حقیقتِ انسان اور شرفِ انسانیت کے قرآنی امتیازات

محمد شفقت اللہ قادری

انسان طبعاً کمزور واقع ہوا ہے، نعمت حاصل ہونے پر شکر ادا نہیں کرتا مگر چھن جانے پر ناشکرا ہوجاتا ہے۔ دکھ تکلیف میں اللہ کو پکارتا ہے مگر جب رب تعالیٰ تکلیف دور فرمادیتے ہیں تو وہی انسان ابن الوقت اور اتنا بدلحاظ ہوجاتا ہے کہ خالقِ کائنات، پروردگارِ عالم کا احسان بھی فراموش کردیتا ہے۔ انسان فطرتاً جلد باز پیدا ہوا ہے، نعمتیں اور آسائشیں حاصل ہوجانے پر مغرور اور بد دماغ ہوجاتا ہے، روگردانی اور طوطا چشمی پر اتر آتا ہے اور رب تعالیٰ کی طرف سے بھی منہ پھیرلیتا ہے۔ انسان یہ کیوں بھول جاتا ہے کہ کبھی وہ قابل ذکر چیز ہی نہ تھا۔ وہ اپنی پیدائش پر غور کرے تو اسے روئے کائنات میں بھاگنے کی جگہ نہ ملے۔ بے شک انسان کو عطا فقط اللہ تعالیٰ کرتے ہیں لیکن اتنا ملتا ہے جتنی وہ سعی اور کوشش کرتا ہے:

وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰی.

(النجم، 53: 39)

’’اور یہ کہ انسان کو (عدل میں) وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہو گی (رہا فضل اس پر کسی کا حق نہیں وہ محض اللہ کی عطاء و رضا ہے جس پر جتنا چاہے کر دے)۔‘‘

قرآن کی رو سے انسان کی تخلیق کا مقصد بندگی اور عبادت ہے۔ ارشاد فرمایا:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ.

(الذاریات، 51: 56)

’’اور میں نے جنّات اور انسانوں کو صرف اسی لیے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی اختیار کریں۔‘‘

مگر افسوس صد افسوس کہ انسان فساد فی الارض کا مرتکب ہوگیا ، ظلم و بربریت او ر معاشرتی حق تلفی کی حد کردی اور اسلامی اقدار و شعار ہی بھول گیا:

وَابْتَغِ فِیْمَآ اٰتٰـکَ اللهُ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ وَلَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا وَاَحْسِنْ کَمَآ اَحْسَنَ اللهُ اِلَیْکَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِ ط اِنَّ اللهَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ.

(القصص، 28: 77)

’’اور تو اس (دولت) میں سے جو اللہ نے تجھے دے رکھی ہے آخرت کا گھر طلب کر، اور دنیا سے (بھی) اپنا حصہ نہ بھول اور تو (لوگوں سے ویسا ہی) احسان کر جیسا احسان اللہ نے تجھ سے فرمایا ہے اور ملک میں (ظلم، ارتکاز اور استحصال کی صورت میں) فساد انگیزی (کی راہیں) تلاش نہ کر، بے شک اللہ فساد بپا کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔‘‘

عبد کی اقسام

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی تصنیف ’’اقبال کا مردِ مومن‘‘ میں انسان کو قرآنی اصطلاح دیتے ہوئے ’’عبد‘‘ لکھا ہے اور عبد کی تین قسموں کا ذکر کیا ہے جو نہایت قابلِ غور ہے:

1۔ عبدِ آبق

وہ بندہ جو مالک کی اطاعت اور فرمانبرداری سے بھاگ گیا ہو، عبدِ آبق کہلاتا ہے یعنی ایسے بندگانِ خدا جو خالق و مالک کی اطاعت، محبت سے روگردانی کرکے معبودان ِباطلہ کے اسیر ہوگئے ہوں اور جھوٹے خداؤں کی پوجا میں مشغول ہوں یعنی صراط مستقیم سے بھٹکے ہوئے لوگ۔ میری نظر میں ایسی زندگی گزارنے والے انسان بے مقصد اور غفلت شعار زندگی کے مرتکب ہوتے ہیں۔

