شبِ برأت: قلب و باطن میں حقیقی تبدیلی کیونکر ممکن ہے؟

ڈاکٹر حسن محی الدین قادری

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَی اللهِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا.

(التحریم، 66: 8)

’’ اے ایمان والو! تم اللہ کے حضور رجوعِ کامل سے خالص توبہ کرلو، یقین ہے کہ تمہارا رب تم سے تمہاری خطائیں دفع فرما دے گا۔‘‘

نصف شعبان کی شب مبارک جسے شبِ توبہ اور شبِ برأت سے موسوم کیا گیا ہے، اس رات ہم اللہ رب العزت کی بارگاہ میں اپنے گناہوں، لغزشوں، خطاؤں، غفلتوں اور معصیت پر نادم ہوتے ہوئے اس کی مغفرت، بخشش اور رحمت کے طلبگار بن کر حاضر ہوتے ہیں۔ اس رات ہمیں اللہ کی بارگاہ میں یہ دعا کرنی چاہیے کہ وہ اپنے حبیب مکرم ﷺ کے طفیل اپنے کرم، بخشش اور عطا سے ہمیں اس قابل کردے کہ ہم اس کے حضور حقِ عبادت ادا کرنے والے اور اس کو منانے والے بن جائیں۔ ہم سالہا سال سے معصیت و نافرمانی کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں، ان حالات میں ہمیں ایسی توبہ کی توفیق سے اپنے آپ کو مزین کرنا ہوگا کہ وہ ہم سے راضی ہوجائے اور گناہوں کی اس زندگی سے ہم ایسے پاک و صاف ہوجائیں کہ جیسے حضور نبی اکرم ﷺ اپنی امت کے لیے پاکیزہ زندگی چاہتے تھے۔

آقا علیہ السلام کے اپنی امت پر جتنے انعام وا کرام ہیں، ان میں سے ایک کرم 15شعبان المعظم شبِ برأت کی صورت میں بھی عطا ہوا ہے۔ اس مقدس رات کے حوالے سے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا:

أَتَانِي جِبْرِیْلُ فَقَالَ: هٰذِهِ اللَّیْلَةُ لَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ وَ ِللهِ فِیْهَا عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ بِعَدَدِ شُعُوْرِ غَنَمِ کَلْبٍ.

(بیهقی، شعب الایمان، 3: 384، رقم: 3837)

’’جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھے کہا: (یا رسول اللہ ﷺ!) یہ رات، پندرھویں شعبان کی رات ہے اور اس رات اللہ تعالیٰ قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر لوگوں کو جہنم کی آگ سے آزاد فرماتا ہے۔‘‘

حضور نبی اکرم ﷺ نے قبیلہ کلب کا ذکر اس لیے کیا کہ وہ اہلِ عرب میں ایسا قبیلہ تھا کہ جن کے پاس بکریوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔ یہ نہیں فرمایا کہ اس رات ان بکریوں کی تعداد کے برابر لوگوں کو جہنم کی ا ٓگ سے آزاد کرتا ہوں بلکہ فرمایا کہ اِن بکریوں کے بالوں کے برابر لوگوں کو اس رات دوزخ سے نجات عطا کی جاتی ہے۔

نگاهِ رحمت سے محروم لوگ

اس بخشش و مغفرت والی رات جس میں لاتعداد افراد پر اللہ رب العزت کی نظرِ رحمت ہوتی ہے، وہاں چند ایسے بدنصیب بھی ہوتے ہیں کہ جو اس مغفرت والی رات میں بھی محروم رہتے ہیں اور اس رات کے ملنے کے باوجود وہ اپنا نام بخشش والے لوگوں میں شمار نہیں کرواسکتے اور اس کی نگاهِ رحمت کے مستحق نہیں بنتے۔ اس رات کے حوالے سے حضور نبی اکرم ﷺ سے مروی متعدد احادیث مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کی نظرِ رحمت سے محروم جن لوگوں کی نشاندہی کی گئی ہے، وہ درج ذیل ہیں:

1۔ مشرک

2۔ قاتل

3۔ متکبر

4۔ اَھْلُ الْحِقْد (حسد رکھنے والے)

5۔ مُشَاحِن (کینہ پرور)

6۔ قَتَاتٌ (چغل خور)

7۔ مُصِرٌّ عَلٰی زِنَا (بدکاری پر اصرار کرنے والا)

8۔ عاقٌ لِوَالِدَیْہ (والدین کا نافرمان)

9۔ مُدْمِنُ خَمْر (عادی شرابی)

10۔ قَاطِعُ الرحم (قطع رحمی کرنے والا)

