پانی کا بحران اور ناگزیر منصوبہ بندی

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری

زمانۂ قدیم سے پانی کے مسئلے پر جنگیں جاری ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایسی پہلی جنگ تین ہزار قبل مسیح میں لڑی گئی اور اس وقت سے لے کر آج تک یہ مسئلہ دنیا کے مختلف حصوں میں وجۂ نزاع اور باعثِ جنگ و جدل بنا ہوا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان اب تک کئی جنگیں ہو چکی ہیں۔ ان تمام جنگوں میں کور ایشو مقبوضہ کشمیر تھا مگر اب خدشہ ہے کہ دونوں فریقین کے مابین اگلی جنگ پانی کی کمی کے مسئلے پر ہوگی۔ ایک اندازے کے مطابق اگر 2018ء اور 2022ء کے عرصے کے دوران ان دونوں ملکوں میں مون سون کی بارشیں معمول کے مطابق نہ ہوئیں تو پانی کی صورتحال سنگین ہوجائے گی جو دونوں ممالک کے درمیان ایک خوفناک بداعتمادی اور رسہ کشی کی شکل اختیار کر سکتی ہے اور یہ رسہ کشی غیر روایتی ہوگی۔

دنیا بھر میں پانی کی طلب بڑھ رہی ہے اور جب طلب سپلائی سے بڑھ جائے تو پانی کی کمی قوموں کو ایک دوسرے کے مقابل میدان جنگ میں لا کھڑا کرسکتی ہے۔ اس وقت پاکستان 50 فیصد سے زائد پانی کی کمی کا شکار ہے اور دو بڑے آبی ذخیرے تقریباً خشک ہیں،پانی کی اس کمی کی وجہ سے چاول اور گندم کی اگلی فصل کی پیداوار بری طرح متاثر ہوگی۔ 22 کروڑ آبادی کا ملک اپنی تاریخ کے خوراک کے ایک بڑے بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پانچ براعظموں میں پچاس سے زائد ممالک پانی کے مسئلے پر ایک دوسرے سے نبرد آزما ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ اس لئے اشد ضروری ہے کہ یہ ممالک جتنا جلد ممکن ہو سکے دریاؤں اور زیر زمین پانی کے ذرائع کے استعمال کے باہمی اشتراک پر مبنی معاہدوں پر متفق ہوجائیں۔ پانی کے مسئلے پر جھگڑے اور جنگیں جلد دنیا کے مختلف خطوں میں سر اٹھانے لگیں گے۔ اقوامِ عالم کو ان عوامل پر کام کرنے کی ضرورت ہے جو مختلف ملکوں کے درمیان پانی کے مسئلے پر پائے جانے والے تناؤ کو کم کر سکیں۔جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ پانی انسانی بقاء، زراعت و صنعت، بجلی کی پیداوار حتیٰ کہ انسانوں اور اشیاء کی نقل و حمل جیسی سرگرمیوں کے لئے بھی انتہائی ضروری ہے۔

پانی کا دس فیصد استعمال گھریلو ضروریات کے لئے ہوتا ہے، بیس فیصد صنعتوں کے لئے اور باقی ستر فیصد پانی زرعی شعبے میں کام میں لایا جاتا ہے۔ اپنی علامتی اور جذباتی اہمیت کے علاوہ پانی ایکو سسٹم یعنی ماحولیاتی نظام کو قائم رکھنے کے لئے بھی ضروری ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور معاشی سرگرمیوں کی وجہ سے جب تازہ پانی کی سپلائی پر دباؤ بڑھ جاتا ہے تو اس کی کمیابی ہو جاتی ہے اوریہ کمیابی باہمی جھگڑوں اور دوسرے خوفناک نتائج کا سبب بن سکتی ہے۔ انسانی تاریخ کی ابتداء سے ہی اقوام کے درمیان جنگوں کی بڑی وجہ پانی کا مسئلہ رہا ہے۔ یہ جنگیں مقامی سطح پر بھی لڑی گئی ہیں اور علاقائی، قومی اور عالمی سطحوں پر بھی۔ ان میں سے ہر سطح دوسری سے منسلک ہے اور ایک سطح پر مداخلت کے اثرات دوسری سطح پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں، سماجی، معاشی، سیاسی اور ثقافتی عوامل بھی جھگڑوں اور تناؤ میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ پانی کا غیر مناسب حصہ ملنے اور اس کا غیر موزوں استعمال بھی ماضی میں جنگوں کا باعث بن چکا ہے اور آئندہ بھی بن سکتا ہے۔ یہ قیمتی چیز خوراک کی پیداوار کے لئے بھی درکار ہے جس کے لئے پانی کا استعمال ستر فیصد ہوتا ہے۔ خوش قسمتی سے دنیا میں پانی کی موجودہ دستیابی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی ہے۔

