تعلیماتِ طریقت و شریعت سے بے بہرہ جعلی پیری مریدی

حافظ محمد عون سعیدی

لگا ہے جھوٹ کا بازار آؤ سچ بولیں
نہ ہوں بلا سے خریدار آؤ سچ بولیں

اس مضمون میں معاشرے کے اندر سرطان کی طرح پھیلے ہوئے نام نہاد جھوٹے کاروباری پیروں کی خبر لی گئی ہے اور مسلک حق اہلسنت کی بدنامی کے اہم ترین پہلو کی طرف، فکر مند دماغ اور درد مند دل رکھنے والے دلوں کو متوجہ کیا گیا ہے۔ لہذا اس سارے مضمون کو کارباری پیروں کے تناظر میں ہی پڑھا جائے ورنہ ہمارے نزدیک ولایت برحق ہے، کرامات اولیاء بھی برحق ہیں۔

شرائطِ مرشد

کسی جامع شرائط مرشد کی بیعت بھی ایک مستحب اور بابرکت کام ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے مرشد کامل کی چار شرائط ارشاد فرمائی ہیں ان کے بغیر اس کا بیعت لینا جائز نہیں۔

  1. صحیح العقیدہ مسلمان ہو یعنی اہل سنت والجماعت سے وابستہ ہو، بد عقیدہ اور بد مذہب نہ ہو۔
  2. عقائد کے دلائل اور تمام احکام شرعیہ کا عالم ہو حتی کہ ہر پیش آمدہ مسئلہ کا حل بیان کر سکتا ہو (یعنی مفتی ہو)۔
  3. علم کے مطابق عمل کرتا ہو۔ فرائض، واجبات، سنن اور مستحبات پر دائمی عمل پیرا ہو اور تمام محرمات و مکروہات سے بچتا ہو۔
  4. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک اس کی نسبت متصل ہو، یعنی اس کے مشائخ کا سلسلہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچتا ہو۔ ہمارے زمانے میں بعض بے علم لوگ وعظ و تبلیغ کرتے ہیں اور جب کچھ حلقہ بن جاتا ہے تو لوگوں سے بیعت لینا بھی شروع کر دیتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی بے علمی کا عیب چھپانے کے لئے علماء کی تنقیص کرتے ہیں، ان کو منافق اور بے عمل کہتے ہیں۔ ساتھ ہی خود کو اہل اللہ کا محب کہتے ہوئے اولیاء اللہ کی صف میں شمار کروانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ سادہ لوح عوام علماء کو چھوڑ کر ایسے بے علم واعظین اور بے عمل ’’مرشدین‘‘ کے حلقہ ارادت میں کثرت کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں۔ ہم اس جہالت اور تعصب سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔

(فتاویٰ افریقہ، ص : 147۔ 146، ملخصا، مطبوعہ مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی)

مذکورہ شرائط کو سامنے رکھتے ہوئے اگر موجودہ پاکستانی معاشرہ پر نظر ڈالیں تو ہمیں ہر طرف ایسے کاروباری پیروں کی فوج ظفر موج نظر آئے گی جن میں مذکورہ شرائط کا دور دور تک پتہ نہیں ہو گا۔ کسی کا عقیدہ خراب ہے تو کسی کا سلسلہ غیر متصل۔۔۔ کوئی پابند سنت نہیں ہے تو کوئی اعلانیہ فاسق و فاجر۔۔۔ علم کی شرط ملاحظہ کریں تو اس پر پورے ملک میں معدودے چند پیر صاحبان ہی بمشکل پورے اترتے نظر آئیں گے۔ جعلی پیروں کا بہت بڑا لشکر نہ صرف یہ کہ قرآن و حدیث اور فقہ و کلام سے بے خبر ہے بلکہ وہ علم اور علماء کا سخت دشمن بھی ہے۔ کیونکہ جس طرح سرمایہ دار، جاگیردار اور سیاستدان کی خیر اسی میں ہے کہ قوم جاہل مطلق رہے اسی طرح جھوٹے پیروں کی شان و شوکت کا راز بھی اسی میں پوشیدہ ہے کہ قوم علم و عمل سے بے گانہ رہے۔ کیونکہ ان پڑھ لوگ ان کو جس طرح چومتے چاٹتے ہیں اس طرح پڑھے لکھے لوگ نہیں کرتے۔ کسی بھی پیر کے ملاقاتیوں کو ملاحظہ کر لیجئے آپ کو ان پڑھ اور پڑھے لکھے لوگوں کے اندر ملاقات میں نمایاں فرق نظر آئے گا۔

