القرآن: علم میں درستگی اور پختگی کیسے؟

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

مرتب: محمد یوسف منہاجین
معاون: محبوب حسین

انسانی زندگی کے جملہ امور خواہ ان کا تعلق عبادات سے ہو، معاملات سے ہو یا علوم و فنون سے ہو، ان سب امور کو بجا لانے کے کچھ آداب و طرق ہوتے ہیں جن کو ملحوظ خاطر رکھے بغیروہ کام صحیح نہیں ہوتے۔ مثلاً: نماز اللہ کی عبادت ہے، اس کی کچھ شرائط، فرائض، واجبات اور آداب ہیں۔ جس وقت تک نماز کی شرائط، فرائض اور واجبات کو ملحوظ نہیں رکھا جائے گا، یہ عبادات رائیگاں جائیں گی۔ یہی اصول تمام اعمال پر وارد ہوتا ہے۔ تحصیلِ علم پر بھی یہی اصول وارد ہوتا ہے اور یہ اصول ’’تعلُّم‘‘ہے۔

امام بخاریؒ نے صحیح بخاری میں باب العلم قبل القول والعمل میں آقا ﷺ کی ایک حدیث کا حصہ: إِنَّمَا العِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ درج فرمایا ہے۔ یہ مکمل حدیث اس طرح ہے کہ حضرت امیر معاویہؓ سے مروی ہے کہ آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا:

انما العلم بالتعلم والفقه بالتفقه.

(المعجم الکبیر، الرقم: 929)

’’علم صرف تعلُّم سے اور فقہ؛ تفقہ کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔‘‘

حضور نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان عالیشان سے معلوم ہوا کہ وہ علم معتبر نہیں جو تعلم کے بغیر ہو۔ علم اپنے آپ کتابیں پڑھ کر یا مطالعہ کر کے حاصل نہیں ہوتا بلکہ وہ علم جس میں ثقاہت و اعتماد ہو، جو صحیح، ثقہ اور پختہ ہو اور جس علم کو مرجعِ عالم بنایا جا سکے یعنی اس کے فتویٰ اور ترجیح و تشریح پر اعتماد کیا جاسکے، ایسا معتمد علم؛ تعلُّم و تفقہ کے مرحلے سے گزرے بغیر کبھی حاصل نہیں ہوتا۔

تعلُّم ایک Procedure (کئی عوامل کا مجموعہ) ہے۔ علم کا تعلق اگر اللہ اور اس کے رسولﷺ کی رضا کے حصول اور معرفتِ دین سے ہے تو اس کی غرض و غایت اور نیت بھی خالصتاً لوجہ اللہ (مکمل طور پر اللہ کی رضا کی خاطر) ہونی چاہیے اور اگراس کے پیچھے دنیاوی اغراض و مقاصد یا دنیا کی لالچ و طمع ہو، امراء سے مال بٹورنا ہو، سلاطین اور بادشاہوں کے دربار میں قرب حاصل کرنا ہو، دوسرے علماء پر تفوق و برتری ثابت کرنے کے لئے ہو، اپنا مرتبہ و مقام بنانے اور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے ہو، تکبر و رعونت کا سبب بنے اور حصولِ عزت و جاہ و منصب کے لئے ہو تو یہ علم جو آخرت کے لئے نفع مند تھا، وہ جہنم میں جانے کا باعث بن جائے گا اور اس علم میں فسادات، خرابیاں اور ہلاکتیں ہوں گی۔

صحیح مسلم کی حدیث مبارکہ کے مطابق جو شخص علم حاصل کرتا ہے اور خیر کی طرف دعوت دیتا ہے تو دعوت قبول کر کے خیرپر عمل کرنے والے ہر شخص کو اس نیک عمل کا اجر ملتا ہے اور جب تک یہ نیک اعمال ہوتے رہیں گے، دعوت دینے والوں کو بھی اجرو ثواب ملتا رہے گا اور عمل کرنے والوں کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی جاتی۔ اسی طرح اگر ایک شخص کے ذریعے علم، عقیدے، اخلاق اور عمل میں بگاڑ یا گمراہی پھیل جائے تو اس کو اپنے عمل کا گناہ تو ملے گا مگر اس سے متاٹر ہو کر جتنے لوگ اس گمراہی میں جائیں گے تو ان سب کا گناہ اس گمراہی پھیلانے والے شخص کو بھی ملے گا اور عمل کرنے والوں کے گناہوں میں بھی کوئی کمی نہیں ہو گی۔

گویا جس طرح علمِ نافع صدقہ جاریہ ہوتا ہے، اسی طرح علمِ غیر نافع یا برا علم عذابِ جاریہ ہوتا ہے۔

آدابِ تَعَلُّم

امام غزالی، امام نووی اور دیگر ائمہ نے اپنی کتب میں معلم، تعلیم اور تعلم کے آداب پر ابواب قائم کیے ہیں۔ ذیل میں ان ائمہ کی کتب سے اکتسابِ فیض کرتے ہوئے تعلم کے حوالے سے چند بنیادی نکات درج کیے جارہے ہیں:

(1) معلم اپنے علم و فن میں متخصِّص ہو

امام نووی فرماتے ہیں کہ کسی ایسے شخص سے علم حاصل نہ کیا جائے جس کی اہلیت علم میں کامل نہ ہو چکی ہو اورجس کی شخصیت میں دیانت، دینداری، دین پر عمل، نیکی، تقویٰ، پرہیزگاری، حلم، خوش خلقی، عبادت گزاری، زہد، ورع، اوامر و نواہی کی پابندی، ظاہری و باطنی آداب و اخلاق اور اچھے خصائل پیدا نہ ہو چکے ہوں۔

(النووی، المجموع شرح المهذب، 1: 36)

یعنی استاد ایسا ہو جو تعلم اور اخلاق و آداب کے تمام مراحل خود طے کر چکا ہو اور اس کے اندر مہارتِ تامہ پیدا ہوگئی ہو۔ جس سے علم حاصل کرنا ہے، ضروری ہے کہ اسے علم دین اور قرآن و سنت میں فہم کامل ہو اور معرفت و گہرائی حاصل ہو۔ اگر وہ خود علم میں کامل نہیں ہے تو اس سے علم حاصل نہ کیا جائے۔

