شیخ الاسلام کے تصور تجدید و احیائے دین کی انفرادیت و جامعیت

ڈاکٹر محمد رفیق حبیب

زیرِ نظر مضمون شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کی شخصیت، فکرو فلسفہ اور تجدید و احیائے دین کے سلسلہ میں خدمات کے حوالے سے ہونے والی سب سے پہلی Ph.D کے کے ایک باب کی تلخیص ہے۔ محترم ڈاکٹر محمد رفیق حبیب نے University of Aberdeen, Scotland, UK سے Ph.D مکمل کی ہے۔ انھوں نے ’’A critical analysis of the ideology of Dr Muhammad Tahir-ul-Qadri with special reference to Islamic Revivalism” کے عنوان سے مقالہ تحریر کیا۔ یہ مقالہ Scholars press Germany نے کتاب کی صورت میں Islamic Revivalism: necessity & challange کے نام سے شائع کیا ہے اور یہ Amazon پر موجود ہے۔


تجدید و احیائے دین کی سب سے بڑی اور عالمگیر تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل کے بانی و سرپرست اعلیٰ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ نے روز اوّل سے ہی اصلاحِ احوال امت، تجدید و احیائے دین اور غلبۂ دین حق کی بحالی کو اپنی فکرو فلسفہ اور تحریک کے جملہ فورمز کی تمام تر جدوجہد کا بنیادی ہدف قرار دے رکھا ہے اور اسی خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے شیخ الاسلام مدظلہ نے اپنی حیات کا ایک ایک لمحہ وقف کررکھا ہے۔

زیرِ نظر نگارشات کا مقصد اصلاحِ احوال امت، تجدید واحیائے دین اور غلبۂ دینِ حق کی بحالی کے حوالے سے شیخ الاسلام مدظلہ کی فکروفلسفہ، حکمتِ عملی اورعملی جدوجہد کے ان چند منفرد اور جامع پہلوؤں کا جائزہ لینا ہے جو انھیں دیگر مفکرین و مصلحینِ امت سے ممتاز و ممیز کرتے ہیں۔

شیخ الاسلام نے تجدید و احیائے دین کے حوالے سے اپنی فکر کو ’’قرآنی فلسفۂ انقلاب‘‘ کا نام دیا ہے۔ لہذا سب سے پہلے تو ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے۔ ’’قرآنی فلسفہ انقلاب‘‘ سے ان کی مراد کیا ہے؟ اس کے بنیادی خدوخال کیا ہیں اور عصرِ حاضر میں اس کی ضرورت و اہمیت کیا ہے؟ یہ بنیادی تصور واضح ہوجانے کے بعد ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ شیخ الاسلام مدظلہ کی انقلابی فکرو نظر کے مطابق دینِ اسلام کے فکری و نظریاتی، علمی، تحقیقی، سیاسی، سماجی، ثقافتی، معاشی، قانونی، مذہبی اور روحانی پہلوؤں میں وہ کون سی اساسی تبدیلیاں اور تغیرات رونما ہوئے ہیں جن کے نتیجے میں امتِ مسلمہ زوال و انحطاط کا شکار ہوئی ہے اور جن کا سدِّباب کئے بغیر اصلاحِ احوالِ امت، تجدید و احیائے دین اور غلبۂ دین حق کی بحالی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔

1۔ شیخ الاسلام کی فکر کا پہلا نمایاں پہلو: عروج و زوال آفاقی قوانین کی پیروی و عدم پیروی پر منحصر ہے

