القرآن: ماہ رمضان المبارک۔۔ روحانی موسموں کی بہار

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

گذشتہ سے پیوستہ

توبہ اللہ کی بارگاہ میں ایک ایسا مبارک فعل ہے کہ بندہ اپنے جملہ گناہوں اور نافرمانیوں سے تائب ہوکر اس کی بندگی اختیار کرنا چاہتا ہے۔ حقیقت میں توبہ وہی ہے جو زبان سے ادا ہوکر قلب و روح کی گہرائیوں میں اتر جائے اور بندے کی بقیہ زندگی کے ماہ و سال اور اس کے معمولات کی کایا پلٹ کر رکھ دے۔ عرفاء نے اپنے اپنے طریق پر توبہ کی مختلف شرائط بیان کی ہیں جن پر عمل پیر اہوئے بغیر توبہ کی قبولیت کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔ ان شرائط میں سے ہم گزشتہ شمارہ مئی 2017ء میں درج ذیل شرائط کا مطالعہ کرچکے ہیں:

1۔ ندامت و شرمندگی، 2۔ترکِ گناہ و معصیت، 3۔توبہ پر پختہ رہنے کا عزم، 4۔اصلاحِ احوال، 5۔اخلاص، 6۔ توبہ پر استقامت

زیرِ نظر مضمون میں ہم قبولیتِ توبہ کی مزید شرائط کا مطالعہ کریں گے۔

7۔ بُری صحبت سے پرہیز

توبہ کی شرائط میں سے ساتویں شرط یہ ہے کہ توبہ کرنے والا نافرمانوں اور خطاکاروں سے قطع تعلق کر لے کیونکہ ان کی صحبت اسے توبہ پر پختہ نہیں رہنے دے گی۔ توبہ کی ابتداء ہی برے دوستوں کی مجلس سے الگ رہنے سے ہوتی ہے کیونکہ وہی اسے اس ارادہ کو ترک کر نے پر اُکساتے ہیں اور ذہن میں شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں۔ بُری صحبت کی ظاہری صورتوں کے علاوہ اِس کی کئی مخفی شکلیں بھی آج جدید ٹیکنالوجی کی صورت میں ہیں مثلاً کیبل، انٹرنیٹ، سَیل فون، میموری کارڈز، ٹی وی چینلز کا غلط اور مخرب الاخلاق استعمال، یہ تمام بہت زیادہ خطرناک طریقے سے بری صحبت کا ذریعہ ہیں۔ سائنسی ایجادات کے باعث دنیا سکڑ کر عالمی گائوں کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ ان جدید ذرائع نے بلاشبہ علم و تحقیق کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے اور کوئی معاشرہ ان سے صَرفِ نظر کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا لیکن نظریاتی تربیت کے فقدان اور علمی کم مائیگی کے باعث ہمارے اخلاق بری طرح تباہ ہو رہے ہیں۔ مزید یہ کہ ان ذرائع ابلاغ پر کنٹرول عالمی طاقتوں کے ہاتھ میں ہے جو باقاعدہ منصوبہ بندی سے اخلاقی بے راہ روی، عریانی اور فحاشی کے فروغ میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ لہذٰا ضرورت اس امر کی ہے کہ اُسی شدّو مد کے ساتھ نوجوانوں کو صالح صحبتیں مہیا کرنے کے لئے حکومتی و غیر حکومتی سطح پر خانقاہیں اور تربیت گاہیں مہیا کی جائیں جن سے امت کے احوال کی اصلاح ممکن ہو۔

