عالمی سطح پر شیخ الاسلام کی علمی و فکری کاوشوں کا اعتراف

محمد فاروق رانا

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی خدمات کا دائرۂ کار اور حلقۂ اثر صرف مذہبی و اَخلاقی یا علمی وفکری سرحدوں تک محدود نہیں ہے، بلکہ آپ کی خدماتِ جلیلہ کی وقعت و وسعت قومی و ملی اور ریاستی و بین الاقوامی جہات تک پھیلی ہوئی ہے۔ آپ کی کاوشیں ملّی بھی ہیں، عالمِ اِسلام کے لیے بھی ہیں، حتیّٰ کہ پورے عالَم اِنسانیت کے لیے ہیں۔ بلا شبہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری ایک فرد نہیں ہیں بلکہ علم و فکر کی ایک درخشاں کائنات ہیں۔ آپ کی خدمات اَطراف و اَکنافِ عالم میں ہمہ جہت اور متنوّع ہیں۔

گزشتہ دہائیوں میں دہشت گردی کے فتنہ نے نہ صرف پاکستان بلکہ اَمنِ عالم کو تہ و بالا کر دیا تھا۔ لاء اینڈ آرڈر کی ناگفتہ بہ صورتِ حال نے ریاستی وجود پر رعشہ طاری کر دیا اور ریاستی ڈھانچے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ دہشت گردی کا فتنہ درحقیقت ریاستی اِستحکام کے لیے ایک مہیب چیلنج اور سنگین خطرہ بن گیا تھا۔ دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لیے ریاست کی حفاظت کی جنگ دو محاذوں پر لڑی گئی:

1۔ زمینی محاذ

2۔ دوسری فکری و ذہنی محاذ

عیاں را چہ بیاں کہ زمینی محاذ پر دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ مسلح ریاستی افواج لڑتی ہیں، جب کہ ذہنی محاذ پر دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف علمی، فکری اور نظریاتی جنگ معاشرے کے دانش وَر اور علماء کرام لڑتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان سمیت عالمِ اِسلام اور پوری دنیا میں نظریاتی سطح پر دہشت گردی کے ردّ میں کوئی شخص، اِدارہ یا ملک جامع اور مربوط و مبسوط اَمن بیانیہ پیش نہ کرسکا۔ یہ اِعزاز اور توفیق اللہ رب العزّت کے خصوصی فضل و کرم سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے حصے میں آئی، اس کے علاوہ کسی اور نے نظریاتی محاذ پر یہ جنگ نہیں لڑی۔

اِس تمام عرصہ میں ریاستی سطح پر علماء کرام کو جمع کر کے دہشت گردی کے عفریت کی مذمت کرنے اور ایک پیج پر ہونے کا تأثر قائم کرنے کی ضرور کوشش کی گئی مگر عملاً دہشت گردی کے خلاف اِسلام کا مستند بیانیہ پیش نہ کیا جاسکا۔ یہ کام تن تنہا شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کمال دلیری اور دلاوری سے انجام دیا۔

ایں کار اَز تو آيد و مرداں چنيں کند

شیخ الاسلام کا امن بیانیہ

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دہشت گردوں کے بیانیہ کے ردّ میں اَمن کا بیانیہ دیا ہے۔ انہوں نے ریاستوں کو بچانے کے لیے چھ سو (600) صفحات پر مشتمل مبسوط تاریخی فتویٰ جاری کیا اور اسلام کا مستند امن بیانیہ پوری دنیا کے سامنے پیش کیا۔ یہ اَمن بیانیہ درحقیقت حفاظتِ انسانیت اور اِستحکامِ ریاست کا بیانیہ ہے۔ اِس تناظر میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے فقط فتویٰ کے اجراء پر ہی اِکتفاء نہیں کیا، بلکہ انہوں نے تقریباً 50 کتب پر مشتمل فروغِ اَمن اور اِنسدادِ دہشت گردی کے پورے نصاب کی تدوین و تسوید کی ہے۔

