حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حیات وسیرت کے نمایاں گوشے

ڈاکٹر شفاقت علی البغدادی الازہری

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ وہ باکمال مرتبہ ہستی ہیں جنہوں نے تمام مردوں میں سے سب سے پہلے ایمان قبول کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ ان عشرہ مبشرہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ہیں جنہوں نے زبان حبیب ﷺ سے سب سے پہلے جنت کی بشارت پائی۔ آپ رضی اللہ عنہ عکس وآئینہ ذات و سیرت رسول ﷺ ہیں جنہوں نے وصالِ رسول ﷺ کے بعد خ لیفۃ المسلمین ہونے کی ذمہ داری سنبھالی۔ آپ رضی اللہ عنہ وہ سخی شخصیت ہیں جنہوں نے اپنے گھر کا سارا مال سب سے پہلے اعلائے کلمۃ اللہ تعالیٰ کے لیے وقف کر دیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کی شخصیت کثیر گوشوں کی مالک ہے، ان میں سے چند نمایاں گوشے درج ذیل ہیں:

بلا تردد قبولِ اسلام

آپ اسلام سے قبل بھی نبی اکرم ﷺ کی تعظیم کیا کرتے تھے اور آپ ﷺ کے اخلاقِ حسنہ سے بے حد متاثر تھے۔ بلکہ آپ ﷺ کی مجالست و مصاحبت میں کمال درجہ کا سکون و اطمینان محسوس کیا کرتے تھے۔ الغرض جب آپ رضی اللہ عنہ کو یہ خبر ملی کہ نبی اکرم ﷺ لوگوں کے پاس نیا دین لائے ہیں اور انہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت، اخلاص کے ساتھ کرنے کی دعوت دے رہے ہیں،شرک سے منع فرما رہے ہیں اور اخلاقِ حسنہ کو زیب تن کرنے کے عظیم احکامات ارشاد فرماتے ہیں تو بغیر حیل و حجت اور تاخیر کے آپ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ کے در دولت کی طرف متوجہ ہوئے تاکہ دولتِ اسلام سے اپنے سینہ مبارک کو مشرف بہ اسلام کریں۔ جب آپ رضی اللہ عنہ چوکھٹِ مصطفیٰ ﷺ پر پہنچے تو آپ رضی اللہ عنہ نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ آقائے دوجہاں رسول عربی حضرت محمد ﷺ باہر تشریف لے آئے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کیا:

ما الذي بلغني عنك يا أبا القاسم

اے ابو القاسم! یہ مجھے آپ کے بارے میں کچھ علم ہوا۔

آپ ﷺ نے فرمایا:

ماذا بلغك عني يا ابابكر؟

اے ابوبکر میرے بارے میں آپ کو کیا علم ہوا ؟

حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول ﷺ !

بلغني انک جئت الناس بدين جديد.

مجھے علم ہوا ہے کہ آپ ﷺ لوگوں کے پاس نیا دین لائے ہیں۔

حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

نعم يا ابكر لقد ارسلني الله إلى الناس لكي آمرهم باخلاص العبادة له، وألها هم عن عبادة غيره.

ہاں، اے ابوبکر! اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے تاکہ میں انہیں اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنے کا حکم دوں اور اس کے سوا کی عبادت سے منع کروں۔

اللہ اکبر! اس مقام پر حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے تذبذب و تردد کے بغیر بلاتاخیر عرض کیا:

یارسول الله امدد يدك لكي ابايعك على ماجئت به.

اے رسول اللہ ﷺ اپنے دست مبارک کو دراز فرمائیں تاکہ جو آپ ﷺ (دین )لائے ہیں میں اس پر آپ ﷺ کی بیعت کرلوں۔ اور گویا ہوئے:

اشهد أن لا اله الا الله وأنك رسول الله.

میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سواء کوئی معبود برحق نہیں اور بے شک آپ اللہ کے رسول ہیں۔

ایک مقام پر آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی شان و مرتبہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:

ما دعوت أحدا ًإلى الإسلام إلا كانت له كبوة، غیر ابی بکر فانه لم یتعلم ای ماتردد.

