احیائے سنت اور اتباعِ رسول اللہ ﷺ: تقاضائے محبت

محمد ذکوان ندوی

گذشتہ سے پیوستہ

قرآن مجید میں اِس بات کا تاکیدی حکم دیا گیا ہے کہ اہلِ ایمان دعوت و اقامت ِ دین کی راہ میں رسول اللہ ﷺ کے دست وبازو بن کرنہ صرف پوری طرح آپ کا ساتھ دیں، بلکہ اللہ کے پیغمبر کی حیثیت سے وہ آپ ﷺ کی بھر پور تعظیم و توقیر کا طریقہ اختیار کریں۔ چنانچہ ارشاد ہواہے:

اِنَّآ اَرْسَلْنٰـکَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا. لِّتُؤْمِنُوْا بِاللهِ وَرَسُوْلِهٖ وَتُعَزِّرُوْهُ وَتُوَقِّرُوْهُ ط وَتُسَبِّحُوْهُ بُکْرَةً وَّاَصِیْلًا.

(الفتح، 48: 8-9)

’’بے شک ہم نے آپ کو (روزِ قیامت گواہی دینے کے لیے اعمال و احوالِ امت کا) مشاہدہ فرمانے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تاکہ (اے لوگو!) تم الله اور اس کے رسول پر ایمان لائو اور آپ (ﷺ کے دین) کی مدد کرو اور آپ (ﷺ) کی بے حد تعظیم و تکریم کرو، اور (ساتھ) الله کی صبح و شام تسبیح کرو۔ ‘‘

رسول اللہ ﷺ سے محبت کا یہ ایک لازمی تقاضا ہے کہ

حبُّ النبي ﷺ یُوجِبُ السعيَ إلی إحیاءِ سنّته، والحِفاظَ علٰی دعوته.

آدمی آپ ﷺ کی سیرت واخلاق، آپ کی لائی ہوئی دعوت کے اِبلاغ اور احیاے سنت کے لیے بھر پور کوشش کرتے ہوئے آپ ﷺ کی زندگی کو اپنی زندگی اورآپ ﷺ کی ایمانی اور اخلاقی دعوت کو اپنا مشن بنائے۔

آپ ﷺ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

’مَن أحیا سنّتي فقد أحبّني، ومَن أحبّني،کان معي في الجنة‘.

(سنن الترمذی: 2602)

جس نے میری سنت اور میری تعلیمات کو زندہ کیا، اُس نے مجھ سے محبت کی اور جو مجھ سے محبت کرے گا، وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔

حافظ ابن قیم (وفات: 751 ہجری) علم دین کی دعوت و اشاعت کے متعلق فرماتے ہیں:

و لولم یکن في تبلیغ العلم عنه إلاحصولُ ما یحبُّه ﷺ، لکفٰی به فضلاً. ومعلومٌ أنه لا شيئَ أحبُّ إلٰی رسولِ اللّٰه ﷺ من إیصاله الھُدیٰ إلی جمیع الأمۃ، فالمبلّغ عنه مسارعٌ في حصولِ محبته، فھو أقربُ الناسِ منه وأحبّھم إلیه، وھو نائبه وخلیفته في أمته، وکفیٰ به فضلاً وشرفاً للعلم وأھله‘.

(مفتاح دارالسعادة: 279)

’’اگر رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ملے ہوئے علم کی اشاعت سے آپ ﷺ کے پسندیدہ عمل پر کاربند ہونے کے سوااور کوئی مقصد نہ ہوتا، جب بھی یہ اُس کی اہمیت کے لیے کافی تھا۔ یہ ایک معلوم بات ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے نزدیک اِس سے زیادہ کوئی چیز محبوب نہ تھی کہ اللہ کی ہدایت تمام امت ِ دعوت واِجابت تک پہنچ جائے۔ لہٰذاپیغمبرانہ علم کو پہنچانے والا آدمی عملاً اُس کی محبت کے حصول میں کوشاں ہے۔ چنانچہ ایسا شخص سب سے زیادہ قریب اور محبوب تر ہوگا۔ وہ گویا امت میں آپ کا نائب اور خلیفہ ہے۔ لہٰذا یہی ایک بات علمِ نبوت اوراُس کے حامل افراد کے فضل و شرف کے لیے کافی ہے‘‘۔