مثلاً: اگر کسی سے تفسیر کا علم حاصل کرنا ہے تو وہ اصولِ تفسیر اور علوم التفسیر پر ماہر ہو۔۔۔ اگر حدیث کا علم حاصل کرناہے تو اصولِ حدیث، علوم الحدیث، ناسخ و منسوخ اور اقسام الحدیث پر گہری نظر رکھتا ہو۔۔۔ اگر فقہ لینی ہے تو اصول فقہ اور ادلّہ اربعہ پر اسے مہارتِ تامہ ہو۔۔۔ الغرض جو علم و فن کسی بھی استاد سے لینا ہے تو پہلے اس بات کو یقینی بنالیں کہ اس استاد کا مقام و مرتبہ اس علم و فن میں مسلم ہے اور اس کے اندر پختگی، ایقان، تمکن اور مضبوطی موجود ہے، پھر اس کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کریں۔

ہر شخص ہر مضمون پڑھانے کا اہل نہیں ہوتا۔ بدقسمتی سے ہم نے دین کو مذاق بنا لیا ہے۔ ہم کیمسٹری کے استاد سے فزکس نہیں پڑھتے، سرجری والا ڈاکٹر؛ میڈیکل یعنی ادویات کے متعلق نہیں پڑھاتا، زوالوجی کااستاد،Botany نہیں پڑھاتا۔ اسی طرح کمپیوٹر سائنسز، مینجمنٹ سائنسز، سپیس سائنسز، ڈپلومیسی، سوشیالوجی، سائیکالوجی الغرض جس فیلڈ میں چلے جائیں ہر مضمون کا الگ الگ ماہر ہوتا ہے جو اس مضمون کو پڑھاتا ہے اور اس مضمون میں اسے مہارت حاصل ہوتی ہے۔ ہم دنیاوی علوم میں خصوصی مضمون خصوصی ٹیچر سے ہی پڑھتے ہیں اور اس مضمون کو کسی ماہر استاد سے پڑھے بغیر اس مضمون میں مہارت حاصل نہیں کرسکتے۔

(2) کیا علم کا حصول محض مطالعہ کتب سے ممکن ہے؟

صرف کتابیں پڑھ کر ہمیں کوئی ڈگری دیتا ہے اور نہ ہمیں کوئی اس مضمون کا Specialist مانتا ہے۔ اگر خالی کتابوں کا علم معتبر ہو تو میڈیکل کالج بند کر دیے جائیں کیونکہ ہرمضمون کی کتاب مارکیٹ میں دستیا ب ہے۔ ہم خود پڑھ لیں اور ڈاکٹر بن کر کلینک کھول لیں۔ انجینئرنگ و ٹیکنالوجی اور دیگر علوم کے کالجز اور یونیورسٹیاں بند کردی جائیں کیونکہ ہر مضمون پر لاکھوں کتب، ہزاروں لائبریریاں اور آن لائن لائبریریاں موجود ہیں تو پھر کیوں نہ کمپیوٹر کھول کر دنیا بھر کی کتب پڑھ کر ڈگری حاصل کرلی جائے۔ کوئی ایک محکمہ تو دنیا میں ہو جو ہمیں صرف کتابیں پڑھنے پر ڈگریاں دیتا جائے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ ہم سکول و کالج کیوں جاتے ہیں؟ سولہ سال تعلیم پر لاکھوں روپے کیوں خرچ کرتے ہیں؟ درحقیقت کتابیں پڑھنے کے لیے بھی ایک رہنما اور استاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ تحقیق و تخریج اور لکھنے کا ہنر بھی گائیڈ اور استاد ہی سکھاتا ہے جیسا کہ ایم فل اور Ph.D (پی ایچ ڈی) لیول پر ایک گائیڈ ہوتا ہے جو ہمیں تحقیق کرنا اور کتابوں کے اسالیب سے متعارف کرواتا ہے کہ کتاب کو کس طرح پڑھنا اور کس طرح اس سے اخذ کرنا ہے؟ کس طرح theme (بنیادی خیال) بنانا ہے؟ کس طرح Outline (خاکہ) بنانی ہے؟ کس طرح thesis تیار کرنا اور اسے Establish کرنا ہے؟ اس سے نتائج کس طرح اخذ کرنا ہیں؟ الغرض کوئی بھی چیز استاد کے بغیر پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچتی۔

دنیاوی علوم تو ہم استاد کے بغیر نہیں سیکھتے مگر دوسری طرف دینی علوم کے حوالے سے ہمارا طرزِ عمل یہ ہے کہ دینی علوم صرف سوشل میڈیا اور کمپیوٹر سے کسی استاد او رشیخ کے بغیر حاصل کرنے کے خواہاں ہیں اور حاصل کرتے ہیں۔ ہر بندہ؛ عالم، داعی، استاد، مبلغ، محدث، مفسر اور فقیہ ہے۔ اتنا بڑا ظلم تاریخ میں دنیا کے کسی علم کی کسی بھی شاخ کے ساتھ نہیں ہواتھا جو ظلم علمِ دین کے ساتھ ہو رہا ہے۔

دنیاوی تعلیم کے لیے بچپن سے ہم اپنے بچے کو پلے گروپ اور نرسری سے تعلیم کا process (سلسلہ) شروع کرواتے ہیں۔ اسے استاد کتابیں پڑھاتے اور سمجھاتے ہیں پھر سولہ سالوں میں یہ سلسلۂ تعلیم مکمل ہوتا ہے۔ ہم کبھی براہِ راست خود سے پڑھ کر دنیاوی علوم بھی حاصل نہیں کر سکتے اور نہ ہی یہ سمجھ میں آتے ہیں۔ یہی اصول ہمیں حصولِ علمِ دین پر بھی لاگو کرنا ہوگا۔

تعلم کی اسی اہمیت و افادیت کے پیشِ نظر ہی امام بخاریؒ نے إِنَّمَا العِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ کے الفاظِ حدیث کو باب کے عنوان میں بیان فرمایا ہے کہ علم سیکھنے اور اساتذہ سے اکتساب فیض سے آتا ہے۔ وہ ہمیں ہر علم کی ابجدسے شروع کرواتے ہیں اور ایک طویل عرصے تک محنت و مشقت کے بعد اس میں ماہر بناتے ہیں۔