شبِ برأت: حضور نبی اکرم ﷺ کا معمول مبارک

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ شعبان کی پندرھویں رات رسول اللہ ﷺ میرے ہاں قیام فرما تھے۔ جب آدھی رات کا وقت ہوا تو میں نے آپ ﷺ کو موجود نہ پایا۔ میں نے آپ ﷺ کو تلاش کرنے نکلی تو آپ ﷺ کو بقیع کے قبرستان میں موجود پایا۔ جہاں آپ ﷺ تمام فوت شدگان کے لیے دعائے مغفرت فرمارہے تھے۔ پس میں واپس آگئی۔ رسول اللہ ﷺ جب واپس تشریف لائے تو میں نے ساری صورتحال آپ ﷺ کو بیان کی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ابھی جبریل علیہ السلام نے مجھے بتایا ہے کہ آج شعبان کی پندرھویں رات اللہ تعالیٰ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔ پھر رسول اﷲ ﷺ نے مجھ سے فرمایا:

یَا عَائِشَةُ! تَأْذَنِیْنَ لِي فِي قِیَامِ هٰذِهِ الَّلیْلَةِ فَقُلْتُ: نَعَمْ بِأَبِي وَأُمِّي. فَقَامَ فَسَجَدَ لَیْلاً طَوِیْلًا حَتّٰی ظَنَنْتُ أَنَّهٗ قُبِضَ فَقُمْتُ الْتَمَسْتُهٗ وَ وَضَعْتُ یَدِي عَلٰی بَاطِنِ قَدَمَیْهِ فَتَحَرَّکَ فَفَرِحْتُ.

(بیهقی، شعب الایمان، 3: 384، رقم: 3837)

’’اے عائشہ! کیا آج کی رات تم مجھے عبادت کرنے کی اجازت دیتی ہو؟ تو میں نے عرض کیا: جی ہاں، میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں۔ تو آپ ﷺ نماز ادا فرمانے لگے، پس اتنا طویل سجدہ ادا فرمایا کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ آپ ﷺ کا (حالتِ سجدہ میں) وصال ہو گیا ہے۔ لهٰذا میں (پریشانی سے) معلوم کرنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی اور میں نے ہاتھ سے آپ ﷺ کے قدم مبارک کو چھوا تو اس میں حرکت ہوئی جس سے میں خوش ہو گئی۔‘‘

اس حدیث مبارک سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں حقوق العباد کو کتنی اہمیت دی گئی ہے کہ اتنی مقدس رات بھی اﷲ تعالیٰ کے محبوب نبی ﷺ قیام اللیل اور نفلی عبادت کے لیے اپنی زوجہ محترمہ سے اخلاقی طور پر اجازت لیتے ہیں کیوں کہ اس رات اُن کے حجرہ مبارک میں قیام کی باری تھی۔ آقا علیہ السلام کا انداز دیکھئے کہ معلوم ہے کہ یہ وہ رات ہے کہ جس جیسی رات پھر سال بعد آئے گی اور اس کی عظمت کا بیان بھی خود فرمارہے ہیں مگر اخلاق کاا علیٰ مقام دیکھئے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے آپ ﷺ کے اخلاق کو وانک لعلی خلق عظیم کے ساتھ تعبیر فرمایا۔

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب حضور علیہ السلام سجدہ میں تھے تو میں نے کان لگاکر سنا تو آقا علیہ السلام اس طویل سجدے میں اپنے رب سے عرض کررہے تھے:

أَعُوْذُ بِعَفْوِکَ مِنْ عِقَابِکَ وَأَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخْطِکَ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ جَلَّ وَجْھُکَ لَا أُحْصِي ثَنَآءً عَلَیْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ.

(بیهقی، شعب الایمان، 3: 383۔385، رقم: 3837)

’’اے اللہ میں تیرے عفو کے ساتھ تیرے عذاب سے پناہ چاہتا ہوں، تیری رضا کے ساتھ تیرے غضب سے پناہ چاہتا ہوں اور تیرے کرم کے ساتھ تیری ناراضگی سے پناہ چاہتا ہوں۔ میں کماحقہ تیری تعریف نہیں بیان کرسکتا تو ایسا ہی ہے جیسے تو نے خود اپنی تعریف بیان کی ہے۔‘‘

صبح جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے حضور نبی اکرم ﷺ سے ان دعاؤں کا تذکرہ کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے عائشہ! یہ دعائیں خود بھی یاد کر لو اور دوسروں کو بھی سکھاؤ۔ مجھے جبریل امین علیہ السلام نے (اپنے ربّ کی طرف سے) یہ کلمات سکھائے ہیں اور انہیں حالتِ سجدہ میں بار بار پڑھنے کو کہا ہے۔‘‘

محترم قارئین! اس سے محبوب تر اور کیا الفاظ ہوسکتے ہیں جن سے آقا علیہ السلام نے اس رات میں سیدہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وساطت سے امت کو آگاہ کردیا۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ اس رات اِن الفاظ کے ذریعے اللہ کی بارگاہ سے اس کا لطف و کرم اور مغفرت طلب کریں۔