شیخ الاسلام مدظلہ کے مطابق اقوام کا عروج و زوال فطرت کے آفاقی قوانین و ضوابط کا پابند ہے جو قوم ان قوانینِ فطرت کی پابندی کرتی ہے، عظمت و رفعت اس کا مقدر قرار پاتی ہے اور جو قوم ان الوہی قواعد و ضوابط سے انحراف کرتی ہے، اسے زوال اور پستی سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اگر تاریخ انسانی کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ اقوام کے عروج و زوال کی ایک کہانی دکھائی دیتی ہے جسے ہر مؤرخ اپنے خاص انداز اور طریقے سے بیان کرتا ہے۔ وہ مزید فرماتے ہیں کہ اقوام کے عروج و زوال کی کہانی اگر تاریخ کہلاتی ہے تو پھر زوال و پستی کے قعرِ مذلت میں گری ہوئی کسی قوم کو دوبارہ عروج آشنا کرنے والے علم کو کیا کہا جائے گا؟ علومِ اسلامیہ کا یہ وہ گوشہ ہے جس کے حوالے سے بہت ہی کم کہا اور لکھا گیا ہے۔

چنانچہ وہ علم جو اقوام کے زوال کو عروج اور سربلندی میں تبدیل کرنے کے گُر اور طریقے بتائے اس کے سوتے براهِ راست قرآن و سنت سے پھوٹنے چاہئیں۔ کیونکہ فکری و نظریاتی نظام، عملی قوانین و ضوابط اور ان کا درست لائحہ عمل ہی کسی قوم کے روشن مستقبل کی راہیں متعین کرتا ہے اور ان کی پستی کو بتدریج بلندی اور عظمت میں بدلنے کی راہیں ہموار کرتا ہے۔ ماضی اور حال کا موازنہ یہ آشکار کرتا ہے کہ اس وقت فکر اور نظریہ ہی ہر طرف غالب و حاکم ہے۔

بقول شیخ الاسلام مدظلہ باہمی تصادم و جدال تاریخِ انسانی کا ایک بنیادی عنصر رہا ہے جس کی جانب امریکی مفکر Huntington نے بھی یہ کہتے ہوئے اشارہ کیا ہے کہ

The fault lines between civilizations will be the battle lines of the future (Huntington 1996,1)

لہذا اس تصور کے پیشِ نظر مختلف تہذیبوں کے مابین تصادم درحقیقت ان کی اپنی بقا کی جنگ ہے اور اس جنگ میں جو تہذیب ہر حوالے سے مکمل اور جامع ہوگی، وہی باقی و زندہ رہے گی۔

2۔ دوسرا نمایاں پہلو: عروج و تمکنت کے لیے قرآن سے رہنمائی ناگزیر ہے

زوال آشنا کسی قوم کو عروج اور سربلندی کی راہ پر گامزن کرنے کا طریقہ اور لائحہ عمل اگر قرآن مجید سے تلاش کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ تمام آیات جو نزولِ قرآن کے مقصد اور انبیاء و رسل کے فرائضِ نبوت و رسالت کو بیان کرتی ہیں، ان سے اس سلسلے میں بنیادی راہنمائی فراہم ہوتی ہے۔اللہ رب العزت کے فرمان:

یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُهُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَیُزَکِّیْهِمْ.

(البقرة، 2: 129)

مذکورہ فرمان اور ان جیسی دیگر آیات کی روشنی میں شیخ الاسلام مدظلہ فرماتے ہیں کہ ’’حکمت و دانائی‘‘ کارِ نبوت کا ایک بنیادی تقاضا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر نبی و رسول ﷺ کو ’’حکمت و دانائی‘‘ کی دولت سے سرفراز فرمایا گیا۔

لہذا قرآنی تصورِ حکمت کو بروئے کار لاتے ہوئے زوال و انحطاط کا شکار کسی قوم کے لیے قرآن مجید سے براهِ راست اس کے عروج و تمکنت کے لیے فکرو نظریہ، عملی اساس اور لائحہ عمل اخذ کرنے کا نام ’’قرآنی فلسفہ انقلاب‘‘ ہے۔ کیونکہ قرآن اقوام کے عروج و زوال سے متعلق قوانین و ضوابط کو اس قدر حتمیت اور قطعیت سے بیان کرتا ہے کہ ان کی صداقت و معقولیت میں کسی قسم کا ہلکا سا بھی شائبہ باقی نہیں رہتا۔ اسی حقیقت کے پیشِ نظر زوال و پستی کو عروج و عظمت میں تبدیل کرنے کے اس علم کو علومِ اسلامیہ ہی کی ایک شاخ قرار دیا جاسکتا ہے۔

