تحریک کی کامیابی کا راز کتاب اور خطاب میں پوشیدہ ہے

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محبوب حسین

اللہ رب العزت کا شکر، انعام اور احسان ہے کہ گذشتہ کئی سالوں سے تحریک منہاج القرآن تسلسل کے ساتھ ہر سمت اور ہر جہت میں رو بہ ترقی، روبہ استحکام، روبہ عروج اور روبہ کمال ہے۔ مختلف ادوار میں بعض کوششیں ایسی ہوتی ہیں جو طبعی طور پر لوگوں کو Motivate کرتی ہیں اور اس Emotional motivation کے نتیجے میں خاص معروضی حالات میں تحریک عروج، فروغ اور ترقی کی جانب گامزن رہتی ہے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ معروضی و خارجی حالات کے باعث وہ خاص Emotional Reasons اور جذباتی (Sentimental) اسباب میسر نہیں ہوتے جو ایک طغیانی و تموج اور تحرک و فعالیت پیدا کریں مگر اس دور میں بھی تحریک اپنی فکر، نظریہ اور کارکنان کی Commitment کی بنیاد پر استقامت کے طریق پر بڑھتی رہتی ہے۔ یہ عروج اور ترقی پائیدار ہوتی ہے۔

یہ بات واضح ہے کہ کسی ملک کے مذہبی، سیاسی اور نظریاتی ماحول اور کلچر کا اس ملک میں موجود تحریکوں اور جماعتوں کی ترقی میں بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ اس تناظر میں تحریک منہاج القرآن کے قیام کے وقت اور بعد ازاں اسے کیا تہذیبی، ثقافتی، سماجی، معاشرتی، مذہبی، سیاسی ماحول میسر تھا، اس کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

تحریک کے قیام سے قبل کے عالمی اور قومی حالات

تحریک منہاج القرآن کے قیام سے دو دہائیاں قبل عالمی حالات اور اس تناظر میں پاکستان کے حالات اور ماحول کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات نظر آتی ہے کہ یہ دور عالمی سطح پر نظریاتی تقسیم کا دور تھا۔ انقلاب کی بات کی جاتی تھی، سرخ انقلاب، سبز انقلاب، سوشلزم، کمیونزم، کیپٹلزم، ایشیاء سرخ ہے، ایشیا سبز ہے، امریکن بلاک، رشین بلاک وغیرہ، الغرض ایک عجیب قسم کی نظریاتی جنگ تھی اور اس ماحول میں اسلام کی مختلف تعبیرات کی جاتی تھیں۔

دنیا میں امریکہ اور رشیا دو طاقتیں تھیں اور دو نظریات تھے: سرمایہ دارانہ نظریہ اور اشتراکی نظریہ۔ دنیا بھی دو بلاکس میں تقسیم تھی۔ اس وقت لوگ ان ہی نظریات کی زبان میں بات کرنے کی صورت میں بقاء (Survival) پاتے تھے۔ 60ء اور 70ء کی دہائی میں لوگ ان ہی نظریات کی بولی میں بات کرتے اور اپنے آپ کو ان دو نظریات میں سے کسی ایک سے جوڑتے تھے اور اسی ماحول میں زندہ رہتے تھے۔ عوام کا سارا تحرک، فعالیت، جوش و خروش، نعرہ بازی، جلسے جلوس اور دھڑے بندیاں ان دو نظریات کے اردگرد ہی گھومتی تھیں۔

بدقسمتی سے اسلام کو غلط تعبیرات کے نتیجے میں سرمایہ داریت والے بلاک میں رکھ دیا گیا تھا اور مذہبی جماعتیں سرمایہ دارانہ بلاک کا حصہ تصور کی جاتی تھیں اور اس دور میں اسلام کی سرمایہ دارانہ (Capitalistic) تعبیر کی جاتی ہے۔ اس وقت جدت، ترقی اور نئے دور کی جو بات کرتا تھا تو وہ کسی نہ کسی شکل میں اشتراکی (Socialistic) فلاسفی کے ساتھ جڑا ہوا ہوتا تھا۔ یہ لوگ ترقی پسند سمجھے جاتے تھے اور دوسری طرف سرمایہ دارانہ فلسفہ کے حامل رجعت پسند سمجھے جاتے تھے۔ یہ ایک دور تھا جو چند دہائیوں پر گزرا ہے اور رشیا کی بین الاقوامی سطح پر شکست کے بعد ختم ہوگیا۔

افغانستان میں رشیا کو شکست کے بعد وسطی ایشیاء کی ریاستوں میں بھی اسے شکست ہوتی چلی گئی، نئی ریاستیں بنتی گئیں، ان حالات میں رشیا کو اپنے آپ کو سنبھالنے کی فکر ہوگئی اور پوری دنیا میں اس کا بلاک کمزور ہوگیا۔ جب اس کا بلاک کمزور ہوا تو اس کی طاقت کمزور ہوئی اور پھر اس کا نظریہ بھی شکست کھاگیا اور بالآخر دنیا یونی پولر ہوگئی۔

ہمیشہ دنیا میں ایسا ہوتا ہے کہ لوگ ہمیشہ پاور فل کے ساتھ جاتے ہیں اور چڑھتے سورج کی پوجا کرتے ہیں۔ یہ انسانی بشری طبیعتیں ہیں خواہ وہ پاور فرعون کی تھی یا نمرود کی تھی یا یزید کی تھی۔ رشیا کی شکست کے بعد بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ کمیونزم کو شدید جھٹکا لگا اور اس کے مدِّ مقابل سرمایہ دارانہ (Capitalistic) اکانومی کے نظریہ کو غلبہ حاصل ہوگیا۔ اس نظریہ کے حاملین برطانیہ اور یورپ کے کئی ممالک تھے، جن کی قیادت امریکہ کررہا تھا۔ مذہبی جماعتیں اور مذہبی فکر رکھنے والے لوگ By Default امریکن لابی اور Capitalistic لابی کا حصہ یا ان کے ساتھ جڑے ہوئے تصور کیے جاتے تھے۔

اس دور میں جس کسی نے کام کیا، کوئی جماعت، تحریک اور تنظیم بنائی یا سیاسی، دینی یا مذہبی کوئی موومنٹ شروع کی، ادارے بنائے، جدوجہد کی تو وہ ساری جدوجہد اس بات پر قائم تھی کہ اس جماعت، تحریک یا ادارہ کا اُس دور کے معروضی سیاسی حالات اور سیاسی نظریات میں سے کس کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ دنیا کے یونی پولر ہوجانے اور سرمایہ دارانہ نظام کے غلبہ کے کچھ عرصہ بعد اس دور میں سرمایہ دارانہ نظام اور نظریہ کے خلاف بھی کئی تحریکیں چلیں اور جماعتیں قائم ہوئیں، جس کے تحت غریبوں اور مزدوروں کے حقوق کی بات کی جاتی۔ سرمایہ داروں اورCapitalistic Ecconomy کے خلاف روبہ عمل یہ جماعتیں اور تحریکیں لوگوں کے لیے کشش اور رغبت کا باعث ہوتی تھیں۔ ایسا اس لیے ہوتا کہ جب لوگ ایک نظریہ یا جماعت یا تحریک سے تنگ آجاتے اور اِن حالات میں کوئی نئی جماعت، یا نظریہ منظرِ عام پر آئے تو نئی بات درست ہے یا غلط، اس سے قطعِ نظر لوگوں کی طبیعت نئی تحریک یا جماعت کی طرف راغب ہوتی ہے، اس لیے کہ وہ جدید بات ہوتی ہے جو لوگوں کے لیے کشش رکھتی ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ Status Co کو توڑا جارہا ہے۔ کسی کو خبر نہیں ہوتی کہ آگے چل کر یہ نظریہ یا جماعت ایک نیا Status Co قائم کردے گی۔ ایک جوش ہوتا ہے اور اس جوش میں ہوش جاتا رہتا ہے۔

ان عالمی حالات کے تناظر میں پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو اور پیپلز پارٹی کا قیام عمل میں آیا، جس نے سرمایہ دارایت کے خلاف نعرہ بلند کیا۔ اس ماحول میں یہ نعرہ عام لوگوں کے لیے کشش کا باعث بنا۔ چنانچہ جب الیکشن ہوئے تو پیپلز پارٹی تمام جماعتوں کو شکست دے کے اقتدار میں آگئی۔

بنگلہ دیش میں بھی مجیب الرحمن نے اسی انداز کا نعرہ لگایا اور کئی دہائیوں پر محیط Status Co کو توڑنے کی بات کی۔ اس بات سے قطعِ نظر کہ ان کے خیالات کیا تھے؟ ان کے پیچھے کون تھا، کس نے یہ بات کہلوائی، کس کا ایجنڈا تھا، انجام کیا ہوا؟ یہ چیزیں لوگ بھول جاتے ہیں، کیونکہ جب جوش غالب آتا ہے تو ہوش نہیں رہتا۔ انھیں مشرقی پاکستان میں ووٹ ملے تو وہ طاقت میں آگئے اور پھر پاکستان دو لخت گیا۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان بنانا بھی نیچرل نہیں تھا۔ یہ بھی انگریز کا ایجنڈا تھا۔ ایک Unnatural جوڑ بنایا تھا۔ انھیں معلوم تھا کہ یہ ایک ملک نہیں رہ سکتا اور بالآخر یہ ٹوٹ جائیں گے۔

بھٹو صاحب اپنے 5 سال کے دور میں عوام کو وہ کچھ نہ دے سکے، لوگ جو ان سے توقع کرتے تھے۔ نتیجتاً آہستہ آہستہ ان کی مقبولیت ختم ہوگئی، وہ کمزور ہوتے گئے اور بالآخر مارشل لاء آگیا۔

جنرل ضیاء الحق کے دور میں کمیونسٹ فلاسفی رشیا کی شکست کے نتیجے میں دم توڑ چکی تھی۔ مارشل لاء آجانے کے بعد اب اسلام کا نعرہ لگایا گیا اور اسلام کی آئیڈیالوجی کا نام لیا گیا۔ اس نئے نعرہ کو دیکھتے ہوئے لوگ ادھر راغب ہوگئے۔ اب اس دور میں مذہبی لوگوں نے طاقت حاصل کی اور انھیں طاقت ور بنایا گیا۔ اس کانتیجہ یہ نکلا کہ اس زمانے میں مذہبی فرقہ واریت عروج پر پہنچ گئی۔

تحریک منہاج القرآن کا قیام اور اس وقت کے ملکی حالات (1980ء۔ 1989ء)

