الفقہ: نکاح میں ولی کا مسئلہ، قرآن و حدیث کی روشنی میں

مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

قرآن کریم میں نکاح کی نسبت صرف لڑکے اور لڑکی کی طرف کی گئی ہے۔ تاہم احادیثِ مبارکہ میں باپ دادا یا دوسرے بزرگوں سے اجازت و مشورہ لینے کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ آج کل ہمارے معاشرے میں یہ مسئلہ بھی بہت بگڑ گیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ قرآن و سنت کے احکام سے لوگوں کی لاعلمی اور خاندانی رسم و رواج کی اندھی تقلید ہے۔ ہر عاقل و بالغ لڑکے لڑکی کو جس طرح اپنے مال میں تصرف کا حق ہے اسی طرح اپنی ذات کے فیصلوں کا بھی ہے۔

ساری عمر ہاتھ پکڑ کر کوئی نہیں چلتا ہے۔ بیاہ شادی میں بھی ان کی مرضی بنیادی شرط ہے۔ والدین کو بھی ان کے جذبات و میلان کا لحاظ کرنا چاہیے۔ ساری عمر انہوں نے ایک ساتھ چلنا ہے۔ والدین خوامخواہ جبر نہ کریں۔ یونہی بالغ اولاد بھی والدین سے مشورہ و اجازت سے بے پرواہ ہو کر اتنا بڑا فیصلہ نہ کریں۔ دونوں کے ایک دوسرے پر حقوق ہیں اور ان کا لحاظ دوسرے پر فرض ہے۔ اگر والدین کی تجویز موزوں ہے تو وہ اولاد کو پیار اور دلیل سے سمجھائیں اور قائل کریں۔ اگر اولاد کا خیال بہتر ہے تو وہ دلیل و ادب سے والدین کو قائل کریں۔ تاکہ باہمی اتفاق و محبت سے شادی کے معاملات طے پائیں اور عمر بھر ایک دوسرے کی محبت، موافقت، ہمدردی و تعاون اور خوشگوار ماحول موجود رہے۔

اسلام نے دونوں کی ضرورت و حقوق کو ملحوظ رکھ کر راهِ عمل متعین کی ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:

وَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰی فَانْکِحُوْا مَاطَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَلاَّ تَعُوْلُوْا.

’’اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لیے پسندیدہ اور حلال ہوں، دو دو اور تین تین اور چار چار (مگر یہ اجازت بشرطِ عدل ہے) پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم (زائد بیویوں میں) عدل نہیں کر سکو گے تو صرف ایک ہی عورت سے (نکاح کرو) یا وہ کنیزیں جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں آئی ہوں، یہ بات اس سے قریب تر ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو۔‘‘

(النساء، 4: 3)

اس آیتِ کریمہ میں نکاح کی نسبت لڑکے اور لڑکی کی طرف کی گئی ہے (کیونکہ لڑکی کی رضا و اجازت لازمی ہے) لہٰذا پسند کی شادی (Love Marriage) قرآن کی رو سے ہر لڑکے لڑکی کا حق بلکہ فرض ہے کیونکہ یہ شرعی امر ہے۔ قرآن مجید میں درج ذیل مقامات پر بھی نکاح کی نسبت لڑکے لڑکی کی طرف کی گئی ہے:

1. وَلَا تَنْکِحُوْا مَا نَکَحَ اٰبَآؤُکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ.

’’اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپ دادا نکاح کر چکے ہوں‘‘

(النساء، 4: 22)

2. وَلاَ تَنْکِحُوا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ.

’اور تم مشرک عورتوں کے ساتھ نکاح مت کرو جب تک وہ مسلمان نہ ہو جائیں۔‘‘

(البقره، 2: 221)

3. فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلاَ تَحِلُّ لَهٗ مِنْ م بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗ ط فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْهِمَآ اَنْ یَّتَرَاجَعَآ اِنْ ظَنَّـآ اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللهِ ط وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللهِ یُبَیِّنُهَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ.

