تربیتِ انسانی کے مختلف پہلو

ڈاکٹر نعیم انور نعمانی

تربیت کے عمل سے انسانی زندگی کی رفعت اور عظمت وابستہ ہے۔ ایک عمدہ اور اعلیٰ ترین تربیت کے اثرات انسان کی شخصیت میں اس طرح ظاہر ہوتے ہیں جیسے زمین میں کاشت کیے گئے بیج کے اثرات ایک بہترین پودے، درخت اور پھل کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ بیج اور زمین جس قدر اعلیٰ ہوگی، اسی قدر اس کی پیداوار بھی اعلیٰ و ارفع ہوگی۔ اسی طرح انسان کی اعلیٰ شخصیت اس کی ارفع تربیت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔

اگر انسان کی عمدہ تربیت کردی جائے تو معاشرے میں اس کی قدرو قیمت اور فضیلت و اہمیت بھی زیادہ ہوجاتی ہے۔ تربیت کا آغاز بہترین پرورش اور عمدہ آدابِ حیات سکھانے سے شروع ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ یہ تربیت اپنے ارتقائی مراحل طے کرتی رہتی ہے۔ جوں جوں انسان کی ذات میں تربیت کا غلبہ نمایاں ہوتا چلا جاتا ہے، انسانی شخصیت اسی قدر نکھرتی چلی جاتی ہے۔

اسی لیے امام راغب اصفہانی نے تربیت کا معنی ہی یہ کیا ہے کہ:

’’تربیت کسی شے کی رفتہ رفتہ اس طرح پرورش کرنا ہے کہ وہ حدِ کمال کو پہنچ جائے۔‘‘

(اصفهانی، المفردات فی غریب القرآن، ص: 182)

تربیت ایک عملِ مسلسل ہے اور یہ بار بار توجہ کا متقاضی ہے۔ توجہ کا تسلسل ہی انسان کو کسی اعلیٰ عادت پر ثابت قدم رکھتا ہے اور یہی استقامت انسانی شخصیت کی شناخت بن جاتی ہے۔ تربیت پانے والا آہستہ آہستہ اپنی صفات کے کمال کی طرف بڑھتا ہے اور انسان کے اندر موجود خوبی رفتہ رفتہ ترقی و ارتقاء کا مرحلہ طے کرتی ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری تربیت کا مفہوم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’انسان کی صفتِ ملکوتیت کو طاقتور بنانا اور صفتِ بہیمیت کو کمزور کرنا تربیت کہلاتا ہے۔

(تربیت کا قرآنی منہاج، ص: 4)

تربیت کے لیے تعلیم کی ناگزیریت

تربیت کا لازمی تقاضا تعلیم ہے۔ تعلیم ہی تربیت کے نقوش متعین کرتی اور اس کی جہات مختص کرتی ہے۔ عمدہ تعلیم اچھی تربیت کا ایک لازمی وظیفہ ہے۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے امت کو کتاب کی تعلیم بھی دی اور تعلیمِ حکمت سے بھی سرفراز کیا ۔ تربیتِ افراد کے ضمن میں قرآن مجید نے رسول اللہ ﷺ کے اس عملِ تعلیم کا ذکر یوں کیا ہے۔ ارشاد فرمایا:

وَیُعَلِّمُهُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ.

(البقرة، 2: 129)

’’آپ ﷺ انہیں کتاب و حکمت کی باتیں سکھاتے ہیں۔‘‘

تعلیم و تربیت کے امتزاج سے ہی ایک انسان کی بہترین شخصیت بنتی ہے۔ تعلیم و تربیت جس قدر عمدہ ہوگی، اسی قدر اعلیٰ و ارفع شخصیت کا ظہور ہوگا۔ ایک اچھے معاشرہ کا قیام ایک مثالی تعلیم و تربیت کے بغیر ممکن نہیں۔ معاشرہ افراد سے تشکیل پاتا ہے اور اعلیٰ فرد عمدہ تعلیم و تربیت سے بنتا ہے۔ ایمان انسان کے لیے بمنزلہ تعلیم کے ہے اور تربیت اس ایمان پر عمل کا نام ہے۔ تربیت انسان کے لیے نجات کا باعث بنتی ہے۔ جبکہ تربیت کا فقدان انسان کے لیے ہلاکت کا سبب بنتا ہے۔

