شفاقت علی شیخ

اللہ تعالیٰ نے کائنات کا نظام اس طرح بنایا ہے کہ جو چیز جتنی زیادہ قیمتی ہوتی ہے وہ اُتنی ہی نایاب بھی ہوتی ہے۔ چنانچہ یہی معاملہ زندگی اور کائنات کے حقائق کے حوالے سے بھی ہے۔ کسی بھی معاملے میں حقیقت ایک ہوتی ہے تو اُس کے بالمقابل فسانے سو ہوتے ہیں، ہدایت کا راستہ ایک ہے تو گمراہی کے راستے ہزار ہیں جن میں وہ لپٹا ہو اہے۔ گویا حقیقت عام طور پر بالکل عیاں ہو کر سامنے نہیں آتی کہ ہر شخص اُسے دیکھتے ہی پہچان لے بلکہ فریبوں اور سرابوں میں چھپی ہوتی ہے اور شکوک و شبہات کی تہہ میں لپٹی ہوتی ہے۔ ان پردوں کو پھاڑ کر ہی حقیقت تک پہنچنا ہوتا ہے اور یہی انسان سے مطلوب ہے کہ وہ گہر ے غور و فکر کے ذریعے کسی بھی معاملے کی اصل حقیقت کو جان لے اور اُسی کے مطابق اپنے طرزِ عمل کو متعین کر ے۔ جس شخص نے ایسا کر لیا وہ کامیاب ہو گیا اور جو ایسانہ کر سکا، ناکامی اور نامرادی اُس کا مقدربن جاتی ہے۔

حقائق تک رسائی کے لیے درج ذیل شرائط کو پور اکرنا ضروری ہے:

  1. سچی طلب
  2. غور و فکر
  3. دعا
  4. تواضع

1۔ انسان کے مزاج میں اس حد تک حقیقت پسندی موجود ہو کہ وہ حقیقت سے کم تر درجے کی کسی شے پر مطمئن نہ ہوسکے ۔ وہ حقیقت کا اسی طرح متلاشی ہو جیسے پیاسا آدمی پانی کا ہوتا ہے۔

2۔ ہر معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے غور و فکر کی صلاحیتوں کو بھرپور طریقے سے استعمال کرنا ضروری ہے۔ محض سطحیت پسندی اور سرسری طور پر کسی چیز یا معاملے کو دیکھنے سے غلطی کا امکان پوری طرح موجود ہوتا ہے۔

3۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا کرنا بھی ضروری ہے کہ وہ حقیقت ِ حال کو آشکار فرمادے جیسا کہ حضور علیہ السلام کی دُعاؤں میں سے ایک یہ دعا تھی:

اللهم ارنا الاشیاء کما ھی و ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وارنا الباطل باطلا وار زقنا اجتنابه.

(ملا علی قاری، مرقاة المفاتیح، 110: 10)

’’اے اللہ ہمیں چیزوں کو اُسی طرح دیکھنے کی توفیق عطا فرما، جیسی وہ ہیں اور ہمیں حق کو حق کی صورت میں دیکھنے اور پھر اُس کی پیروی کی توفیق عطا فرما اور باطل کو باطل کے روپ میں دیکھنے اور پھر اس سے اجتناب کرنے کی توفیق عطا فرما‘‘۔

4۔ علاوہ ازیں انسان کے مزاج میں تواضع کا ہونا بھی بہت ضروری ہے تاکہ وہ اپنے سے باہر پائی جانے والی صداقتوں کا اعتراف بھی کر سکے ورنہ جس انسان کے اندر تکبر ہو گا اُس پر کسی معاملے میں اپنی غلطی واضح بھی ہو گئی تب بھی اُس کی انانیت اُسے قبول کرنے میں رکاوٹ بن جائے گی اور یوں وہ منزل پر پہنچ کر بھی منزل سے محروم رہ جائے گا۔حضور علیہ السلام نے تکبر کی نشانیوں میں سے ایک نشانی انکارِ حق بھی بیان فرمائی ہے:

الکبر من بطر الحق وغمط الناس.

