قرآن اور اعلیٰ انسانی کردار کی تشکیل کے ضابطے

ڈاکٹر نعیم انور نعمانی

انسان کو اس ذات کا پرتو ہونا چاہیے جس نے اس کو خلق کیا ہے۔ یہ مخلوق ہوکر اپنے خالق کی صفات کا آئینہ دار ہو اور اس کی صفات کی عملی شہادت اپنے کردار سے پیش کرے تو یہی اس انسان کی شخصیت و کردار کی تعمیرکے لیے سب سے بڑا ضابطہ اور اصول ہے۔ ایک انسان کو اپنی صفات اور خصائل میں عالمگیرانسانی اخوت کا پیکر ہونا چاہیے اور ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو اس تعلق اخوت میں ہر لحظہ مضبوط کرتا ہوا دکھائی دے تو اس کی شخصیت صحیح نہج پر اپنے کردار کی تعمیر کا آغاز کررہی ہوگی۔

انسان کی زندگی دو مرحلوں سے گذرتی ہے:

  1. تخلیقِ ذات
  2. تشکیلِ سیرت

تخلیقِ ذات کے مرحلے میں باری تعالی نے سب کو مساوی رکھا ہے۔ سرتاپا ہر انسان کو خوبصورت اور دلکش انسانی اعضا عطا کیے ہیں اور حسنِ توازن سے معمور کیا ہے اور یوں اس انسان کو تمام مخلوقات کے مابین اشرف الخلق بنایا ہے۔ اس پوری کائناتِ خلق میں جس قدر باری تعالی نے انسان کو حسین وجمیل بنایا ہے، اس قدر کسی اور مخلوق کو نہیں بنایا ہے۔

اس انسان کی زندگی کا دوسرا مرحلہ تشکیلِ سیرت کا ہے۔ یہ مرحلہ بڑا ہی کٹھن اور بڑا ہی شدائد کا حامل ہے اور اگر اس کی کامل معرفت نصیب ہوجائے اور احکاماتِ الہیہ کے مطابق اور موافق ہوجائے تو اس کی تکمیل آسان ہوجاتی ہے اور اگر یہ احکامِ ربانی کے خلاف اور نفس کی خواہشات کی پیروی میں طے ہو تو یہ تخریبِ نفس اور تذلیلِ انسانیت اور ندامتِ انسانی کا ایک نشان بن جاتا ہے۔

اس سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ انسان ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیہ کا سفر اختیار کرے اور خود کو اللہ کے رنگ سے رنگ لے۔ اس کی عملی صورت یہ ہے اپنی شخصیت اور اپنے کردار کی تشکیل سورۃ الفاتحہ میں مذکور درج ذیل اصولوں اور ضابطوں پر کرے:

1۔ پیکرِ اخوت

ایک مسلمان الحمدللہ رب العالمین کے کلمات کے ذریعے اپنے رب کی آفاقی اور کائناتی اور عالمی ربوبیت کا اقرار کرتا ہے۔یہ اقرار تقاضا کرتا ہے کہ مسلمان ایک عالمی اور آفاقی نظام ربوبیت سے وابستہ کرکے محدود عصبیتوں، گروہی وفاداریوں، رنگ و نسل کے دائروں اور طبقاتی تقسیموں سے خود کو الگ تھلگ کرلے اور خود کو ایک وحدت کی لڑی میں پرو دے۔

اسلامی اخوت اور اسلامی وحدت کا ہر ایک مسلمان سے یہی مطالبہ ہے کہ ہم دوسرے انسانوں سے نفرت نہ کریں اور ان سے کسی قسم کا تعصب نہ کریں اور ان سے حق زیست نہ چھینیں۔ ہر ایک انسان کو اپنے سینے سے لگائیں۔ ہر کسی کی فلاح و بہبود کا سوچیں،اپنے عمل کو اخوت اور محبت والا بنائیں۔ اپنی ذات و کردار سے وحشت اور بربریت کا خاتمہ کریں۔ زبان و قلم کو وحدت و اخوت سے آشنا کریں، ہر دجل و فریب سے اعراض کریں، فرقہ پرستی اور فرقہ واریت سے خود کو الگ کریں، اپنی مخصوص سوچ کو ہی صرف اسلام نہ کہیں بلکہ دوسروں کی سوچ کا بھی احترام کریں۔ خود کو ہی اسلامی وحدت اور اسلامی اخوت کا علمدار تصور نہ کریں بلکہ دوسروں کو بھی اسلامی وحدت اور اسلامی اخوت کا حامل اور صاحبِ کردار سمجھیں۔

