا دوسرا وصف یہ ہے کہ انسان کے اخلاق، طبیعت، وجود اور اس کی شخصیت سے اخلاق بغیر کسی تکلف و تصنع اور بغیر کسی غوروفکر کے صادر ہوئے ہوں۔ جو شخص اپنی طبیعت پر صبر کرکے دوسروں پر مال خرچ کرتا ہے تو اسے ہم فیاض نہیں کہہ سکتے یا حالتِ غصہ میں کسی کے مجبور کرنے پر یا خود مجبور ہوکر خود پر قابو پالیتا ہے تو ایسے شخص کو ہم بردبار نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ دونوں کام اس نے بلاتکلف نہیں کیے بلکہ یہ مجبوراً کیے ہیں۔

کیا اخلاق میں تبدیلی ممکن ہے؟

اخلاق میں تبدیلی ممکن ہے یا نہیں؟ اس حوالے سے امام غزالیؒ اپنی کتاب احیاء العلوم میں فرماتے ہیں:

اچھی تعلیم و تربیت کے ذریعے انسان کے اخلاق کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اچھی تعلیم و تربیت کے ذریعے انسان تو انسان، ایک جانور کو بھی سکھایا جاسکتا ہے اور اس کے اخلاق کو بدلا جاسکتا ہے۔ سرکش گھوڑے کو فرمانبردار بنایا جاسکتا ہے، کتے اور دوسرے جانوروں اور پرندوں کے اخلاق کو بھی بدلا جاسکتا ہے۔ انسانوں کو اپنے اخلاق کو بدلنے کے صلہ کے طور پر کیا انعام ملتا ہے ؟آپ ﷺ نے اس کی طرف یوں اشارہ فرمایا:

ان من احبکم الی احسنکم اخلاقا.

(مشکوة المصابیح، 3: 5074)

’’تم میں مجھے سب سے زیادہ محبوب وہ شخص ہے جو تم میں اخلاق میں سبے سے زیادہ اچھا ہے۔‘‘

امام غزالی مزید فرماتے ہیں کہ اللہ نے دو طرح کی مخلوق پیدا کی ہے۔ ایک مخلوق وہ ہے جسے باری تعالیٰ نے کامل طور پر پیدا کیا ہے اور ان میں ہماری قوت و اختیار کا کوئی دخل نہیں ہے۔ مثلاً: آسمان و زمین، آفتاب و ماہتاب اور انسان و حیوان۔ اس مخلوق کے داخلی اور خارجی اعضاء اللہ نے جیسے پیدا کئے، یہ اسی طرح اپنی اپنی ہیت پر ہیں۔

دوسری وہ مخلوق و موجودات ہیں جن میں کمال موجود ہے مگر وہ کمال ابھی ان میں ظاہر نہیں ہوا۔ جیسے کسی پھل کا بیج بذاتِ خودپھل نہیں ہوتا لیکن تربیت اور مسلسل توجہ سے اگر اسے نشوونما دی جائے تو وہی بیج کچھ عرصے بعد اسی پھل کے درخت کی صورت اختیار کرسکتا ہے اور وہی بیج کچھ وقت کے بعد ایک مکمل پھل بن سکتا ہے۔ اسی طرح انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے ایک بیج کی مانند ہے۔ اگر صحیح معنوں میں والدین اور اساتذہ اسے تعلیم و تربیت دیں تو ایک عام انسان بھی ایک اعلیٰ انسان کا روپ دھار سکتا ہے۔۔۔ نامکمل سے مکمل ہوسکتا ہے۔۔۔ ادنیٰ سے اعلیٰ ہوسکتا ہے۔۔۔ اور ارذل سے افضل ہوسکتا ہے۔

اس افضلیت، اکملیت اور اشرفیت کے سفر کو طے کرنے کے لیے لازم ہے کہ انسان اپنی طلب میں کمال اور عروج پر ہو۔ کوئی بھی انسان اس وقت ہی عروج و کمال پر پہنچتا ہے جب وہ اپنی طلب میں اپنے کمال پر پہنچ جاتا ہے۔ ہمیں اخلاق حسنہ کو حاصل کرنے کے لیے اپنی طلب کو کمال پر پہنچانا ہے۔ یقیناً اس کا لازمی نتیجہ یہی ہوگا کہ ہمارے وجود میں اخلاق حسنہ کی بہار نظر آئے گی اور ہمارے وجود کی شناخت ایک خلیق، ایک خوش خلق، خوش خصال اور خوش طبع فرد کی ہوگی۔