’’تکبر یہ ہے کہ حق کا انکار کیا جائے اور لوگوں کو حقیر سمجھا جائے‘‘۔

(سنن أبی داود،کتاب اللباس، باب ما جاء فی الکبر، رقم: 4092، 59: 4)

اس کے ساتھ اگرزندگی کے کچھ قوانین کو جان لیا جائے تو زندگی کی اُلجھی ہوئی گرہوں کو سلجھانا اور فکری لغزشوں سے بچ کر راست روی تک پہنچنا آسان ہو جاتا ہے۔ ذیل میں اسی حوالے سے چند اہم نکا ت دیے جا رہے ہیں جنہیں ملحوظِ خاطر رکھنے سے بہت ساری جگہوں پر انسان فکری گمراہیوں سے بچ سکتا ہے:

1۔ مثالیت پسندی (Idealism) اور عملیت پسندی (Practicalism) میں فرق

اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر ایک معیاری دنیا کی طلب رکھ دی ہے جو ہر قسم کی کمیوں سے پاک ہو اور خوب سے خوب تر ہو۔ موجودہ دنیا میں یہ صلاحیت اور استعداد نہیں ہے کہ وہ انسان کے حوصلوں اور تمناؤں کی مکمل تسکین کا سامان مہیا کر سکے۔ انسان غلطی یہ کرتا ہے کہ وہ ہر جگہ اور ہر معاملے میں معیاری صورتِ حال کو پانا چاہتا ہے حالانکہ ُاس کے لیے بہتر طرزِ عمل یہ تھا کہ وہ اپنی فطر ت کی اس پکار کا رُخ آخرت کی طرف موڑ دیتا اور دنیا میں اُس سے کم تر درجے پر رہنے کے لیے خود کو راضی کر لیتا لیکن وہ آخرت کو فراموش کر کے اسی دنیا میں ہر معاملے میں تسکین اور لذت کا اعلیٰ ترین درجہ پا نا چاہتا ہے جو کہ ممکن نہیں ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک طرف تو اُس کی معیار پسندی خود اُس کے لیے قدم قدم پر ذہنی اُلجھنوں، پریشانیوں اور احساسِ محرومی کو پیدا کرنے کا ذریعہ بنتی ہے اور دوسری طرف اردگر د رہنے والے لوگوں کے ساتھ گلوں، شکووں، شکایتوں اور لڑائی جھگڑوں کو جنم دے کر تعلقات میں بگاڑ پیدا کرتی ہے۔

لہٰذا زندگی کو پر سکون بنانے کے لیے بہت ضروری ہے کہ انسان طلب کی سطح پر بے شک معیار پسند بنا رہے لیکن عملی طور پر جو کچھ ممکن اور میسر ہو، اُس پر اپنے آپ کو راضی کرنے والا بن جائے۔جو کچھ میسر ہو اُس پر راضی رہنا اپنے رب کو راضی کرنے کا آسا ن طریقہ ہے:

من رضی بالقلیل من الرزق رضی الله تعالی منه بالقلیل من العمل.

(کنز العمال فی سنن الأقوال والأفعال، فضیلة الصبر، رقم: 6508، 111: 3)

’’جو شخص اللہ کی طرف سے ملنے والے تھوڑے رزق پر راضی ہوگیا، اللہ اُس کے تھوڑے عمل پر راضی ہو گیا‘‘۔