صحابہ وتابعین کا حضور ﷺ سے جذباتی و حُبّی تعلق

انسان؛ عقلی اور جذباتی وجود (emotional being) دونوں کا مجموعہ ہے۔ یہ جذبہ اگر اپنے فطری دائرے میں ہو تو وہ نہ صرف ایک مطلوب چیز ہے، بلکہ وہ انسان کے لیے اُس کے خالق کی طرف سے استثنائی قسم کے ایک عظیم عطیہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ انسان کا یہی جذباتی وجود ہے جس سے وہ رحمی اور خاندانی رشتے وجود میں آتے ہیں جن کے بغیر دنیا کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ جذبات کا یہی وہ قیمتی بندھن ہے جس نے انسان کو حیوان سے بالکل ممتاز کردیا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی بنا پر ادب وآرٹ اور رنگ و جمال کاایک فردوسِ حسن ومعنی یہاں آباد دکھائی دیتا ہے۔ صحابہ و تابعین کے واقعات اور رسول اللہ ﷺ کے ارشادات سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی اطاعت کے ساتھ آپ ﷺ سے قلبی اور جذباتی تعلق ایمان بالرسول کے بالکل ایک فطری اور بدیہی تقاضے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس سلسلے میں چند ارشادات وواقعات یہاں نقل کیے جاتے ہیں:

1۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے۔ وہ فرماتی ہیں:

’جاءَ رجلٌ إلی النبيِّ ﷺ فقالَ: یا رسولَ اللّٰہِ إنَّکَ لأحَبُّ إليَّ من نَفسي وإنَّکَ لأحبُّ إليَّ من ولدي. وإنِّي لأَکونُ في البیتِ فأذْکرُکَ، فما أصبِرُ حتَّی آتي فأنظُرَ إلیْکَ. و إذا ذَکرتُ موتي وموتَکَ عرفتُ أنَّکَ إذا دخلتَ الجنَّۃَ رفعتَ معَ النَّبیِّینَ وأنِّي إذا دَخلتُ الجنَّۃَ، خَشیتُ أن لا أراکَ. فلم یردَّ علیْهِ النَّبيُ ﷺ شیئًا، حتَّی نزلَ جبریلُ بِهذِهِ الآیۃ: وَمَنْ یُطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ الخ‘

(المعجم الکبیر، الطبراني: 12559)

’’ اصحابِ رسول ﷺ میں سے ایک شخص نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول، آپ مجھے میری جان اور میرے اہل وعیال سے زیادہ محبوب ہیں۔ جب میں اپنے گھر میں ہوتا ہوں اور آپ ﷺ مجھے یاد آتے ہیں تو مجھ سے رہا نہیں جاتا۔ چنانچہ میں آپ ﷺ کے پاس آتااور آپ ﷺ کا دیدار کرلیتاہوں لیکن جب مجھے اپنی موت اور آپ ﷺ کے وصال کا خیال آتا ہے تو میں سوچتا ہوں کہ وہاں جنت میں آپ ﷺ انبیا کے ساتھ ہو ں گے اور اگر میں جنت میں داخل ہوا تو مجھے اندیشہ ہے کہ وہاں میں آپ ﷺ کا دیدار نہ کر سکوں گا۔ نبی ﷺ نے اُس شخص کو کوئی جواب نہیں دیا، حتی کہ جبریل یہ آیت لے کر نازل ہوئے:

وَمَنْ یُطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّهَدَاءِ وَ الصَّالِحِینَ وَ حَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا.

(النساء، 4: 69)

2۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

’’ ایک صاحب نے رسول اللہ ﷺ سے قیامت کے بارے میں پوچھا کہ قیامت کب قائم ہو گی؟آپ ﷺ نے فرمایا کہ

و مَا ذَا أعْدَدْتَ لَهَا. قَالَ: لا شيئَ، إلَّا أنِّي أُحِبُّ اللّٰهَ ورَسولَه ﷺ. فَقَالَ: أنْتَ مع مَن أحْبَبْتَ.

