الفقہ : سُر، ساز اور وجد و رقص (آخری حصہ)

مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

آج کے دور میں قرآن و حدیث سے ناآشنا لوگ اور احکامات کی علت و وجوہ سے نابلد احباب کئی جائز چیزوں پر بھی فوراً ناجائز اور حرام کا حکم لگانے سے گریز نہیں کرتے۔ وہ قرآن پاک کی آیات اور احادیث مبارکہ میں موجود متعلقہ موضوع کے حوالے سے اثبات پر مبنی احادیث سے بھی عمداً چشم پوشی کرتے ہیں۔ وہ موضوعات جو اکثر ان احباب کے فتوؤں کی زد میں رہتے ہیں اُن میں سے ایک موضوع سُر، ساز، موسیقی اور وجد و رقص بھی ہے۔ کچھ شرائط اور علل کی بناء پر سُر، ساز اور موسیقی جائز ٹھہرتی ہے اور اگر وہ شرائط و وجوہات نہ پائی جائیں تو یہ موسیقی ناجائز ہے۔ محترم مفتی صاحب نے اپنے اس تفصیلی مضمون میں جن موضوعات پر مدلل جوابات دیئے ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں مثلاً سُر، ساز اور وجد و رقص کے بارے میں شرعی احکامات کیا ہیں۔ ۔ ۔؟ کیا موسیقی کا سننا جائز ہے۔ ۔ ۔؟ بعض اوقات سُر اور ساز سے لوگوں پر جذب کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور وہ وجد و رقص کرنا شروع کر دیتے ہیں، اس بارے شریعت کے کیا احکامات ہیں۔ ۔ ۔؟ اسی طرح آج کل دف اور موسیقی کے ساتھ نعت بھی پڑھنے کا رواج عام ہے کیا سُر، ساز اور موسیقی کے ساتھ نعت شریف کا پڑھنا جائز ہے۔ ۔ ۔؟ اور اس طرح کے کئی سوالات اور دیگر کئی موضوعات کے متعلق اصولی وفنی معلومات قرآن و احادیث کی روشنی میں بیان کیں۔ اس مضمون کے پہلے اور دوسرے حصے (اشاعت مجلہ ماہ مئی، جون 09ء) میں متعدد قرآنی آیات و احادیث کی روشنی میں سُر، ساز، موسیقی، شعرو شاعری اور وجد و رقص پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔ اس مضمون کا آخری حصہ نذرِ قارئین ہے :

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے لعبت الحبشه بحرابهم فرحا لقدومه تو حبشیوں نے سرکار کی آمد کی خوشی میں نیزہ بازی کا کھیل کھیلا‘‘۔ (ابوداؤد)

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :

ان ابا بکر دخل عليها وعندها جاريتان فی ايام منی تغنيان تدفغان وتضربان والنبی صلی الله عليه وآله وسلم متغش بثوبه فانتهرهما ابو بکر فکشف النبی صلی الله عليه وآله وسلم عن وجهه فقال دعهما يا ابا بکر فانها ايام عيد وتلک الايام ايام منی.

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ میرے پاس ایام منی میں تشریف لائے، اُس وقت میرے پاس دو بچیاں بیٹھی تھیں جو کچھ گارہی تھیں اور د ف بجا رہی تھیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے چہرہ پر کپڑا ڈالے آرام فرما تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان دونوں بچیوں کو گانے اور دف بجانے سے منع فرمایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور فرمایا ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کو چھوڑ دو یہ عید کے ایام ہیں۔

وقالت عائشة رايت النبی صلی الله عليه وآله وسلم يسترنی وانا انظر الی الحبشة وهم يلعبون فی المسجد فزجرهم عمر فقال النبی صلی الله عليه وآله وسلم دعهم امنا بنی ارفدة.

