صحیفۂ تاریخ کا سُنہری عنوان : قراردادِ پاکستان

احسان حسن ساحر

23مارچ 1940ء کا دن برصغیر کے مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کی تحریک میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ وہ تاریخی دن ہے جب اسلامیانِ ہند کی واحد نمائندہ جماعت مسلم لیگ نے اپنے عظیم قائد محمد علی جناح کی زیر قیادت منعقد ہونے والے ایک عظیم اجتماع میں حصولِ وطن کے لیے ایک تاریخی قراداد منظور کی۔ یہ وہ قراداد تھی جس کا تصور علامہ اقبال ؒ نے 1930ء میں اپنے خطبہ الہ آباد میں پیش کیا تھا۔ اس تصور میں علامہ اقبال نے ہندوستان کے مسلمانوں کی آزادی اور حقوق کی نگہداشت کے لیے اکثر یتی صوبوں پر مشتمل ایک علیحدہ خود مختار اسلامی ریاست کے قیام کی ٹھوس تجویز پیش کر کے برطانوی اور ہندو حکمرانوں کو ورطئہ حیرت میں ڈال دیا۔ چنانچہ 1930 سے 1940ء تک اس سلسلہ میں جو پیش رفت ہوئی، وہ برطانوی ہند کی حکومت کی طرف 1935ء کا وہ ایکٹ تھا جس کے تحت 1937 ء میں ملکی انتخابات عمل میں آئے۔

یہ وہ دور تھا جب قائد اعظم نے مسلم لیگ کو دوبارہ فعال، مؤثر اور منظم کرنے کی ذمہ داری سنبھالی۔ چنانچہ اپنی مسلسل محنت اور شب و روز کام کے بعد اُنہوں نے مخالفین پر یہ ثابت کر دیا کہ متحدہ ہندوستان میں صرف ھندو اور انگریزہی دو بڑی قومیں نہیں بلکہ ایک تیسری بڑی قوم بھی آباد ہے جو مسلمان کہلاتی ہے۔ اس طرح عظیم قائد نے مسلمانانِ ہند کو سیاسی اعتبار سے ہندؤوں اور انگریزوں کے ہم پلہ بنا دیا ور دو قومی نظریہ کی اشاعت و ترویج سے یہ لوگ قومیت کے چنگل سے ہمیشہ کے لیے آزاد ہو گئے۔

  • آج ہم 23مارچ 2023ء قراردادِ پاکستان کی 83 ویں سالگرہ منارہے ہیں۔ یہ دن اہلِ وطن کے لیے انتہائی اہم اور تاریخی یاد گار دن کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دن کی خوشیاں مناتے ہوئے جہاں ہم علمی مباحثے، جلسے جلوس، تقاریر اور دیگر تقریبات منعقد کرتے ہیں، وہاں ہمارا یہ ملی فرض بھی ہے کہ تحریک پاکستان کے اُن زعما و اکابرین کو قلبی خراج تحسین پیش کریں جنہوں نے جدو جہدِ آزادی میں اپنی تمام فطری صلاحیتوں (Energies)،قوتوں اور ملی جذبوں کو گرماتے ہوئے تعمیرِ وطن میں ایک جاندار، تاریخی اور ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا اور بحثیت قومی رہنما اپنی منصبی ذمہ داریوں کو نبھا یا۔