ہم اسلام اور اس تعلیمات کے ٹھیکیدار نہ بنیں بلکہ مبلغِ اسلام اور محافظِ دین بنیں۔ اپنے قول و فعل کے ہر تضاد کو دور کریں اور اپنے دل و نگاہ کو مسلمان بنائیں اور اعلیٰ مسلمان شخصیتوں کی طرح جینے والے بنیں۔ اللہ رب العزت کی شان ربوبیت مسلمان کو اپنی شخصیت و کردار کی تعمیر کے باب میں دعوت دیتی ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کا اور اپنے اہلِ خانہ کا خود کفیل بنے اور اپنے وسائل کی کثرت کے ساتھ اپنے سارے خاندان والوں کی حاجت روائی کرے حتی کہ اللہ کی شان ربوبیت سے مستفید ہوتے ہوئے خلق خدا کی کثیر تعداد کی کفالت کرنے والا بنے۔

2۔ پیکرِ شفقت و رحمت

انسان کی شخصیت و کردار کی تشکیل کا دوسرا ضابطہ یہ ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کے لئے خود کو پیکر رحمت اور شفقت بنائے۔ اللہ تعالیٰ الرحمن الرحیم کی صفات کا حامل ہے۔ اس نے سورۃ فاتحہ میں اپنی ربوبیت عامہ کا تعارف بھی صفتِ رحمت سے کرایا ہے اور یہ صفت رحمت ایک ایسی صفت ہے جو ہر کمال کو محیط ہے۔ اللہ رب العزت کے ہر فعل سے اس کی یہ صفت یکسا ں جھلکتی ہے اور اسی بنا پر باری تعالیٰ نے پورے قرآن میں اس صفت کو بار بار بیان کیا ہے۔

اللہ نے اپنی شان ربوبیت کا تعارف شان رحمت کے ساتھ کراکر اپنی عبادت کی حقیقت کو واضح کردیا ہے کہ اسلام میں عبادت اور خدا پرستی کی بنیاد جلال پر نہیں ہے بلکہ اللہ کی شانِ جمال پر ہے۔ قہرو غضب پر نہیں بلکہ رحمت و رافت پر ہے۔ اسی طرح خوف و سزا پر نہیں بلکہ اللہ کی شانِ لطف و عطا پر ہے۔ کسی قسم کی وحشت پر نہیں بلکہ سراسر محبتِ الہٰی پر ہے حتی کہ صرف اور صرف تصورِ جزا پر نہیں بلکہ اللہ کی شان رضا پر ہے۔

الرحمن الرحیم کی یہ الوہی صفات ہر انسان کو پیغام دیتی ہیں کہ وہ اپنے اندر وصفِ رحمت کا پر تو پیدا کرے۔ صفت رحمت سے انسان کا متصف ہونا ہی اس کی شخصیت کا کمال ہے اور اسی طرح انسان کے اخلاق کا چراغ صفات الہیٰہ سے روشن ہوگا۔

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں اپنی حسین و جمیل خوبیوں کا ذکر اس لیے کرتا ہے کہ انسان بھی اپنے آئینہ شخصیت میں ان خوبیوں کو عملاً اختیار کرنے والا نظر آئے۔ وہ اپنی رحمتِ واسعہ کا ذکر اس لیے کرتا ہے کہ انسان بھی اس کی مخلوق کے لیے سراپا رحمت بن جائے۔۔۔ رافت و شفقت کا ذکر اس لیے کرتا ہے کہ انسان بھی دوسرے انسانوں کے حق میں عفو و درگذر اور لطف و کرم کا پیکر بن جائے۔ اگر ہم دوسرے لوگوں پر رحم و کرم نہیں کرسکتے تو ہم اپنی خطاؤں اور لغزشوں پر اپنے مولا کے لطف و کرم کے مستحق کیسے بن سکتے ہیں؟ ہمیں اس کے محسنین بندوں میں شامل ہوکر لوگوں سے ان کی خطاؤں پر عفو و درگذر بھی کرنا ہے اور ان کی غلطیوں پر اپنے غیض و غضب سے بھی انھیں بچانا ہے۔ اگر کوئی انسان اس کے ساتھ برائی کرے تو یہ اس کے بدلے میں اس کے ساتھ اچھائی کرے اور اس کی ہر برائی کا بدلہ اچھائی، نیکی اور خیر خواہی سے دے۔

یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ نیکو کاروں سے زیادہ گناہگار اور صحت مندوں کی بجائے بیمار اور دولتمندوں کی نسبت غریب لوگ ہماری توجہ اور رحمت و محبت کے زیادہ مستحق ہیں۔ طبیب کا کام مرض سے نجات دلانا ہے، مریض سے نجات حاصل کرنا نہیں۔ اس طرح مصلح کی ذمہ داری گناہگار سے نفرت نہیں بلکہ اس کو گناہ سے دور کرنا ہے اور وہ گناہگار ہماری محبتوں کا مستحق ہے۔ جس کو باری تعالی بھی ’’یَاعِبَادِی‘‘ کے پیار بھرے کلمات کے ساتھ بلاتا اور پکارتا ہے:

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ.

الزمر، 39: 53

’’آپ فرمادیجئے ! اے میرے گناہگار بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے۔‘‘

یہ محبت بھرا اسلوب خطاب ایک گناہگار اور خطاکار کے دل سے وحشت اور خوف کو نکال باہر کرتا ہے۔۔۔ وہ پکارنے والے سے مانوس ہوکر اس کی قربت اختیار کرتا ہے اور اپنی اصلاح کی طرف مائل ہوتا ہے۔ اللہ کو اپنے گناہگار بندوں سے بڑی محبت ہے، اس لیے کہ ان کی نظر تو فقط خدا کی رحمت اور مغفرت پر ہوتی ہے اور یہ نعمتوں اور جنتوں کے طالب نہیں ہوتے۔ اسی لیے رحمتِ حق بھی دکھی دلوں، منکسر طبیعتوں اور شرمسار نگاہ والوں کو اپنی بے پایاں رحمت اور اپنی عظیم مغفرت سے نوازتی ہے۔

3۔ پیکرِ عدالت و امانت

انسان کی شخصیت کو بنانے اور سنوارنے کے لیے ایک ضابطہ اور اصول؛ کردار میں عدالت اور امانت کو پیدا کرنا ہے۔ سورۃ فاتحہ میں مذکور مالک یوم الدین کا معنی و مفہوم یہی ہے کہ ہر نیکو کار اور ہر بدکار کو اپنے عمل کا صحیح بدلہ، جزا اور سزا کی صورت میں مل کر رہے گا۔ کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہوگی۔ یوم الدین صحیح معنوں میں یوم العدل ہوگا۔ جب حقیقی زندگی میں ہر شخص کو وہی مقام ملے جس کا وہ حقیقت میں مستحق اور اہل ہے تو اس عمل کو ہی عدل کہتے ہیں اور اگر حقدار کو صحيح مقام نہ ملے یا غیر اہل کو وہ مقام ملے جس کا وہ حقدار نہ تھا تو اسی کا نام ظلم ہے۔ظلم کی خصلت انسانوں کی ہے جبکہ اللہ کی سنت اپنی مخلوق پر رحمت و مغفرت کی ہے۔ اس لیے وہ اس حقیقت کو بڑے واشگاف الفاظ میں بیان کرتا ہے:

اِنَّ اللهَ لَایَظْلِمُ النَّاسَ شَیْئًا وَّلٰـکِنَّ النَّاسَ اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ.

(یونس، 10: 44)

’’بے شک اللہ لوگوں پر ذرّہ برابر ظلم نہیں کرتا بلکہ لوگ (خود ہی) اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنا تعارف رحمن و رحیم سے کروایا وہاں مالک یوم الدین کے ذریعے وہ اپنے بندوں کو باور کرارہا ہے کہ صفت رحمت میری کمزوری بھی نہیں کہ میں عذاب کے حقداروں کو عذاب ہی نہ دوں۔ سن لو! میں جبار و قہار ہوکر ظالموں کو سزا دینے والا ہوں۔ میری رحمت کا تقاضا یہ ہے کہ مظلوموں کو رحمت میسر آئے اور ظالموں کو سزا اور قہر و غضب میسر آئے۔