تربیت کی عمومیت اور مربیّ کی ذمہ داری

ہر بڑے منصب والا خواہ وہ باپ ہو، استاد ہو، قوم کا سردار ہو یا قوم کا حاکم ہو، اس کی ذمہ داری کلمہ خیر اور کلمہ نصیحت کرتے رہنا ہے۔ یعنی وہ اپنی قوم کو ضرور کلمہ حق کہے اور ہر اچھے عمل کے لیے ان کی تربیت کا اہتمام کرے۔ اسلام نے تربیت کے عمل کو محدود نہیں کیا بلکہ تربیت کے عمل میں وسعت کو اختیار کیا ہے۔ تربیت کا محدود دائرہ کار اس کے مقاصد کو بھی محدود کردیتا ہے۔ تربیت کا لفظ اسلامی تعلیمات کی رُو سے اپنے اندر معنی کی وسعت اورجامعیت رکھتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ان الله سائل کل راع عما استرعاه احفظ ام ضیع.

(ابن حبان، الصحیح، کتاب السیر باب فی الخلافۃ وامارة، 10: 4492)

’’بے شک اللہ تعالیٰ ہر نگہبان سے اس کے زیرِ تربیت افراد کی حفاظت و نگہبانی کے بارے میں سوال کرے گا۔ آیا کہ اس نے اس حقِ تربیت کی حفاظت کی ہے یا اسے ضائع کردیا ہے۔‘‘

راع صحیح معنوں میں وہی ہے جو اپنے زیرِ تربیت افراد کی جملہ پہلوؤں سے عمدہ اور بہتر تربیت کرے اور ان کے کسی بھی حقِ تربیت کو ضائع نہ کرے۔ ہر ایک بچے کے والد پر، ہر قوم کے حاکم پر اور ہر ایک شاگرد کے استاد پر اس کے زیرِ عاطفت کا حقِ تربیت ہے اور اگر ہر سطح کا مربیّ اپنا فرضِ تربیت ادا کردے تو ہر ہر سطح کے زیرِ تربیت افراد کا حقِ تربیت ادا ہوجائے گا۔

ایمان اور عملِ صالح کی تربیت

تعمیرِ شخصیت کا صحیح زمانہ بچپن ہے۔ بچپن میں اگر افراد کی اعلیٰ انداز میں تربیت کا اہتمام کردیا جائے تو یہی تربیت انسان کی اعلیٰ اور ارفع شخصیت کی بنیاد اور اساس بن جاتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اکرموا اولادکم واحسنوا ادبهم.

(ابن ماجه، السنن، کتاب الادب باب برالوالدین، رقم الحدیث: 3671)

’’اپنی اولاد کی عزت افزائی کرو اور ان کو آداب سکھاؤ۔‘‘

اس حدیثِ مبارک نے تربیتِ افراد کا ایک بہترین اصول ہمارے لیے عیاں کیا ہے کہ اصولِ تکریم سے حصولِ تادیب کی منزل حاصل کرو۔ تربیت کانکتہ آغاز تکریم ہے اور اس کا نتیجہ تادیب ہے اور تربیت، تہذیبِ عادات اور اصلاحِ ذات کا نام ہے۔ جب تربیت اپنے حقیقی تصور کے ساتھ دی جائے تو یہ عملِ تربیت، نتیجہ خیز ہوجاتا ہے۔ تربیت افراد کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ نے ایمان اور عملِ صالح کی تربیت کا بھی خصوصی التزام کیا ہے۔ ایک شخص اگر ایمان میں مضبوط اور عمل میں پختہ ہوجائے تو یہ اس کے تربیت یافتہ ہونے کی ایک واضح شناخت اور علامت ہے۔

ایمان اور عملِ صالح انسان کو اعلیٰ تربیت کی طرف گامزن کرتا ہے اور ہر طرح کے نقصان اور خسارے سے محفوظ کرتا ہے۔ کسی بھی تربیت کا کمال یہ ہے کہ انسان کی سوچ کو مفید بنادیا جائے اور عمل کو نافع بنادیا جائے۔ یہ مقصد ہمیں ایمان اور عملِ صالح سے حاصل ہوتا ہے۔ ایمان سوچ کو کار آمد اور مفید بناتا ہے جبکہ عملِ صالح انسانی عمل کو نفع بخش بناتا ہے۔ قرآن مجید نے بار بار اہلِ ایمان سے دو ہی چیزوں کا تقاضا اور مطالبہ کیا ہے:

(1) ایمانِ کامل

(2)عملِ صالح

ان دونوں چیزوں پر عمل کرنے والا ہی تربیت یافتہ انسان نظر آتا ہے۔

تربیت کا حسن؛ صفتِ اطاعت کا نمو

اطاعتِ الہٰی اور اطاعتِ رسول ﷺ کا عمل جب ایک تربیتی عمل بن کر انسان کی شخصیت کا حصہ بنتا ہے تو انسان کی شخصیت پُر وجاہت اور رعب دار بن جاتی ہے۔ انسان اطاعت کے عمل کے باعث دوسروں کے لیے قابلِ تقلید ٹھہرتا ہے۔ انسانی تربیت کا کمال یہ ہے کہ انسان اپنے عمل میں اطاعتِ رسول ﷺ سے مطابقت اور سیرتِ رسول ﷺ سے موافقت اختیار کرلے۔

عملِ اطاعت، عمدہ تربیت سے نمو پاتا ہے۔ اگر تربیت میں کسی قسم کا فقدان رہ جائے تو اطاعت کا عمل ثمر آور نہیں ہوتا۔ عمدہ تربیت کا پہلا اصول ہی اطاعت و پیروی ہے۔ اسی لیے قرآن مجید نے متعدد مقامات پر ایک مومن سے بار بار اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کا مطالبہ کیا ہے، اس اطاعت سے روگردانی کو ناکامی قرار دیا ہے اور اس اطاعت پر عملی پابندی کو کامیابی قرار دیا ہے۔

جب طبیعت اچھی تربیت کے نتیجے میں تشکیل پذیر ہوتی ہے تو انسان کڑے سے کڑے حالات میں بھی استقامت کا کوهِ گراں بن کر اس اطاعت کو بجا لارہا ہوتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا طرۂ امتیاز یہ تھا کہ حالات کی سنگینی، آراء کا اختلاف اور ظاہری حالت اطاعتِ رسول ﷺ کو عملی جامہ پہنانے میں کبھی اُن کی راہ کی رکاوٹ نہ بنتی۔ یہی اطاعتِ رسول ﷺ کا جذبہ ہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں کی کامیابی کا راز تھا، جس کو وہ اپنی زندگیوں میں عقیدہ اور ایمان کی حد تک اختیار کیے ہوئے تھے۔

تربیت کا اعلیٰ اصول: جُہدِ مسلسل

تربیت افراد کے نبوی منہج میں یہ پہلو بھی بڑی آب و تاب کے ساتھ دکھائی دیتا ہے کہ افرادِ امت کی طبیعتوں میں محنت و مشقت کا جذبہ نہ صرف پیدا کیا جائے بلکہ اسے وقتاً فوقتاً ابھارا بھی جائے۔ اس لیے کہ محنت سے انکار ایک اچھی تربیت سے فرار ہے۔ محنت سے افراد کی عزت اور عظمت وابستہ ہے۔ محنت ایک ایسا انسانی عمل ہے جس کا نتیجہ رفعت اور عظمت ہے۔ باری تعالیٰ انسان کے اندر عبادت اور حصولِ رزق دونوں جہات سے محنت دیکھنا چاہتا ہے اور کسی ایک سمت کی محنت کو اپنی مشیت کے خلاف قرار دیتا ہے۔ جہدِ مسلسل کے اس آفاقی ضابطے اور اصول سے آگاہ کرتے ہوئے باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰی.

(النجم، 53: 39)

’’ انسان کو (عدل میں) وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہو گی (رہا فضل اس پر کسی کا حق نہیں وہ محض اللہ کی عطاء و رضا ہے جس پر جتنا چاہے کر دے)۔‘‘

ععبادت کے عمل سے بڑھ کر ایک بندے کا کون سا عمل مرغوب ہوسکتا ہے؟ مگر اس حوالے سے ہمیں واضح حکم دیا کہ تم ہر وقت ہرگز ہرگز مصروفِ عبادت ہی دکھائی نہ دو بلکہ حصولِ رزق کے لیے بھی کاوش کرتے ہوئے نظر آؤ۔ ارشاد فرمایا:

فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللهِ.