2۔ عبدِ رقیق

یہ وہ بندگان خدا ہیں، جو اللہ کی اطاعت و محبت کا پٹہ اپنے گلے میں ڈالے رہتے ہیں اور اس کی اطاعت بجا لانے میں غفلت و کوتاہی نہیں کرتے۔ یہ بندے احکامِ الہٰی کی پیروی کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔ وہ دانستہ یا نادانستہ اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے معصیت کا ارتکاب کرنے سے خوف زدہ رہتے ہیں۔

3۔ عبدِ ماذون

یہ بندے اللہ کی عبادت کرتے کرتے رضائے الہٰی میں ایسے گم ہوجاتے ہیں کہ ان کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، بولنا، سکوت اختیار کرنا، جینا مرنا، ہر فعل اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے ہوتا ہے۔ ان کی زندگی کا مقصد فقط خوشنودی و رضائے الہٰی ہی ہوتا ہے کیونکہ وہ قرآن کی اطاعت و متابعت میں زندگی گزارنے کا قرینہ و سلیقہ پاچکے ہوتے ہیں۔ سورۃ الانعام کی آیت 162 میں ارشاد فرمایا:

قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ ِللهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.

’’کہہ دیجئے میری نمازیں، میری قربانیاں، میرا جینا مرنا سب کچھ اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔‘‘

علامہ محمد اقبالؒ نے قرآن عظیم میں بیان کردہ انسانِ مرتضیٰ اور نفس کاملہ عبد ماذون ہی کا نام مردِ مومن رکھا ہے۔

الوہی ہدایات

میری نظر میں جب یہی عبدِ ماذون نظامِ ربوبیت کے تحت شعوری ارتقاء کی الوہی منازل طے کرلیتا ہے تو مطابق شیخ الاسلام بندۂ مومن مندرجہ ذیل پانچ ہدایاتِ الوہی سے نواز دیا جاتا ہے:

1۔ ہدایتِ فطری: اسے ہدایت وجدانی بھی کہتے ہیں، یہ الہامی طور پر انسان کے اندر موجود ہوتی ہے۔

2۔ ہدایتِ عقلی: یہ ہدایت؛ فقط عقل، فہم و فراست اور تدبر سے میسر آتی ہے۔

3۔ ہدایتِ حسّی: یہ ہدات؛ احساس و مروت، ادراک اور حواس خمسہ ظاہری اور حواسِ خمسہ باطنی کی جملہ قوتوں کا سرچشمہ اور ہیڈ کوارٹر ہے۔ قرآن نے اس امر کی تصدیق سورہ بنی اسرائیل آیت36 اور سورہ ملک آیت23 میں وضاحت سے کردی ہے۔

4۔ ہدایتِ قلبی: یہ قلبی اور ارادی طور نصیب ہوتی ہے۔

5۔ ہدایتِ ربانی: جو اطاعتِ الہٰی کی پیروی کرتے ہیں انھیں یہ ہدایت خدا تعالیٰ کی طرف سے نصیب ہوتی ہے۔

مقاصدِ تخلیقِ انسان اور ہمارا طرزِ عمل

جب بنی نوع انسان کی بے راہ روی اور روگردانی حد سے بڑھتی ہے تو ہدایت کا راستہ بند کردیا جاتا ہے۔ ذیل میں انسان کی تخلیق کے مقصد کو قرآن مجید کی روشنی میں واضح کرتے ہوئے انسان کے طرزِ عمل کو بیان کیا جاتا ہے:

1۔ خالقِ عظیم نے انسان کو فطرت پر تخلیق کیا تاہم یہ اپنی فطرت سے ہی روگرداں ہوگیا، فطرتِ الہٰیہ کا تقاضا تھا کہ یہ اس فطرت کی اتباع اور پیروی کرے۔

فِطْرَتَ اللهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا.

(الروم، 30: 30)

’’الله کی (بنائی ہوئی) فطرت (اسلام) ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا فرمایا ہے (اسے اختیار کر لو)۔‘‘

2۔ افسوس! انسان نے تو خالقِ کائنات کی اس قسم کی بھی لاج نہ رکھی جو اس نے انسان اور انسان کی جان کی کھائی۔

وَنَفْسِ وَّ مَاسَوّٰهَا.

(الشمس، 91: 7)

’’اور انسانی جان کی قَسم اور اسے ہمہ پہلو توازن و درستگی دینے والے کی قَسم۔‘‘

3۔ انسان تو خدا کی زمین پر فساد پر تلا ہوا ہے اور اس کے شر سے کوئی محفوظ نہیں ہے۔ انسان کو معلوم ہے کہ خدا فساد کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتے مگر افسوس کہ یہ اپنی اس حیثیت اور اوقات بھول گیا ہے جو قرآن نے بتائی ہے۔ کاش انسان اس کو یاد رکھے اور خدا کی زمین پر اکڑ کر نہ چلے۔

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ.