شبِ برأت: فیصلوں کی رات

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ: اے عائشہ! تمھیں معلوم ہے کہ شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے؟ تو انہوں نے عرض کیا: (یارسول اللہ ﷺ!) اس رات میں کیا ہوتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:

فِیْهَا أَنْ یُکْتَبَ کُلُّ مَوْلُوْدٍ مِنْ مَوْلُوْدِ بَنِي آدَمَ فِي هٰذِهِ السَّنَةِ، وَفِیْهَا أَنْ یُکْتَبَ کُلُّ هَالِکٍ مِنْ بَنِي آدَمَ فِي هٰذِهِ السَّنَةِ، وَفِیْهَا تُرْفَعُ أَعْمَالُهُمْ، وَفِیْهَا تَنْزِلُ أَرْزَاقُهُمْ.

(بیهقی، الدعوات الکبیر، 2: 145)

’’ اس رات سال میں جتنے بھی لوگ پیدا ہونے والے ہیں، سب کے نام لکھ دیے جاتے ہیں اور جتنے لوگ فوت ہونے والے ہیں، ان سب کے نام بھی لکھ دیے جاتے ہیں اور اس رات میں لوگوں کے (سارے سال کے) اَعمال اٹھالیے جاتے ہیں اور اسی رات میں لوگوں کی روزی مقرر کی جاتی ہے۔‘‘

حضرت عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ:

إِذَا کَانَتْ لَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ دُفِعَ إِلٰی مَلَکِ الْمَوْتِ صَحِیْفَةٌ فَیُقَال: اقْبِضْ مَنْ فِي هٰذِهِ الصَّحِیْفَةِ، فَإِنَّ الْعَبْدَ لَیَغْرِسُ الْغِرَاسَ، وَیَنْکِحُ الْأَزْوَاجَ، وَیَبْنِي الْبُنْیَانَ، وَإِنَّ اسْمُهٗ قَدْ نُسِخَ فِي الْمَوْتٰی.

(ابن رجب حنبلی، لطائف المعارف، 140)

’’جب نصف شعبان کی رات آتی ہے تو اﷲتعالیٰ کی طرف سے ملک الموت کو ایک فہرست دی جاتی ہے اور حکم دیا جاتا ہے کہ جن لوگوں کا نام اس فہرست میں درج ہے، اُن کی روحوں کو قبض کرلے، کوئی بندہ تو باغوں کے درخت لگا رہا ہوتا ہے، کوئی شادی کر رہا ہوتا ہے، کوئی تعمیر میں مصروف ہوتا ہے، حالانکہ اس کا نام مردوں کی فہرست میں لکھا جا چکا ہوتا ہے۔‘‘

شبِ برأت میں مغفرت و بخشش کی صدائیں

تمام فیصلے اسی رات کیے جانے کی بنا پر یہ رات تقاضا کرتی ہے کہ ہم اللہ کے حضور جھکنے والے بن جائیں۔ ہمارے لیے کیا لکھا ہے اور کیا لکھا جانا ہے۔۔۔ ؟ کیا عطاکیا جانا ہے اور کتنا عطا کیا جانا ہے۔ ۔ ؟ کس کی مغفرت ہونی ہے...؟ کتنی زندگیاں اس دنیا میں آنی اور کتنی اٹھائی جانی ہیں...؟ ان سب معاملات کا وہ مالک ہےمگر وہ حضور نبی اکرم ﷺ کے صدقے اور وسیلے سے اِن امور کا فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے رحم و کرم اور فضل کے سبب بندۂ مومن کو یہ موقع عطا فرماتا ہے کہ وہ صدق اور خلوص کے ساتھ اُس سے جو کچھ مانگے گا، وہ اسے عطا کردے گا۔

حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إِذَا کَانَ لَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ نَادٰی مُنَادٍ: هَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَأَغْفِرَ لَهٗ، هَلْ مِنْ سَائِلٍ فَأُعْطِیَهٗ، فَلَا یَسْأَلُ أَحَدٌ شَیْئًا إِلَّا أَعْطٰی.