تم نے قیامت کے لیے کیا تیاری کررکھی ہے؟ انھوں نے عرض کیا: کچھ بھی نہیں، سوا اِس کے کہ میں اللہ اور اُس کے رسول سے محبت کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر تمھارا حشر بھی ان ہی کے ساتھ ہو گا جن سے تمھیں محبت ہے۔

سیدنا انس کہتے ہیں کہ ہمیں کبھی اتنی خوشی کسی اور بات سے نہیں ہوئی، جتنی آپ کا یہ ارشاد سن کر ہوئی کہ تمھارا حشر ان ہی کے ساتھ ہو گا جن سے تمھیں محبت ہے۔ سیدنا انس فرماتے ہیں کہ

فأنَاأحِبُّ النبي ﷺ و أبا بَکْرٍ و عُمَرَ، و أرْجُو أنْ أکُونَ معهُمْ بحُبِّي إیَّاهُمْ، وإنْ لَمْ أعْمَلْ بمِثْلِ أعْمَالِهِمْ‘.

(صحیح البخاری: 3688)

میں بھی رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے محبت رکھتا ہوں اور اُن سے اپنی اِس محبت کی وجہ سے امید رکھتا ہوں کہ میرا حشربھی ان ہی کے ساتھ ہو گا، اگرچہ میں اُن جیسے عمل نہ کر سکا‘‘۔

ایک دوسری روایت میں ارشاد ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اِس سوال پر کہ تم نے قیامت کے لیے کیا تیاری کی ہے؟ سائل نے عرض کیا:

ما أعْدَدْتُ لَهَا مِن کَثِیرِ صَلَاةٍ ولَا صَوْمٍ و لَاصَدَقَةٍ، ولَکِنِّی أُحِبُّ اللّٰهَ ورَسولَهُ، قالَ: أنْتَ مع مَن أحْبَبْتَ.

(صحیح البخاری: 6171، مسلم: 2639)

میرے پاس اِس کے لیے بہت ساری نمازیں اور روزے اوربہت زیادہ صدقہ وخیرات تو نہیں ہے، البتہ میں اللہ اور اُس کے رسول سے محبت کرتاہوں۔ اِس پر آپ ﷺ نے فرمایا: تم اُس کے ساتھ ہو جس سے تم محبت رکھتے ہو:

3۔ غزوۂ احد (3 /ہجری) کے واقعات میں سے ایک واقعہ یہ ہے کہ بنو دینار کی ایک خاتون (سُمَیراء بنت قیس) کے اہلِ خانہ میں سے تین افراد (باپ، بھائی اور شوہر) اِس غزوہ میں شہید ہوگئے۔ اُس کو جب یہ خبر دی گئی تو انھوں نے پوچھا:

فما فعل رسولُ اللّٰہ ﷺ؟

یہ بتاؤ کہ رسول اللہ ﷺ کیسے ہیں؟

اُنھیں بتایا گیا کہ آپ ﷺ بخیر وعافیت ہیں۔ چنانچہ وہ آپ ﷺ کے پاس پہنچیںاور آپ ﷺ کو دیکھ کرعرض کیا:

’کُلُّ مصیبةٍ بَعْدَک جَلَلٌ، یارسولَ اللّٰہ ﷺ‘

آپ کے بعد ہر مصیبت ہیچ ہے، اے اللہ کے رسول ﷺ.

(السیرۃ النبویة، ابن هشام: 3/51)

4۔ محمد بن سیرین تابعی (وفات: 110ہجری) فرماتے ہیں کہ جب میں نے (مشہور تابعی) عبیدہ بن عمرو سلمانی (وفات: 72 ہجری) کو بتایا کہ ہمارے پاس نبی ﷺ کے کچھ موئے مبارک موجود ہیں جنھیں ہم نے سیدنا انس، یا اُن کے گھر والوں سے حاصل کیا ہے۔ انھوں نے فرمایا:

’لأَن تَکُوْنَ عِندِي شَعْرَةٌ مِنه أحَبُّ إليَّ مِنَ الدنیَا وَ مَا فِیْهَا‘.