قوم کے یہ جیالے، بہادر، مخلص بے لوث اور اہل درد لوگ کون تھے ؟ یہ وہ عظیم شخصیات تھیں جن کو ایسی باحیاء وفادار غیور اور بہادر ماؤں نے جنم دیا تھا جن کا خون جذبۂ حب الوطنی اور حراتِ ایمانی سے گرم رہتا تھا، اُن رہنمایانِ ملت کا خمیر بھی اِن نیک سیرت ماؤں ہی کے خون سے تیار ہواتھا جنہوں نے فرنگی عہد کی تہذیب و ثقافت کے زیر اثر اپنی اسلامی اقدار کے چمن زار کو ہمیشہ تروتازہ اور شا د و آباد رکھ کر پھول کی کسی کلی کو خاک آلود نہ ہونے دیا۔ آج بھی ملک و ملت کو ایسی ہی باغیرت اور ہوش مند ماؤں کی ضرورت ہے جن کی گودوں میں پروان چڑھنے والے فرزند جوان ہو کر پھر سے محمدعلی جوہر، ظفر علی خان، مولوی ابو لقاسم، فضلِ حق، خلیق الزمان، سردار عبدالرب نشتر،لیاقت علی خان اور علامہ اقبال بن کر وطن کو مزید استحکام بخشیں۔ یہ اُن شخصیات کے اسماء گرامی ہیں جنہوں نے وطن کی بقاء سالمیت کو جز وِ ایمان کا درجہ دے کر ہمیشہ اپنے قائد کا بے لوث ساتھ دیا اور تحریک پاکستان میں نمایاں کردار ادا کر کے اپنے نام کو ہمیشہ کے لیے تاریخی اوراق میں محفوظ کر لیا۔

  • 23 مارچ 1940ء بمطابق 3صفر 1359 ھجری بروز جمعہ ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس روز مسلمانانِ ھند کے جزبات واحساسات اور سینوں میں پنہاں مضطرب اُمنگوں کی بھر پور ترجمانی کرتے ہوئے لوگوں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر لاہور کے قدیم تاریخی شہر کے وسیع و عریض منٹوپارک(موجودہ اقبال پارک)میں اپنے قائدین کو سننے کے لیے موجود تھا۔ اِن تمام محبانِ قوم کے دل دھڑک رہے تھے اور کان کسی انجانی خوشخبری کو سننے کے لیے بے قرار تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دوسری جنگ عظیم نے برطانوی حکمرانوں کو بُری طر ح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ کانگریس نے اس موقعہ کو غنیمت جان کر انگریز حکومت کو بلیک میل کرنے کے تمام حربے استعمال کیے۔ ان کا مؤقف تھا کہ ہندوستان میں انگریز وں کے بعد اقتدارِ اعلیٰ کی حق دار صرف ہندو قوم ہے، لہٰذا برطانوی حکمرانوں کو اقتدار سے الگ ہو کر سارا ملکی نظام ہندؤوں کے سپرد کر کے اپنے وطن لوٹ جانا چاہیے۔

دوسری طرف مسلمانوں کی نمائندہ سیاسی جماعت مسلم لیگ نے ملک کے طول و عرض میں مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کر نے کے لیے اپنی تمام کوششیں صرف کردیں۔ قرارداد ِ پاکستان کے سلسلہ میں 1940ء کے اجلاس کا انعقاد 1939ء کے ملتوی شدہ اجلاس کی جگہ ہونا قرار پایا تھا۔ 1939ء کے آخر میں جب مجلسِ استقبالبہ کے چند ارکان اس تاریخی اجلاس کو حتمی شکل دینے کی تیاریوں میں مصروف تھے تو مخالفین نے ایک بار پھر اسے معرضِ التواء میں ڈالنے کی مذموم کوشش کی۔ جب یہ خبر قائد اعظم تک پہنچی تو اُنہوں نے اس جلاس کو ملتوی کرنے کی سخت مخالفت اور مذمت کی۔ چنانچہ اُن کی خصوصی ہدایت پر ایک مختصر اور مستعدد افرا پرمشتمل مجلسِ استقبالیہ تشکیل دی گئی جس میں صوبائی مسلم لیگ کے صدر محمد شاہ نواز ممدوٹ کو مجلس ہذا کا صدر اور میاں بشیر احمد کو جنرل سیکرٹری منتخب کیا گیا۔ سید خلیل الرحمٰن، محبوب احمد قریشی،میاں امیر الدین، خواجہ عبداللہ، سید امیر حسین،حافظ معراج الدین، میاں فیروز الدین، نواب زادہ رشید علی، نواب محمد اکبر ممدوٹ اور احمد کمال جیسے اکابر پر مشتمل یہ نو تشکیل کردہ مجلس کئی ماہ تک شب وروز اس اجلاس کی تیاریوں میں مصروف رہی۔ اس طرح جملہ معاملات کو طے کرنے کے ساتھ ساتھ اس اجلاس کیلئے تاریخی بادشاہی مسجد کے زیر سایہ منٹو پارک کے وسیع میدان کا انتخاب کیا گیا۔ پھر وہ گھڑی بھی آن پہنچی جب اسی میدان میں ایک تاریخی قرار داد منظور کی گئی جسے تاریخ میں قراردادِ لاہور(Lahore Resolution) کے عنوان سے درج کر دیا گیا۔