یہاں اس امر کی وضاحت بھی کرتا چلوں کہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ حصولِ علمِ دین بغیر استاد کے ناممکن ہے، تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ دین پر عام مسلمان کا کوئی حق نہیں۔ یاد رکھیں! نصیحت، اصلاحِ نفس، اصلاحِ معاشرہ، اصلاحِ اخلاق اور اوامر و نواہی کی آگاہی کے باب میں دین ہر شخص کے لیے ہے کہ وہ جانے کہ نیکی اور بدی میں فرق کیسے جاننا ہے۔۔۔؟ فرائض کو کیسے ادا کرنا ہے۔۔۔؟ حرام کو کیسے چھوڑنا ہے۔۔۔؟ والدین کی خدمت، بڑے کی عزت، چھوٹے پر شفقت، خوش خلقی، حسنِ معاشرت اور دوسروں سے حسن سلوک کیسے کرنا ہے۔۔۔؟ یہ وہ سادہ چیزیں ہیں جو کتابوں سے سیکھی جاسکتی ہیں اور ایک عام آدمی بھی ہمیں سکھا سکتا ہے۔ مگر اس موقع پر جس علم کی بات میں کر رہا ہوں، اس سے مراد وہ فن ہے جس سے ایسا سکالر، محدث، مفسر، فقیہ، مفتی، محقق اور عالم بنتا ہے جس سے ہم کسی Subject (مضمون) پر کتب پڑھ سکتے ہیں اور پھر یہی استاد، پروفیسر، ڈاکٹر، SPECIALISTاور مضمون کا ماہر لوگوں کا رہنما بنتا ہے اور لوگ اس کی پیروی کرتے ہیں۔

تَعَلُّم باب تَفَعُّل پر ہے اس میں تَدرُّج بھی پایا جاتا ہے یعنی Step by Step درجہ بہ درجہ اوپر جانا۔ پہلے ایک فن، پھر دوسرا فن، پھر تیسرا فن، ایک کتاب کے بعد دوسری کتاب اور اسی طرح پہلے متن اور پھر اس کی شروح وغیرہ پڑھنا۔ دینی علوم و فنون پر اساتذہ کے بغیر مہارت حاصل نہیں ہوتی۔ اگر یہ علم اساتذہ کے بغیر ہو گا تو گمراہی کا باعث بنے گا۔ دنیاوی علم اساتذہ کے بغیر حاصل کیا جائے تو اس سے گمراہی نہیں ہوتی اور نہ اس ان سے آخرت خراب ہوتی ہے۔ لیکن علمِ دین چونکہ ہدایت و ضلالت سے متعلق ہے۔ اس لئے اس کی شرائط اور قواعد بیان کئے گئے ہیں اور تعلّم اس کے لیے سب سے بڑا اصول اور شرط ہے۔

(3) علمِ دین کس سے حاصل کریں؟

آقا ﷺ کا ارشاد ہے کہ:

سیکون فی آخر امتی اناس یحدثونکم مالم تسمعوا انتم ولا آبائکم فایاکم وایاهم.

(مسلم، الصحیح، مقدمه، 1: 12، رقم: 6)

یعنی آخری زمانے میں میری امت میں ایسے لوگ آئیں گے جو تمہیں دین کا علم پہنچائیں گے اور تمہارے آگے علم روایت کریں گے،علم بیان کریں گے اور ایسی باتیں تم سے کہیں گے جو تم نے کبھی سنی ہوں گی اور نہ ہی تمہارے آباؤ اجداد نے سنی ہوں گی۔ ان سے بچنا۔

آقا ﷺ اپنے اس فرمان میں اس رشتۂ علم کی ایک سند کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ جن کا علم اکابر کی نسلوں او ران کے قرون سے منتقل نہیں ہوا ہوگا، ان سے علم حاصل نہ کرنا۔ اس لیے کہ یہ لوگ اپنی طرف سے، اپنی خواہشات نفس، اپنی رائے اور اپنی فہم سے کوئی بات گھڑ لیں گے اور اسے دین کا نام دے دیں گے۔ آپ ﷺ نے ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا:

یرث هٰذا العلم من کل خلف عدوله ینفون عنه تاویل الجاهلین وانتحال المبطلین و تحریف الغالین.

(البيهقى، السنن الكبرى، 10: 209، رقم: 20700)

یعنی چاہیے کہ میرا علم دین جو میں تمہیں دے رہا ہوں، یہ ہر زمانے میں، ہر نسل میں عادل لوگ ایک نسل سے اگلی نسل تک منتقل کریں۔ایسے لوگ جوغلو کرنے والوں کی تحریف سے میرے دین کو بچاتے رہیں اور اس کے ابطال کرنے والوں سے میرے دین کو بچاتے رہیں، ان سے علمِ دین حاصل کرو۔کم علم اور جاہل لوگ علمِ دین کے غلط معنی نکالیں گے تو عادل لوگ ان سے میرے دین کو بچائیں گے۔ لہذا انہی عادل لوگوں سے علم حاصل کرنا۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ مجھے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا:

یابن عمر دینک دینک انما هو لحمک و دمک فانظر عمن تاخذ خذ عن الذین استقاموا و لاتاخذ عن الذین مالوا.

(الخطیب البغدادی، الكفایة فی علم الروایة، 1: 121)

یعنی تمہارا دین؛ دین ہے، اسے ہلکا نہ سمجھنا، یعنی ہلکی متاع اور کم دولت نہ سمجھنا۔ وہ تمہارے خون، گوشت اور تمہاری زندگی میں زیادہ اہم ہے۔ پس یہ دیکھو یہ دین کس سے لے رہے ہو؟ دین کی معرفت کس سے لے رہے ہو؟ میرے دین کا علم صرف ان لوگوں سے لو جو صاحبانِ استقامت ہیں۔

گویا دین ان سے نہ لو جو نفس اور دنیاوی اغراض کی طرف جھکتے ہیں اور حق اور استقامت کی راہ سے ہٹ جاتے ہیں۔ دین لینے سے پہلے اس شیخ اور استاد کے عمل، تقوی، استقامت، عدالت، ثقاہت، پرہیزگاری اور تمکن کو دیکھو۔

خطیب بغدادیؒ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک قول روایت کیا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے مسجد کوفہ میں خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

انظرو ا عمن تاخذون هٰذا لعلم فانما هوالدین.

