شیخ الاسلام کے معاشی افکار کی عصری معنویت

ڈاکٹر محمد افضل قادری

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے معاشی افکار کی عصری معنویت، معروضی حالات سے مطابقت اور قبولیت عامہ کا اندازہ یہاں سے لگائیں کہ آج سے تقریباً چالیس سال قبل جب آپ نے ’’بلا سود بنکاری (عبور خاکہ) ‘‘ کے عنوان سے ایک عدیم النظیر اور فقید المثال کتاب تصنیف فرمائی تو اسے نہ صرف علمی حلقوں میں بے حد پزیرائی ملی بلکہ اسلامی بنکنگ کے ارتقاء میں بھی اسے کلیدی حیثیت حاصل تھی۔ اس کے بعد 1992ء میں جب اسلام گریز قوتوں نے دوبارہ یہ تاثر دینا شروع کیا کہ احکامِ شریعت عصر حاضر میں لائقِ نفاذ نہیں رہے اور سود کے بغیر معاشی نظام نہیں چل سکتا تو اس وقت یہ شیخ الاسلام ہی تھے کہ جنہوں نے 7 اکتوبر 1992ء کو ’’بلا سود بنکاری اور اسلامی معیشت‘‘ کے نام سے سود سے پاک اسلامی نظام بنکاری کا عملی خاکہ پیش کر کے نہ صرف لادینی عناصر کو مسکت جواب دیا بلکہ علماء کے وقار کو بحال کر کے انہیں اعتماد اور اعتبار کی دولت سے بھی نوازا۔ بعد از آں 2007ء میں ’’اقتصادیات اسلام‘‘ کے عنوان سے آپ کی ضخیم کتاب شائع ہوئی جس میں اسلامی معیشت کی تشکیل جدید اور بنیادی تصورات پر مشتمل نہایت اہم مباحث موجود ہیں۔ یہ کتاب بلاشبہ شیخ الاسلام کی وسیع النظری، اعلیٰ علمی قابلیت اور اسلامی معیشت کے ساتھ گہرے تعلق کی آئینہ دار ہے۔ ان تمہیدی کلمات کے بعد ذیل میں ہم شیخ الاسلام کے معاشی افکارکی اہمیت و افادیت کو بیان کرتے ہیں:

جدید معاشی مسائل کا حل: فقہی توسع کی ضرورت

جدید معیشت و تجارت اور نظام بنکاری میں اتنے مسائل اور پیچیدگیاں در آئی ہیں کہ ان کے حل کے لیے کسی ایک ہی فقہی مذہب سے تمسک کے بجائے اسلام کے چشمہ صافی یا مذاہبِ اَربعہ سے استفادہ ناگزیر ہوچکا ہے۔ اسی فقہی توسع اور دینی فراست سےپیش آمدہ معاشی مسائل کی عقد کشائی کی جا سکتی ہے۔ اس بابت فقیہِ عصر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری فرماتے ہیں:

’’اگر کوئی مسئلہ اِنفرادی، مقامی یا معروضی نوعیت کا ہے تو اس کے لیے ایک ہی فقہی مذہب سے تمسک اختیار کیا جانا لازم ہے، لیکن اگر مسئلے کا دائرہ کار وسیع، عالمی اور آفاقی ہے اور اس کے اثرات جمہور مسلمانوں پر مرتب ہو رہے ہیں تو ایسی صورت میں فقہی سوچ کو بھی توسیع دینا لازم قرار پائے گا تا کہ جملہ فقہی مذاہب سے یکساں استفادہ کرکے جدید معاشی و اقتصادی اور علمی و فقہی مسائل کی گتھیاں سلجھائی جاسکیں‘‘(الانتقال بین المذاہب از شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری: 13)

فقہی تقیید یا محدودیت نے دیگر میادین کی نسبت سب سے زیادہ الجھاؤ معاشی و اقتصادی مسائل میں پیدا کیا ہے۔ اسلامی بینکاری اور مالیاتی نظام کو درپیش چیلنجز میں سب سے بڑا چیلنج دنیا کے مختلف علاقوں میں مہیا کی جانے والی اسلامی بینکاری کی مصنوعات اور خدمات (products and services) کا ایک جیسا یا ایک ہی طرح کے قواعد و ضوابط کے تحت نہ ہونا ہے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ اگر اسلامی بنکاری کی مصنوعات اور خدمات کی عالمی ہم آہنگی اور ہمہ گیر معیار سازی، اسلامی دنیا میں ہی ممکن نہ بنائی جاسکی تو پھر اسلامی معاشی اور بینکاری نظام کو عالمی سطح پر رائج روایتی معاشی اور بنکاری نظام کے ایک قابلِ عمل متبادل کے طور پر کیسے پیش کیا جاسکتا ہے؟ اس مسئلے کا حل ’’ہمہ گیر اپنائیت اور وسعت کی نئی فقہی سوچ (neo-juristic approach of inclusive accommodation and flexibility)‘‘ کو اپناناہے۔ اس سوچ کی بنیاد آسانیاں پیدا کرنے کے قرآنی اُصول اور وسعتِ نظری کے فقہی اُصول پر استوار ہے۔

اسلامی بنکاری نظام اور مالیاتی اُمور میں سہل کاری

عصرِ جدید کے مالیاتی، تجارتی، انتظامی، عدالتی، سیاسی، معاشی اور دیگر معاملات کسی ایک فقہی مکتب سے حل نہیں ہو سکتے۔ ان مشکلات کو حل کرنے اور ان سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہمیں چاروں فقہی مذاہب سے استفادہ کرنا ہوگا۔ اس نہایت اہم مسئلہ پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے شیخ الاسلام فرماتے ہیں:

’’یہ اَمر ذہن نشین رہنا چاہیے کہ جیسے حضور نبی اکرم ﷺ کو دو باتوں میں سے آسان کو منتخب کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔ (أخرجه البخاريّ في الصّحيح، كتاب المناقب، باب صفة النّبي ﷺ ، 3: 1306، الرقم: 3367) اسی طرح چاروں فقہی مذاہب ہمیں اپنی توثیقات، فتاویٰ اور فیصلہ جات کی صورت میں چار مختلف راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کا اختیار دیتے ہیں۔ لہٰذا جب دو میں سے آسان راستے کا انتخاب حضور نبیِ اکرم ﷺ کی سنت ہے تو پھر ہمارے لیے اسلامی بنکاری نظام اور دیگر مالیاتی اُمور میں آسان راہیں اپنانے میں کیا امر مانع ہے؟ اسلامی معاشی نظام کے فروغ اور اِسلامی مالیاتی مسائل کے حل کے لیے ہم بھی حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی مذاہب میں سے ایسے معاملات کے بارے میں طے کردہ قوانین میں سے آسان ترین کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ ان سب کو یکجا کرنا مسائل کو حل کردے گا۔ ‘‘ (الانتقال بین المذاہب از شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری: 23)

