اختلافِ رائے اور اتفاق و اتحاد

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری

انفرادی اور اجتماعی سطح پر معاشرے کے کسی بھی فرد، گروہ یا مکتبِ فکر سے ان کے افکار و نظریات اور کردار کی بنیاد پر عدمِ یکسانیت کے اظہار کو اختلاف کہتے ہیں۔ اختلاف، انسانی فطرت کا خاصہ اور کائنات کا تنوع ہے۔ کائنات کی ہر چیز میں ہمیں اختلاف دیکھنے کو ملتا ہے اور یہی اختلاف در حقیقت کائنات کا اصل حسن ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کائنات کی تمام اشیاء میں اختلاف ہونے کے باوجود باہمی مخالفت نہیں ہے۔ کائنات اور تمام مخلوقات کے درمیان یہ اختلاف اور فرق مشیتِ ایزدی کے عین مطابق ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَمِنْ اٰیٰـتِهٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِـلَافُ اَلْسِنَتِکُمْ وَاَلْوَانِکُمط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتِ لِّلْعٰلِمِیْنَ.

’’اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی تخلیق (بھی) ہے اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف (بھی) ہے، بے شک اس میں اہلِ علم (و تحقیق) کے لیے نشانیاں ہیں۔‘‘

(الروم: 22)

لیکن اس فطری اختلاف کے باوجود قرآنِ حکیم مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ فرقوں میں بٹنے کی بجائے باہم متحد رہیں۔ ارشاد ہوتا ہے:

وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اﷲِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اﷲِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَالَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖٓ اِخْوَانًاج وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْهَاط کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اﷲُ لَکُمْ اٰیٰـتِهٖ لَعَلَّکُمْ تَهْتَدُوْنَ.

’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو، اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے، اور تم (دوزخ کی) آگ کے گڑھے کے کنارے پر (پہنچ چکے) تھے پھر اس نے تمہیں اس گڑھے سے بچا لیا، یوں ہی اللہ تمہارے لیے اپنی نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ‘‘۔

(آل عمران: 103)

اختلافِ رائے کا فلسفہ

اختلاف رائے جیسے موضوع پر بات کرنا ایک مشکل ترین عمل ہے کیوں کہ اختلاف کے اندر تنازعات پیدا ہونے کی گنجائش باقی ہوتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتحاد کے فلسفے کو کیسے سمجھا جا سکتا ہے؟ کیا اتحاد سے مراد سب انسانوں کا یکساں سوچنا اور مشترک اعمال سر انجام دینا ہے؟ یا اس سے مراد یہ ہے کہ تمام مسلمان اپنے درمیان پائے جانے والے مختلف اختلافات کے باوجود خود کوایک کمیونٹی تصور کریں؟

اس مسئلہ کے حل کے لیے ضروری ہے کہ اختلافِ رائے کو تسلیم کیا جائے کیوں کہ اختلافِ رائے انسانی زندگی کا حصہ ہے اور اس سے مسائل اورتنازعات تب جنم لیتے ہیں جب ہم ایک دوسرے کے اختلافات کو قبول نہیں کرتے اور یہی رویہ ہے جو ہمیں اختلاف کی طرف نہیں بلکہ باہمی کشمکش کی طرف لے جاتاہے۔

امت کا اختلاف اس وقت تک رحمت ہے جب تک یہ علمی حلقوں اور علماء کے دائروں میں محدود رہے لیکن جب یہ اختلاف علمی اجتہاد و ارتقاء کی بجائے، سیاسی مقاصد‘ منفعت براری اور حصولِ جاہ و منزلت کے لئے استعمال ہونے لگے تو پھر یہ اختلاف باعثِ رحمت و ثواب نہیں بلکہ باعث زحمت و عذاب بن جاتا ہے، جس کے نتیجے میں امتِ مسلمہ کی وحدت پارہ پارہ ہو جاتی ہے۔ ہرشخص کوچہ و بازار میں اختلافی مسائل کو ہوا دینے لگتا ہے اور فروعات میں الجھ کر ہمہ وقت ایک دوسرے سے دست و گریبان ہو کر مرنے مارنے پر اتر آتا ہے۔ اس ماحول میں اختلافات دشمنی کا روپ دھار لیتے ہیں اور مسلمان مسلمان کے خون کا پیاسا بن جاتا ہے۔ باہمی محبت و مودت کے تمام رشتے ٹوٹ جاتے ہیں اور مسلمان ہو کر بھی ایک دوسرے کو کافروں سے بدتر سمجھنے لگتے ہیں۔