(الخطيب البغدادی، الكفایة، فی علم الروایة، 1: 121)

یعنی لوگو یہ دیکھو کہ تم کتاب و سنت، حدیث اور فقہ کا علم کن لوگوں سے لے رہے ہو۔ یہ علم ہی دین ہے۔

حصولِ علمِ دین کے لیے ایسا نہیں ہے کہ جو کتاب کسی نے لکھ دی، وہ اٹھا کر پڑھ لی اور جو سامنے مسند پر بیٹھ گیا، اسے سن لیا اور جس نے خطاب کیا، اسے سن لیا۔ ایسا نہ کرو کیونکہ یہ علم؛ تمہارا دین ہے۔ اس سے تمہاری ہدایت، ضلالت، نجات اورہلاکت وابستہ ہے۔

(4) دین میں سند کی اہمیت

جلیل القدر تابعی علامہ محمد ابن سیرینؒ فرماتے ہیں:

ان هٰذا العلم دین فانظرو اعمن تاخذون دینکم.

(مقدمه مسلم شريف، 1: 14)

’’یہ علمِ اسناد خود دین ہے، اس لئے پہلے غور سے دیکھیں کہ یہ دین کس سے لے رہے ہو۔‘‘

یعنی علمِ دین کے بارے میں پہلے یہ دیکھنا ہے کہ کس سے لے رہے ہیں اور یہ بعد میں دیکھنا ہے کہ کیا لے رہے ہیں؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر علم حدیث، تفسیر اور فقہ کا شیخ قابل اعتبار نہیں تو اس کی کوئی بات بھی قابل اعتبار نہیں۔ یہ دیکھنا کہ ’’کس سے لے رہے ہیں؟‘‘ یہ علم اسناد ہے کہ ہم جس شیخ سے سن رہے ہیں، اس نے کس سے سنا اور اس کے شیخ نے کس سے سنا اور اس طرح اوپر تک ثقہ راویوں کا ہونا ضروری ہے۔

امام عبداللہ بن مبارکؒ نے فرمایا:

الاسناد من الدین ولو لا الاسناد لقال من شاء ماشاء.

(مقدمة مسلم، الصحیح، ج: 1، ص: 15)

’’اسناد؛ دین میں سے ہیں۔ اگر اسناد نہ ہوتیں تو ہر شخص جو چاہتا وہ کہہ دیتا۔ لوگوں کے درمیان اور ہمارے درمیان جو مضبوط ستون ہیں، وہ اسناد ہیں۔ یعنی دین کی بنیاد ان ستونوں پر قائم ہوتی ہے۔‘‘

ابن رجب حنبلیؒ نے امام عبداللہ ابن مبارک کا یہ قول بھی نقل کیا ہےکہ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کی امت کے اوپر اسانید کی حفاظت کی ہے تاکہ علم سند کے ساتھ آگے منتقل ہو۔

(ابن رجب الحنبلی، شرح علل الترمذی، ص: 664)

پس تعلُّم کی شرائط میں سے یہ شرط ہے کہ علم سند سے آگے منتقل ہو۔ اسناد؛ اشخاص ہیں کہ کون سا آدمی معتبر، متقی، صادق، امین اور عادل ہے۔ پہلے اس کی تحقیق کر لو پھر اس کے بیان کردہ متن کو دیکھو کیونکہ متن کا مدار اس شخصیت پر ہے جو اسے روایت کر رہا ہے۔ متصل سند کا حاصل کرنا بھی دین ہے کہ کہیں بے نسب دین نہ آجائے۔اسناد کو علم کا نسب کہتے ہیں جو تعلُّم کے طریق سے آتا ہے۔ پھر اس کے حدود و قیود متعین ہوتے ہیں اور اس کے صحیح یا غیر صحیح ہونے کا تعین ہو تا ہے۔

(5) علم صرف کثرتِ معلومات کا نام نہیں ہے

امام نووی آدابِ تعلم کے حوالے سے فرماتے ہیں:

جس کو اپنا استاد یا شیخ منتخب کریں اس کے بار ےمیں یہ یقین حاصل کر لیں کہ اس کے پاس صرف معلومات کی کثرت نہ ہو بلکہ علم کی کثرت ہو، گہرائی اور تعمق ہو اور اپنے علم و فن کے علاوہ اسے دیگر متعلقہ علوم و فنون پر بھی ضروری حد تک ملکہ ہو۔ کیونکہ یہ تمام علوم آپس میں جڑے ہوتے ہیں۔

(النووی، المجموع شرح المهذب، 1: 36)

اس لیے کہ کبھی ہم حدیث پڑھ رہے ہیں تو اس کا گہرا تعلق علوم قرآن و تفسیر کے ساتھ ہوتا ہے۔۔۔ تفسیر پڑھ رہے ہیں تو اس کا گہرا تعلق علم الحدیث سے ہوتا ہے۔۔۔ فقہ پڑھ رہے ہیں تو اس کا گہرا تعلق حدیث سے ہوتا ہے۔۔۔ اگر حدیث پڑھ رہے ہیں تو اس کا گہرا تعلق درایت او راخذ فقہ سے ہوتا ہے۔ پس کوئی استاد جس فن کا ماہر ہے، اس سے وہی پڑھیں مگر شرط ہے کہ اسے دیگر فنون پر بھی ضروری حد تک مہارت ہو تاکہ جب تلامذہ کو دیگر علوم سے تصور واضح (concept clear) کرنے کی ضرورت پڑے تو استاد ان علوم کے ذریعے بھی واضحیت دیتا ہوا نظر آئے۔ الغرض جتنے فنون مشروعہ ہیں، اساتذہ کی ضروری حد تک ان پر گرفت ہو کیونکہ یہ تمام علوم آپس میں مربوط ہیں۔

مزید کہ اس معلم کے پاس تجربہ ہو، مہارت ہو، اخلاق خوبصورت ہوں اور اس کا ذہن صحیح ہو۔ اس لیے کہ طالب علم؛ استاد کے ذہن سے متاثر ہوتا ہے، استاد کے خلق سے متاثر ہوتا ہے۔ استاد کی زبان، علم و فن، نظریات و رحجانات اور اس کے شب و روز کے تمام اطوار طلبہ پر اثر ڈالتے ہیں۔ اسی لئے امام نووی نے فرمایا کہ استاد کے ذہن کو بھی دیکھو، اس کے اخلاق، دیانت، تجربہ، مہارت اور وسعتِ علم کو بھی مدنظر رکھو۔

