سانحہ ماڈل ٹاؤن: ’’اشرافیہ‘‘ اقتدار میں خود کو قانون سے بالاتر سمجھتی تھی

چیف ایڈیٹر: نوراللہ صدیقی

14 مارچ 2019ء کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے تحقیقات کرنے والی نئی جے آئی ٹی کے نمائندے نے احتساب عدالت راولپنڈی سے سابق نااہل وزیراعظم میاں نواز شریف کا بیان قلمبند کرنے کی تحریری اجازت مانگی جو جے آئی ٹی کو دے دی گئی۔ جے آئی ٹی نے درخواست دی تھی کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے تناظر میں جے آئی ٹی تحقیقات کررہی ہے اور اس ضمن میں سابق وزیراعظم کا موقف درکار ہے۔

پاکستان عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن کی مرکزی قیادت کا اول روز سے یہ موقف رہا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن محض تجاوزات ہٹانے کا آپریشن نہیں تھا بلکہ اس کا مقصد عوامی تحریک کی سیاسی جدوجہد کو بلڈوز کرنا تھا جس کا اعلان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کیا تھا۔ جے آئی ٹی کو نواز شریف کا بیان قلمبند کرنے کی اجازت ملنے کے بعد ن لیگ کے رہنماؤں نے روایتی الزام تراشی اور بیان بازی کا سہارا لیتے ہوئے اسے عوامی تحریک اور تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کا گٹھ جوڑ قرار دیا اور کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن ن لیگ کی حکومت کے خلاف ایک سازش تھا۔ جھوٹ گھڑنا اور ڈھٹائی کے ساتھ بولنا ن لیگ کے رہنماؤں کی فطرت ثانیہ بن چکی ہے اور جھوٹ بولتے بولتے اس کی مرکزی قیادت جیلوں کے پیچھے پہنچ گئی مگر وہ آج بھی سچائی کا سامنا کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن اگر ن لیگ کی حکومت کے خلاف کوئی سازش تھا تو سانحہ کے بعد چار سال سے زائد عرصہ تک پنجاب اور مرکز میں ن لیگ کی حکومت برسراقتدار تھی، تمام تفتیشی ادارے اور اہم ایجنسیز ان کے ماتحت تھیں، ساڑھے چار سال میں لیگی حکمران اس سازش کو بے نقاب کیوں نہیں کر سکے؟

شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی غیرجانبدار تفتیش کروائی جائے اور پھر جو بھی فیصلہ ہو گا اسے قبول کیا جائے گا۔ یہی مطالبہ 17جون 2014ء کی شام کو بھی تھا، یہی مطالبہ دھرنے کے دوران بھی تھا اور شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء یہی موقف اور مطالبہ لے کر سپریم کورٹ آف پاکستان میں گئے اور ان کی بات سنی گئی۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ماسٹر مائنڈ شریف برادران ہیں، سانحہ ماڈل ٹاؤن کی پلاننگ وزیراعظم ہاؤس اور ایوان وزیراعلیٰ پنجاب میں ہوئی، اس منصوبہ بندی میں نواز شریف بھی شامل تھے، ہمارا یہ موقف نیا نہیں ہے، اب اہم سوال یہ ہے کہ نواز شریف سانحہ ماڈل ٹاؤن میں کس طرح ملوث ہیں؟

