اداریہ: وسائل محدود، مقابلہ سخت اور وقت تھوڑا

چیف ایڈیٹر

25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات کے نتائج آچکے ،انتخابی نتائج کے مطابق تحریک انصاف کے امیدوار دیگر جماعتوں کی نسبت زیادہ تعداد میں کامیاب ہوئے اور تین دہائیوں سے کسی نہ کسی شکل میں اقتدار میں رہنے والی جماعتوں اور اتحادوں کو شکست ہوئی۔ تحریک انصاف نے آزاد اراکین اور دیگر چھوٹی پارلیمانی جماعتوں کو ساتھ ملا کراپنی انتخابی عددی برتری کو اکثریتی پارلیمانی جماعت میں تبدیل کیا، تحریک انصاف کو وفاق کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخوا اور پنجاب میں بھی حکومت بنانے کا موقع ملا ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمدطاہرالقادری نے عمران خان اور تحریک انصاف کو انتخابی کامیابی پر مبارکباد دی اور نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان وفاق کے ساتھ پنجاب میں بھی حکومت بنائیں۔ سربراہ عوامی تحریک نے عمران خان کی ’’وکٹری سپیچ‘‘ کو بھی سراہا اور کہا کہ عمران خان نے تقریر میں جو ایجنڈا دیا ہے اس ایجنڈے پر عملدرآمد کے حوالے سے ہم ان کا ساتھ دینگے۔ انہوں نے اپنے مبارکبادی پیغام میں اس امید کا اظہار کیا کہ پاکستان کے عوام سیاسی، سماجی، معاشی شعبوں میں جس ریلیف اور تبدیلی کے آرزو مند ہیں نئی حکومت ان عوامی توقعات پر پورا اترنے کی ہر ممکن کوشش کرے۔

ایک طویل عرصے کے بعد سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قاتلوں کے اقتدار کا خاتمہ ہوا اور یہ خاتمہ ہوا کے خوشگوار جھونکے کی طرح ہے، پنجاب میں اشرافیہ مسلسل 10سال اقتدار پر قابض رہی اور وفاق میں مسلسل پانچ سال بلاشرکت غیرے حکومت کرتی رہی۔ ملکی تاریخ کا یہ عرصہ اقتدار بعض حوالوں سے انتہائی تکلیف دہ اورناخوشگوار واقعات سے عبارت ہے۔ اشرافیہ کے اقتدار کے دوران 17 جون 2014ء کا سانحہ ہوا جس میں 100 لوگوں کو گولیوں سے چھلنی اور 14 کو شہید کیا گیا، ملکی تاریخ کا یہ واحد سانحہ ہے جس میں ریاستی ادارے پولیس نے سابق حکمرانوں کے ایماء پر نہتے اور پرامن سیاسی کارکنوں پر آگ اور بارود کی بارش کی اور ماڈل ٹاؤن لاہور کا علاقہ 14 گھنٹے تک مقبوضہ کشمیر اور غزہ کا منظر پیش کرتا رہا۔ اگر شریف حکومت سانحہ میں براہ راست ملوث نہ ہوتی تو یقینا سانحہ کے 24 گھنٹے کے اندر اندر نہتے شہریوں کی جانیں لینے والے تمام ملزمان قانون کے کٹہرے میں کھڑے ہوتے چونکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں شریف برادران براہ راست ملوث تھے اس لیے آج چار سال گزر جانے کے بعد بھی شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کو انصاف نہیں مل سکا۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنے مبارکبادی پیغام میں عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کو انصاف دلوانا بھی ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔

بلاشبہ عمران خان اور تحریک انصاف کے مرکزی و صوبائی رہنما سانحہ کی مذمت کرنے اور شہداء کے ورثاء کی اخلاقی مدد میں ہمیشہ پیش پیش رہے اور ہر موقع پر انہوں نے بلاتاخیر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کی فراہمی کا مطالبہ بھی کیا، ٹی وی ٹاک شوز اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کے حوالے سے عوامی تحریک کے مرکزی سیکرٹریٹ میں ہونے والی ’’اے پی سیز‘‘ اور اجلاسوں میں بھی حصول انصاف کی جدوجہد کی حمایت کی جاتی رہی ہے۔ گزشتہ پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید نے بھی فلور آف دی ہاؤس پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کی مذمت کی اور شریف حکومت کو سانحہ کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ان کے ٹرائل کا مطالبہ کیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اب تحریک انصاف کو عوام نے حکومت کرنے کا مینڈیٹ دیا ہے اور بطور اپوزیشن تحریک انصاف ،انصاف کی فراہمی کے حوالے سے جو کردار ادا نہیں کر سکتی تھی اب بطور حکمران وہ اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔ بہت سارا شہادتی مواد پولیس اور ملکی اداروں کے پاس موجود ہے جو بارہا مانگے جانے کے باوجود شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کو نہیں ملا۔ مثال کے طور پر جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ تو ملی مگر اس سے ملحقہ دستاویزات جن میں بیان حلفی کی کاپیاں شامل تھیں وہ نہیں ملیں۔ اسی طرح سابق حکومت کی ڈمی جے آئی ٹیز کی مکمل دستاویزی پروسیڈنگ بھی نہیں دی گئی۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے موقع پر جس پولیس نفری نے اس قتل عام میں حصہ لیا ان کے متعلق بھی معلومات چھپائی گئیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ سرکاری ادارے پراسیکیوشن کے ذریعے مظلوموں کی مدد کریں اور مطلوبہ دستاویزی ریکارڈ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کو ملنا چاہیے اور یہ ریکارڈ عدالت کے سامنے آنا چاہیے۔