عالمی شریعہ کونسل کا قیام (Global Shariah Council)

جب جدید معاشی معاملات کو مقامی اور علاقائی سطح پر دیکھا جاتا ہے اور ان کی حلت و حرمت کی بابت وہاں رائج فقہی مذاہب کے مطابق فتوٰی دیا جاتا ہے تو بے شمار مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس کا حل پیش کرتے ہوئے شیخ الاسلام فرماتے ہیں:

’’مختلف ممالک یا علاقوں میں رائج فقہی مذاہب کے طے کردہ قوانین کی تشریح یا ان پر عمل درآمد کی نگرانی وہاں پر قائم شریعہ کونسلیں کرتی ہیں اور وہ اپنے فیصلے اسی مخصوص ملک یا خطے میں رائج فقہی مذہب کے مطابق کرتی ہیں۔ لہٰذا اَلْاِنْتِقَال بَیْنَ الْمَذَاهِب کا یہ اختیار ان مقامی کونسلوں کی بجائے ایک عالمی شریعہ کونسل (Global Shariah Council) کے پاس ہونا چاہیے۔ علاقائی شریعہ کونسلوں یا ملکی سطح پر متحرّک شریعہ کونسلوں کو اس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ اپنے خاص فقہی مذہب کی روشنی میں کوئی فتویٰ جاری کریں۔ بلکہ عالمی کونسل میں تمام فقہی مذاہب کے علماء کی مساوی نمائندگی ہونی چاہیے۔ کسی بھی پیداوار (product) کے جائز یا ناجائز ہونے کے بارے میں فتویٰ جاری کرنے کا کُلی اختیار عالمی شریعہ کونسل (Global Shariah Council) کو منتقل کر دیا جائے۔ ۔ ۔ اسلامی بینکاری اور مالیات کے بارے میں تمام مذاہب کی طرف سے جاری کردہ ایسے فتاویٰ جات جو انہوں نے اپنے فقہی مذہب کے طے کردہ قوانین کی روشنی میں جاری کیے تھے، منسوخ کر دیے جائیں۔ البتہ اسلامی بنکاری کی ایسی تمام مصنوعات جنہیں حنفی، مالکی، شافعی یا حنبلی فقہاء کی طرف سے جائز قرار دیا گیا ہو، انہیں فی الفور اور ہمیشہ کے لیے جائز قرار دے دیا جائے اور جائز قرار دیے جانے والے تمام فتووں کو یکجا کرکے ایک مجموعے کی صورت میں مرتب کر لیا جائے۔ ‘‘ (ایضاً: 19)

اسلامی نظامِ بنکاری کی ترویج و فروغ میں کردار

سودی نظامِ بنکاری معاشی استحصال کی بدترین شکل ہے۔ اسلام استحصال کی بالواسطہ اور بلاواسطہ ہر شکل کے خلاف ہے۔ اسلام نے واضح طور پر سود پر مبنی استحصالی نظام کواللہ اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف اعلان جنگ قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱتَّقُواْ ٱللهَ وَ ذَرُواْ مَا بَقِيَ مِنَ ٱلرِّبَوٰٓاْ إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِينَ فَإِن لَّمۡ تَفۡعَلُواْ فَأۡذَنُواْ بِحَرۡبٖ مِّنَ ٱللهِ وَرَسُولِهِ.

(البقرة، 2: 79)

’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ بھی سود میں سے باقی رہ گیا ہے چھوڑ دو اگر تم (صدقِ دل سے) ایمان رکھتے ہو پھر اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول (a) کی طرف سے اعلانِ جنگ پر خبردار ہو جاؤ۔ ‘‘

سود صرف دنیائے اسلام ہی کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا میں معاشی ناہمواریوں کی بنیاد ہے، چنانچہ سود سے پاک بنکاری (Interest free banking) کا تصور ہمیشہ اقتصادی ماہرین کی سوچوں کا مرکز و محور رہا ہے۔ اسلامی نظام بنکاری کے ترویج و فروغ میں شیخ الاسلام کاکردار کلیدی رہا ہے۔ آپ اسلامی بنکاری کے خلاف اسلام گریز قوتوں کے مکر و فریب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’جدید نظام بنکاری (Banking system) اپنی موجودہ ہمہ جہت صورت میں چونکہ مغربی دنیا کے سودی نظام کے ماحول میں پروان چڑھا ہے اس لیے دنیا بھر میں نظام بنکاری کا سارا ڈھانچہ (Structure) سودی (Interest based) ہے۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اسلام کے احکام حرمتِ ربو (Islamic laws of prohibition of riba) آج (معاذ اللہ) ناقابل عمل ہو گئے ہیں اور نظام بنکاری ''سود'' کے بغیر اسلامی تعلیمات کے مطابق چل ہی نہیں سکتا، ایسی سوچ جہاں شریعت محمدی ﷺ کی نسبت سے بے یقینی اور کمزور اعتقاد کی عکاس ہے وہاں مغربی نظام کے تسلط کے باعث ذہنی غلامی اور فکری مرعوبیت کی آئینہ دار بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امت مسلمہ کے حکمرانوں اور اقتصادی و بنکاری امور کے ماہرین نے ''مغربی نظام سے مرعوبیت'' کے دائرے سے باہر نکل کر مومنانہ جرأت و بصیرت کے ساتھ اس کا حل نکالنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ‘‘ (بلا سود بنکاری اور اسلامی معیشت از شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری: 22)

الحمد للہ، اس وقت نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے کئی ممالک غیر سودی بنکوں اور مالیاتی اداروں کوچلا رہے ہیں۔ ان میں سے بعض کا تعلق عرب ریاستوں، بعض کا تعلق ایشیائی ریاستوں، بعض کا تعلق افریقی ممالک اور بعض کا تعلق مغربی ممالک سے ہے۔