  1. 15 جون 2014ء کے دن مرکزی رہنماؤں خرم نواز گنڈاپور، چودھری فیاض احمد وڑائچ اور سید الطاف حسین شاہ کو ماڈل ٹاؤن ایچ بلاک بلا کر نواز شریف کی موجودگی میں کہا گیا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی وطن واپسی رکوائیں، بصورت دیگر سنگین نتائج کیلئے تیار رہیں۔
  2. سانحہ ماڈل ٹاؤن سے دو روز قبل پنجاب میں اہم افسران کے تقرر و تبادلے شروع ہو گئے تھے، بڑی تبدیلی آئی جی پنجاب کی تھی، مشتاق سکھیرا کو راتوں رات بلوچستان سے پنجاب لایا گیا اور 17 جون 2014ء کے دن مشتاق سکھیرا نے بطور آئی جی پنجاب چارج سنبھالا۔ ان کے چارج سنبھالتے ہی ماڈل ٹاؤن میں قائد تحریک منہاج القرآن ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی رہائش گاہ اور منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ پر ہلہ بول دیا گیا۔ سیدھی فائرنگ اور شیلنگ سے درجنوں کارکنان جن میں خواتین بھی شامل تھیں کو خون میں نہلا دیا گیا۔ مشتاق سکھیرا کی ٹرانسفر اور پوسٹنگ وفاقی حکومت کی منظوری کے بغیرنہیں ہو سکتی تھی، اس کی منظوری بطور وزیراعظم نواز شریف نے دی تھی۔ جسٹس باقرنجفی کمیشن کی رپورٹ میں بھی اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ آئی جی پنجاب کی ٹرانسفر کے ضمن میں ٹھوس انتظامی وجوہات بیان نہیں کی جاسکیں۔ یہ سوال نواز شریف سے پوچھا جانا ضروری تھا کہ وفاقی حکومت نے آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کا ہنگامی بنیاد پر تبادلہ کیوں کیا؟ چونکہ نواز شریف جب تک اقتدار میں تھے وہ ’’ان ٹچ ایبل‘‘تھے اور خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے تھے۔ کوئی غیر جانبدار تفتیشی ٹیم تو درکنار ان کی اپنی بنائی ہوئی جعلی جے آئی ٹیز بھی ان سے سوال و جواب کی جرأت نہ کر سکیں۔ جب تک اس سوال کا جواب نہ آ جائے غیر جانبدار تفتیش کی تکمیل کے قانونی تقاضے پورے نہیں ہو سکتے۔
  3. سانحہ ماڈل ٹاؤن کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے سانحہ کے روز اور سانحہ کے بعد کے واقعات نواز شریف کے سانحہ میں ملوث ہونے کے ناقابل تردید شواہد فراہم کرتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک ثبوت سانحہ کے بعد قائد تحریک منہاج القرآن ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی وطن واپسی پر ان کے طیارے کا رخ تبدیل کرنا اور انہیں اسلام آباد ایئرپورٹ اترنے کی اجازت نہ دینا نواز شریف کے ملوث ہونے کا ایک اور بڑا ثبوت ہے کیونکہ سول ایوی ایشن کا محکمہ وفاق کے ماتحت ہے اور اس وقت وفاق میں چیف ایگزیکٹو (وزیراعظم) نواز شریف تھے، انہی کے حکم پر طیارے کا رخ بدلا گیا۔ نواز شریف سے یہ پوچھا جانا ضروری ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے طیارے کا رخ کس کے حکم پر اور کیوں بدلا گیا؟

اسی طرح سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد نواز شریف کی خاموشی، سانحہ کی مذمت نہ کرنا، صوبائی حکومت سے رپورٹ طلب نہ کرنا اور سانحہ کی غیر جانبدار انکوائری میں دلچسپی نہ لینا اس بات کے شواہد ہیں کہ نواز شریف اس میں ملوث ہیں اور وہ غیر جانبدار تفتیش سے خوفزدہ ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت سارے شواہد ہیں جو جے آئی ٹی میں پیش کیے گئے ہیں، جو نواز شریف کو سانحہ کا ماسٹر مائنڈ ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں۔

یہ بات خوش آئند ہے کہ پونے پانچ سال کے بعد پہلی بار سانحہ کے ماسٹر مائنڈز سے سوال و جواب ہونے جارہے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ غیر جانبدار تفتیش ہی انصاف کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے۔ عدالتیں شواہد کی بنیاد پر فیصلے سناتی ہیں۔ ماضی میں شہباز حکومت نے سانحہ کے شواہد کو ختم کرنے میں ریاستی طاقت استعمال کی، سانحہ کی جھوٹی ایف آئی آر کے اندراج سے لے کر گمراہ کن تفتیش تک ہر مرحلہ پرانصاف کا خون کیا گیا کیونکہ شہباز حکومت کا مقصد انصاف کرنا نہیں تھا بلکہ انصاف کا گلا گھونٹنا تھا کیونکہ وہ اس سانحہ کے براہ راست ذمہ دار اور ماسٹر مائنڈ تھے۔

یہاں پر ہم قائد تحریک منہاج القرآن ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو بطور خاص خراج تحسین پیش کریں گے کہ جنہوں نے مسلسل حصول انصاف کی جنگ لڑی، کیس کو داخل دفتر نہ ہونے دیا اور جب غیر جانبدار جے آئی ٹی کی تشکیل کا فیصلہ کن مرحلہ آیا تو وہ خود سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور انہوں نے نئی جے آئی ٹی کی تشکیل کے حوالے سے دلائل دئیے، سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں بھی دلائل دئیے اور دسمبر 2018ء میں لارجر بنچ کے روبرو اسلام آباد میں بھی سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے سامنے دلائل کے ڈھیر لگائے اور لارجر بنچ کو نئی جے آئی ٹی کی تشکیل کی ناگزیریت کے حوالے سے مطمئن کیا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں پاکستان کے شہریوں کا بے دردی سے خون بہایا گیا، ان سے انصاف کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے ،پہلے ہی بہت زیادہ تاخیر ہو چکی ہے۔ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء امید رکھتے ہیں کہ تفتیش اور ٹرائل کے مراحل بلاتاخیر مکمل ہوں گے اور سانحہ کے ذمہ دار نشان عبرت بنیں گے۔