(بیهقی، فضائل الاوقات، رقم: 25)

’’جب شعبان کی پندرہویں شب آتی ہے تو ایک اعلان کرنے والا اعلان کرتا ہے کہ کوئی ہے بخشش چاہنے والا کہ میں اس کی بخشش کروں۔۔۔ ؟ کوئی ہے سوال کرنے والا کہ میں اسے عطا کر دوں۔۔۔ ؟ پھر کوئی شخص جو چیز بھی طلب کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اسے عطا فرما دیتا ہے۔‘‘

قلب و باطن میں تبدیلی کیونکر ممکن ہے؟ چند واقعات

اللہ رب العزت نے اپنے حبیب ﷺ کی امت پر اس رات جو کرم کیا، اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے اعمال، اپنے گناہوں اور اپنی معصیتوں پر مغفرت طلب کرتے ہوئے اللہ کے حضور جھک جائیں اور اس سے معافی مانگیں۔ یہ شبِ توبہ درحقیقت آقا علیہ السلام کا انعام ہے جو آپ ﷺ کے واسطے سے امت کو مل گیا۔ توبہ کیا ہے۔۔۔ ؟ اہل اللہ اور صلحاء اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے کیسا تعلق رکھتے تھے۔۔۔ ؟ اس سلسلہ میں چند واقعات ملاحظہ ہوں:

(1) قرآن مجید میں غوروفکر نے احوال بدل دیئے

اموی خاندان کا شہزادہ موسیٰ بن محمد سلیمان بڑا عیاش پرست اور تماش بین تھا۔ آخرت سے اتنا بے خبر اور بے فکر تھا کہ ہمہ وقت شراب، لہو و لعب اور برے اعمال میں مصروفِ عمل رہتا۔ ایک روز وہ شراب کے نشے میں دھت حسبِ معمول کنیزوں اور لونڈیوں کے درمیان گانے باجے میں مصروف تھا کہ اسے دورسے ایک درد ناک اور سوز و گداز سے معمور آواز سنائی دی۔ اس نے پوچھا: یہ آواز کس کی ہے؟ اس کا غلام اس کی کھوج میں گیا اور ایک لاغر نوجوان کو پکڑ کر لے آیا اور کہا کہ شہزادے! جو آواز آپ نے سنی تھی، وہ اس کی آواز تھی۔ شہزادے نے پوچھا: تم کیا پڑھ رہے تھے؟ اس نے کہا: میں تو اپنے رب کا پیغام سنا رہا ہوں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ پھر اس نے اللہ کا کلام پڑھنا شروع کردیا:

إِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِیْ نَعِیْم. عَلَی الْاَرَآئِکِ یَنْظُرُوْنَ. تَعْرِفُ فِیْ وُجُوْھِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِیْمِ. یُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِیْقٍ مَّخْتُوْمٍ. خِتٰمُهٗ مِسْکٌ وَفِیْ ذٰلِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ.

(المطففین، 83: 22۔26)

’’بے شک نیکوکار (راحت و مسرت سے) نعمتوں والی جنت میں ہوں گے۔ تختوں پر بیٹھے نظارے کر رہے ہوں گے۔ آپ ان کے چہروں سے ہی نعمت و راحت کی رونق اور شگفتگی معلوم کر لیں گے۔ انہیں سر بہ مہر بڑی لذیذ شرابِ طہور پلائی جائے گی۔ اس کی مہر کستوری کی ہوگی، اور (یہی وہ شراب ہے) جس کے حصول میں شائقین کو جلد کوشش کر کے سبقت لینی چاہیے (کوئی شرابِ نعمت کا طالب و شائق ہے، کوئی شرابِ قربت کا اور کوئی شرابِ دیدار کا، ہر کسی کو اس کے شوق کے مطابق پلائی جائے گی)۔‘‘

جب یہ کلماتِ الهٰیہ شہزادے کے کانوں سے ٹکرائے تو وہ تڑپ گیا۔ اس نے کہا کہ میرے رب کا پیغام دوبارہ سناؤ۔ اپنے رب کا نغمہ لاہوتی سن کر وہ مچھلی کی مانند تڑپنے لگا اور بے ہوش ہوگیا۔ ہوش میں آتے ہی اپنی لونڈیوں اور غلاموں کو آزاد کردیا۔ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کردیا، اپنا محل چھوڑ دیا اور ٹاٹ کا لباس پہن کر اس نوجوان کے قرب میں آکر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ اب میں اپنا محل چھوڑ کر تیرا ہوگیا ہوں۔ اب تو مجھے میرے رب کا پیغام سناتا رہ۔

کچھ عرصہ وہ شہزادہ اس نوجوان کی قربتوں میں رہا اور اللہ رب لعزت کے کلام کو اس کی زبان سے سن کر اس میں خوب غوروفکر کرتا رہا۔ کچھ دنوں کے بعد اس نوجوان نے شہزادے کو اپنے ہمراہ لیا اور مکہ معظمہ چلا گیا اور وہاں جاکر دونوں نے حج اداکیا۔ دورانِ طواف اس شہزادے کی یہ آواز گونج رہی تھی جسے سب لوگ سن رہے تھے:

اے مالک! تجھے پتہ ہے کہ میں تو بڑا بے خبر تھا اور بے خبری میں گناہ کا مرتکب ہوتا رہا۔۔۔ میرا حال بہت برا ہے۔۔۔ مگر میرے مالک! تجھے معلوم ہے کہ میں تیرا غلام ہوں۔۔۔ مجھے بتا! اگر تو ہی مجھے چھوڑ دے تو کون مجھے اپنی بارگاہ میں بلائے گا۔۔۔ ؟ اے مالک! غلام برا ہو یا اچھا ہو، آخر کار اس نے مالک کے پاس ہی لوٹنا ہوتا ہے۔۔۔ میں گنہگار ہی سہی مگر لوٹ کر تیرے حضور ہی آیا ہوں۔۔۔ تیرے علاوہ میرا کون ہے۔۔۔ ؟ یہ کہہ کر وہ چیختا رہا، تڑپتا رہا اور اسی حال میں اس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی اور وہ خدا کے حضور پیش ہوگیا۔

(2) حقیقی ندامت و شرمندگی نے مستحق جنت بنادیا

ایک دفعہ حضرت ابراہیم بن ادھمؒ کسی بازار سے گزر رہے تھے کہ سامنے سے شراب کے نشے میں مست ایک نوجوان گزر رہا تھا، جب اس نے آپ کو دیکھا تو آپ کی بزرگی اور عظمت کے سبب آپ سے اوجھل ہونے کی کوشش کی کہ ان بزرگوں کے سامنے اس حالت میں آگیا تو مناسب نہیں۔ اس نے ادھر ادھر بھاگنے کی کوشش کی۔ مگر اسے کہیں راستہ نہ ملا، آخر کار اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور دل میں دعا کی کہ اللہ مجھے ان کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچالے، آئندہ میں ایسا نہ کروں گا۔ یہ دعا کرنے کے بعد وہ آگے بڑھا اور حضرت ابراہیم بن ادھمؒ کی دست بوسی کرنے لگا اور آپ کے قدمین میں گر گیا اور سلام پیش کیا۔ حضرت ابراہیم بن ادھمؒ نے دیکھا تو آپ نے شفقت فرمائی اور روانہ ہوگئے۔

وہ کہنے لگا: اللہ تیرا شکر ہے کہ ابراہیم بن ادھمؒ کو معلوم نہیں ہوا کہ میں نے شراب پی ہوئی ہے اور ان کے سامنے شرمندگی سے بچ گیا۔ حالانکہ حضرت ابراہیم بن ادھمؒ کو تو معلوم ہوگیا تھا مگر آپ شفقت کرنے والے تھے، اس لیے نظر انداز کرگئے۔ رات کو وہ نوجوان خواب میں دیکھتا ہے کہ وہ جنت میں ہے۔ وہ تڑپ گیا اور کہا کہ یہ کیا ہوگیا؟ میرے اعمال تو اس قابل نہیں کہ میں جنت میں چلوں۔ غیب سے آواز آئی کہ میرے ایک نیک بندے حضرت ابراہیم بن ادھمؒ کا ادب کرنے اور ان کے سامنے خلوص کے ساتھ شرمسار ہونے سے قبل تو ایسے ہی تھا کہ دوزخ تیرا ٹھکانہ تھا مگر جس لمحے تو نے میرے ابراہیم کے ہاتھوں کو چوما ہے، قدموں میں گرا ہے اور جس اخلاص کے ساتھ شرمندہ ہوا ہے، یہ تیری شرمندگی والا اخلاص تھا جس کی بنا پر تجھے بچا لیا گیا ہے، اب تیرے حصے میں جنت لکھ دی گئی ہے۔

(3) خشیتِ الٰہی میں ایک ولی کامل کا حال

حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نقل کرتے ہیں کہ ایک نوجوان اپنا دن بڑی عاجزی کے ساتھ گزارتا اور جب رات آتی تو خاموشی کے ساتھ اپنے کمرے میں چلا جاتا اور رسی کو چھت سے باندھ کر اپنے گلے میں ڈال لیتا اور اپنے مولا کے حضور التجا کرتا: مولا! تیرا مجرم تیری بارگاہ میں حاضر ہے۔۔۔ جو سلوک کرنا ہے، اس دنیا میں کرلے، آخرت میں نہ کرنا۔۔۔ اسی طرح وہ ساری رات گریہ و زاری کرتا۔ ساری زندگی اسی معمول میں رہا۔

ایک روز وہ نوجوان اپنی ماں کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مجھے تین چیزوں پر آپ کا وعدہ چاہیے۔ والدہ نے پوچھا: کیا معاملہ ہے تو وہ کہنے لگا کہ ساری زندگی میں اپنے مولا کی نافرمانی کرتا رہا اور اس کا حق ادا نہ کرسکا۔ یہ وعدہ کریں کہ جب میری موت آئے تو آپ یہ تین کام کریں گی۔ جب ماں نے حامی بھرلی تو کہنے لگا:

1۔ پہلا کام یہ ہے کہ جب میری موت واقع ہوجائے تو میری میت کو رسی سے باندھ کر اپنے گھر کے چاروں کونوں میں گھسیٹنا اور یہ کہتے رہنا کہ جو خدا کا نافرمان ہو، اس کا یہی حال ہوتا ہے۔

2۔ دوسرا کام یہ کرنا کہ رات کے اندھیرے میں میرا جنازہ لے کر جانا کہ کوئی شخص مجھے دیکھ کر یہ نہ کہہ دے کہ خدا کے نافرمانوں کا یہی حال ہوتا ہے۔

3۔ تیسرا کام یہ کہ جب میری تدفین کردی جائے اور لوگ مڑ کر واپس چلے جائیں تو میری ماں آپ میری قبر پر کھڑی رہنا تاکہ جب فرشتے مجھے سزا دینے کے لیے آئیں تو آپ کے قدموں کے طفیل شاید میری بخشش ہوجائے۔

یہ وعدہ لینے کی دیرتھی کہ اس نوجوان کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔ اب ماں حسبِ وعدہ اس کی لاش کو گھسیٹنے لگی تو غیب سے آواز آگئی کہ اے خاتون! اس نوجوان کو چھوڑ دو، تمہیں کیا معلوم کہ یہ خدا کا کتنا محبوب بندہ تھا۔ جس کی ساری زندگی اپنے مولا کے ساتھ دوستی نبھانے میں گزر گئی ہو تو کیا اس کے ساتھ ایسا سلوک ہوتا ہے۔ ماں تڑپ گئی اور اسے پتہ چل گیا کہ میرے بیٹے کا کیا مقام تھا۔

قارئین کرام! یہ وہ توبہ تھی، جو توبہ کرنے والے ہمیں سکھا گئے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ آج ہم حقیقی معنی میں اس کی بارگاہ میں ایسی توبہ نہیں کرتے۔ کسی کے بیس سال گزر گئے ، کسی کے چالیس سال گزر گئے، کسی کے ساٹھ، کسی کے ستر، مگر کسی کو اپنے باطنی احوال کی کچھ خبر نہیں۔ شبِ برأت ہر سال آتی ہے، اللہ رب العزت اس رات آسمان دنیا پر آکر پکارتا ہے کہ مغفرت مانگ لو، توبہ کرلو مگر ہم ہیں کہ کاہلی و سستی کا شکار ہیں۔ شب توبہ کے موقع پر اس عہد کو دہرانا ہوگا اور اپنے آپ کو اور اپنی اولادوں کو توبہ کے راستے پر لانا ہوگا۔

آج اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری اولادوں کی تربیت اس نہج پر ہو، ان کے دلوں کے اندر تعلق باللہ، تعلق بالرسالت اور حضور ﷺ کی محبت جاگزیں ہوجائے تو اس کے لیے ہمیں اپنا کردار بدلنا ضروری ہے۔ جب ہماری اولاد ہماری آنکھوں سے آنسو برستے ہوئے دیکھے گی تو کل ان کی آنکھوں سے بھی آنسو نکل رہے ہوں گے۔۔۔ آج وہ ہمیں خدا کے حضور گریہ و زاری کرتے ہوئے اور تڑپتے ہوئے دیکھیں گے تو کل وہ بھی تڑپتے ہوئے نظر آئیں گے۔۔۔ اگر ہم مصلے پر خدا کو مناتے ہوئے نظر آئیں گے تو وہ بھی اگلے دن مصلے پر نظر آئیں گے۔۔۔ اگر آج مصطفوی مشن سے محبت کرتے ہوئے وہ ہمیں دینِ اسلام کی ترویج و اشاعت میں مصروفِ عمل دیکھیں گے تو کل وہ بھی دین سے محبت کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔۔۔ آج وہ ہمیں اپنے آقا و مولا پر درود و سلام پڑھتا ہوا دیکھیں گے تو کل وہ بھی یانبی سلام علیک کہتے ہوئے نظر آئیں گے۔