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اپنی چادر میں چھپایا اور میں نے حبشیوں کو دیکھا جو مسجد میں نیزہ بازی کا کھیل کھیل رہے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں روکا تو آپ نے فرمایا : ان کو چھوڑ دے یہ بنی ارفدہ ہے۔

علامہ بدرالدین ابو محمد محمود بن العینی رحمۃ اللہ علیہ (م 855 ھ) شرح میں لکھتے ہیں کہ ان احادیث مبارکہ سے ایک بات یہ ثابت ہوئی کہ شارع علیہ السلام کے سامنے خوشی کے موقع پر دف بجایا، گانا گایا اور کھیل کھیلا گیا۔ یعنی جو حلال و حرام کو بیان فرمانے والے ہیں اُن کے سامنے یہ امور بجا لائے گئے مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع نہ فرمایا۔ اسی طرح دف بجا کر اور جائز و مباح گانا گا کر اعلان نکاح کیا گیا تاکہ نکاح اور چھپ چھپا کر بدکاری کرنے میں فرق ہو جائے۔

٭ امام ترمذی نے سیدنا محمد بن حاطب الجمعی رضی اللہ عنہ کی سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان نقل کیا ہے :

فصل مابين الحلال والحرام الدف والصوت.

’’حلال اور حرام میں فرق دف بجانا اور گانا ہے‘‘۔

ترمذی نے اسے حدیث حسن، ابن حبان اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔

٭ ترمذی نے ہی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان نقل کیا ہے :

اعلنوا هذا النکاح واجلعوه فی المساجد وقال واضربوا عليه بالغربال.

’’اس نکاح کا اعلان کیا کرو اور یہ مسجدوں میں کیا کرو اور اس پر دف بجایا کرو‘‘۔

٭ نسائی نے سیدنا قرظۃ بن کعب اور سیدنا ابو مسعود کی یہ روایت نقل کی ہے، دونوں فرماتے ہیں :

رخص لنا فی اللهو عندالعرس.

’’شادی کے موقع پر ہمیں کھیل کود کی رخصت دی گئی‘‘۔

٭ طبرانی نے حضرت السائب بن یزید رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لڑکیوں سے ملے جو کچھ اس طرح سے گا رہی تھیں۔

حَيُّوْنَا نحَيّکُمْ.

’’تم ہمیں زندہ کرو! ہم تمہیں زندہ کریں گی‘‘۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یوں نہ کہو، بلکہ یوں کہو حَيَّانَا وَحَيَّاکُمْ ’’اللہ ہمیں سلامت رکھے اور تمہیں سلامت رکھے۔ ایک شخص نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ ہمیں اس کی اجازت دیتے ہیں؟ فرمایا ہاں اِنَّه نِکَاحٌ لَا سَفَاحٌ. ’’یہ نکاح ہے بدکاری نہیں‘‘۔

٭ ابن ماجہ نے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ

انها انکحت ذات قرابة لها من الانصار.

’’انہوں نے اپنی ایک انصاری عزیزہ کا نکاح کیا‘‘۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم نے لڑکی دلہن بنا دی؟ عرض کی جی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، فرمایا : ارسلتم معها من یغنی ’’اس کے ساتھ کوئی گانے والا بھیجا؟، میں نے عرض کی : نہیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انصار کے لوگوں میں گانے پسند کئے جاتے ہیں۔ اگر تم اس کے ہمراہ کوئی ایسا بھیجتے جو کہتا اَتيْنَاکُمْ اتينَاکُمْ فَحَيّانَا وَحَيَّاکُمْ ’’ہم تمہارے پاس آئے، تمہارے پاس آئے، اللہ پاک، ہمیں بھی سلامت رکھے تمہیں بھی سلامت رکھے‘‘۔

(عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری ج 20، ص 136 )

حبشیوں کا طرزِ عمل

ان الحبشة تذفن بين يدی النبی صلی الله عليه وآله وسلم ويتکلمون بکلام لهم، فقال مايقولون؟ قال يقولون مَحَمَّدٌ عَبْدٌ صَالِح.

’’حبشی، رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے وجد و رقص (بھنگڑا) کرتے تھے اور اپنی زبان میں کچھ کہتے تھے۔ پوچھا کیا کہتے تھے؟ کہا : یہ کہتے تھے محمد (اللہ) کے نیک بندہ ہیں‘‘۔

(علامہ عینی، عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری ج 6۔ ص 270 طبع کوئٹہ)

1. علامہ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں :

ولا شک ان يوم قدومه صلی الله عليه وآله وسلم کان عندهم اعظم من يوم العيد.