انتہائی افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس طرح کے تمام جعلی، بناوٹی اور کاروباری پیر اپنے آپ کو مسلک حق اہل سنت وجماعت سے منسوب کرکے اس کی بدنامی اور رسوائی کا سبب بنتے ہیں۔ نیز وہ علماء سے یہ توقع بھی رکھتے ہیں کہ وہ ان کی نام نہاد بزرگی پر مہر تصدیق ثبت کریں۔ یہ ننگِ ملت، ننگ دیں، ننگ وطن لوگ ایسے زہریلے ہیں کہ انہوں نے اپنی شہوت کاریوں سے مسلک حق کو ادھ موا کرکے رکھ دیا ہے۔ ان میں سے کچھ لوگ نامور بزرگوں کی گدیوں سے منسوب ہیں۔ عمل صالح اور شریعت کی پابندی تو کجا وہ کرپٹ لوگوں کی سرپرستی کرتے ہیں رسہ گیروں سے ان کی دوستیاں ہیں۔ الیکشن میں مسلک کے نام کو استعمال کرتے ہوئے یہ لوگ ممبر اسمبلی بنتے ہیں اور پھر سیکولر جماعتوں کے ساتھ مل کر انہی کے ایجنڈے کو فروغ دینے کا باعث بنتے ہیں۔ اس تمام خرابی کی بنیاد درحقیقت ان کاروباری مولویوں نے فراہم کی ہے جو انہیں (معمولی خدمت کے عوض) لوگوں کے سامنے غوث زماں، قطب عالم، شہنشاہ ولایت وغیرہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔

ان حضرات کی سیرت و کردار کو قریب سے دیکھیں تو ان کے فرعونی لہجے، شیطانی عادات و اطوار، یزیدی رسوم و رواج۔۔۔ غنڈوں اور بدمعاشوں کی سرپرستی، چوروں اور ڈاکوؤں کی پشت پناہی۔۔۔ باطل اعمال اور عقیدے، اعراس کے نام پر اسلام کش میلے ٹھیلے۔۔۔ کتوں اور ریچھوں کے مقابلے، قبروں اور مزاروں کی تجارت۔۔۔ صالحین کی تعلیمات پر عمل کی بجائے تعمیرات سے ولایت کی پیمائش۔۔۔ علماء کے خلاف سینوں میں بھڑکتی آگ، جہالت و رعونت میں اپنی مثال آپ۔۔۔ دین و شریعت کی بات پر منہ سے نکلتے انگارے۔۔۔ نماز روزے کا وقت آنے پر مرض اسہال، زکوۃ و جہاد کا نام سنتے ہی پیٹ میں درد قولنج۔ ۔ ۔ غیر محرم عورتوں کو بے پردہ مرید کرنا اور ان سے ٹانگیں دبوانا۔۔۔ یہ ہیں وہ کالے کرتوت جو ان ’’پیروں‘‘ کے نامہ اعمال میں درج ہیں۔

اگر آپ ان کے کفریہ و شرکیہ اور مبالغہ آمیز اشعار پر مصنوعی طور پر بدمست ہو کر جھومنے اور ناچنے والے جاہل مریدوں کو دیکھیں تو گویا انہیں ذبح کیا جا رہا ہے۔۔۔ ان کے تعویذوں اور وظیفوں کو دیکھیں تو شیاطین سے استغاثہ پر مبنی جادو ٹونے کے پلندے معلوم ہوں۔۔۔ ان کی ’’مقدس مسندوں‘‘ کو دیکھیں تو ان پر کسی نیک سے نیک آدمی کا بیٹھ جانا یا صرف پاؤں لگ جانا بھی اعلیٰ درجے کی گستاخی شمار ہو۔

پھر پیران عظام کی ان گدیوں میں بھی مال و جائیداد کی طرح وراثت چل نکلی ہے (کیونکہ یہ بھی اب ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے) باپ کی گدی پر اولاد ہی بیٹھے گی خواہ وہ کیسی ہی کیوں نہ ہو۔ کسی مرید کی کیا مجال کہ وہ پیر مغاں کی سجادگی کا حقدار ٹھہرے خواہ وہ کیسا ہی رازی و غزالی کیوں نہ ہو اور یہی نااہلی اور وراثت سب سے بڑا سبب ہیں خانقاہی نظام کی تباہی کا۔

زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن

یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ تقریباً ایسے تمام ’’پیر صاحبان‘‘ کا ذاتی طور پر قرآن و حدیث اور فقہ و کلام کی تعلیم و تعلم اور درس و تدریس سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ پورے ملک میں شاید ہی کوئی جاگیردار اور کھاتا پیتا پیر آپ کو ایسا نظر آئے جس کی اولاد کسی دینی مدرسہ میں درس نظامی کی تعلیم حاصل کر رہی ہو، وہ تو آپ کو ملکی و غیر ملکی مہنگے ترین سکولوں، کالجوں میں طبقہ امراء کے ساتھ کھیلتی کودتی نظر آئے گی اور علم دین سے کوری ہونے کے باوجود مسند پر بھی وہی بیٹھے گی۔

تقریباً ہر پیر یہ خواہش رکھتا ہے کہ اس کے مریدوں کی تعداد روز افزوں ہو، دوسرے پیروں کے مرید بھی فیضیاب ہونے کے لئے کسی نہ کسی طرح اس کے ’’سلسلہ عالیہ‘‘ میں شامل ہو جائیں اور اس خواہش نفس کو پورا کرنے کے لئے طرح طرح کے تشہیری و ترغیبی ہتھکنڈے بھی استعمال کئے جاتے ہیں۔ اگر کسی پیر کے مرید کم ہوں تو وہ احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتا ہے اور زیادہ ہوں تو احساس برتری کا شکار ہوتا ہے۔

کئی نام نہاد پیر دینی مدارس بنانے اور تبلیغ و بیان کے خلاف ہوتے ہیں اور اس کی مضحکہ خیز دلیل یہ دیتے ہیں کہ یہ ہمارے بزرگوں کا طریقہ نہیں ہے۔ مجھے میرے ایک نہایت معتبر صاحبِ علم و عمل دوست جو خود اہلِ طریقت میں سے ہیں نے اپنا ذاتی واقعہ بتایا کہ