4۔ حضرت ثعلبہ رضی اللہ عنہ کی توبہ اور ملائکہ کا نزول

حضرت ثعلبہ رضی اللہ عنہ آقا علیہ السلام کے ایک صحابی تھے۔ ایک روز آپ رضی اللہ عنہ ایک گلی سے گزر رہے تھے تو اس گلی میں کسی کے گھر کا دروازہ کھلا تھا۔ اس کھلے ہوئے دروازے سے آپ کی نظر اس گھر میں موجود کسی حرام شے پر پڑگئی۔ اس نظر کو انھوں نے اپنی آنکھوں کا گناہ تصور کیا کہ ان کی آنکھوں سے گناہ سرزد ہوگیا۔ گناہ کے سرزد ہونے کے تصور سے وہ پریشان ہوگئے اور شرمندگی محسوس ہوئی۔ گھر پہنچے تو سکت نہ رہی اور زمین پر گر گئے اور خود سے کہنے لگے: اے ثعلبہ جن نگاہوں سے تم چہرہ والضحیٰ دیکھا کرتے تھے، آج ان آنکھوں سے حرام دیکھ لیا۔ یہ سوچ کر ان پر اس قدر رقت طاری ہوگئی کہ وہ آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں جانے سے کترانے لگے کہ اے ثعلبہ! کس وجود سے حضور ﷺ کے پاس جاؤ گے۔۔۔ ؟ کن نگاہوں سے حضور ﷺ کو دیکھو گے۔۔۔؟ ان پر یہ کیفیت اتنی بھاری ہوگئی کہ انھوں نے شہر مدینہ چھوڑ دیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اب وہ حضور ﷺ کے شہر مدینہ میں رہنے کے قابل نہیں رہے۔

شہر مدینہ سے دور پہاڑوں کے درمیان کسی غار میں حضرت ثعلبہ رضی اللہ عنہ چھپ گئے اور اسی حالت میں دس دن گزر گئے۔ حضور ﷺ نے پوچھا کہ ثعلبہ رضی اللہ عنہ کہاں ہے، کئی دنوں سے نظر نہیں آیا؟ صحابہ کرامl عرض کرتے ہیں: یارسول اللہ ﷺ! ہمیں معلوم نہیں کہ ثعلبہ کہاں ہے؟ اتنے میں اللہ رب العزت نے جبریل امین علیہ السلام کو بھیج دیا کہ جاؤ میرے محبوب کو بتاؤ کہ ثعلبہ کہاں ہے؟ جبریل امین علیہ السلام نے حضور ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر کہا کہ یارسول اللہ ﷺ! آپ کا ثعلبہ پہاڑوں کے درمیان کسی غار میں چھپا بیٹھا ہے۔ آقا علیہ السلام نے اسی وقت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور فرمایا: جاؤ اور میرے ثعلبہ کو لے آؤ۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ پہاڑوں کے درمیان حضرت ثعلبہؓ کو ڈھونڈتے رہے اور آوازیں دیتے رہےمگر ثعلبہ نہ ملے۔ جب واپس لوٹ رہے تھے تو ایک چرواہا ملا، اس سے پوچھا کہ تم نے ثعلبہ کو دیکھا ہے؟ وہ کہتا ہے کہ حضرت! مجھے یہ تو نہیں پتہ کہ وہ کہاں ہے مگر یہ ضرور جانتا ہوں کہ جب رات ڈھلتی ہے تو دو پہاڑوں کے درمیان ایک غار میں سے ایک سوز و گداز اور آہ و بکا والی آواز پوری وادی میں گونج جاتی ہے اور کوئی تڑپ تڑپ کر رو رہا ہوتا ہے۔ اس آواز میں اتنا سوز و گداز ہے کہ میری بکریاں بھی رونے لگ جاتی ہیں اور کھانا پینا چھوڑ دیتی ہیں۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سمجھ گئے کہ یہی حضرت ثعلبہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ آپ اس غارکے دہانے تک پہنچ گئے۔ حضرت ثعلبہ رضی اللہ عنہ نے سمجھا کہ ملک الموت آگئے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ملک الموت مجھے مہلت دے دے، ابھی میرے مصطفی ﷺ میری توبہ تو قبول کروالیں، پھر تیرے ساتھ چلا جاؤں گا۔ یہ سن کر حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ثعلبہ میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہوں اور آپ کو لینے آیا ہوں۔ پوچھا: کیوں آئے ہو؟ کس نے بھیجا ہے؟ فرمایا: حضور ﷺ نے بھیجا ہے۔ آپ تڑپ اٹھے اور پوچھا کہ کیا حضور ﷺ کو پتہ چل گیا ہے کہ مجھ سے جرم کا ارتکاب ہوگیا ہے؟فرمایا: مجھے زیادہ معلوم نہیں، بس حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ جاؤ، میرے ثعلبہ کو لے آؤ۔ کہا کہ اگر حضور ﷺ کا حکم ہے تو ضرور جاؤں گا مگر حضور ﷺ کا سامنا نہیں کرسکتا۔ آپ ایک وعدہ کریں کہ مجھے اس وقت حضور ﷺ کی بارگاہ میں لے جانا کہ حضور نبی اکرم ﷺ مجھے آتا ہوا نہ دیکھیں بلکہ جب آپ ﷺ نماز میں مصروف ہوں تو میں حاضر ہوجاؤں۔ انھوں نے وعدہ کرلیا اور حضرت ثعلبہ رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے آئے۔