8۔گناہ کو معمولی نہ سمجھنا

قبولیتِ توبہ کے لئے ضروری ہے کہ تائب کسی بھی گناہ کو معمولی نہ سمجھے۔ گناہ کو معمولی تصور کرنا ارتکابِ گناہ سے بھی بدتر ہے کیونکہ یہ گناہ پر اصرار کے مترادف ہے۔ عرفاء کسی بھی گناہ کو معمولی خیال نہیں کرتے اور گناہ کے چھوٹے پن کو نہیں دیکھتے بلکہ اُن کا دھیان ہمیشہ اس طرف جاتا ہے کہ یہ نافرمانی کس کی ہے؟ درحقیقت گناہ کو چھوٹا بڑا سمجھنے کا انحصار نُورِ ایمان پر ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قلوب میں نُورِ ایمان کی اس قدر عظمت تھی کہ وہ صغیرہ گناہوں کو بھی بہت خوفناک سمجھتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ جوں جوں قلوب میں ظلمت بڑھتی گئی، ایمان کمزور ہوتا گیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ چھوٹے گناہ کو گناہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ گناہ کو معمولی تصور کرنا ایک منافقانہ طرز عمل ہے کیونکہ منافقت خود کو دھوکا دینا ہے اور گناہ کو چھوٹا تصور کرتے ہوئے اسے کر گزرنے سے زیادہ واضح اور کھلا دھوکا اور کیا ہو گا۔

دراصل بندے کے دل میں محرمات کی جس قدر عظمت ہوگی اسی قدر انہیں توڑنے اور پامال کرنے میںوہ خوف اور وحشت محسوس کرے گا۔ اب اگر کسی معاشرہ میں گناہوں کو معمولی سمجھنے اور ان کا ارتکاب کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ معاشرہ اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو کر کور دیدہ اور نُورِ ایمان و بصیرت سے محروم ہو رہا ہے۔ یہ غفلت کی کیفیت ہے جسے قرآن حکیم میں یوں بیان فرمایا گیا ہے:

اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِيْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَo

’’لوگوں کے لیے ان کے حساب کا وقت قریب آ پہنچا مگر وہ غفلت میں (پڑے طاعت سے) منہ پھیرے ہوئے ہیں‘‘

(الأنبياء، 21:1)

اس طرح چھوٹے گناہ کو کوہِ گراں سمجھنا بھی توبہ کی شرائط میں سے ہے کیونکہ چھوٹے گناہ لذتِ گناہ کی پرورش کرتے ہیں جس سے انسان بڑے گناہوں میں پھسل جاتا ہے۔ صغیرہ گناہوں پر اصرار کبیرہ گناہوں کے ارتکاب کا سبب بنتا ہے۔ صغیرہ گناہ کبیرہ گناہ کی مبادیات ہوتے ہیں۔ لہٰذا انسان کی نظر کبھی بھی کسی گناہ کے چھوٹے ہونے پر نہ جائے، بلکہ وہ یہ دیکھے کہ وہ نافرمانی کس خالق و مالک کی کر رہا ہے؟

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہمابیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ الْمُؤْمِنَ يَرَی ذُنُوبَهُ کَأَنَّهُ قَاعِدٌ تَحْتَ جَبَلٍ يَخَافُ أَنْ يَقَعَ عَلَيْهِ، وَإِنَّ الْفَاجِرَ يَرَی ذُنُوبَهُ کَذُبَابٍ مَرَّ عَلَی أَنْفِهِ.

(بخاری، الصحیح، کتاب الدعوات، باب التوبة، 5:2324، رقم: 5949)

’’مومن اپنے گناہوں کو ایسے سمجھتا ہے جیسے کہ وہ پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہے اور ڈرتا ہو کہ وہ پہاڑ اس کے اوپر گر پڑے گا اور منافق اپنے گناہوں کو ایک مکھی کی طرح (معمولی) سمجھتا ہے کہ وہ اس کے ناک پر سے (بیٹھ کر) اڑ گئی ہو‘‘۔

اس حدیث مبارکہ میں مومن کے لیے ایمان کا ایک معیار مقرر کر دیا گیا ہے۔ جو جس قدر پختہ ایمان کا حامل ہے وہ اسی قدر گناہوں سے لرزہ براندام ہے۔ چھوٹے سے چھوٹا گناہ بھی اس کے لئے پہاڑ کی مانند ہے۔

ایک دوسری حدیثِ مرسل میں یہ مضمون مزید وضاحت سے بیان کیا گیا ہے کہ

لِيَتَّقِ أَحَدُکُمْ أَنْ يُؤْخَذَ عِنْدَ أَدْنٰی ذُنُوْبِهِ فِي نَفْسِهِ.

