الفقہ: عشرہ ذوالحجہ اور حج کی فضیلت و اہمیت

مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

سوال: عشرہ ذوالحجہ کی کیا فضیلت ہے؟

جواب: حج و قربانی کی مناسبت سے ماہ ذوالحجہ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس قدر برکتیں اور سعادتیں عطا کر رکھی ہیں کہ آقائے دو جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادکے مطابق ذوالحجہ کی پہلی دس راتوں میں سے ہر رات اپنی عظمت میں لیلۃ القدر کے برابر ہے۔ جیسے لیلۃ القدر کی رات کی ساعتیں اللہ کے بندوں کی مغفرت و بخشش کا سامان لئے ہوئے وارد ہوتی ہیں اور جن میں اخلاص کے ساتھ بندہ اپنے رب سے جو بھی خیر طلب کرتا ہے تو وہ اسے عطا کر دی جاتی ہے۔ اسی طرح ماہ ذوالحجہ کی پہلی دس راتوں کو عظمت و فضیلت کا وہ خزانہ عطا کیا گیا ہے کہ ہر ایک رات رمضان المبارک کی لیلۃ القدر کے برابر ہے۔ جس طرح رمضان المبارک کی برکتوں کو سمیٹ کر عید الفطر میں رکھ دیا گیا اور اس دن کو خوشی کے دن کے طور پر مقرر کر دیا گیا۔ ان دس راتوں کے اختتام پر اللہ رب العزت نے عیدالاضحٰی کے دن کو مسرت و شادمانی کے دن کی صورت میں یادگار حیثیت عطا کر دی۔ اس دن کو عرف عام میں قربانی کی عید کہتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مامن ایام العمل الصالح فیهن احب الی الله من هذه الایام العشرة قالوا: یارسول الله ولا الجهاد فی سبیل الله، قال: ولا الجهاد فی سبیل الله الا رجل خرج بنفسه وماله فلم یرجع من ذلک بشئی.

’’ان دس دنوں (عشرہ ذی الحجہ) میں اللہ تعالیٰ کے حضور نیک عمل جتنا پسندیدہ و محبوب ہے کسی اور دن میں اتنا پسندیدہ و محبوب تر نہیں۔ صحابہ کرام نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اللہ کے راستہ میں جہاد بھی نہیں؟ فرمایا: جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں۔ ہاں وہ شخص جو اپنی جان اور مال کے ساتھ نکلا اور کچھ لے کر گھر نہ لوٹا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ما من ایام احب الی الله ان یتعبدله فیها من عشر ذی الحجة، یعدل صیام کل یوم منها بصیام سنة وقیام کل لیلة منها بقیام لیلة القدر. (ترمذی، ابن ماجه)

’’اللہ تعالیٰ کو اپنی عبادت بجائے دوسرے اوقات و ایام میں کرنے کے عشرہ ذوالحجہ میں کرنی محبوب تر ہے۔ اس کے ایک دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور اس کی ایک ایک رات کا قیام، لیلۃ القدر کے قیام کے برابر ہے‘‘۔

قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں عشرۂ ذی الحجہ میں جن اعمال کے کرنے کی فضیلت آئی ہے وہ درج ذیل ہیں:

1۔ ذکرِ الٰہی کا اہتمام کرنا

اللہ عزوجل نے قرآن پاک میں ان دس دنوں میں اپنا ذکر کرنے کا خصوصی طور پر تذکرہ فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہیـ:

وَیَذْکُرُوا اسْمَ ﷲِ فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ.

’’اور (قربانی کے) مقررہ دنوں کے اندر اﷲ نے جو مویشی چوپائے ان کو بخشے ہیں ان پر (ذبح کے وقت) اﷲ کے نام کا ذکر بھی کریں‘‘۔

(الحج، 22: 28)

صحابہ کرام اور محدثین و مفسرین کے نزدیک ان ایام معلومات سے مراد عشرۂ ذی الحجہ کے دس دن ہیں۔

2۔ کثرت سے تہلیل، تکبیر اور تحمید کہنا

امام احمد نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

کوئی دن بارگاہ الٰہی میں ان دس دنوں سے زیادہ عظمت والا نہیں، اور نہ ہی کسی دن کا (اچھا) عمل اللہ کو ان دس دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب ہے پس تم ان دس دنوں میں کثرت سے لا الٰہ الا اللہ، اللہ اکبر اور الحمد للہ کہو۔

سلف صالحین اس عمل کا بہت اہتمام کیاکرتے تھے۔ امام بخاری نے بیان کیا ہے کہ ان دس دنوں میں حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنھما تکبیر کہتے ہوئے بازار نکلتے تو دوسرے لوگ بھی ان کے ساتھ تکبیر کہنا شروع کردیتے۔

3۔ بال اور ناخن وغیرہ نہ کاٹنا

کوئی شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہو اور ذی الحجہ کا مہینہ شروع ہوجائے تو اسے چاہئے کہ قربانی کرنے تک اپنے ناخن اور بال وغیرہ نہ کاٹے۔ ام المومنین سیدہ ام سلمہj سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اذا دخل العشر واراد بعضکم ان یضحی فلا یاخذن شعرا ولا یقلمن ظفرا.