’’بے شک سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی (مدینہ منورہ میں) تشریف آوری ان کے نزدیک عید کے دن سے بڑھ کر خوشی تھی‘‘۔ (ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، شرح صحیح بخاری ج 2، ص 443)

2. فقام النبی صلی الله عليه وآله وسلم فاذا حبشية تزفن ای ترقص والصبيان حولها فقال يا عائشة تعالی فانظري.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آواز سن کر، کھڑے ہوئے، دیکھا ایک حبشیہ رقص کررہی ہے اور اس کے آس پاس بچے جمع ہیں۔ فرمایا عائشہ! آکر دیکھیں۔ ۔ ۔ ان کی زبان پر اس دن یہ بول تھے۔ اباالقاسم طیبا۔

3. امام احمد، السراج اور ابن حبان نے حضرت انس کی روایت بیان کی۔

ان الحبشة کانت تزفن بين يدی النبی صلی الله عليه وآله وسلم و يتکلمون بکلام لهم فقال مايقولون؟

حبشی لوگ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے رقص کرتے تھے اور اپنی زبان میں کچھ کہتے تھے پوچھا کیا کہہ رہے تھے؟ کہا اس دن ان کے کلام میں یہ شعر بھی تھا :

محمد عبد صالح. محمد بہت اچھے بندے ہیں۔

اَبَاالْقَاسِم طَيِّبًا ’’اے ابوالقاسم آپ بہت ستھرے ہیں‘‘۔ (ابن حجر عسقلانی ج 2، ص 444)

ساز اور آواز فقہائے کرام کے نزدیک

ردالمختار میں ہے کہ

عرفنا من هذا ان التغنی المحرم ما کان فی اللفظ مالا يحل کصفة الذکور والمراة المعينة الحية ووصف الخمرالمهيج اليها والحانات والهجاء لمسلم او ذمی اذا ارادالمتکلم هجاه لا اذا ارادانشاده الاشهاد به اوليعلم فصاحته وبلاغته وکان فيه وصف امراة ليست کذلک اوالزهريات المتضمنه وصف الرياحين والازهار والمياه فلا وجه لمنعه علی هذا.

’’اس سے ہم کو معلوم ہوا کہ حرام وہ گانا ہے جس کے الفاظ حرام ہوں جیسے کسی معین زندہ مرد یا عورت کی صفت بیان کرنا یا اس کی طرف جوش دلانے والے شراب کا ذکر کرنا یا بے ڈھنکی سریں ہو۔ کسی مسلمان یا ذمی کی دانستہ برائی بیان کی جائے۔ وہ شعر حرام نہیں جس سے مقصد کسی مفہوم کی وضاحت ہو یا فصاحت و بلاغت کی مثال۔ کسی غیر معینہ عورت کی تعریف کی جائے یا کلیاں جن سے پھول پتیاں بنتی ہیں یا پانی (دریا، چشمے، ندی نالے وغیرہ) شعر و شاعری میں ان چیزوں کا بیان منع نہیں۔ ۔ ۔ اور جن صوفیاء نے گانے قوالی وغیرہ کو جائز قرار دیا ہے وہ ان لوگوں کے لئے ہے جو کھیل کود سے خالی اور تقوی کے زیور سے مزین ہوں نیز جنہیں گانے قوالی کی ایسی مجبوری ہو جیسے مریض کو دواء کی‘‘۔

گانے کے جواز کے لئے چھ شرائط

1۔ محفل میں کوئی بے ریش نہ ہو، تمام مجمع ایک جنس سے ہو۔
2۔ قوال کی نیت اخلاص ہو، کھانا اور پیسے بٹورنا نہ ہو۔
3۔ محض کھانے اور نذرانوں کے لئے اجتماع نہ ہو۔
5۔ صرف شدید وجد کی حالت میں کھڑے ہوں۔
6۔ وجد و رقص کے اظہار میں سچے ہوں۔

فتاویٰ تاثیر خانہ میں ہے کہ اشعار میں اگر فسق و فجور کا ذکر نہ ہو، نوجوان لڑکوں، لڑکیوں کا ذکر نہ ہو، وغیرہ تو گانا مکروہ نہیں۔