ایک طرف اگر مسلّح اَفواج اور سکیورٹی اِداروں نے دہشت گردی کے خلاف بھرپور جنگ لڑی ہے، تو دوسری طرف شیخ الاسلام نے مسلّح اَفواج اور معاشرے کے دانش وَر طبقات کو علمی اور فکری سطح پر مکمل فکری واضحیّت (conceptual clarity) سے لیس کیا، تاکہ وہ بغیر کسی اگر مگر (ifs and buts) کے اُن دہشت گردوں کا قلع قمع کرسکیں جو بظاہر ’اللہ اکبر‘ کا نعرہ لگاتے تھے۔ اندریں حالات مسلمان ملکوں کی اَفواج اور جوان دماغی طور پر متذبذب اور ذہنی طور پر متزلزل تھے کہ وہ ’اللہ اکبر‘ ، ’قرآن‘ اور ’اسلام‘ کا نعرہ لگانے والوں کے خلاف مسلّح کارروائی کریں یا نہ کریں۔ اس معروض میں یہ اَمر خوش آئند ہے کہ زمینی جنگ لڑنے والے مسلمان فوجیوں کو فکری قوت اور اِیقانی توانائی شیخ الاسلام کے بیانیہ سے ملی ہے، جس سے وہ یہ جنگ بڑی جرأت، واضحیّت اور جاں نثاری سے لڑ سکتے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف ریاستِ پاکستان بلکہ عالمِ اسلام اور عالمِ مغرب کی ریاستوں کو دہشت گردوں کے ضرر رساں اور مہلک حربوں سے تحفظ کے لیے ایک عظیم اور گراں قدر خدمت سر انجام دی ہے۔ اس سے ممکنہ حد تک دہشت گردوں کے بیانیہ کا ردّ ہوا اور امن کا بیانیہ پوری دنیا میں مقبول ہوا ہے۔

شیخ الاسلام کی خدمات کا عالمی اعتراف

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی ریاستی و عالمی سطح پر بقائے انسانیت کے لیے ادا کی جانے والی عظیم اور بیش بہا خدمات کا اِعتراف کرۂ ارض کے تمام ممالک اور ریاستوں نے کیا ہے۔ ذیل میں ان میں سے کچھ نظائر نذرِ قارئین ہیں:

(1) امریکن اور یورپین تعلیمی نصاب میں شیخ الاسلام کے ’’امن بیانیہ‘‘ کو خراجِ تحسین

امریکہ میں تعلیمی نصاب میں شامل کتاب Think World Religions میں اُسامہ بن لادن کا بیانیہ دے کر اُسے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے ’’اَمن بیانیہ‘‘ کے ذریعے ردّ کیا گیا ہے۔ اس طرح امریکہ نے نصابی کتاب میں شیخ الاسلام کی عالمی سطح پر مثبت ثمر آور اور نتائج خیز اثرات مرتب کرنے والی کاوشوں کی تحسین و تعریف اور ان کا اِقبال و اِقرار کیا ہے۔

E برطانیہ میں اِسلام پر لکھی گئی اے لیول کی نصابی کتاب میں شیخ الاسلام کے بیان کردہ ’’اَمن بیانیہ‘‘ اور ’’اِسلام کا حقیقی تصورِ جہاد‘‘ کی ستائش کی گئی ہے اور اس کے فروغ کو وقت کی ضرورت قرار دیا ہے۔

(2) OIC کے پلیٹ فارم سے شیخ الاسلام کے ’’امن بیانیہ‘‘ کا اعتراف

اپریل 2019ء میں سعودی عرب کے دار الحکومت ریاض میں او آئی سی کے زیر اہتمام انتہاء پسندی و دہشت گردی کے سد باب کے لیے ایک کانفرنس بعنوان:

The International Conference on the Role of Education in Preventing Extremism and Terrorism: Pioneering Experiences in Inculcating the Values of Tolerance and Coexistence.

انعقاد پذیر ہوئی۔ اس دو روزہ کانفرنس کے اختتام پر ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا نام لے کر اس محاذ پر ان کی جلیل القدر خدمات کو سراہا گیا۔ بالخصوص 2010ء میں دہشت گردی اور خود کُش دھماکوں کے خلاف جاری کردہ ضخیم فتویٰ، 2015ء میں فروغِ اَمن نصاب مرتب کرنے اور آپ کے ’’امن بیانیہ‘‘ پر آپ کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔یہ آپ کی اُن خدمات کا بین الاقوامی سطح پر اِعتراف ہے جو انسانیت اور ریاستوں کے دفاع کے لیے انجام دی گئی ہیں۔

(3) امن برائے انسانیت کانفرنس (لندن) میں شیخ الاسلام کی کاوشوں بارے عالمی رہنماؤں کے پیغامات