  • یہ قرارداد صحیفۂ تاریخ کا وہ سُنہری عنوان ہے جس کے پس منظر میں مسلمانان برصغیر کی تقدیر بدلنے کی مکمل داستان رقم ہے۔ قرار دادِ لاہور صرف سفید کاغذات پر لکھی گئی ایک عبارت کا ہی مجموعہ نہیں بلکہ یہ ایک غیور اور جرأت مند قوم کے عملی ارادے کا بھر پور اظہار بھی ہے۔ یہ قرار داد نہ صرف سیاسی بلکہ خالصتاً ایک ایسی مذہبی تجویز بھی ہے جسکی بنیاد دو قومی نظریہ پر رکھی گئی۔ قائداعظم ؒکی کئی بصیرت افروز تقاریر سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ ایک طویل عرصہ تک انڈین کا نگریس سے وابستہ رہنے کے باوجود وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ مسلمانانِ برصغیر ایک متحرک اور زندہ جاوید قوم کی حیثیت سے ہندوؤں کے ساتھ مل جل کر اپنی زندگی نہیں گزار سکتے۔ وہ جانتے تھے کہ یہ قوم ہر قدم پر مسلمانوں کی دل آزاری کر کے ان کو دکھ اور تکلیف پہنچاتی رہی ہے۔ حالانکہ ایسے حاسدانہ حالات کی اصلاح کے لیے قائد اعظم نے اپنی فطری فراخدلی اور وسعتِ قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کئی بار ان کی طرف خیر سگالی کا ہاتھ بڑھایا مگر ہر بار اُن کو مایوسی اور ناکامی کا سامنا رہا۔

انڈین کانگریس اگرچہ ایک مدت تک مولانا ابو الکلام آزاد کی زیر قیادت بھی رہی تھی لیکن پھر بھی وہ مسلمانوں کو کوئی رعایت دیتی اورنہ ہی اِنہیں اپنا بنیادی حق استعمال کرنے دیتی۔ ان معاملات میں اس جماعت کا طرزِ عمل رویہ اور وطیرہ ہمیشہ متشددانہ اور اڑیل رہا۔ حالانکہ بہت سے ایسے مسلمان بھی تھے جو قوم پر ستوں کے طور پر جانے پہنچانے جاتے تھے اور مکمل طور پر کانگریس سے بھی وابستہ تھے۔ چنانچہ جب 1930ء میں علامہ اقبالؒ نے اپنے منشور الہ آباد میں ہندوستان میں مقیم مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ خود مختار اسلامی ملک کے قیام و حصول کا تصور پیش کیا تو مسلمانانِ ہند کو اُمید کی ایک روشن کرن نظر آئی۔ اُنہیں ایسے محسوس ہوا جیسے مستقبل قریب میں وہ اس کرب انگیز زندگی سے نجات پا کر کھلی اور آزاد فضاؤں میں سانس لینے کے قابل ہو جائیں گے، اس طرح اُن کو منزل مراد کی دھندلی سی تصویر دکھائی دینے لگی۔ اس تسلی نے ان کو اضطرابی حالت سے نجات دلا کر فرحت و تسکین بخشی۔