تاہم پانی کی کمیابی بنی نوع انسان کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس کمیابی کا مشاہدہ شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں کیا جا رہا ہے، جبکہ سب صحرائے افریقہ میں یہ معاشی کمزوری کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ پانی کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے جس میں پانی کے ذرائع کو فوجی اقدامات کے دوران دشمن ملک کے خلاف استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ اسے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ دہشتگرد عناصر بھی پانی کو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے کام میں لا سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ امریکہ اور کینیڈا جیسے ممالک بھی کہ جہاں پانی وافر مقدار میں پایا جاتا ہے، اکثر جھگڑوں پر اتر آتے ہیں کیونکہ ان کے چند علاقوں میں پانی کی کمی کا سامنا ہوتا ہے۔ ایک کینیڈین شہری ایک عام یورپی شہری کے مقابلے میں دوگنا پانی استعمال کرنے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ان عوامل سے پتہ چلتا ہے کہ پورے شمالی امریکہ میں پانی کے استعمال کی شرح بہت زیادہ ہے۔ تقریباً پچھتر فیصد کینیڈین شہری سطح زمین پر موجود پانی پر انحصار کرتے ہیں اور باقی پچیس فیصد زیر زمین پانی کے ذخائر پر۔ چونکہ یہ دونوں ذرائع خطرے کا شکار ہیں اس لئے ان علاقوں میں بھی پانی پر جھگڑوں کے امکان میں اضافہ ہو گیا ہے۔

2007ء میں کینیڈا میں سربند بوتل میں دستیاب پانی کے حوالے سے دہشت گردانہ حملہ ہوا۔ اسی سال دہشت گردی کی وجہ پانی سے متعلق ایک اور جھگڑا تھا۔ 2008ء میں چین نے تبت میں منحرفین کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا کیونکہ تبت میں پائے جانے والے پانی کے ذخائر چین کے لئے بہت اہم ہیں اور وہ اپنے مفاد ات کے تحفظ کی خاطر ان ذخائر پر اپنا کنٹرول رکھنا چاہتا ہے۔ جنوبی ایشیاء میں پانی کے منڈلاتے خطرے کے پیش نظر علاقائی منظرنامے پر نظر رکھنے والے ماہرین نے پاکستان اور بھارت کے درمیان اگلی جنگ پانی کے مسئلے پر چھڑنے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کی جانب سے بھارت پر اپنے حصے کے پانی کی چوری کے الزام کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تناؤ پہلے ہی بڑھ رہا ہے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ بھارت اس کے حصے میں آنے والے دریاؤں پر بند باندھ کر اور ڈیم تعمیر کر کے دونوں ممالک کے درمیان عالمی بینک کے ذریعے 1960ء میں طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان 'غلط فہمیوں' کے ازالے کے لئے اعلی سطحی وفود کا تبادلہ ہو چکا ہے تاکہ ایک دوسرے کے ساتھ پانی کی دستیابی کے حوالے سے معلومات شیئر کی جا سکیں۔تاہم ابھی تک یہ ملاقاتیں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکیں۔ پانی کا مسئلہ اتنا نازک ہو چکا ہے کہ سرحدوں کے دونوں اطراف کی سیاسی جماعتیں اس پر اپنی سیاست چمکا رہی ہیں۔ اس موقع پر عالمی برادری کو حرکت میں آنے کی ضرورت ہے تاکہ پانی کے جھگڑوں کی وجہ سے عالمی امن کو لاحق خطرات کی پیش بندی کی جا سکے۔ اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لئے اسے اپنے وسائل مجتمع کر کے کوئی حل پیش کرنا ہوگا۔ خصوصاً اقوام متحدہ کو پانی کے مسئلے کو اپنے ایجنڈے کا حصہ بنانا اور اس مسئلے کے تدارک کے لئے کوئی جامع حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی۔ ایسے خطوں کی نشاندہی کرنا ہو گی جہاں پانی پر جھگڑے پھوٹ پڑنے کا امکان ہو اور فریقین کی باہمی رضامندی کے ساتھ مسئلے کے پائیدار حل کے لئے ضروری اقدامات کرنے ہوں گے۔

پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہیں جو ماحولیاتی آلودگی، گلوبل وارمنگ اور پانی کے خطرناک بحران کی زد پر ہے، رواں سال سرکاری اعدادوشمار میں اعتراف کیا گیا ہے کہ اس وقت پاکستان کا نہری نظام 50 فیصد پانی کی کمی کا شکار ہے، یقیناً اس کمی کا اثر پیداوار پر پڑے گا۔ پاکستان آج بھی دستیاب پانی کا بڑا حصہ سمندر میں گرا کر ضائع کر دیتا ہے۔ 60 کی دہائی کے بعد ہم کوئی بڑا آبی ذخیرہ نہیں بنا سکے، اب وقت آ گیا ہے کہ انسانی زندگی کی بقا کے لئے کالا باغ ڈیم سمیت تمام ڈیزائن کردہ چھوٹے بڑے ڈیمز ترجیحاً تعمیر کیے جائیں اور پانی کے کم استعمال اور اس لیکوئیڈ گولڈ کی حفاظت اور بچت کا شعور اجاگر کیا جائے۔ زرعی پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے نہروں کی باقاعدگی کے ساتھ بھل صفائی کی جائے، روز مرہ کے گھریلو استعمال کے لیے ضرورت کے مطابق پانی استعمال کرنے کا کلچر اختیار کیا جائے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ جب پٹرول ڈیزل نہیں تھا تب بھی انسانی زندگی موجود تھی مگر پانی کے بغیر انسانی زندگی ناممکن ہے۔

ہماری سیاست میں تکنیکی اعتبار سے مسلّمہ علم رکھنے والے سماجی، معاشی، زرعی ماہرین کی کمی ہے۔ ہمارے سیاستدان اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں اور وہ علم نہ ہونے کے باوجود ہر موضوع پر ماہر کے طور پر اپنی رائے دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور دوسرا بڑا المیہ یہ ہے کہ حکمران جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو ان کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں اور جب وہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ان سے بڑا کوئی نیشنلسٹ نہیں ہوتا۔ قول و فعل کا یہ تضاد اور بدلتے ہوئے موسموں کے مطابق موقف بدلنے کی عادت نے آج پاکستان کو بحرانستان میں تبدیل کر دیا ہے۔ کالا باغ ڈیم کی ہی مثال لے لیں یہ خالصتاً ایک فنی اور تکنیکی مسئلہ ہے مگر اس کالا باغ ڈیم کو اتنا متنازعہ بنادیا گیا کہ اس کے خلاف بات کرنا گویا کار ثواب ہے۔ جنرل مشرف کے دور حکومت میں کالا باغ ڈیم سمیت آبی ذخائر کی تعمیر کے حوالے سے ماہرین پر مشتمل ایک تکنیکی کمیٹی بنائی گئی تھی مگر دیگر تین صوبوں نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کو فنی بنیادوں پر ڈسکس کرنے کی بجائے جذبات کی بنیاد پر اپنی رائے دی اور بوجوہ یہ انتہائی ناگزیر منصوبہ فائلوں میں دب کر رہ گیا ہے۔ اس وقت دنیا کے جس ملک نے بھی معاشی استحکام حاصل کیا ہے اُس میں اس کے آبی ذخائر اور زرعی شعبے کی ترقی مرکزی نکتہ ہے۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے قدرتی اعتبار سے زراعت دوست بنایا ہے۔ اس کی زرخیز زمینیں، اس کے بہترین موسم، اس کی جفاکش زرعی افرادی قوت ملک کا اصل اثاثہ ہے مگر ہر چیز ناقص منصوبہ بندی اور نااہلی کی نظر ہو چکی ہے۔

اگر ہم آبی ذخائر کی بات کریں تو دنیا کے سب سے بڑے ڈیمز چین میں ہیں۔ چین نے 1950ء سے لے کر اب تک 22ہزار ڈیمز تعمیر کئے۔ دنیاکے 15بڑے ڈیمز چین کے اندر ہیں۔ بھارت میں 4ہزار تین سو ڈیمز بن چکے ہیں اور مزید بن رہے ہیں۔ ایران میں 5 سو 88 ڈیمز ہیں اور 137ڈیمز زیر تعمیر ہیں۔ 546 ڈیمز مزید تعمیر کرنے پر ایران منصوبہ بندی کررہا ہے۔روس میں 27 سو میگا ڈیمز ہیں۔ امریکہ نے اب تک 15 ہزار 6 سو ڈیمزبنائے۔ یو کے کے پاس 486 ڈیمز ہیں اور پانی کی حفاظت اور ری سائیکلنگ کے حوالے سے برطانیہ سرفہرست ممالک میں شامل ہے جبکہ زرعی ملک پاکستان جسے اللہ نے بہترین نہری نظام، دریائوں اور پانی کے خزانوں، وسیع و عریض گلیشیئر سے نوازرکھا ہے اس کے پاس صرف 150 ڈیمزہیں جن میں قابل ذکر صرف 2میگا ڈیمز ہیں اور یہ ڈیمز بھی 50 سال قبل بنے۔