(هندی، کنز العمال، 4:90، رقم:1228)

’’تم میں سے ہر کسی کو اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ اس کا مواخذہ اس گناہ پر ہو جائے جس کو وہ اپنے تئیں معمولی سمجھ رہا ہے‘‘۔

ہمارا تو یہ حال ہے کہ اپنی برائیوں اور گمراہیوں کو گناہ کا درجہ دینے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتے جبکہ اہل اللہ کی جماعت کا قول ہے کہ توبہ تو یہ ہے کہ تائب اپنے کئے ہوئے گناہ کو کبھی نہ بھولے اور اس سے ہمیشہ پشیمان رہے کیونکہ بُرے کام پر افسوس کرنا اعمالِ صالح پر مقدم ہے۔ گناہ نہ بھولنے والا کبھی نیکیوں پر اظہارِ تفاخر نہیں کرتا۔

9۔ قلبی شہوات سے اِجتناب

قبولیتِ توبہ کی شرائط میں قلبی شہوات سے اجتناب کو نہایت اہمیت حاصل ہے۔ انسان کسی برے کام سے توبہ تو کر لیتا ہے لیکن کبھی بشری تقاضے کے باعث اس سابقہ گناہ کی لذت کو اپنے دل میں محسوس کرتا ہے جو ترکِ توبہ کی راہ دکھلانے کے مترادف ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہماقلبی شہوات پر نظر رکھنے اور اپنے نفسوں کا محاسبہ کرنے کے بارے میں فرماتے ہیں:

حَاسِبُوْا أَنْفُسَکُمْ قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوْا، وَتَزَيَّنُوْا لِلْعَرْضِ الْأَکْبَرِ، وَإِنَّمَا يَخِفُّ الْحِسَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلٰی مَنْ حَاسَبَ نَفْسَهِ فِي الدُّنْيَا.

(ترمذی، السنن، کتاب صفة القيامة والرقائق والورع، 4:638، رقم:2459)

’’اپنے نفسوں کا محاسبہ کرو اس سے قبل کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے اور بڑی پیشی کے لئے تیار ہو جاؤ۔ قیامت کے دن اس آدمی کا حساب آسان ہو گا جس نے دنیا میں ہی اپنا حساب کر لیا‘‘۔

صاحبِ قُوت القلوب حضرت ابو طالب مکی نے توبہ کے باب میں سچی علاماتِ توبہ کے ذیل میں اسرائیلی روایات کے حوالے سے ایک حکایت بیان کی کہ ایک نبی e نے ایک شخص کی توبہ قبول کرنے کے لئے اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور درخواست کی، جس نے ساٹھ سال عبادت و ریاضت میں خوب محنت کی لیکن توبہ کی قبولیت کا کوئی نشان نہ دیکھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَعِزَّتِيْ وَجَلَالِيْ لَوْ شَفَعَ فِيْهِ أَهْلُ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ مَا قَبِلْتُ تَوْبَتَهِ وَحَلَاوَةً ذٰلِکَ الذَّنْبِ الَّذِيْ تَابَ مِنْهُ فِيْ قَلْبِهِ.

(ابو طالب مکی، قوت القلوب، 1:369)

’’مجھے میرے عزت و جلال کی قسم! اگر تمام آسمانوں اور زمین والے بھی اس کی سفارش کریں تو بھی میں اس کی توبہ قبول نہیں کروں گا جبکہ اس گناہ کی شیرینی (لذت) اس کے دل میں ابھی تک ہے جس سے اس نے توبہ کی‘‘۔

اس حکایت سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ حقیقی توبہ اس چیز کی متقاضی ہے کہ انسان کبھی قلبی شہوات سے بے خبر نہ ہو کیونکہ گناہ کی یاد لذت بن کر اسے دوبارہ گناہ کی طرف آمادہ کرتی ہے۔ تائب کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس گناہ سے شدید نفرت کرے تاکہ اس کی یاد دل میں جگہ نہ پاسکے اور جب کبھی نفس و شیطان اسے گناہ کی یاد دلائیں تو رب العزت کے حضور صمیمِ قلب سے استقامت کی دعا کرتے ہوئے اسے فوراً اپنے دل سے نکال دے۔