علامہ اقبالؒ کے تصورِ پاکستان کا ایک مزید فائدہ یہ بھی ہوا کہ اس سے مسلم لیگ کی مقصدیت کو تقویت و استحکام مل گیا۔ ان دنوں قائد اعظم لند ن میں مقیم تھے اور کانگریس اپنی دولت و طاقت کی وجہ سے روز افزوں مؤثر و مضبوط ہوتی جارہی تھی۔ ہندو قوم کا وطیرہ مسلمانانِ ہند کے ساتھ مسلسل ظالمانہ و آمرانہ صورت اختیار کرتا جا رہا تھا۔ حالات کی ناگفتہ بہی اور بگڑتے ہوئے معاملات کی نزاکت کے پیش نظر علامہ اقبال نے قائد اعظم کو یہ ترغیب دی کہ وہ مسلم قوم کو اس ابتلاء سے آزادی او ر نجات دلانے کے لیے لندن میں پر یوی کونسل کے رکن کی حیثیت سے جو فرائض انجام دے رہے ہیں، انہیں ترک کر کے مسلمانوں کے ڈگمگاتے قافلے کو منزل پر پہنچا دیں۔ قائد اعظم نے علامہ اقبال کی اس اپیل پر لبیک کہتے ہوئے فوراً لندن کو خیرباد کہا اور لاہور تشریف لے آئے۔ اس طرح اُنہوں نے سب سے پہلے مسلم لیگ کی تنظیمِ نو کا آغاز کیا، جس کا اثر یہ ہوا کہ مسلمانوں میں تدبیر و عمل کی ایک نئی اور تازہ قوت پید اہوگئی اور ان کی پژمردہ روح کو بالیدگی حاصل ہونے لگی۔

  • 1935ء میں قائداعظم محمد علی جناح نے قانون ساز اسمبلی میں ایک بھر پور اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:کانگریس کی حکمتِ عملی اب اس موڑ پر آن پہنچی ہے کہ جہاں سے مسلمانوں میں تفریق کے عناصر جنم لینے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ اس سیاسی جماعت کی یہ حکمتِ عملی برطانوی طرز کی قدیم تدبیر کا عکس ہے۔ اس جماعت کے پیروکار اور وابستگان اپنے آقاؤں کے قدم بہ قدم چلتے ہیں جبکہ برطانوی سامراج ہر لحظہ اسی فکر میں رہتا ہے کہ کانگریس کیا کر رہی ہے؟ اس نے کبھی بھی اس امر کی طرف توجہ نہیں دی کہ مسلمانوں کے افکار و اعمال کس صورتحال سے دوچا رہیں۔ پس ایسی عدمِ توجہی اور غیر منصفانہ طرزِ عمل کے پیشِ نظر یہ لازم ہے کہ مسلمان قوم خود کو زیادہ سے زیادہ مستحکم، مضبوط، فعال، متحد اور منظم بنائے اور اپنی بقاء و سلامتی کے لئے خوابِ غفلت سے بیدار ہو جائے۔

قائداعظم کی اس مساعی جمیلہ اور اَن تھک کوششوں سے رفتہ رفتہ مسلم لیگی لوگ منظم و متحد ہونے لگے۔ اس دورا ن فرقہ وارانہ کشیدگی اور فسادات حد سے زیادہ بڑھ گئے تھے۔ جب مسلمان اپنے اُوپر ہونیوالے مظالم کا جواب دیتے تو اُلٹا انہی کو موردِ الزام ٹھہرا کر پابند سلاسل کر دیا جاتا۔ آخر 1937ء میں سند ھ مسلم لیگ کے زیرِ اہتمام قائد اعظم کی صدارت میں ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں بالاتفاق یہ قراداد منظور کی گئی کہ چونکہ ہندوستان میں امن و خوشحالی کے لیے یہ امر لازمی ہے کہ اس خطہ زمین کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے، جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں مسلم فیڈریشن اور جن علاقوں میں غیر مسلموں کی اکثریت ہے وہاں غیر مسلم فیڈریشن قائم کر دی جائے تاکہ دونوں اقوام علیحدہ علیحدہ اخلاقی معاشرتی،مذہبی اور اقتصادی منصوبہ بندی کے ذریعے اپنی اپنی حفاظت کر سکیں۔