’’پھر اگر اس نے (تیسری مرتبہ) طلاق دے دی تو اس کے بعد وہ اس کے لیے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر کے ساتھ نکاح کر لے، پھر اگر وہ (دوسرا شوہر) بھی طلاق دے دے تو اب ان دونوں (یعنی پہلے شوہر اور اس عورت) پر کوئی گناہ نہ ہوگا اگر وہ (دوبارہ رشتہء زوجیت میں) پلٹ جائیں بشرطیکہ دونوں یہ خیال کریں کہ (اب) وہ حدودِ الٰہی قائم رکھ سکیں گے، یہ اللہ کی (مقرر کردہ) حدود ہیں جنہیں وہ علم والوں کے لیے بیان فرماتا ہے۔‘‘

(البقرہ، 2: 230)

یہاں بھی نکاح کرنے کی نسبت عورت کی طرف ہے، ولی کی طرف نہیں۔

4. فَلاَ تَعْضُلُوْهُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ.

’’تو جب وہ شرعی دستور کے مطابق باہم رضامند ہو جائیں تو انہیں اپنے (پرانے یا نئے) شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو۔‘‘

(البقره، 2: 232)

یہاں بھی طلاق یافتہ عورتوں کو پسند کے خاوند سے شادی کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔

5. فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْٓ اَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ.

’’جب وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آ پہنچیں تو پھر جو کچھ وہ شرعی دستور کے مطابق اپنے حق میں کریں تم پر اس معاملے میں کوئی مؤاخذہ نہیں۔‘‘

(البقره، 2: 234)

احادیث مبارکہ کی روشنی میں

1. رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:

لا تنکح الایم حتی تستامر ولا تنکح البکر تستاذن. قالو! یارسول الله ﷺ کیف اذنها قال ان تسکت.

’’غیر شادی شدہ لڑکی کا نکاح اس کے مشورے کے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔ صحابہ کرامl نے کہا: یارسول اللہ ﷺ اس کی اجازت کیسے ہو گی؟ (وہ شرماتی ہے) فرمایا: اس کی خاموشی بھی اجازت ہے۔ ‘‘ (متفق علیہ)

ملا علی قاری اس کی شرح میں لکھتے ہیں:

فذھبوا جمعیا الی انه لا یجوز تزویج البالغة العاقلة دون اذنها.

’’علماء اس طرح گئے ہیں کہ عاقل بالغ لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر جائز نہیں۔‘‘

2۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک کنواری لڑکی نے رسول پاک ﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ میرے باپ نے میری ناپسندیدگی کے باوجود میرا نکاح کر دیا:

فخیرها النبي (ﷺ)

سو رسول اللہ ﷺ نے اس لڑکی کو (قبول یا رد کرنے کا اختیار دے دیا) (ابوداؤد)

3۔ ایسا ہی واقعہ خنساء بنت خذام سے پیش آیا اور رسول اللہ ﷺ نے اس کا نکاح رد کردیا۔ (بخاری)

جب یہ بات واضح ہو گئی کہ عاقل بالغ لڑکا لڑکی خود مختار ہیں اور اپنی مرضی سے نکاح کر سکتے ہیں اور کوئی ان پر جبر نہیں کر سکتا تو اب ایک دوسرے پہلو کا خیال بھی لازم ہے۔ مسلم گھرانہ مثالی ہوتا ہے۔ یہاں ہر ایک کے حقوق محفوظ ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ والدین اور بزرگوں کے بھی اولاد پر کچھ حقوق ہیں۔ لہٰذا والدین کے جائز جذبات و خواہشات کا لحاظ و پاس رکھنا بھی ممکن حد تک لازم ہے۔ یہ بات بڑی شقاوت و سنگدلی ہے کہ جن والدین کی محنت و محبت سے انسان پلتا بڑھتا اور ترقی کرتا ہے۔ بیاہ شادی کے معاملہ میں ان کی رضامندی و مشورے کو اہمیت ہی نہ دی جائے اور ان کو اس موقع پر ناراض کر دیا جائے۔ لہٰذا ان کے حقوق، جذبات اور احساسات کا خیال رکھنا اور ان سے رہنمائی لینا خوش بختی ہے۔

فقہاء کے اقوال کی روشنی میں

احناف کے نزدیک عاقل بالغ عورت اپنا نکاح خود کرسکتی ہے اور قرآن و حدیث کے تمام دلائل اس کی تائید کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ ولی کی اجازت کے بغیر کیا ہوا نکاح باطل ہے، ان کی دلیل یہ حدیث مبارک ہے:

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

ایما امراة نکحت نفسها بغیر اذن ولیها فنکاحها باطل فنکاحها باطل فنکاحها باطل فان دخل بها فلها المهر لما استحل من فرجها فان اشتجر وا فالسلطان ولی من لاولی له.