مذکورہ ماحول میں 1980ء میں ہم نے تحریک منہاج القرآن کی بنیاد رکھی اور ایک آواز بلند کی۔ اس وقت مذہبی زندگی میں جمود، انتہا پسندی، فرقہ واریت اور قدامت پسندی کا غلبہ تھا۔ مذہبی زندگی میں فعالیت، اجتہاد اور تخلیقیت نہیں تھی اور دین کو نئے تقاضوں کے مطابق آگے لے کر چلنے کا وجود تک نہیں تھا۔ اس ماحول میں ایک آواز اٹھی جس کی بنیاد عشقِ رسول ﷺ ، ربطِ رسالت، تعلق بالقرآن، رجوع الی اللہ، وحدتِ امت اور غلبۂ دینِ حق کے تصور پر تھی۔ ہم نے اپنی تحریک کے تمام اہداف و مقاصد، مکمل نظریہ اور منہاج القرآن کی فکر لوگوں کے سامنے رکھی۔ اتفاق سے وہ زمانہ سیاسی شور شرابے کا نہیں تھا، سیاسی طور پر سرگرمیوں پر پابندی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کا دور ختم ہونے کے بعد اور جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے کچھ عرصے کے بعد سیاسی تحرک کا دور ختم ہوگیا تھا۔

تحریک کے پیغام کی جامعیت کی وجہ سے ہر طبقۂ زندگی کے لوگ اس کی طرف راغب ہوئے

تحریک منہاج القرآن نے جب اسلام کے حوالے سے ایک مکمل تصور دیا تو اس کی بہت سی جہات لوگوں کے لیے اس وجہ سے رغبت اور کشش کا باعث تھیں کہ کسی نے کبھی اس طرف دعوت ہی نہیں دی تھی اور ان جہات سے صرفِ نظر کیا ہوا تھا۔ اس وجہ سے تحریک کے قیام کی پہلی دہائی میں قوتِ متحرکہ (Motivative power) روحانیت تھی۔ تحریک منہاج القرآن کے ذریعے لوگوں کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے تعلق پیدا ہوا، عشقی اور حبی کیفیات نے جنم لیا اور لوگوں کی رغبت نیک اعمال کی طرف ہوگئی۔ اس طرح ایک نئی فکر، عمل، عشق، محبت اور جدیدیت لوگوں کو ہماری صورت میں ملی۔ تحریک منہاج القرآن کے قیام کی پہلی دہائی میں ہمارے ساتھ شامل ہونے والے کئی طرح کے طبقات تھے:

  1. ایک حلقہ دینی و مذہبی تھا، ان کے لیے روحانیت باعثِ کشش بنی۔ لہذا یہ لوگ جوق در جوق ہماری طرف متوجہ ہوئے۔
  2. دوسرا طبقہ ان لوگوں کا تھا جن کی طبائع سیاسی طور پر مفاد پرست طبقے کی طرف راغب ہوتی تھیں یا Status co کے ساتھ کھڑے تھے، یہ لوگ Capitalistic اکانومی کو چاہتے تھے مگر اس کے ساتھ ساتھ ان کے اندر مذہب اور دین کا عنصر بھی موجود تھا، لہذا یہ طبقہ بھی ہمارے ساتھ شامل ہوگیا۔
  3. اس دور میں وہ طبقے بھی تحریک میں آئے جو اشتراکیت کے حامی تھے۔ یہ لوگ غریب اور مزدور کی بات کرتے تھے، سرمایہ داریت کے خلاف ایک انقلاب کی بات کرنے والی طبیعتیں تھیں۔ تحریک منہاج القرآن کی طرف سے پیش کی گئی دین کی تعبیر کی طرح کی کسی تعبیر کا ان کے ہاں پہلے کوئی تصور نہ تھا، اس سبب یہ لوگ سیکولر ہوگئے تھے۔ دین کی طرف سے سیکولر مائنڈڈ لوگوں کوکبھی کسی آواز نے Attract ہی نہیں کیا تھا۔ علماء و سکالرز اور مبلغین کی دین کی تبلیغ انہیں دین کی طرف مائل نہیں کرتی تھی، اس لیے کہ علماء و مبلغین جونہی بات کرتے تو ان کی باتوں میں ان کو سرمایہ داریت کا (Capitalistic) اور رجعت پسندی کا سایہ اور جھلک نظر آتی تھی، لہذا وہ ان سے متنفر اور دور تھے۔ ان کی طبیعتیں تجدّد پر تھیں اور اِدھر دینی حلقوں میں کوئی جدید آواز ایسی نہ تھی جو دین پر بھی ہو اور جدت بھی لائے۔ تحریک منہاج القرآن کے قیام سے یہ دو چیزیں جمع ہوئیں تو یہ لوگ بھی اس حلقہ میں آگئے۔

سو ہر وہ طبقہ جن کی مذہب اور دین کے ساتھ محبت تھی، اس سے قطع نظر کہ وہ سیاسی، سماجی، معاشی اور اقتصادی اعتبار سے کس بلاک کے ساتھ جڑا ہوا تھا، اسے جب دین اور مذہب کی حقیقی تعبیر کی صورت میں ایک نئی دنیا ملی تو وہ ہمارے ساتھ شامل ہوگیا۔

تحریک منہاج القرآن نے دین کی ایک ایسی تعبیر معاشرے کے ہر طبقہ کے سامنے پیش کی کہ جس کے کئی گوشے تھے۔ کسی کے لیے عشقِ رسول ﷺ کشش کا باعث بنا۔۔۔ کسی کو تعلق باللہ مانوس کرگیا۔۔۔ کسی کو دین کی اجتہادی تعبیرات پسند آگئیں۔۔۔ کسی کو دورِ جدید میں اسلام کا ترقی پسندانہ رخ Attract کرگیا۔۔۔ کسی کے لیے گریہ و زاری اور شب بیداریاں کشش کا باعث بن گئیں۔۔۔ الغرض ہم نے تحریک منہاج القرآن کی صورت میں ایک ایسے دستر خوان کی مثال لوگوں کے سامنے رکھ دی جس پر ایک ہی وقت میں بہت سی ڈشز موجود تھیں: چکن قورمہ، مٹن قورمہ، بریانیاں، پلاؤ، سبزی، دال، گوشت، Sweet Dishes، ہر کھانے والے کو جو جو طلب تھی، اس کو اس دستر خوان پر نظر آرہا تھا۔ پس جس کو اپنی طلب کا ملتا گیا، وہ آتا گیا۔ اس دستر خوانِ منہاج پر ابتدائی دس سال اس طرح گزرے۔

تحریک کے سیاسی دور کا آغاز (1989ء)

ہم نے 1989ء میں پاکستان عوامی تحریک قائم کی اور اس پلیٹ فارم سے سیاسی کوشش شروع کردی۔ PAT کے قیام کے زمانے میں پورے پاکستان میں ہر وقت میرے دورہ جات ہوتے۔ میں نے 1989ء ، 1990ء اور 1991ء کے دور میں ایک ایک دن میں ایک شہر میں چالیس چالیس دفاتر کا افتتاح کیا، ایک ایک دن میں بیس بیس جلسوں سے خطاب کیا اور ایک ایک دن میں 16-16 گھنٹے تک سفر کیا ہے۔

جس طرح تحریک کے قیام کی پہلی دہائی کے عالمی حالات کے تناظر میں لوگ سرمایہ داریت اور اشتراکیت میں بٹے ہوئے تھے۔ اسی طرح جب ہم نے سیاسی جدوجہد شروع کی تو وہ ماحول ملکی سطح پر سیاسی جنگ وجدال کا ماحول تھا۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے پر الزامات میں مصروف تھے، لوگ ان سے پریشان اور تنگ تھے۔ اس ماحول میں جب ہم نے آواز اٹھائی تو ایک بڑا جوش و خروش پیدا ہوا اور مجموعی طور پر ہمارے کارکنان اور ہماری جدوجہد میں سیاسی مزاج اور سیاسی جدوجہد کا غلبہ ہوگیا۔

فروغِ تعلیم منصوبے کا آغاز (1993ء)

سیاسی میدان میں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد ہم نے حالات کو دیکھا تو 1993ء میں سیاسی سرگرمی اور انتخابی سیاست معطل کردی اور فیصلہ کیا کہ ہم گراس روٹ لیول تک اپنا تنظیمی و انتظامی نیٹ ورک قائم کریں گے اور اس میں زیادہ مضبوطی، استحکام اور وسعت پیدا کریں گے۔ چنانچہ ہم نے اپنی سرگرمیوں کا رخ عوامی تعلیمی مراکز کی طرف موڑ دیا۔

1993ء سے 1998ء تک 6 سال نیم سیاسی اور دینی و روحانی سرگرمیاں تو چلتی رہیں مگر عوامی تعلیمی مراکز کے قیام پر فوکس رہا۔

دوسرے سیاسی دور کا آغاز(1998ء)

1998ء میں پاکستان عوامی تحریک کے پلیٹ فارم سے سیاسی سرگرمیاں دوبارہ بحال ہوئیں، عوامی اتحاد بنا، ایک غلغلہ ہوگیا، جب کسی چیز کا غلغلہ ہوتا ہے تو اس میں پھر ایک عروج بھی ہوتا ہے۔ واہ واہ ہوتی ہے لوگ دیکھا دیکھی میں شامل ہوتے ہیں۔ عوامی اتحاد کی صدارت ہمارے پاس تھی۔ پیپلز پارٹی انتخابی میدان میں بڑی جماعت تھی جبکہ ہماری تحریک کی قوت؛ کارکنوں کی کمٹمنٹ، صدق، اخلاص اور ایمانی جذبہ تھا۔ ہماری طاقت اور تھی مگر ہر طاقت کے ساتھ مقابلہ کیا اور ہر جگہ کارکن اپنی جگہ بناتے چلے گئے۔ کارکنان کو ایک جنون ہوتا کہ اپنی تحریک کو نمبر ون ثابت کریں اور الحمدللہ تعالیٰ انھوں نے ہر جگہ اسے نمبر ون ثابت بھی کیا۔ ایسے لگتا تھا کہ پاکستان کی سب سے بڑی جماعت PAT ہے۔ کارکنان کی کمٹمنٹ سے ایک نیا ماحول اور نئے ظروف پیدا ہوئے۔ یہ دور 2004ء تک جاری رہا۔ میں نے جب اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیا تو یہ دور اپنے اختتام کو پہنچا۔

تحریک کی ہر سرگرمی کے دوران تجدیدِ دین اور احیائے اسلام کا کام مسلسل جاری رہا

یہ امر ذہن نشین رہے کہ خواہ سیاسی دور ہو یا فروغِ تعلیم پر توجہ، اس تمام جدوجہد کے دوران تصنیف و تالیف کا کام نہیں رکا۔ یہ 600 کتابیں جو آج طبع ہوچکی ہیں، یہ آسمان سے تو نہیں اتر آئیں، یہ ساری ان ہی ادوار میں ساتھ ساتھ تالیف ہوتی رہیں۔ ہر کام ہوتا رہا، کوئی کام نہیں رکا، نئے کام آتے رہے تو پچھلے کام نہیں رکے۔ اگر ہم اپنے روزمرہ معمول میں دیکھیں تو یہ عام بات ہے کہ کوئی نیا کام شروع ہوتا ہے تو پچھلا روکنا پڑتا ہے مگر ہمارا کام الحمدللہ نہیں رکا۔ تجدید و احیاء اسلام اور اصلاحِ احوال کا کام جس طرح اوّل دن سے جاری تھا، اسی طرح بلکہ اس سے بھی کئی گنا بڑھ کر آج بھی جاری و ساری ہے۔