میں سرگودھا کے ایک پیر صاحب کی تیمارداری کرنے گیا تو ان کے ہاں بچوں کو سارا وقت کھیلتے کودتے اور شرارتیں کرتے دیکھ کر پیر صاحب سے پوچھا کہ کیا آپ کے ہاں مسجد میں بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دلوانے کا کوئی انتظام نہیں ہے؟ فرمانے لگے : ایک مولوی کو بچے پڑھانے کے لئے رکھا تھا مگر وہ ہمیں ہی تلقین کرتا رہتا کہ مسجد میں آ کے نماز پڑھیں اب بتائیں کیا ہم اپنی مصروفیات اور مریدین کی بھلائی اور امور کے کاموں کو چھوڑ کر مسجد میں نماز پڑھنے کس طرح جا سکتے تھے۔ لہذا اس کے بار بار ہمیں ہی نماز کی تلقین کرنے کی وجہ سے اسے فارغ کر دیا گیا۔

کئی پیر اپنی شان میں قصیدے لکھواتے ہیں اور کتابیں شائع کرواتے ہیں۔ کئی پیر اشتہاروں اور بینروں پر صرف اپنا نام لکھنے کا حکم جاری کرتے ہیں کسی دوسری شخصیت کا نام ان کے لئے سوہان روح ہوتا ہے۔ کسی پیر کا مرید اگر زیادہ مشہور ہونے لگ جائے تو اسے فوراً حلقہ ارادت سے فارغ کر دیا جاتا ہے۔ تقریباً ہر پیر دوسرے پیر کی شان گھٹانے کے لئے صراحتاً نہ سہی اشارتاً و کنایۃً ضرور تنقیص کرتا ہے۔ اپنے آپ کو کامل سمجھتا ہے اور دوسرے کو ناقص۔ جاہل پیر، عالم پیر کے متعلق یوں کہتا ہے کہ ’’وہ تو علماء میں سے ہے‘‘، طریقت کا بادشاہ تو میں ہوں۔

ان جاہل پیروں کی اہل علم سے بھی بظاہر خاصی دوستی ہوتی ہے۔ انہیں شوق ہوتا ہے کہ علماء ان کے مرید تو ضرور بنیں مگر ہر بات میں آنکھیں بند کر کے ان کے پیچھے چلتے رہیں، کسی مسئلہ میں اختلاف کی ان کے ہاں کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ ایسے پیروں کا اکثر یہ مقولہ ہوتا ہے کہ ’’علم اپنے گھر میں رکھ کے آؤ تو پھر کچھ پاؤ گے‘‘ اور اس بات کے لئے وہ واقعہ خضر و موسیٰ علیہما السلام کا سہارا لیتے ہیں۔

چہ نسبت خاک رابعالم پاک

اپنی تعریفیں سن سن کر پیر صاحب کا نفس اتنا متکبر ہو چکا ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص ان کی اصلاح کے لئے ہلکا سا اشارہ بھی کر دے تو ان کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ اگر پیر صاحب کی کسی محفل میں کوئی بیرونی عالم بھی مدعو ہو اور وہ صرف اللہ و رسول کی تعریف کر کے چلا جائے تو پیر صاحب آئندہ کے لئے اس کو نہ بلانے کا عندیہ دے دیتے ہیں۔

بعض پیروں کے ہاں شریعت و طریقت کی باقاعدہ جنگ کروائی جاتی ہے اور بالآخر طریقت کا پہلوان شریعت کے پہلوان کو چاروں شانے چت گرا دیتا ہے اور اس کی فتح کا نعرہ لگا دیا جاتا ہے۔ کئی جاہل پیر اپنے مریدوں کو یوں درس دیتے ہیں کہ ہمارے پاس باطنی علم ہے اور علماء کے پاس ظاہری علم، رس ہم نے پی لیا ہے پھوک مولویوں (علمائ) کے آگے ڈال دی ہے، گریاں ہم نے کھا لی ہیں چھلکے مولویوں (علماء) کے سامنے پھینک دیئے ہیں۔ حال ہی میں ایک مقام پر کچھ پیروں کے زیر سرپرستی لاکھوں روپے لگا کر محفل نعت و قوالی منعقد ہوئی جس کے پنڈال کے مین گیٹ پر یہ ہدایت لکھی ہوئی تھی ’’مولویوں کا داخلہ ممنوع ہے‘‘ اس محفل میں جو ایمان سوز اور دل دوز قسم کی ہڑبونگ مچائی گئی اس پر اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم ہی کہا جا سکتا ہے۔

علامہ ابن جوزی لکھتے ہیں : اگر ان جاہل پیروں کو علماء کے مرتبے کا پتہ چل جاتا تو یہ اپنے آپ کو ان کے سامنے گونگا اور اندھا سمجھتے

(تلبیس ابلیس، ص : 2511)

