الفقہ: میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرعی حیثیت

مفتی عبدالقیوم خاں ہزاروی

سوال: برائے مہربانی قرآن و حدیث کے حوالے سے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرعی حیثیت بیان فرمائیں؟

جواب: میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کے اظہار فرحت و سرور سے عبارت ہے۔ ماہ ربیع الاوّل میں یومِ ولادتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اظہار مسلمان مختلف طریقوں سے کرتے ہیں ۔ اس دن فقراء و مساکین کو صدقہ و خیرات تقسیم کیا جاتا ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و خصائل اور مختلف معجزات، کرامات اور واقعات کا ظہور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے وقت ہوا، کا ذکر مختلف محافل میں کیا جاتا ہے۔ اس حقیقت کا انکار ممکن نہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبعوث ہونا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے سب سے عظیم نعمت ہے ۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:

لَقَدْ مَنَّ اﷲُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلاً مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰـتِهٖ وَیُزَکِّیْهِمْ.

’’بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے‘‘۔

(آل عمران، 3: 164)

اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت اللہ کی انہی نعمتوں میں سے ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

یَعْرِفُوْنَ نِعْمَتَ ﷲِ ثُمَّ یُنْکِرُوْنَهَا.

’’یہ لوگ اللہ کی نعمت کو پہچانتے ہیں پھر اس کا انکار کرتے ہیں‘‘۔

(النخل، 16: 83)

اور اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :

وَاَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ.

’’اور اپنے رب کی نعمتوں کا (خوب) تذکرہ کریں‘‘

(الضحیٰ، 93: 11)

پھر ارشاد ہوتاہے:

وَاذْکُرُوْا نِعْمَةَ اﷲِ عَلَیْکُمْ.

’’اور اﷲ کی (اس) نعمت کو یاد کرو جو تم پر (کی گئی) ہے‘‘

(المائدة، 5: 7)

مذکورہ بالا آیات کریمہ میں نعمت سے مراد بعثت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور بعثت سے پہلے ولادت کا ہونا لازمی امر ہے اس لیے کہ اگر پیدا ہی نہ ہوئے تو بعثت کہاں سے ہوتی؟ لہٰذا اگر بعثت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن نعمت فرما رہا ہے تو ولادت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعثت سے بڑھ کر نعمت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قُلْ بِفَضْلِ ﷲِ وَبِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْاط هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَo

’’فرما دیجئے: (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے تم پر ہوا ہے) لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس (سارے مال و دولت) سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں‘‘

(یونس، 10: 58)

اس آیت کریمہ پر غور فرمائیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے فضل و رحمت کے حصول پر خوشیاں منانے کا حکم دیا ہے۔ مفسرین کرام کے نزدیک لفظ فضل اور رحمۃ سے مراد ذاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اس سے ہم نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ولادت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خوشیاں منانے کا حکم دیا ہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جب پیر کے روزے کی بابت سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

فِیهِ وُلِدْتُ وَ فِیهِ أُنْزِلَ عَلَيَّ.

’’اس دن میں پیدا ہوا اور اس دن قرآن مجھ پر نازل ہوا‘‘

(مسلم، الصحیح، 2: 820، رقم: 1162)

ابولہب کی موت کے بعد اُسے کسی نے خواب میں دیکھا اور اس کا حال دریافت کیا اس نے کہا کہ آگ میں ہوں سوائے اس کے کہ آگ کے عذاب میں ہر سوموار کے دن تخفیف کر دی جاتی ہے اور میری ان دو انگلیوں کے درمیان سے پانی نکلتا ہے جس کو پی کر میں سیراب ہوجاتا ہوں ۔ (یہ کہہ کر ) اس نے اپنی انگلی کے پورے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ یہ ثویبہ کی وجہ سے ہے جسے میں نے اس وقت آزاد کیا جب اس نے مجھے ولادۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشخبری دی تھی۔

(بخاري، الصحیح، 5: 1961، رقم: 4813)

یہ ابو لہب کافر کا حال ہے جس کی مذمت میں قرآن نازل ہوا تو اس کلمہ گو مسلمان کا جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں سے ہے اور ان کی ولادت کی خوشیاں مناتا ہے، اس کا عالم کیا ہوگا (یعنی اس پر انعام وا کرام کا کیا عالم ہوگا)!

(مدارج النبوة، شیخ عبدالحق محدث دهلوی، 2: 19)

المختصر یہ کہ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْاط هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ کے الفاظ سے قرآن ہمیں خوشی و فرحت کے اظہار کا حکم دیتا ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود ان واقعات و کرامات کو بیان بھی کیا ہے جو ان کی ولادت کے موقع پر ظاہر ہوئے تھے اور ان کا ذکر احادیث کی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی بشارات کتب سماویہ میں بھی موجود ہیں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنا بیان اس کی تصریح بھی کرتا ہے:

اَنَا دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِیمَ وَبِشَارَةُ عِیسَی وَرُؤْیَا أُمِّيَ الَّتِي رَأَتْ حِیْنَ وَضَعْتْنِي أَنَّهُ خَرَجَ مِنْهَا نُورٌ أَضَائَتْ لَھَا مِنْهُ قُصُورُ الشَّامِ.

میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا ہوں اور عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں اور اپنی والدہ کے خواب ہوں جو انہوں نے مجھے جنتے ہوئے دیکھے کہ ان سے ایک نور خارج ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے۔

(ابن حبان، الصحیح، 14: 6404)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشخبری جو عیسیٰ علیہ السلام نے دی قرآن میں ان الفاظ میں آئی ہے:

وَمُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْم بَعْدِی اسْمُهٗٓ اَحْمَدُط

’’اور اُس رسولِ (معظّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد آمد) کی بشارت سنانے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لا رہے ہیں جن کا نام (آسمانوں میں اس وقت) احمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہے‘‘

(الصف، 61: 6)

لہٰذا قرآن پاک و احادیث میں میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اظہار خوشی منانے کے حوالے سے کئی دلائل مذکور ہیں اور جو لوگ میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منانے کو بدعت کہتے ہیں ان کی باتیں جھوٹ و افترا کا پلندہ ہیں جن کی کوئی بنیاد نہیں۔

جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاریخی حیثیت:

محفل میلاد کی اصل یہ ہے کہ لوگ جمع ہو کر جس قدر ہو سکے قرآن پڑھتے ہیں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات و واقعات اور ولادت کے وقت جو حق کے نشانات ظاہر ہوئے ان کا بیان کرتے ہیں۔ پھر ان کے لیے قالین بچھائے جاتے ہیں، وہ کھاتے پیتے اور چلے جاتے ہیں۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں کرتے یہ اچھی بدعت ہے جس پر عمل پیرا ہونے والے کو ثواب دیا جاتا ہے کیونکہ اس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت و باسعادت پر خوشی و مسرت کا اظہار ہے اور سب سے پہلے محفل میلاد منعقد کرنے والا اربل کا بادشاہ ملک مظفر ابوسعید کو کبری بن ز ید الدین علی بن بکتگین ایک نیک دل سخی بادشاہ تھا۔ حافظ ابن کثیر نے اپنی تاریخ کی کتاب ’’البدایہ والنہایہ‘‘ میں فرمایا ہے کہ وہ ربیع الاول میں عظیم الشان محفل میلاد منعقد کرتا تھا۔ بہت زندہ دل، بہادر، جوان، عقل مند عالم و عادل تھا۔ اللہ اس پر رحم کرے اور اس کی قبر کو عزت دے۔ اس باشاہ کے لیے شیخ ابو الخطاب بن دحیہ نے ایک ضخیم کتاب میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر لکھی تھی جس کا نام التنویر في مولد البشیر النذیر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکھا۔ اس کے صلہ میں بادشاہ نے شیخ کو ایک ہزار دینار بطور انعام دئیے، اس بادشاہ کا دور حکومت طویل ہے۔ 630 ھ کو جبکہ اس نے فرنگیوں کے شہر عکا کا محاصرہ کر رکھا تھا اس وقت وفات پائی۔ سبط ابن الجوزی نے اپنی کتابــ ’’مراۃ الزمان‘‘ میں ایک شخص کا بیان نقل کیا جو المظفر کی منعقد کی گئی ایک محفل میلاد میں شریک تھا کہ اس نے اس محفل میلاد کے موقع پر دستر خوان پر پانچ ہزار سر بھنی ہوئی بکریوں کے اور دس ہزار بھنی ہوئی مرغیاں دیکھیں۔ کہا کہ اس موقع پر بڑے بڑے علماء و صوفیاء حاضر تھے، بادشاہ ان کو خلعت دیتا اور صوفیاء کے لیے ظہر سے فجر تک محفل سماع کا بندوبست کرتا اور ہر سال محفل میلاد پر تین لاکھ دینار خرچ کرتا اور ہر سال فرنگیوں کو دو لاکھ دینار ادا کرکے قیدی چھڑواتا، ہر سال حرمین شریفین اور حجاز مقدس کے لیے آب رسانی کی سکیموں پر تیس ہزار دینار صرف کرتا یہ سب ان صدقات کے علاوہ ہیںجو وہ پوشیدہ دیتا تھا۔ اسکی بیوی ربیعہ خاتون جو ملک الناصر صلاح الدین کی بہن تھی، کا بیان ہے کہ بادشاہ کی قمیض ایسی تھی جو پانچ درہم کے برابر بھی نہ تھی۔ کہتی ہیں میں نے اس پر بادشاہ سے جھگڑا کیا اور ناراض ہوئی تو بادشاہ نے کہا ’’میرا پانچ درہم کا لباس پہننا اور باقی سب کچھ صدقہ کردینا اس سے بہتر ہے کہ میں قیمتی لباس پہنوں اور فقراء و مساکین کو نظر انداز کردوں‘‘۔ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہمارے اسلاف کا عمل ہر لحاظ سے ہمارے لیے قابل فخر و تقلید ہے۔

میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عید کیوں کہا جاتا ہے؟

بخاری و مسلم اور دیگر کتب احادیث میں یہ روایت موجود ہے:

عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ: أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْیَهُودِ قَالَ لَهُ: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، آیَةٌ فِي کِتَابِکُمْ تَقْرَؤُنَهَا، لَوْ عَلَیْنَا مَعْشَرَ الْیَهُودِ نَزَلَتْ، لَاتَّخَذْنَا ذَلِکَ الْیَوْمَ عِیدًا. قَالَ: أَيُّ آیَةٍ؟ قَالَ: {الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمْ الْإِسْلَامَ دِینًا} قَالَ عُمَرُ: قَدْ عَرَفْنَا ذَلِکَ الْیَوْمَ، وَالْمَکَانَ الَّذِي نَزَلَتْ فِیهِ عَلَی النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم، وَهُوَ قَائِمٌ بِعَرَفَةَ یَوْمَ جُمُعَةٍ.