قلبی شہوات پر نظر رکھتے ہوئے انسان ہمیشہ یہ بات یاد رکھے کہ خواہشِ گناہ، گناہ کے بالمقابل زیادہ ہلاکت انگیز ہے کیونکہ گناہ کا ایک وقت ہے جبکہ اس کی خواہش ہمیشہ رہتی ہے جو کئی گناہوں کا باعث بنتی ہے۔

10۔ اُخروی حالات و واقعات پر غور و فکر

قبولیتِ توبہ اور دائمی توبہ کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ انسان اُخروی حالات و واقعات پر ہمیشہ غورو فکر کرتا رہے۔ اُخروی زندگی میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات دو امور سے خالی نہیں:

  1. نیک اعمال کے بدلے لازوال اُخروی نعمتیں میسر ہوں گی۔
  2. برے اعمال کے باعث جہنم اور اس کے دردناک نہ ختم ہونے والے عذاب سے سابقہ پڑے گا۔

موت آخرت کی منزل کی پہلی سیڑھی ہے اور ہر عقل مند اس منزل کی تیاری کرتا ہے۔ حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہمابیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اَلْکَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهِ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهِ هَوَاهَا وَتَمَنّٰی عَلَی اﷲِ.

( أحمد بن حنبل، المسند، 4: 124، رقم:17164)

’’عقل مند اور زیرک ہے وہ شخص جو اپنے نفس کو حقیر جانے اور آخرت کے لیے عمل کرے، اور بے بصیرت ہے وہ شخص جو خواہشِ نفس کی پیروی کرے اور (قلتِ اَعمال کے باوجود) اﷲ ل پر (بخشش کی) امید لگائے‘‘۔

  • ابن ماجہ نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت بیان کی ہے کہ ایک انصاری شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سب سے زیادہ عقل مند مومن کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

أَکْثَرُهُمْ لِلْمَوْتِ ذِکْرًا وَأَحْسَنُهُمْ لِمَا بَعْدَهُ اسْتِعْدَادًا، أُوْلٰئِکَ الْأَکْيَاسُ.

( ابن ماجه، السنن، کتاب الزهد، باب ذکر الموت والاستعداد له، 2: 1423، رقم:4259)

’’جو ان میں سے موت کو زیادہ یاد کرنے والا ہے اور اس (موت) کے بعد کے لیے اچھی تیاری کرنے والا ہے، وہی لوگ زیادہ زیرک اور عقل مند ہیں‘‘۔

نیک لوگوں اور کثرت سے استغفار کرنے والوں پر انعامات کا آغاز برزخی زندگی سے ہی شروع ہو جائے گا۔ اُخروی نعمتوں میں سب سے عظیم نعمت دیدارِ خداوندی ہے جس کی مثل کوئی دوسری نعمت نہیں، اگرچہ اہل جنت دیگر اَن گنت نعمتوں سے بھی مستفیض ہوں گے۔ یہ سوچ اور فکر انسان کے دل و دماغ میں رغبت کو حرکت دیتی ہے جس سے انسان مزید نیکیاں حاصل کرنے کے لئے تگ و دو کرتا ہے، جو دائمی توبہ کا سبب ہے۔ جب انسان جہنم اور اس میں پیش آنے والے دردناک مصائب و آلام کا مطالعہ کرتا ہے جن کی تفصیلات قرآن و حدیث میں مذکور ہیں تو اِس سے خوفِ خدا پیدا ہوتا ہے اور بندہ گناہوں سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ دائمی توبہ کے لئے ضروری ہے کہ انسان عاقبت کو ہمیشہ پیش نظر رکھے اور کبھی موت سے غافل نہ ہو۔

جب بندہ توبہ کی مذکورہ جملہ شرائط پوری کرلیتا ہے تو اس کا شمار اُن مومنین میں ہو جاتا ہے جن کے لئے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اجر عظیم کا مژدۂ جانفزا سنایا جاتا ہے۔ سورہ نساء کی آیت مبارکہ کے الفاظ مَا يَفْعَلُ اﷲُ بِعَذَابِکُمْ بندوں پر اﷲ تعالیٰ کی کمالِ محبت کا مظہر ہیں۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے میرے گناہ گار بندو! اﷲ نے تمہیں عذاب دے کر کیا کرنا ہے وہ تو چاہتا ہے کہ تم ایمان لا کر شکر گزار بندے بن جاؤ۔

