نظریۂ حبّ الوطنی قرآن و سنت کی روشنی میں (حصہ اول)

محمد اِقبال چشتی

وطن کی محبت ایمان کا تقاضا ہے۔ انسان کا اپنی جائے ولادت اور مسکن کے ساتھ محبت ویگانگت کا تعلق ایک فطری عمل ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی اَحادیثِ مبارکہ میں مکہ المکرمہ سے والہانہ محبت کا اظہار اسی حبّ الوطنی کا ثبوت ہے۔ کسی چیز کے ساتھ خالص محبت ترجیحات کے عملی تعین کی متقاضی ہوتی ہے۔ اگر کسی مرغوب جگہ یاچیز کے ساتھ محبت والہانہ ہو تو فوقیات و ترجیحات(preferences) اور ہو جاتی ہیں۔

ہر انسان طبعی طور پر اپنے وطن سے محبت کا جذبہ رکھتا ہے۔ اسلام میں کسی مقام پر بھی وطن سے محبت کی نفی کے متعلق احکامات وارد نہیں ہوئے البتہ اس کے بر عکس قرآن و سنت میں واضح طور پر ایسی نصوص ملتی ہیں جو صریحًا وطن کی محبت پر دلالت کر تی ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے اقوال و اَفعال مبارکہ میں واضح طور پر وطن سے محبت کی نظائر و امثلہ ملتی ہیں۔ مستزاد یہ ہے کہ علماء وفقہاء نے ایسی نظائر و امثلہ سے وطن کے ساتھ محبت کو شرعًا جائز قرار دیا ہے۔

محدثین و مفسرین نے حضور نبی اکرم ﷺ کی اپنے مولد ومسکن یعنی مکہ مکرمہ کے ساتھ محبت و عقیدت سے متعلقہ کئی روایات ذکر کی ہیں، یہاں تک کہ امام سہیلی (581ھ)نے اپنی کتاب ’الروض الانف‘ میں باقاعدہ یہ عنوان باندھا ہے: حُبُّ الرَّسُوْلِ ﷺ وَطَنَهُ (یعنی رسول ﷺ کی اپنے وطن کے لیے محبت)۔ اس عنوان کے تحت امام سہیلی لکھتے ہیں کہ جب ورقہ بن نوفل نے آپ ﷺ کو بتایا کہ آپ کی قوم آپ کی تکذیب کرے گی تو آپ ﷺ نے خاموشی فرمائی۔ ثانیاً جب انھوں نے بتایا کہ آپ کی قوم آپ کو تکلیف و اذیت میں مبتلا کرے گی، تب بھی آپ ﷺ نے کچھ نہ کہا۔ تیسری بات جب اس نے عرض کی کہ آپ ﷺ کو اپنے وطن سے نکال دیا جائے گا تو آپ ﷺ نے فورا فرمایا: أَوَ مُخْرِجِیَّ هُمْ؟ کیا وہ مجھے میرے وطن سے نکال دیں گے؟یہ بیان کرنے کے بعد امام سہیلی لکھتے ہیں:

فَفِیْ هٰذَا دَلِیْلٌ عَلٰی حُبِّ الْوَطَنِ وَشِدَّةِ مُفَارَقَتِهِ عَلَی النَّفْسِ.

(سهیلی، الروض الانف، ج: 2، ص 421)

اِس ارشاد میں آپ ﷺ کی اپنے وطن سے شدید محبت پر دلیل ہے اور یہ کہ اپنے وطن سے جدائی آپ صلی ﷺ پر کتنی شاق تھی۔

حضور نبی اکرم ﷺ نے جب وطن سے نکالے جانے کے متعلق سنا تو فورا فرمایا کہ کیا میرے دشمن مجھے یہاں سے نکال دیں گے؟ حضور نبی اکرم ﷺ کا سوال بھی بہت بلیغ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہجرت کرتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ مکرمہ کو مخاطب کرتے ہوئے جو الفاظ کہے جن کو سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَا أَطْیَبَکِ مِنْ بَلَدٍ وَأَحَبَّکِ إِلَيَّ وَلَوْلَا أَنَّ قَوْمِي أَخْرَجُونِي مِنْکِ مَا سَکَنْتُ غَیْرَکِ.

ترمذی، السنن، 5: 723، رقم: 3926

’’اے مکۃ المکرمہ !تُو کتنا پاکیزہ شہر ہے اور تو مجھے کتنا محبوب ہے! اگر میری قوم تجھ سے نکلنے پر مجھے مجبور نہ کرتی تو میں تیرے سوا کہیں اور سکونت اختیار نہ کرتا۔ ‘‘

اس حدیث میں حضور نبی اکرم ﷺ نے واضح طور پر اپنے مولد ومسکن یعنی مکۃ المکرمہ کے ساتھ محبت کا اظہار فرمایا ہے۔ اِسی طرح سفر سے واپسی پر حضور نبی اکرم ﷺ کا اپنے وطن مالوف مدینہ منورہ میں داخل ہونے کے لئے سواری کو تیز کرنا بھی وطن سے محبت کی ایک عمدہ مثال ہے۔ گویا حضور نبی اکرم ﷺ وطن کی محبت میں اتنے سرشار ہوتے کہ اس میں داخل ہونے کے لیے جلدی فرماتے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ فَنَظَرَ إِلَی جُدُرَاتِ الْمَدِینَةِ أَوْضَعَ رَاحِلَتَهُ وَإِنْ کَانَ عَلَی دَابَّةٍ حَرَّکَهَا مِنْ حُبِّهَا.