بعض پیر بتیاں بند کروا کے عورتوں اورمردوں کے مخلوط مراقبے کرواتے ہیں۔ کئی پیر رمضان کے مقدس مہینہ میں مردوں اور عورتوں کو آمنے سامنے بٹھا کر افطاریاں کرواتے ہیں۔ پھر ان پیروں کی زیر نگرانی صالحین کے مزارات پر جو اودھم مچائے جاتے ہیں اور جو جرائم وہاں پنپتے ہیں کبھی جا کر ان کی بھی خبر لیجئے۔ بہت سے نفع بخش مزارات محکمہ اوقاف کے قبضہ میں ہیں۔ وہاں کے گلوں میں عوام الناس جو لاکھوں روپے ڈال جاتے ہیں ان کا مصرف عام طور پر کیا ہوتا ہے یہ کسی باخبر سے پوچھ لیجئے۔ علماء کو چاہئے کہ وہ لوگوں کو ان کی دولت کے حقیقی مصرف سے آگاہ کریں۔

ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی

یہ پیر، مسلک کی تنظیمی ترقی، تعلیمی و تدریسی خدمت اور اجتماعیت کے لئے بھی سنگ گراں ثابت ہوتے ہیں نہ خود کام کرتے ہیں نہ کسی دوسرے کو کرنے دیتے ہیں۔ بہت سے پیر اپنے مریدوں کو کسی بھی فعال تنظیم سے وابستہ نہیں ہونے دیتے۔ ہاں اگر پیر نے اپنی کوئی تنظیم بنا رکھی ہے تو اس کو چلانا سب مریدوں کے لئے فرض عین ہوتا ہے۔

گر ہمیں خانقاہ وہمیں پیراں، کار مریداں تمام خواہد شد

ان سب حالات کے باوجود آپ دیکھیں گے کہ ہر جگہ جاہل مریدوں کا ایک بہت بڑا گروہ ان جعلی پیروں کے پیچھے بڑے ادب کے ساتھ ہاتھ باندھے نظر آئے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وظیفہ خور علماء جب بھی تقریر کرتے ہیں تو اَلاَ اِنَّ اَوْلِيَاءَ اللّٰه لَا خُوْفٌ عَلَيْهم وَلاَ هُم يَحْزَنَون پڑھ پڑھ کر پیر کی طرف اشارے کرتے ہیں۔ کاروباری نعت خوان حمد و نعت پڑھ پڑھ کر پیر کی جانب اشارے کرتا ہے اور اس طرح جہلاء کو پیر کا بے دام غلام بن جانے کی جذباتی ترغیب ملتی ہے۔ ویسے آج کل کاروباری علماء کا کاروبار خاصا مندا جا رہا ہے کیونکہ اب اس کی سیٹ کاروباری نعت خواں نے سنبھال لی ہے۔ اس لئے پیروں کو اپنا کاروبار چمکانے کے لئے اب مولویوں کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔

تربیت کے عجیب کرشمے

ان پیروں کے ذریعے مریدوں کی جس طرح تربیت ہو رہی ہے وہ بھی انتہائی اذیت ناک ہے، چند ایک تربیتی مناظر ملاحظہ ہوں :

پیر صاحب جونہی اپنے دولت خانہ کی دہلیز سے باہر قدم رکھتے ہیں تو دروازے پر نظریں گاڑے مریدین پر گویا نزع کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ ہاؤ ہو کی صدائیں بلند ہوتی ہیں، کوئی شوں شوں کی آواز نکالتا ہے کوئی تالیاں بجاتا ہے، کوئی درود و سلام پڑھتا ہے، کوئی نعرے لگاتا ہے کوئی جوتے اتارتا ہے۔ کوئی کچھ کرتا ہے اور کوئی کچھ کرتا ہے۔ اب ملاقات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، پیر صاحب مریدوں کے جراثیم سے بچنے کے لئے ہاتھوں پہ دستانے چڑھا لیتے ہیں، کوئی مرید قدموں میں گرا ہوا ہے، کسی نے گھٹنے تھام رکھے ہیں، کوئی کندھوں کو بوسے دے رہا ہے، کوئی پشت سے چمٹا ہوا ہے، کوئی ہاتھ چومنے کے چکر میں ہے۔ غرضیکہ ایک ہنگامہ بپا ہے اور دھکم پیل ہو رہی ہے۔ (حالانکہ ایک مسلمان کو نماز کے لئے بھی دھکم پیل اور بھاگ دوڑ کی اجازت نہیں ہے) جبکہ پیر صاحب نے بڑی شان بے نیازی سے ہاتھ آگے کیا ہوا ہے کسی کو ایک ہاتھ ملاتے ہیں تو کسی کے لئے سر ہلاتے ہیں، کسی کو ایک انگلی تھماتے ہیں تو کسی کو دو انگلیاں۔ پیر صاحب کی آمد و رفت پر بار بار کی اٹھک بیٹھک ہوتی ہے۔ ہاتھ جوڑ جوڑ کر بات کی جاتی ہے جان کی امان طلب کی جاتی ہے۔ کوئی حالت قیام میں ہے تو کوئی حالت رکوع میں، کوئی سجدہ کر رہا ہے تو کوئی التحیات میں بیٹھا ہوا ہے۔ اگر خدانخواستہ آپ نے پیر صاحب کے ہاتھ چومنے میں ذرا سی کوتاہی کر لی تو بس! پیر صاحب کا غیظ و غضب دیکھنے والا ہوتا ہے، آنکھیں شعلہ بار ہو جاتی ہیں اور جسم تھرتھرانے لگتا ہے۔ آپ ایک نظر کی جنبش میں مریدین سے مرتدین کی صف میں شامل کر لئے جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر آپ نے کسی مجبوری کے تحت نذرانہ کی ادائیگی میں کچھ پس و پیش کی ہے تو آپ ہمیشہ کے لئے پیر صاحب کی نظروں میں کھٹک جاتے ہیں، توجہات و تصرفات سے محرومی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، زمین و آسمان کی تمام آفات و بلیات آپ کے گھر کا مقدر ٹھہرتی ہیں۔ ایسے مرید کے گھر میں قدم رکھنا گویا پیر صاحب کے لئے جہنم میں جانے کے برابر ہوتا ہے۔