تاریخِ اسلامی میں ابتداء سے ہی مسلمانوں کو تنوَّع (diversity) کا سامنا رہا ہے۔ اگر قرآن مجید کی تفسیر کو دیکھا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہر آیتِ مبارکہ میں معنوی اعتبار سے آراء کی ایک وسیع گنجائش موجود ہے۔ یہی معاملہ قانون اور مذہب کی امہات الکتب کا بھی ہے۔ ہمیں قرونِ اولیٰ و وسطیٰ کے علماء اور فقہاء کے مابین کئی مسائل پر اختلافِ رائے کی مثالیں ملتی ہیں لیکن ان میں اختلافات کبھی تنازعہ کا باعث نہیں بنے۔ اگر ایسا ہوتا تو مسلم کمیونٹی کبھی آگے نہ بڑھ سکتی۔ مسلم علماء و فقہاء نے ان اختلافات پر رد عمل کے طور پر اکثر نرمی اور بسا اوقات سختی والا رویہ بھی اختیار کیا لیکن کبھی ایسا نہ ہوا تھا کہ انہوں نے ایک دوسرے کو بدعتی اور مرتد قرار دیا ہو۔ عظیم علماء اور فقہائے اسلام نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اسوہ کی روشنی میں باہمی اختلافات ہونے کے باوجود احترامِ رائے کا ایک معیار مقرر کیا ہے۔

حضرت ابو جعفر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اصحابِ شوریٰ سے ارشاد فرمایا:

تشاوروا في أمرکم؛ فإن کان اثنان واثنان فارجعوا في الشوری، وإن کان أربعة واثنان فخذوا صنف الأکثر.

’’اپنے امور میں باہمی مشورہ کیا کرو۔ اگر کسی مسئلہ پر تمہاری رائے‘ دو اور دو میں مساوی تقسیم ہو جائے تو پھر اسے شوریٰ میں لے جاؤ۔ اگر رائے کی تقسیم چار اور دو میں ہوجائے تو اکثریتی رائے کو اپنالو۔‘‘

(ابن سعد، الطبقات الکبری، 3: 61)

آپ کا یہ عمل اختلافِ رائے کو تسلیم کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عبد الحکم بیان کرتے ہیں کہ حضرت مالک بن انس رضی اللہ عنہ سے ہارون الرشید نے تین باتوں میں مشاورت لی۔ ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ مؤطا کو کعبہ معظمہ کی دیوار پر لٹکا دیں تاکہ احادیث مبارکہ کی صورت میں جو کچھ اس میں موجود ہے، لوگ اس سے استفادہ کریں اور رہنمائی حاصل کریں۔

اس پر حضرت مالک بن انس رضی اللہ عنہ کا جواب یہ تھا:

اے امیر المومنین! (جہاں تک) مؤطا کو کعبہ پر لٹکانے کی بات ہے (تو یہ بات ذہن میں رہے کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کا فروعی مسائل میں اختلاف رہا اور وہ دنیا کے اطراف و اکناف میں پھیل گئے (جہاں ان کے پیروکار بھی ہیں)۔ ان میں سے ہر ایک (سنت نبوی پر عامل ہونے کے سبب) اپنے تئیں درست ہے۔ (لہٰذا مؤطا پر اجماع محال ہوگا۔)

(أبو نعیم، حلیة الأولیاء وطبقات الأصفیاء، 6: 332)