اﷲ تعالیٰ تو منتظر رہتا ہے کہ اس کا بندہ ظلم و ناانصافی سے توبہ کرے۔ غفلت و نافرمانی اور فسق و فجور سے تائب ہو کر اصلاحِ حیات کا مصمم عزم کرلے۔ ملتِ اسلامیہ کے موجودہ آلام و مصائب کی اصل وجہ بھی یہی ہے کہ وہ توبہ اور اصلاحِ احوال سے غافل ہو چکی ہے۔ توبہ کا عمل انفرادی اور اجتماعی سطح پر اختیار کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ سچی توبہ سے گناہ نیکیوں میںتبدیل ہو جاتے ہیں۔

طلبِ مغفرت کے مخصوص اوقات اور ایام

اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ بلاتخصیص ہر خاص و عام کے لئے ہر وقت کھلی ہے۔ جو چاہے اس کے حضور حاضر ہو اور اپنی التجا پیش کرکے مراد حاصل کر لے۔ دنیا کے بادشاہوں اور حکمرانوں کا معاملہ یکسر مختلف ہے۔ دنیوی حکمرانوں تک رسائی کے لئے حدود و قیود اس قدر زیادہ ہوتی ہیں کہ عام انسان ان سے ملاقات کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔

ان عارضی اور فانی حکمرانوں کے برعکس کون و مکاں کے مالکِ لاشریک کی بارگاہ کے جود و سخا کا عالم ملاحظہ کریں کہ روزمرہ کی ایک ادنیٰ سی مشکل کے حل سے لے کر زندگی کی مہلت طلب کرنے تک نہ وقت کی قید ہے نہ مقام و مرتبہ کی، نہ امیر و غریب میں کوئی فرق ہے اور نہ مالک و ماتحت میں، جوانی ہو یا بڑھاپا، شرقی ہو یا غربی، گورا ہو یا کالا سب برابر ہیں۔ اپنے اعمال میں جیسے بھی کوئی لت پت ہو، دو جہانوں کے بادشاہ کا در اس کے لئے کھلا ہے۔ بلا جھجک آجائے۔ یہ مالک ایسا ہے کہ کوئی مانگے تو خوش ہوتا ہے، نہ مانگے تو ناراض۔ دلوں کے بھیدوں سے آگاہ ہو کر بھی مانگنے والے کا پردہ رکھتا ہے۔ بار بار وعدہ خلافی کے باوجود بھی درگزر کرنے پر آمادہ رہتا ہے۔

بس ایک ہی شرط ہے کہ اپنی التجاؤں میں سچے ہو کر آؤ۔ کیسا مالک ہے! شرط بھی لگائی تو وہ بھی بندوں کی اپنی بھلائی کے لئے۔ اے بندے! اپنی طلب میں مخلص ہو کر آ تاکہ اس کی بارگاہ سے تو سو فیصد اپنا مقصد حاصل کر سکے۔

یوں تو اﷲ تعالیٰ کا درِ مغفرت ہر کسی کے لئے ہر وقت کھلا ہے لیکن بعض ایام اور اوقات ایسے بھی ہیں جب مولیٰ کی رحمت کی رم جھم اپنے کمال پر ہوتی ہے۔ یہی وہ لمحات ہیں جن سے گنہگار اﷲ رب العزت کی بے حد و حساب لطف و عطا سے بڑھ چڑھ کر مستفیض ہو سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ اﷲ تعالیٰ کی بخشش و عنایات کے روحانی موسم ہیں۔ جب ان ایام میں مولیٰ کی رحمت گنہگاروں پر برسنے کے لئے اپنے جوبن پر ہوتی ہے، تو پھر گناہوں کی بخشش کے سلسلے میں اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے۔

روحانی موسموں کا وجود

مالکِ کائنات نے اپنی عطا کو یہاں تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ اس عام بخشش و مغفرت کے ساتھ ساتھ ہر ایک کی توجہ ان روحانی موسموں کی طرف بھی مبذول کرائی ہے۔ جب اس کا ابرِ رحمت موسلا دھار بارش کی طرح برسنے کے لئے مستی میں جھوم رہا ہوتا ہے کہ کب سائل اپنی طلب کے جام اس کی طرف بڑھاتے ہیں۔