فتاویٰ ظہیریہ میں ہے کہ شعر و شاعری اور گانے میں مکروہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان ذکر اور قرآن پڑھنے سے غافل ہو جائے اگر یہ وجہ نہ ہو تو شعر گانے میں کوئی حرج نہیں۔

’’تبیین المحارم‘‘ کتاب میں ہے کہ ’’جان لیجئے کہ حرام وہ شعر ہے جس میں فحش یا مسلمان کی برائی بیان کی جائے یا اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر جھوٹ باندھا جائے یا اپنے پاک صاف ہونے کے دعوے ہوں، یا جھوٹ ہو یا مذموم تفاخر ہو۔ یا کسی کے نسب کی برائی ہو یا کسی معین عورت یا بے ریش لڑکے کی تعریف کی جائے جبکہ وہ دونوں زندہ ہوں، یہ سب ناجائز ہے۔ ہاں اگر عورت فوت شدہ ہے یا غیر معین ہے تو اس کی تعریف کرنا درست ہے۔

بے شک آلہ لہو (ڈھول، باجا، بینڈ، بانسری وغیرہ) اپنی ذات میں حرام نہیں۔ ۔ تم دیکھتے نہیں کہ وہی آلہ موسیقی کبھی بجانا جائز و حلال اور دوسرے موقع پر حرام ہو جاتا ہے۔ نیت و مقاصد بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں۔ یہی صورت سماع کی ہے۔ اس میں ہمارے سادات صوفیہ کے لئے دلیل ہے۔ ان کے پیش نظر بڑے پاکیزہ مقاصد ہوتے ہیں جن کو وہی بہتر جانتے ہیں۔ لہذا معترض انکار کی جلد بازی نہ کرے تاکہ ان کی برکت سے محروم نہ ہو۔ یہ اولیاء اللہ ہمارے بزرگوار، نیکو کار ہیں۔ اللہ پاک ہم کو ان کی مدد نصیب فرمائے اور ان کی مقبول دعائیں، برکتیں ہم پر بار بار فرماتا رہے۔

(علامہ امین اشہیر ابن عابدین م 1252ھ شامی ردالمختار ج 6 ص 350 طبع کراچی)

1. ولا بائس ان يکون ليلة العرس دف يضرب به ليعلن به النکاح. . وان کان للغزواة والقافلة يحوز.

’’شادی کی رات دف بجانے میں حرج نہیں تاکہ اس کے ذریعے نکاح کا اعلان ہو اور اگر جہاد کے لئے ہو یا قافلہ کے لئے تو جائز ہے‘‘۔ (شامی ج 6۔ 55 طبع کراچی)

2. محدث ابو عوانہ رحمۃ اللہ نے اپنی صحیح میں یہ اضافہ کیا ہے کہ حبشی بنی ارفدہ کہلاتے ہیں، مطلب یہ کہ یہ ان کا حال اور طریقہ ہے۔ وهو من الامور المباحة فلا انکار عليهم. یہ جائز امور میں سے ہے پس ان پر انکار نہ کیا جائے۔

3. امام ابو یوسف رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ بیاہ شادی کے علاوہ آپ دف بجانے کو مکروہ سمجھتے ہیں؟ مثلا! عورت یا بچہ گھر میں دف بجائے، انہوں نے کہا کوئی کراہت نہیں۔

4. فوائد الحدیث میں تیسرا فائدہ کے ضمن میں علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

فيه جواز نظر النسآء والی فعل الرجال الاجانب لانه انما يکره لهن النظر الی المحاسن والاستلذاذ بذلک ونظرالمراة الی وجه الرجل الاجنبی ان کان بشهوة فحرام اتفاقا.

’’اس حدیث سے عورتوں کا اجنبی مردوں کو دیکھنے کا جواز ملتا ہے اس لئے کہ عورتوں کا اجنبی مردوں کو دیکھنا صرف اس صورت میں مکروہ ہے جب وہ ان کے حسن و جمال پر نظر رکھیں اور اس سے لذت اندوز ہوں۔ عورت کا اجنبی مرد کے چہرے کو شہوت کی نیت سے دیکھنا ہو تو بالاتفاق حرام ہے۔ وان کان بغیر شہوۃ فالاصح عدم التحریم اور اگر یہ دیکھنا شہوت کے بغیر ہو تو صحیح تر یہی ہے کہ یہ حرام نہیں۔