منہاج القرآن انٹرنیشنل کے زیرِ اِہتمام 24 ستمبر 2011ء کو لندن میں ’’اَمن برائے اِنسانیت (Peace for Humanity)‘‘ کے عنوان سے عالمی کانفرنس کا اِنعقاد کیا گیا، جس میں شمالی اَمریکہ، جنوبی افریقہ، یورپ اور دنیا کے تمام خطوں سے مسلم، عیسائی، یہودی، ہندو مت، بدھ مت، سکھ مت اور دیگر مذاہب کے اسکالرز، مؤثر شخصیات اور پیروکاروں نے شرکت کی۔ کانفرنس کے اِختتام پر دنیا کے 6 بڑے مذاہب کے شریک راہ نُماؤں نے دنیا میں اَمن کے قیام اور دہشت گردی و اِنتہاء پسندی کے خلاف 24 نکاتی قراداد منظور کی جسے ’’لندن ڈیکلیریشن‘‘ کا نام دیا گیا۔

اِس کانفرنس کے لیے خصوصی طور پر اَقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون، شیخ الازہر پروفیسر ڈاکٹر محمد اَحمد الطیب، OIC کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر اَکمل الدین اِحسان اوگلو، برطانوی وزیرِ اَعظم ڈیوڈ کیمرون، نائب وزیر اَعظم نک کلیگ، آرچ بشپ کنٹربری ڈاکٹر روون ولیمز سمیت دنیا بھر سے متعدّد مؤثر شخصیات نے تبريکی اور تہنیتی ویڈیوز اور تحریری پیغامات اِرسال کیے تھے۔

(4) برطانوی دارالعوام کی ڈیفنس کمیٹی کی رپورٹ: قیام امن کے لیے شیخ الاسلام کی کاوشوں کا اعتراف

15 مئی 2003ء کو برطانوی دار العوام (House of Commons) کی ڈیفنس کمیٹی کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں شیخ الاسلام کی اِنسدادِ دہشت گردی اور قیامِ اَمن کے لیے علمی و فکری اور عملی کاوشوں کا بھرپور اِعتراف کیا گیا۔ یہ رپورٹ برطانوی دار العوام کی کارروائی کا حصہ ہے۔ اس رپورٹ میں شیخ الاسلام کی خدمات کا تفصیلی اِعتراف تین پیراگرافس میں کیا گیا ہے۔

(5) انٹرنیشنل پرنٹ والیکٹرانک میڈیا پر شیخ الاسلام کے ’’امن بیانیہ‘‘ کی پذیرائی

ریاستی سطح پر اعتراف کے علاوہ عالمی میڈیا چینلز نے شیخ الاسلام کی عالمی خدمات کا اِعتراف واضح الفاظ میں کیا ہے۔ کثیر الاشاعت بین الاقوامی اَخبارات و جرائد نے اپنے فرنٹ پیجز (صفحہ ہاے اوّل) پر شیخ الاسلام کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے، مثال کے طور پر: CNN، BBC، فوکس نیوز، فارن پالیسی، وائس آف امریکہ نیوز، خلیج ٹائمز، الشرق الاوسط، فرید زکریا اور کرسٹینا امان پور وغیرہ نے بھرپور کوریج دی اور خوب پذیرائی کی۔

(6) UNکی طرف سے خصوصی مشاورتی درجہ کا اعزاز

اقوامِ متحدہ نے منہاج القرآن انٹرنیشنل کی دینِ اسلام کے فروغ و اشاعت کے حوالے سے خدمات پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ قیامِ اَمن، اِتحاد و یگانگت، بین المسالک ہم آہنگی، بین المذاہب رواداری، اِنسانی حقوق، تعلیم کے فروغ اور انتہاء پسندی و شدت پسندی کے خلاف شعور کی بیداری کے حوالے سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی عالمی خدمات کو سراہتے ہوئے اَقوامِ متحدہ کی اکنامک اینڈ سوشل کونسل (ECOSOC) نے منہاج القرآن انٹرنیشنل کو باضابطہ طور پر خصوصی مشاورتی درجہ (Special Consultative Status) دیا ہے۔

(7) ورلڈ اکنامک فورم کا خراجِ تحسین

ورلڈ اِکنامک فورم (WEF) نے بھی شیخ الاسلام کی خدمات کا اِعتراف کیا ہے اور شیخ الاسلام کو اپنے فورم کے constituent member میں شمار کیا ہے۔