یہ روز مرہ کا مشاہدہ ہے۔ کوئی بھی موسم سدا ایک سا نہیں رہتا۔ کبھی گرمی ہے تو کبھی سردی۔ کبھی خزاں ہے تو کبھی بہار۔ اﷲ تعالیٰ نے حرکت میں زندگی رکھی ہے، یہ ٹھہر جائے تو موت۔ ہر موسم کی اپنی خوبیاں ہیں۔ خزاں بظاہر ویرانی کا منظر پیش کرتی ہے لیکن حقیقت یہ نہیں۔ اس کی خوبی یہ ہے کہ یہ جلی ہوئی خشک ٹہنیوں اور مردہ پتوں کو اتار پھینکتی ہے تاکہ بہار کے موسم میں ان کی جگہ نئی کونپلیں، نئے پتے، ٹہنیاں اور پھول اُگیں اور یوں ہر سو ہریالی کا راج ہو جائے۔

تصور کریں اگر ہر طرف اور ہمہ وقت ایک ہی موسم رہتا تو یہ دنیا کب کی ختم ہوچکی ہوتی۔ موسموں کا یہ تغیر و تبدل دراصل زندگی کی علامت ہے۔ اسی طرح اﷲ رب العزت نے روحانی دنیا میں روحانی موسم بنائے ہیں۔ انسانی اعمال کی مثال بھی ایک روحانی شجر کی سی ہے۔ انسان کی مسلسل نافرمانیاں، گمراہیاں، کوتاہیاں اور بد اعمالیاں اس روحانی شجر کو نہ صرف بدنما کر دیتی ہیں بلکہ ان گناہوں کے سبب انسانی اعمال کے درخت کے پتے، پھول اور ٹہنیاں گل سڑ جاتے ہیں۔

اﷲ تعالیٰ جو مخلوق کا پالنے والا ہے وہ ظاہری حیات کی طرح باطنی حیات پر بھی بدرجہ اولیٰ اپنی توجہ کی نظر فرماتا ہے۔ جیسے موسم خزاں کی خوبی ہے کہ یہ تیز ہواؤں سے گلے سڑے اور جلے ہوئے پتوں اور ٹہنیوں کو گرا دیتا ہے۔ اسی طرح باطنی دنیا میں بھی ایسے موسم آتے ہیں جن میں اﷲ رب العزت کی بخشش و مغفرت کی ایسی ہوائیں چلتی ہیں کہ گناہوں کے باعث انسانی اعمال کے گلے سڑے اور جلے پتے جھڑ جاتے ہیں۔ یوں اس کے بندے گناہوں سے پاک ہو کر از سرِ نو مولیٰ کی بندگی میں تازہ دم ہو کر مصروف عمل ہو جاتے ہیں۔

ایک دوسرے رخ سے مشاہدہ کیا جائے کہ زمینیں بظاہر ایک سی نظر آتی ہیں لیکن ان کی تاثیر میں فرق ہے۔ کوئی زمین کسی خاص فصل اور پھول و پھل کے لئے موزوں اور مشہور ہے تو کوئی خطۂ زمین کسی دوسری فصل اور پھول و پھل کے لئے مشہور اور موزوں۔ یہی فرق آب و ہوا میں نظر آتا ہے جس کے باعث زمینی خطوں کی شادابی میں بھی فرق ہے۔ اسی طرح دنیا کے ممالک کی آب و ہوا کا مشاہدہ کیا جائے تو وہاں یہی فرق اور واضح نظر آتا ہے۔ بس زمین کی طرح انسانی قلوب میں بھی یہی امر کار فرما ہے۔

ان چند مثالوں سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ جب خاص ساعتوں، دنوں، راتوں اور مہینوں کی افادیت و اہمیت کے حوالے سے بات کی جاتی ہے تو جدید تعلیم یافتہ طبقہ بلا سوچے سمجھے اعتراض کرتا ہے کہ دن رات مہینے سب ایک سے ہیں۔ ان میں فرق کہاں سے آگیا؟ بعض مقامات خاص کیوں ہوگئے حالانکہ یہ سب ایک خالق کی تخلیق ہے؟ ایسی سوچ در حقیقت لاعلمی کے باعث ہے۔

