اعتدال اور رواداری کے فروغ میں شیخ الاسلام کا کردار

انجینئر محمد رفیق نجم

اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ انسانی حیات کو اسلام جو اصول حسن بخشتا ہے وہ اصولِ اعتدال ہے۔ ہمارا دین دینِ اعتدال ہے۔ کسی بھی مہذب معاشرے کی اعلیٰ اقدار میں سب سے بڑی قدر رواداری اور اعتدال ہوتا ہے۔ اعتدال کی عدم موجودگی ظلم و تشدّد کو جنم دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اُمتِ مسلمہ کو جو وقار عطا کیا ہے وہ اعتدال اور توسط پر مبنی ہے۔ قرآن مجید میں اُمتِ مسلمہ کی تعریف میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:

وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَهِیْدًا.

(البقرة، 2: 143)

’’اور (اے مسلمانو!) اسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور (ہمارا یہ برگزیدہ) رسول ( ﷺ ) تم پر گواہ ہو۔‘‘

اِس آیت کریمہ میں اُمتِ مسلمہ کو انسانوں پر نگران بنانے کا ذکر ہے۔ نگران (رہنما) کی خوبی وسط (اعتدال) بیان کی۔ یعنی لوگوں کی رہنمائی کرنے والا باقی صفات سے متصف ہونے کے ساتھ ساتھ راهِ اعتدال کا بھی مسافر ہو، تب وہ کماحقہ رہنمائی کا فریضہ سر انجام دے سکے گا۔

اعتدال دراصل معاشرے کی وہ عظیم قدر ہے جس کے ذریعہ سے انسان ایک متوازن انفرادی زندگی سے لے کراجتماعی متوازن زندگی بسر کر سکتا ہے۔ اسلام نے عبادات معاملات دونوں پہلوؤں میں اعتدال کا سبق دیا ہے۔

رواداری کے لفظی معنی رعایت کا رویہ رکھنا اور سب کی تعظیم کرنا ہے۔ رواداری انسان کے اُس رویے کا نام ہےجس میں وہ اُن افراد کے رویوں کو بھی برداشت کرتا ہے جن سے وہ عقائد اور اعمال میں اختلاف رکھتا ہے۔ یعنی اختلاف رکھتے ہوئے بھی اُن افراد کے جذبات کا لحاظ رکھاجائے تاکہ اُن کو کوئی دکھ نہ پہنچے اور اُن کے عقائد، اعمال اور رویوں کو بدلنے کےلئے زبردستی نہ کی جائے۔ گویا رواداری اس انسانی رویہ کا نام ہے جس میں انسان سب کی تعظیم کرتا ہے۔ دراصل رواداری کا حامل شخص تاجدارِ کائنات ﷺ کے اُس فرمان کہ: ’’مخلوق اللہ کا کنبہ ہے‘‘ کو حرزِجاں بناتے ہوئےاپنی زندگی بسر کررہاہوتا ہے۔ وہ بہر صورت اِس بات کی پاس داری کرتاہے کہ کہیں میرا پروردگار مجھ سے ناراض نہ ہو جائے۔ اِ س لیے وہ اختلاف کے باوجود انھیں برداشت کرتاہے۔ وہ کسی صورت بھی دھن اور دھونس کی بنا پر اُن کے عقائد اور اعمال کو بدلنے کے بجائے رواداری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ رواداری وہ صفت ہے جس کے ذریعہ سے بڑے سے بڑا مخالف بھی آپ کے قریب آجاتاہے اور اُسے آپ کو جاننے اور سمجھنے کا موقع ملتاہے۔ اس سے ٖغلط فہمیاں دور ہوتی ہیں، ظرف میں وسعت آتی ہے اور مخلوق خدا فساد کے بجائے امن اور سلامتی کی راہ پر چل پڑتی ہے جو دین اسلام کا منشاء ہے۔