(علامہ عینی عمدۃ القادری شرح بخاری ج 6 طبع کوئٹہ)

(کتاب میں کتابت کی غلطی سے عدم التحریم کی جگہ التحریم لکھا گیا ہے جو سیاق و سباق کی رو سے درست نہیں۔ ہزاروی)

تسامحات

بعض حضرات نے کہا یہ واقعات قُلْ لِلْمُوْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ. مسلمان عورتوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں۔ (النور 24، 31) کے نزول سے پہلے کے ہیں یا سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بالغ ہونے سے پہلے کے ہیں۔ یہ بات درست نہیں کیونکہ ابن حبان کی روایت میں ہے کہ یہ واقعہ وفد حبشہ کی مدینہ منورہ میں آمد کے وقت ہوا اور وفد حبشہ 7ھ میں مدینہ منورہ آیا تھا اور اس وقت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک پندرہ سال تھی۔ ۔ ۔

1. پانچویں فائدہ میں لکھتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا عیدوں کے مواقع پر خوشی کا اظہار شعائر دین میں سے ہے۔

2. نویں فائدہ کے ضمن میں لکھتے ہیں اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نیکو کاروں کے ڈیرے کھیل کود سے پاک ہوتے ہیں، اگرچہ اس میں گناہ نہ ہو، ہاں ان کی اجازت سے کھیل کود کی اجازت ہے۔ ۔ ۔

3. بارہویں فائدہ کے ضمن میں لکھتے ہیں اس میں لڑکی کی گانے کی آواز سننا جائز ثابت ہوتا ہے اگرچہ باندی مملوکہ نہ ہو کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گانا سننے پر انکار نہیں فرمایا بلکہ ان کے انکار پر انکار فرمایا اور لڑکیاں برابر گاتی رہیں تاآنکہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے انہیں نکلنے کا اشارہ فرمایا۔

4. حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک اعرابی کو گانے کی اجازت دی تھی جسے حداء (حدی) کہا جاتا ہے۔ ابن حزم نے کہا گانا، کھیل کود اور وجد و رقص مسجد وغیرہ میں عیدین کے موقع پر اچھی بات ہے۔

(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ج 6 ص 272 طبع کوئٹہ)

5. خطابی نے کہا کہ ایک دو شعر ترنم سے گانا اور سُر لگانا جس میں فحش یا ممنوع باتوں کا ذکر نہ ہو، جائز ہے اور تھوڑے کا حکم زیادہ کے خلاف ہے۔ (ص 274 ایضاً)

6. حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ ہم رسول اللہ کی خدمت اقدس میں بیٹھے ہوئے تھے۔

فکانوا يتناشدون الاشعار ويتذاکرون اشياء من امر الجاهلية ورسول الله صلی الله عليه وآله وسلم ساکت فربما تبسم. (مسند احمد ج 5 ص 105 طبع بيروت)

’’صحابہ کرام شعر و شاعری پر مذاکرہ کرتے (گانا گاتے) اور دور جاہلیت کی باتیں سنتے سناتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموشی سے سنتے اور بسا اوقات مسکراتے‘‘۔

اہل تصوف نے کچھ پہلے بزرگوں کے احوال و اعمال کو دیکھتے ہوئے گانا اور رقص و وجد جائز قرار دیا ہے۔ ۔ ۔ ان بزرگوں کے زمانہ میں کوئی ایک شعر پڑھتا جو ان کے موافق حال ہوتا تو یہ اس سے موافقت کرتے اور نرم دل آدمی جب اپنے حسب حال کلمہ سنتا ہے تو بسا اوقات اس کے عقل پر مدہوشی غالب آجاتی ہے اور غیر اختیاری طور پر کھڑا ہو جاتا ہے اور اس سے غیر اختیاری طور پر حرکات صادر ہوتی ہیں۔ یہ جائز ہے اس میں مواخذہ نہیں اور یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ مشائخ کا عمل ہمارے زمانہ کے اہل فسق و فجور کے عمل جیسا ہوگیا۔ جنہیں احکام شرع کا کوئی علم نہیں۔ دلیل جواز تو دیندار لوگوں سے پکڑی جاتی ہے۔ ۔