(6) حصولِ علمِ دین کے لیے اساتذہ کیوں ضروری ہیں؟

امام نووی اور دیگر ائمہ نے فرمایا کہ جس سے اکتسابِ علم کررہے ہیں، اس کی اطلاع تام بھی ہو۔ ائمہ نے ایسے شخص سے علم لینے سے منع کیا جس نے صرف کتابوں سے پڑھ کر عقیدہ و تصورات بنا رکھے ہیں۔ ایسے لوگوں سے وعظ و خطاب سنو اور عام معاشرت کی تربیت سنو، اس میں مضائقہ نہیں۔ یعنی جس علم میں معاشرت و معیشت ہو، وہ ان سے لے لیں مگر جب ایسےدائرہ علم میں جانا چاہیں جس سے عقیدے متعین ہوتے ہیں، جس سے اصول و نظریات وضع ہوتے ہیں، جس سے احکام اخذ ہوتے ہیں، جس سے جائز و ناجائز اور حلال و حرام حتی کہ صحیح اور غلط کا اطلاق ہوتا ہے تو یہ علم ایسے شخص سے ہرگز نہ لیں جس نے علم اساتذہ کے بغیر از خود محض کتابوں سے لیا ہوا ہے۔

پھر فرماتے ہیں کہ جس شخص نے خود شیوخ و اساتذہ کے سامنے بیٹھ کر نہیں پڑھا اور اپنے فن کے ماہر، عادل اور صالح استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ نہیں کیے بلکہ ازخود کتابیں پڑھ کر عالم بن گیا، اس سے علم نہ لیں، وہ آپ کو گمراہ کرے گا، کیونکہ وہ اس علم و فن کی حدو د و قیود سے ناواقف ہے۔ اسے نہیں معلوم کونسی چیز لینی ہے اور کونسی نہیں لینی۔۔۔؟ کسی لفظ یا اصطلاح کے کتنے معانی ہیں اور کون سے معنی کو ترجیح دینا ہے۔۔۔؟ کس معنی کا کس موقع پر اطلاق کرنا ہے۔۔۔؟ اس لیے کہ اس نے صرف کتب کے ترجمے پڑھے ہیں۔ اگر محض عبارت پڑھنے سے قرآن مجید سے اصلاح لینا ممکن ہوتا تو کوئی تفسیر قرآن نہ لکھی جاتی۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے دور سے تفسیر یں لکھنا شروع ہوئیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اور پھر ان کے شاگردوں نے تفاسیر لکھیں۔ جیسا کہ حضرت سعید بن جبیر، حضرت مجاہد، حضرت عکرمہ اور حضرت قتادہ رضی اللہ عنہم جیسے تابعین نے تفاسیر لکھیں۔ پھر جوں جوں زمانہ گزرتا گیا، ہزار ہا تفاسیر لکھی گئیں۔ یہ تفسیریں کیوں لکھی گئیں؟ اس لیے کہ اگر محض قرآنی آیات سے سب کچھ سمجھ آجاتا تو کوئی تفسیر نہ لکھتا۔ سلف صالحین منع کر دیتے کہ ہمیں قرآن کافی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ پورا قرآن سمجھنے کے لئے تفسیر کی ضرورت پڑتی ہے۔

قرآن مجید عربی زبان میں ہے جسے ہم نہیں جانتے۔ ہم نے ترجمے سے اسے سمجھنا ہے۔ یہ ترجمہ کس نے کیا ہے اور تفسیر کس نے کی ہے؟ ہر آدمی کا اپنا مزاج و مسلک ہے اور وہ اپنے نظریات کے مطابق ترجمہ و تفسیر کرتا ہے اور اس سے انحراف نہیں کرتا۔ اسی طرح حدیث میں کچھ مشکل عبارات اورادق کلمات ہیں جو از خود سمجھ نہیں آتے۔ اگر یہ سمجھ آنے والے ہوتے تو امام بخاری صحیح بخاری کے اندر احادیث سے پہلے ترجمۃ الباب مقرر نہ کرتے اور حدیث بیان کرنے سے پہلے اس کے مفاہیم واضح نہ کرتے۔ حدیث کی شرح نہ لکھی جاتی۔ تمام کتب حدیث کی شروح لکھی گئیں۔ ہزار ہا کی تعداد میں حواشی لکھے گئے اور یہ کام بڑے بڑے نامور ائمہ نے کیا۔

اگر سارے احکام قرآن و حدیث سے براہِ راست سمجھ آجاتے تو امام اعظم ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ کا وجود نہ ہوتا اور نہ ہی مذاہب بنتے۔ ان ائمہ نے قرآن و حدیث سے احکام اخذ کر کے مذاہب مرتب کئے اور فقہ کا علم وضع کیا اور یہ امت پر ان کا احسان ہے۔ امام شافعیؒ کئی سال امام مالکؒ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرتے ہیں، پھر بغداد میں امام اعظم ابو حنیفہ کے شاگر امام محمد بن حسن شیبانیؒ کی خدمت میں دس سال تلمذ کرتے ہیں۔ پھر امام شافعی کی خدمت میں امام احمد بن حنبل بیٹھتے ہیں ان سے اکتسابِ علم کرتے ہیں مگر اپنا فقہی مذہب الگ بناتے ہیں۔ امام احمد بن حنبلؒ؛ امام شافعی سے اکتسابِ فیض کے بعد قاضی ابو یوسف (امام اعظم ابو حنیفہ کے نامور شاگرد) کی مجالس میں بیٹھے اور اس طرح امام اعظم ابوحنیفہؒ کے پوتے شاگرد بن گئے۔ پھر امام بخاریؒ؛ امام احمد بن حنبل کے شاگرد بن گئے، وہ ان سے پڑھتے تھے اور صحیح بخاری بھی ان کی خدمت میں پیش کر کے اس کی توثیق کروائی تھی۔