(تفسیر ابن کثیر، ج: 2، ص: 666)

میں نے جس کو بھی دعوت اسلام دی اُس نے تردد کیا سوائے ابوبکر بن ابی قحافہ کے۔

محبت رسول ﷺ

اگر محبت رسول ﷺ کی تاریخ لکھی جائے تو اس کا پہلا باب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نام سے رقم ہو گا۔ آپ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ سے بے پناہ محبت و عقیدت رکھتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں آپ رضی اللہ عنہ نے ایک عاشق صادق کی طرح زندگی بسر کی اوریہ ثابت کیا کہ آپ اپنے نبی ﷺ کے سچے عاشق ہیں۔ اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو ہمیں ہمیشہ محبت کے راستوں میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شخصیت صف اول میں نمایاں نظر آئے گی۔ عشق رسول ﷺ کے باب میں ان کی سوانح حیات کا ایک ایک ورق، ان کے دن اور ان کی راتوں کا ایک ایک لمحہ کھلی کتاب کی طرح امت مسلمہ کے لیے ہدایت و رشد کا سامان فراہم کرتا ہے۔

اس کی بہترین مثال آپ رضی اللہ عنہ نے غزوه تبوك كے موقع پر پیش کی،جب آپ رضی اللہ عنہ نے اپنا سارا مال و سامان حضور نبی اکرم ﷺ کے قدموں میں نثار کر کے عملاً یہ بات ثابت فر مادی کہ آپ رضی اللہ عنہ کے نزدیک جان و مال حتی کے ہر چیز سے بڑھ کر حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات محبوب ترین ہے۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

آپ ﷺ نے ہمیں غزوہ تبوک کے موقع پر صدقہ کا حکم دیا،اس وقت میرے پاس مال بھی بہت زیادہ تھا، میں نے سوچا کہ آج اگر میں ابو بکر سے آگے نکل گیا تو سمجھو کہ میں آگے نکل گیا۔ پس میں اپنا آدھا مال لے آیا، آپ ﷺ نے دریافت فرمایا:

مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِكَ قُلْتُ: مِثْلَهُ.

اے عمر اپنے اہل وعیال کے لیے کیاچھوڑا ہے؟ میں نے عرض کی: اتناہی مال اہل وعیال کے لیے چھوڑاہے (جتنا آپ ﷺ کے پاس لے آیا ہوں )۔ پھر حضرت سیدنا ابو بکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ آئے اور جو کچھ ان کے پاس تھا، وہ سارا سامان لے آئے، رسو ل اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا:

يَا أَبَا بَكْرٍ، مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِكَ! قَالَ: أَبْقَيْتُ لَهُمُ اللهَ وَرَسُولَهُ. فَقُلْتُ: لَا أُسَابِقُكَ إلى شيء أبدا.

(مجموع الفتاویٰ، ج: 10، ص: 17)

اے ابو بکر ! اپنے اہل وعیال کےلیے کیا بچایاہے؟ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی، اللہ اور رسول ﷺ (یعنی ان کی محبت) ان کے لیے چھوڑ آیا ہوں۔ پس میں نے کہا: اے ابو بکر! میں آپ سے کسی چیز میں کبھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔

ہجرت مدینہ کے وقت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی محبت رسول ﷺ بھی دیدنی تھی۔ ماہ محرم 13 نبوی کو جب مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم ہوا تو کثیر تعداد میں صحابہ کرامl مکۃ المکرمۃ کو چھوڑ کر مدینہ کی طرف عازم سفر ہوچکے تھے اور کمزور قسم کے لوگ ہی اب مکہ میں بچے تھے۔ یا پھر خاندان رسالت ﷺ اور کچھ افراد بچ گئے تھے۔ ان میں سے جب حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ہجرت مدینہ کی اجازت طلب کی، توآقا کریم ﷺ نے ان کو یہ کہہ کر روک دیا کہ ہوسکتا ہے آپ کو کوئی اچھا ساتھی مل جائے۔ حضرت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اشارہ سمجھ لیا۔ اسی لیے آپ رضی اللہ عنہ نے اس وقت سے تیاریاں شروع کردیں۔ دو اچھی سی سواریاں بھی خریدلی اور خوب کھلاپلاکرانہیں فربہ بھی کرلیا۔ بالآخر ماہ صفر کے آخر میں حضور نبی اکرم ﷺ کو بھی ہجرت کا حکم مل گیا۔

قابل ذکر بات یہ ہے حضور نبی اکرم ﷺ کا معمول مبارک تھا کہ آپ ﷺ صبح یا شام کے اوقات میں اپنے صدیق سے ملاقات کرنے ان کے گھرتشریف لایا کرتےتھے، مگر آج آپ ﷺ خلافِ معمول تشریف لائے جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک دن آقا کریم ﷺ خلاف معمول، سرپرکپڑا ڈالے ہوئے دوپہر کے وقت تشریف لائے، اور تخلیہ میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے اپنے ارادے کا اظہار فرمایا کہ آج رات ہجرت مدینہ کا سفر ہے اور رفاقت تمہاری ہوگی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بے حد خوش تھے۔ کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ کو سنگت رسول ﷺ میں ہجرت کرنے کا شرف مل رہا تھا۔ یہ آپ رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ ﷺ کی محبت و اعتماد کا اظہار تھا۔