(8) ’’استنبول امن کانفرنس‘‘ میں غیرمعمولی پذیرائی

افغانستان میں قیامِ اَمن کے حوالے سے کی جانے والی کاوشوں کے سلسلے میں ترکی میں متعدد اِجلاس ہوئے ہیں۔ حضرت شیخ الاسلام Afghan Advisory Board of The Project for Islamic Cooperation for a Peaceful Future in Afghanistan کی جانب سے ہونے والی ان کانفرنسوں میں نہ صرف شریک ہوئے بلکہ افغانستان میں قیامِ اَمن کے حوالے سے مؤثر اور قابل عمل حل بھی پیش کیا ہے۔

  • ترکی میں برطانوی دولتِ مشترکہ اور OIC کی جانب سے مشترکہ طور پر ہونے والی اِستنبول اَمن کانفرنس میں شیخ الاسلام نے خصوصی شرکت کی۔ کانفرنس کا موضوع ’’افغانستان کا پُراَمن مستقبل‘‘ تھا اور اس میں اَفغان طالبان کی اٹھارہ تنظیمات اور کئی اسکالرز کو بلایا گیا تھا۔ تین روزہ کانفرنس میں شیخ الاسلام کے خطابات کے علاوہ افغان اسکالرز اور طالبان کے ساتھ کئی کئی گھنٹوں کے سیشنز منعقد ہوتے رہے جن میں وہ شیخ الاسلام سے سوالات کرتے اور شیخ الاسلام انہیں اطمینان بخش جوابات دیتے رہے تاکہ بدلتی دنیا اور عصری مقتضیات کے تناظر میں ان کے ذہن بدلیں اور انہیں ایک اتھارٹی ملے۔

(9) US اسلامک ورلڈ فورم اور OIC کے مشترکہ پروگرام میں شیخ الاسلام کا خطاب

US اِسلامک ورلڈ فورم اور OIC کے مشترکہ اِجلاس منعقدہ بروکنگز اِنسٹی ٹیوٹ واشنگٹن DC میں شیخ الاسلام کو خصوصی طور پر دعوت دی گئی۔ آپ نے عالمی راہ نُماؤں کو دہشت گردی کے اَسباب، تدارک اور اِس بابت اِسلام کی پُراَمن تعلیمات کے حوالے سے جامع و مانع سیر حاصل اور پُرمغز بریفنگ دی۔

اس کانفرنس میں پروفیسر اَکمل الدین اِحسان اوگلو (سیکرٹری جنرل OIC)، اَحمد بن عبد اللہ محمود (وزیرِ خارجہ قطر)، امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن، سابق امریکی وزیر خارجہ میڈلین البرائٹ، امریکی سینٹر جان کیری، سینٹر جان مکین، پروفیسر ابراہیم کالین (خصوصی مشیر وزیر اعظم ترکی)، رشید حسین (نمائندہ خصوصی امریکی صدر باراک اوباما)، شاہد ملک (سابق وزیر برطانوی پارلیمنٹ) کے علاوہ تیس اسلامی ممالک سمیت متعدد دیگر ممالک کے وفود، تھنک ٹینکس، سیاست دانوں اور پالیسی سازوں نے شرکت کی تھی۔

(10) جارج ٹاؤن یونیورسٹی (امریکہ) میں پالیسی ساز شخصیات کو شیخ الاسلام کا اہم لیکچر

امریکہ و مغربی ممالک میں اسلام پر ایک اتھارٹی سمجھے جانے والے ممتاز دانش ور John L. Esposito نے امریکہ کی پولیٹیکل یونیورسٹیز میں سے سرِفہرست جارج ٹاؤن یونی ورسٹی میں ’’پرنس ولید بن الطلال سینٹر برائے مسلم مسیحی اتحاد‘‘ میں آپ کو خصوصی لیکچر کی دعوت دی، جس میں پروفیسرز، ڈاکٹرز، پالیسی ساز، صائب الرائے شخصیات اور امریکی مسلّح افواج کے نمائندگان نے بھی بھرپور شرکت کی۔

(11) USIP میں شیخ الاسلام کے امن بیانیہ کا اقرار و اعتراف

امریکی اِنسٹی ٹیوٹ آف پیس (United States Institute of Peace) کی جانب سے بھی شیخ الاسلام کو لیکچر کی دعوت دی گئی، جو کہ شیخ الاسلام کے اَمن بیانیہ کی فتح اور دہشت گردی و اِنتہا پسندی کے بیانیہ کی شکست کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