اگر یہ ائمہ فقط کتابیں پڑھ کر ائمہ نہیں بن سکتے تو ہم کون ہیں کہ محض کتابیں پڑھ پڑھا کر عالم بن جائیں اور لوگوں کو تعلیم دیں۔ ائمہ کرام کے احوالِ زندگی پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ ان ائمہ کے متعدد شیوخ اور اساتذہ ہوتے تھے، جن کے پاس یہ زندگی گزارتے تھے اور تعلیم کے ایک process (طریقہ کار) سے گزرتے تھے۔ اسی مفہوم کو امام بخاریؒ نے اِنَّمَا العِلْمُ بِالتَّعَلُّم اور ’انما الفقه بالتفقه‘کے الفاظ حدیث کے ذریعے بیان کیا ہے۔

یہ چند نمونے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کوئی ایک امام بھی اس وقت تک امامت ِ علم کےدرجے پر فائز نہیں ہوا جب تک وہ متعدد شیوخ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کر کے مرحلہ وار تعلم و تفکر کے عمل سے نہیں گزرا۔ اسی لئے ائمہ فرماتے ہیں کہ کسی ایسے شخص سے نصیحت اور عام اصلاح کی باتیں تو لے لیں مگر وہ علم نہ لیں جن سے رائے، نظریہ اور فقہ قائم کرنی ہے۔ پس ایسے شخص سے علم نہ لیں جس نے علم کو سند سے نہیں لیا اور جس کے پاس علم کا نسب نہیں ہے۔

(7) محض کتب سے حصولِ علم کے نقصانات

امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ جو شخص صرف کتابوں سےعلم لیتا ہے، اس کے علم میں بڑی غلطیاں، گمراہی اور مغالطے ہوتے ہیں۔ اسے اپنے علم کی صحیح Application (اطلاق)نہیں آتی اور اس کے پاس تشریح اور اس سے جزئیات نکالنے کا علم نہیں ہوتا۔ پس ایسا شخص علم کو نقصان پہنچاتا ہے لیکن جو شخص حاذق استاد سے علم حاصل کرتا ہے، وہ گمراہی اور بھٹکنے سے محفوظ ہو جاتا ہے اور جو شخص صرف کتابوں سے علم حاصل کرتا ہے، اس کا علم کالعدم ہوتا ہے۔

(النووی شرح المهذب، 1: 36)

امام الآجری نے سورۃ النسآء کی آیت 95: يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَطِيعُواْ ٱللهَ وَأَطِيعُواْ ٱلرَّسُولَ وَأُوْلِي ٱلۡأَمۡرِ مِنكُمۡ کے ذیل میں بیان کیا ہے کہ’’حضرت عطاء (حضرت عبداللہ بن عباس کے شاگرد) فرماتے ہیں کہ کتاب و سنت کے علم کو ہمیشہ اپنے زمانے کے بڑے اعلی ائمہ، محدثین، علماء اور فقہا سے حاصل کرو۔ اسی علم کو علمِ صحیح کہتے ہیں اور جو علم اکابر کی سند کے بغیر آتا ہے، اسے قبول نہ کرو۔‘‘

(اللالکائی، شرح اصول اعتقاد اهل السنة والجماعة، 1: 72، رقم: 75)

اس کے بعد امام آجری؛ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ لوگ اس وقت تک خیر پر رہیں گے جب تک وہ علم اکابر سے حاصل کرتے رہیں گے۔

(اللالکائی، شرح اصول اعتقاد و اهل السنة والجماعة، 1: 74، رقم: 100)

اكابر سے مراد بوڑھا ہونا نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد Authorities (ثقہ علماء)، متفنن اور متمکن علماء ہیں۔ یعنی لوگ اس وقت تک خیر و بھلائی پر رہیں گے جب تک وہ علم؛ ماہرینِ علم اور حاذق اساتذہ سےحاصل کرتے رہیں گے اور از خود یا محض کتابیں پڑھ کر رائے قائم نہیں کریں گے۔

پھر امام آجری؛ حضرت سعید بن وہب کا قول نقل کرتےہیں کہ اس وقت تک لوگ بچے رہیں گے، خیر پررہیں گے جب تک علم؛ اکابر سے Process(طریقہ کار) کے ذریعے ان تک آئے گا اور وہ خود کواکابر کی دی ہوئی حدود و قیود کے اندر رکھیں گے اور جب وہ اکابر سے علم لینا بند کریں گے اور اصاغر سے لیں گے تو وہ ہلاک ہو جائیں گے۔

(اللالکائی، شرح اصول اعتقاد اهل السنة والجماعة، 1: 84، رقم: 101)

حضرت ابو امیہ بھی یہی بات کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اکابر کو چھوڑ کر چھوٹوں سے علم حاصل کرنا قیامت کی نشانیوں میں سے ہو جائے گا۔‘‘

(اللالكائی، شرح اصول اعتقاد اهل السنة والجماعة، 1: 85، رقم: 106)

اصاغر سے مراد عمر میں چھوٹا نہیں ہے بلکہ وہ شخص ہے جس نے علوم و فنون کے مراحل؛ تدرج، تعلم اور تفقہ کے بغیر اور اساتذہ کی سند، قواعد اور اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیے بغیر حاصل کیے ہیں۔ یعنی علم کو پوری مہارت سے نہیں پڑھا اور اکابر نے جو توضیح و تشریح کی تھی اس کے اندر اپنی رائے کو بند نہیں رکھا۔ جب ایسے اصاغر سے علم لیا جائے گا تو انجام ہلاکت ہو گا۔

لہذا اہلِ علم جب قرآن مجید کی تفسیر کر رہے ہوں تو کبھی نہ بھولیں کہ امام رازیؒ، امام قرطبی، امام سیوطی، امام بغوی، امام خازن، امام مکی، امام طبرانی رحمھم اللہ اور دیگر مفسرین نے اس ضمن میں کیا کہا۔ یعنی اکابر کو دیکھیں اور جو حدود و قیود انہوں نے متعین کی ہیں، اسے سامنے رکھتے ہوئے آج کے حالات اور تقاضوں کے پیش نظر تفسیر کریں۔