(صحیح البخاری: 168، مسند احمد: 13710)

’’اگر اِن میں سے ایک بال بھی میرے پاس ہوتا تو وہ مجھے دنیا کی ساری نعمتوں سے کہیں زیادہ محبوب ہوتا۔ ‘‘

امام ذہبی (وفات: 748 ہجری) فرماتے ہیں کہ

هٰذا القولُ مِن عبیدة هو معیارُ کمالِ الحُبِّ، و هو أن یُؤثر شعرة نبویة علٰی کلِّ ذهبٍ و فضَّةٍ بأیدي النَّاس.

(سیر أعلام النبلاء: 4/42)

سیدنا عبیدہ کا یہ قول کمالِ محبت کا ایک عجیب نمونہ ہے کہ نبی ﷺ کے ایک موے مبارک کو ساری دنیامیں موجود سونے چاندی کے خزانوں پر ترجیح دی جائے۔

5۔ رسول اللہ ﷺ سے یہی محبت اورآپ ﷺ سے یہی جذباتی تعلق ہے جسے بعد کے اہلِ ایمان کی نسبت سے خود رسالت مآب ﷺ نے اِن الفاظ میں بیان فرمایا ہے:

مِنْ أشدِّ أمتي لي حُبّاً، ناسٌ یکونون بعدي، یود أحدُهم لو رآني بأهله وماله‘.

(صحیح، مسلم: 2832)

’’میری امت میں مجھ سے بے حدشدید محبت والے وہ لوگ ہیں جو میرے بعد ہوں گے۔ اُن میں سے ایک شخص کی بہترین آرزو یہ ہوگی کہ کاش، وہ اپنا تمام مال و دولت اور اپنے اہل و عیال سب کو قربان کرکے میرا دیدارکر سکے۔ ‘‘

صحابہ و تابعین کے مذکورہ واقعات اور رسول اللہ ﷺ کے ارشادات سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے کہ مومن کوئی بے روح مشینی مخلوق نہیں کہ وہ جامد انداز میں ایک عمل کو دہراتا رہے۔ مومن ایک زندہ انسان ہوتاہے اور ایک ایسا انسان کبھی محبت و جذبات سے خالی نہیں ہوسکتا۔ یہ تابعین اور اصحاب بلاشبہ اتباعِ رسول ﷺ کے راستے پر گام زن تھے، مگر اِسی کے ساتھ وہ آپ ﷺ کی محبت میں سرشار، آپ ﷺ کی سلامتی کے لیے بے چین، نیز آپ ﷺ اور آپ ﷺ سے منسوب ہر چیزکے لیے سراپا اشتیاق رہا کرتے تھے۔

خدا کا پیغمبر: عقیدت کا عجیب مظہر

رسول اللہ ﷺ کی شخصیت کا ایک عجیب پہلو آپ ﷺ سے محبت اور عقیدت ہے۔ چنانچہ شاہ و گدا، امیر وفقیر، عاصی وپارسا، غرض ہر بندۂ مومن کے دل میں آپ ﷺ کی محبت کا جذبہ موجود ہواکرتا ہے۔ اگرصحیح تعلیم و تربیت کے ذریعے اِس چراغِ محبت کی لو تیز تر کی جاسکے توآپ ﷺ سے یہ فطری اور قلبی تعلق سرمایۂ ملت بھی ہوگا اور سرمایۂ ملت کا نگہبان بھی۔ اِس سلسلے میں دو مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

1۔ شاهِ بنگال سلطان ناصر الدین محمود (وفات: 1229ء) کے ایک خاص مصاحب کا نام ’’محمد‘‘ تھا۔ بادشاہ اُس کو اِسی نام سے پکارتا تھا۔ ایک دن بادشاہ نے خلاف ِمعمول اُسے ’’تاج الدین‘‘ کہہ کر آواز دی۔ وہ تعمیل حکم میں حاضر ہوا، لیکن گھر جانے کے بعد تین دن تک واپس نہیں آیا۔ بادشاہ نے بلوایااور تین دن تک غائب رہنے کی وجہ دریافت کی۔ اُس نے کہا: آپ ہمیشہ مجھے ’’محمد‘‘ کے نام سے پکارا کرتے ہیں، لیکن اُس دن آپ نے ’’تاج الدین‘‘ کہہ کر پکارا۔ میں سمجھا کہ آپ کے دل میں میرے متعلق کوئی غلط فہمی پیدا ہوگئی ہے، اِس لیے ندامت کے باعث حاضر خدمت نہ ہوسکا۔