2۔اختیاری اور غیر اختیاری معاملات میں فرق

اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو مخصوص اورمنفرد نعمتیں و صلاحتیں عطا فرمائی ہیں نیز اُسے ایک خاص دائرہ اثر عطا فرمایا ہے جس میں وہ اپنے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے اشیاء اور معاملات میں تصرف کر سکتا ہے اور حسبِ منشا اُن میں تبدیلی کر سکتا ہے لیکن بہت ساری حقیقتیں اور معاملا ت ایسے ہیں جن کو تبدیل کرنے کا کوئی اختیار اُس کے پاس نہیں ہے ۔ ان میں انسان کا رنگ، شکل، قد، نسل، قبیلہ، خاندان، اُس کے دل میں آنے والے غیر ارادی وساوس و خیالات نیز اردگرد کے ماحول میں بے شمار چیزیں اور واقعات شامل ہیں، جہا ں انسان مکمل طور پر بے بس اور مجبور ہے۔ وہ خواہش اور کوشش کے باوجود اُن کو حسبِ منشاء تبدیل نہیں کر سکتا ۔ ایسی تمام چیزیں جو انسان کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں، اُن کا اللہ نے انسان کو مکلّف بھی نہیں بنایا ۔ اس کی بجائے انسان صرف ان ہی معاملات کے متعلق جواب دہ ہے جو اُس کے دائرہ تصرف میں آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

لَا یُکَلِّفُ اللّـٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا.

(البقره، 286: 2)

’’اللہ کسی کو اس کی طاقت کے سوا تکلیف نہیں دیتا‘‘۔

اب انسان سے مطلوب یہ ہے کہ وہ غیر اختیاری اُمور کے پیچھے پڑنے کے بجائے صبر کا دامن تھامتے ہوئے اُن کاموں پر اپنی توجہ مرکوز کرے جن کو وہ تبدیل کر سکتا ہے اور جن کے حوالے سے وہ جواب دہ ہے ۔ لیکن انسان غلطی یہ کرتا ہے کہ اختیاری اور غیراختیار ی اُمور میں فرق نہیں کر پاتا اور غیر اختیاری اُمور کے متعلق سوچ سوچ کر جلنا اور کُڑھنا شروع کر دیتا ہے ۔ نیز اُن کو تبدیل کرنے کے متعلق سوچ سوچ کر ہلکان ہوتا رہتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان معاملات میں تو وہ سوائے اپنے خون کو جلانے کے اور کچھ نہیں کر پاتا لیکن جن معاملات میں وہ بہتری لا سکتا ہے، اُس طرف اُس کا دھیان ہی نہیں جاتا اور اس طرح قیمتی اور انمول زندگی برباد ہو جاتی ہے اور انسان کچھ بھی نہیں کر پاتا ۔ ہر دور میں بہت سارے لوگوں کا بہت سارا وقت انہی غیر اختیاری اُمور کو سوچتے رہنے میں ضائع ہوتا رہتا ہے ۔

3۔ مقصد اور ذرائع میں فرق

ایک انسان جب کسی معاملے میں بھاگ دوڑ کرتا ہے، توانائیاں اور وسائل صرف کرتا ہے تو اُس کاکوئی خاص مقصد ہوتا ہے، جسے وہ پانا چاہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بہت سارے وسائل اور ذرائع ہوتے ہیں جنہیں وہ حصولِ مقصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ گویا مقصد کی حیثیت منزل کی ہوتی ہے جب کہ وسائل اور ذرائع کی حیثیت زادِ راہ کی ۔ اصل مقصد تو منزل پر پہنچنا ہی ہوتا ہے لیکن اس کے لیے زادِ راہ کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے ۔ اسی طرح ہر معاملے میں اصل نشانہ تو مقصد کا حصول ہی ہوتا ہے لیکن ذرائع کو استعمال کیے بغیر مقصد کوپانا ممکن نہیں ہوتا۔