یہ بات خوش آئند ہے کہ عمران خان نے اپنی وکٹری سپیچ میں سادگی اختیار کرنے اور عام آدمی کو ریلیف دینے کی بات کی ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ عام آدمی کو ریلیف دینے کی پالیسیوں کو مرکزیت حاصل ہونی چاہیے۔ زرعی اناج بالخصوص گندم پیدا کرنے والے ملک میں روٹی انتہائی مہنگی بک رہی ہے، غریب خاندان اتنی مہنگی روٹی ،دال، سبزیاں خریدنے کی سکت نہیں رکھتے، مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے کسی غیر ملکی قرضے یا بجٹ کی ضرورت نہیں ہے، حکومتی مشینری کو متحرک کر کے اور کرپشن زدہ ذہنیت کو لگام ڈال کر مصنوعی مہنگائی کو کنٹرول کیاجا سکتا ہے۔

حکومت اپنے پہلے 100دنوں میں اگر عام آدمی کو ریلیف دینا چاہتی ہے تو مصنوعی مہنگائی اور بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کو کنٹرول کرے۔ اس کے علاوہ دور رس پالیسیوں میں تعلیم، اور صحت کے شعبے کو اہمیت دی جائے، سرکاری تعلیمی شعبے کو بنیادی سہولیات سے ہم کنار کر کے اور ہسپتالوں کے اندر بنیادی انفراسٹرکچر اور مطلوبہ سٹاف اور مشینری مہیا کر کے غریب مریضوں کو فوری اور معیاری علاج معالجہ کی سہولتیں فراہم کی جا سکتی ہیں۔ پاکستان کی 50فیصد سے زائد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے اور افسوس اسی ملک کے اندر تعلیم اور صحت کے کاروبار منشیات فروشی کے مکروہ دھندے سے بھی زیادہ منافع بخش کاروبار بن چکے ہیں۔ ان سماجی برائیوں کے سدباب کیلئے بجٹ سے زیادہ قوت ارادی اور مستقل مزاجی درکار ہے۔

پاکستان کو کچھ ایسے مسائل بھی درپیش ہیں جن کی طرف فوری توجہ کی بھی ضرورت ہے، ان میں بین الاقوامی تعلقات بالخصوص اسلامی دنیا کے ساتھ سرد مہری کا شکار تعلقات کو بہتر اور بامقصد بنانا ، غیر ملکی قرضے،انتہا پسندی، دہشتگردی، غیر فعال اور کرپٹ بیوروکریسی کا قبلہ درست کرنے جیسے مسائل شامل ہیں۔ نئی حکومت کو اپنے کام کا آغاز جملہ اداروں کے سربراہان کے ازسرنو تقرر سے کرنا چاہیے۔ جب تک بیوروکریسی کا قبلہ درست نہیں ہوگا۔ ایماندار اور درد دل رکھنے والے تجربہ کار بیوروکریٹس آگے نہیں لائے جائینگے تو تب تک تبدیلی کے حقیقی اثرات اور ثمرات سے عام آدمی محروم رہے گا۔

سابق حکمرانوں نے اہم سرکاری اداروں، کارپوریشنوں ا ور محکموں میں خاندانی نمک خواروں کو بٹھا کر اداروں کا بھٹہ بٹھا دیا، آج ریلوے، پی آئی اے ،سٹیل ملز جیسے دیگر ادارے نااہلی اور اقرباپروری کی وجہ سے قومی خزانہ سالانہ 500 ارب روپے خسارہ برداشت کررہا ہے۔ سابق حکمرانوں کا یہ طریقہ واردات رہا ہے کہ وہ منافع میں چلنے والے اداروں کو خسارے میں چلنے والے ادارے بناتے ہیں اور پھر اس کے خسارے سے جان چھڑانے کے نام پر قومی اداروں کو اپنے ہی حواریوں کے ہاتھ اونے پونے فروخت کر دیتے تھے۔ اب اگر محکموں اور اداروں کو خسارے سے نکال کر پاؤں پر کھڑا کرنا ہے تو پھر پہلے مرحلے میں ایماندار سربراہان کا تقرر عمل میں لانا ہو گا۔ کسی بھی حکومت کی پالیسیوں پر عملدرآمد بیوروکریسی کرتی ہے، قومی جسم میں بیوروکریسی کی حیثیت دل جیسی ہے، اگر دل ٹھیک طرح سے کام کرے گا تو پورے جسم میں صاف خون کی ترسیل بلاتعطل جاری رہے گی اور اگر دل خراب ہو گا تو پھر جسم کی موت یقینی ہے۔ اس وقت عام آدمی کو ریلیف دینے کیلئے مصنوعی مہنگائی کو ختم کرنے کے بعد تعلیم، صحت اور روزگار پر خصوصی توجہ دینی ہو گی۔ غریب خاندان اپنے بچوں کی مناسب تعلیم و تربیت کی وجہ سے بے پناہ مشکلات کا شکار ہیں۔ اسی طرح ہسپتالوں کے نظام کو بہتر بنانے پر زیادہ سے زیادہ وسائل مختص کرنا ہونگے۔اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ وسائل محدود، توقعات بہت زیادہ اور وقت قلیل ہے۔