ناصرالدین نے کہا: واللہ! میرے دل میں تمھارے متعلق کسی قسم کی کوئی خلش نہیں۔ ’’تاج الدین‘‘ کے نام سے تو میں نے اِس لیے پکارا تھاکہ اُس وقت میرا وضو نہیں تھا، اور مجھے’’محمد‘‘ جیسا نامِ نامی بغیر وضو کے لینامناسب معلوم نہیں ہوا۔

(تاریخ فرشته: 1/ 276)

2۔ اختر شیرانی (وفات: 1948ء) اردوکے مشہور شاعر گزرے ہیں۔ لاہور کے’’ عرب ہوٹل‘‘ میں ایک بار کمیونسٹ ذہن کے کچھ شاطر نوجوانوں نے اختر شیرانی سے مختلف موضوعات پر بحث چھیڑ دی۔ اُس وقت تک وہ دو بوتلیں پی چکے تھے اور ہوش قائم نہ تھے۔ بدن پر رعشہ طاری تھا، حتیٰ کہ الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر زبان سے نکل رہے تھے۔ ’’انا‘‘کا یہ حال تھا کہ اپنے سوا کسی کو گردانتے نہ تھے۔ شاعر تو وہ شاذ ہی کسی کو مانتے تھے۔ ہم عصر شعرا میں جو واقعی شاعر تھا، اُسے بھی اپنے سے کم ترخیال کرتے تھے۔ کمیونسٹ نوجوانوں نے فیض کے بارے میں سوال کیا تو طرح دے گئے۔ جوش کے متعلق پوچھا تو کہا: وہ ناظم ہے۔ علی سردار جعفری کا نام لیا تو مسکرائے۔ فراق کا ذکر چھیڑا تو ہوں ہاں کرکے چپ ہوگئے۔ ساحر لدھیانوی کی بات کی، جو سامنے بیٹھے تھے، فرمایا: مشق کرنے دو۔ ظہیر کاشمیری کے بارے میں کہا: نام سنا ہے۔ احمد ندیم قاسمی کے متعلق پوچھا تو فرمایا: میرا شاگرد ہے۔

نوجوانوں نے جب دیکھا کہ وہ ترقی پسند تحریک ہی کے منکر ہیں، تو بحث کا رخ پھیر دیا۔ پوچھا: فلاں پیغمبر کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں، نشے میں بد مست تھے، زبان پر قابو نہیں تھا، لیکن چونک کر فرمایا: کیا بکتے ہو؟ ادب و انشایا شعر و شاعری کی بات کرو۔ کسی نے فوراً افلاطون کی طرف رخ موڑ دیا۔ پوچھا: اُن کے مکالمات کی بابت کیا خیال ہے؟ ارسطو اور سقراط کے بارے میں سوال کیا، مگر اُس وقت وہ اپنے موڈ میں تھے۔ فرمایا: اجی، یہ پوچھو کہ ہم کون ہیں؟ یہ ارسطو، افلاطون یا سقراط آج ہوتے تو ہمارے حلقے میں بیٹھتے۔