(الحجر، 15: 26)

’’اور بے شک ہم نے انسان کی (کیمیائی) تخلیق ایسے خشک بجنے والے گارے سے کی جو (پہلے) سِن رسیدہ (اور دھوپ اور دیگر طبیعیاتی اور کیمیائی اثرات کے باعث تغیر پذیر ہو کر) سیاہ بو دار ہو چکا تھا۔‘‘

4۔ انسان اپنی خو میں خود غرض، خودپسند اور لالچی ہے۔ اگر خالقِ کائنات اپنے خزانے اور مخلوقات کا رزق اس کے رحم و کرم پر دے دیتا تو یہ اپنے علاوہ کسی پر کچھ خرچ نہ کرتا، نجانے یہ اتنا تنگ دل کیوں واقع ہوا ہے کہ قرآن کو بھی کہنا پڑا کہ

وَکَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا.

(بنی اسرائیل، 17: 100)

’’اور انسان بہت ہی تنگ دل اور بخیل واقع ہوا ہے۔‘‘

5۔ حیرت ہے کہ انسان نماز میں پانچ وقت اللہ تعالیٰ سے مانگتا نہیں تھکتا لیکن اگر کوئی سائل اس کے دروازے پر دوسری مرتبہ دستِ سوال دراز کرے تو یہ آگ بگولہ نہ جانے کیوں ہوجاتا ہے؟ حالانکہ اِس سے اُس میں سے مانگا یہ جا رہا ہے جو اسے رب الارباب نے دیا ہے۔

انسان کو یاد رکھنا چاہیے کہ بڑائی اور کبریائی فقط خالقِ ارض و سماوات کی شان ہے مگر اس نے فرعونیت اور رعونت کی انتہا کردی اور تکبر نے اسے پست کردیا۔ کاش یہ جان جائے کہ رب کائنات تکبر کرنے والے کو ناپسند فرماتا ہے۔

اِنَّ اللهَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَا.

(النساء، 4: 36)

’’بے شک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبرّ کرنے والا (مغرور) فخر کرنے والا (خود بین) ہو۔‘‘

6۔ انسان اپنی حقیقت سے غافل ہے۔ کیا اس نے غور نہیں کیا کہ خدا نے اسے نطفۂ مخلوط سے تخلیق کیا تو کرشمہ خداوندی کے باعث یہ خوبصورت چلتا پھرتا چھ فٹ کا تندرست توانا انسان بن گیا۔ کاش یہ غور کرے کہ ہوا کا ایک بلبلہ نکلنے کے باعث ایک لمحہ میں یہ فنا ہوجاتا ہے، اس کا نام فرعون ہو، قارون ہو، شداد ہو، نمرود ہو، یزید ہو، ابولہب، ابوجہل ہو، ہٹلر ہو، ہلاکو خان ہو، یا چنگیز خان۔ اس کا انجام آخر میں مٹی یا آگ ہے۔

انسان کو خالقِ عظیم نے اچھی صورت پر تخلیق کیا۔ کاش یہ اس عظیم احسان کی قدر کرتا مگر افسوس کہ یہ اپنے قالبِ خاکی میں اچھی شہرت بھی نہ بھرسکا۔

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ.

(التین، 95: 4)

’’بے شک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے۔‘‘

7۔ انسان کو رب کائنات نے اشرف المخلوقات بنایا لیکن دوسری مخلوقات اس سے بازی لے گئیں اور یہ خسارے میں رہا، کاش یہ غور کرتا۔

وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰـھُمْ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰـھُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰـھُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلاً.

(بنی اسرائیل، 17: 70)

’’اور بے شک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری (یعنی شہروں اور صحراؤں اور سمندروں اور دریاؤں) میں (مختلف سواریوں پر) سوار کیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور ہم نے انہیں اکثر مخلوقات پر جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے فضیلت دے کر برتر بنا دیا۔‘‘

8۔ انسان خدا کی زمین پر اتراتے پھرتا ہے جبکہ رب کائنات شیخی مارنے والے اور اترانے والوں کو ہرگز پسند نہیں فرماتے:

لاَ تَفْرَحْ اِنَّ اللهَ لاَ یُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ.