فروغ پذیر اسلامی بنکاری کی تحسین

ماضی قریب میں ''اسلامی بنکاری'' کا پہلا کامیاب تجربہ مصر میں ’’نصر سوشل بنک‘‘(Nasser Social Bank) کا تھا جس نے 1972ء سے اپنا کام شروع کیا۔ اس کے بعد 1975ء میں دوبئی اسلامک بنک (Dubai Islamic Bank) کا آغاز ہوا۔ اسی سال اسلامک ڈویلپمنٹ بنک (Islamic Development Bank) جدہ کی بنیاد بھی رکھی گئی جس نے اسلامی نظام بنکاری کو مضبوط اور قابل اعتماد بنیاد فراہم کی۔ اس کے بعد 1977ء میں فیصل اسلامک بنک (Faisal Islamic Bank) مصر اور سوڈان میں قائم ہوئے اور ایشیا کا سب سے بڑا اسلامی بنک 1983ء سے ملائیشیا میں قائم ہو چکا ہے۔ مزاحمتوں کے باوجود اسلامی بنکاری کا مسلسل آگے بڑھنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ نظام موجودہ دور میں نہ صرف قابل عمل بلکہ قابل اعتماد ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری فروغ پذیر اس اسلامی بنکاری کی تحسین کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’ناسازگاری ماحول اور سودی نظام کی گرفت کے باوجود ان اداروں اور بنکوں نے ممکنہ حد تک غیر سودی بنکاری کو کامیابی سے فروغ دیا ہے اور انہوں نے جن اسلامی Instruments کو بھی اپنایا ہے وہی لائق اعتماد ثابت ہوئے ہیں اور ان کے مختلف معاملات میں غیر سودی بنکاری کے تجربے نہ صرف کامیاب رہے ہیں بلکہ ان میں مسلسل حوصلہ افزاء پیش رفت ہوئی ہے‘‘(ایضاً: 27)

اسلامی نظام بنکاری: بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت

دور جدید کا اقتصادی نظام ارتقاء کی کئی منزلیں طے کرنے کے بعد ایسی صورت اختیار کر چکا ہے کہ اس میں بینکنگ نہایت متنوع اور ہمہ جہت کردار کی حامل ہو گئی ہے۔ اس کا دائرہ کار افراد معاشرہ کے نجی معاملات سے لے کر تجارتی، صنعتی، زراعتی، کفالتی، جملہ مالیاتی، ترقیاتی، حکومتی، قومی اور کئی بین الاقوامی معاملات کی انجام دہی تک پھیل چکا ہے۔ ان حالات میں نظام بنکاری کو اسلامی کیسے بنایا جائے۔ اس حوالے سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری فرماتے ہیں:

’’سودی نظام بنکاری کو ''اسلامی نظام بنکاری'' سے بدلنے کے لئے فقط چند قانونی اور ضابطہ جاتی تبدیلیاں (Legal & procedural changes) ہی کافی نہیں ہیں بلکہ اس مقصد کے لئے ''بنیادی تصوراتی تبدیلیاں'' (Basic conceptual changes) بھی درکار ہیں جن کی خاطر ہمیں بینکنگ کے زاویہ نگاہ اور اس کے ڈھانچے (Approach & structure of banking) میں بھی کچھ ترمیمات و اصلاحات کرنا ہوں گی۔ ‘‘ (ایضاً: 31)

شیخ الاسلام نے موجودہ سودی بنکاری نظام (Interest based banking system) کو غیر سودی اسلامی نظام بنکاری (Interest free Islamic banking system) سے بدلنے کے لئے اس کا فقط جزوی اور سطحی جائزہ نہیں لیا بلکہ اس نظام کا ہمہ جہت، ہمہ پہلو اور گہرائی پر مبنی جائزہ لے کر ہر معاملہ میں سود کی متبادل اسلامی اساس مہیا کی ہے تاکہ ''اسلامی نظام بنکاری'' کا خاکہ محض ایک علمی اور فقہی تجویز نہ رہے بلکہ ''قابل نفاذ ورکنگ پلان'' Implementable working plan کے طور پر سامنے آئے۔

یہاں بنکوں کی بابت ایک غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے کہ بنک صرف قرضہ کا لین دین کر سکتے ہیں، سرمایہ کاری نہیں۔ سود پسند عناصر کہتے ہیں کہ اس طرح بنک ایک ''تجارتی فرم'' بن جائے گا بنک نہ رہے گا۔ '' یہ اصولی طور پر غلط اور مبنی بر بدنیتی بات ہے۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ قانونی تعریف کے مطابق قرضہ جات کا لین دین اور سرمایہ کاری دونوں بنک کے بنیادی فرائض اور قانونی کردار کا حصہ ہیں۔ سرمایہ کاری (Investment) کو بنک کے لئے ناممکن قرار دینا خود ''بنک'' کے قانونی تصور سے انحراف ہے۔

بین الاقوامی اسلامی مالیاتی مارکیٹ کا قیام

مسلم دنیا اس وقت تک معاشی استحکام حاصل نہیں کر سکتی جب تک وہ عالم اسلام کی سطح پر اسلامی دنیا کے بنکوں کی مشترکہ تمویل (Joint financing) سے مالیاتی مارکیٹ (Financial market) کا قیام عمل میں نہیں لاتی۔ اس سے مسلم دنیا کا بین الاقوامی سطح پر اپنا اسلامی مالیاتی فنڈ (Islamic monetary fund −IMF) وجود میں آ سکتا ہے۔ اس کا اجراء ان درجنوں غیر سودی بنکوں اور مالیاتی اداروں کے تعاون سے ہو سکتا ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں اور جن کی Credibility عملاً ثابت ہو چکی ہے۔ شیخ الاسلام اس مالیاتی مارکیٹ کے ثمرات کا ذکر کرتےہوئے فرماتے ہیں:

’’اس کے ذریعے مسلم ممالک مغربی دنیا کے سودی قرضہ جات کی لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے کی طرف عملاً پیش رفت کر سکتے ہیں۔ یہ اقدام مسلم دنیا کے اندر عظیم صنعتی، زرعی اور اقتصادی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ شعبہ اسلامی بینکاری کو خاصا استحکام اور فروغ دے سکتا ہے‘‘(ایضاً: 51)