زندگی کا حُسن یہ ہے کہ مقصد اور ذرائع دونوں کو اپنی اپنی جگہ پر رکھا جائے ۔ نہ تواُن میں سے کسی کی اہمیت کو بلاوجہ گھٹایا جائے جائے اور نہ ہی خوامخواہ بڑھایا جائے ۔ یہ دونوں صورتیں ظلم کی ہیں۔ انسان بالعموم دونوں کے درمیان فرق کو ملحوظِ خاطر رکھ نہیں پاتا اور گڈ مڈ کر دیتا ہے ۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ عام طور پر ذارئع پر ہی فوکس کر لیتا ہے اور انہی کے حصول اور استعمال کو مقصد سمجھ لیتا ہے جب کہ حقیقی مقصد نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے ۔ اس کے نتیجے میں زندگی بھول بھلیوں کا شکا ر ہو کر رہ جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اسلام ایک بندہ مومن کو بتاتا ہے کہ اُس کا اصل مقصود آخرت کی فوزو فلاح اور کامیابی و کا مرانی کو حاصل کرنا ہے ۔دنیا کے تمام وسائل اور ذرائع اُس مقصد کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں کہ انہیں اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق استعمال میں لا کر دنیا میں اللہ کی رضا اور آخرت میں اُس کی جنت کو حاصل کیا جائے لیکن لوگوں کی اکثریت آخرت کو بھول کر دنیا میں اتناغرق ہو چکی ہے کہ زندگی کا اول و آخر مقصد ہی دنیوی منافع کو حاصل کرنا بن چکا ہے ۔

4۔ مسائل اور مواقع میں فرق

بچپن سے لے کر بڑھاپے تک زندگی کے ہر مرحلے میں مسائل اور مواقع دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ان کے تناسب میں کمی بیشی ہو سکتی ہے لیکن یہ ناممکن ہے کہ زندگی کی کسی بھی سٹیج پر ان میں سے کوئی ایک چیز بالکل ختم ہوجائے۔

کامیاب زندگی کا راز یہ ہے کہ مسائل کو حکیمانہ انداز میں حل کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ حتی الوسع اُنہیں نظر انداز کرتے ہوئے دھیان مواقع سے استفادہ پر مرکوز کیا جائے۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ مواقع کو استعمال کرتے ہوئے جوں جوں انسان تعمیر و ترقی کے شاہراہ پر آگے بڑھتا جائے گا، اُسی تناسب سے مسائل کا سائز خود بخود سکڑتا چلا جائے گا۔ یہی قانونِ قدرت ہے لیکن اس کے برعکس انسان بالعموم یہ کرتا ہے کہ وہ اپنی تمام تر توجہ مسائل کی طرف مرکوز کرتے ہوئے اُن کے متعلق رونا دھونا شروع کر دیتاہے، ہر وقت اُنہی کے متعلق سوچ بچار کرتا رہتا ہے جس کے نتیجے میں زندگی کو بنانے، سنوارنے اور نکھارنے کے لیے ملنے والے قیمتی مواقع ضائع ہوتے چلے جاتے ہیں۔ نتیجتاً انسان سکڑتا چلا جاتا ہے اور مسائل کا حجم بڑا ہوتا چلا جاتا ہے۔

لہٰذا زندگی کو کامیابی و کامرانی سے ہمکنا رکرنے ا ور دنیا و آخرت کی بھلائیاں حاصل کرنے کے لیے مسائل اور مواقع کے فرق کو ملحوظِ خاطر رکھنا اور حتی الوسع مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے مواقع کو استعمال کرنے کے لیے کوشاں رہنا بہت ضروری ہے۔

5۔ دونیکیوں کے درمیان فرق

اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی اُس میں نیکی اور بدی کا شعور رکھ دیا ہے ۔ چنانچہ نیکی اور بدی کے درمیان فرق تھوڑے سے غور و تامل سے سمجھ میں آجاتا ہے لیکن زندگی میں کئی ایسے مواقع بھی آتے ہیں جہا ں ہمیں دو نیکیوں کے درمیان ہی انتخاب کرنا ہوتا ہے ۔ یعنی انسان کے پاس دو راستے ہوتے ہیں، اُن میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا ہوتا ہے اور دوسرے راستے کو چھوڑ نا ہوتا ہے لیکن صورتِ حال یہ ہوتی ہے کہ دونوں طرف نیکی ہی ہوتی ہے۔ گویا یہا ں معاملہ نیکی اور بدی کے درمیان نہیں بلکہ نیکی اور نیکی کے درمیان ہی ہوتا ہے۔