(12) GPU ایونٹ میں یورپی دانشوروں کو اسلام کی تعلیماتِ امن پر شیخ الاسلام کے لیکچرز

برطانیہ کے گلوبل پیس اینڈ یونٹی ایونٹ (Global Peace & Unity event) میں آپ کو متعدد بار خطاب کی دعوت دی گئی۔ آپ نے وہاں بھی اَمن پر مبنی اِسلام کا آفاقی پیغام ہر خاص و عام تک پہنچایا اور جہاد کا حقیقی تصور واضح کیا۔

(13) نیو ساؤتھ ویلز پارلیمنٹ (آسٹریلیا) میں حکومتی عمائدین کو شیخ الاسلام کے لیکچرز

آسٹریلیا میں نیو ساؤتھ ویلز پارلیمنٹ نے شیخ الاسلام کی خدمات سے متأثر ہوکر لیکچر کی دعوت دی، جس پر 11 جولائی 2011ء کو شیخ الاسلام نے ’’دہشت گردی اور اِنتہا پسندی کے اَسباب اور تدارک‘‘ کے موضوع پر نیو ساؤتھ ویلز پارلیمنٹ سے خطاب کیا۔ آسٹریلوی حکومت کے وُزراء، سیاست دانوں اور اَہم مذہبی و سماجی شخصیات نے آپ کا لیکچر سنا۔

(14) مسلمز آف یورپ کانفرنس میں علماء سے خطاب

برطانوی وزارتِ خارجہ اور دولتِ مشترکہ کے باہمی اِشتراک سے 2006ء میں استنبول میں مسلمز آف یورپ کانفرنس (Muslims of Europe Conference) منعقد کی گئی جس کا مقصد یورپ میں بسنے والے مسلمانوں کی شناخت، شہریت، چیلنجز اور مسائل کو زیرِ بحث لانا تھا۔ پوری دنیاے اسلام سے عرب و عجم کے جید علماء اور امریکہ اور یورپ کی یونیورسٹیز کے ساٹھ سے زائد پروفیسرز میں سے جس شخصیت کا اِنتخاب بطور Keynote Speaker (کلیدی مقرر) کیا گیا، وہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری تھے۔

(15) اردن کے شاہی تحقیقی ادارے کے ممبر کی حیثیت سے شیخ الاسلام کے خطابات

شیخ الاسلام اردن کے شاہی تحقیقی ادارے مؤسسۃ آل البیت الملکیۃ للفکر الاسلامی (The Royal Aal al-Bayt Institute for Islamic Thought) کے رُکن بھی ہیں اور اس کے سالانہ اجلاس میں باقاعدگی سے شرکت کرتے ہیں۔

(16) جامعۃ الازہر (مصر) میں جید شیوخ اور محدثین کو شیخ الاسلام کے لیکچرز

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ نے متعدد مرتبہ جامعۃ الازہر کے جید اساتذہ، شیوخ اور محدثین کو مختلف موضوعات پر علمی و فکری لیکچرز دیئے۔ آپ کی علمی و فکری جملہ خدمات کو متعدد مرتبہ جامعۃ الازہر مصر کی جانب سے سراہا گیا۔ المنہاج السوی، دہشت گردی کے خلاف آپ کے مبسوط فتویٰ اور دیگر کئی کتب پر جامعۃ الازہر کی جانب سے تقاریظ اور تائیدی و توثیقی کلمات سے نوازا گیا۔

(17) دہشت گردی کے خلاف شیخ الاسلام کے مبسوط فتویٰ اور امن نصاب کی عالمی سطح پر تائید و توثیق

دہشت گردی اور فتنہ خوارِج پر شیخ الاسلام کے جاری کردہ مبسوط تاریخی فتویٰ کی برطانیہ، امریکہ، ڈنمارک، ناروے، فرانس، انڈیا اور پاکستان سمیت متعدد ممالک میں افتتاحی تقاریب منعقد کی گئی ہیں۔ اس کتاب کے تادمِ تحریر متعدد زبانوں میں تراجم شائع ہوچکے ہیں، جو کہ اس کی مقبولیت، ثقاہت اور جامعیت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔

  • شیخ الاسلام کے جاری کردہ مبسوط تاریخی فتویٰ پر جامعۃ الازہر کی جانب سے مفصل تقریظ لکھی گئی ہے، جس میں انہوں نے اس کے مشتملات کی مکمل تائید و توثیق کی ہے۔
  • دہشت گردی اور فتنہ خوارج کے خلاف جاری کردہ مبسوط تاریخی فتویٰ کو 2011ء تا 2020ء کے عشرے میں دنیا کی 25 بڑی زیرِمطالعہ رہنے والی مؤثر کتب میں دوسرا نمبر حاصل رہا۔ پہلے نمبر پر آنے والی کتاب 1765ء میں جب کہ تیسرے نمبر پر آنے والی کتاب 1788ء میں تحریر ہوئی۔ درجہ بندی کا اعلان ”AcademicInfluence.com“ کی ایک سروے رپورٹ میں کیا گیا تھا۔ یہ اَمر بطور خاص قابل ذکر ہے کہ 232 سال کے بعد کسی مصنف کی حیات میں عالمی پذیرائی حاصل کرنے والی یہ پہلی کتاب ہے۔
  • اِسی طرح شیخ الاسلام نے تقریباً 50 کتب پر مشتمل ’’فروغِ اَمن اور اِنسدادِ دہشت گردی کا اِسلامی نصاب (Islamic Curriculum on Peace & Counter-Terrorism)‘‘ پیش کیا ہے، جس کی لندن، اسلام آباد اور یورپ سمیت کئی ممالک میں اِفتتاحی تقاریب منعقد کی گئیں۔ اِس نصاب کو بے پناہ پذیرائی ملی ہے۔

خلاصۂ کلام

شیخ الاسلام کی ان عالمی و بین الاقوامی سطح پر مثالی خدمات کے اِعتراف میں اُنہیں قومی و بین الاقوامی سطح پر مختلف ایوارڈز اور میڈلز بھی دیے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں شیخ الاسلام کی اَمن و اِعتدال کی پیام بر فکر اور دہشت گردی کے خلاف بیانیہ پر متعدد ممالک میں ڈاکٹریٹ اور ایم۔ فل کی سطح کے مقالہ جات لکھے گئے ہیں اور بے شمار کتب میں آپ کے حوالہ جات دیے جاتے ہیں۔

اَقوامِ متحدہ (UN)، اِسلامی تعاوُن تنظیم (OIC) اور ورلڈ اِکنامک فورم (WEF) جیسی پوری دنیا کی ریاستوں کی نمائندہ تنظیمات کی طرف سے شیخ الاسلام کی وقیع و دقیق علمی و فکری خدمات کا اعتراف اس بات کا عکاس ہے کہ شیخ الاسلام نے نہ صرف ریاستی اِستحکام بلکہ عالمی سطح پر قیامِ امن میں نہایت اہم کردار ادا کیا اور دہشت گردوں کے خلاف نہایت کام یابی سے علمی و فکری جنگ لڑی ہے۔

آپ نے مغرب ميں نبی آخر الزمان ﷺ کے توہین آمیز مذموم خاکوں اور رونما ہونے والے ایسے دیگر واقعات کی بنا پر دنیا کے ایک تہذیبی تصادم کی طرف بڑھنے کی پیش گوئی کی اور اس کے سدِّ باب کے لیے تمام اَہم ممالک کے حکمرانوں، اَہم اداروں کے سربراہان اور مذہبی شخصیات کے نام مراسلے جاری کیے، تاکہ کرّۂ اَرضی پر بڑھتے ہوئے خلفشار کی روک تھام کی جاسکے اور اَمن کو پنپنے کا موقع مل سکے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مذاہبِ عالم کے مابین مشترکات کی بنیاد پر بین المذاہب مکالمہ کی فضا قائم کرنے اور ثقافتی ٹکراؤ کو روکنے کے لیے قیامِ اَمن، اِنسانی اَقدار کے تحفظ، تحمل و برداشت اور مذہبی رواداری کے فروغ، اور اِنتہا پسندی و دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں اور دنیا کو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے روشناس کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ شیخ الاسلام کی اِن علمی و فکری کاوشوں کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت عطا فرمائے اور ہمیں قیامِ امن، محبت و رواداری کے فروغ، تجدیدِ دین، احیائے اسلام اور اصلاحِ احوال کے اس عظیم مصطفوی مشن میں اِن کی سنگت میں استقامت عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