حکمتِ عملی کی تبدیلی تحرک کی علامت ہے

دوسری اہم ترین یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ہم وقت کے ساتھ ساتھ ترجیحات کو تبدیل کرتے رہے، اسی کا نام تحریک ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ترجیحات اور طور طریقے تبدیل نہ کیے جائیں، نئے نئے ظروف پیدا نہ کیے جائیں تو وہ جمود ہے۔ تحرک اور تحریک اس بات کا نام ہے کہ نئے ظروف بنائیں، نئے حالات پیدا کریں، نئے طریقے اور نئی حکمتِ عملی وضع کریں تاکہ اپنے زمانے میں کہیں پیچھے نہ رہ جائیں بلکہ آگے بڑھتے جائیں۔ پچھلوں کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہے اور نئے لوگوں کو بھی دعوت دے کر آگے بڑھنا ہے۔جہاں جمود آئے گا یا نئے لوگ آنا بند ہوجائیں گے یا پچھلے لوگ ساتھ چلنا بند کردیں گے تو اس کا مطلب ہے کہ کہیں کوئی نہ کوئی خرابی ہے۔ پچھلے بھی ساتھ نہ چھوڑیں اور نئے لوگ بھی آنا بند نہ ہوں بلکہ آتے جائیں تو یہ بڑا مشکل کام ہوتا ہے۔ اللہ نے ہمیں ہر زمانے میں فتح دی اور ہماری تحریک کا کام کسی مرحلہ پر بھی مکمل طور پر بند نہیں ہوا۔

بیداریٔ شعور مہم کا آغاز (2004ء)

1998ء سے 2004ء تک بھرپور سیاسی دورانیہ کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ ہم نے انتخابی سیاست میں دو مرتبہ شمولیت اختیار کی لیکن ہم اس طریقے سے اپنی منزل کو نہیں پہنچ سکتے۔ لہذا فیصلہ کیا کہ بیداریٔ شعور کی مہم چلائیں اور غیر انتخابی طریقے سے اس ملک میں انقلاب اور تبدیلی کی کوشش کریں۔ پس بیداریٔ شعور کی مہم 2004ء سے شروع ہوگئی۔ یہ تحریک آٹھ سال چلی۔ اس تحریک کا ٹارگٹ یہ تھا کہ انقلاب لانا ہے اور ملک کا نظام بدلنا ہے۔ جب ہم نظام بدلنے کی بات کرتے ہیں تو صاف ظاہر ہے کہ طاقت و اقتدار میں آنے کی بات کررہے ہوتے ہیں۔ یہ نیا ٹارگٹ بھی دراصل سیاسی ٹارگٹ ہی تھا، لہذا لوگوں کا ایک جوش و خروش تھا اور یہ جوش و خروش 2012ء میں مینار پاکستان کے جلسے کے وقت عین عروج پر تھا۔

2013ء اور 2014ء کا دھرنا

جنوری 2013ء میں ملکی تاریخ کا پہلا دھرنا ہوا۔ بعد ازاں 17 جون 2014ء میں سانحہ ماڈل ٹاؤن ہوا جس میں شہادتیں ہوئیں۔ پھر اگست 2014ء سے اکتوبر 2014ء تک 72 دنوں کا دھرنا ہوا۔ اس ساری جدوجہد کی قوتِ محرکہ (Motivating factor) سیاسی انقلاب اور ملک کے نظام کو بدلنا تھا۔ اس دور میں تحریک میں عام لوگ بھی منسلک ہوگئے۔ 2012ء سے 2014ء تک کے دور کو ہم عوامی طاقت کے اعتبار سے عروج کا دور سمجھتے ہیں۔ لوگوں نے شب و روز اپنی توانائی، وسائل اور اپنی بے پناہ مال و دولت خرچ کی۔

2014ء کے دھرنے کے بعد کے تحریکی حالات

2014ء کے دھرنے کے بعد جب ہم واپس آگئے اور وہ امید کہ ہم اس فرسودہ سیاسی و انتخابی نظام کو اٹھا کر پھینک دیں گے، نیا نظام لے کر آئیںگے، اپنی حکومت قائم ہوگی، نیا نظام نافذ کریں گے، یہ Motivating factor ایک وقت کے لیے ختم ہوگیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ِاس وقت ہم کہاں کھڑے ہیں؟

ذیل میں اس سوال کا جواب ہم درج ذیل مختلف زاویوں سے تلاش کریں گے:

(1) سیاسی سرگرمیوں کے باوجود دینی تشخص اور خدمات کا جاری رہنا رحمت و انعامِ خداوندی ہے

یاد رکھ لیں کہ دینی تحریکوں کی زندگی میں وہ وقت انتہائی کڑے امتحان کا ہے کہ جب وہ دینی تحریک سیاسی جدوجہد کا آغاز کردیتی ہے۔ سیاسی جوش و خروش کا باب شروع ہوجائے تو اس وقت دین، مذہب، روحانیت، فکر، علم، اجتہاد، تصنیف و تالیف، دینی اداروں کاقیام، روحانی تربیت الغرض یہ سارے عوامل دب جاتے ہیں۔ جماعتوں کی تاریخ میں جب ان کا سیاسی کردار غالب ہوجاتا ہے تو ان کا تعلیمی، روحانی اور مذہبی کردار بتدریج کمزور ہوتا چلا جاتا ہے، حتی کہ ختم ہوجاتا ہے۔ سیاست ایک ایسی چیز ہے جو بندے کو کھا جاتی ہے۔ اگر سیاست کا چسکا لگ جائے تو بندے کی میت بھی سیاست چاہتی ہے کہ اس کی میت اور جنازہ بھی سیاسی لیڈر کے طور پر اٹھے۔ یہ چسکا ایسا ہے کہ کچھ ملے یا نہ ملے مگر چسکا لگا رہتا ہے۔

وہ جماعتیں جو صرف سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں، ان کے لیے کوئی آزمائش نہیں ہوتی، اس لیے کہ وہ کچھ حاصل کریں یا نہ کریں، کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ وہ سیاست کے ساتھ بنیں، سیاست کے لیے بنیں، سیاست کے ساتھ زندہ ہیں، سیاست کے ساتھ ہی انھیں چلنا اور مرنا ہے اور ان کا جینا مرنا سیاست ہے۔ امتحان ان کے لیے ہوتا ہے جو ایک وقت میں دین کا پیغام بھی دے رہے ہیں اور سیاست کو دین کا حصہ سمجھ کر سیاسی جدوجہد بھی کررہے ہیں۔ اس بات کی تصدیق کے لیے پاکستان کے اندر بھی اور عالمی سطح پر بھی جماعتوں کی تاریخ کا جائزہ لے لیں، حقیقتِ حال واضح ہوجائے گی۔

عالمِ عرب میں جو تحریکیں دینی فکر، دین کے احیاء، تجدید اور لوگوں کے اعمال و احوال کی اصلاح کے لیے قائم ہوئیں اور دین کی شناخت کے ساتھ چلیں، انھوں نے اپنے اس سفر کے دوران اپنے ملک میں دین کو غلبہ دینے کے لیے سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا تو جوں جوں سیاسی جدوجہد میں شب و روز مصروف کار ہوئیں، ان کا دینی کردار ختم ہوگیا۔ ان جماعتوں کی دینی فکر، دین کا تشخص، دین کی سرگرمیاں ختم ہوگئیں اور دین کے حوالے سے ان کے چشمے سوکھ گئے۔ اس لیے کہ سیاست شروع ہوجانے کے بعد دین اور مذہب کی سرگرمیاں زندہ ہی نہیں رہتیں۔ سیاسی جدوجہد کے اثرات اس حد تک ہوتے ہیں کہ بڑے بڑے دینی ادارے (Institution) بند ہوجاتے ہیں۔ اس لیے کہ کارکن جب سیاست پر لگ جاتا ہے تو اس کا موڈ، مزاج اور طبیعت بدل جاتی ہے۔ سیاست کا مزاج ہی اور ہے۔ یہ پھنے خانی، دبدبہ، دعویٰ، جاہ و جلال کا ذوق اور مزاج ہے جبکہ دین کا مزاج تواضع و انکساری ہے۔ دین نفیِ نفس کا مزاج ہے جبکہ سیاست پروانِ نفس کا مزاج ہے۔ گویا دو بالکل جدا قسم کے مزاج ہیں۔ دینی کارکنان کی پہلے کسی اور مزاج اور انداز کی تربیت ہورہی ہوتی ہے مگر بابِ سیاست میں داخل ہونے کے بعد مزاج اور انداز بدل جاتا ہے۔

اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ بڑے بڑے عظیم سلطان جن کی بڑی خدمات ہیں اور جنہوں نے اسلام کو بڑا سیاسی تمکن دیا، اسلامی ریاست کو بنایا، پھیلایا، وسعت دی، شرق تا غرب دنیا میں سلطنتیں قائم کیں، ان ساروں کی زندگیاں خون میں لت پت ہیں۔ تخت کے لیے بھائی نے بھائی کو قتل کیا، باپ نے اولاد کو قتل کیا، اولاد نے باپ کو قتل کیا ہے۔ جہاں باہر دشمنوں کی جنگیں ہیں، وہاں اندر بھی جنگیں ہیں۔ خاندان میں جنگیں ہیں، سلطنتیں ٹکڑے ہوئی ہیں، یعنی تخت اور قتل ساتھ ساتھ چلتے ہیں، یہ تاریخ ہے۔ گویا سیاست کے دھندہ کا مزاج اور انداز یہ ہے کہ سیاست کسی دوسرے کو برداشت نہیں کرتی، اس نے اپنے آپ کو اوپر لے جانا ہے۔ اس لیے کہ اگر اس نے تواضع اور انکساری دکھائی تو دوسرا اسے دبوچ کر ختم کردے گا۔ اس لیے کہ سیاست صحیح یا غلط مؤقف؛ ہر دو صورت میں سر اٹھا کر چلنے کا نام ہوتا ہے۔

اسی طرح سیاست میں حق لینا ہوتا ہے جبکہ دین حق دینا سکھاتا ہے۔ دین یہ سکھاتا ہے کہ دوسر ابڑا ہے اور میں چھوٹا ہوں جبکہ سیاست کہتی ہے کہ میں بڑا ہوں اور ہر کوئی مجھ سے چھوٹا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینی و مذہبی فکر رکھنے والے جب میدان سیاست میں اترتے ہیں تو سیاست کے اس مزاج کی وجہ سے وہ دینی ومذہبی جدوجہد سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہی اور ان کی دینی و مذہبی سرگرمیاں بھی آہستہ آہستہ دم توڑ جاتی ہے۔