ہماری مذکورہ وضاحت محض ایک مفروضہ نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ فضیلت کے باب میں خود اﷲ تعالیٰ نے مختلف مقامات، مہ و سال اور اوقات کو خصوصی خیر و برکت کا حامل قرار دیا ہے تاکہ اس کے بندے ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے احوالِ حیات کو سنوار کر اُخروی نعمتوں سے ہمکنار ہو سکیں۔ احادیث نبوی میں بھی نہ صرف مخصوص دنوں، راتوں اور ساعتوں کا ذکر ملتا ہے بلکہ عملِ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کی اہمیت و افادیت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے۔

ماهِ رمضان المبارک۔ روحانی بہار کا موسم

روحانی موسموں میں رمضان المبارک کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس ماہ کی فضیلت محتاجِ بیان نہیں۔ اس میں پھر آخری عشرہ مزید فضیلت کا حامل ہے اور آخری عشرہ میں طاق راتیں فضیلت کے باب میں بڑھ کر افضل ہیں۔ پھر شبِ قدر اس قدر فضیلت و برکت کی حامل ہے کہ یہ ایک رات ہزار مہینوں سے افضل تر ہے۔

حضرت امام جعفر بن علی رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ جب ماهِ رمضان کا چاند طلوع ہوتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی طرف رُخِ انور کر کے فرماتے:

اللّٰهُمَّ أَهِلَّهِ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ، وَالْإِيْمَان،ِ وَالسَّلَامَةِ، وَالْإِسْلَامِ، وَالْعَافِيَةِ الْمُجَلَّلَةِ، وَدِفَاعِ الْأَسْقَامِ، وَالْعَوْنِ عَلَی الصَّلٰوةِ وَالصِّيَامِ وَتِلَاوَةِ الْقُرْآنِ. اللّٰهُمَّ سَلِّمْنَا لِرَمَضَانَ، وَسَلِّمْهُ لَنَا، وَسَلِّمْهُ مِنَّا حَتّٰی يَخْرُجَ رَمَضَانُ وَقَدْ غَفَرْتَ لَنَا، وَرَحِمْتَنَا، وَعَفَوْتَ عَنَّا.

(ابن عساکر، تاريخ مدينة و دمشق، 51: 186)

’’اے اﷲ! اس چاند کو ہمارے لئے امن، ایمان، سلامتی اور سر جھکانے والا اور واضح عافیت اور بیماریوں سے نجات اور نماز اور روزے اور تلاوت قرآن پر مددگار بنا دے۔ اے اﷲ! ہمیں رمضان کے لئے سلامت رکھ، اسے ہمارے لئے سلامتی عطا فرما، اور ہماری طرف سے سلامتی عطا فرما یہاں تک کہ رمضان رخصت ہو جائے اور تو ہمیں بخش دے۔ ہم پر رحمت کر اور ہم سے درگزر فرما‘‘۔

پھر لوگوں کی طرف رخ زیبا کرتے اور فرماتے:

أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّهِ إِذَا أَهَلَّ هِلَالُ شَهْرِ رَمَضَانَ غُلَّتْ فِيْهِ مَرَدَةُ شَيَاطِيْنَ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ الْجَحِيْمِ، وَفُتِحَتْ أَبْوَابُ الرَّحْمَةِ، وَنَادَی مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ کُلَّ لَيْلَةٍ هَلْ مِنْ سَائِلٍ؟ هَلْ مِنْ تَائِبٍ؟ هَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ؟ اللّٰهُمَّ، أَعْطِ کُلَّ مُنْفِقٍ خَلَفًا، وَکُلَّ مُمْسِکٍ تَلَفًا، حَتّٰی کَانَ إِذَا کَانَ يَوْمُ الْفِطْرِ نَادَی مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ: هٰذَا يَوْمُ الْجَائِزَةِ فَاغْذُوْا فَخُذُوْا جَوَائِزَکُمْ.