آپ رضی اللہ عنہ کے اس رویے سے معلوم ہوا کہ فقہاء نہ صرف اختلاف رائے کی حقیقت کو تسلیم کرتے تھے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے تا کہ مثبت اجتہادی رویے پروان چڑھیں۔ اختلاف سے متعلق مسلم علماء و فقہاء کا رویہ بنیادی معاملات اور ثانوی معاملات (اصول و فروع) کے حوالے سے انتہائی محتاط تھا۔ ثانوی یعنی فروعی مسائل اور معاملات کے حوالے سے اختلاف کو تسلیم کیا جاتا تھا، جب کہ دین کے بنیادی ماخذ اور اُصول میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا تھا۔ لیکن اس حوالے سے کبھی مکمل اتفاق رائے نہیں رہا کہ ان بنیادی اصولوں کو کس طرح بیان کیا جائے۔ یعنی تمام اسلامی فرقوں کے درمیان بنیادی و اعتقادی قدریں سب مشترک رہی ہیں اور اختلاف صرف فروعی حد تک ہوتا تھا۔ کیوں کہ عقیدہ ہر انسان بالخصوص مسلمان کے تمام اعمال کی اساس ہوتا ہے۔ اس میں بگاڑ یا اختلاف واقع ہو جائے تو اس کے اثرات پوری زندگی کے افعال و اعمال پر مترتب ہوتے ہیں۔

بحمداللہ مسلمانوں کے تمام مسالک اور مکاتبِ فکر میں عقائد کے بارے میں کوئی بنیادی اختلاف موجود نہیں ہے‘ البتہ فروعی اختلافات صرف جزئیات اور تفصیلات کی حد تک ہیں جن کی نوعیت تعبیری اور تشریحی ہے۔ اس لئے تبلیغی امور میں بنیادی عقائد کے دائرہ کو چھوڑ کر محض فروعات و جزئیات میں الجھ جانا اور ان کی بنیاد پر دوسرے مسلک کو تنقید و تفسیق کا نشانہ بنانا کسی طرح دانشمندی اور قرینِ انصاف نہیں۔

اس فروعی تقسیم اور بعض اوقات شدید رد عمل کے باوجود بھی مسلم دنیا کا اتحاد غیر معمولی رہا ہے۔ خراسان کا ایک مسلم بآسانی اندلس اور اس کے گرد و نواع میں سفر کر سکتا تھا، نماز ادا کرسکتا تھا، کھا، پی سکتا تھا۔ اسلام ہرگز مختلف فرقوں میں تقسیم نہیں ہے جن کے الگ الگ مذہبی نظریات ہوں۔ مسلمانوں کے درمیان ایک بڑی تقسیم شیعہ اور سنی کی ہے جو عقیدے سے زیادہ سیاسی نوعیت کی ہے۔ تا ہم کم و بیش تمام مسلمانوں میں بنیادی قدریں مشترک ہیں۔

اگرچہ قدیم علماء کے درمیان بہت زیادہ اختلافات اور علمی مناظرے اور مباحث ہوتی تھیں لیکن اس کے باوجود مسلم دنیا علم و معرفت اور ثقافتی او تکنیکی ترقیوں کا عظیم مینار رہی ہے۔ ان میں موجود اختلافات، افتراق و انتشار پھیلانے کا باعث نہیں بنے تھے۔ جب کہ آج صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔ امتِ مسلمہ من حیث الکل باہمی افتراق و انتشار کا شکار ہے جس کی بنیادی وجہ انتہا پسندی اور اختلافِ رائے کا احترام نہ کرنا ہے۔ ہر شخص اور مکتبہ فکر خود کو درست ثابت کرنے کے لیے دوسرے کو غلط کہہ کر کافر و مشرک اور بدعتی قرار دے رہا ہے۔