ایسی صورت میں انسان کی بہترین عقلمندی یہ ہے کہ وہ دونوں نیکیوں کا موازنہ کرے اور پھر بڑی نیکی کو لے لے اور چھوٹی کو چھوڑ دے۔ ایسا کرنے کی صورت میں اُس کی شخصیت زیادی تیز رفتاری سے ارتقاء کی سمت بڑھتی ہے۔ جب کہ اس کے برعکس طرزِ عمل اپنانے کی صورت میں شخصیت کے ارتقا ء کی رفتا ر سست پڑ جاتی ہے۔ مثلاً: ایک شخص کا ذوق کسی وقت نفل پڑھنے کا ہے جب کہ عین اُسی وقت کسی ضرورت مند کو واقعی اُس کی مدد کی ضرورت ہے تو ایسی صورت میں تعلیماتِ اسلامی کی روح یہ ہے کہ نوافل سے بڑی نیکی اُس ضرورت مند کی مدد کرنا ہے۔ دو نیکیوں کے درمیان فرق کو سمجھنے کے لیے گہرے غور و فکر او ر قلبی بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے۔ نیز اس فرق کو وہی شخص ملحوظِ خاطر رکھ سکتا ہے جس نے دو نیکیوں کے درمیان فرق کرنے والے نکتے کو ذہن نشین کر لیا ہوگا۔

6۔ دو برائیوں کے درمیان فرق

جس طرح بعض اوقات دو نیکیوں میں سے کسی ایک کے انتخاب کا مرحلہ درپیش ہوتا ہے، ایسے ہی زندگی میں ایسے مواقع بھی آتے ہیں، جب ہمارے سامنے دو برائیاں موجود ہوتی ہیں۔ دونوں سے بیک وقت بچنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہوتا ۔ لہٰذا اُن میں سے کسی ایک کا سامنا کرنا ناگزیر ہو تا ہے۔ ایسی صورت میں اسلام کا مزاج یہ ہے اور انسانی عقل کا تقاضا بھی یہ ہے کہ بڑی بُرائی سے بچنے کی خاطر چھوٹی بُرائی کو گوارا کر لیا جائے ۔ اس کو ایک مادی مثال کے ذریعے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ بعض اوقات جسم کا کوئی ایک عضو اتنا متاثر ہو جاتا ہے کہ جسم کے ساتھ رہنے کی صورت میں پورے جسم کو نقصان پہنچے کا خدشہ ہوتا ہے، لہٰذا بڑے نقصان سے بچنے کی خاطر ڈاکٹر اُس عضو کا آپریشن کر کے اُسے علیحدہ کر دیتے ہیں۔ گویا پورے جسم کے نقصان سے بچنے کی خاطر ایک عضو کا نقصان گوار ا کر لیا جاتا ہے۔ یہی صورت حال بعض اوقات انسانی زندگی میں دو برائیوں کی صورت میں نمودار ہوتی ہے تو وہاں بھی اسی فلسفے کو اپناتے ہوئے توبہ و استغفار کرتے ہوئے وقتی طور چھوٹی بُرائی کو گوارا کر لیا جاتا ہے لیکن اس فارمولے کو استعمال کرنے کے لیے انسان کے پاس گہری نظر کا ہونا ضروری ہے۔