رہا یہ سوال کہ ماضی میں مسلم مفکرین نے اس علم کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ کاوش کیوں نہیں کی تو اس کا جواب شیخ الاسلام مدظلہ یوں دیتے ہیں کہ

’’اس علم کا جو مقصد و مدعا ہے یعنی ’’عروج و تمکنت‘‘ اور ’’بلندی و سرفرازی‘‘ وہ چونکہ اسلام اور عالمِ اسلام کے پاس پہلے سے موجود تھی۔ اسلام بطور نظامِ حکومت و سلطنت اور اس کی تہذیب و ثقافت غالب ونافذ تھی۔ اس لیے اس موضوعِ علم کو زیرِ بحث لانے اور اس کے متعلق تحقیق و تصنیف یا اس سلسلے میں کسی تنظیم و تحریک کو معرضِ وجود میں لانے کے چنداں ضرورت نہ تھی۔‘‘

اقوام کا عروج و زوال پہلے سے مقرر شدہ الوہی نظام کے تابع ہے۔ قرآن جہاں اپنی آفاقی تعلیمات کی موثریت و نتیجہ خیزی اور ان کے مثبت اثرات و ثمرات کی یقین دہانی کرواتا ہے، وہاں وہ ان سے انحراف و عدول کی صورت میں پیش آمدہ خطرات و نقصانات سے بھی آگاہی فراہم کرتا ہے۔ اقوام کے عروج و زوال اور باہمی تصادم کا یہ سلسلہ چونکہ آغازِ نسلِ بنی آدم سے جاری ہے۔ اس لیے آج کی کامیاب ترین حاکم اور غالب قوم کل کو زوال و پستی کے قعرِ مذلت میں گر سکتی ہے جبکہ آج زوال و انحطاط کا شکار کوئی قوم کل اوجِ ثریا پر کمندیں ڈال سکتی ہے۔

تاریخ انسانی کا یہ منظر نامہ الوہی نظام کے مقرر شدہ قوانین و ضوابط کے تحت انجام پاتا ہے اور کسی قسم کے حادثات کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں۔ پہلے سے طے شدہ اور مقرر ان قوانین کے لیے قرآن نے ’’سنۃ اللہ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے:

سُنَّةَ اللهِ فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبْدِیْلًا.

(الاحزاب، 33: 62)

جو نہ توکبھی تبدیل ہوئی ہے اور نہ ہی اس میں کسی قسم کا کوئی انحراف پیدا ہوتا ہے۔

لہذا اقوام کا عروج و زوال مخصوص اور مقرر شدہ الوہی قواعد و ضوابط کے تابع ہے جو دائمی اور ناقابلِ تغیر ہیں۔ ان قوانین کی پابندی اور بجا آوری قوموں کو عروج و تمکنت سے ہمکنار کرتی ہے جبکہ ان سے عدول و انحراف تباہی و بربادی اور ذلت و رسوائی پر منتج ہوتا ہے۔

3۔ تیسرا نمایاں پہلو: زوال کا باعث بننے والے تغیرات کی نشاندہی

اقوام اورمعاشرے چونکہ افراد سے تشکیل پاتے ہیں، اس لیے عروج و زوال کا اندازہ بھی افرادِ معاشرہ کی اجتماعی کیفیت و حالت سے لگایا جاتا ہے۔ اسی لیے قرآن نے دو ٹوک الفاظ میں یہ اصول واضح کردیا ہے کہ

اِنَّ اللهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ.