ہمارے ہاں انتہا پسندی کے سفر کی ابتداء یہ تھی کہ دوسرے مسالک کے لوگوں کو کافر و مشرک قرار دیا جائے۔ پھر اپنے مسلک کے جابرانہ غلبے کی خواہش نے انہیں اسلام کے اجتماعی مفاد اور تحفظ سے یکسر غافل کر دیا۔ وہ اپنے مسلک اور عقائد کے غلبے کو ہی اسلام کے غلبے سے تعبیر کرنے لگے اور اس کی راہ میں حائل ہونے والے ہر عقیدے اور مسلک کو فتویٰ کی مشینوں اور اسلحہ کے زور سے ختم کرنے میں لگ گئے۔ یہی سوچ اور عمل بڑھتے بڑھتے دہشت گردی پر جا کر منتج ہوا۔ طرزِ فکر و عمل وہی تھا، مگر نئے حالات میں سمت اور اَہداف بدل گئے۔ اس وقت مفسدین کی مسلح آویزش، انتہا پسندی اور دہشت گردی نے اسلام کے تحفظ اور ملتِ اسلامیہ کی سلامتی کو معرضِ خطر میں ڈال دیا ہے۔

مذکورہ بالا صورتِ حال کے نتیجے میں امتِ مسلمہ کو اقوام عالم میں وہ مقام اور مرتبہ حاصل نہیں رہا جو مسلمانوں کے شاندار ماضی میں امت کو نصیب تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ باہمی اختلاف و نزاع اور تفرقہ پروری کے نتیجے میں قوموں کا وقار مجروح اور رعب و دبدبہ ختم ہو جاتا ہے اور دشمنوں کی نظر میں ان کی حیثیت بالکل گر جاتی ہے۔

جسدِ ملت میں فرقہ پرستی اور تفرقہ پروری کا زہر اس حد تک سرایت کر چکا ہے کہ نہ صرف اس کے خطرناک مضمرات کا کما حقہ احساس و ادراک ہر شخص کے لئے ضروری ہے بلکہ اس کے تدارک اور ازالے کے لئے موثر منصوبہ بندی کی بھی اشد ضرورت ہے۔ ہمارے گرد و پیش تیزی سے جو حالات رونما ہو رہے ہیں،انکی نزاکت اور سنگینی اس امر کی متقاضی ہے کہ ہم نوشتہ دیوار پڑھیں اور اپنے درمیان سے نفرت، بغض، نفاق اور انتشار و افتراق کا قلع قمع کرکے باہمی محبت و مودّت‘ اخوت و یگانگت، یک جہتی اور اتحاد بین المسلمین کو فروغ دینے کی ہر ممکن سعی کریں کہ اسی میں ہماری بقاء اور فلاح و نجات مضمر ہے۔

حاصلِ کلام

مذکورہ بالا بحث سے ثابت ہوا کہ اختلاف، انسانی زندگی کا حصہ ہے اگر اس اختلاف کو افرادِ معاشرہ خندہ پیشانی سے تسلیم کریں اور دوسروں پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی بجائے ان کی رائے کا احترام کریں تو اس عمل سے سوچ اور عمل کی نئی راہیں کھلتی ہیں اور دوسروں کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔ اس صورت میں اختلاف باعثِ رحمت رہتا ہے۔ اس کے برعکس اگر اسی اختلاف کو عقیدے کا مسئلہ بنا کر خود کو حق پر سمجھتے ہوئے دوسروں کو کافر و مشرک اوربدعتی سمجھا جانے لگے تو ایسی صورتِ حال انتشار، افتراق اور بدامنی کو جنم دیتی ہے اور یہ اختلاف باعثِ زحمت ثابت ہوتا ہے، لہٰذا آج ضرورت اس امر کی ہے کہ امتِ مسلمہ باہمی تفرقہ اور انتشار کا شکار رہنے کی بجائے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرے اور ایک دوسرے کے اختلافات کو مخالفت اور تنازعات میں نہ بدلے بلکہ اختلافِ رائے کا احترام کرتے ہوئے دینِ اسلام کے فروغ کے لیے اپنی کاوشوں کو صرف کرے۔ اس حوالے سے مسلمانوں کے لیے اسلامی تاریخ کے قرونِ اولیٰ و و سطیٰ میں ایک قابل تقلید نمونہ موجود ہے۔