7۔ حقائق اور اطلاعات میں فرق

انسان کے اس دنیا میں آنے کے ساتھ ہی اُسے مختلف ذرائع سے کسی نہ کسی چیز کا علم ہوتا رہتا ہے۔ انسان اپنی کم عقلی کے باعث اس کے درست یا غلط ہونے کا ادراک نہیں کرسکتا۔ گھر، ماحول اور مدرسہ سے ملنے والی تعلیمات کے نتیجے میں کئی قسم کے غلط عقائد اور فاسد نظریات بھی اُس کے ذہن میں داخل ہوتے رہتے ہیں اور بالغ ہونے تک وہ اُن کو من وعن صحیح اور درست تسلیم کر چکا ہوتا ہے۔ آئندہ کی زندگی میں کئی اہم فیصلے اُن کے زیرِ اثر کرتے ہوئے وہ غلط طرزِ عمل کا شکار ہو جاتا ہے لیکن اُسے اس کا احساس تک نہیں ہوپاتا۔ نتیجتاً زندگی کئی قسم کی خامیوں، لغزشوں، گمراہیوں اور حدبندیوں کا شکار ہو کر اپنے حقیقی کمال کو پانے سے محروم رہ جاتی ہے۔ مختلف مذاہب اور مسالک کے ماننے والوں کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کا بڑے ہو کر آبائی مذاہب یا مسالک پر کاربند رہنا اسی اُصول کی ایک واضح مثال ہے۔

حقائق اور اطلاعات میں فرق کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر وہ بات جو ہمارے کانوں میں پڑے یا علم میں آئے وہ ایک اطلاع تو ہے لیکن ضروری نہیں کہ وہ حقیقت بھی ہو اور لازماً صحیح ہو، وہ غلط اور خلافِ حقیقت بھی ہو سکتی ہے ۔ لہٰذا آدمی کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ حقائق اور اطلاعات میں فرق کرنا سیکھے۔ ہر بات کو سوچ سمجھ کر اور حقائق کی کسوٹی پر پرکھ کر جب اُس کا مطابقِ حقیقت ہونا جان لے پھر ہی اُسے قبول کرے ورنہ رد کردے۔ قرآنِ مجید اس کی تصدیق یوں کرتا ہے:

یَآ اَیُّهَا الَّـذِیْنَ اٰمَنُـوا اِنْ جَآءَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُـوا.

’’اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہاے پاس کوئی سی خبر لائے تو اس کی تحقیق کیا کرو ‘‘۔

(الحجرات 6: 49)

اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے اہلِ ایمان کوحکم دیا کہ وہ کسی معاملے میں کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے اُس کی اچھی طرح چھان بین کرلیں کہ اُس میں حقیقت کیا ہے اورفسانہ کیاہے؟ پھرجب شرحِ صدر سے کسی نتیجے پر پہنچیں توپھرعملی قدم اُٹھاناچاہیے۔ اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضورa نے ارشاد فرمایا:

کَفٰی بِالْمَرْءِ کَذِبًااَنْ یُحَدِّثَ بِکُلِّ مَاسَمِعَ.

(مسلم، الصحیح، رقم: 5، 10: 1)

’’کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ وہ ہراُس بات کو(بلاتحقیق) بیان کردے جووہ سنے‘‘۔

گویا یہاں مومنوں سے کہاجارہاہے کہ وہ کسی بھی سنی سنائی بات کوبغیر تحقیق کے نہ مانیں، بلکہ مختلف ذرائع سے تصدیق کرنے کے بعد جب کسی بات کامبنی بر حق ہونایقینی ہوجائے توپھر ہی اُسے تسلیم کریں اورآگے کسی سے بیان کریں۔