(الرعد، 13: 11)

’’بے شک الله کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے آپ میں خود تبدیلی پیدا کر ڈالیں۔‘‘

لہذا اس آیت اور اس کی مثل دیگر آیات کے پیشِ نظر شیخ الاسلام مدظلہ کا دعویٰ ہے کہ ’’کسی قوم کی اچھی یا بری حالت اس وقت تک تبدیل نہیں ہوتی جب تک وہ قوم انفرادی سطح پر اس تبدیلی کے لیے جواز فراہم نہیں کرتی۔ اس لیے وہ زمین جہاں پر تبدیلی و تغیر کا بیج بویا جاتا ہے وہ افرادِ قوم ہیں۔ افراد میں تبدیلی بعد ازاں سوسائٹی، معاشرے اور قوم میں تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ اسی اصول کے پیشِ نظر شیخ الاسلام مدظلہ کے نزدیک کسی قوم میں تبدیلی و تغیر رونما ہونے کے دو درجے ہیں:

1۔ پہلا درجہ: انفرادی، شخصی اور شعوری سطح پر تغیر

2۔ دوسرا درجہ: عملی و اخلاقی سطح پر تغیر

اس کی مزید وضاحت وہ یوں فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے تغیر قوم کی فکر، نظریے اور خیالات میں رونما ہوتا ہے اور اس کے بعد وہ قوم ان تغیر شدہ اور بدلے ہوئے نظریات و خیالات کو خارجی سطح پر عملی جامہ پہنا لیتی ہے۔

لہذا یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجانی چاہیے کہ کوئی بھی قوم اپنے عروج و تمکنت اور غلبہ و سربلندی سے اس وقت تک محروم نہیں ہوتی جب تک وہ اس کے لیے کوئی عملی جواز فراہم نہیں کرتی۔ اسی طرح عروج و غلبہ اور سرفرازی اس وقت تک کسی قوم کا مقدر نہیں بنتی جب تک وہ ہر حوالے سے انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت نہیں کرتی۔

4۔ چوتھا نمایاں پہلو: فلاح و خوشحالی کی ضمانت مبنی بر وحی الوہی نظام

بنی نوع انسان کی راہنمائی اور کامیابی کے لیے ہر دور میں انبیاء و رسل علیہم السلام ایک واضح فکری و عملی نظام کے ساتھ مبعوث ہوتے رہے ہیں اور ان کی دعوت کا مقصدِ وحید انسان کو اس کی عظمت و رفعت کی ان بلندیوں پر فائز کرنا تھا کہ جہاں پر وہ دینی و مذہبی اعتبار سے ہر اس فکر، نظریے اور فلسفے کو یکسر مسترد کردے جو اسے غیراللہ کے تابع اور فرمانبردار بناکر اسے اس کی انسانی برتری و فوقیت سے محروم کرتا ہو۔ سماجی سطح پر انسان ہر اس شے کو مسترد کردے جو قرآنی تصورِ برائی (منکر) کے تحت آتی ہو اور ہر اس چیز اور عمل کو اختیار کرلے جو قرآنی تصورِ نیکی(معروف)کے ذیل میں آتی ہو اور سیاسی سطح پر صرف اور صرف وحی الہٰی پر مبنی الوھی نظامِ زندگی نافذ کرے اور انسانی حکمران اپنی سلطنت و اختیارات الوہی نظام کے تابع ہوکر اللہ تعالیٰ کے نائب، امین اور خلیفہ کے طور پر استعمال کریں۔ اسی مقصد کے لیے تمام انبیاء و رسل علیہم السلام مبعوث کیے گئے لیکن وہ مخصوص وقت، خطے اور قوم کے لیے تھے جبکہ اس کے برعکس خاتم الانبیاء و مرسلین حضور سرور عالم ﷺ جن پر الوہی ہدایت و راہنمائی کا جاری نظام مکمل ہوگیا، ان کی نبوت و رسالت دائمی اور آفاقی ہے اور انسانیت کو اب مزید کسی ہدایت اور راہنمائی کی ضرورت باقی نہیں رہی۔