’’جب ماہ ذی الحجہ کا چاند نظر آئے اور تم میں کوئی قربانی کا ارادہ کرے تو اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے‘‘۔

(صحیح، مسلم، 3: 1565، رقم: 1977)

سوال: حج کی اہمیت و فضیلت کے متعلق رہنمائی فرمادیں؟

جواب: حج اسلام کا بنیادی رکن ہے۔ یہ ہر اس شخص پر زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے جو صاحبِ استطاعت ہو۔ حج اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ایک ایسا رکن ہے جو اجتماعیت اور اتحاد و یگانگت کا آئینہ دار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَ ِﷲِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلاً.

’’اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو‘‘۔

(آل عمران: 97)

حج کرنے والے کے لئے جنت ہے۔ حجاج کرام خدا کے مہمان ہوتے ہیں اور ان کی دعا قبولیت سے سرفراز ہوتی ہے۔ یہ نفوس ہر قسم کی برائی کا خاتمہ کرنے کا عہد کرتے ہوئے نیکیوں کے حصول کی جانب ایک نئے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص زندگی میں استطاعت کے باوجود حج نہ کرے تو وہ رب کائنات کی رحمتوں سے نہ صرف محروم ہوجاتا ہے بلکہ ہدایت کے راستے بھی اس کے لئے مسدود ہوجاتے ہیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اَلْعُمْرَةُ إِلَی الْعُمْرَةِ کَفَّارَةٌ لِمَا بَیْنَهُمَا، وَالْحَجُّ الْمَبْرُوْرُ لَیْسَ لَهُ جَزَائٌ إِلاَّ الْجَنَّةُ.

’’ایک عمرہ سے دوسرے عمرہ تک کا درمیانی عرصہ گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور (مقبول) کا بدلہ جنت ہی ہے۔‘‘

( صحیح بخاری، ابواب العمرة، 2: 629، رقم: 1683)

استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ اپنے ذمہ کرم سے نکال دیتا ہے۔ حضرت ابو امامہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَنْ لَمْ یَمْنَعْهُ مِنَ الْحَجِّ حَاجَةٌ ظَاهِرَةٌ أَوْ سُلْطَانٌ جَائِرٌ أَوْ مَرَضٌ حَابِسٌ، فَمَاتَ وَلَمْ یَحُجَّ فَلْیَمُتْ إِنْ شَآءَ یَهُوْدِیًّا وَإِنْ شَآءَ نَصْرَانِیًّا.

’’جس شخص کو فریضۂ حج کی ادائیگی میں کوئی ظاہری ضرورت یا کوئی ظالم بادشاہ یا روکنے والی بیماری (یعنی سخت مرض) نہ روکے اور وہ پھر (بھی) حج نہ کرے اور (فریضہ حج کی ادائیگی کے بغیر ہی) مر جائے تو چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر (اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی فکر نہیں ہے)۔‘‘

(الترمذی فی السنن کتاب الحج عن رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم باب: ماجاء فی التغلیظ فی ترک الحج، 3: 176، رقم: 812)

اس عظیم سعادت کو حاصل کرنے والے کو بخشش کی نوید سناتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اَلْحُجَّاجُ وَالْعُمَّارُ وَفْدُ ﷲِ. إِنْ دَعَوْهُ أَجَابَهُمْ، وَإِنِ اسْتَغْفَرُوْهُ غَفَرَ لَهُمْ.

’’حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں، وہ اس سے دعا کریں تو ان کی دعا قبول کرتا ہے اور اگر اس سے بخشش طلب کریں تو انہیں بخش دیتا ہے۔ (ایک روایت میں) جہاد کرنے والا، حج کرنے والا اور عمرہ کرنے والا (کے الفاظ بھی ہیں)۔‘‘

(سنن ابن ماجه، کتاب المناسک، 2: 9، رقم: 2892)

حجاج کی فضیلت بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَنْ دَخَلَ الْبَیْتَ دَخَلَ فِي حَسَنَةٍ وَخَرَجَ مِنْ سَیِّئَةٍ مَغْفُوْرًا لَهُ.