اس قرارداد کے بعد مسلم لیگ کے وابستگان نے خلوصِ نیت اور اجتماعی طور پر اپنے عظیم قائد کی زیر قیادت آزاد وطن کے حصول کی بھر پور جدو جہد کا سفر شروع کردیا۔ وہ گاہے گاہے اپنے مطالبات حکومت کو پیش کرتے رہتے۔ 1939ء میں دوسری جنگ عظیم شروع ہو گئی تو کانگریس نے حکومتِ برطانیہ سے سودے بازی کی ایک نئی شاطرانہ چال چلی مگر جب اُسے اپنے مطلوبہ مفادات حاصل نہ ہوئے تو اُس نے جنگ میں برطانیہ کا ساتھ دینے سے انکار کردیا۔ قائد اعظم چونکہ صاحبِ بصیرت اور گہری سیاسی سوجھ بوجھ کے مالک تھے، اس لیے ان کے مشورہ سے مسلم لیگ نے حکومتِ برطانیہ کے ساتھ اپنے مکمل تعاون کا برملا اعلان کر دیا۔ ردِعمل کے طور پر کانگریس میں توڑ پھوڑ اور افراتفری کا عمل تیز ہو گیا۔ ان بگڑتے حالات سے خائف ہو کر کانگریس نے مسلم لیگ سے اتحادو یگانگت کا ڈھونگ بھی رچایا مگر اس کی یہ چال بھی ناکام و نامراد گئی۔ بعدازاں جب حالات میں قدرے ٹھہراؤ اور اعتدال آیا تو 23مارچ 1940ء کو مسلم زعماء نے لاہور کے تاریخی شہر میں بالاتفاق قرار دادِ لاہور پیش کر کے شاعرِ مشر ق کے اس خواب کی عملی تعبیر پیش کر دی جس کا تصور اُنہوں نے 1930ء میں اپنے خطبۂ الہ آباد میں پیش فرمایا تھا۔

  • اس تاریخی قرارداد کو پیش کرنے کے لیے قائد اعظم مع رفقاء 20مارچ 1940ء کو دہلی سے بذریعہ اسپیشل ٹرین لاہور تشریف لائے تو راستہ میں آنیوالے ہر اسٹیشن پر مسلمانوں کا ایک جم غفیر اپنے قائد کی ایک جھلک دیکھنے کے موجود تھا۔ 21 مارچ کو صبح9 بجے قائد اعظم اپنی سحر انگیز شخصیت کے ہمراہ لاہور ریلوے اسٹیشن پر پہنچے، ان کے والہانہ اور تاریخی خیر مقدم کے لیے جو معززین پہلے سے موجود تھے، ان میں شاہ نواز ممدوٹ، سر سکندر حیات، ملک خضر حیات ٹوانہ، میاں عبدالحئی اور دیگر بے شمار اعلیٰ مسلم لیگی لیڈر شامل تھے۔ قائدنے اپنی آمد کے بعد اخباری نمائندوں کو بتایا کہ لاہور اسٹیشن مسلمانانِ ھند کے مستقبل کی تاریخ کا دور آفریں واقعہ ہو گا۔