مسلمان کے اندر مظلوموں کے لیے حمایت اور ظالموں کے لیے عقوبت کے جذبات پائے جائیں تو سمجھ لیں کہ اس کی شخصیت متوازن ہے۔ اللہ رب العزت کی شان ربوبیت بھی رحمت اور عدالت کی صفات سے متصف ہے اگر ان دونوں میں کوئی ایک بھی مفقود ہوجائے تو اس کا نظام ربوبیت درہم برہم ہوجائے۔ اسی طرح انسان کی شخصیت کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ اس میں عدالت اور امانت کی صفات پائی جائیں تاکہ وہ صفت رحمت کے باعث محض نرمی کا برتاؤ نہ کرے اور یوں اپنی شخصیت کو کمزور نہ بنا بیٹھے بلکہ رحمت کےساتھ ساتھ عدالت کا وصف بھی پایا جائے، جس کی وجہ سے وہ ہر ظالم و مظلوم، طاقت ور اور کمزور اور مستحق و غیر مستحق کو اپنے مقام پر رکھ سکے۔ وہ معاملات زندگی اور اپنے فرائض منصبی نبھاتے ہوئے کسی طاقت ور سے مرعوب ہو اور نہ ہی کسی کمزور کی کمزوری سے متاثر ہوسکے۔ کسی امیر کی امارت اور کسی دولتمند کی دولت اسے عدل سے منحرف نہ کرسکے اور کسی غریب کی غربت اور بے کس کی بے کسی اور قابل رحم حالت اسے عدل سے الگ کرکے ظلم نہ کرنے دے۔

ایک متوازن شخصیت و کردار وہ ہے جس میں جذبات شفقت بھی ہوں اور حق کے خلاف طاقتِ انتقام بھی ہو تاکہ مظلوموں کی داد رسی کرسکے اور ظالموں کو عبرتناک انجام تک پہنچاسکے۔ حتی کہ مرد مومن بن کر اور ایک متوازن شخصیت و کردار بن کر اقبال کے اس شعر کا مصداق بن جائے۔

ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

4۔ پیکرِ استغناء

تعمیر ذات اور شخصیت اور کردار کے لیے ایک اور اصول و ضابطہ یہ ہے کہ مسلمان پیکر استغناء ہو اور اپنی عزت نفس کا ہر لمحہ پاسباں ہو۔ یہ ضابطہ انسان کو ایاک نعبد وایاک نستعین کے انقلاب آفریں کلمات عطا کرتے ہیں۔ انسان پوری دنیا کے ناخداؤں اور فرعونوں کے سامنے ان کلمات کے ذریعے یہ برملا اعلان کرتا ہے:

میرا سر خدا کے سوا کسی اور کے سامنے جھکے گا اور نہ میرا دستِ طلب خدا کے سوا کسی اور کے سامنے دراز ہوسکے گا۔ ۔۔ اے مولا! تیرے سوا نہ کسی کے خوف سے جبین نیاز جھکاؤں گا اور نہ ہی دنیا کی کوئی حرص و لالچ مجھے کسی کے سامنے سرتسلیم خم کراسکے گی۔۔۔ کوئی شخص خواہ کتنا ہی بڑا آمر و مقتدر کیوں نہ ہو اور کتنا ہی بڑا نمرود و فرعون کیوں نہ ہو، وہ میرا سر تو کاٹ سکتا ہے مگر میرے سرکو اپنے سامنے جھکا نہیں سکتا۔۔۔ میں تیرا بندہ ہوں، تیری بندگی ہی میری کل زندگی ہے، ميں اس میں کسی اور کو شریک ہرگز ہرگز نہ کروں گا۔۔۔ دنیا کے بڑے بڑے قارونوں کے سامنے میرا دامنِ سوال کبھی دراز نہ ہوسکے گا۔۔۔ میں کٹ تو سکتا ہوں مگر میرا ضمیر بِک نہیں سکتا۔۔۔ اے اللہ! میں تیرے سوا دنیا کی ہر طاقت سے مستغنی ہوں، یہی میری بندگی ہے۔۔۔ اپنی اس بندگی کو استغناء کی زندگی سے آشنا کرتا ہوں اور اپنی بندگی کو ہر حال میں عزتِ نفس کی پابندی کی زندگی بناتا ہوں اور اپنی خودی کی اس زندگی میں خوب حفاظت کرتا ہوں۔۔۔ دولتمندی اور امیری کی قوت کو بھی اس فقیرانہ زندگی کا اسلوب بدلنے نہ دوں گا۔ اس لیے اقبال نے کہا:

میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر

5۔ پیکرِ تواضع و انکساری

انسان کی ذات اور شخصیت کی تعمیر و تشکیل کے لیے قرآن ایک اور ضابطہ سورہ فاتحہ کے ذریعے پیکر تواضع وانکساری اور سراپا عجز و نیاز مندی بننے کا دیتا ہے۔ یہ اصول شخصیت سازی اھدنا الصراط المستقیم کے کلمات کے ذریعے دیتا ہے۔ اس لیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ استغنا کا تصور رفتہ رفتہ انسان کے اندر تکبر و غرور سے بدل جائے۔ اس لیے کہ استغنا اور تکبر ان دونوں کی سرحدیں قریب قریب ہوتی ہیں جن کے درمیان فرق کو بہر طور پر پیش نظر رکھنا ہے۔ عدمِ التفات اور بے پرواہی کا وطیرہ اگر فرعون صفت، طاقتور اور ظالم و جابر لوگوں کے ساتھ رکھا جائے تو اس کا نام استغناء ہوجاتا ہے اور اس کے برعکس اگر یہی وطیرہ کمزور غریب اور بے کس و مظلوم افراد کے ساتھ رکھا جائے تو اس کا نام تکبر بن جاتا ہے۔اسی لیے بیان کیا گیا ہے:

التکبر مع المتکبرین عبادة.

’’متکبر افراد کے ساتھ تکبر کرنا عبادت ہے۔‘‘

گویا متکبر افراد سے استغنا برتنا نیکی ہے اور کمزور افراد سے استغنا کرنا گناہ عظیم ہے۔ متکبرین کے ساتھ استغنا انسانی عزت کی علامت ہے جبکہ ضعیفین کے ساتھ استغنا انسانی ذلت کا نام ہے۔ اھدنا الصراط المستقیم کے کلمات کے ذریعے انسانی شخصیت میں تواضع و انکساری کے احساسات پیدا ہوتے ہیں۔ وہ بارگاہ الہی میں سراپا عجز و سوال بن کر عرض کرتا ہے:

اے مولا میں عاجز و بے کس ہوں، میری سوچ میں خطا کے سوا کچھ نہیں، بس صرف تیری ہی ذات ہے جو مجھے راہ راست پر لاسکتی ہے اور حقیقی زندگی کی دولت سے بہرہ ور کرسکتی ہے۔

جب انسان یہ مسلسل اظہار کرنے لگتا ہے تو اس کے اندر تواضع، انکساری اور نیاز مندی کی کیفیات پیدا ہوتی ہیں۔ حقیقتِ بندگی یہی ہے کہ انسان خود کو اللہ کے حضور عاجز و ناتواں سمجھے۔ جو شخص جس قدر بارگاہ الوہیت میں جھکتا جائے گا، اسی قدر بلند ہوتا جائے گا اور جس قدر عجزو نیاز اور گریہ و زاری کا مظاہرہ کرے گا، اسی قدر وہ عظیم ہوتا جائے گا۔اس لیے کہ عبدیت کی انتہا غایت تدلل ہی ہے۔ اسی صورت میں بندے پر خدا کی عطاؤں کے دروازے کھلتے ہیں اور بارگاہ ایزدی سے بزرگی و عظمت کا تاج پہنایا جاتا ہے۔ بندہ وہ ہے جو ہر لحظہ اللہ کے حضور سوالی بن کر رہے اور ہر حال میں اس کی عطاؤں کی بھیک مانگتا رہے اور اپنی طلب کا دامن ہر لحظہ دراز رکھے۔ اپنی حسنِ طلب کو بڑھاتا رہے اور اپنے بشری ظرف کو بندگی کے ظرف میں بدلتا جائے تو پھر رب کی عطا بندے پر مہربان ہوجاتی ہے اور اس کا کرم بندے کو اپنی طرف بلاتا رہتا ہے۔

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے رہرو منزل ہی نہیں

6۔ پیکرِ اعتدال و توازن

انسان کی شخصیت و کردار کی تعمیر کا ایک ضابطہ اور اصول اس کا پیکر اعتدال و توازن ہونا بھی ہے۔ یہ ضابطہ ہمیں قرآن حکیم کے ان کلمات اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولاالضالین سے میسر آتا ہے۔ اس لیے کہ راستے تین طرح کے ہیں:

1۔ ایک راستہ غضب کا ہے

2۔ دوسرا راستہ ضلالت کا ہے

3۔ تیسرا درمیانی راستہ نعمت کا ہے۔

تیسرے راستے یعنی طریقِ نعمت کی مخالفت دو سمتوں سے ہوتی ہے:

  1. افراط کی سمت سے
  2. تفریط کی سمت سے

افراط اور تفریط دونوں سے بچاؤ کا راستہ اعتدال اور توازن کا ہے۔ اللہ رب العزت نے امت مسلمہ کو امت وسط بنایاہے اور اس امت کے ہر فرد اورہر مسلمان کو بھی اپنی زندگی میں معتدل اور متوازن رہنے کی تاکید کی ہے۔ اسی حقیقت کو یوں بیان کیا ہے:

وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلٰی النَّاسِ.

البقرة، 2: 143

’’اور اے مسلمانو! اسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہوجاؤ۔‘‘

قرآن تمام مسلمانوں کو افراط و تفریط سے ہٹ کر اعتدال کی راہ پر گامزن رہنے کی تلقین کرتا ہے اور یہ بات سمجھاتا ہے کہ اللہ کی رحمت کے حصول کی راہ اعتدال ہے۔ افراط سے انسان خدا کے قہرو غضب کا شکار ہوتا ہے اور تفریط سے انسان گمراہی کے اندھیروں میں ٹھوکریں کھاتا ہے۔یہ دونوں انتہا پسندی کے راستے ہیں جبکہ اعتدال میانہ روی کا راستہ ہے۔ انسان کےاعضاء و جوارح میں بھی باہمی تناسب اور اعتدال ہے اور انسانی شخصیت کا حسین و جمیل ہونے کا نسخہ بھی صرف اعتدال و توازن ہے۔ حتی کہ باری تعالی نے انسان کو اپنی بول چال، خرچ، طعام، لباس، معاملاتِ زندگی الغرض ہر حوالے سے اعتدال کے وصف کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔

اگر ہم ساری کائنات میں غوروفکر کریں تو اجرامِ فلکی، نظامِ شمسی کے ارکان اور تمام متحرکات عالم اپنی ایک ایک حرکت میں اعتدال و توازن کی گواہی و شہادت دے رہے ہیں۔ بصورت دیگر یہ سارے کا سارا نظام درہم برہم ہوجاتا۔ اسی طرح انسانی صحت ہو یا انسان کا ظاہری حسن وجمال، حسن نباتات ہو یا دلکشیٔ عمارات، نغمات کے الفاظ و تراکیب ہوں یا ان کی صوتی حلاوت و دلکشی، سب کچھ صرف اور صرف تناسب و اعتدال کا ہی کرشمہ ہے۔ اگر ان سب چیزوں میں اعتدال نکال دیا جائے تو کچھ بھی باقی نہ رہے اور کسی بھی چیز کا حسن وجمال قائم نہ رہے۔ اسی طرح یہی حسن اعتدال و توازن انسان کے عقیدہ و عمل میں بھی درکار ہے۔ اگر اس میں سے یہ اعتدال و توازن ختم ہوجائے تو اسے بدعقیدگی اوربداعمالی کہتے ہیں۔ پس انسان کی شخصیت کی کل خوبصورتی اعتدال اور توازن سے ہی قائم ہوتی ہے بصورت دیگر انسانی شخصیت غیر متوازن ہوکر رہ جاتی ہے۔

7۔ پیکرِ حق گوئی

انسانی شخصیت اور اس کے کردار کی تعمیر کا ایک انتہائی اہم ضابطہ اور اصول حق و باطل کے مابین واضح امتیاز کا ہے اور انسان کو اس کا پیکر ہونا بھی ہے۔ انسان کے لیے ضروری ہے وہ اپنی زندگی میں ہر سطح پر حق اور باطل کے درمیان امتیاز کرنے والا بنے۔ اس کارگہ زیست میں از اول تا آخر صرف دو ہی راستے ہیں:

  1. راہِ حق
  2. راہِ باطل

ایک سچائی کی راہ ہے اور دوسری جھوٹ اور برائی کی راہ ہے۔ آفرینش عالم سے انسانی طبقات کے درمیان جب بھی جنگ و جدال اور تضاد و تصادم کی صورت حال پیدا ہوئی ہے تو اس میں حق و باطل کے امتیاز کا بھی کسی نہ کسی صورت میں دخل رہا ہے اور یہی تصور اختلاف و تصادم کا سبب بھی بنتا رہا ہے ۔یہ بات بھی صحیح ہے کہ انسان نے حق اور باطل کے تعین میں ٹھوکریں ضرور کھائی ہیں لیکن یہ ان دونوں کے شعورسے کبھی دستبردار نہیں ہوا ہے۔

یاد رکھیں کہ حق اور باطل کے درمیان امتیاز کا شعور کبھی انسان کا ذاتی مفاد و نفع نہ ہو بلکہ اللہ رب العزت کا انسانوں کو عطا کردہ شعور اور تعلیمات اسلام کے صائب فہم سے ہی حق و باطل کے امتیاز کا شعور پیدا کریں۔ ذاتی مفاد کی محبت اور دوسرے انسان کی عداوت و نفرت وجۂ امتیاز حق و باطل نہ بنے۔ حق انسانی شخصیت کے اندر کلی اور ہمہ گیر انقلاب کانام ہے، جزوی تبدیلی کا نام حق نہیں ہے۔ اگر حق انسانی شخصیت و کردار میں خالصتاً جاگزیں ہو تو اسے ایمان کہتے ہیں اور اگرباطل خالصتاً جاگزیں ہو تو اسے کفر کہتے ہیں اور اگر حق و باطل دونوں کے رجحانات باہم ملے جلے ہوں اور دونوں کی آمیزش ہو تو اسے منافقت کہتے ہیں۔ اس لیے قرآن اعلی کردار اپنانے کے لیے اسلام میں کامل دخول کی تلقین کرتا ہے اور اسی عمل کو انسان کی شخصیت اور کردار کی کامیابی سے تعبیر کرتا ہے۔ اس لیے فرمایا:

یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّةً.

البقرة، 2: 208

’’اے ایمان والو! اسلام میں یعنی حق کے عمل میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ۔‘‘

اس کا نتیجہ یہ ہوگا فرمایا:

وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ.

آل عمران، 3: 139

’’اور تم ہمت نہ ہارو اور نہ غم کرو اور تم ہی غالب آؤ گے اگر تم (کامل) ایمان رکھتے ہو۔‘‘

اسلام میں داخل ہونا اور مسلمان بننا از خود اعلی کردار کو اختیار کرنا ہے اور خود کو قابل رشک شخصیت بنانا ہے اور اپنے کردار کو دوسرے کے لیے مشعل راہ بنانا ہے اور اپنی ذات اور کردار کو اسلام کی حقانیت کی شہادت بنانا ہے۔ کردار کا مسلمان ہونا صرف ثوابی ہونا نہیں بلکہ انقلابی ہوکر پورے عالم انسانیت کے سامنے شہادتِ کردار سے صداقتِ اسلا م کو ثابت کرنا ہے۔ اس لیے کسی نے کیا خوب کہا:

یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا

اے مسلمانِ عصر! تو ایسا انسانِ زمانہ بن جس کی زندگی کا صرف سال نہ بدلے بلکہ اس کا کردار بھی بدلے۔۔۔ جس کے اندر حیوانیت کا خاتمہ ہو اور اعلی درجے کی انسانیت آئے۔۔۔ جو اعلی رویوں کا مالک ہو۔۔۔ جو ارفع اقدار کا مرقع ہو۔۔۔ جو بلند سوچ کا حامل ہو۔۔۔ جو بہترین خصائل اور عمدہ اطوار میں کامل ہو۔۔۔ جس میں سب انسانوں کے لیے جذبۂ خیر ہو۔۔۔ جو اپنے وجود اور اپنی شخصیت میں دوسروں کے لیے نفع رساں ہو۔۔۔ جس کے اخلاقِ حسنہ کی گواہی زمانہ دے۔۔۔ جو حرص و لالچ کا بندہ نہ ہو بلکہ اخلاص و محبت کا پیکر ہو۔۔۔ جو صرف اپنے لیے زندہ نہ رہے بلکہ دوسروں کے لیے جینے والا ہو۔۔۔ جو ہر لمحہ اپنے اخلاق و کردار کی اصلاح کرنے والا ہو اور ان کو اعلی و ارفع منزل کی طرف گامزن کرنے والا ہو۔