(8) علمِ دین کی حفاظت ماضی سے جڑ ے رہنے میں ہے

یاد رکھیں! علمِ دین کے بارے میں ہمیشہ ماضی کو ہاتھ میں رکھیں اور مستقبل کو Address (مخاطب) کریں۔ قدیم و جدید کو جوڑیں۔ ہدایت اور نور؛ قدیم اکابر سے لیں کیونکہ انہوں نے کتاب و سنت کو صحیح سمجھا تھا، قواعد و ضوابط سے سمجھا تھا اور صحت کے ساتھ منتقل کیا تھا۔ پھر اس ہدایت، اصول، ضابطہ اور رہنمائی کا اطلاق اپنی زندگی کے حالات اور مستقبل پر کریں۔ اسی طرح جدید کو بھی ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور جدید مسائل حل کرنے کے لئے نور؛ قدیم زمانہ سے لیں۔ قدیم و جدید کو جو اس طرح جمع کرتاہے اور قرون اولیٰ، سلف صالحین، ائمہ، محدثین،فقہا، مجتہدین کے علم کو اپنے اوپر پہرے دار بناتا ہے اور اپنے زمانے کے مسائل کو حل کرتا ہے، اجتہاد کرتا ہے تو وہ ہدایت پر رہتا ہے۔

جو کہتے ہیں کہ ہم نے کسی سے نہیں لینا، ہم صرف کتاب و سنت کو مانتے ہیں تو وہ چودہ سو سال کی چھلانگ لگانا چاہ رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ چودہ سو سال سے جو لوگ بیان کر رہے تھے، وہ قرآن و سنت نہیں تھا۔کیا حافظ ابن حجر عسقلانی، امام قسطلانی، امام عینی، ابن ملقن، امام طبرانی، امام سیوطی، قاضی عیاض اور امام نووی رحمھم اللہ تعالیٰ نے جو لکھا اور کہا وہ کتاب و سنت سے الگ کوئی اور شے تھا؟ یاد رکھیں! یہ ائمہ اور ان کا بیان کردہ علم حدود ہیں جو علم کو نسب والا علم بنا رہے ہیں۔ یہی علم نافع بن رہا ہے اور اس سے نور حاصل ہوتا ہے۔ پس اس علم سے قواعد و ضوابط لیں، اپنے آپ کو ان کے پہرے اور پابندی کےاندر قید کریں اور اس دائرے کے اندر رہیں، اگر اس سے باہر چھلانگ لگائیں گے تو ہلاک ہوجائیں گے۔جب لوگ کہیں گے کہ ہم اکابر کو نہیں مانتے، ہم آزاد ہیں، ہم خود اس کی تشریح کریں گے اور خود تعبیر کریں گے، تو علم میں ہلاکت آجائے گی، علم میں نور اور نفع ختم ہو جائے گا اور علماء اشرار الناس ہو جائیں گے۔ آقا ﷺ نے علماء کو خیار الناس قرار دیا ہے۔ پس وہ علمِ صحیح کو تعلم و تفقہ کے ذریعے اکابر سے حاصل کر کے نسل در نسل آگے منتقل کریں۔ آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا:

خیرکم قرنی ثم الذین یلونهم ثم الذین یلونهم.

(بخاری، جلد: 2، رقم: 2508)

یعنی سب سے بہتر میرا زمانہ ہے، پھر وہ زمانہ ہے جو ان سے ملے، پھر وہ جو ان سے ملے۔

رسول اللہ ﷺ نے ایک تدرج وضع فرمایا۔ سب سے بہتر میرا زمانہ ہے، اس سے مراد میرے صحابہ کا زمانہ ہے جنہیں علم براہِ راست منتقل ہوا۔ پھر تابعین کا جنھوں نے صحابہ سے لیا اور پھر تبع تابعین کا زمانہ ہے، جنہوں نے تابعین سے لیا۔

یہ بات ذہن نشین رہے کہ جوں جوں زمانہ ترقی کرے گا سائنس ترقی کرے گی، جیسے جیسے زمانہ آگے جائے گا، سائنس بھی آگے بڑھے گی اورنئی نئی ایجادات ہوں گی اور انسان ترقی کرے گا۔ مگر دین کا معاملہ یہ ہے کہ جیسے جیسے ماضی میں جائیں گے، اتناصحیح دین ملے گا۔ سائنس اور جدید علوم میں آگے بڑھتے جائیں گے تو سائنس کی معراج پر جاتے جائیں گے لیکن حصولِ علم دین کے لیے جتنا ماضی میں سفر کریں گے، دین کی معراج پر جائیں گے۔ دین کا اصول و ضابطہ یہ ہے کہ دین کی صحت پچھلے زمانوں اور صدیوں سے لیں جبکہ اس کا اطلاق آج کے دو ر پر کریں۔

علم و عمل میں مطابقت

سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نےارشاد فرمایا:

یا حملة العلم اعملوا به فانما العالم من عمل بما علم و وافق علمه عمله.

(الدارمی، السنن، 1: 118، رقم: 382)

اے اہلِ علم! جو علم تمہیں مل گیا، اس پر عمل کرواس لیے کہ عالم وہی ہے جو اپنے علم پر عمل کرے اور اس کا عمل اس کے علم کے ساتھ موافقت رکھے۔ اس لیے کہ آگے زمانے آئیں گے کہ لوگ علم اٹھائے پھریں گے، علم بیان کریں گے مگر وہ علم ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ اس علم نے ان کے دل کی حالت کو بدلا نہ ہو گا۔

آپ رضی اللہ عنہ نے عالم کی تعریف واضح کردی کہ وہ اپنے علم پر عمل کرتا ہے۔ جس شخص کی زبان سے علم سنیں اور وہ زندگی میں اس پر عمل کرنے والا نہ ہو تو وہ عالم نہیں ہے، لہذا اس سے علم نہ لینا۔ عالم وہ ہے جس کا عمل اس کے علم سے موافقت رکھے۔ ایسا نہ ہو کہ علم تو بہت اونچا بیان کرے مگر عمل بہت پست اور نیچے ہو۔قیامت کے قریب زمانوں میں بہت سارے علماء ایسے ہوں گے جو علم بیان کریں گے مگر وہ علم ان کے باطن میں نہیں اترا ہو گا اور نہ ہی وہ علم ان کا حال اور عمل بنا ہو گا۔ پگڑی، ٹوپی، عمامہ، جبہ، قبہ، لباس، دینداری، مسند، خطاب و وعظ، درس قرآن و حدیث سب ہوگا، سارا حُلیہ، نصیحت اور تربیت علما جیسی ہو گی مگر ان کا باطن اس کے برعکس ہوگا۔