حسن اخلاق کا حصول کیونکر ممکن ہے؟

اخلاق حسنہ کے حصول کے لیے انسان کو سب سے پہلے اپنی شخصیت کے عیوب اور نقائص سے آگاہ ہونا ہے پھر اس شعبے کے ماہرین اور متخصصین کے ذریعے اس مرض کا علاج کرانا ہے۔ اگر انسان اپنی اصلاح چاہتا ہے تو اسے اپنے اندر مرض اور عیب کے ہونے کا احساس ہونا چاہیے۔ ہر انسان میں کوئی نہ کوئی کمی اور نقص، عیب اور کمزوری موجود ہوتی ہے مگر عیب و نقص کا ہونا از خود اتنی بڑی بیماری نہیں، جتنا اس عیب اور نقص کا احساس نہ ہونا بڑی بیماری ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ ہر انسان اپنے عیوب پر خود نظر کرے یا اس کا کوئی مربی و محسن اسے اس کے عیوب سے آگاہ کرے۔ حضرت عمر فاروق ؓ فرمایا کرتے تھے کہ خدا اس شخص کا بھلا کرے جو مجھے میرے عیوب پر مطلع کرے۔

اپنے عیب سننا بڑے حوصلے کی بات ہے۔ اگر اللہ کسی کو یہ ظرف دے دے تو وہ اپنی اصلاح کرلیتا ہے۔ ہمیں اپنے عیب اپنے دشمنوں سے پتہ چلتے ہیں، اس لیے مخالف و دشمن کا وجود بھی ہمیں کسی نہ کسی طرح کچھ نہ کچھ نفع دے رہا ہوتا ہے۔ دشمن تو دشمنی میں ہمارے عیب بیان کرتا ہے مگر اس کا ہمارے عیب کی نشاندہی کرنا ہماری شخصیت کو کامل بنا سکتا ہے، اگر ہم اس کے ذریعے اپنے عیوب جان کر اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہو جائیں۔

  • امام غزالی نے اخلاق حسنہ کے حصول کے کچھ طریقوں کی طرف راہنمائی فرمائی ہے، جنھیں ذیل میں بیان کیا جا رہا ہے:

1۔ کچھ لوگ پیدائشی طور پر خوش خلق ہوتے ہیں اور ان میں شہوت اور غضب کا غلبہ نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ کوئی رسمی تعلیمی مراحل عبور کیے بغیر عالم اورمودٔب ہوتے ہیں۔

2۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ریاضت و مجاہدہ کے ذریعے اخلاق حسنہ کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً: اگر کوئی شخص فیاض بننا چاہتا ہے تو اسے فیاض و سخی لوگوں کی طرح بے تکلف مال خرچ کرنا چاہیے۔ اس طرح رفتہ رفتہ فیاضی اس کی طبیعت کاحصہ بن جائے گی۔ ۔۔ ایک مغرور و متکبر شخص عاجزی و انکساری اختیار کرنا چاہتا ہے تو اس کو ایک مدت تک خاکساری اور انکساری والی زندگی اختیار کرنی چاہیے۔ اس طرح رفتہ رفتہ خاکساری اس کی طبیعت ثانیہ بن جائے گی اور اس سے ان صفات کا صدور آسانی کے ساتھ ہوگا۔

3۔ ماہرین اخلاق نے اخلاق کو اچھا بنانے کے لیے ایک علاج یہ بھی بتایا ہے کہ جس طرح جسمانی امراض کا علاج ڈاکٹرز اور اطباء اس مرض کے متضاد سے کرتے ہیں، جسے ہم Antibiotic Medicine کہتے ہیں۔ اگر مرض کا سبب حرارت ہے تو اس کا علاج برودت سے کیا جاتا ہے اور اگرمرض کا سبب برودت ہے تو اس کا علاج حرارت سے کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اخلاقی امراض کا علاج بھی اس کے متضاد سے کیا جاتا ہے۔ اگر کسی انسان میں بخل کا مرض ہے تو اس کا علاج فیاضی و سخاوت کے عمل کو قصداً اختیارکرنے سے کیا جائے گا اور اگر کسی انسان میں غرور و تکبر پایا جاتاہے تو اس کا علاج قصداً اور ارادۃ تواضع و انکساری اور عاجزی کو اختیار کرنے سے کیا جائے گا۔

4۔ اخلاق سنوارنے کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ ہم دوسرے لوگوں کے اخلاق اور عادات کو اپنے عیوب جاننے کا آئینہ بنائیں۔ اس لیے کہ لوگوں کے اخلاق و خصائل آپس میں ملتے جلتے ہیں۔ اس بنا پرجو عیب دوسروں میں دکھائی دیں، ان کے بارے میں سوچنا چاہیے کہ کہیں ہمارے اندر بھی تو ایسے عیوب و نقائص نہیں ہیں۔ اس انداز سے بھی انسان اپنے اخلاق کی اصلاح کرسکتا ہے۔