راهِ اعتدال کا فروغ

اُمت مسلمہ کے زوال کی بہت سی وجوہات میں سے یہ بھی ہے کہ اِس اُمت نے اعتدال کی راہ اور رواداری کا رویہ ترک کردیا ہے۔ وطن عزیز میں موجودہ دور کے دین کے پیروکاروں نے اپنے رویوں سے انتہا پسندی اور تکفیریت کو فروغ دیا۔ اِن حالات میں شیخ الاسلام نے انتہا پسندی اور تکفیری ماحول کو ختم کرنے کے لیے بین المسالک رواداری کے ذریعہ اعتدال کی راہ کا پر چار بھی کیا اور اُس کے لئے عملی اقدامات بھی اٹھائے۔ آپ نے عملی کام کے لئے منہاج القرآن کا پلیٹ فارم مہیا کیا۔ فرقہ واریت کےخاتمے اور اتحاد امت کے لئے آپ نے نعرہ دیاکہ

’’اپنا مسلک چھوڑو نہیں، دوسروں کے مسلک کو چھیڑو نہیں‘‘

ذیل میں شیخ الاسلام کی کاوشوں کا جائزہ پیش کیا جارہا ہے:

1۔ ملکی سطح پر فرقہ واریت کے خاتمے کے لئے آپ نے بڑا قدم ’’ختمِ نبوت کانفرنس‘‘کے انعقاد کی صورت میں اُٹھایا۔ یہ پروگرام مینارِ پاکستان کے سبزہ زار میں اکتوبر 1988ء میں ہوا۔ ختم نبوت کانفرنس کے سٹیج پر شیخ الاسلام نےجملہ مکاتبِ فکر کے اکابرین کا استقبال کیا۔ اِن سب کو ایک سٹیج پر جمع کر کے ہر کسی کو اپنا پیغام دینے کا برابر موقع دیا۔ جس کام کو دنیا نا ممکن خیال کرتی تھی، آپ نے اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہوئے اُسے ممکن بناکر ایک دوسرے سے ملنے کی راہ ہموار کر دی۔

2۔ جون 1988ء میں ویمبلے لندن کانفرنس میں الاتحاد العالمی الاسلامی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اِس کانفرنس میں 33 اسلامی ممالک کی نمائندگی اور ان ممالک کے جھنڈوں کا ایک ساتھ ایک سٹیج پر لہرانا، اتحاد اُمت کے عملی مظاہرے کا اعلان تھا۔ اس اقدام سے آپ نے رنگ، نسل، زبان اور علاقوں کے بتوں کو عملاً پاش پاش کر دیا۔

3۔ مسلم کرسچین ڈائیلاگ فورم (MCDF) کا قیام بین المذاہب ہم اہنگی اور رواداری کے فروغ کی عملی مثال ہے۔ یہ مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے اور پیدا شدہ غلطی فہمیوں کے ازالہ کا بہترین فورم ہے۔ اِس فورم کے تحت دنیا بھر کے لوگوں کو اسلام کے دینِ اعتدال اور رواداری کا عملی پیغام دیا گیا۔ اِ س کے نتیجہ میں چرچ میں میلاد کانفرنس کا انعقاد اور کرسمس کے پروگرامز میں مسلمانوں کی عملی شرکت نے بڑھتی ہو ئی بدگمانیوں کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

4۔ جب دنیادہشت گردی کی آگ میں جل رہی تھی، تہذیبوں کے درمیان جنگ میں تیزی آرہی تھی، مختلف مذاہب کے پیروکار ذہنی و فکری دباؤ کا شکار ہو رہے تھے تو اِن حالات میں دہشت گردی و انتہا پسندی کے عملی تدارک اور اسلام کی تعلیماتِ اعتدال اور رواداری کی تاریخ کو دہرا کر تہذیبوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں آپ نے اہم کردار ادا کیا۔ 24 ستمبر2011ء لندن کی سرزمین پر’’امن برائے انسانیت‘‘کے عنوان سے مسلمان، عیسائی، یہودی، ہندو، بدھ مت اور سکھ سکالرز کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا۔ اِس کانفرنس میں 11 ہزار افراد کی شمولیت نے اسلام کے دینِ اعتدال اور رواداری کا چہرہ دنیا کو دکھاکر دہشت گردی کے بیانیے کو فروغ دینے والے عناصر کے منہ پر اجتماعی طور پر زور دار تمانچہ مار کر دنیا کوبین المذاہب ہم آہنگی سے آشنا کیا۔