’’جو شخص بیت اللہ میں داخل ہوگیا وہ نیکی میں داخل ہوگیا اور برائی سے خارج ہو کر مغفرت پا گیا۔‘‘

(ابن خزیمه فی الصحیح، 4: 332، رقم: 3013)

سوال: کیا حج کے سفری اخراجات کے برابر مالیت کے زیورات یا مال و دولت کے مالک پر حج فرض ہے؟

جواب: حج ہر مسلمان پر فرض نہیں ہے بلکہ حج کی فرضیت کے لیے عاقل و بالغ ہونے کے ساتھ صاحبِ استطاعت وقدرت ہونا ضروری ہے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اﷲ تعالیٰ کے فرمان (جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو) کے متعلق پوچھا گیا کہ سبیل سے کیا مراد ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

الزَّادُ وَالرَّاحِلَةُ.

’’سامانِ سفر اور سواری‘‘۔

(حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 4: 609، رقم: 1614)

گویا استطاعت سے مراد سفری اخراجات کی دستیابی اور عزت وآبرو کا تحفظ ہے۔ اس لیے اگر کسی مرد و عورت کے پاس اپنی ضرورت اور استعمال سے زائد مال و دولت اور زیورات موجود ہیں جن کی مالیت حج کے سفری اخراجات کے برابر ہے تو اس پر حج فرض ہے۔

سوال: کیا حج کے سفری اخراجات کے برابر مالیت کے زیورات یا مال و دولت کے مالک پر حج فرض ہے؟

جواب: 8 ذی الحجہ سے 12 ذی الحجہ کے پانچ دن ایام حج کہلاتے ہیں۔ انہی ایام میں حج کے جملہ مناسک ادا کرنا ہوتے ہیں۔

8 ذالحجہ... منیٰ کو روانگی

حجاج 8 ذی الحجہ کو مکہ مکرمہ میں نماز فجر ادا کرکے سورج نکلتے ہی منیٰ کی جانب روانہ ہوجاتے ہیں۔ سفر میں تلبیہ کی کثرت کی جاتی ہے۔ منیٰ پہنچ کر ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھنے کے بعد رات یہیں قیام کرتے ہیں اور 9 ذی الحجہ کی نماز فجر بھی منیٰ میں ادا کرتے ہیں۔

9 ذی الحجہ... وقوف عرفات

نماز فجر منیٰ میں ادا کرنے کے بعد سورج نکلنے پر عرفات کی طرف روانگی ہوتی ہے اور عرفات میں ظہر و عصر کی نمازیں ظہر کے وقت ملاکر پڑھی جاتی ہیں۔

میدان عرفات میں اسی قیام کو وقوف عرفات کہتے ہیں جو حج کا سب سے اہم رکن ہے۔ اگر کسی وجہ سے 9 ذی الحجہ کے دن یا اس رات بھی کوئی یہاں پہنچنے سے رہ جائے تو اسکا حج نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کی تلافی کی کوئی گنجائش ہے۔

مزدلفہ میں قیام

اس دن غروب آفتاب کے وقت عازمین مغرب کی نماز پڑھے بغیر مزدلفہ روانہ ہوجاتے ہیں۔ مزدلفہ میں نماز عشاء کے وقت میں مغرب و عشاء کی نماز جمع کرکے پڑھی جاتی ہیں۔ رات مزدلفہ میں ہی قیام ہوتا ہے۔

10 ذی الحجہ... منٰی روانگی

فجر کی نماز کے بعد مزدلفہ میں توقف کرنا واجب ہے۔ بعد ازاں عازمین منیٰ کو روانہ ہوتے ہیں۔ منیٰ پہنچ کر حجاج کرام کو تین واجبات بالترتیب اداکرنے ہوں گے:

  1. بڑے شیطان کو کنکریاں مارنا۔
  2. رمی سے فارغ ہونے کے بعد قربانی کرنا۔
  3. قربانی کے بعد سرمنڈاوانا یا کتروانا

اس کے بعد احرام کھول کر عام لباس پہن لیا جاتا ہے اور حجاج سے احرام کی سب پابندیاں (سوائے مباشرت کے) ختم ہوجاتی ہیں۔

طوافِ زیارت

حجاج احرام کھولنے کے بعد مکہ مکرمہ میں چوتھا رکن طواف زیارت ادا کرتے ہیں۔ یہ حج کے فرائض میں شامل ہے اور 12 ذی الحجہ کا آفتاب غروب ہونے تک جائز ہے، اس کے بعد دم (قربانی) واجب ہوگا اور فرض بھی ذمہ رہے گا۔