8۔ ضروری اور غیر ضروری حقائق میں فرق

حقائق اور اطلاعات میں فرق کے بعد ضروری اور غیر ضروری حقائق میں فرق کرنا بھی ضروری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقتیں اگرچہ اپنی ذات میں کائناتی اورآفاقی ہوتی ہیں جن کوقبول کرنا ہرکسی کے لیے لازم ہوتا ہے لیکن ہر حقیقت پر ہرشخص کے لیے ہر قسم کے حالات میں یکساں طور پر عمل کرناممکن نہیں ہوتا۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز حقیقت ہونے کے باوجود ایک شخص کے حسبِ حال نہیں ہوتی لہٰذا اُس پر مِن وعَن عمل کرنا اُس کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ اسی کو یہاں غیرضروری یاغیرمتعلق حقائق سے تعبیر کیاگیاہے۔ کسی معاملے میں درست فکر تک پہنچنے کے لیے اس نکتے کو ملحوظ خاطر رکھنا بہت ضروری ہے۔ اس کی وضاحت مندرجہ ذیل مثال سے کی جاتی ہے:

مکی دور میں مسلمان تیرہ سال تک کفار کے ظلم وستم برداشت کرتے رہے لیکن اللہ رب العزت کی طرف سے اِس صورتِ حال کے ازالے کے لیے جہادکاحکم فرض نہ کیاگیا۔ وجہ یہ تھی کہ مسلمان تعدادمیں اتنے کم تھے کہ اُن کے لیے کفارِ مکہ سے ٹکراناممکن ہی نہ تھا اوراللہ رب العزت کا اُصول یہ ہے کہ وہ کسی بھی وجود پر اُس کی طاقت سے بڑھ کربوجھ نہیں ڈالتا۔ چنانچہ اگر اُس دور میں جہاد فرض کردیاجاتا تو کافروں سے ٹکرانے کی صورت میں زیادہ نقصان خودمسلمانوںکاہی ہوتا۔ لہٰذا خاموشی کے ساتھ تمام ایذا رسانیوںکو برداشت کیا گیا لیکن مدنی دور میں جب مسلمان اپنا دفاع کرنے کی پوزیشن میں آگئے توجہاد کی آیات نازل ہونا شروع ہوگئیں۔

اسی طرح کسی ایک چیز کے حقیقت ہونے کے باوجود ضروی نہیں ہے کہ وہ ہر شخص پر یکساں انداز میں لاگو (Apply) ہو۔ کسی فرد کے شخصی احوال یا مخصوص حالا ت کی بنا پر اُس کے لیے حکم مختلف ہو سکتا ہے اور اس کی مثالیں ہمیں جا بجا شرعی احکام میں دکھائی دیتی ہیں۔ لہٰذا فکری گمراہیوں سے بچنے کے لیے جہا ں ہمارے لیے حقائق اور اطلاعات میں فرق کرنا ضروری ہے، وہاں ضروری اور غیر ضروری حقائق میں بھی فرق کرنا اشد ضروری ہے۔

9۔ بالواسطہ فائدہ

اللہ تعالیٰ نے اس کائنا ت کا نظام اس طرح بنایا ہے کہ یہاں پر کام یا ہر معاملے کی کئی جہتیں ہوتی ہیں۔ چنانچہ کوئی بھی کام جو انسان کرتا ہے اُس کا ایک تو وہ فائدہ حاصل ہوتا ہے جسے ذہن میں رکھ کر وہ کام کیا جاتا ہے، تاہم اُس کے علاوہ بھی کئی ضمنی فوائد ہوتے ہیں ۔ مثلاً: ایک شخص کسی دفتر میں ملازمت کرتا ہے تو اُس کا ایک تو براہِ راست فائدہ ہوتا ہے جو اُسے ماہانہ تنخواہ کی صورت میں ملتا ہے، اسی کوسامنے رکھ کر وہ ملازمت کرتا ہے ۔لیکن اس کے علاوہ اُسے بعض ضمنی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔ مثلاً: تجربہ حاصل ہونا، اردگرد کے لوگوں میں ایک مقام و مرتبہ حاصل ہونا وغیرہ۔ اسی طرح ایک فیکٹری کا مالک کسی مخصوص پیدا وار کے حصول کے لیے فیکٹری لگا تا ہے تو اُس پیدا وار کی تیاری کے دوران بعض ضمنی چیزیں (By Products) بھی حاصل ہوتی ہیں۔ یہی ضمنی فوائد جو کسی مخصوص عمل کے دوران حاصل ہوتے ہیں اُنہی کو یہاں بالواسطہ فائدہ کا نام دیا جا رہا ہے ۔