5۔ وطن عزیز میں شیعہ سنی فسادات جب اپنے عروج پر تھے، فرقہ واریت کو ہوا دے کر دشمن اپنے مذموم عزائم کی تکمیل میں لگا ہوا تھا اورحکومتی مشنری اِن فسادات کو روکنے میں بے بس دکھائی دے رہی تھی، تب 10 جنوری 1990ء کو شیخ الاسلام نے’’اعلامیہ و حدت‘‘ کے ذریعہ ان دو بڑے مسالک کو راهِ اعتدال دکھا کر رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے 10 نکاتی اعلامیہ پر دونوں مسالک کے اکابرین کے دستخط کروا کر اُس آگ کو ٹھنڈا ہی نہیں کیا، بلکہ ایک دوسرے کے پروگرامز میں آنے جانے کا راستہ بھی ہموار کیا۔ جس کے نتیجہ میں آج تکفیری زبان بند ہو چکی ہے۔

6۔ شیخ الاسلام نے دنیا بھر میں تعلیمی اداروں کا جال بچھایا ہے۔ اِن تعلیمی اداروں کے دروازے بلاتفریق مذہب و فرقہ تمام طلبہ کے لیے کھلے ہیں اور ہر مذہب و عقیدہ کے حامل طلبہ یہاں تعلیم حاصل کربھی رہے ہیں۔ اِن اداروں کی بدولت شیخ الاسلام کی سعی اور کوشش اب صرف فرد کی حیثیت سے نہیں بلکہ اداراتی روپ دھار چکی ہے۔ یہی لیڈر کی نشانی ہوتی ہے کہ وہ اپنی فکر کو دنیا میں فروغ دینے کےلئے ادارے قائم کرتا ہے اور وہ ادارے تا ابد الآباد اُس فکر کے عملی فروغ کے لیے کام کرتے رہتے ہیں۔ منہاج یونیورسٹی لاہور میں تمام مذاہب کے طلبہ اپنے اپنے مذہب کے اساتذہ سے اپنےمذہب پر تحقیقی اور تجزیاتی کام کر سکتے ہیں۔ ہندوازم پڑھنے والے ہندو اساتذہ سے پڑھیں، عیسائیت پر تحقیق کرنے والوں کو مسیحی اساتذہ کی سہولت میسر ہے۔

تحریک منہاج القرآن شیخ الاسلام کے اسی وژن کو دنیا میں پہنچانے کا کام کر رہی ہے۔ اُس کا تنظیمی نیٹ ورک براعظم کی سطح سے لے کر محلے اور گاؤں کےیونٹ تک موجود ہے۔ اس تنظیمی نیٹ ورک کے ذریعہ سے جو شخص بھی دین اسلام کے احیاء کی خدمت کا خواہش مند ہوا، میر سے لیکر غریب تک ہر مسلک کا فرد خدمات دے سکتاہے۔ شیخ الاسلام کے ان فکری اور عملی اقدامات کی بدولت انتہاپسندی کا خاتمہ ہوا۔

دہشت گردی کے خلاف 600 صفحات پر مشتمل فتوی سے اسلام کے دینِ اعتدال وامن کے بیانیے کو فروغ دیا۔ دہشت گردی کی آگ پر اسلام کی اعتدال کی فکر کا پانی ڈال کر اسلام کے چہرے کو داغ دار ہونے سے بچایا۔ الغرض شیخ الاسلام کے عملی اقدامات سے اسلام کی امن و محبت اور رواداری کی تعلیمات کو فروغ ملا اور دہشت گردی کا عملی خاتمہ ہوا۔ اسی طرح محراب و منبر سے تکفیری آواز کا خاتمہ ہوا۔