معاشى استحكام كى تلقىن و ترغىب

انسانی تہذیب و تمدن کے ارتقاء میں جہاں سیاسی، سماجی اور عمرانی عوامل کار فرما رہے ہیں وہاں معاشی عنصر بھی اکثر و بیشتر تاریخی و جغرافیائی تبدیلیوں کا باعث بنتا رہا ہے۔ ماہرین عمرانیات اور علمائے سیاسیات کے نزدیک اقتصادی بالا دستی ہی سیاسی بالا دستی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ بین الاقوامی روابط اور سفارتی تعلقات میں معاشى بالادستی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ قرآن مجید نے مال اور معاش کو انسانی زندگی کی بقا و استحکام کی بنیاد قرار دیا ہے۔ جب تک معاشرہ ٹھوس معاشی بنیادوں پر استوار نہیں ہو گا اس وقت تک خوشحالی اور آسودگی فرد کا مقدر نہیں بن سکتیں۔ انسانی زندگی میں مال کی اہمیت کیا ہے، اس بابت شیخ الاسلام فرماتے ہیں:

’’معاشی کفالت ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ غربت و افلاس کے اندھیروں میں ایمان کی شمع کو روشن رکھنا اکثر ممکن نہیں رہتا۔ اندر کا انسان سرکشی اور بغاوت پر اتر آتا ہے اور یہ سرکشی اور بغاوت خالقِ کائنات کے وجود سے انکار پر بھی منتج ہو سکتی ہے۔ ‘‘ (اقتصادیات اسلام(بنیادی تصورات)، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری: 129)

اسلامی تصورِ ملکیت کی انفرادیت

انسان کی انفرادی اور اجتماعی حیات پر تصورِ ملکیت کے بہت گہرے اثرات مترتب ہوتے ہیں۔ اسلامی تصور ملکیت کی انفرادیت بیان کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام فرماتے ہیں:

’’ حضور نبی اکرم ﷺ کے عطا کردہ انقلابی تصورِ ملکیت کے مطابق انسان کو اپنی مملوکہ اشیاء کی صرف ملکیتی حیثیت کا مختار بنایا گیا ہے۔ منفعتی حیثیت کا نہیں۔ یعنی اموال کے قبضہ و تصرف کے ضمن میں اس کے حقوق جائز حدود کے اندر مطلق اور بلا شرکتِ غیر تسلیم کئے گئے ہیں مگر ان اموال کے منفعتی پہلو پر اسلام اس کے محض بلا شرکتِ غیر نجی حق کو گوارا نہیں کرتا۔ بلکہ مطالبہ کرتا ہے کہ اس میں معاشرے کے دوسرے افراد بھی شریک ہوں۔ اگر مالک اپنے مملوکہ اموال کے منفعتی پہلو میں دوسروں کے حقوق پوری دیانتداری کے ساتھ ادا کرے گا تو اس کی اپنی ملکیت بھی جائز قرار پائے گی۔ بصورت دیگر اگر دوسروں کے منفعتی حقوق کا استحصال کرے گا تو اس کی اپنی ملکیت کا جواز بھی ختم ہو جائے گا۔ ‘‘ (ایضاً: 153)

انفرادی اور اجتماعی ملکیت کے سارے بحث مباحثے اور سرمایہ دارانہ اور اشتراکی معیشت کے سارے جھگڑے اسلام کے ''نیابت و خلافت'' کے تصورسے یکسرختم ہو جاتے ہیں۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اسلام کے تصورِ نیابت و امانت پر استوار ہونے والا معاشی ڈھانچہ اشتراکی اور سرمایہ دارانہ، دونوں نظاموں کے پیش کردہ تصورات سے یکسر جدا ہے اور اس میں افراط و تفریط سے پاک ایک متوازن عادلانہ نظامِ معیشت کی ضمانت دی گئی ہے۔

زمین اور اُس کی پیداوار میں تمام اِنسانوں کا حق

زمین اور اس کے اندر موجود خزانے بنیادی طور پر تمام انسانوں کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ سو اس حق کو اصولاً کسی خاص طبقے تک محدود کر دینا اور دوسروں کو اس سے محروم رکھنا منشائے ایزدی کے خلاف ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:

هُوَ ٱلَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي ٱلۡأَرۡضِ جَمِيعًا.

(البقرة، 2: 29)

’’وہی ہے جس نے سب کچھ جو زمین میں ہے تمہارے لئے پیدا کیا۔ ‘‘

زمین اور اُس کی پیداوار میں تمام اِنسانوں کا حق ہے۔ حضرت شیخ الاسلام لکھتے ہیں:

’’زمین بلا شبہ قدرت کا بیش بہا عطیہ ہے جو نہایت فراخی سے بنی نوع انسان کو عطا کیا گیا ہے، مگر یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس زمین پر جاگیرداری اور وڈیرہ شاہی کا استحصالی زمیندارانہ نظام قارونیت اور فرعونیت کی بنیادوں پر قائم ہے۔ نتیجتاً بڑے بڑے اجارہ دار جو وسیع قطعاتِ اراضی پر جعلی قبضے کے ذریعے قابض ہیں، خود کو سردار، نواب اور وڈیرہ کہتے ہیں، اپنے تابع کسانوں، مزدوروں، محنت کشوں اور ہنرمندوں کو بنگاہِ تحقیر ''کمی'' پکارتے ہیں اور وہ بزعمِ خویش اپنے آپ کو ان کا رازق اور روزی رساں سمجھ بیٹھے ہیں۔ ‘‘ (اقتصادیات اسلام(بنیادی تصورات)، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری: 165)

مطلب یہ ہے کہ زمین اور اس کی پیداوار میں اصلاً تمام انسانوں کا حق ہے۔ مگر جو اس پر شرعاً قابض اور متصرف ہو اور اس میں اپنا سرمایہ یا محنت صرف کرے وہ حقِ انتفاع اور استعمال میں دوسروں پر فائق ہو جاتا ہے۔ ورنہ اصلاً سب انسان برابر ہیں۔

جملہ اَموال میں حاجت مندوں کا شرعی حق

اسلام نے جملہ اموال میں حاجت مندوں اور ضرورت مندوں کا حق رکھا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَفِيٓ أَمۡوَٰلِهِمۡ حَقّ لِّلسَّآئِلِ وَٱلۡمَحۡرُومِ.