احیاء و تجدید دین کی کوئی تحریک اگر مکمل طور پر سیاست میں داخل ہوجائے تو تحریکوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ پھر ان جماعتوں اور تحریکوں کے اندر دین نہیں بچتا۔ صرف بوڑھے داڑھیوں والے لوگ نظر آتے ہیں جو گزرے ہوئے دور کی پرانی یادگار کے طور پر دکھائی دیتے ہیں اور اس تحریک اور جماعت میں دین کی سرگرمیاں جدوجہد، اور زندہ اور تازہ رکھنے والی حیات موجود نہیں رہتی۔ وہ بس میوزیم میں رکھنے والی ایک چیز کی مانند ہوتے ہیں۔ ان میں حیاتِ نو نہیں رہتی، نئے لوگ شامل نہیں ہوتے، پرانے لوگ برقرار نہیں رہتے اور اس تحریک اور جماعت کا سارا مزاج بدل جاتا ہے۔ اگر یہاں پنجابی لفظ استعمال کروں تو ان لوگوں کو ’’ٹھرکی‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ ٹھرکی ایک اصطلاح ہے جو اُن لوگوں کے لیے استعمال ہوتی تھی جو سونا بنانے کی کوشش کرتے کرتے بڑھاپے میں چلے گئے۔ جن کی ساری زندگی سونا بنانے میں گزر جاتی تھی مگر ان سے سونا بنتا کبھی بھی نہیں تھا۔ وہ ہمیشہ یہ کہتے دکھائی دیتے کہ ’’بس انیس بیس کا فرق رہ گیا تھا، بالکل بنتے بنتے رہ گیا۔‘‘ اس کے بعد پھر وہ دوبارہ سونا بنانے کی مہم شروع کردیتے تھے۔ یہ لوگ کبھی پیچھے نہ ہٹتے، سر نڈر نہ کرتے۔ اس لیے کہ چسکا ایک ایسی چیز ہے کہ اگر یہ ختم ہوجائے تو بندے میں تازگی نہیں رہتی۔

بتانا مقصود یہ ہے کہ کوئی بھی چیز ہو جس کے اندر جوش، جذبہ، امید قائم و دائم رہے تو بندہ اس کے اندر حرکت کرتا رہتا ہے، تگ و دو کرتا رہتا ہے مگر جس کی امید ختم ہوجائے تو وہ جھڑ جاتاہے۔ دنیا کی کوئی چیز لے لیں جب ہم امید ختم کرتے ہیں تو وہ کام ختم ہوجاتا ہے۔ پس جب دینی لوگ سیاست میں داخل ہوجاتے ہیں تو دینی، مذہبی، روحانی، اخلاقی، تعلیمی، فکری، تدریسی سرگرمیاں ختم ہوجاتی ہیں اور وہ برائے نام دینی رہ جاتے ہیں۔ اُن کے ہاتھ سیاست بھی نہیں آتی اور دین بھی اُن کی سرگرمیوں کا مرکز و محور نہیں رہتا۔

ہماری تحریک بھی ایک دینی تحریک ہے، جس کی پوری دنیا میں تجدید دین، احیائے اسلام اور اصلاحِ احوال کے لحاظ سے ایک پہچان ہے۔ ہم نے بھی سیاسی دور شروع کیا، مختلف ادوار سے گزرے، بڑے عروج پر گئے، بڑے بڑے عجیب مراحل سے بھی گزرے، ہماری دینی، روحانی اور اخلاقی سرگرمیوں میں سے کبھی ایک چیز غالب آگئی اور کبھی دوسری چیز نے غلبہ حاصل کرلیا، مگر اللہ رب العزت کا تحریک منہاج القرآن پر کرم اور فضل و انعام کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے کہ ہم نے اڑھائی دہائیوں (25 سال) پر محیط سیاسی جدوجہد کی مگر ہماری تحریک، تحریک منہاج القرآن کا دینی، علمی، فکری، اخلاقی اور روحانی تشخص کا ایک چشمہ بھی اللہ تعالیٰ نے خشک نہیں ہونے دیا۔ ہماری دینی اور مذہبی جدوجہد بند نہیں ہوگئی۔ ہمارے کام کا ایک دروازہ بھی اللہ تعالیٰ نے بند نہیں ہونے دیا۔ کبھی ہم تصور کرسکتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا انعام اور اس کی کتنی بڑی تائید و توفیق ہے۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس لیے کہ اس نے اس تحریک کو زندہ رکھنا تھا، پوری صدی کی تجدید اور دین کا احیاء تحریک منہاج القرآن سے اللہ تعالیٰ نے کرانا ہے۔ اگر اس کے چشمے سوکھ جاتے تو تجدید و احیاء کا یہ کام کیسے ممکن ہوتا۔

2014ء کے دھرنے کے بعد جب ہم اپنی دینی، روحانی، اخلاقی اور اصلاحی سرگرمیوں کی طرف پلٹ کر آئے تو out dated یا Expire نہیں ہوگئے تھے بلکہ ہماری بنیاد قائم و دائم تھی۔ ہم نے اپنا سفر پھر وہیں سے شروع کیا۔ گویا اللہ تعالیٰ نے ہماری حفاظت کی۔

(2) 2014ء کے بعد تحریک کے ہر شعبہ نے اپنے سابقہ ریکارڈ توڑ ڈالے

2014ء کے بعد آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟ اس سوال کے جواب کا دوسرا زاویہ بھی حیران کن اور تعجب انگیز ہے۔ یاد رکھیں کہ ہم جس عروج تک پہنچے کہ مینار پاکستان پر تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ، 2013ء کا دھرنا، 2014ء میں شہادتیں، استقامت، 2014ء کا دھرنا، قومی اور بین الاقوامی حالات موافق نہ ہونے کے باوجود جدوجہد کا جاری رہنا، یہ سب فضلِ خداوندی ہے۔ اس لیے کہ دین کو غالب نہ دیکھنے والی قوتوں کے ہتھکنڈے، بڑی بڑی رکاوٹیں اور طاقتیں جب تحریکوں کی راہ میں حائل ہوجائیں اور منزل تک نہ پہنچنے دیں تو ایسے مرحلے پر عام طور پر تحریکیں زندہ نہیں رہتیں بلکہ ختم ہوجاتی ہیں۔

ہماری جدوجہد کے دوران قوم کا کیا کردار تھا؟ یہ ایک الگ مضمون ہے مگر ہم اپنی جدوجہد کے دوران عروج تک گئے۔ بین الاقوامی سطح تک تمام نظریں ہم پر تھیں۔ 2014ء کے دھرنے کے بعد جب ہم پلٹ کر آئے تو لوگوں کی ایک امید ختم ہوگئی اور فوری طور پر وہ منزل جس کے لیے ہم گئے تھے، ہمیں نہیںملی تو ان حالات میں عام طور پر تحریکیں زندہ نہیں رہتیں۔ کوئی کارکن؛ کارکن نہیں رہتا، نظریہ ختم ہوجاتا ہے، تنظیمیں ٹوٹ جاتی ہیں۔ کارکنان کو دوبارہ بلائیں تو پلٹ کر کوئی نہیں آتا چونکہ انھیں بڑے زور و شور کے ساتھ چوبیس سال ایک سیاسی جدوجہد کے مل گئے تھے، لہذا ان پر یہ ذوق غالب آگیا تھا اور اب وہ سمجھتے تھے کہ اس کے بعد اب کیا کرنا ہے۔ قوم اور عوام کے ساتھ نہ دینے اور باہر نکل کر اپنا کردار ادا نہ کرنے کی وجہ سے وہ لوگ جو میدان میں نکلتے ہیں، ان کے حوصلے بھی پست ہوجاتے ہیں اور ہمتیں شکست کھا جاتی ہیں۔

ان حالات میں لوگ منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے بلکہ منہ چھپاتے پھرتے ہیں، دوبارہ بلانے اور دعوت دینے کے قابل نہیں رہتے، پوچھتے ہیں کہ اب کس چیز کی دعوت؟ تنظیموں اور کارکنان کے اندر جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں، تفرقہ شروع ہوجاتا ہے، الزامات، تہمتیں، دھڑے بندیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ مخالفت اور موافقت کا ایک نیا بحران شروع ہوجاتا ہے اور ایسا ہونا بالکل نیچرل ہے۔ اس لیے کہ بیس چوبیس سال یہ مزاج مسلسل ملا رہا اور غالب رہا، لامحالہ وہ تحریک ختم ہوجاتی ہے۔

اندازہ کریں کہ ہم اس دور اور ان حالات سے گزرے مگر رب کریم نے ہماری تحریک کو مرنے نہیں دیا بلکہ زندہ رکھا۔ یہ اللہ رب العزت کی کمال قدرت کا نمونہ ہے اور حضور نبی اکرم ﷺ کی امت میں حضور نبی اکرم ﷺ کے معجزات کے تسلسل میں سے ایک زندہ معجزہ ہے اور انسانی عقل اس کو باورنہیں کرسکتی۔

دھرنے سے واپس پلٹے تو ہمارا ہر بندہ Expire ہوگیا تھا۔ کسی غریب کے پاس زرِ رفاقت دینے کا بھی پیسہ نہ بچا، اس لیے کہ ان کے روزگار، نوکریاں، کاروبار ختم ہوگئے تھے۔ پائی پائی لوگوں نے ایک مقصد کے لیے لگادیں، جانیں تک قربان کردیں، کچھ پاس نہ بچا، حتی کہ یہ حالات ہوگئے کہ زرِ رفاقت آنا تقریباً بند ہوگیا۔

حتی کہ جب 2014ء کے بعد 2015-16ء میں اعتکاف آیا تو اس اعتکاف میں بیٹھنے کے لیے لوگوں کے پاس سحری و افطاری کے لیے دی جانے والی رقم تک نہ تھی۔ ان حالات میں ہم نے چاہا کہ لوگوں کی روحانی تربیت کا عمل نہ ٹوٹے، لہذا مرکز نے اکثریت کے لیے سحری و افطاری کا اہتمام اپنے طور پر کیا اور کچھ لوگوں نے اپنی بساط کے مطابق سحری افطاری کا خرچہ دیا۔

المختصر یہ کہ 2014ء کے بعد دو سال 2015-16ء میں وسائل اور تنظیمی یکجہتی کے اعتبار سے اور استقامت اور موافقت کے اعتبار سے ہم بالکل زمین پر آگئے۔ بڑے مشکل حالات تھے۔ ان دو سالوں میں مرکز، تنظیمات اور رفقاء و کارکنان نے جاری منصوبہ جات کو دوبارہ مستحکم کیا، بحال کیا اور پھر یہ ایسا بحال ہوئے کہ 2017ء تا 2021ء ان پانچ سالوں میں تحریک کے ہر شعبہ میں ہر سال بتدریج ترقی اور ارتقاء ہوتا چلا گیا اور موجودہ سال 2021ء میں تحریک ہر جہت، ہر شعبے اور ہر میدان میں ہر پیمانے اور ہر معیار پر اس قدر روبہ ترقی ہے کہ ہماری تحریک کے چالیس سال کا کوئی ایک زمانہ اس زمانے کی ترقی کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کا کرم ہے۔ اللہ رب العزت کی قدرت، اس کے انعام، فضل، اکرام، توفیق اور اس کی مدد و نصرت کا اس سے بڑھ کر اور نمونہ کیا ہوسکتا ہے کہ اس کی تائید نے ایک لمحہ کے لیے بھی اس مشن کو نہیں چھوڑا اور تحریک منہاج القرآن ایک لمحہ کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت سے محروم نہیں رہی۔