(الجمعة، 62: 10)

’’ پھر جب نماز ادا ہوچکے تو زمین میں منتشر ہوجاؤ اور (پھر) اللہ کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرنے لگو۔‘‘

اس آیت کریمہ نے نماز میں بھی محنت کا درس دیا ہے اور حصولِ رزق کے لیے بھی مسلسل محنت کی تاکید کی ہے۔ محنت اور مسلسل محنت صحابہ کرام اور خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کا شعار تھا، اس لیے وہ کسی بھی معاملے میں محنت سے جی نہیں چراتے تھے بلکہ ان کا جی محنت کے بغیر کہیں لگتا نہ تھا۔ خلفاء راشدین کی خلافت اور امارت محنت کے راستے کی رکاوٹ نہ بنی اور نہ ان شخصیات نے محنت کرنے میں کوئی عار محسوس کی اور نہ اس عمل کو اپنے منصب کے خلاف جانا۔ محنت میں باری تعالیٰ نے انسان کے لیے عزت اور رفعت رکھی ہے۔ کاش یہ راز ہر انسان پر منکشف ہوجائے۔ ہر قد آور اور عظیم شخصیت کے پس منظر میں جہدِ مسلسل کا ہی راز عیاں دکھائی دیتا ہے۔

تربیت کی آبیاری۔ آخرت کی تیاری

تربیت افرادکے نبوی منہج میں ایک پہلو آخرت کے حوالے سے بھی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی تربیت کے ذریعے افرادِ امت کو مادی الذہن نہیں بلکہ روحانی الذہن بنایا ہے۔ مادی ذہن فقط دنیا کی بات کرتا ہے، جبکہ روحانی ذہن دنیا کو اختیار کرتے ہوئے آخرت کو ترجیح دیتا ہے۔ مادیت میں ہر قدرِ انسان کا زوال ہے جبکہ روحانیت ہی انسانی اقدار کو فروغ دیتی ہے۔ مادیت خود غرضی کا نام ہے، جبکہ روحانیت بے نفسی اور بے غرضی کا نام ہے۔ اسلامی اندازِ تربیت افراد کو روحانی الذہن بناتا ہے۔ قرآن اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کرتا ہے:

وَابْتَغِ فِیْمَآ اٰتٰـکَ اللہُ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ وَلَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا وَاَحْسِنْ کَمَآ اَحْسَنَ اللہُ اِلَیْکَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِ ط اِنَّ اللهَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ.

(القصص، 28: 77)

’’اور تو اس (دولت) میں سے جو اللہ نے تجھے دے رکھی ہے آخرت کا گھر طلب کر، اور دنیا سے (بھی) اپنا حصہ نہ بھول اور تو (لوگوں سے ویسا ہی) احسان کر جیسا احسان اللہ نے تجھ سے فرمایا ہے اور ملک میں (ظلم، ارتکاز اور استحصال کی صورت میں) فساد انگیزی (کی راہیں) تلاش نہ کر، بے شک اللہ فساد بپا کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔‘‘

اس آیتِ کریمہ نے تربیتِ اسلامی کے مقصد کا تعین کردیا ہے کہ انسانی عمل آخرت کی محنت سے بھی خالی نہ ہو اور انسانی عمل دنیا کی حصہ داری اور دنیوی حاجات و ضروریات سے بھی لاتعلق نہ ہو۔ گویا دنیا اور آخرت دونوں کو اختیار کرنا اسلامی تربیت ہے۔ دنیا کو چھوڑ کر رہبانیت اختیار کرنا اِسلامی تربیت کا اثر نہیں ہے اور فقط دنیا ہی کا ہوجانا اور اپنے مولا اور خالق و مالک کو بھول جانا بھی اسلامی طریقِ تربیت نہیں ہے۔ رہبانیت کا اگر افراط ہے تو دنیا داری تفریط ہے، جبکہ اسلام کا درسِ حیات اور طریقِ تربیت اعتدال پسندی اور میانہ روی ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ ’’وَلَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیا‘‘کہ تم اپنا دنیوی نصیب بھی فراموش نہ کرو اور اس کے ساتھ ساتھ ’’وابتغ فیما اتاک اللّٰہ الدار الآخرۃ ‘‘ کے مصداق آخرت کا نصیب بھی طلب کرو۔ آخرت کے لیے اعمالِ صالحہ اور نجات کی صورت آج ہمیں اپنے اعمال کے ذریعے پیدا کرنی ہے۔ گویا ہمارا آج ہماری کامیابی کی ضمانت بھی بن سکتا ہے اور ہمارا آج ہمیں ناکامی سے بھی دوچار کرسکتا ہے۔ اس لیے جس کا ’’آج‘‘ سنور گیا، اس کا ’’کل‘‘ بھی سنور گیا اور جس کا ’’آج‘‘ برباد ہے، اس کے ’’کل‘‘ کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہے۔