(ابن عساکر، تاريخ مدينة دمشق، 51: 186)

’’اے لوگو! جب رمضان کا چاند طلوع ہوتا ہے تو اس میں خبیث شیاطین کو طوق ڈال دیے جاتے ہیں۔ جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ہر رات آسمان دنیا سے پکارنے والا پکارتا ہے کہ ہے کوئی مانگنے والا؟ ہے کوئی توبہ کرنے والا؟ ہے کوئی بخشش مانگنے والا؟ اے اﷲ! ہر خرچ کرنے والے کو عطا فرما اور ہر روکنے والے کو تلف فرما، یہاں تک کہ عید الفطر کا دن آتا ہے تو آسمانِ دنیا سے پکارنے والا پکارتا ہے: یہ انعام کا دن ہے دوڑو اور اپنے انعام حاصل کرو‘‘۔

اس روحانی موسم کا کمال لیلۃ القدر کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ حضرت امام مالک نے ’موطأ‘ میں اور بیہقی نے ’شعب الایمان‘ میں روایت نقل کی ہے:

إِنَّ رَسُولَ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم أُرِيَ أَعْمَارَ النَّاسِ قَبْلَهِ أَوْ مَا شَاءَاﷲُ مِنْ ذَلِکَ فَکَأَنَّهِ تَقَاصَرَ أَعْمَارَ أُمَّتِهِ أَنْ لَا يَبْلُغُوا مِنَ الْعَمَلِ مِثْلَ الَّذِی بَلَغَ غَيْرُهُمْ فِی طُولِ الْعُمْرِ فَأَعْطَاهُ اﷲُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ.

(مالک، الموطأ، 1: 321، رقم:698)

’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کے اعمال کو ملاحظہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ ان کی عمریں کم ہیں اور ان کے اعمال دیگر امتوں کے اعمال تک نہیں پہنچتے تو اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لیلۃ القدر عطا فرمائی جو کہ ہزار مہینوں سے افضل ہے‘‘۔

اس کے کرم کو بھی توگناہگار چاہئے!

اﷲ تعالیٰ تو ہر لمحے اپنے بندے پر اپنی رحمتیں نچھاور کرنے کے لئے تیار رہتا ہے لیکن یہ بندہ ہی ہے جو اسے بھولا ہوا ہے اور یوں اس کی رحمت کو اپنے لئے مشکل بنا رکھا ہے۔ بندے سے جب کوئی گناہ سرزد ہو جاتا ہے تو مولیٰ کریم کی ناراضگی مستقل نہیں ہوتی بلکہ وہ تو منتظر رہتا ہے کہ کب یہ گنہگار بندہ توبہ کے خیال سے اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔

یہ ربِ ذوالجلال کا عجیب کرم ہے کہ مانگنے والے ضرورت مند غفلت میں سوئے پڑے ہیں اور وہ انہیں جگا جگا کر اپنی طرف متوجہ فرماتا ہے حتی کہ صبح پھوٹ پڑتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت اپنے اظہار کے لئے گناہ گاروں اور حاجت مندوں کی متلاشی رہتی ہے۔

حرفِ آخر

یہاں بنیادی مقصد اس حقیقت کا اظہار کرنا ہے کہ ویسے تو اللہ رب العزت کا درِ رحمت و مغفرت ہر گناہگار کے لئے ہر وقت کھلا ہے لیکن بعض لمحات، راتیں اور دن، ایسے بھی ہیں جب اﷲ تعالیٰ کی رحمت، مغفرت اور بخشش اپنے بندوں پر برسنے کا بہانہ چاہتی ہے۔ انسان کو کرم نوازیوں کے ایسے مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اس چار روزہ حیاتِ مستعار کے فریب نے انسان کو نہ جانے کس سحر میں مبتلا کر رکھا ہے کہ اپنی آخرت بہتر بنانے کے لئے اس کے پاس چند لمحات کی بھی فرصت نہیں۔ جونہی اس عارضی زندگی کی مہلت کا اختتام ہوگا اور دنیا کا یہ جھوٹا طلسم مکڑی کے جالے کی طرح معدوم ہو جائے گا تو ساری حقیقتیں اس پر واضح ہو جائیں گی لیکن اس وقت ابدی پچھتاوے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