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ ایک یہودی نے ان سے کہا: اے امیر المومنین! ایک آیت آپ حضرات اپنی کتاب میں پڑھتے ہیں، اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید بنا لیتے۔ فرمایا کہ وہ کونسی آیت ہے؟ کہا: {آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظام حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا} [5: 3] حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم اس دن کو جانتے ہیں اور اس جگہ کو جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی جب کہ آپ جمعہ کے روز عرفات میں مقیم تھے۔

(بخاري، الصحیح، 1: 45، رقم: 45)

آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا مجھے معلوم ہے کہ اس کے نزول کا دن جمعہ اور تاریخ 9 ذی الحجہ (یوم الحج) ہے مقصد یہ کہ ہم اس آیت کی اہمیت اس کے نزول کے دن سے جانتے ہیں اور اس کی خوشی منانے سے غافل نہیں ہیں۔ ہم تو پہلے سے اس دن کو یوم حج ہونے اور یوم جمعہ ہونے کی وجہ سے یوم عید یعنی خوشی کا دن سمجھتے ہیں گویا ہر جمعہ کو یوم عید قرار دیا گیا ہے اور سال میں تقریباً 52 جمعے ہوتے ہیں اور یوم حج (یوم عرفہ) عید الفطراور عید الاضحی کو ملا کر تقریباً 55 عیدیں حدیث سے ثابت ہوگئیں۔ ایک عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا فرق پڑتا ہے۔ کیا یہ خوشی کا دن نہیں جس میں رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری ہوئی؟

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے امتیوں نے درخواست کی کہ آپ دعا کریں اللہ تعالیٰ آسمان سے ہم پر کھانے مائدہ اتارے چنانچہ ہم اس نزول مائدہ کے دن کو عید کے طور پر منائیں گے۔ پھر مائدہ اترا اور آج تک عیسائی اسے عید کا دن مناتے ہیں۔ اس واقعہ کا ذکر قرآن میں بھی ہے۔ قرآن نے اس کی مخالفت نہیں کی۔ نہ اسے برا قرار دیا تو کیا مائدہ نازل ہونے کا دن عید اور رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزول کا دن یوم عید نہیں؟

لہٰذا قرآن، بائبل، زبان انبیاء و زبان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میلا دمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش مبارک کا ذکر ثابت ہے۔ ولادت با سعادت کے متعلق احادیث میں جو کچھ آیا ہے وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ذریعے ہی ہم تک پہنچا ہے۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اٹھتے بیٹھتے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوے دیکھتے، آقا علیہ السلام کے گن گاتے، نظم و نثر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و مناقب سنتے سناتے تھے اور میلاد میں یہی کچھ تو بیان ہوتاہے۔

سیرت طیبہ کی کوئی معتبر کتاب پڑھیٔے، بخاری، مسلم، سننِ اربعہ اور دیگر مستند کتب احادیث میں ’’فضائل سید المرسلین‘‘ کا باب، شعر و شاعری کا باب نکال کر دیکھیٔے، یہی عیاں ہوتا ہے کہ محفل میلاد میں وہی کچھ بیان ہوتا ہے جو سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ہوتا تھا۔ صحابی تو دور کی بات کوئی قابل ذکر امام، مصنف، محدث، فقیہہ اور قابل ذکر عالم ایسا نہیں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد، ولادت اور فضائل کا ذکر نہ کیا ہو حتی کہ مولانا تھانوی صاحب کی کتاب ’’نشر الطیب‘‘، مودودی صاحب کی ’’تفہیم القرآن‘‘ کی آخری جلد، ’’سیرت سرور عالم‘‘، مولانا ادریس کاندھلوی کی ’’سیرت المصطفیٰ‘‘ میں بھی یوم میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عید کا دن (خوشی کا دن) ہی قرار دیا گیا ہے۔

اس موضوع پر مزید تفصیلات کے لئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی درج ذیل کتب کا مطالعہ کیجئے:

  1. میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
  2. المولد عندالائمۃ والمحدثین
  3. کیا میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا بدعت ہے؟
  4. معمولاتِ میلاد
  5. اربعین: میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : احادیث مبارکہ کی روشنی میں (فرحۃ القلوب فی مولدا لنبی المحبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )
  6. Mawlid-al-Nabi: celebration and permissibility
  7. ?Is celebrating Mawlid-al-Nabi Bida
  8. The celebration of Mawlid-al-Nabi According to the Imams & Hadith scholars