اس لیے بقول شیخ الاسلام مدظلہ انسانی بھلائی، فلاح اور خوشحالی کی ضمانت، صرف اور صرف وحی پر مبنی الوہی نظام کو تمام شعبہ ہائے حیات میں عملی طور پر اپنانے میں ہے اور اس سے انحراف و عدول تباہی و بربادی کا باعث بن سکتا ہے۔

کیا اقوامِ سابقہ کی تباہی و بربادی محض ایک حادثہ تھی؟

جیسا کہ ہم جان چکے ہیں کہ انبیاء و رسل علیہم السلام کی بعثت کا مقصد انسان کی فلاح، کامیابی، خوشحالی اور عظمت و رفعت کو یقینی بنانا تھا۔ اسی لیے کسی بھی قوم کو ان کی نافرمانیوں اور بداعمالیوں کی وجہ سے نیست و نابود کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ اپنے مقرر کردہ الوہی نظام کے مطابق ان کی جانب انبیاء مبعوث فرماتا ہے تاکہ وہ اپنے اعمال و کردار کی اصلاح کرکے اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچ جائیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَمَآ اَهْلَکْنَا مِنْ قَرْیَةٍ اِلَّا لَهَا مُنْذِرُوْنَ.

(الشعراء، 26: 208)

’’اور ہم نے سوائے ان (بستیوں) کے جن کے لیے ڈرانے والے (آچکے) تھے کسی بستی کو ہلاک نہیں کیا۔‘‘

جن قوموں نے انبیاء مبعوث ہونے کے باوجود اصلاحِ احوال نہ کی اور ظلم و تعدی کی راہ پر گامزن رہے تو تباہی و بربادی ان کا مقدر ٹھہری۔ لہذا شیخ الاسلام مدظلہ کے نزدیک سابقہ قوموں کی تباہی کوئی حادثہ نہ تھی بلکہ ان کی اپنی خودسری اور احکامِ خداوندی سے بغاوت اور انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت کو قبول نہ کرنے کا نتیجہ تھی۔ قوموں کی تباہی و بربادی کی وجوہات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ قرآن ان امتیازی خصائص کو بھی بیان کرتا ہے۔ جن کو اپنا حرزِ جاں بناکر کوئی قوم عظمت و سربلندی کی منزلیں کامیابی کے ساتھ طے کرسکتی ہے۔

قرآن مجید کی آیات کی روشنی میں شیخ الاسلام مدظلہ فرماتے ہیں کہ کامیابی، استحکام، عظمت و رفعت اور شان و شوکت کی ضمانت اس قوم کو دی جاتی ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر پختہ اور غیر متزلزل ایمان رکھے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر سختی سے پابند ہو اور معاشرے کی بھلائی اور فلاح و بہبود کے لیے شب و روز مصروفِ عمل رہے۔

سابقہ اقوام کی تباہی و بربادی کے اسباب و محرکات اور کسی کامیاب قوم کی عظمت و رفعت کے ضروری تقاضوں کے بیان کے ساتھ ساتھ قرآن اس قوم کی عظمت، سربلندی، غلبہ اور دائمی وقار کی ضمانت بھی فراہم کرتا ہے جو ان تمام ضروریات، تقاضوں اور خصوصیات کو دل و جان سے اپناتی ہے جو اس سلسلے میں لازمی و ضروری ہیں۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلَا تَهِنُوْا وَ لَاتَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ.

(آل عمران، 3: 139)

’’اور تم ہمت نہ ہارو اور نہ غم کرو اور تم ہی غالب آؤ گے اگر تم (کامل) ایمان رکھتے ہو۔‘‘

کامیابی کی جو ضمانت تمام انبیاء و رسل علیہم السلام کو فراہم کی گئی تھی، وہی ضمانت ان پر ایمان لانے والے مومنین کو بھی عطا کی گئی ہے۔ جیسا کہ درج ذیل آیت قرآنی سے واضح ہے:

وَ کَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ.