جب مسجد نبوی میں نماز شروع ہوگئی، تب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ثعلبہ رضی اللہ عنہ کو مسجد میں داخل کردیا۔ جب آقا علیہ السلام نے سلام پھیرا تو پوچھا: اے عمر! ثعلبہ کدھر ہے؟ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت ثعلبہ رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عرض کیا: حضور یہ ہے۔ ثعلبہ نے چیخ ماری اور آپ ﷺ کے قدمین شریفین پر گرگئے۔ آقا علیہ السلام نے پیار بھرے ہاتھوں سے اٹھایا اور فرمایا کہ اے میرے ثعلبہ تو نے یہ کیا کیا کہ مجھے چھوڑ کر چلے گئے۔ اگر تجھ سے گناہ ہوگیا تھا تو پھر میں تیرے پاس تھا تو مجھے کہتا، میں ہاتھ اٹھاتا اور تیری مغفرت مانگتا اور خدا تجھے معاف کردیتا۔ عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ میں نہیں بتاسکتا تھا کیونکہ میں نے بہت بڑا گناہ کیا تھا۔ آپ ﷺ نے ہاتھ اٹھا دیئے اور فرمایا: اے میرے مولا! میرے ثعلبہ سے جو بھی گناہ سرزدہوا ہے تو اسے معاف فرمادے۔ یہ کہنے کی دیر تھی حضرت ثعلبہ رضی اللہ عنہ تڑپ اٹھے اور بے ہوش ہوگئے۔ دو دن نہیں گزرے تھے کہ آپ کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔

حضور ﷺ نے حضرت ثعلبہ رضی اللہ عنہ کی تدفین اور تجہیز و تکفین کے انتظامات کا حکم دیا۔ جب حضرت ثعلبہ رضی اللہ عنہ کو لحد میں اتارنے کا وقت آیا تو اس وقت آقا علیہ السلام تشریف لے آئے۔ آپ لحد میں اترے اور اپنی گود مبارک میں حضرت ثعلبہ رضی اللہ عنہ کا سر لے لیا اور دستِ اقدس اٹھالیے اور فرمایا: اے مولا! یہ تیرا ثعلبہ اس حال میں اس دنیا سے جارہا ہے کہ تیرا رسول اس سے راضی ہے۔ جب حضرت ثعلبہ رضی اللہ عنہ کی تدفین ہوگئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم انھیں رشک بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے اور زبان حال سے کہہ رہے تھے کہ اے ثعلبہؓ قربان جائیں آپ کی قسمت پر کہ اتنا کرم ہوگیا۔

صحابہ کرامl بیان کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام حضرت ثعلبہ رضی اللہ عنہ کی تدفین کے بعد قدمین شریفین کے پنجوں کے بل چل رہے ہیں۔ ہم پریشان ہوئے کہ یارسول اللہ ﷺ آپ قدم مبارک زمین پر نہیں رکھ رہے، کیا ماجرا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کیسے رکھوں، جیسے ہی میرے ثعلبہ کی توبہ قبول ہوئی ہے، پوری کائنات کے فرشتے خدا نے زمین پر بھیج دیئے ہیں۔ ہر جگہ فرشتے اس قدر کثرت سے ہیں کہ مجھے اتنی جگہ نہیں ملتی کہ میں پورا قدم رکھ سکوں۔

قارئین گرامی قدر! توبہ ہو تو حضرت ثعلبہ رضی اللہ عنہ جیسی ہو۔ آج بھی وقت ہے کہ عبادات و طاعات کے ساتھ دوستی کرلیں۔ ہم اس سے مانگنے والے بن جائیں اور اس کو منانے والے بن جائیں۔ اللہ رب العزت آسمان دنیا پر اپنی شان کے لائق جلوہ افروز ہوکر مغفرت و بخشش اور عطا و کرم کی صدائیں دے رہا ہے مگر ہم اتنے کاہل، سست اور غافل ہوگئے ہیں کہ وہ رحمت انتظار کررہی ہے مگر ہم دروازہ کھولنے کو تیار نہیں۔ 15 شعبان المعظم کی رات عہد کرلیں کہ مولا جو وقت غفلت میں گزر گیا وہ معاف کردے اور ہماری زندگیاں بدل دے۔۔۔ آج سے ہمیں اپنا طلبگار بنادے۔۔۔ ہمیں عفوو درگزر والا بنادے۔۔۔ اگر ہمارے دلوں میں کدورت، لالچ، حسد اور رذائل ہیں تو دلوں سے نکال دے اور ہمیں معاف فرمادے۔۔۔ کبھی والدین کی گستاخی ہوگئی تو معاف فرمادے۔۔۔ مولا جن پر تیری رحمت نہیں ہوتی، ہمیں ان طبقات سے نکال کر ان طبقات میں شامل کردے جن پر تیری نگاہ ہوتی ہے۔۔۔ اور شبِ برأت کو ہمارے لیے بخشش و مغفرت کا وسیلہ بنادے۔