جن حالات کا سامنا تحریک منہاج القرآن کو رہا، ان حالات میں عام طور پر تحریکیں باقی نہیں رہتیں بلکہ ختم ہوجاتی ہیں۔ لوگ سلامتی کے ساتھ واپس نہیں پلٹتے اور اگرکوئی برائے نام بچ بھی جائے تو اس کے بعد وہ تحریک، جماعت یا تنظیم ایک میوزیم میں رکھے جانے والی چیز کی طرح برائے نام وجود کے ساتھ زندہ رہتی ہے۔ اس کے اندر ایک فریش زندگی اور عروج پر جانے کی استعداد، صلاحیت اور قوت نہیں رہتی۔ وہ مشکل سے اپنا گزارا کرتی ہے اور ایک رسمی سی جماعت کے طور پر زندہ رہتی ہے۔ میرے مطالعہ، تجزیہ اور مشاہدہ میں کسی ایسی تحریک، جماعت یا تنظیم کی مثال نہیں ہے کہ اِن حالات کے بعد بھی اس تحریک اور جماعت کے کارکنان کے اندر وہ توانائی، جوانی اور شباب آجائے، ہر شعبہ میں عروج اور ترقی ہو اور کارکن کا جذبہ اور جوش و خروش کم نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے تحریک منہاج القرآن پر ایسا کرم کیا کہ ایسے مراحل سے گزارکر نہ صرف اسے زندہ رکھا بلکہ عروج پر پہنچادیا اور عروج پر ایسا پہنچایا کہ صرف دو سال 2015-16ء ایک بحران میں گزرے اور ایسا ہونا نیچرل تھا مگر اس کے بعد مسلسل آج تک تحریک ہر جہت اور شعبہ میں مسلسل عروج کی جانب گامزن ہے۔

اس ترقی اور عروج کی جانب سفر کا کریڈٹ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، ڈاکٹر حسین محی الدین قادری، ناظم اعلیٰ خرم نواز گنڈا پور، تحریک کے جملہ نائب ناظمین اعلیٰ، جملہ فورمز کے عہدیداران اور شعبہ جات کے سربراہان کو جاتا ہے کہ انھوں نے انتہائی قلیل وقت یعنی صرف دو سال میں ایک نئے تنظیمی ڈھانچے کو قائم کرکے تحریک کو اس بحران سے نکالا اور صوبہ جات کو زونز میں تبدیل کرکے تنظیمی استحکام کو ممکن بنایا۔

ان مشکل حالت میں مرکزی قائدین کے ساتھ ساتھ تحریک کے جملہ فورمز کے کارکنان اور رفقاء حتی کہ ویمن لیگ کی بیٹیوں نے بھی صبر، استقامت اور جہدِ مسلسل کا دامن تھامے رکھا۔ جملہ رفقاء و کارکنان کی استقامت، کرامت اور عظمت کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ جب حالات نارمل تھے، اس وقت بھی ساتھ تھے اور اپنے تمام وسائل اور توانائیاں صرف کررہے تھے مگر ان کی عظمت اور استقامت اس وقت عروج پر نظر آتی ہے جب سترہ جون کی رات قربانیاں دیتے ہیں اور پھر بعد ازاں ناموافق حالات اور حد سے زیادہ مشکلات کے باوجود 72 دن دھرنے میں گزارتے ہیں مگر ان کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آتی۔

مزید یہ کہ جب وہ منزل فوری طور پر نہ ملے، جس کا نعرہ لگایا تھا اور اپنے پرائے سب طعنے دیں کہ کیا کرکے آئے ہو؟ تو اِن حالات میں حوصلہ ختم ہوجاتا ہے، باتوں کو سننے کی ہمت نہیں رہتی، کسی کا سامنا نہیں کرسکتے، سراسر موت کی کیفیت ہوتی ہے، وہ تازگی نہیں رہتی کہ قوت و اعتماد کے ساتھ باہر نکلیں اور دعوت دیں مگر اس دور میں بھی تمام قائدین، کارکنان اور ذمہ داران نے اپنا کردار ادا کیا۔

اتنے مراحل سے گزر کر آج پھر ہماری یہ پوزیشن ہوگئی ہے کہ الحمدللہ تعالیٰ پاکستان میں سب سے زیادہ مکرم و معتمد ہمارے کارکن ہیں۔ آج ہر کوئی یہ کہتا ہے کہ ’’آپ سچ کہتے تھے‘‘۔ جو طعنے دیتے تھے، وہ بھی کہتے ہیں کہ ’’آپ ہی سچ کہتے تھے۔ اس نظام کو بدلے بغیر ملک کی کوئی خیر نہیں ہوگی۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ہماری عزت برقرار رکھی، ہمارا مقام، مرتبہ، اعتبار، اعتماد اور قوت آج پہلے سے کئی بڑھ کر ہے۔ کئی لوگ پھسل کر بکھر گئے اور ’’تبدیلی‘‘ کے لیے گئے، اب انھیں بھی ’’تبدیلی‘‘ کی سمجھ آچکی ہوگی۔

ہم استقامت کے ساتھ بڑھتے رہے، صفر سے اٹھے اور دو سال میں گری ہوئی عمارت کو پھر دوبارہ سے تعمیر کیا، بحال کیا، تنظیموں کی تشکیل نو کی، ان کے اندر کے اختلافات ختم کیے، دھڑے بندیاں ختم کیں، ان کو جوڑا، عزم دیا، پروگرام دیئے، پیغام دیئے، مرکز سے لے کر صوبہ، ڈویژن، ضلع، تحصیل، یوسی الغرض ہر جگہ ان کے اعتماد کو بحال کیا اور سرگرمیاں زور و شور سے چلیں۔ قائدین اور کارکنان کی اس ان تھک جدوجہد کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج ہم ہر حوالے سے تحریک کی 41 سال کی تاریخ کے بلند ترین مقام پر ہیں۔

تحریک کی کارکردگی کو جانچنے کے پیمانے

پوری دنیا میں ہمارے دو قسم کے رفقاء ہیں:

1۔ رفقاء کی ایک قسم وہ ہے جو مرکز کے ساتھ جڑے رہتے ہیں اور اتنا جڑے رہتے ہیں کہ تمام حقیقی معلومات ان کو میسر ہوتی ہیں۔ یہ رفقاء مرکز پر آنا جانا رکھتے ہیں، معلومات لیتے ہیں اور کام میں خود Involve ہوتے ہیں، اِن معلومات کی وجہ سے وہ رائے قائم کرسکتے ہیں کہ ہم کل کہاں تھے اور آج کہاں ہیں؟ چند سال پہلے کہاں تھے؟ دھرنے کے بعد حالات کیا تھے؟ اگلے سال کیا ہوا، اس سے اگلے سال کیا ہوا اور آج کیا حالات ہیں؟ الغرض جو لوگ جڑے رہتے ہیں، انہیں معلومات ملتی رہتی ہیں۔

2۔ دوسری قسم ایسے رفقاء و اراکین کی ہے کہ جو براہِ راست تنظیمی ذمہ داریوں میں Involve نہیں ہوتے، اس وجہ سے معلومات تک ان کی براہِ راست رسائی نہیں ہوتی۔ مرکز سے بھی ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا اور نہ مرکز آنا جانا رہتا ہے کہ ناظم اعلیٰ آفس، ممبر شپ دفتر یا دیگر ان دفاتر سے معلومات لیں، جہاں صحیح اور دستاویزی معلومات دستیاب ہیں کہ تنظیمی سٹرکچر کتنا ہے؟ کہاں تنظیمیں بن چکی ہیں؟ ان کے ضلع اور تحصیل میں کتنے رفقاء ہیں؟ زرِ رفاقت کیا آرہا ہے؟ لائف ممبر شپ کتنی ہے؟ اجتماعات کتنے ہورہے ہیں؟ دعوت بذریعہ سوشل میڈیا کتنی ہورہی ہے؟ کتنے لوگ نئے ممبر بن رہے ہیں؟ کتنے حلقاتِ درود ہورہے ہیں؟ نظامتِ دعوت و تربیت کیا سرگرمیاں اور کورسز جاری رکھے ہوئے ہے؟ یعنی تحریکی سرگرمیوں کی تعداد اور نوعیت کیا ہے؟ ان رفقاء کو اس حوالے سے معلومات نہیں ہوتیں۔ صرف دور بیٹھے ہوتے ہیں، تعلق بھی کوئی نہیں اور اپنے خیالات میں تحریک کی ایک تصویر بنا رکھی ہے۔ اگر مرکز کے ساتھ یا تنظیم کے کسی بندے کے ساتھ ان کو کسی وجہ سے غصہ، ناراضگی، دل شکستگی، نفرت اور غیض و غضب ہے تو پھر تو لازمی بات ہے کہ انھیں دن بھی رات نظر آئے گا۔

سمجھانا مقصود یہ ہے کہ مرکز سے تعلق نہ ہونے کے سبب یہ لوگ بے خبر ہوتے ہیں اور اس بے خبری میں کوئی بھی آدمی انھیں تحریک کا کوئی غلط تاثر دینا چاہتا ہو تو وہ اسے قبول کرلیتے ہیں۔

میں دنیا بھر کے تنظیمی ذمہ داریوں پر فائز کارکنان کو بتانا چاہتا ہوں کہ اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کی تحریک پہلے کہاں تھی؟ آج کہاں ہے؟ کس رخ پر جارہی ہے؟ اس حوالے سے حق اور سچ پر مبنی معلومات لینی ہوں تو مرکز آکر دو، چار دن قیام کریں۔ ایک ایک دفتر کا Visit کریں، اپنے اضلاع، تحصیلوں کے سالہا سال کے ریکارڈز دیکھیں اور پھر اِن ریکارڈز کا موازنہ کریں۔ آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ تحریک کس جانب گامزن ہے۔ مرکز کے لوگوں کو میری ہدایات ہیں کہ وہ کسی بھی تنظیمی ذمہ دار سے اس کے ضلع یا تحصیل یا علاقے کا ریکارڈ نہیں چھپا سکتے۔

یاد رکھیں! کسی چیز کو پرکھنے کے لیے اپنی ذاتی خواہش اور اپنا من گھڑت اور خود ساختہ خیال پیمانہ نہیں ہوتا بلکہ پیمانہ زمینی حقائق ہوتے ہیں اور زمینی حقائق کا ادراک ہوتا ہے۔ جب رفقاء و کارکنان اور ذمہ داران تحریک کے آفیشل پلیٹ فارم سے حقائق حاصل کریں گے اور زمینی حقائق کا ادراک کریں گے تو پتہ چل جائے گا کہ اللہ کی کتنی مدد و نصرت اس تحریک کے ساتھ ہے۔