(بخاری، الصحیح، 2: 666، رقم:1787)

’’جب حضور نبی اکرم ﷺ سفر سے واپس تشریف لاتے اور مدینہ منورہ کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی سواری کو تیز کر دیتے اور اگر دوسرے جانور پر سوار ہوتے تو اس کی محبت میں اُسے ایڑ لگاتے۔ ‘‘

اِس حدیث مبارک میں صراحتاً مذکور ہے کہ اپنے وطن مدینہ منورہ کی محبت میں حضور نبی اکرم ﷺ اپنے سواری کی رفتار تیز کردیتے تھے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے:

وَفِی الْحَدِیثِ دَلَالَةٌ عَلٰی فَضْلِ الْمَدِیْنَةِ، وَعَلٰی مَشْرُوعِیَةِ حُبِّ الْوَطَنِ وَالْحَنِیْنِ إِلَیْهِ.

(فتح الباری، 3: 621)

’’یہ حدیث مبارک مدینہ منورہ کی فضیلت اور وطن سے محبت کی مشروعیت و جواز اور اس کے لیے مشتاق ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ ‘‘

اسی طرح ذخیرۂ احادیث میں متعدد احادیث مبارکہ پائی جاتی ہیں جو حضور نبی اکرم ﷺ کی مدینۃ المنورہ کے ساتھ محبت کو واضح کرتی ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب لوگ پہلا پھل دیکھتے تو حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوتے۔ حضور نبی اکرم ﷺ اسے قبول کرنے کے بعد دعا کرتے:

اے اللہ! ہمارے پھلوں میں برکت عطا فرما۔ ہمارے (وطن) مدینہ میں برکت عطا فرما۔ ہمارے صاع میں اور ہمارے مد میں برکت عطا فرما۔ اور مزید اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کرتے:

اللّٰهُمَّ! إِنَّ إِبْرَاهِیمَ عَبْدُکَ وَخَلِیلُکَ وَنَبِیُّکَ وَإِنِّي عَبْدُکَ وَنَبِیُّکَ وَإِنَّهُ دَعَاکَ لِمَکَّةَ وَإِنِّي أَدْعُوکَ لِلْمَدِینَةِ بِمِثْلِ مَا دَعَاکَ لِمَکَّةَ وَمِثْلِهِ مَعَهُ.

(صحیح مسلم، 2: 1000، رقم: 1373)

’’اے اللہ! ابراہیم علیہ السلام تیرے بندے، تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے اور میں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں۔ انہوں نے مکہ مکرمہ کے لیے دعا کی تھی۔ میں ان کی دعائوں کے برابر اور اس سے ایک مثل زائد مدینہ کے لیے دعا کرتا ہوں (یعنی مدینہ میں مکہ سے دوگنا برکتیں نازل فرما)۔ ‘‘

وطن سے محبت کا ایک اور انداز یہ بھی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے مدینۃ المنورہ کی مبارک مٹی کو بیماروں کے لیے رب تعالی کے حکم سے شفاء قرار دیا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں:

أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ کَانَ یَقُولُ لِلْمَرِیْضِ: بِسْمِ اللهِ تُرْبَةُ أَرْضِنَا بِرِیقَةِ بَعْضِنَا یُشْفَی سَقِیمُنَا بِإِذْنِ رَبِّنَا.

(صحیح البخاری،5: 2168، رقم:5413)

’’اللہ کے نام سے شروع، ہماری زمین کی مٹی ہم میں سے بعض کے تھوک کے ساتھ ہمارے بیمار کو شفا دیتی ہے، ہمارے رب کے حکم سے۔ ‘‘

اِسی لیے ملا علی القاری نے لکھا ہے: إِنَّ حُبُّ الْوَطَنِ لَا یُنَافِي الْإِیْمَان ’’یعنی وطن سے محبت ایمان کے منافی نہیں ہے۔ (یعنی اپنے وطن کے ساتھ محبت رکھنے سے بندہ دائرہ ایمان سے خارج نہیں ہوجاتا)۔

(الاسرار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ: 181، رقم: 164)

امام زرقانی ’الموطا‘ کی شرح میں لکھتے ہیں:

أَصَابَتِ الْحُمَّی الصَّحَابَةَ حَتّٰی جَهِدُوا مَرَضًا.

’’بخار نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دبوچ لیا یہاں تک کہ وہ بیماری کے سبب بہت لاغر ہوگئے۔ ‘‘

اس قول کی تفصیل بیان کرتے ہوئے علامہ زرقانی رقم طراز ہیں:

وَفِی هٰذَا الْخَبَرِ وَمَا ذُکِرَ مِنْ حَنِینِهِمْ إِلٰی مَکَّةَ مَا جُبِلَتْ عَلَیْهِ النُّفُوسُ مِنْ حُبِّ الْوَطَنِ وَالْحَنِینِ إِلَیْهِ.

(شرح الزرقانی علی الموطا، 4: 287-288)

’’امام سہیلی فرماتے ہیں اِس بیان میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مکہ مکرمہ سے والہانہ محبت اور اشتیاق کا بیان ہے کہ وطن کی محبت اور اس کی جانب اِشتیاق اِنسانی طبائع اور فطرت میں ودیعت کردیا گیا ہے (اور اِسی جدائی کے سبب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بیمار ہوئے تھے)۔ ‘‘

(جاری ہے)