پیر صاحب کی اولاد کے لئے شاہانہ القاب اور مریدوں کے لئے انسانیت سے بھی گرے ہوئے القاب استعمال کئے جاتے ہیں۔ کئی پیروں سے اتنا استغاثہ کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بھی اتنا نہیں کیا جاتا۔ کئی پیر بڑے تجسس پھیلانے والے (Suspense creative) ہوتے ہیں۔ ہمیشہ نظریں جھکا کے رکھتے ہیں۔ جاہل مرید اپنے پیر کی صرف ایک نظر کرم کے لئے تڑپتے پھڑکتے رہتے ہیں مگر پیر بھی ایسا پکا ہوتا ہے کہ لمحہ بھر کے لئے دیکھنا گوارا نہیں کرتا۔ اگر کوئی مرید اپنے پیر کے بغیر کعبۃ اللہ کا طواف کر لے تو پیر صاحب اس بات کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے واقعہ پر قیاس کر کے اس پر ہمیشہ کے لئے ناراض ہو جاتے ہیں۔

ہر پیر کے مریدوں کی علیحدہ شناخت ہوتی ہے۔ خاص رنگ کی ٹوپی اور خاص قسم کی سلائی، خاص رنگ کی پگڑی اور خاص قسم کی بندش۔ یہ بات شاید کوئی ایسی قابل اعتراض نہ ہوتی مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ علیحدہ علیحدہ شناختوں والے مرید جب ایک دوسرے کو ملتے ہیں تو یوں گھور کے دیکھتے ہیں جیسے ابھی کچا چبا جائیں گے۔ کچھ عرصہ پہلے سلسلہ ہائے بیعت الفتوں اور چاہتوں کا سبب ہوتے تھے مگر اب نفرتوں اور عداوتوں کا باعث ہیں۔ قرآن کے غلاف کو وہ عظمت حاصل نہیں ہوتی جو پیر صاحب کی چادر کو حاصل ہوتی ہے۔ کتاب اللہ کی گرد تو جھاڑ دی جاتی ہے مگر پیر صاحب کی مٹی کو غازہ بنایا جاتا ہے۔ مسجد کی صفائی سے برکت حاصل کرنے کے متعلق کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا مگر پیر صاحب کی گاڑی کو عماموں کے ساتھ صاف کیا جاتا ہے اور چادریں لگا لگا کر حجر اسود کی طرح بوسے دیئے جاتے ہیں۔ کئی پیروں کا لعاب دہن بطور تبرک استعمال کیا جاتا ہے اور کئی پیروں کے ہاتھوں کا ماء مستعمل نوش جان کیا جاتا ہے۔

مرید کی انواع و اقسام

’’جیسا منہ ویسی چپیڑ‘‘ کے مصداق آج کل کے مرید بھی انواع و اقسام کے ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ مرید ہوتے وقت ایسے پیر کا انتخاب کرتے ہیں جس کے تعلقات وسیع تر ہوں اور وہ بازار سیاست میں بڑے اثر و رسوخ کا مالک ہو۔ بعض لوگ صرف ایک پیر پر اکتفاء نہیں کرتے بلکہ حسب ضرورت موقع بہ موقع پیر بدلتے رہتے ہیں۔ بعض مرید اپنی گدی کے اسی پیر سے زیادہ تعلقات بنا کے رکھتے ہیں جس سے وقتاً وفوقتاً اپنے مفادات حاصل کئے جا سکیں۔ بعض مرید ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا مقصد حیات اپنے پیر کی نظر میں دوسرے پیر بھائیوں کی حیثیت کو گرانا اور اپنی حیثیت کو بڑھانا ہوتاہے اور اس کے لئے شکایات کی ایک بہت بڑی پوٹلی ہر وقت ان کے ساتھ رہتی ہے۔

بعض مرید جب چہرے پہ داڑھی اور سر پہ پگڑی سجا لیتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو مفتی اعظم سمجھنا شروع کر دیتے ہیں، اب ان کے نزدیک بڑے بڑے شیوخ الحدیث والتفسیر بھی کسی شمار میں نہیں ہوتے۔ آسمان کے نیچے بس ایک وہ ہوتے ہیں اور دوسرا ان کا پیر۔ چونکہ آج کل بعض پیروں نے خلافت کی منڈی بھی لگا رکھی ہے لہذا بہت سے بندگان نفس ایسے ہی پیروں کو ترجیح دیتے ہیں اور چند روز میں خلافت حاصل کر کے سارے غوثوں قطبوں کے سردار بن جاتے ہیں۔ پیر ان باصفا کی تربیت اور کاروباری مولویوں کے نصیحت کی بناء پر سب مریدوں کے نزدیک ان کے پیر کی بات حرف آخر اور پتھر پہ لکیر ہوتی ہے بلکہ پیر کا ایک اشارہ بھی وحی جتنی طاقت رکھتا ہے لہذا کوئی بڑے سے بڑا عالم بھی پیر صاحب کے اقوال زریں کو قرآن و حدیث کی کسوٹی پر پرکھنے کی جرات نہیں کر سکتا، ورنہ وہ بڑا بے ادب، جھوٹا اور گستاخ کہلائے گا۔