مدہوشی کی اِس حالت سے فائدہ اٹھا کر ایک نوجوان نے سوال کیا: حضرت محمد ﷺ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ اللہ، اللہ، ایک شرابی، مگر جیسے کوئی برق تڑپی ہو۔ بلّور کا گلاس اٹھایا اور سر پر مارتے ہوئے فرمایا: بدبخت، ایک عاصی سے سوال کرتا ہے، ایک سیہ رو سے پوچھتا ہے، آخر ایک فاسق سے کیا کہلوانا چاہتا ہے؟ تمام جسم کانپ رہا تھا۔ اچانک زار و قطار رونا شروع کردیا۔ فرمایا: ایسی حالت میں تو نے یہ نامِ پاک کیوں لیا، تجھے یہ جرأت کیسے ہوئی!؟ اِس سوال پر توبہ کر۔ میں تیرا خبثِ باطن سمجھتا ہوں۔ خود قہر و غضب کی تصویر ہوگئے۔ نوجوان نے بات کو موڑنا چاہا، مگر اختر کہاں سنتے تھے؟ اُسے اٹھوا دیا، پھر خود اٹھ کر چلے گئے۔ رات بھر روتے رہے۔ کہتے تھے کہ یہ لوگ اتنے نڈر ہوگئے ہیں کہ اب مجھ سے آخری سہارا بھی چھین لینا چاہتے ہیں۔ میں گنہگار ضرور ہوں، لیکن یہ لوگ مجھے کافر بنا دینا چاہتے ہیں۔ (مجھے ہے حکم اذاں، عتیق الرحمن سنبھلی: صفحہ 17- 18)

بظاہر اپنی تمام بشری کمزوریوں کے باوجودایک مومن کے دل میں حب ِرسول ﷺ کی ایسی چنگاری موجودہوتی ہے جو ہم جیسے لوگوں کے لیے یقینا قابل رشک ہے اور جسے دیکھ کر اکثر یہ خیال آتا ہے کہ:

کچھ ہوئے تو یہی رندانِ قدح خوار ہوئے!

تاہم بعد کے زمانے میں ہمارے درمیان سیکولر افکار، دین کی تکنیکی تعبیرات اور بعض جامد قسم کی غلوآمیز ’مذہبی‘ تحریکات برپا ہوئیں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عقلی تفکر،علمی ذوق، شعوری بیداری اور ردِبدعات جیسے عمل کے ساتھ پیغمبر اور اصحاب ِ پیغمبر کی تاریخ کا بھی ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا گیا، جو بلاشبہ اہلِ ایمان کے لیے ایک قیمتی اور بے بدل اثاثۂ فیضان (source of inspiration) کی حیثیت رکھتا تھا۔ چنانچہ اِن تحریکات کے نتیجے میں عملاً یہ ہوا کہ آپ ﷺ سے وہ قلبی وابستگی اورجذباتی تعلق ختم ہوگیاجو اِس سے قبل ہر دور میں اہلِ ایمان کا شعار رہا ہے۔ تاہم خدا کا شکر ہے کہ اِن قہرمانی اصلاحات کے باوجوداِس محبت اور قلبی تعلق کی چنگاری ہر سچے مومن کے دل میں اب بھی موجود ہے۔

اگراِس غلو آمیز ’مذہبیت‘ اور مسلکی اور گروہی تعصبات سے بلند ہوکر فطری انداز سے لوگوں کی تربیت کی جائے تو بہت سے دلوں میں یہ چنگاری اب بھی بھڑک کر ایک شعلۂ ایما نی بننے کے لیے تیار ہے، ایسا شعلہ جو مادّیت و الحاد، غفلت و شہوات اور دورِ جدید کے عقلیت پرستانہ نظریات کے لیے ایک آسمانی بجلی بن کرشاخِ نازک پر قائم اِس نشیمن کو ہمیشہ کے لیے تہ وبالا کرسکتا ہے۔

ممکن ہے مجھ جیسا ایک ظاہر پرست آدمی اختر شیرانی کے مذکورہ واقعے کو ایک ’’غیر سنجیدہ مثال‘‘ قرار دے، مگر اِس قسم کے باادب رند انِ بلانوش کو دیکھ کر راقم عہد ِ رسالت کا وہ واقعہ یاد کر رہا ہے جسے امام بخاری نے کتاب الحدود میں: بابُ مَا یُکرهُ مِنْ لَعْنِ شَارِبِ الخَمْرِ وإنّہ لیسَ بِخَارِجٍ مِنَ الْمِلّۃ (باب: شراب پینے والاملت ِ اسلام سے نکل نہیں جاتا، نہ اُس پر لعنت کرنی چاہیے) کے تحت نقل فرمایا ہے:

عن عمر بن الخطاب: أنّ رجلاً علی عهد النبي ﷺ،کان اسمه عبد اللّٰه، وکان یلقّب ’حمارًا‘، وکان یُضحک رسولَ اللّٰه ﷺ، وکان النبي ﷺ قد جلده في الشراب، فأتي به یوماً، فأمر به فجلد. فقال رجلٌ من القوم: اللّٰهمّ الْعنه، ما أکثر ما یؤتی به، فقال النبي ﷺ: لا تلعنوه، فواللّٰه، ما علمتُ إنه یحبّ اللّٰه ورسولَه.