  • تحریک کی پروگریس جاننے کا ایک پیمانہ اس کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی تقریبات بھی ہیں۔ مثلاً: انسائیکلو پیڈیا آف قرآن کی تقریبات، میلاد تقریبات، ماہانہ دروس قرآن، نظامتِ تربیت کے زیر اہتمام ہونے والے کورسز، محرم الحرام کی تقریبات، قائد ڈے تقریبات وغیرہ، یہ تمام تقریبات بھی ایک پیمانہ ہیں کہ پچھلے سالوں میں تحریک کے زیرِ اہتمام اِن تقریبات کی تعداد کتنی تھی اور آج کیا ہے؟
  • اسی طرح تحریک کی کارکردگی اور ترقی کو جاننے کا ایک پیمانہ تحریک کے مختلف فورمز بھی ہیں۔ یوتھ لیگ، MSM، ویمن لیگ، علماء کونسل کے زیر اہتمام جاری سرگرمیاں اور ان کے ذریعے آنے والی لائف ممبر شپ اور زرِ رفاقت میں اضافہ تو ہو ہی رہا ہے حتی کہ پاکستان عوامی تحریک بھی روز افزوں ترقی کی جانب گامزن ہے۔ میں نے PAT سے عملاً استعفیٰ دے دیا ہے، ان کے پروگرامز میں نہ میں شرکت کرتا ہوں اور نہ ہی ڈاکٹر حسن محی الدین اور ڈاکٹر حسین محی الدین جاتے ہیں مگر یہ فورم بھی روبہ ترقی ہے۔ PAT کے اندر کام کرنے والوں میں ایمان اور صدق و اخلاص کی Motivation ہے۔ وہ ان شاء اللہ ان کو اور آگے لے کر چلے گی۔ ہر ضلع اور تحصیل میں ان کی سرگرمیاں ہورہی ہیں۔ اس کے اندر ایک تسلسل ہے اور ان کے اجتماعات ہورہے ہیں۔
  • اسی طرح زرِ رفاقت اور لائف ممبر شپ بھی ایک پیمانہ ہے کہ اگر اِن میں اضافہ ہورہا ہے تو یقینا اس کا معنی یہ ہے کہ تحریک بلندی اور ترقی کی جانب گامزن ہے۔ مثلاً: تحریک کے گزشتہ سالوں کے زرِ رفاقت اور لائف ممبر شپ کو ہی دیکھا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ 2015-16ء کے بعد 2017ء سے 2021ء تک ہر سال ہم روبہ ترقی رہے۔ زرِ رفاقت کے اعتبار سے 2019ء پچھلے سالوں کی نسبت نہایت بلند تھا اور پھر 2020ء میں زرِ رفاقت و رکنیت 2019ء کی نسبت تین گنا زیادہ ہوگیا۔ اتنا ہائی مارجن ہماری تحریک کے چالیس سالوں میں کبھی اکٹھے دو تین سالوں میں نہیں آیا۔

2020ء ہمارے عروج کا دور تھا، تصور یہ تھا کہ اس سے آگے نہیں جاسکیں گے لیکن اگر 2021ء کا عدد دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ 2020ء کے مقابلے میں تقریباً دوگنا زیادہ زرِ رفاقت اور لائف ممبر شپ حاصل ہوئی۔ یعنی پورے چالیس سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔

یہ سب کارکنان کی جدوجہد کا نتیجہ ہے، یہ کارکنان و رفقاء کو حاصل اعتماد ہے جو لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عزت دی اور اس تحریک کے ذریعے تجدید و احیاء کے کام کو آگے بڑھایا۔ لوگ اپنے ایمان کی حفاظت، ظاہر و باطن کے احوال کو سنوارنے اور عقائد کے تحفظ کے لیے منہاج القرآن کی رفاقت کی عظیم لڑی میں اپنے آپ کو پرورہے ہیں۔ہر آئے روز اس مشن کے ساتھ لوگوں کی اس قدر وابستگی کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں پر اس مشن کی حقانیت اور صداقت آشکار ہورہی ہے۔ اس تحریک پر دن بہ دن لوگوں کا اعتماد بڑھتا جارہا ہے اور رفقاء و کارکنان کے لیے کام کے مزید مواقع اور ماحول پیدا ہورہا ہے۔

لوگوں کے اندر اس تحریک کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا مطلب یہ ہے کہ اس صدی میں تجدید اور احیائے اسلام کی ذمہ داری اللہ رب العزت نے ہمیں دی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سرٹیفیکیٹ ہے۔ ہر آن کامیابی اور ترقی کی منازل طے کرنا اور لوگوں کا ہماری دعوت کو قبول کرنا شہادتِ الہٰیہ ہے کہ ہم حق اور سچ پر ہیں اور صحیح راہ پر چل رہے ہیں۔ ہر جگہ اور ہر پروگرام میں نوجوانوں کی کثرت جس طرح 80ء کے زمانے میں آتی تھی، آج بھی اسی طرح آرہی ہے۔ ہمہ وقت اس تازگی کا میسر رہنا، اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ نہیں تو اور کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہی تو تجدید و احیاء کی سچی تحریک ہے، یہ حق پر ہے اور اللہ تعالیٰ کی مدد ونصرت اس کے ساتھ ہے۔

اس عظیم کامیابی میں جملہ فورمز، نظامتوں، شعبہ جات، تنظیمات اور کارکنان کو مبارکباد دیتا ہوں کہ جملہ تنظیمات میں سے ہر ایک تنظیم نے اپنے سابقہ ریکارڈز توڑے اورلوگوں کو تحریک کے ساتھ ایک کثیر تعداد میں وابستہ کیا ہے۔

تحریک کے مزید فروغ کے لیے عملی اقدامات اور ہدایات

تحریک منہاج القرآن کی دعوت کے مزید فروغ کے لیے تمام تنظیمات، رفقاء اور کارکنان درج ذیل ہدایات پر دل وجاں سے عمل پیرا ہوں:

(1) تحریک کی بقاء اور کامیابی کا راز ’’کتاب‘‘ اور ’’خطاب‘‘ سے تعلق میں پوشیدہ ہے

تمام رفقاء اور کارکنان کے لیے لازم ہے کہ وہ روزانہ خطاب سنیں۔ یاد رکھیں کہ روزانہ خطاب سننے یا کتاب پڑھنے سے ہدایت کا عمل تازہ (Refresh) رہتا ہے۔ قرآن مجید نے فرمایا:

فَذَکِّرْ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ.

(الغاشیه، 88: 21)

’’پس آپ نصیحت فرماتے رہیے، آپ تو نصیحت ہی فرمانے والے ہیں۔‘‘

اس کو تذکیر کہتے ہیں۔ تذکیر سے تذکر پیدا ہوتا ہے کہ آدمی کو چیز یاد رہتی ہے۔ کوئی یاد کراتا رہے تو یاد رہتی ہے اور اگر یاد کرانے کا عمل ختم ہوجائے تو یاد رہنا خود بخود ختم ہوجاتاہے۔ لہذا قرآن مجید کی تلاوت مع ترجمہ و مفہوم روزانہ کریں۔ حدیث مبارک کا کوئی سبق اپنی کتب سے روزانہ کچھ پڑھیں اور روزانہ خطاب سنیں۔ اس سے صحبت اور تربیت ملتی ہے۔ اس خطاب اور کتاب کے ذریعے لوگ دین اور اصل سے جڑے رہتے ہیں۔ امام غزالی کے زمانہ میں المدرسہ النظامیہ میں دو لاکھ کتابوں پر مشتمل مرکزی لائبریری تھی اور ایک لاکھ کتابیں مرکزی خزانۃ الکتب (سرکاری لائبریری) میں تھیں۔ ایک عام آدمی کو ایک وقت میں دس کتابیں تک ایشو کروانے کی اجازت تھی۔ طلبہ کو بیس کتب تک ایشو کروانے کی اجازت تھی۔ یہ وہ دور تھا کہ جب یورپ میں سوائے بائبل کے کسی اور کتاب کو کھولنا جرم سمجھاجاتا تھا۔ کتاب کو چھو نہیں سکتے تھے۔ جبکہ دوسری طرف اصفہان میں سلجوقی سلطنت کے زیر انتظام ایک عام آدمی کو بھی دس تک کتابیں ایشو کروانے کی اجازت تھی۔ گویا پہلی نسلیں کتاب کے ساتھ جڑی رہتی تھیں اور اس وجہ سے ان کے ایمان بچتے تھے۔

اسی طرح جگہ جگہ اکابرینِ امت کے حلقات قائم تھے۔کچھ لوگ کتاب سے جڑکر اپنے ایمان کو بچاتے اور کچھ لوگ حلقات میں جاکر خطاب سنتے، اس سے انھیں اپنے سوالات کے جواب ملتے اور ان کے ایمان کو تازگی ملتی رہتی۔ خطاب اور کتاب کی وجہ سے ان لوگوں کو استقامت ملتی، الجھنوں کا حل ملتا، نفس اور شیطان کے حملوں کے دفاع کے طریقے سیکھتے اور ہمیشہ مستعد رہتے تھے۔ اس طرح امت کتاب اور خطاب کے ساتھ ہمیشہ متمسک رہی۔

تحریک منہاج القرآن کی بقا، اس کی کامیابی اور قوت؛ کتاب اور خطاب سے وابستہ رہنے میں ہے۔ جب تحریک منہاج القرآن کا آغاز ہوا، اس وقت آڈیو اور ویڈیو کیسٹ ہوتی تھیں، رفقاء و کارکنان وی سی آر اور TV اٹھا کر قریہ قریہ، گاؤں گاؤں، بستی بستی جاتے اور لوگوں کو جمع کرکے خطاب سناتے۔ اسی خطاب کے ذریعے مشن کا پیغام پھیلا ہے، اسی خطاب نے کارکنان کو مضبوط کیا ہے اور انھیں علمی، فکری، نظریاتی اور روحانی پختگی و اعتماد دیا ہے۔ اس خطاب اور کتاب کے وسیلے سے ہمارے لاکھوں مقرر پیدا ہوگئے ہیں، حتی کہ ہمارے بچے بھی مقرر ہیں، کوئی ادارہ بھی مقررین کی اتنی بڑی تعداد پیدا کرنے کی استعداد نہیں رکھتا۔ خطاب اور کتاب کے ذریعے کارکنان کو قوت میسر آتی ہے، ان میں اعتماد آتا ہے، ان کا اعتقاد پختہ ہوتاہے اور نفس اور شیطان کے شر کو روکنے کے طریقے ملتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ آج کتاب اور خطاب کی صورت میں دو طرح کی صحبتیں میسر ہیں۔ سننے اور پڑھنے کے ذریعے تربیت کا ساماں ہوتا ہے۔ لہذا خطاب اور کتاب کے ساتھ اپنا تعلق کبھی ٹوٹنے نہ دیں، خواہ پڑھتے اور سنتے کتنا ہی عرصہ کیوں نہ بیت جائے۔

مشن سے طویل عرصہ وابستگی کا مطلب اپنی تعلیم و تربیت کے اہتمام سے ماوراء ہوجانا نہیں ہے