کچھ مرید اپنے پیر کا مرید ہونے کو حافظ و قاری ہونے سے بھی زیادہ باعث فضیلت سمجھتے ہیں اور اس طرح کلام اللہ کی توہین کے مرتکب ہوتے ہیں۔ کچھ مرید جو احکام شریعت کے قریب بھی نہیں پھٹکتے وہ پیر صاحب کی خدمت میں آئے روز کی حاضریاں لگوا کر جنت کی بکنگ کرواتے ہیں۔ تقریباً ہر پیر کا مرید دوسرے پیر کی خرابیاں اور اپنے پیر کی خوبیاں بیان کر کے اس کا مرید ہو جانے کا درس دیتا پھرتا ہے۔ اپنے پیر کی نسبت کو ہر کسی کے نام کے ساتھ لگاتے پھرنا گویا بہت بڑی نیکی اور خدمت دین سمجھا جاتا ہے۔ اگر ایک پیر کا مرید کسی دوسرے پیر کی تعریف کر دے تو اسے فوراً راندہ درگاہ قرار دے دیا جاتا ہے۔

پیروں کی جائیدادیں اور تعلقات

سینکڑوں ہزاروں مربع زمینیں، وسیع و عریض کاروبار، کروڑوں اربوں کے بینک بیلنس، مہنگی ترین گاڑیاں، مہنگے ترین علاقوں میں محلات اور کوٹھیاں، فائیو سٹارز ہوٹلوں کے کھانے اور رہائشیں شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ، سیاست کی آنیاں جانیاں، اعلیٰ سطح کے حکومتی وغیر حکومتی تعلقات، امیر ترین خانوادوں اور خاندانوں میں رشتے، ایسی سہولیات و تعیشات کہ بڑے بڑے وزیر بھی دیکھ کر رشک سے مر جائیں۔ کسی بھی حکومت کو ان سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔

ہر آنے والی نئی حکومت سرا وعلانیۃ ان کی آشیر باد حاصل کرتی ہے۔ انہیں مختلف عہدوں سے نوازا جاتا ہے، وزارتیں پیش کی جاتی ہیں، کانفرنسوں میں مہمان خصوصی بنایا جاتا ہے، غیر ملکی دورے کروائے جاتے ہیں، بیش بہا تحائف دیئے جاتے ہیں، بوقت ضرورت خزانوں کے منہ ان کے لئے کھول دیئے جاتے ہیں لیکن پھر بھی ان کی زبان پر یہی وظیفہ ہوتا ہے، نرخ بالا کن ارزانی ہنوز، ان کا پیٹ یہی صدائیں دیتا ہے شکم فقیراں تغار خدا ہر چہ آید فنا درفنا۔ ان کا سمندر سے بھی زیادہ ڈونگا دل پکار پکار کر یہی کہتا ہے هل من مزيد، هل من مزيد.

صاحب بہار شریعت مولانا امجد علی اعظمی لکھتے ہیں : ’’آج کل بہت سے لوگوں نے پیری مریدی کو پیشہ بنا لیا ہے، سالانہ مریدوں میں دورے کرتے ہیں اور طرح طرح سے رقمیں کھسوٹتے ہیں جن کو نذرانہ وغیرہ ناموں سے موسوم کیا جاتا ہے۔ بہت سے پیر ایسے بھی ہیں جو اس کے لئے جھوٹ اور فریب سے کام لیتے ہیں یہ (سب) ناجائز ہے۔

(بہار شریعت، ج : 2 ص : 670، مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)۔

علامہ ابن جوزی لکھتے ہیں کہ بعض پیر کمانے کی طاقت رکھتے ہیں مگر وہ سارا دن اپنے آستانوں پر لوگوں سے خیرات وصول کرتے رہتے ہیں۔ ان کا دھیان ہر وقت اس طرف لگا رہتا ہے کہ کوئی عقیدت مند بھی آئے گا اور نذرانہ پیش کرے گا۔ حالانکہ شریعت کا واضح مسئلہ ہے کہ غنی اور قوی شخص کے لئے خیرات لینا جائز نہیں (کہ یہ بھیک ہے)

(تلبیس ابلیس، ص : 331، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور)

بہر حال پیری مریدی ایک خالصتاً نفع بخش کاروبار اور بہترین ذریعہ روزگار ہے۔ اس میں خسارے کا سودا بالکل نہیں ہے۔ کوئی بھی شخص پیر بن کے بیٹھ جائے اس کی جھگی کا خرچہ بغیر کسی محنت کے بیٹھے بٹھائے چلتا رہتا ہے بلکہ مزید آسامیاں پھنسانے کے لئے لنگر کے پیسے بھی وافر مقدار میں ملتے رہتے ہیں۔ اسی لئے اقبال نے کہا تھا :