مکہ المعظمہ سے روانگی کے بعد یہ دونفری قافلہ غارثور پر پہنچا تو یہاں بھی تین دن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو تن تنہا حضور نبی اکرم ﷺ کی صحبت کریمانہ حاصل ہوئی اور آپ یہاں حضور نبی اکرم ﷺ کی توجہات و فیوضات سے خوب بہرہ مند ہوئے۔

سورۃ التوبۃ کی آیت 40 میں اس واقعہ کی طرف یوں اشارہ ہوا ہے:

اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ هُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَه عَلَیْهِ وَ اَیَّدَه بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِیْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰى وَ كَلِمَةُ اللّٰهِ هِیَ الْعُلْیَا وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ.

’’اگر تم اس (نبی) کی مدد نہیں کرو گے تو اللہ ان کی مدد فرماچکا ہے جب کافروں نے انہیں (ان کے وطن سے) نکال دیا تھا جبکہ یہ دو میں سے دوسرے تھے، جب دونوں غار میں تھے، جب یہ اپنے ساتھی سے فرما رہے تھے غم نہ کرو، بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے تو اللہ نے اُس پر اپنی تسکین نازل فرمائی اور اُن لشکروں کے ساتھ اُس کی مدد فرمائی جو تم نے نہ دیکھے اور اُس نے کافروں کی بات کو نیچے کردیا اور اللہ کی بات ہی بلندو بالا ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔‘‘

ہجرت مدینہ کے وقت نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں مخلص صحابۂ کرام l کی ایک پوری جماعت موجود تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے وقت رسول اکرم ﷺ کی صحبت میں رہنے کا شرف حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے علاوہ اور کسی کو بھی عطا نہیں فرمایا، یہ تخصیص حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عظیم مرتبے اور بقیہ صحابہ کرام پر آپ رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور حضور نبی اکرم ﷺ سے آپ کی والہانہ عقیدت پر دلالت کرتی ہے۔

زمانۂ جاہلیت میں بھی حرام کاموں سے اجتناب

حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے زمانہ جاہلیت میں بھی حرام کاموں کو اختیار نہ فرمایا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے شراب، بت پرستی، سود اور وہ تمام رذائل جن سے منع کا حکم اسلام نے دیا ہے، ان تمام سے زمانہ جاہلیت میں بھی اجتناب فرماتے رہے:

1۔ شراب انسان کی بد ترین دشمن ہے۔ اسی وجہ سے قرآن حکیم نے اس کو حرام قرار دیا اور لوگوں کو اس سے اجتناب کا حکم فرمایا۔ حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ وہ انسانِ عظیم ہیں جن کی بصیرت کو اللہ تعالیٰ نے زندگی کے ہر مرحلہ میں خیر و حق کی رشدو ہدایت سے مالا مال فرمایا۔ قابل ذکر بات ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ بات مشہور و معروف ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی پوری زندگی میں حتی کہ زمانہ جاہلیت میں کبھی شراب نوشی نہیں کی بلکہ آپ اسےرذائل اخلاق اور منافی اخلاق حسنہ جانتے تھے اور اسے ہمیشہ ناپسند فرماتے تھے۔ جب آپ رضی اللہ عنہ سے شراب نوشی نہ کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ؓ نے فرمایا:

انا انسان أصون عرضي وشارب الخمر لايصون عرضه.

’’میں اپنی عزت و عرض کو محفوظ رکھنے والا انسان ہوں اور شراب نوشی کرنے والا اپنی عزت و عرض کو محفوظ نہیں رکھتا۔‘‘

2۔ تاریخ گواہ ہے اور کثیر مؤرخین کے اقوال بھی یہ ثابت کرتے ہیں کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں بھی بتوں کی عظمت کے قائل نہیں تھے۔ اور نہ ہی بت پرستی کے عمل کو اچھا گردانتے تھے۔ بلکہ آپ رضی اللہ عنہ بتوں کو حقیر جانتے تھے اور بت پرستوں کے اعمال کو بھی غلط قرار دیتے تھے۔ اس عمل سے آپ رضی اللہ عنہ انتہا درجہ کی نفرت کرتے تھے۔ آپ کے بچپن کا ایک واقعہ اس کا بہترین شاہد ہے۔