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے چونکہ تحریک کی طویل عرصہ خدمت کی ہے ، لہذا اب ہم سننے اور پڑھنے سے ماوراء ہوگئے ہیں۔ یاد رکھیں! یہ نفس کی مکاریوں میں سے ایک مکاری ہے، نفس کے عیوب میں سے بہت بڑا عیب ہے کہ نیکی، صحبت، پرہیزگاری اور دین کی خدمت میں جتنا زیادہ وقت گزرتا ہے، نفس اپنے آپ کو محفوظ اور مامون سمجھنے لگ جاتا ہے کہ ’’اب مجھ پر شیطان کا حملہ نہیں ہوسکتا، میں مامون ہوں کیونکہ میں نے اتنا عرصہ تحریک کی خدمت کی ہے، فلاں فلاں عہدے پر رہا ہوں، میں اتنا بڑا لیڈر رہا ہوں، اتنا زمانہ گزارا ہے۔‘‘ یاد رکھ لیں کہ طویل زمانہ کسی منصب پر فائز رہنے سے نفس کے حملے اور شیطان کے شر کبھی ختم نہیں ہوتے۔ جتنا عہدہ، منصب، ذمہ داری بڑی ہوتی ہے، جتنا زیادہ زمانہ گزارتے ہیں، جتنی زیادہ پختگی آتی ہے، نفس اور شیطان کاحملہ اسی قدر سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ جس کو جتنا زمانہ گزر گیا، اس پر شیطان اتنے ہی چھپے راستوں سے حملہ کرتا ہے۔ ان چھُپے راستوں میں سے ایک راستہ یہ ہے کہ وہ بندے کو بے فکر کردیتا ہے۔ وہ بندہ اوروں کی فکر تو کرتا ہے مگر اپنی فکر چھوڑ دیتا ہے۔ جب بندہ بے فکر ہوجائے اور اپنا سونا، مال، زر، دولت بغیر حفاطت کے اہتمام کے یونہی گھر کے اندر رکھ کر چلا جائے تو اس پر چور حملہ کرتے ہیں۔ جو آدمی فکر مند ہوتے ہیں اور حفاظت کرنے کا اہتمام کرتے ہیں تو وہاں چور کامیاب نہیں ہوتا۔ چور وہیں کامیاب ہوتا ہے جہاں بے فکری سرزد ہوتی ہے۔

یاد رکھ لیں مشن کی بہت بڑی ذمہ داریوں پر رہنے سے کبھی شیطان کے شر کا دروازہ بند نہیں ہوتا۔ وہ اُسی طرح کھلا رہتا ہے جیسے اس عام شخص کے لیے جو ایک دن بھی عہدے پر نہیںرہا بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت حملہ عہدیدار پر ہوتا ہے۔ نفس اور شیطان کے مکر سے کبھی اپنے آپ کو مامون نہ سمجھیں۔ ہر وقت اپنی حفاظت کا اہتمام کرتے رہیں، تذکیر اور تذکر کا عمل کرتے رہیں اور اخلاص کے حصول کے لیے ہمیشہ مجاہدہ کرتے رہیں۔ جب بھی غفلت آئے گی تو اس کا نتیجہ تباہی کی صورت میں سامنے آئے گا۔

اس کو اس مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر بیس، پچیس، تیس، چالیس سال نمازیں پڑھیں اور ایک نماز بھی نہ چھوڑیں تو چالیس سال نمازیں پڑھنے کا کیا مطلب ہے کہ اب اس کے بعد بے فکر ہوجائیں اور نماز چھوڑ دیں؟ کیا پچھلے چالیس سال کی نمازیں ہماری مستقبل کی غفلت کی تلافی کردیں گی؟ نہیں بلکہ ہر روز کا حساب الگ ہے۔ پچھلے چالیس سال کی نمازیں تب کام آئیں گی کہ آگے بھی یہ تسلسل برقرار رہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ پچھلے چالیس سال کی نمازیں اگلی کمی کو پورا کرنے کے لیے آجائیں۔ اسی طرح چالیس سال کے روزے اگلے رمضان کے جان بوجھ کے چھوڑ دیئے گئے روزوں کی تلافی کرنے کے لیے نہیں آئیں گے۔ چالیس سال کا تقویٰ، آئندہ تقویٰ کے خلاف عمل، فتنہ و فساد، حسد، بغض، عناد، پلیدی اور نافرمانی کی تلافی نہیں کرے گا۔ لہذا تقویٰ، پرہیزگاری، نفس اور شیطان کے حملے سے بچاؤ کے لیے اعمالِ صالحہ اور تربیت کا ساماں کرنے میں مرتے دم تک تسلسل رہے تو آخرت اچھی ہوگی۔ جس دم غفلت ہوئی، اسی دم بندے کی ہلاکت ہوجائے گی۔ اپنے آپ کو مامون سمجھنے کا گھمنڈ بندے کو مار دیتا ہے۔ کُل اولیاء، صوفیاء اور عارفین کی تعلیم کا خلاصہ یہی ہے۔

پس ہر روز خطاب سنیں اور ہر روز کتاب پڑھیں، یہ تسلسل رہنا چاہیے۔ اس سے شرِ نفس اور شر شیطان سے آگاہی رہے گی اور بچنے کی تدبیریں ملتی رہیں گی اور غفلت کے پردے اٹھیں گے۔ ہر روز آدھا گھنٹہ ہی خطاب سن لیں مگر ایک تسلسل سے سنتے رہیں، اپنے آپ کو اس عمل سے منقطع نہ کریں اس لیے کہ جو دم غافل سو دم کافر۔ ایک لمحہ بھی غفلت کا آیا تو پچھلے سوسال کی اطاعت برباد ہوجائے گی۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں ہر وقت بیدار رہنے کی ضرورت ہے اور ہر وقت اپنے نفس کا چوکیدار رہنے کی ضرورت ہے۔ دروازے پر چوکیدار بن کر کھڑے ہوں تو ڈاکو، چور حملہ کرنے اور چیزیں چرانے کے لیے نہیں آئے گا مگر جس رات وہ دیکھے گا کہ آج رات چوکیدار سوگیا ہے، اسی رات وہ کود کر اندر چلا جائے گا۔ اگر رات کو جاگ کر سالہا سال چوکیداری کی ہے تو کیا وہ اس غفلت والی رات کی تلافی کردے گی؟ کیا اس غفلت والی رات کے لیے سالہا سال کی چوکیداری دفاع بن کر کھڑی ہوجائے گی؟ نہیں، بلکہ غفلت پچھلی بیداریوں کی محنت کو بھی تباہ کردے گی۔ لہذا کبھی یہ گھمنڈ نہ آئے کہ ہم نے بہت پڑھ اور سن لیا ہے، لہذا اب ہمیں اس کی ضرورت نہیں۔

(2) جدوجہد میں تسلسل برقرار رکھیں

خطاب اور کتاب سے تعلق کے ساتھ ساتھ دوسری نصیحت اور ہدایت یہ ہے کہ کبھی اپنی محنت اور جدوجہد میں کمی نہ آنے دیں۔ جس طرح تمام رفقاء و کارکنان کی کاوشوں کی بدولت تحریک ہر آئے سال ہر حوالے سے پچھلے ریکارڈ توڑتے چلی آرہی ہے، آئندہ بھی یہ تسلسل برقرار رہے۔ ریکارڈ توڑنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تگ و دو میں کمی، سستی اور غفلت نہ آئے اور ہم آگے بڑھتے چلے جائیں۔ لہذا تحریک کی رفاقت کی دعوت عام کریں، ہر طبقہ زندگی کے لوگوں کو دعوت دیں، دعوت کی نئی حکمت عملی اپنائیں اور دعوت کے لیے سوشل میڈیا سمیت ہر ذریعہ اختیار کریں۔

جتنے کام کریں، ہر سال اس عدد کو دوگنا کریں۔ ہر سال چیلنج کا سال ہے۔ جوں جوں عمر گزرے، عمل بڑھتے جائیں، جوں جوں عمر گزرے، حال بہتر ہوتا جائے۔ اللہ رب العزت کا فرمان ہے:

وَ لَـلْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی.

’’اور بے شک (ہر) بعد کی گھڑی آپ کے لیے پہلی سے بہتر (یعنی باعثِ عظمت و رفعت) ہے۔‘‘

(الضحٰی، 93: 4)

یہ آقاe کی شان ہے اور یہی شان حضور نبی اکرم ﷺ کی امت کے اخیار کے لیے ہے۔ یہ قرآن مجید کا قاعدہ ہے۔ اس رُو سے اس آیت کا معنی یہ ہے کہ آخرت؛ پہلی زندگی سے بہتر ہوگی، بعد کا دن؛ پہلے دن سے بہتر ہوگا ۔ صوفیاء اور اولیاء و صالحین فرماتے ہیں کہ جس کے دو دن ایک جیسے گزریں، وہ خسارے میں گیا۔ نفع میں کون ہے؟ وہ جس کا ہر آنے والا دن؛ گزرے ہوئے دن سے بہتر ہو، ہر آنے و الا مہینہ؛ گزرے ہوئے مہینے سے بہتر ہو اور ہر آنے والا سال؛ گزرے ہوئے سال سے بہتر ہو۔

لہذا ہمارا ہر اگلا سال؛ پچھلے سال کے ریکارڈ کو توڑے۔ ایک ریکارڈ قائم کریں اور اگلے سال اپنے قائم کردہ ریکارڈ خود توڑیں، یہ ایک ہدف ہے اور اس کے لیے سوشل میڈیا سمیت ہر ذریعہ کو بہترین طریقے سے استعمال کریں۔

یاد رکھیں! تحریک منہاج القرآن کی دعوت کے ذریعے ہم لوگوں کے ایمان کی حفاظت کا بندوبست کررہے ہیں۔۔۔ انہیں ظاہر و باطن اور ماحولیاتی شرور و فتن سے بچانے کا اہتمام کررہے ہیں۔۔۔ ان کے اخلاق اور عقیدے کی حفاظت کا اہتمام کررہے ہیں۔۔۔ انہیں دین کے قریب لانے اور ان کی آخرت سنوارنے کا اہتمام کررہے ہیں۔۔۔ ہم اس دعوت کے ذریعے لوگوں کی سوچوں اور ان کے افکار کو بہتر کررہے ہیں۔۔۔ پورے ملک، قوم اور سوسائٹی کا مستقبل بہتر کررہے ہیں۔ الغرض تحریک کی رفاقت بہت سے مقاصد پورے کررہی ہے۔ یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ جسے تحریک کا رفیق بنائیں تو رفاقت کے ذریعے اسے دعوت بھی پہنچے، کتاب بھی پہنچے اور اسے عملی طور پر تجدید و احیاء دین کے کام میں شریک بھی کریں تاکہ اس کی آئندہ کی زندگی اور آئندہ آنے والا ہر لمحہ گزری ہوئی زندگی سے بہتر ہوتا چلا جائے۔ اس کی زندگی میں خیر کا اضافہ ہوتا چلا جائے اور شر کم ہوتا چلا جائے۔