نذرانہ نہیں سود ہے پیران حرم کا

پیر بننے کے چند نسخے

یقینا آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اتنا منافع بخش کاروبار یقینا بڑی محنتوں اور مشقتوں کے بعد ہی چلتا ہو گا، نجانے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہوں گے اور کہاں کہاں کی خاک چھاننی پڑتی ہوگی۔ حالانکہ پیر بننا اس دنیا کا آسان ترین کام ہے۔ اگر آپ کسی پیر خاندان یا سید خاندان سے تعلق رکھتے ہیں تو پھر تو آپ بنے بنائے سکہ بند پیر ہیں۔ پیری مریدی آپ کا خاندانی اور موروثی حق ہے، جسے کوئی مائی کا لعل بھی آپ سے چھین نہیں سکتا، ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آئے۔

اگر ایسا نہیں اور آپ تھوڑا بہت لکھنا پڑھنا جانتے ہیں تو پھر بازار سے عامل بنانے والی تعویذات کی کوئی کتاب خرید لیں اور دم درود جھاڑ پھونک کا سلسلہ شروع کر دیں۔ آپ کا یہ کاروبار برق رفتاری سے ترقی کرے گا، راتوں رات آپ کا نام پیران عظام کی فہرست میں شامل کر لیا جائے گا اور چند ہی دنوں بعد جہلاء کرام آپ کی دست بوسی کے لئے ایک دوسرے کو دھکے دے رہے ہوں گے۔

اگر یہ بھی نہیں تو کوئی ایسا شیخ طریقت ڈھونڈ لیجئے جو پانچ سات سبقوں کے بعد آپ کو خلافت دے ڈالے تب بھی آپ وہ القاب ومراتب حاصل کر لیں گے جن کا بڑے بڑے علماء کرام بھی تصور نہیں کر سکتے۔ پیر بن جانے کے بعد زندگی کے وارے نیارے تو پکے ہیں، مرنے کے بعد بھی قل خوانی، چہلم، عرس، مزار، خانقاہ اور اولاد کی سرپرستی وغیرہ کے متعلق فکر مند ہونے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں، سب کچھ خود بخود (Automatically) ہوتا چلا جائے گا۔ نماز وغیرہ پڑھنے کی ضرورت تو بالکل نہیں، کوئی پوچھے تو کہہ دیجئے کہ ’’مدینے میں پڑھتے ہیں‘‘۔ یہ جواب بھی ابتدائی ایام کے لئے ہے جو بعد میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ نماز وغیرہ تو مبتدی لوگوں کے لئے ہوتی ہے ہم جیسے منتہی لوگوں کو اس کی کیا ضرورت؟

پرہیز علاج سے بہتر ہے

ہم نے آپ کو نسخہ تو بتا دیا مگر پرہیز نہیں بتا سکے۔ یاد رکھئے علم دین سے پرہیز بے حد ضروری ہے۔ بارہ بارہ سال محنت کرنی پڑتی ہے، دن رات ایک کرنے پڑتے ہیں، اساتذہ کی جھڑکیاں سہنی پڑتی ہیں، مدرسہ کے قوانین اور نظم و ضبط کا خیال رکھنا پڑتا ہے، کھانا پینا حسب خواہش نہیں ملتا، جیب خرچ کی کمی ہوتی ہے اور امتحانات سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ پھر جب بندہ عالم بن جاتا ہے تو در در کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں۔ مساجد میں مقتدیوں کی خوشامد، مدارس میں مہتممین کے نخرے، تقریریوں میں عوامی جذبات کا خیال، خانقاہوں میں پیروں کی تعریفیں، بازاروں میں لوگوں کے طعنے، آمدنی بھی کم، عزت بھی تھوڑی وغیرہ وغیرہ۔ اور اگر کبھی آپ کو حق گوئی و بے باکی کا شوق چرا گیا تو مسجد بھی گئی، مدرسہ بھی گیا، تقریریں بھی بند، پیروں کی بددعائیں بھی ساتھ، مریدوں کے ہتھے چڑھ گئے تو مالش بھی خوب، دوسرے مسلک والے تو ویسے ہی آپ کے مخالف ہیں اپنے مسلک والے بھی جوتے ماریں گے۔ کسی دانشور نے کہا تھا دوستوں سے تم مجھے بچا لو دشمنوں سے میں خود نمٹ لوں گا۔