(الذاریات، 51: 19)

’’اور ان کے اموال میں سائل اور محروم (سب حاجتمندوں) کا حق مقرر تھا۔ ‘‘

دوسرے مقام پر اسی حکم کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:

وَٱلَّذِينَ فِيٓ أَمۡوَٰلِهِمۡ حَقّ مَّعۡلُوم لِّلسَّآئِلِ وَٱلۡمَحۡرُومِ.

(المعارج، 70: 24، 25)

’’اور وہ (ایثار کیش) لوگ جن کے اموال میں حصہ مقرر ہے مانگنے والے اور نہ مانگنے والے محتاج کا۔ ‘‘

شیخ الاسلام اس امر کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اسلام نے ہمارے کمائے ہوئے مال میں محروم المعیشت افراد کا باقاعدہ حق رکھ دیا ہے جس کی حیثیت محض اخلاقی اور ترغیبی نہیں بلکہ شرعی و وجوبی اور قانونی ہے۔ اس کی ادائیگی محض نفلی نیکی نہیں، فرض ہے جسے پورا نہ کرنا حرام بلکہ جرم ہے۔ اگر اہلِ ثروت از خود حاجت مندوں کے حقوق اپنے مال سے ادا نہ کریں تو ریاست کی ذمہ داری ہے کہ بذریعہ قانون ان واجب الادا حقوق کی ادائیگی کا جبری اہتمام کرے، ورنہ یہ حق تلفی، استحصال اور صریحاً ظلم و زیادتی متصور ہوگی‘‘(اقتصادیات اسلام(بنیادی تصورات)، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری: 173)

اسلام نے سرمایہ پرستانہ قارونی فکر اور اسلامی فکر میں واضح حدِ فاصل (Line of Distinction) قائم کر دی ہے۔ قارونی فکر، اپنے سرمایہ و دولت کو نہ تو اللہ کی عطا تصور کرتی ہے، نہ خود کو نائب و امین سمجھتی ہے اور نہ ہی اس میں دوسروں کے حق کو تسلیم کرتی ہے جسے مستحقین پر خرچ کرنے کی ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہو۔ اس کے برعکس اسلامی فکر میں سرمایہ و دولت، انسانی علم کی پیداوار نہیں بلکہ محض اللہ کی دین ہے، انسان اس کا مالک نہیں بلکہ محض نائب و امین ہے اور اس میں دوسرے مستحق افراد کا بھی اسی طرح حق ہے جیسے خود مالک کا ہوتا ہے۔

دولت کی مساوی نہیں منصفانہ تقسیم

رزق میں کمی بیشی میں حکمتِ خداوندی یہ ہے کہ باری تعالیٰ نے اس دنیا کے تقسیم کار کے نظام کو اس طرح چلانا پسند فرمایا کہ ہر انسان ایک دوسرے سے وابستہ، مددگار اور ایک دوسرے کے کام آئے تاکہ اجتماعی معاشرتی زندگی کا ظہور ہو اور بہترین معاشی نظام قائم رہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

نَحۡنُ قَسَمۡنَا بَيۡنَهُم مَّعِيشَتَهُمۡ فِي ٱلۡحَيَوٰةِ ٱلدُّنۡيَاۚ وَ رَفَعۡنَا بَعۡضَهُمۡ فَوۡقَ بَعۡضٖ دَرَجَٰتٖ لِّيَتَّخِذَ بَعۡضُهُم بَعۡضٗا سُخۡرِيّٗاۗ.

(الزخرف، 43: 32)

’’ہم اِن کے درمیان دنیوی زندگی میں ان کے (اسبابِ) معیشت کو تقسیم کرتے ہیں اور ہم ہی ان میں سے بعض کو بعض پر (وسائل و دولت میں) درجات کی فوقیت دیتے ہیں (کیا ہم یہ اس لئے کرتے ہیں) کہ ان میں سے بعض (جو امیر ہیں) بعض (غریبوں) کا مذاق اڑائیں۔ ‘‘

اسلام میں حق معیشت میں برابری کے نظریے کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام فرماتے ہیں:

’’اسلام نے حقِ معیشت میں ''برابری'' کا جو نظریہ پیش کیا ہے اس کا معنی معاشی مساوات یا معیشت میں برابری نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کو زندہ رہنے کا حق حاصل ہو۔ معاشی جدوجہد اور ترقی کے راستے سب کے لیے یکساں ہوں اور ہر شخص کو یہ حق حاصل ہو کہ وہ اپنی کمائی ہوئی دولت کو استعمال کر کے اپنی معیشت میں ترقی کر سکے۔ اسلام دولت کی مساوی تقسیم (Equal Distribution of Wealth) کا قائل نہیں بلکہ دولت کی منصفانہ تقسیم (Equitable Distribution of Wealth) چاہتا ہے۔ ‘‘ (اقتصادیات اسلام(بنیادی تصورات)، ڈاکٹر محمد طاہر القادری: 189)

محنت، قابلیت، حافظہ، کام کرنے کی اعلیٰ اور جداگانہ اہلیت، طاقت اور صحت وغیرہ یہ سب صلاحیتیں ان کو یکساں نہیں ملتیں اسی لیے دولت کا کسی کے پاس کم یا زیادہ ہونا ناگزیر ہے لیکن قرآن کی رو سے تمام افراد کو حقِ معیشت یعنی ضروریاتِ زندگی کے مہیا کئے جانے کے بنیادی حق میں برابر رکھا گیا ہے۔

حق المعاش کی فراہمی اسلامی ریاست کی ذمہ داری

رعایا کو حق المعاش کی فراہمی اسلامی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ صاحبانِ اقتدار پر لازم ہے کہ اس امر کا انتظام کریں کہ کوئی بھی شخص حقِ معیشت سے محروم نہ رہے۔ بلکہ ہر فرد کو حصول معیشت کا مساوی حق دیا جائے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں اور کاوشوں کو بروئے کار لا کر باعزت اور حلال طریقے سے اپنی روزی کما سکے۔ اسلامی ریاست کی اس ذمہ داری کے بارے میں شیخ الاسلام فرماتے ہیں:

’’اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اگر معاشرہ میں غریب اور نادار لوگ زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہوں اور دوسری طرف امراء عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہوں تو اسلامی حکومت ان امیر لوگوں سے جبراً مال وصول کرکے غرباء اور ضرورت مندوں میں تقسیم کرے۔ ‘‘ (ایضاً: 198)

صرف و خرچ میں اِعتدال کا حکم

اپنی جائز اور حلال کمائی کے صرف کرنے کو دو شرطوں ''اسراف'' اور ''تبذیر'' کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔ اسراف اور تبذیر کے متعلق ارشاد ہے:

وَ كُلُواْ وَٱشۡرَبُواْ وَلَا تُسۡرِفُوٓاْۚ.