23 مارچ کو منٹو پارک میں ساٹھ ہزار افراد کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا۔ پنڈال میں چہار اطراف مسلم لیگی پر چم فضا ء میں لہرا کر مسلمانوں کے اتحاد و یک جہتی کا اعلان کر رہے تھے۔ جب قائد اعظم اپنی پُروقار چال سے پنڈال میں تشریف لا ئے تو مجلس استقبالیہ نے اُن کو خوش آمدید کہا۔ تلاوتِ قرآن حکیم کے بعد ولولہ انگیز نظمیں پڑھی گئیں اور پھر خان ممدوٹ نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا۔ اس کے بعد قائد اعظم نے اس عظیم اجتماع سے خصوصی خطاب فرمایا۔ یہ اجتماع مسلمانانِ ہند کا ایک بھر پور نمائندہ اجتماع تھا، اس میں پنجاب بنگا ل اور آسام کے وزراء اور صوبائی مرکزی اسمبلیوں کے مسلمان ممبران نے کثرت سے شرکت کی۔ علاوہ ازیں خواتین نے بھر پور انداز میں شامل ہو کر جذبۂ حب الوطنی کی ایک نادر تمثیل قائم کر دی۔ 23مارچ 1940 کو قراردادِ پاکستان پیش کی گئی جبکہ اس سے اگلے روز یعنی 24 مارچ 1940 بروز ہفتہ اس کے اصل مسودہ پر سیر حاصل بحث ہوئی۔، سید ذاکر علی، بیگم مولانا محمد علی اور مولاناعبدالحمید نے اس قرارداد کی حمایت و تائید میں پر مغز خطابات کیے۔ بالۤاخر جوش و جذبہ کی فضاؤں میں یہ تاریخی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی اور اسے قراردادِ لاہور کا حتمی عنوان دیگر تاریخ کے صفحات میں محفوظ کر لیا گیا۔ بعد ازاں اسے قرار داد لاہور کی بجائے قراردادِ پاکستان کے عنوان سے موسوم کر دیا گیا۔

لمحۂ فکریہ

من حیث القوم ہم رسم و روایت کے کچھ اس طرح خوگر ہوچکے ہیں کہ ہم اپنی عبادات نماز و روزہ تک رسمی طور پر ادا کرتے ہیں یعنی نماز بھی پڑھیں گے لیکن سارا دن دوسری برائیوں سے ذرا پرہیز بھی نہیں کریں گے۔ روزہ رکھ کر سارا دن جھوٹ، بہتان، الزام اور غیبت بھی خوب مزے سے کریں گے۔اسی طرح ہر تہوار سارا دن بڑے تزک اہتمام سے منائیں گے، خوب قومی نغمے اور جذبات سے لبریز حب الوطنی کی تقاریر کریں گے، جلسے جلوسوں کی بھی کثرت ہوگی اور ہماری ہر بات کی تان پاکستان کی ترقی و استحکام پر آکر ٹوٹے گی۔ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگالگاکر ہمارے گلے بیٹھ جاتے ہیں لیکن ہم میں سے شاید ہی کسی نے اس کی معاشی، علمی، معاشرتی اورسیاسی کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے کوئی منصوبہ، پروگرام یا فیصلہ کیا ہو۔

یومِ پاکستان ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے آپ سے عہد کریں اور اپنی خود احتسابی کریں کہ آئندہ اس ارضِ پاک کی معاشی بہتری کے لیے فضول خرچی سے اجتناب کریں گے۔۔۔ جہالت کے خاتمہ کے لیے کسی غریب پاکستانی کے بچے کی تعلیم کی ذمہ داری لیں گے۔۔۔ نظامِ تعلیم کی بہتری کے لیے اور اسے قومی امنگوں سے آہنگ کرنے کے لیے زبان و قلم کو بروئے کار لائیں گے۔۔۔ سیاسی ابتری کے خاتمہ کے لیے بداخلاق، کرپٹ، نااہل حکمرانوں، سیاستدانوں سے بلاامتیاز پارٹی و برادری اپنا تعلق ختم کرکے اُن کا قبلہ درست کریں گے۔۔۔ ملک میں رائج فرسودہ سیاسی و انتخابی نظام کو جڑ سے اکھاڑنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔۔۔ جھوٹ فریب اور کرپشن سے تائب ہوکر ملکِ پاکستان کے استحکام میں اپنا کردار ادا کریں گے۔