5۔ اخلاق کو درست کرنے کے لیے حکماء اور ائمہ اخلاق یہ بھی تجویز کرتے ہیں کہ نیک لوگوں کے ساتھ دوستی و میل جول رکھا جائے۔ اخیار کی سنگت اختیار کی جائے اور اشرار کی صحبت سے بچا جائے۔ اپنی ساری صلاحیتوں کو افعالِ حسنہ اور اقوالِ حسنہ میں استعمال کیا جائے۔ اپنی قوتِ غضبیہ اور قوتِ شہوانیہ پر کنٹرول رکھا جائے۔ اس کو بلاوجہ بے قابو نہ ہونے دیا جائے۔بات بات پر غصہ نہ کیا جائے، خواہ مخواہ خود کو برانگیختہ نہ کیا جائے۔ کوئی کام اور کوئی کلام خلافِ عقل نہ کیا جائے۔ اگر نفس غلطی کرے تو انسان خود کو معیوب ٹھہرائے۔ ارادتاً گناہوں سے پرہیز کیا جائے۔ صغیرہ اورکبیرہ گناہوں کو چھوڑا جائے۔ اپنے عیوب پر جب انسان مطلع ہوجائے تو پھر ان عیوب سے نفس کو پاک کرنے کے لیے تزکیہ نفس کا عمل اختیار کرے۔ اپنی زندگی میں اچھے عمل کے لیے مسلسل جدوجہد کرتا رہے اور جدوجہد کرنے میں سستی و غفلت کا اظہار نہ کرے۔

انسان کے اخلاق کا ارتقائی پہلو

اگر انسان کے خلق میں درج ذیل چار اوصاف پائے جائیں تو انسان اخلاق حسنہ کا پیکر بن جاتا ہے:

1۔حکمت

2۔ شجاعت

3۔ عفت

4۔ عدل

1۔ جب انسان کے اندر موجود قوتِ عاقلہ اعتدال پر آجائے تو اس سے حکمت وجود میں آتی ہے۔ جب انسان اپنے اندر خلق حکمت کو پیدا کرتا ہے تو اس ضمن میں اس کے اندر ذکاء اور ذہانت و فطانت کا وصف ظاہر ہوتا ہے۔ اس میں سرعت فہم کی خوبی پیدا ہوتی ہے۔ اس کے ذہن کو صفائی و طہارت ملتی ہے۔ علم کا حاصل کرنا اس کے لیے آسان ہوجاتا ہے۔ اس کی عقل میں خوبی و کمال آتا ہے اور اس کی یاداشت مضبوط اور محفوظ ہوجاتی ہے۔

2۔ اگر انسان کے اندر موجود قوتِ غضبیہ اعتدال پر آجائے تو اس سے انسان کے خلق کو وصفِ شجاعت ملتا ہے اور انسان شجاع و بہادر ہوجاتا ہے۔ جب انسان میں شجاعت کا خلق آتا ہے تو اس میں علوِ ہمت کا وصف پیدا ہوتا ہے۔ اس میں تحمل و بردباری کی خوبی آتی ہے اور حمیت و غیرت کا جذبہ ظاہر ہوتا ہے۔

3۔ اگر انسان کے اندر موجود قوتِ شہوانیہ یا قوتِ بہیمیہ اعتدال پر آجائے تو اس سے انسان کے خلق کو پاک دامنی اور عفت و عصمت کا خلق اور وصف میسر آتا ہے۔ جب انسان میں عفت کا خلق پیدا ہوتا ہے تو اس میں حیاء کی صفت ظاہر ہوتی ہے۔ اس میں صبر ظاہر ہوتا ہے، وقار و متانت کے اوصاف نمایاں ہوتے ہیں اور ورع اور تقویٰ نمو پاتاہے۔

4۔ مذکورہ تینوں اوصاف اگر ہمیشہ اعتدال پر رہیں تو اس کے بعد انسان میں خلقِ عدل پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں جو لوگ قاضی اور جسٹس کے عہدوں پر فائز ہوتے ہیں تو ان کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے خلق کو ان تینوں اصولوں سے مزین کریں تاکہ ان کے اندر خلقِ عدل ظاہر ہو۔ جب انسان میں خلقِ عدل ظاہر ہوتا ہے تو اس میں صداقت، الفت، شفقت، صلہ رحمی، تسلیم و توکل، اور عبادتِ فاضلہ کی طرف رجوع نظر آتا ہے۔ یہ انسان خلقِ عدل کی بنا پر اپنی ذمہ داریوں، اپنی قوم و ملت اور اپنے ضمیر و دل کے ساتھ وفا کرتا ہے۔ خلقِ عدل اور وصفِ عدل کے شعور اور ظہور کے ذریعے انسان معاشرے میں وہ عزت پاتا ہے جو ایک مثال ِلاوزال بن جاتی ہے۔

باری تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں ان اوصاف و کمالات اور اخلاق حسنہ کا حامل بنادے۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ۔