تربیت؛ افضل عمل کو اپنانے کا نام ہے

تربیت اپنی حالت بدلنے کا نام بھی ہے۔ تربیت یہ ہے کہ انسان اسفل حال سے اعلیٰ حال کی طرف منتقل ہوجائے۔ انسان چھوٹی چیز کو چھوڑ کربڑی چیز اختیار کرلے، ادنیٰ عمل ترک کردے اور ارفع عمل اپنالے۔ زندگی نام ہی سعیِ مسلسل کا ہے،سعی کبھی انسانی زندگی سے جدا نہیں ہوتی۔ انسان دنیا جہان کی سہولت رکھنے کے باوجود اپنی ذات میں سعی کا انکار نہیں کرسکتا۔ اس لیے ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ سعیِ مسلسل کا خود کو پیکر بنائے، اپنی تعلیم اور تربیت کے ذریعے خود بھی بدلے اور اوروں کو بدلنے والا بھی بنے۔ قرآن مجید نے انسان کو اپنے آپ کو اس قدر بدلنے کا حکم دیا کہ ہر لمحہ تغیر و تبدیلی تمہاری پہچان اور شناخت بن جائے۔ اس لیے فرمایا:

اِنَّ اللهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ.

(الرعد، 31: 11)

’’بےشک اللہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے آپ میں خود تبدیلی پیدا کر ڈالیں۔‘‘

تبدیلی اور مسلسل تبدیلی بہترین تربیت کا عکاس ہوتی ہے۔ تبدیلی خوب سے خوب تر کی تلاش کا تقاضا کرتی ہے۔ انسان ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ مگر پہلی حالت دوسری حالت سے بہتر ہو تو یہ تبدیلی اچھی شمار ہوتی ہے اور انسان کی تربیت کا مقصد بھی یہ ہے کہ انسان ہر خیر کو اپنی طبیعت میں جمع کرے، ہر اعلیٰ خلق کو اپنائے اور ہر اچھے رویے کو اپنی ذات میں جگہ دے، ہر بہترین ادب سے خود کو آراستہ کرے اور ہر ارفع عادت سے خود کو مزیّن کرے تو یہ تبدیلی ہی بہترین تبدیلی ہے۔ اسلام اسی تبدیلی کا ہم سے تقاضا کرتاہے۔ اگر کوئی قوم وقت اور حالات کا ساتھ نہ دیتے ہوئے خود کو جامد اور معطل کرلے اور وقت کی رفتار کے ساتھ نہ بدلے تو وہ تنزلی کا شکار ہوکر صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہے۔ اس لیے بہترین تربیتِ فرد اور تہذیبِ افراد یہ ہے کہ ہر نئی تبدیلی کو دل سے قبول کیا جائے۔

خلاصۂ کلام

ررسول اللہ ﷺ نے بحیثیتِ معلمِ انسانیت اور مربیّوہ افراد اور اشخاص انسانی تاریخ میں تیار کیے ہیں کہ جنہوں نے انسانی حیات کی کایا پلٹ دی۔ ان افرادکے ذریعے آپ ﷺ نے انسانوں کو نئی اقدار دیں، اعلیٰ اخلاق دیئے، ارفع اصول دیئے، انفرادی زندگی کی کامیابی کے راز بتائے، زندگی کے استحکام کے گُر سمجھائے، انسانی معاشرے کی وحدت کی بنیادوں پر تفہیم کرائی، نسلِ انسانی کے ارتقاء کے راز ان پر منکشف کیے اور ارفع و اعلیٰ انسانی اقدار کے جیتے جاگتے کردار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی صورت میں عالمِ انسانیت کے سامنے متعارف کرائے۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مختلف النوع خوبیاں اور ان کے مختلف میدانوں کے کمالات اور ان کی شخصیتوں کی ہمہ جہت صفات، یہ سب کی سب تربیتِ نبوی ﷺ کے عملی شواہد اور مثالی مظاہر ہیں جو قیامت تک رسول اللہ ﷺ کی تربیت کے اثرات اور ثمرات کو نہ صرف واضح کرتے رہیں گے بلکہ انسانوں کو ان کرداروں سے اکتسابِ فیض کی ترغیب بھی دیتے رہیں گے۔