امام ابو یوسف رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ بیاہ شادی کے سواء دف بجانا مکروہ ہے؟ مثلاً عورت بچے کی خاطر، بغیر فسق دف بجائے، انہوں نے فرمایا : نہیں، ہاں جس سے بیہودہ اچھل کود ہو میں اسے مکروہ سمجھتا ہوں۔

(فتاوی عالمگیری ج 5 ص 352 طبع کوئٹہ)

والمختاران ضرب الدف والاغانی التی ليس فيها ماينافی الاداب جائز بلا کراهة مالم يشتمل کل ذلک مفاسد کتبرج النسآء الاجنبيات فی العرس وتهتکهن امام الرجال والعريس ونحو ذلک. والاحرام.

’’مذہب مختار یہ ہے کہ دف اور ساز بجانا جس میں آداب کے خلاف کوئی بات نہ ہو، بلا کراہت جائز ہے جب تک یہ خرابیوں اور بیہودگیوں پر مشتمل نہ ہو (مثلاً بیاہ شادی کے مواقع پر اجنبی عورتوں کا بن ٹھن کا باہر نکلنا، مردوں اور باراتیوں کے سامنے پھُدکنا، مٹکنا وغیرہ) ورنہ حرام۔

(عبدالرحمن الجزیری، الفقہ علی المذاہب الاربعہ ج 4 ص 8 طبع بیروت)

احناف کے نزدیک

ہر عمل جس پر برائی لازم آئے حرام ہے اگرچہ اپنی ذات میں اچھی ہو۔ گانا اس حیثیت سے کہ اس میں لہجے بدل بدل کر اچھی آواز نکالنا ہے تو یہ جائز ہے۔ اس میں ناجائز کوئی چیز نہیں۔ ہاں کبھی ا سکے ساتھ دوسری باتیں لگ کر مکروہ و حرام کردیتی ہیں۔ مثلاً ایسا گانا جس کے نتیجہ میں کسی غیر محرم عورت یا بے ریش لڑکے کا فتنہ پیدا ہو یا مثلاً جو بول شراب پینے پر ابھاریں یا وقت ضائع ہو، فرائض و واجبات کی ادائیگی میں رکاوٹ بن جائے تو حرام ورنہ جائز ہے۔ لہذا گانے میں ایسے الفاظ نہ ہوں جن میں کسی زندہ معینہ عورت کی توصیف ہو کہ یہ شہوت پیدا کرتی اور فتنہ کا باعث بنتی ہے۔ اگر عورت مرگئی ہے تو اس کی تعریف نقصان دہ نہیں کہ اس کی ملاقات کی آس نہیں، بے ریش لڑکے کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اسی طرح گانے میں ایسے الفاظ نہ ہوں جو شراب پینے، وقت ضائع کرنے اور ادائے واجبات میں رکاوٹ کا باعث ہوں۔ اگر یہ خرابیاں نہ ہوں تو گانا جائز ہے۔

(علامہ عبدالرحمن الجزیری، کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ ج 2 ص 42 طبع بیروت)

فرق ہے

ہمارے یہاں ہی نہیں تمام اسلامی و غیر اسلامی ممالک میں خوشی کی تقریبات میں عورتیں، عورتوں کی محفل میں اور مرد سر عام بھنگڑا لڈی، خٹک ناچ اور دیگر علاقائی کھیل کھیلتے اور جذباتِ مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔ بعض لوگ بزرگوں کے عرسوں پر بھی اور میلوں ٹھیلوں، ثقافتی پروگراموں میں، تعلیمی و تربیتی اداروں میں بھی، پریڈ ورزش، ایکسر سائز کی صورت میں بھی، وجد و رقص کرتے ہیں یا ہو جاتا ہے، یہ سب کچھ اگر شرعی لباس میں ہو، عورتیں غیر محرم مردوں کے سامنے نہ کریں، گانے کے بول غیر شرعی و غیر اخلاقی نہ ہوں درج بالا عیبوں سے پاک ہوں، یہ پروگرام دیگر فرائض و احکام کی ادائیگی میں حائل نہ ہوں تو قرآن و سنت اور تصریحات ائمہ و فقہاء اور عقل سلیم کے نزدیک درست ہے، گانا بھی اور سننا سنانا بھی۔