(الروم، 30: 47)

’’اور مومنوں کی مدد کرنا ہمارے ذمۂِ کرم پر تھا (اور ہے)۔‘‘

لہذا کامیابی کی اسی ضمانت کا امتِ مسلمہ سے بھی وعدہ کیا گیا ہے۔ اگرچہ امتِ مسلمہ کو قرآن کی صورت میں سب سے کامل واکمل سے سب سے آخری الوہی ہدایت سے نوازا گیا ہے اور حتمی کامیابی کی ضمانت بھی فراہم کی گئی ہے مگر اس کے ساتھ ہی اسے ان تمام فرائض و واجبات کے لیے جو اب وہ بھی ٹھہرایا گیا جن کی ادائیگی لازمی و ضروری ہے اور ان خصوصیات کے لیے بھی جن کو اپنے اندر پیدا کرنے کا اس سے تقاضا کیا گیا ہے۔

5۔ پانچواں نمایاں پہلو: قرآنی فکر سے انحراف کے سبب کی نشاندہی

شیخ الاسلام مدظلہ کے نزدیک عصر حاضر میں امت مسلمہ کی قرآنی فکر سے دوری و انحراف کی سب سے بڑی وجہ اس کی روزمرہ کی زندگی میں اسلامی فکرو عمل کے مؤثر و قابلِ عمل ہونے کے بارے میں غیر یقینی اور عدمِ تیقن ہے۔ اس غیر یقینی نے مزید مایوسی اور ناامیدی کا روپ دھار لیا ہے جس کا لازمی نتیجہ بے عملی اور اسلام اور اس کی اقدار سے دوری و انحراف ہے۔

جب امت کی اس اذیت ناک اور پریشان کن حالت کے بارے میں مذہبی لیڈر شپ سے سوال کیا جاتا ہے تو اکثر اوقات ان کی طرف سے یہ جواب دیا جاتا ہے کہ قربِ قیامت میں امت پہ زوال و پستی اور دگر گوں حالت حضور نبی اکرم ﷺ کے ارشادات اور پیشین گوئیوں کے عین مطابق ہے۔ گویا کہ انھوں نے اپنی اس زوال و پستی اور ذلت و رسوائی کو اپنی ممکنہ تقدیر سمجھ کر قبول کرلیا ہے۔

شیخ الاسلام مدظلہ مزید فرماتے ہیں کہ اگر ان مذہبی رہنماؤں سے یہ سوال کیا جائے کہ اگر یہ سب تقدیر ہے تو پھر اصلاحِ احوال، تجدید و احیائے دین اور اشاعت وفروغ دین کے لیے مختلف جماعتوں، تنظیموں اور تحریکوں کو معرض وجود میں لانے اور اس سلسلے میں اپنی توانائیاں صرف کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

اس کے بارے میں عام طو پر دو جواب دیئے جاتے ہیں:

1۔ پہلا یہ کہ امت کے زوال و انحطاط کو عروج و سربلندی میں بدلنے کی یہ تمام تر جدوجہد اور کاوشیں محض اخروی کامیابی اور آخرت کے اجرو ثواب کے لیے ہیں۔ ان تمام تر مساعی کی اس دنیا میں کامیابی اور نتیجہ خیزی کی کوئی حیثیت نہیں۔

یہ سوچ اور رویہ معروضی حالات سے مکمل طور پر سمجھوتہ کرلینے کا نتیجہ ہے اور اس سوچ اور فکر کے ساتھ معاشرے میں کوئی بنیادی تبدیلی اور انقلاب رونما نہیں کیا جاسکتا۔