شیخ الاسلام نے آنے والی نسلوں کو انتہا پسندی اور دہشت گردی سے بچانے کے لئے نصابِ امن تیار کیاہے۔ اگر حکومت اس تیار شدہ نصاب امن کو تعلیمی اداروں میں پڑھانے کی منظوری دے دے تو یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ پوری دنیا تاجدار کائنات ﷺ کے دیے ہوئے دین امن و اعتدال کی بدولت جنت نظیر بن سکتی ہے۔

دینی مدارس کا نصاب کم و بیش 270 سال قبل بنایا گیا تھا جو اس وقت کی تعلیمی ضرورتوں کا کفیل تھا۔ شیخ الاسلام نے عصری تقاضوں کے مطابق اس نصاب میں ضروری تبدیلیاں کرکے نیا نصاب ترتیب دیا ہے جو متوازن بھی ہے اور عصری تقاضوں کے مطابق بھی۔ حکومت پاکستان نے شیخ الاسلام اور منہاج القرآن کی دینی و تعلیمی خدمات کے تناظر میں دینی مدارس کے لئے ایک نئے تعلیمی بورڈ ’’نظام المدارس پاکستان‘‘کی منظوری دی ہے، اس بورڈ کے تحت اب تک وطن عزیز کے 2 ہزار سے زائد مدارس رجسٹرڈ ہوچکے ہیں۔ ان مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والے معاشرے کے لئے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہونگے اور ان کے ذریعہ سے اعتدال اور رواداری کا فروغ ہوگا۔

اسی طرح دنیا بھر میں پھیلا ہوا منہاج القرآن اسلامک سنٹرز کا وسیع نیٹ ورک معاشرے میں رواداری کے فروغ اور اسلام کی معتدل تعلیمات کو عام کرنے میں شب و روز کوشاں ہے۔

اسی رواداری کا عملی مظاہرہ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے تحت ہونے والی سرگرمیوں میں دیکھنے کو ملتاہے۔ حال ہی میں سیلاب متاثرین کی امداد اس کا عملی ثبوت ہے۔ فلڈ ریلیف پیکج بلا اختلاف رنگ ونسل اور بلا اختلاف مذہب و مسلک معاشرے کےدکھی افراد تک پہنچایا گیا۔ خیبر پختونخواہ سے لے کر سندھ اور بلوچستان تک خوراک، کپڑے، بستر، ادویات اور دیگر ضروریاتِ زندگی کے ساتھ ساتھ مکانات کی تعمیر تک، اسلامی طرز رواداری کے تحت افراد کی خدمت جاری و ساری ہے۔

یتیم اور نادار بچیوں کی شادیاں MWF کی بین الاقوامی سطح پر شناخت بن چکی ہیں جس کا جال ملک کے طول و عرض میں پھیل چکا ہے۔ ان تقریبات میں اب تک کئی ہزاربچیاں اپنا گھر بسا چکی ہیں۔ ان تقریبات میں غیر مسلم بچیوں کی شادیاں بھی اسی جذبہ سے کی جاتی ہیں جو اسلام کا طرۂ امتیاز ہے۔

اعتدال اور رواداری کے فروغ میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی خدمات کو تاریخ ہمیشہ سنہری حروف میں لکھے گی۔ فرقہ واریت کی آگ کے آلاؤ کے ہوتے ہوئے اعتدال کے پھول کھلانا، تکفیری رویوں کی موجودگی میں رواداری کے کلچر کو فروغ دیتا، ہرکس وناکس کے بس کی بات نہیں تھی۔ یہ کام مجدّدعصر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہر القادری نے بخوبی سر انجام دیا۔

شیخ الاسلام بلا شبہ اقبال کے ان خوابوں کی تعبیر ہیں:

فطرت کا سرودِ اَزلی اس کے شب و روز
آہنگ میں یکتا صفَتِ سورۂ رحمٰن
بنتے ہیں مری کارگهِ فکر میں انجم
لے اپنے مقدّر کے ستارے کو تو پہچان!