(الاعراف، 7: 31)

’’کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو‘‘

دوسرے مقام پر فرمایا:

وَلَا تُبَذِّرۡ تَبۡذِيرًا إِنَّ ٱلۡمُبَذِّرِينَ كَانُوٓاْ إِخۡوَٰنَ ٱلشَّيَٰطِينِۖ.

(بنی اسرائیل، 17: 26، 27)

’’اور (اپنا مال) فضول خرچی سے مت اڑاؤ بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔ ‘‘

اسراف و تبذیرکے غیر شرعی اور غیر متوازن رویوں کے بارے میں حضرت شیخ الاسلام فرماتے ہیں:

’’خرچ کرنے میں اسراف اور تبذیر معیشتِ فاسدہ کی علامات ہیں اس لئے ''اقتصاد'' اور میانہ روی اختیار کرنا ضروری ہے، مثلاً عام حالات میں یہ ہرگز نہیں ہونا چاہئے کہ خرچ آمدنی سے بڑھ جائے اور پھر حاجت براری کے لیے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑے بلکہ حتی الامکان اس کی سعی کرنی چاہیے کہ ان تمام اجتماعی حقوق کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ جو غنی ہونے کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کئے ہیں، اپنی اور اہل و عیال کی حاجات و ضروریات کے لئے کچھ نہ کچھ پس انداز کرے‘‘(اقتصادیات اسلام(بنیادی تصورات)، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری: 218)

اِمدادِ باہمی کی تلقین (Mutual Cooperation)

اسلام کا عطا کردہ تصورِ فلاح و بہبود صرف نظریہ و عقیدہ تک ہی محدود نہیں بلکہ عملاً ایک نظام کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک مثالی اسلامی مملکت میں افرادِ معاشرہ کی سلامتی و فلاح کو یقینی بنانے کے لئے اسلام امدادِ باہمی اور کفالتِ عامہ کا تصور دیتا ہے۔ حدیثِ نبوی ﷺ ہے:

خیر الناس أنفعهم للناس.

(طبراني، المعجم الأوسط، 6: 58، رقم: 5787)

’’لوگوں میں سے بہترین وہ شخص ہے جو ان میں سے (عام) لوگوں کے لئے زیادہ نفع بخش ہے‘‘

اسلام کے تصور اِمدادِ باہمی (Mutual Cooperation)کی بابت شیخ الاسلام فرماتے ہیں:

’’منفعت فراہم کرنے سے مراد ہر شعبۂ زندگی میں دوسروں کی مدد و تعاون بھی ہے۔ خلقِ خدا ایک دوسرے سے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں جڑی ہوئی ہے۔ امدادِ باہمی اور تعاون کے بغیر معاشی و معاشرتی استحکام کے مفقود ہونے کا خطرہ ہوتا ہے لہٰذا اسلام نے امداد باہمی کا تصور دے کر افراد میں تعاون، اخوت، عزت و احترام اور خوشحال زندگی گزارنے کا طریقہ بتا دیا ہے۔ ‘‘ (اقتصادیات اسلام(بنیادی تصورات)، ڈاکٹر محمد طاہر القادری: 475)

معاشی برتری کے لیے تجارت کو فوقیت

عصرِ حاضر میں بعض ممالک نے تجارت کو ''بطور ریاستی حکمتِ عملی (State Diplomacy) ''استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس طرح بڑی ریاستیں چھوٹی ریاستوں کو اشیاء کی فراہمی میں من مانی قیمت، تجارتی پابندیاں (Trade Sanctions)، داخلی سیاست میں دخل اندازی اور ایک لحاظ سے محکوم بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ اس لیے تجارتی استحکام اور اس کی ترقی کے بارے میں حضرت شیخ الاسلام لکھتے ہیں:

’’دورِجدید میں تجارت زبردست اہمیت کی حامل بن چکی ہے۔ یہ کسی بھی اقتصادی نظام کی کامیابی اور ترقی و برتری کی آئینہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ اقتصادی بہبود (Economic Welfare) اور خود کفالت (Self-Sufficiency) کی ضامن بھی بن گئی ہے۔ جن ممالک نے تجارت کے شعبہ کو ترقی دی وہ آج ترقی یافتہ اقوام کی صف میں شامل کیے جاتے ہیں، اس کے برعکس وہ ممالک جنہوں نے تجارت کی طرف خاطر خواہ توجہ نہ دی وہ غربت و افلاس، بیروزگاری، قرض اور معاشی استحصال کے شکنجے میں پھنسے پڑے ہیں‘‘(ایضاً: 648)

اسلامی اور غیراسلامی تصورِ معیشت میں فرق

شیخ الاسلام کے نزدیک اسلامی اور مغربی معاشیات نفسِ مضمون، طریق تجزیہ، بنیادی مفروضات اور نتائج کے اعتبار سے ایک دوسرے سے بہت مختلف ہے۔ آپ نے ان دونوں نظاموں کے درمیان اس طرح فرق و امتیاز بیان کیا ہے کہ اصل حقیقت بالکل واضح ہو جاتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

1۔ غیر اسلامی معاشیات انسانی سوچ اور تجربات پر مبنی ہے جبکہ اسلامی معاشیات کی بنیاد وحی الہٰی ہے۔

2۔ مغربی معاشیات میں زیادہ تر توجہ پیداوار بڑھانے پر ہوتی ہے جبکہ اسلامی معاشیات میں پیداوار بڑھانے کے ساتھ ساتھ منصفانہ تقسیم دولت پر بھی توجہ دی جاتی ہے۔

3۔ اسلامی معاشیات کا تمام تر تعلق آخرت کی نہ ختم ہونے والی زندگی کی کامیابی اور ناکامی پر ہے، جبکہ غیر اسلامی معاشیات کا مطمع نظر صرف دنیوی خوشحالی اور مادی ترقی ہے۔