(صحیح البخاری: 6780)

’’ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ کے زمانے میں ایک صحابی، جن کا نام عبداللہ تھا، وہ ’حمار‘ کے لقب سے پکارے جاتے تھے۔ وہ نبی ﷺ کو ہنسایا کرتے تھے۔ نبی ﷺ نے ایک بار اُنھیں شراب پینے پربطورِ حد کوڑے بھی لگوائے تھے۔ ایک دن وہ آپ ﷺ کے پاس نشے کی حالت میں لائے گئے۔ چنانچہ آپ ﷺ کے حکم پر دوبارہ اُنھیں کوڑے لگائے گئے۔ اِس موقع پر حاضرین میں سے ایک صاحب نے اُن پر لعنت بھیجتے ہوئے کہا: اللہ اِس پر لعنت کرے، کتنی بار اِسے نشے کی حالت میں لایا جا چکا ہے! نبی ﷺ نے فرمایا: اِس پر لعنت نہ کرو۔ واللہ، میرے علم کے مطابق، یہ اللہ اور اُس کے رسول ﷺ سے محبت کرنے والاشخص ہے‘‘۔

یہاں یہ عرض کرنا بے جا نہ ہوگا کہ شاهِ بنگال کا واقعہ کوئی اجنبی واقعہ نہیں۔ واقعات بتاتے ہیں کہ نبی ﷺ کی تعظیم، آپ ﷺ اور آپ ﷺ سے منسوب ہر چیز کا احترام ہمیشہ اہل ایمان کاشیوہ رہا ہے۔

چنانچہ حضرت مصعب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ

کان مالک بن أنس إِذا حدّث عن رسول اللّٰہ ﷺ توضّأ وتهیّأ.

(مسند الموطأ، الجوهري، صفحہ: 103)

امام مالکؒ ابن انسؒ جب کسی قولِ رسول ﷺ کو نقل فرماتے، تو باقاعدہ تیاری اور وضوکا اہتمام فرماتے۔

خلاصۂ کلام

رسول اللہ ﷺ سے محبت ایمان بالرسول کاوہ بدیہی تقاضاہے جو آپ ﷺ کی نسبت سے ایک سچے مومن کے اندر فطری طورپر موج زن ہواکرتا ہے۔ میڈیا سونامی کے اِس دور میں، جب کہ عام طورپر ’بغیرعلمٍ ولاھدیً ولاکتابٍ منیر‘ (الحج، 22: 8) کے مصداق، بہت سے ’مذہبی‘ اور غیر’مذہبی‘ فلسفہ و افکار کی اشاعت دن رات جاری ہے۔ اِس صورت ِ حال میں ضرورت ہے کہ ہر قسم کی گروہ بندی اور مسلک پرستی سے بلند ہوکر رسول اللہ ﷺ سے قلبی تعلق قائم ہو اور ہر جگہ آپ ﷺ کی سیرت اورآپ ﷺ کی تعلیما ت کا اِس کثر ت کے ساتھ تذکرہ کیا جائے کہ وہی وقت کا غالب موضوع بن کر تمام فلسفہ ہاے حیات پر چھاجائے۔

ایمان و محبت کی اِ س عظیم دعوتی اور ربانی مہم کو عمومی بنانے کے لیے ضروری ہوگا کہ ہر جگہ تذکیر بالقرآن، سیرت ِ نبوی اور اُسوۂ صحابہ کے سنجیدہ دعوتی اور تربیتی حلقے قائم کیے جائیں۔ آپ ﷺ کی سنت اور آپ ﷺ کی سیرت سے بڑھ کر کوئی ’فکر وفلسفہ‘ اور آئڈیالوجی (ideology) نہیں جو انسانیت کے لیے حیات بخش ثابت ہو۔