اگر آپ درس و تدریس سے وابستہ ہیں تو جن شاگردوں کو آپ دس دس سال پڑھائیں گے اگر وہ کسی کے مرید ہوگئے تو آپ سے حاصل کی ہوئی ساری تعلیم کے متعلق برملا کہتے پھریں گے کہ یہ سب کچھ میرے پیر کے جوتوں کا صدقہ ہے۔ آپ کے پاس بھول کر بھی نہیں آئیں گے مگر پیر کے در پر آئے روز کی حاضریاں لگوائیں گے۔ آپ کی دعا میں کوئی اثر نہ پائیں گے مگر پیر کی دعا ایک دم اکسیر ہو گی۔ نذرانے پیش کریں گے تو پیر کی خدمت میں، آپ سے الٹا کچھ کھا پی کے جائیں گے۔ دعوت کریں گے تو آپ کو مفت بلانا بھی پسند نہیں کریں گے مگر پیر کو سپیشل پروٹوکول کے ساتھ بلائیں گے۔ اگر آپ اور پیر صاحب کبھی اکٹھے ہو گئے تو پہلے پیر کے قدموں کو چومیں گے پھر آپ سے ہاتھ ملائیں گے۔ جس پیر نے ساری عمر سوائے حاضریوں کے کچھ نہیں دیا اور ہزاروں روپے سمیٹتا رہا ہے اس کو بہترین نشست پہ بٹھائیں گے اور آپ جو کہ ساری عمر مغز ماری کرتے رہے ہیں اور تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزار کر ایک مقام پہ لاکھڑا کیا ان کو پیر صاحب کے قدموں میں بٹھائیں گے۔ سٹیج پر پیر صاحب کے لئے خاص انتظام کیا جائے گا اور آپ کو صرف بیٹھنے کی جگہ مل جائے تو بھی غنیمت ہے۔ پیر کا کتا کہلانے میں بھی فخر محسوس کریں گے اور آپ کا شاگرد کہلانے میں بھی عار محسوس کریں گی۔ یہ سب تو وفادار شاگرد کی پھرتیاں تھیں اور اگر خدانخواستہ آپ کا شاگرد غدار نکلا تو پھر؟؟؟ لہذا عافیت اسی میں ہے کہ پیری مریدی کا پیشہ اختیار کریں اپنوں غیروں سب کی آنکھوں کا تارا بن جائیں گے۔ بڑے بڑے وزیر و مشیر اور دولت مند آپ کے قدموں میں بیٹھیں گے۔

لمحہ فکریہ

آج جو کچھ ان نام نہاد کاروباری پیروں اور نعت خوانوںکے پاس ہے سارا کا سارا سادہ لوح عوام اہل سنت کا ہے۔ یہ سب کچھ ان لوگوں کے ذاتی استعمال میں ہے، دین کو اس کا ذرہ برابر بھی فائدہ نہیں ہے۔ جو کچھ انہیں دیا گیا تھا وہ عقائدِ صحیحہ کے فروغ، دین کی سربلندی اور علم و عمل کی ترقی کی نیت سے دیا گیا تھا مگر اب جبکہ یہ آشکارا ہو چکا ہے کہ یہ لوگ دین کی خدمت کی بجائے شکم پروری کا کام کر رہے ہیں تو پھر علماء حق کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان ’’مقدس‘‘ کاروباریوں کا مکمل احتساب کریں۔ یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ ان لوگوں کی عزت، عظمت، مال و دولت سب کچھ علماء کرام کی وجہ سے ہے۔ آج بھی اگر علماء کرام ان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیں اور عوام کو حقائق سے آگاہ کرنا شروع کر دیں تو ان کاروباریوں کے تمام پلازے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی طرح دھڑام سے زمین پر آ گریں گے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ مسلکِ اہل سنت وجماعت علم اور عمل کا نام ہے ان کاروباریوں کا تقدس برقرار رکھنے کا نام نہیں ہے۔ یہ تو وہی لوگ ہیں جن کے کالے کرتوتوں کی وجہ سے بدباطن اور بدعقیدہ لوگوں کو مسلک حق پر کیچڑ اچھالنے کا موقع مل رہا ہے۔

بت ہم کو کہیں کافر اللہ کی مرضی ہے

ان لوگوں کی منظم سازش کے نتیجے میں اب لوگوں کا علماء حق سے بھی اعتماد اٹھ چکا ہے اور ان کی سر عام تذلیل کی جا رہی ہے۔ راقم الحروف کو خود ایک جاہل پیر نے کہا کہ ’’جو مسئلہ ہم بتا دیں چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو پتھر پہ لکیر ہوتا ہے، اب کوئی بڑے سے بڑا مفتی بھی صحیح مسئلہ بتائے تو مرید کو اس پر یقین نہیں آئے گا‘‘۔ دیگر مسالک میں صرف اور صرف علماء کو اہمیت حاصل ہے۔ ان کے لئے سب کچھ ان کا عالم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مدرسین معاشی حوالے سے پریشان نہیں ہوتے مگر ہمارے مسلک میں سب کچھ کاروباری پیر اور نعت خوان بنے بیٹھے ہیں اور مدرسین بے چارے انتہائی مفلوک الحال ہیں۔

عقائدِ صحیحہ کا فروغ اور دینی اقدار کی بقاء کی جنگ انہی علماء کو لڑنی پڑتی ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ علماء کرام اپنے مقام کو پہچانیں اور اس کا تحفظ کریں۔ میں کہا کرتا ہوں کہ جب وقت تھوڑا ہو تو سنتیں اور نفلیں چھوڑ دینی پڑتی ہیں اور فقط فرض ادا کئے جاتے ہیں۔ علم دین کا حصول فرض ہے اور باقی محفلیں وغیرہ زیادہ سے زیادہ مستحبات میں شامل ہیں۔ اس دور زوال میں اب مستحبات کا وقت نہیں رہا۔ جتنی جلدی ہوسکے علم کا فرض ادا کیا جائے، جگہ جگہ مدارس کھولے جائیں اور سابقہ صحیح دینی کام کرنے والے مدارس کو مضبوط کیا جائے۔ ایک محفل کا فائدہ زیادہ سے زیادہ چند دنوں کا ہوتا ہے مگر ایک مدرسہ صدیوں تک اپنی روشنی پھیلاتا رہتا ہے۔ اگر جگہ جگہ دینی مدارس قائم کر دیئے جائیں تو روشنی کا ایسا سیلاب آئے گا کہ اندھیروں کو سر چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی۔