4۔ مغربی معاشیات میں تمام نظریات کو صرف مشاہداتی اور عملی شواہد کی روشنی میں پرکھا جاتا ہے۔ لیکن اسلامی معاشیات میں تمام نظریات کو شریعتِ الہٰی کے بنیادی ڈھانچے پر جانچا جاتا ہے۔

5۔ مغربی معاشیات مشاہداتی حقائق کے بیان اور ان کی وقتی تعبیر سے غرض رکھتی ہے لیکن اس تجزیئے کی روشنی میں کوئی طریقۂ کار بیان کرنا اس کے دائرے سے خارج ہے جبکہ اسلامی معاشیات حقائق کے تجزئیے کے علاوہ لوگوں کے لیے مطلوبہ لائحہ عمل بھی پیش کرتی ہے اور اس لحاظ سے یہ ایک معیاری علم (Normative Science) کا درجہ رکھتی ہے۔ (ایضاً: 129)

اِسلامی معیشت کے بنیادی اصول و ضوابط

شیخ الاسلام اسلامی معاشی تعلیمات کی روح کو نظام میں ڈھالنے والے بنیادی اصول و ضوابط بیان کرتے ہوئے نہایت اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں:

1۔ ملکیتِ اموال سے مراد صرف امانت و نیابت ہے۔

2۔ زمین اور اس کی پیداوار میں اصلاً تمام انسانوں کا حق برابر ہے۔

3۔ جملہ اموال میں حاجت مندوں کا شرعی حق ہے۔

4۔ اصل رزق اور بنیادی حقِ معاش میں تمام انسان برابر ہیں۔

5۔ بنیادی حق المعاش کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔

6۔ حرام ذرائع معیشت کا انسداد بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔

7۔ صرف اور خرچ میں اقتصاد قائم رکھنا شرعی فریضہ ہے۔

8۔ ہر شہری کے لئے حتی المقدور کسب معاش ضروری ہے۔

9۔ کفالتِ عامہ کے نظام کا اجراء و تنفیذ ریاست کا فریضہ ہے۔

10۔ احتکار و اکتناز کا انسداد۔

11۔ اجتماعی مفاد کو انفرادی مفادات پر ترجیح حاصل ہے۔

12۔ غیر سودی معیشت کا قیام۔ (ایضاً: 144)

مذکورہ بالا بنیادی معاشی اور اقتصادی تصورات وہ لازمی عناصر ہیں جن سے اسلام کا نظام معیشت تشکیل پاتا ہے۔

معاشی استحکام کے لیے چندعملی تجاویز

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اقتصادی صورتحال میں انقلابی تبدیلی لانے کے لیے نہایت مفید تجاویز دی ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ اس حوالےسے ہمیں حکومتی اور شخصی دو سطحوں پر درج ذیل اقدامات کرنے ہوں گے:

حکومتی اقدامات

1۔ پرتکلف کھانے پینے اور پہننے کے مظاہر کو ختم کرنے کے لئے حکومتی حلقے فعال کردار ادا کریں اور نمود و نمائش اور اسراف کو ختم کریں جو اقتصادی تباہی کا سبب بن رہا ہے۔

2۔ معاشی طبقاتی تفاوت جو حکومتی کارکنوں کے مابین پائی جاتی ہے، اس کو ختم کیا جائے اور معاشرے کے تمام افراد کی عزت و تکریم کا خیال رکھا جائے اور یہ کام زندگی کے تمام شعبہ جات میں ہونا چاہیے۔

3۔ صنعتی و زرعی سیکٹرز اور حکومتی و پرائیویٹ دفاتر سے حاصل ہونے والے منافعوں کو تقسیم کیا جائے تاکہ ہر کام کرنے والا شخص اپنی فیملی کے حقوق کو اچھے طریقے سے ادا کر سکے اور کام کرنے والا محنتی طبقہ اقتصادی مصائب کی چکی میں نہ پستا رہے۔

4۔ ٹیکس کے نظام میں منصفانہ تبدیلی لائی جائے تاکہ ہر شخص ٹیکس ادا کرے اور کوئی شخص ناجائز سرمایہ اکٹھا نہ کر سکے۔ اس کے علاوہ جو چیز اقتصادی تباہی کا سبب بنتی ہے وہ یہ ہے کہ جب لوگوں پر ٹیکس لاگو کیا جاتا ہے تو اس وقت وہ ٹیکس سے بچنے کے لئے ناجائز طریقے استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے حکومتی خزانہ خالی رہتا ہے اس رویہ کا سدِباب کیا جائے۔

5۔ ٹیکس اور اقتصادی امور حکومتی کارکنوں کے ہاتھوں میں ہی محصور نہیں ہونے چاہئیں بلکہ ان امور کی انجام دہی میں مختلف تنظیموں کے لوگوں کو بھی شریک کیا جائے تاکہ حکومت مناسب اقتصادی نظام کو احسن طریقے سے اپنا سکے۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ حکومت اور عوام کے درمیان باہمی اعتماد رہے گا اور اقتصادی مسائل کم ہوتے جائیں گے۔

6۔ حکومتی دفاتر میں غیر ضروری اخراجات کو کم کیا جائے اور کارکنوں کے حقوق کی ادائیگی کے لئے سہولیات دی جائیں تاکہ حرام مال کھانے اور رشوت کے مواقع کم ہو جائیں۔

7۔ ایسے قوانین بنائے جائیں جن کے ذریعے ایسے عناصر کو سخت سزا دی جائے جو سمگلنگ، جوا، سٹہ بازی اور ڈرگ مافیا وغیرہ میں ملوث ہیں اور یہ قوانین اقتصادی حالت کو مزید بہتر کریں گے۔

شخصی اقدامات

1۔ امیر لوگ اپنی طاقت و قدرت کے مطابق سکول، کالج اور فنی تعلیم کے ادارے مفت کھولیں تاکہ غریب اور متوسط لوگوں کے بچوں کو فری تعلیم حاصل کرنے کے مواقع میسر آسکیں۔

2۔ امیر لوگوں کو فقیر اور متوسط طبقے کے لیے ایسے فری ہسپتال بنانے چاہئیں جن میں تمام جدید طبی سہولتوں کے مطابق علاج ممکن ہو۔