(3) عقیدہ، اخلاق اور ظاہر و باطن کو سنواریں

خطاب اور کتاب کے ساتھ تعلق اور جدوجہد میں تسلسل برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال، اخلاق اور ظاہرو باطن کے حال کو بھی بہتر بنائیں۔ ہمارے اعمال اور اخلاق اس حد تک اعلیٰ ہوں کہ ہمارا بڑے سے بڑا دشمن بھی ہمارے آداب، اخلاق اور سلیقہ و قرینہ کی تعریف کرے۔ آج الحمدللہ تعالیٰ معاشرے کے ہر طبقہ کے عام فرد سے لے کر نمایاں افراد تک یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ ’’ہم نے منہاج القرآن کے لوگوں میں محبت پائی ہے، تفرقہ سے بلند پایا ہے، مؤدت پائی ہے، لوگوں کا اکرام اور احترام کرتے ہیں۔ ان کے اندر ایک نظم ہے، تہذیبِ نفس ہے، ان کے اخلاق اچھے ہیں، ان کے بولنے کا طریقہ اچھا ہے۔ ان کے ظاہر کا پہناوا بھی اچھا ہے اور ان کی عادات اور اخلاق بھی اچھے ہیں۔‘‘ اس اخلاق و آداب میں مزید اضافہ کریں۔ تحریک منہاج القرآن کی رفاقت کا اصل معنی ہی یہ ہے کہ اس مشن سے وابستہ ہوکر لوگوں کی زندگیاں سنور رہی ہیں، ہر شخص کی زندگی میں انقلاب آرہا ہے، ہر شخص کی فکر، سوچ، عمل، عادت، طور طریقے، اخلاق اور معاملات میں تبدیلی آرہی ہے۔ ہر فرد کے اندر ہم انقلاب لارہے ہیں۔یہی انقلاب سوسائٹی کا انقلاب بننا ہے۔ یاد رکھیں! یہ سفر بہت طویل ہے، اس میں کبھی تھکنا نہیں ہے۔ جو لوگ تیزی کے ساتھ ہوتے ہیں، وہ مایوس ہوتے ہیں جبکہ یہ ایک دائمی جدوجہد ہے۔

یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ انفرادی یا تنظیمی سطح پر ملنے والی کسی کامیابی کے حصول پر کبھی عجب نہ آئے، اپنے محاسن کا کبھی خیال نہ آئے کہ ’’میں نے یہ کام کیا ہے۔‘‘ جس دن اس کام میں ’’میں‘‘ داخل ہوئی تو سمجھیں کہ یہ ’’میں‘‘ خدمتِ دین کا حُسن چھین کر لے جائے گی۔ ’’مَیں‘‘ کو اپنے اندر کبھی داخل نہ ہونے دیں۔ جو کام اچھا ہو، جس پر حوصلہ افزائی ہوجائے تو صرف یہ سمجھیں کہ ’’میں تو اس قابل نہیں تھا، اللہ رب العزت نے کرم کردیا اور کسی کی وجہ سے میرے اوپر رحمت ہوگئی، توفیق مل گئی اور مجھ جیسے بیکار شخص سے اللہ تعالیٰ نے اپنا کام لے لیا۔‘‘ لہذا ہمیشہ جھکے رہیں۔

جس طرح جسم کے گناہ ہوتے ہیں، اسی طرح دلوں کے بھی گناہ ہوتے ہیں۔ یعنی معصیت الجسم اور معصیت القلب۔ سب سے بڑی معصیت عُجب ہے۔ اپنی ذات، اپنے کام، صلاحیت اور اپنی عقل و دماغ کو پسند کرنا؛ خود پسندی ہے۔ اس خود پسندی سے شر اور معصیت شروع ہوتی ہے اور یہ ’’کِبر‘‘ پر ختم ہوتی ہے اور پھر کِبر سمجھتا ہے کہ میں سب سے بہتر ہوں، وہ دوسرے کو اپنے سے کمتر سمجھتا ہے اور پھر یہاں سے تکبر جنم لیتا ہے اور تکبر کفر سے بھی بدتر ہے، جس نے ابلیس کو برباد کیا۔

اولیاء وصوفیاء کہتے ہیں کہ گنہگار آدمی کا انکسار کرنا اور یہ کہنا کہ ’’میں کچھ نہیں ہوں، میری کوئی خوبی نہیں، میرا کوئی کمال نہیں، میری کوئی کامیابی ہی نہیں، میرا کچھ نہیں، اللہ نے توفیق دے دی، یہ تو اوروںنے کردیا، وہ نہ کرتے تو میرا پردہ اٹھ جاتا‘‘، الغرض ہمیشہ انکساری کے ساتھ رہنا؛ اطاعت گزارکے عجب سے بلند ہے اور اللہ کو پسند ہے۔ بندہ اطاعت گزاری کرے، نیکی کرے مگر نیکی کے ساتھ ساتھ اس کے اندر خود پسندی آجائے تو یہ تباہ کن ہے۔ اس سے بدرجہا بہتر ہے کہ بندہ گنہگار ہو، مگر تواضع و انکساری کرے اور جھک جائے۔ وہ نیکی جو ہمارے سر کو اونچا کردے اور ’’میں‘‘ پیدا کرے، وہ اس گناہ سے بدتر ہے جو شرمساری سے ہمارے سر کو جھکا دے۔ گنہگار کا سر جھکا رہنا اچھا ہے، یہ اللہ کو اس اطاعت گزار اور نیکو کار سے زیادہ پسند ہے جس کا سر نیکی کرنے کے گھمنڈ میں اونچا ہوتا ہے اور اس کے اندر ’’میں‘‘ اور عجب آجاتا ہے۔ اولیاء و صوفیاء فرماتے ہیں کہ وہ گناہ اور معصیت جو آپ کو تواضع و انکساری دے، یہ اس طاعت اور نیکی سے بہتر ہے جو آپ کو خود پسندی اور کبر دے۔

بہت سے لوگ نیکی اور خیر کا کام کرتے کرتے عجب اور خود پسندی کا شکار ہوکر تباہ ہوئے، پھسلے، گھاٹیوں میں گر گئے اور عمر بھر کی کمائی برباد ہوگئی۔ جب بندے کو اپنا کام پسند آنے لگے اور اپنا کام دوسرے کے کام سے بہتر دکھائی دینے لگے تو سمجھیں کہ نیکی کی راہ پر چلتے ہوئے نفس اور شیطان نے خفیہ حملہ کردیا ہے۔ وہ اس حملے کو سمجھ ہی نہ سکے گا۔ وہ خود پسندی کو حقیقت پسندی کا نام دے دے گا اور یہی شیطان کا حملہ ہے۔ اگر بندے کو اپنے نفس اور شیطان کے شرکا پتہ چل جائے تو دنیا میں کوئی شخص گمراہ نہیں ہوگا بلکہ ہر شخص سنبھل جائے گا۔ جو لوگ پھسل رہے ہیں، گمراہ ہورہے ہیں، بہک رہے ہیں، نیکی کی راہ پر چلتے چلتے تباہ ہوگئے، گڑھوں میں گر گئے، بھٹک گئے، اللہ نے توفیق چھین لی اور محروم ہوگئے، ایسا اس لیے ہوا کہ انھیں اپنی زندگی میں جہاں سے خیر مل رہی تھی، انھوں نے وہ راستہ چھوڑ دیا اور اپنے اوپر اعتماد کیا اور ان میں خود پسندی آگئی۔ یاد رکھیں! خود پسندی سے عُجب آتا ہے، عُجب سے کبر آتا ہے، وہاں سے تکبر آتا ہے اور پھر وہ بندہ حسد کی طرف چلا جاتا ہے۔ وہ حسد پھر اسے عداوت کی طرف لے جاتا ہے اور اس طرح رفتہ رفتہ ساری خیر اس سے چھن جاتی ہے۔

اس سارے عمل کی ابتداء یہ ہوتی ہے کہ بندہ اپنے آپ کو اور اپنے کام کو پسند کرنے لگتا ہے۔ نتیجتاً ہر دوسرا اسے نیچے نظر آتا ہے۔ دوسرے کی اچھائی دکھائی نہیں دیتی، دوسرے کی تعریف پسند نہیں آتی، دوسرے کا کام اپنے سے کمتر دکھائی دیتا ہے اور اپنا کام برتر دکھائی دیتا ہے۔ دوسرے کی کمتری اور اپنی برتری جس شخص کو دکھائی دے، سمجھیں اس پر شیطان نے حملہ کردیا ہے۔نفس نے اس کو بہکا دیا ہے۔ لہذا ایسی سوچ اور خیال کبھی نہ آنے دیں بلکہ اس پر پہرے دار بن کر کھڑے رہیں۔

جملہ کارکنان اور قائدین کے لیے لازمی ہے کہ وہ متقی رہیں، اپنے اندر عجب اور خود پسندی نہ آنے دیں، دوسرے کے کام پر تنقید نہ کریں، دوسرے کے کام کو اپنے سے ہمیشہ اعلیٰ اور بہتر سمجھیں۔ ابلیس نے بھی یہی کہا تھا کہ اَنَا خَیْرٌ مِنْہٗ میں اس سے بہتر ہوں۔ اس کو اپنا آپ حضرت آدمe سے بہتر لگا۔ پس جس کو اپنا آپ، اپنا کام، اپنی جدوجہد اور اپنا عمل دوسرے سے بہتر لگے تو سمجھ جائیں کہ نفس نے اسے شیطان کی راہ پر چلادیا ہے۔ شیطان نے نفس کے ذریعے اس پر حملہ کردیا ہے۔ ہمیشہ تواضع اور انکساری رکھیں۔ اخلاص کی راہ پر رہیں اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے توفیق پر بھروسہ رکھیں، دوسرے کے کام کو بہتر سمجھیں، اپنے کام کو کم سمجھیں۔ ان خوبیوں سے رہیں گے تو اللہ تعالیٰ کی مدد، توفیق اور اس کا فضل ہمیشہ شامل حال ہوگا۔

جب اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہم ہر سال پچھلے سال کے مقابلے میں آگے بڑھتے جائیں گے تو آگے بڑھنے کا مطلب ہے کہ تحریک اور مشن آگے بڑھ رہا ہے۔ ہر تنظیم اور ہر رفیق و کارکن اگر اپنی کارکردگی آگے سے آگے بڑھاتا چلا جائے تو اس سے تحریک من حیث المجموع آگے بڑھ رہی ہوتی ہے اور تحریک کے آگے بڑھنے کا مطلب ہے کہ تجدید دین، احیائے اسلام اور آقاe کے دین کا کام بلند و برتر ہورہا ہے اور حضور نبی اکرم ﷺ کی نیابت اور خلافت میں ہم مزید درجے پاتے جارہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں نفس اور شیطان کے حملوں سے محفوظ رکھے اور کتاب و خطاب سے ہمیشہ تعلق جوڑے رکھے تاکہ ہم نفس اور شیطان کے چھپے ہوئے شر، حیلے اور مکرو فریب سے بھی آگاہ رہیں اور اس سے بچنے کی تدبیروں سے بھی باخبر رہیں۔ جہاں نیکی کا کام کرتے رہنے کا عمل ضروری ہے وہاںاپنے آپ کو شر سے بچائے رکھنے کا عمل اس سے بھی کئی گنا زیادہ ضروری ہے۔

اللہ تعالیٰ تجدید دین اور احیائے اسلام کی اس عالمگیر تحریک، تحریک منہاج القرآن کو قائم و دائم رکھے اور تحریک منہاج القرآن صاحبِ گنبدِ خضریٰ کے فیضان سے اسلام کی حقیقی تعلیمات اور امن و سکون کو دنیا میں عام کرتی رہے۔آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