ایک دفعہ آپ رضی اللہ عنہ کے والد ابو قحافہ آپ رضی اللہ عنہ کو حجرہ اصنام کے سامنے لائے اور یوں کہا:

’’یا بني هٰذه آلهتك فلتقرب اليها.‘‘

’’اے میرے بیٹے یہ تمہارے معبود ہیں، ان کی قربت حاصل کرو۔‘‘

یہ بات کہہ کر وہ چلے گئے تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے استہزاءاً ان بتوں میں سے بڑے بت کو مخاطب ہو کر چند سوالات کیے اور یوں کہا:

ايها الرب إني جائع فأطعمني.

اے رب! میں بھوکا ہوں، مجھے کھانا کھلاؤ۔

ايها الرب: إني عطشان فاسقني.

اے رب! میں پیاسا ہوں مجھے پلاؤ۔

ايها الرب: إني مريض فاشفني.

اے رب! میں مریض ہوں مجھے شفا دو۔

جب ان کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا اور نہ ہی آنا تھا تو آپؓ نے ایک پتھر اٹھایا اور اس بڑے بت کے چہرے پر مارا، اور یہ کہہ کر وہاں سے رخصت ہو گئے:

تبا لک من اله حقیر.

’’تیرا ستیا ناس ہو حقیر معبود ‘‘

مذکورہ بالا واقعہ سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ شرو ع سے ہی صفائے نفس، قلب سلیم اور فکر صحیح و سدید کے مالک انسان تھے۔

مناقب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ

1۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی صفات مبارکہ میں سے نمایا ں صفت یہ ہے کہ آپ ہر اس عمل کو سر انجام دینے میں سبقت فرماتے ہیں جس سے خالق عظیم عزوجل راضی ہوتا ہے۔

2۔ اسی طرح جس چیز کو رسول محتشم پسند فرماتے ہیں یا جس چیز کی طرف رسول مکرم ﷺ بلاتے ہیں، وہاں سیدنا صدیق اکبرؓ کا مقام یہ ہے کہ آپ تمام عشاقان رسول ﷺ میں سے سب سے پہلے موجود ہوتے ہیں۔ بلکہ آپ کا شمار ان عظیم المرتبت ہستیوں میں ہوتا ہے جن کی زبان ہر لمحہ لبیک یارسو ل اللہ کی صدا سے تر رہتی ہے۔

3۔ آپ نیکی کے ہر کام میں سبقت لے جانے کی کوشش فرماتے۔ ایک دن آقا کریم ﷺ نے نماز فجر کے بعد اپنے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے استفسار فرمایا کہ آپ میں سے کس نے آج روزے کے ساتھ صبح کی ؟ سب صحابہ کرام خاموش رہے لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یارسول اللہ! میں نے رات کو روزے کو یاد کیا۔ لہذا صبح روزے سے کی۔

پھر حضور ﷺ نے فرمایا: اے میرے صحابہ آج تم میں سے کس نے صدقہ دیا؟ سب صحابہ خاموش رہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حیاء اور تواضع سے عرض کیا: یارسو ل اللہ ﷺ میں نے مسجد کے دروازے پر سائل کو دیکھا اور بیٹے کے پاس کچھ کھانا تھا میں نے اس سے لیا اور اس سائل کو دے دیا۔

تیسری مرتبہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: آج تم میں کس نے مریض کی عیادت کی؟ سب خاموش رہے لیکن حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عاجزی اور تواضع سے عرض کیا: مجھے یاد آیا کہ میرابھائی عبد الرحمن بن عوف بیمار ہے، میں نے نماز فجر کی ادائیگی کے لیے مسجد میں آنے سے پہلے اس کی عیادت کی۔

یہ سن کر نبی اکرم ﷺ کا چہرہ انور کھل اُٹھا اور آپ ﷺ نے سیدنا صدیق اکبر ﷺ کو تین مرتبہ ارشاد فرمایا:

یا ابابکر انت السابق بالخیرات.