2۔ دوسرا جواب اس سوال کا یہ ہوتا ہے کہ ہمارا فرض اور ذمہ داری کامیابی اور غلبہ کے لیے محنت، کاوش اور جدوجہد کرنا ہے۔ اس کے نتیجے میں کوئی مثبت تبدیلی رونما ہوتی ہے یا نہیں۔ برائی کا سدِّباب ہوتا ہے اور نیکی پروان چڑھتی ہے یا نہیں، اس کی کوئی اہمیت نہیں۔

اس سوچ کے حاملین کے نقطہ نظر کے مطابق اسلام صرف آخرت کی کامیابی کی ضمانت دیتا ہے۔ محنت و جدوجہد کی دنیا ہی میں کامیابی کی نہ تو اسلام ضمانت دیتا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی قدرو اہمیت ہے۔

مذکورہ دونوں رویوں کا نتیجہ ہے کہ اس وقت اسلامی نظامِ زندگی ناقابلِ عمل اور غیر مؤثر سمجھا جانے لگا ہے اور فرزندانِ اسلام خود ہی انفرادی اور اجتماعی طور پر اسلام کی تعلیمات و اقدار سے دست کش نظر آتے ہیں کیونکہ وہ اپنے اعمال و افعال کی نتیجہ خیزی اور موثریت کے بارے میں عدم یقینی کا شکار ہیں۔

اس عدم یقینی کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ ’’یقین مشاہدہ سے جنم لیتا ہے اور مشاہدہ تجربی توثیق سے حاصل ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ یقین کے دو درجات ہیں: عمومی اور خصوصی۔ عمومی یقین ’’علم بالغیب‘‘ کا دوسرا نام ہے جو صرف علم سے ہی حاصل ہوسکتا ہے اس کو ’’علم الیقین‘‘ بھی کہتے ہیں جبکہ خصوصی یقین مشاہدہ سے حاصل ہوتا ہے اور اس کو ’’عین الیقین‘‘ کہا جاتا ہے۔ جبکہ ’’حق الیقین‘‘ اپنے آپ کو کسی خاص صورت حال میں عملی طور پر ڈال دینے سے حاصل ہوتا ہے۔ یقین کے یہی تینوں درجات دراصل اسلامی تعلیمات کی اثر انگیزی اور نتیجہ خیزی کے درجات کو متعین کرتے ہیں۔

قرآن درحقیقت فرزندانِ اسلام کو تیسرے اور سب سے اعلیٰ درجے یعنی ’’حق الیقین‘‘ کو اپنانے کا تقاضا کرتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ.

(الحجر، 15: 99)

’’ اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آپ کو (آپکی شان کے لائق) مقامِ یقین مل جائے (یعنی انشراحِ کامل نصیب ہو جائے یا لمحۂِ وصالِ حق)۔‘‘

لہذا فی زمانہ امتِ مسلمہ کی بے عملی اور اسلامی تعلیمات و نظامِ حیات سے دوری دراصل اسلام کے فکرو فلسفہ اور اس کی تعلیمات کے دورِ حاضر میں قابلِ عمل اور نتیجہ خیز ہونے کے بارے میں ان کی عدم یقینی کا ہی نتیجہ ہے۔ اس بے عملی کا علاج اسلام کی لازوال و بے مثال تعلیمات کی موثریت اور نتیجہ خیزی کے بارے میں اپنے یقین و اطمینان کو ’’حق الیقین‘‘ کے درجے پر لاکر ہی کیا جاسکتا ہے۔

اسلامی فکر و عمل کی نتیجہ خیزی کے بارے میں یقین متزلزل کیوں ہوا؟ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ اگر اعمال و افعال کی عملی نتیجہ خیزی کا مشاہدہ مفقود ہوجائے تو ان اعمال و افعال کی اثر انگیزی کے متعلق یقین بھی متزلزل ہوجاتا ہے۔

6۔ چھٹا نمایاں پہلو: تعلیماتِ اسلامی کی عدم مؤثریت کی وجوہات کا بیان

دور ماضی (ماقبل و مابعد زوال) کا موازنہ کرنے اور تنقیدی جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی تعلیمات کی غیر موثر ہونے کی دو بڑی وجوہات ہیں:

1۔ امت مسلمہ کی قوتِ نافذہ سے محرومی

2۔ اسلامی فکرو فلسفہ کا جمود و تعطل

دنیا کا کوئی نظامِ حیات قوتِ نافذہ کے حصول کے بغیر مطلوبہ نتائج پیدا نہیں کرسکتا کیونکہ کسی بھی نظام اور اس کے قوانین و ضوابط کو عملی طور پر نافذ کرنے اور ان کے عملی ثمرات کو یقینی بنانے کے لیے اقتدار و حکومت ہی سب سے اہم اور موثر ذریعہ ہے۔ اس لیے جب اسلام بطورِ نظام اپنے سیاسی غلبہ اور قوت و اقتدار سے محروم ہوا تو نتیجتاً اس کی تعلیمات کی موثریت بھی ماند پڑگئی جس نے مزید عدم یقینی، بے عملی کو جنم دیا۔

فکر اسلامی کے جمود و تعطل کو زوال و انحطاط کی دوسری بڑی وجہ قرار دیتے ہوئے شیخ الاسلام مدظلہ کا دعویٰ ہے کہ اسلام چونکہ قیامت تک کے لیے ایک مکمل عملی ضابطہ حیات ہے۔ اس لیے وہ ایسے قواعد و ضوابط اور ہدایت و راہنمائی فراہم کرتا ہے جو موجودہ اور آنے والے ہر دور کے لیے یکساں قابلِ عمل، موثر اور نتیجہ خیز ہیں۔ ان میں سے کچھ قواعد و ضوابط اپنی حیثیت میں بنیادی اور اصل (ھیئت اصلیہ) ہیں اور وہ کسی حالت اور زمانے میں تبدیل نہیں ہوتے جبکہ کچھ قواعد و ضوابط ثانوی حیثیت (ھیئت کذائیہ) کے ہیں جو وقت، جگہ اور حالات کے تبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔

امت کے باصلاحیت اور صائب الرائے فقہا، مجتہدین اور اربابِ حل و عقد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بدلے ہوئے وقت اور حالات کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق اصلی اور بنیادی قواعد و ضوابط (ھیئت اصلیہ) کی روشنی میں ثانوی قواعد و ضوابط (ھیئت کذائیہ) میں ترمیم و اضافہ جات کرکے انہیں بدلے ہوئے وقت و حالات کے مطابق مؤثر و قابلِ عمل بناتے رہیں۔ اسلامی فکر و تعلیمات کے اسی احیاء و تجدید کو ’’اجتہاد‘‘ کا نام دیا جاتا ہے جس کی حدود و قیود پہلے سے ہی متعین کردی گئی ہیں۔

اسلام کے ابتدائی دور میں چونکہ ’’اجتہاد‘‘ عملی طور پر رائج تھا اس لیے مسلم فقہا بیش آمدہ چیلنجز کا مقابلہ بذریعہ اجتہاد کرتے رہے جبکہ بعد کے وقتوں میں جب اسلامی فکر کی ارتقائی ترقی کمزور پڑگئی اور ہر طرف جمود و تعطل نے ڈیرے ڈال لیے تو ’’اجتہاد‘‘ کے تمام دروازوں کو مستقل اور دائمی طور پر بند قرار دے دیا گیا۔ جس کا لازمی نتیجہ اسلامی تعلیمات کے مسلسل ترقی پذیر دنیا کے مسائل و مشکلات اور چیلنجز کا قابلِ عمل حل پیش کرنے میں ناکامی کی صورت میں نکلا۔ اس ناکامی کی وجہ سے اسلامی تعلیمات کی اثر انگیزی اور مطلوبہ نتائج کا مشاہدہ بھی مفقود ہوگیا جو امتِ مسلمہ کی بے یقینی اور بے عملی کا سبب بنا۔

(جاری ہے)