سمجھنے والی بات یہ ہے کہ کسی عمل کے نتیجے میں حاصل ہونے والا بالواسطہ فائدہ کسی طرح بھی براہِ راست ملنے والے فائدے سے کم اہم نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات تو اُس سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔

عقلمندی اسی کا نام ہے کہ انسان کسی عمل سے حاصل ہونیوالے براہِ راست فوائد کے ساتھ اُس سے ملنے والے ضمنی فوائد یا بالواسطہ فوائد سے بھی آگا ہ ہو۔ صرف اسی صورت میں وہ کسی کام کو شوق اور دلجمعی سے کر سکتا ہے اور اُس میں استقلال کو برقرا رکھ سکتا ہے۔جس شخص کی نظر صرف براہِ راست ملنے والے فائدہ کو ہی دیکھ رہی ہوگی، وہ اُس میں گہری دلچسپی نہیں لے سکے گا اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ وہ کسی بھی وقت بددل ہو کر اُسے چھوڑ دے ۔

1۔ تیسرا حل (Third Solution)

کسی بھی معاملے پر غور کرتے ہوئے ہمیں بالعموم اُس کے دو حل دکھائی دے رہے ہوتے ہیں جو سامنے موجود ہوتے ہیں یعنی یا ایسے ہوسکتا ہے یا ویسے۔ سوچ کے اس انداز کو ثنائی طرزِ فکر کہتے ہیں، جس میں چیزوں کو سیاہ اور سفید ((Black&White کے دو خانوں میں تقسیم کر کے دیکھا جا رہا ہوتا ہے۔ اس میں ہماری سوچ کا دائرہ بہت محدود ہوتا ہے جو اُس مسئلہ کے صرف دو ممکنہ حلوںکو دیکھ رہا ہوتا ہے اور اُس سے آگے ہماری نگاہ نہیں جارہی ہوتی۔ جب کہ وہ دونوں حل اتنے معیاری نہیں ہوتے۔ دونوں میں کچھ فوائد اور کچھ نقصانات دکھائی دے رہے ہوتے ہیں۔ بالاخر ہم بادل نخواستہ اُن میں سے ہی کسی ایک کو منتخب (Choose)کر لیتے ہیں لیکن اکثر و بیشتر وہا ں ایک تیسرا حل بھی موجود ہوتا ہے جو اُن دونوں سے زیادہ بہتر ہوتا ہے لیکن ہم اپنی محدود اور دو رُخی سوچ کی بنا پر اُسے دیکھ نہیں پاتے۔ علم نفسیات یا مائنڈ سائنس میں اس تیسرے حل کو بر تر حل(Superior Solution) کا نام دیا جاتا ہے کیونکہ یہ اُن دونوں کے مقابلے میں زیادہ بہتراور قابلِ قبول ہوتا ہے۔

عام طور پر ہم مسائل پر غور کرتے ہوئے اس نکتے کو شعوری طور پر ذہن میں رکھ کر سوچ بچار نہیں کرتے، ورنہ بیشتر معاملات میں یہ تیسرا حل آس پاس ہی موجود ہوتا ہے جسے ہم کوتاہ نظری اور محدود سوچ کی بنا پر دریافت نہیں کر پاتے۔

تاریخ کی بڑی بڑی کامیابیاں اُن لوگوں نے حاصل کی ہیں جو سوچ بچارکے دوران اس تیسرے حل کی آپشن (Option) کو پوری طرح ذہن میں رکھتے ہیں اور یو ں عام لوگوں کی نسبت اپنے مسائل اور معاملات کو زیادہ بہتر انداز میں حل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