’’جو عورت اپنے ولی (سرپرست) کی اجازت کے بغیر نکاح کرے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے۔ اب اگر اس نے اس سے صحبت کرلی تو اس عورت کو مہر ملے گا کیونکہ اس نے اس کی شرمگاہ حلال کی ہے۔ پھر اگر (سرپرست) اختلاف کریں تو حاکم ولی ہے جس کا کوئی ولی نہیں۔‘‘

(احمد، ترمذی، ابو داؤد، ابن ماجه، دارمی)

یہ مذکورہ حدیث ان حضرات کی سب سے مضبوط دلیل ہے مگر غور کریں تو اس سے ان کا مدعا ثابت نہیں ہوتا۔ اس کا نکاح باطل ہے، یہ زجر و توبیخ کے طور پر فرمایا گیا ہے جس کے ہم قائل ہیں مگر نکاح ولی کی اجازت کے بغیر بھی ہوجاتا ہے، اسی لئے فرمایا کہ اگر ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر کے قربت کرلی تو مہر پورا دینا ہوگا۔ اگر نکاح حقیقتاً باطل ہوتا یعنی منعقد ہی نہ ہوتا تو نہ عورت حلال ہوتی، نہ نکاح ہوتا، نہ حق مہر لازم ہوتا۔

  • فقہائے احناف فرماتے ہیں:

ینعقد نکاح الحرة العاقلة البالغة برضاھا وان لم یعقد علیها ولیها بکرا کانت اوثیبا عند ابی حنیفة وابی یوسف رحمهما الله فی ظاهر الروایة.

’’آزاد، عقلمند بالغ عورت کا نکاح اس کی رضا سے ہو جاتا ہے خواہ اس کا ولی نہ کرے۔ کنواری ہو یا ثیبہ۔ امام ابو حنیفہ اور ابو یوسف رحمہما اللہ کے نزدیک ظاہر روایت میں۔‘‘

(هدایه مع فتح القدیر، 3: 157)

  • امام محمد کے نزدیک ولی کی اجازت پر موقوف ہوگا۔
  • امام مالک اور شافعی رحمہما اللہ کے نزدیک عورتوں کے الفاظ سے نکاح نہیں ہوتا۔ ہاں، اگر ولی اجازت دے دے تو نکاح صحیح ہوجائے گا۔ خواہ کفو میں نکاح کرے خواہ غیر کفو میں۔ ہاں، ولی کو غیر کفو کی صورت میں اعتراض کا حق ہے۔

ولا یجوز للولی اجبار البکرا البالغة علی النکاح.

’’ولی بالغ لڑکی کو نکاح پر مجبور نہیں کرسکتا۔‘‘

(هدایه مع فتح القدیر، 3: 161)

احناف نے کفو میں چھ شرطیں رکھی ہیں:

  1. نسب
  2. اسلام
  3. پیشہ
  4. آزادی
  5. دیانت داری
  6. مال

کفو کا مفہوم صرف یہ ہے کہ رشتے بے جوڑ نہ ہوں۔ تاکہ ہمیشہ برقرار رہیں۔ اس سلسلہ میں درج ذیل امور بھی پیشِ نظر رہیں:

  1. مذکورہ چھ شرائط قرآن و حدیث کی نص میں نہیں۔ فقہائے کرام نے موافقت کی چند باتیں منتخب کردیں۔ لہٰذا منصوص و غیر منصوص کا فرق نظر میں رہے۔
  2. مذکورہ احادیث میں مال و جمال و نسب کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی بلکہ دین کو دی گئی ہے۔
  3. محرمات کے علاوہ کوئی مسلمان کسی مسلمان یا کتابی عورت سے باہمی رضامندی کے ساتھ نکاح کرسکتا ہے۔
  4. لڑکی کا ولی یا وارث غیر خاندان وغیرہ پر اعتراض کریں تو کفو کا مسئلہ پیدا ہوگا ورنہ میاں بیوی راضی ہوں تو یہ معاملہ بھی نہیں ہے۔

قرآن کے صریح احکام اور احادیث صحیحہ صریحہ کے مقابلہ میں کسی کا قول کوئی حجت نہیں رکھتا۔

نابالغ کے نکاح کا مسئلہ

اگر والد یا دادا نابالغ کا نکاح کردیں تو پھر بلوغت پر اختیار رہتا ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں قرآن مجید کی درج ذیل دو آیات ہماری رہنمائی کرتی ہیں:

فَانْکِحُوْا مَاطَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ.