3۔ امیر طبقے کو رہائشی مکانات بنانے چاہئیں اور ان کو متوسط اور غریب لوگوں کو آسان قسطوں پر بیچ دینا چاہیے یا ان رہائشی مکانات کو سستے کرایوں پر دینا چاہیے تاکہ ان کے رہائشی مسائل حل ہوں اور ان کے لئے زندگی گزارنا آسان ہو جائے۔

4۔ امیر طبقہ کو ایسی امدادی سوسائٹیز تشکیل دینی چاہئیں جو مستحق لوگوں کو قرضِ حسنہ فراہم کریں تاکہ ان کی معاشرتی ضروریات پوری ہو سکیں، اسی طرح ان کو چھوٹی صنعتیں قائم کرنی چاہئیں جو معاشی لحاظ سے پسماندہ غریب اور بے روزگار لوگوں کی آمدنی کا ذریعہ بن جائیں۔ (ایضاً: 831)

یہ ایسی عملی تجاویز ہیں کہ جن کے ذریعے غریب لوگوں کو امیر لوگوں کے اموال میں شریک کیا جا سکتا ہے اور اس سے اموال صرف ایک طبقہ کے ہاتھ میں مرتکز نہیں ہوں گے بلکہ غریب لوگوں کی ضروریات بھی پوری ہوتی رہیں گی۔ یہ تمام امور اسلامی احکام کے مطابق ہیں جن سے معاشی اور معاشرتی ترقی یقینی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ معاشرے میں معاشی و اقتصادی خوشحالی صرف چند قوانین جو زکوٰۃ و عشر وغیرہ سے متعلق ہیں، ان ہی کے نفاذ سے حاصل نہیں ہو گئی تھی بلکہ حضور نبی اکرم ﷺ کی تربیت کے زیرِ اثر مسلم معاشرے میں ایسا قرآنی معاشی کلچر فروغ دیا جائے جس میں کسی فرد کا محروم المعیشت رہنا ممکن ہی نہ ہو۔

خلاصۂ کلام

اجتماعی سطح پر امتِ مسلمہ کے حالات و واقعات کے تناظر میں یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ بیشتر اسلامی ممالک میں بلاشبہ معاشیات کے میدان میں تصنیف و تالیف کا سلسلہ تو جاری رہا لیکن خاطر خواہ مثبت نتائج برآمد نہ ہوئے کیونکہ یہاں کے لوگوں کی معاشی میدان میں صحیح رہنمائی نہیں کی گئی۔ نتیجتاً نہ تو معاشی مسائل حل ہوئے اور نہ ہی معاشی ترقی کا حصول ممکن ہوسکا۔

جب معاشرے میں پیدا ہونے والے معاشی مسائل کا حل دکھائی نہ دے رہا ہو، اسلام کے قابلِ عمل ہونے کے حوالے سے طرح طرح کے سوالات ذہن میں جنم لے رہے ہوں اور متعدد مفکرین اور قائدین ان مسائل کے کسی حقیقی حل تک نہ پہنچ سکے ہوں تو اِن حالات میں ہمیں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہی کی شخصیت نظر آتی ہے، جن کی بیک وقت دینی و دنیاوی علوم پر گہری نظر ہے۔ آپ نے جس طرح ہر حوالے سے امتِ مسلمہ کے احیاء کے لیے لائحہ عمل تشکیل دیا، اسی طرح اسلام کے نظامِ معیشت کے قابلِ عمل ہونے کی طرف بھی نہ صرف نظریاتی بلکہ عملی طور پر راہنمائی فرمائی۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی خداداد دانش و بصیرت سے اسلام کے معاشی افکار اور نظام اقتصادیات کو اس قدر توضیح و تشریح کے ساتھ پیش کیا کہ اگر اربابِ اقتدار ان سے راہنمائی لیتے ہوئے سنجیدہ اقدامات اٹھائیں تو اسلام کا یہ رُخِ روشن بھی دنیا کے سامنے عیاں ہوکر ہر خاص و عام کو روشنی عطا کرسکتا ہے۔

شیخ الاسلام نے اسلام کے معاشی افکار جیسے اہم موضوع پر جس انداز سے کام کیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس ضمن میں اگر ہم صرف شیخ الاسلام کی تصنیف ’’اقتصادیاتِ اسلام‘‘ ہی کا مطالعہ کریں تو اسلام کی معاشی فکر کے حوالے سے درج ذیل موضوعات ہمارے اذہان کو روشن کرتے چلے جاتے ہیں:

1۔ اسلامی معاشیات کی اساس و ارتقاء

2۔ اسلامی نظامِ معیشت کے بنیادی اصول و ضوابط

3۔ زمین کی تحدید اور تقسیم 4۔ غیر سودی معیشت

5۔ بنیادی حق المعاش کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری

6۔ اجتماعی مفاد کو انفرادی مفادات پر ترجیح دینا

7۔ اسلام کا تصورِ مال اور انفاق فی المال

8۔ اسلام کا تصورِ ملکیت

9۔ اسلامی معیشت میں امدادِ باہمی اور کفالتِ عامہ کا نظام

10۔ زمین، زراعت اور مزارعت

11۔ تجارت، شراکت اورمضاربت

12۔ صنعت اور لیبر پالیسی

13۔ اسلامی معاشی نظام کی تنفیذ

شیخ الاسلام نے جس انداز سے اسلام کے معاشی افکار کو واضح کیا، یہ آپ کی تبحر علمی، اجتہادی بصیرت اور فنی و تحقیقی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بلاشبہ شیخ الاسلام کی وسیع النظری، اعلیٰ علمی قابلیت، حقیقت پسندی اور ان کے افکار تعلیماتِ اسلامیہ کے ساتھ ان کے گہرے تعلق کے آئینہ دار ہیں۔

امیدِ واثق ہے کہ آج کے اس پُرفتن، مادہ پرست، دین سے بے بہرہ اور معاشی بدحالی کے شکار معاشرے میں شیخ الاسلام کے یہ افکار حقیقی اسلامی معاشی نظام کو ترتیب دینے میں بہترین سنگ میل ثابت ہوں گے۔ اللہ رب العزت کے حضور دعا ہے کہ وہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی جملہ عظیم کاوشوں کو اپنی بارگاہِ عالیہ میں قبول و منظور فرمائے۔ ہمیں ان کے اِن افکار سے رہنمائی لینے اور اس مصطفوی مشن میں اُن کی سنگت میں استقامت عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