کسی شخص کاظاہر دیکھنے سے پہلے اس کے باطن میں جھانکو اور اس کے باطن کو جاننے کی کوشش کرو۔۔۔ اس کا عمل اور اس کا حال جانچو۔۔۔ اس کی صداقت، زہد، ورع، تقویٰ، سلم و امن، حلم و تحمل، حکمت و معرفت اور اس کی پختگی دیکھو۔۔۔ اس کے اخلاق کو دیکھو، اگر اخلاق اچھا نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اس کے علم نے اس کی حالت نہیں بدلی تو وہ ہمیں کیا بدلے گا۔۔۔ پھر لوگوں سے اس کا برتاؤ دیکھو کہ اس کے دل میں نفر ت ہے یا محبت۔۔۔؟ تواضع ہے یا تکبر۔۔۔؟ لوگوں کو اچھا جانتا ہے یا حقیر۔۔۔؟اگر اپنے آپ کو اچھا سمجھ رہا ہے تو سب کچھ علم کے الٹ ہو رہا ہے۔ اس لیے کہ علم تو تواضع، خشیت اور انکساری عطا کرتا ہے، علم تو لوگوں کو حقیر دیکھنے ہی نہیں دیتا بلکہ وہ باقی تمام کو اپنے سے بہتر دیکھتا ہے۔

اگر علمِ صحیح ہو تو وہ اپنے عیوب دکھاتا ہے، لوگوں کے عیوب دیکھنے نہیں دیتا۔ ہمارا حال یہ ہے کہ عیب دیکھنا تو دور کی بات ہے ہم تو مسندوں پر بیٹھ کر دوسروں کے عیب اچھالتے ہیں۔۔۔ لوگوں کو للکارتے اور مناظرے کی دعوت دیتے ہیں۔۔۔ مجادلے کرتے اوراختلاف کو مخالفت بنا دیتے ہیں۔۔۔ تصادم وفساد بپا کرتے اور دھڑے بندی و تفرقہ پیدا کرتے ہیں۔۔۔ دشمنیاں پیدا کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے گلے کٹواتے ہیں۔۔۔ کسی ایک کا مرید اورشاگرد دوسرے کےاستاذ کی عزت نہیں کرتا تو بتائیے کہ کیا یہ علم ہے۔۔۔؟ یہ علم نہیں بلکہ ہلاکت اور جہنم ہے۔ اگر میرے شاگرد مجھ سے علم لیتے ہیں اور کسی دوسرے کے استاد کو گالی دیتے ہیں تو انھوں نے میرے علم سے کیا سیکھا۔۔۔؟ ایسا علم ان کے لیے ہلاکت ہے۔ اگر میرا ادب کرتے ہیں اور دوسرے کے استاد کا ادب نہیں کرتے تو میرے ادب سے کیا سیکھا۔۔۔؟

ہر عالم اور مدرس کو اس امر کا اہتمام کرنا چاہیے کہ جس طرح اس کے شاگرد اس کاادب کرتے ہیں، اسی طرح وہ دیگر علماء و مدرسین کا بھی ادب کریں۔استاد، شیخ اور عالم کو چاہیے کہ اپنے مریدین، معتقدین اور تلامذہ کو بڑوں کا ادب اور ان کی عزت کرنا سکھائے۔ یہ اسی صورت ہوگا کہ جب طلبہ اور مریدین اپنے اساتذہ، شیوخ اور علماء سےکسی اور کے بارے میں ایک بھی منفی جملہ نہیں سنیں گے۔ جب وہ اساتذہ سے تضحیک، طعن و تشنیع اور تنقید نہیں سنیں گے تو ان کی زبانیں بھی بند ہوجائیں گی لیکن جب علماء، مشائخ اور اساتذہ دوسرے لوگوں کو اپنی مجالس میں طعن و تشنیع کا نشانہ بنائیں گے، تنقید کریں گے، تذلیل کریں گے، چغلی کریں گے، علم کے پردے میں دوسرے کو اپنے سے حقیر ثابت کرنے کی کوشش کریں گے، مذاق اڑائیں گے اور شاگرد یہ سب سنیں گے تو وہ شیخ و معلم سے سو گنا بڑھ کر بد اخلاقی اور بے ادبی کا مظاہرہ کریں گے۔

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اسی حقیقت کو واضح کررہے ہیں کہ ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ اپنے آپ کو اہلِ علم کہلوانے والے لوگ حلقے بنائیں گے، ان کی مجالس ہوں گی، مکتب و مدرسے ہوں گے، مسندیں لگائیں گے اور وہاں بیٹھ کر علم کے ذریعے اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔ وہ مفاخرت کریں گے اور تفوق ثابت کریں گے یہاں تک کہ دل تنگ ہو جائیں گے۔ ایسے علم پھیلانے والے لوگ اپنے شاگردوں اور مریدوں پر غصہ کرتے ہیں کہ وہ دوسرے کی علمی مجلس میں کیوں گئے۔ وہ انھیں کسی اور سے خیر لینے کی اجازت نہیں دیتے۔ یاد رکھیں! دوسروں سے روکیں گے، تو وہ تنگ دل اور متعصب ہو جائیں گے۔

مولا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرمارہے ہیں کہ جب ایسے زمانے آئیں تو تم لوگوں کو ان کے علم، عمل اور حال میں پرکھو۔ کیونکہ وہ مجلس میں اور ہوں گے اور اعمال کچھ اور ہوں گے۔۔۔ جو کچھ کہیں گے، وہ خود اسے نہیں کریں گے۔۔۔ نتیجتاً ان کے اعمال نیکیاں نہیں بنیں گے اور نہ ہی ان کی نیکیاں اللہ کی بارگاہ میں اٹھائی جائیں گی، بلکہ سب کچھ برباد ہو جائے گا۔ جو انہیں سنیں گے اور ان کی پیروی کریں گے، لامحالہ اس علم سے ان کی بھی ہلاکت اور بربادی ہو گی۔

اللہ تعالیٰ ہمیں علمِ نافع عطا فرمائے اور علم و عمل میں مطابقت نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