’’ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لیے پسندیدہ اور حلال ہوں۔‘‘

(النساء، 4: 3)

دوسرے مقام پر فرمایا۔

وَابْتَلُوا الْیَتٰمٰی حَتّٰی اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ.

’’اور یتیموں کی (تربیتہً) جانچ اور آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ نکاح (کی عمر) کو پہنچ جائیں ۔‘‘

(النساء، 4: 6)

پہلی آیتِ کریمہ میں پسند کی شادی کا حکم ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ پسند میاں بیوی کی پسند ہے، قرآن نے پسند کی شادی کا حکم دے کر مرد و زن پر احسان عظیم کیا۔ مگر ہمارے معاشرے میں پسند یا ناپسند لڑکے لڑکی کی نہیں، صرف ماں باپ کی دیکھی جاتی ہے۔ بلاشبہ شادی والدین کے مشورے اور رضامندی سے کرنی چاہیے، مگر والدین کو بھی قرآن کریم کے ان احکام کو پیش نظر رکھنا چاہئے اور اپنی مرضی کو اولاد پر ٹھونسنا نہیں چاہئے۔ اس لیے کہ یہ ان کے مستقبل کا سوال ہے۔

دوسری آیت کریمہ میں حدِ نکاح تک پہنچنے کا بیان ہے، جس سے واضح ہوا کہ نکاح بلوغ کے بعد ہونا چاہئے۔ نابالغ کا نکاح نہیں کرنا چاہئے۔ ہمارا معاشرہ ان دونوں احکام کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اولاً جبراً نکاح کردیتے ہیں اور بچوں کی رضامندی کو نظر انداز کرتے ہیں۔ ثانیاً مدتِ نکاح تک پہنچنے سے پہلے نابالغوں کے نکاح کردیتے ہیں اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اکثر شادیاں ناکام ہوتی ہیں۔

نابالغ لڑکے یا لڑکی یا دونوں کا نکاح جب باپ یا ان کا دادا کردے تو یہ نکاح شرعاً منعقد ہوجاتا ہے اور لڑکے لڑکی کو بالغ ہونے کے بعد اسے توڑنے کا اختیار نہیں ہوتا۔ اب چونکہ نکاح ہوچکا ہے، لہذا اب اس لڑکے سے طلاق لیے بغیر دوسری جگہ نکاح نہیں ہوسکتا۔

لیکن اگر باپ دادا کے علاوہ کوئی دوسرا رشتہ دار نابالغ کا نکاح کرے تو بالغ ہونے کے بعد لڑکا لڑکی کو اس نکاح کو برقرار رکھنے یا توڑنے کا اختیار ہوتا ہے۔ فتاوی عالمگیری میں ہے:

فان زوجهما الاب والجد فلا خیار لهما بعد بلوغهما وان زوجها غیر الاب والجد فلکل واحد منهما الخیار اذا بلغ ان شاء اقام علی النکاح وان شاء فسخ وهذا عند ابی حنیفة و محمد رحمهما الله تعالی و یشترط فیه القضاء.

’’اگر نابالغ لڑکے لڑکی کا نکاح باپ دادا نے کیا، تو بالغ ہونے کے بعد ان کو توڑنے کا کوئی اختیار نہیں اور اگر ان کا نکاح باپ دادا کے علاوہ کسی اور نے کیا تو ان میں سے ہر ایک کو بالغ ہونے پر اختیار ہے، چاہے تو نکاح برقرار رکھے اور چاہے تو توڑ دے اور یہ ابو حنیفہ و محمد رحمہما ﷲ کا مسلک ہے اور قاضی کا فیصلہ اس میں شرط ہے۔‘‘

(فتاویٰ عالمگیری، 1: 285)

کسی نابالغ کا باپ دادا کا کیا ہوا نکاح شرعی و قانونی چونکہ برقرار ہے۔ خاوند نے طلاق نہیں دی چونکہ طلاق دینے کا اختیار صرف خاوند کو ہے جس کے قبول کرنے سے نکاح ہوا تھا، اسی کے طلاق دینے سے نکاح ٹوٹ سکتا ہے۔

بَیَدِهٖ عُقْدَةُ النِّکَاحِ.

’’نکاح کی گرہ اسی (خاوند) کے ہاتھ میں ہے۔‘‘

لہٰذا خاوند کے ہوتے ہوئے کسی کو تنسیخ کی اجازت نہیں۔