(اضواء البیان، ج:1، ص: 417)

اے ابوبکر آپ نیکی کے کاموں میں سبقت لینے والے ہیں۔

4۔ آپ رضی اللہ عنہ کے مناقب میں سے ہے کہ آپ کھانے پینے سے قبل حلال و حرام جاننے کی کوشش کرتے تھے اور اس کھانے کے ذرائع کے بارے میں جاننے کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ آپ اس وقت تک کھانا تناول نہ فرماتے تھے جب تک آپ رضی اللہ عنہ کو اس کے مصدر کے بارے میں علم نہ ہوجاتا۔ اسی طرح کوئی مشروب نہیں پیتے تھے، جب تک اس کے حلال ہونے پر اطمینان حاصل نہ کر لیتے تھے۔

ایک دن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا خادم آپ رضی اللہ عنہ کے پاس کھانا لایا۔ آپ رضی اللہ عنہ شدید بھوکے تھے پس آپ رضی اللہ عنہ نے خادم سے اس کھانے کے بارے میں دریافت کیے بغیر اسے تناول فرما لیا۔ حالانکہ آپ رضی اللہ عنہ کا معمول مبارک تھا کہ کھانے سے قبل اس کے بارے میں پوچھتے تھے۔ خادم نے عرض کی: میرے آقا! آپ ہمیشہ کھانا تناول کرنے سے قبل پوچھتے تھے، آج آپ رضی اللہ عنہ نے اس کے بارے میں نہیں پوچھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: شدت بھوک نے مجھے بھلا دیاتھا۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے مضطرب و پریشان ہو کر خادم سے پوچھا:

من این أتيت بهٰذا لطعام يا غلام.

اے غلام تو اس کھانے کو کہاں سے لائے ہو ؟

اس نے جواب دیا: میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک قوم کے لیے کاہن کا کام کیا۔ جب میں آپ رضی اللہ عنہ کے پاس آرہا تھا تو میری ملاقات ان سے ہوگئی۔ ان کے پاس کچھ کھانا تھا تو اس میں سے انہوں نے مجھے کچھ دیا جس کو میں نے آپ رضی اللہ عنہ کو پیش کیا ہے۔ جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو علم ہوا تو آپ نے کھانے کو قے کر کے نکال دیا۔

آپ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا گیا کہ آپ چند لقموں کے لیے قے کر رہے ہیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے سنا ہے:

كل لحم نبت من حرام فالنار أولى به. وأنا اخاف أن ينبت شيء من جسدي من هذه الطعام.

ہر گوشت جو حرام سے بنتا ہے وہ دوزخ کا زیادہ حقدار ہے اور میں ڈرتا ہوں کہ اس کھانے سے میرے جسم میں کوئی چیز پیدا ہو۔

5۔ آپ رضی اللہ عنہ کے مناقب میں ہے کہ آپ رقت،رحمت اور نرمی میں سب سے زیادہ ثابت و قوی دل رکھتے تھے اور مصائب و شدائد کے وقت سب سے زیادہ صبر کرنے والے تھے۔ جب نبی اکرم ﷺ کا وصال مبارک ہوا تو بعض مسلمان شدید مضطرب ہوئے اور ڈر گئے۔ اس موقع پر سیدنا صدیق اکبر ﷺ نے ان کی ڈھارس باندھی اور صبر کی تلقین فرمائی اور فرمایا:

أيها الناس فمن كان يعبد محمدا فإن محمدا قد مات، ومن كان يعبد الله فإن الله حي لا يموت.

اے لوگو ! جو محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا، پس محمد ﷺ کا وصال ہو گیا ہے اور جو اللہ کی عبادت کرتے تھے پس اللہ تعالیٰ زندہ ہے وہ نہیں مرے گا۔

پھر آپ نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی:

اِنَّكَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّهُمْ مَّیِّتُوْنَ.

(الزمر: 30)

’’(اے حبیبِ مکرّم!) بے شک آپ کو (تو) موت (صرف ذائقہ چکھنے کے لئے) آنی ہے اور وہ یقیناً (دائمی ہلاکت کے لئے) مردہ ہو جائیں گے (پھر دونوں موتوں کا فرق دیکھنے والا ہوگا)۔‘‘

اس طریقے سے آپ نے مسلمانوں کی قیادت کی اور انہیں صحیح اور درست راہ دکھائی۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ طبعاً منکسر المزاج، نرم خو اور رقیق القلب تھے۔ اخلاق و عادات کے اعتبار سے مکہ کے بہت کم لوگ ان کے ہم پلہ تھے۔ اسلام کی سربلندی کے لیے جو مؤقف انہوں نے اختیار کیا اور جو بلند پایہ خدمات سر انجام دیں وہ ان کے نام کو ابد الآباد تک یاد رکھنے کے لیے کافی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں آپ رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر چلنے اور آپ رضی اللہ عنہ کی سیرت طیبہ سے ہدایت حاصل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین واللہ اعلم بالصواب۔