سعی: طواف زیارت کے بعد صفا و مروہ کی سعی کرنا واجب ہے۔

منیٰ واپسی: طواف زیارت و سعی کے بعد دو رات اور دو دن منیٰ میں قیام کرنا سنتِ موکدہ ہے۔ مکہ میں یا کسی اور جگہ رات گزارنا ممنوع ہے۔ گیارہ، بارہ اور تیرہ ذی الحجہ کو ’’ایام رمی‘‘ کہتے ہیں۔ ان تینوں تاریخوں میں تینوں جمروں کی رمی کی جاتی ہے۔ رمی کا وقت زوال کے بعد سے غروب آفتاب تک ہوتا ہے۔ پہلے جمرہ اولیٰ پر پھر جمرہ وسطیٰ اور بعد ازاں جمرہ عقبہ پر۔ پھر مکہ واپسی ہوتی ہے۔

طواف وداع

یہ حج کا آخری واجب ہے جو صرف میقات سے باہر رہنے والوں پر واجب ہے کہ جب وہ مکہ سے رخصت ہونے لگیں تو آخری طواف کرلیں۔

مدینہ منورہ روانگی

مکہ میں مناسک حج کی تکمیل کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ کی حاضری کے لئے عشاق مدینہ منورہ روانہ ہوجاتے ہیں۔

سوال: قربانی کا شرعی حکم کیا ہے؟

جواب: اگر شرعِ متین میں بیان کردہ قربانی کی تمام شرائط کسی شخص کے ہاں موجود ہوں، تو اس پر قربانی واجب ہے اور اگر ان میں سے کوئی شرط نہ پائی جائے تو اس صورت میں قربانی واجب نہیں بلکہ سنت و نفل ہوگی۔ وہ شرائط درج ذیل ہیں:

  1. مسلمان ہونا: چنانچہ غیرمسلم پر قربانی واجب نہیں۔
  2. مقیم ہونا: چنانچہ مسافر پر قربانی واجب نہیں۔ شرعاً مسافر وہ شخص ہے جو اپنے شہر کی حدود سے تقریباً 48 میل (تقریباً 78 کلو میٹر) دور جانے کے ارادے سے نکلا ہو، یا 48 میل (تقریباً 78 کلو میٹر) دور کسی مقام پر پہنچ چکا ہو اور اس کی پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت کی ہو یا اگر پندرہ دن سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت ہو تو یہ شخص کہیں آنے جانے میں اپنی مرضی کا مالک نہ ہو بلکہ کسی دوسرے شخص کی مرضی کے تابع ہو، جیسے بیوی شوہر کے تابع ہے یا نوکر اپنے مالک کے حکم کے تابع ہے اور جس کے تابع ہیں، اس نے پندرہ دن سے کم کی نیت کی ہے۔
  3. مالک نصاب ہونا: اس سے مراد یہ ہے کہ اس شخص کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اتنی مالیت کی رقم یا اتنی مالیت کا تجارت کا مال یا اتنی مالیت کا ضروریات زندگی سے زائد سامان ہو اور اس پر اتنا قرضہ نہ ہو کہ جسے ادا کرنے سے مذکورہ نصاب باقی نہ رہے۔
  4. بالغ ہونا: چنانچہ نابالغ پر قربانی واجب نہیں۔ نابالغ شخص صاحبِ نصاب ہی کیوں نہ ہو اس پر قربانی واجب نہیں۔

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَر.

’’پس آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھا کریںاور قربانی دیا کریں (یہ ہدیۂ تشکرّہے)‘‘۔

(الکوثر، 108: 2)

درج بالا آیتِ مبارکہ میں اِنْحَرْ صیغہ امر ہے اور عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ جب امر کو مطلق ذکر کیا جائے تو اس سے وجوب مراد ہوتا ہے۔ لہٰذا اس آیت سے قربانی کا واجب و ضروری ہونا ثابت ہوتا ہے۔

مخنف بن سلیم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم عرفہ میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کھڑے تھے، آپ نے فرمایا:

اَیُّهَا النَّاسُ! إِنَّ عَلٰی کُلِّ اَهْلِ بَیْتٍ فِی کُلِّ عَامٍ اُضْحِیَّةً.

’’اے لوگو! ہر سال ہر گھر والے پر ایک قربانی واجب ہے‘‘۔

(احمد بن حنبل، مسند احمد، 4: 215)

رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَنْ کَانَ له سعة فلم یضح، فلا یقربن مصلانا.

’’جو آسودہ حال ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے‘‘۔

(ابن ماجه، رقم الحدیث، 3: 3123)

مذکورہ احادیث میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قربانی کرنے کا حکم فرمایا اور قربانی نہ کرنے والوں پر اظہار ناراضگی فرمایا ہے۔ ناراضگی کا اظہار اسی مقام پر ہوتا ہے جہاں کوئی چیز واجب و ضروری ہو۔