غربت، جہالت اور غلامی کے طوق ایسے ہی گلے میں نہیں پڑتے، جب انسان عقل کے باوجود عقل سے کام نہ لے، معدنیات کے باوجود معدنیات کو استعمال میں نہ لائے تو پھر نتائج وہی نکلتے ہیں جو آج کل ہمارے سامنے ہیں۔ ہر انتخابات میں عوام کو گزشتہ 40 سال حکومت کرنے والی جماعتوں کے نمائندوں سے کم از کم سوال تو کرنا چاہیے کہ آئندہ نسلوں کے محفوظ مستقبل کے لئے آبی ذخائر تعمیر کیوں نہیں کئے گئے۔۔۔؟ خوراک اور توانائی کے مسائل حل کرنے کے لئے منصوبہ بندی کیوں نہیں کی گئی۔۔۔؟ گزشتہ 40 سالوں میں پاکستان نے 44 ہزار 3 سو 66 ارب روپے کا قرضہ لیا۔ یہ قرضہ کہاں خرچ ہوا۔۔۔؟ عوامی نمائندوں سے یہ سوال ضرور پوچھا جاناچاہیے؟ ہم نے آبی ذخائر بھی تعمیر نہیں کئے۔ توانائی کی ضروریات کو بھی نظر انداز کیا گیا۔۔۔ تعلیم،صحت اور انصاف کے شعبے انسانیت کا منہ چڑارہے ہیں تو پھر یہ ضخیم رقم کہاں خرچ ہوئی۔۔۔؟ اور ان ہزاروں ارب کے قرضہ جات کا سود پاکستان کا بچہ بچہ ادا کررہا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک پروفیشنل پلاننگ کمیشن تشکیل دیا جائے جو پاکستان کی بقا سے متعلق معاملات پر منصوبہ بندی کرے اور کسی حکومت کو اس منصوبہ بندی کو تبدیل کرنے اور التواء میں ڈالنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ امریکہ، برطانیہ سمیت ترقی یافتہ ممالک میں حکومتیں اور ایڈمنسٹریشن تبدیل ہوتی رہتی ہیں مگر ان کی پالیسیوں میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آتی۔ ایسا ہی نظام اور انتظامی کلچر اپنانے کی پاکستان کو بھی ضرورت ہے۔ کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر کھلے دل اور حب الوطنی کے جذبات کے تحت بات کی جائے۔ کالا باغ ڈیم سمیت تمام ڈیزائن کردہ میگا ڈیمز کو مکمل کرنے کے لئے وسائل اکٹھے کئے جانے چاہئیں اور صرف اور صرف پانی کے خزانوں کو محفوظ بنانے کے لئے منصوبہ بندی ہونی چاہیے۔ پانی کو مستقبل کا لیکوئیڈ گولڈ اور خرید و فروخت کی کموڈٹی قرار دیا جارہا ہے۔ ہم پہلے ہی بہت تاخیر کا شکار ہیں، لہٰذا پانی کے بحران سے بچنے کے لئے اور اس کی وجہ سے جنم لینے والے توانائی اور خوراک کے بحران سے بچنے کے لئے ابھی سے منصوبہ بندی کی جائے اورعملدرآمد کے لئے یکسوئی کے ساتھ تمام وسائل اور توانائیاں بروئے کار لائی جائیں۔

سیاسی حلقے کالا باغ ڈیم کے قابل عمل منصوبے پر از سر نو نظر ثانی کریں۔اس منصوبے کو سیاست کی بجائے تکنیکی پیمانے پر پرکھا جائے۔ سندھ کے محب وطن سیاستدان ایک قدم آگے آئیں اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے اپنا کردار ادا کریں۔ نوجوان سیاستدان اس عظیم کام کا بیڑا اٹھائیں اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے منصوبے کو ممکن بنائیں۔ 60 کی دہائی کے بعد کوئی میگا ڈیم نہیں بنا جس کا نتیجہ پیداوار کی انتہائی کمی کی صورت میں آج ہمارے سامنے ہے۔ اگرخشک سالی اور پانی کی کمی اسی طرح جاری رہی تو پھر پورا پاکستان خدانخواستہ تھر اور چولستان میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ ہزاروں سال پر مشتمل تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ بڑی بڑی تہذیبیں دریائوں کے کناروں پر آباد ہوئیں اور دریائوں کے خشک ہونے کے ساتھ ان کا وجود بھی ختم ہو گیا۔

اللہ رب العزت ہمیں پانی جیسی عظیم نعمت کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور نہ صرف پانی کے موجودہ ذخائر کی بچت کرنے بلکہ پانی کے ذخائر کی حفاظت کے لیے بھی احسن اقدام کرنے کی توفیق اور صلاحیت و قابلیت عطا فرمائے۔