(القصص، 28: 76)

’’غُرور نہ کر بے شک اللہ اِترانے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔‘‘

9۔ انسان کو نجانے کس چیز نے ناشکرا اور احسان فراموش بنادیا ہے جبکہ فطرتِ الہٰیہ کا تقاضا یہ ہرگز نہ تھا۔ خالقِ کائنات شکر کرنے والے اور احسان ماننے والے کو مزید عطا فرماتے ہیں:

لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ.

(ابراهیم، 14: 7)

’’ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقیناً سخت ہے۔‘‘

انسان کو خدا نے تخلیق کیا مگر یہ اتنا گھمنڈی اور متکبر ہوگیا کہ اپنے تئیں خدا بننے چلا کیونکہ جب یہ کہتا ہے کہ میں ہر صورت یہ کام کرکے دکھاؤں گا تو اس نے خدا بننے کی کوشش کی کیونکہ یہ حکمِ کُن فیکون خالق کائنات کی ہی شان عظیم ہے۔ اگر یہ ہر بات پر اللہ اللہ کہہ دے تو خداوند عظیم کی پناہ میں آجائے گا۔

10۔ انسان کتنا ناسمجھ واقع ہوا ہے کہ ہر بات پر کہتا ہے کہ رب تعالیٰ انصاف فرما۔ ارے ناداں! تو اس سے انصاف نہیں، فقط اس کا فضل مانگ اگر اللہ انصاف اور عدل کرنے پر آگیا تو ہوسکتا ہے تم گرفت میں آجاؤ کیونکہ بخشش عدل پر نا ممکن ہے ،بخشش فقط فضل ربی پر ہی ہے۔ کیونکہ

وَاللهُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ.

(البقرة، 2: 105)

’’اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔‘‘

11۔ انسان تو مسجود ملائکہ ہے، مگر حیرت ہے کہ یوم الست رب سے کیا معاہدۂ الست بھی بھول گیا اور اپنے خالق کو بھی بھلا بیٹھا:

اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی شَهِدْنَا.

(الاعراف، 7: 172)

’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ وہ (سب) بول اٹھے: کیوں نہیں؟ (تو ہی ہمارا رب ہے)۔‘‘

جبکہ ابلیس نے بھی خالق عظیم سے ایک وعدۂ بدبختی کیا تھا کہ رب کائنات میں تیرے گمراہ بندوں کو صراط مستقیم سے دور کردوں گا۔

لَئِنْ اَخَّرْتَنِ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَاَحْتَنِکَنَّ ذُرِّیَتَهٗٓ اِلاَّ قَلِیْلًا.

(بنی اسرائیل، 17: 62)

’’اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے دے تو میں اس کی اولاد کو سوائے چند افراد کے (اپنے قبضہ میں لے کر) جڑ سے اکھاڑ دوں گا۔‘‘

افسوس کہ وہ اپنے معاہدہ پر قیامت تک ڈٹا ہوا ہے اور انسان کی جڑیں کاٹ رہا ہے جبکہ ہم اللہ سے کیے ہوئے وعدے کو بھلا بیٹھے ہیں۔

12۔ انسان کو اللہ نے عدل انصاف کا حکم دیا، مگر اس نے اپنی خُو نہ بدلی اور ظلم استبداد پر اتر آیا۔ کبھی غیبت کی صورت میں اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاتا ہے اور کبھی ہوس و لالچ میں آکر اس کا خون بہاتا ہے۔ حالانکہ اللہ نے اسے ظاہرو باطن میں عاجزی، نرمی اور شفقت کا حکم دیا تھا۔ انسان کو رب تعالیٰ نے اپنی زمین پر اکڑ کر چلنے سے منع فرمایا ہے مگر اس کی رعونت اور تکبر تھمنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ جبکہ اللہ بدمستوں کو قطعی پسند نہیں فرماتے۔ ارشاد قرآنی ہے:

وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّ اللهَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ.

(لقمان، 31: 18)

’’اور لوگوں سے (غرور کے ساتھ) اپنا رخ نہ پھیر، اور زمین پر اکڑ کر مت چل، بے شک الله ہر متکبّر، اِترا کر چلنے والے کو ناپسند فرماتا ہیاور لوگوں سے (غرور کے ساتھ) اپنا رخ نہ پھیر، اور زمین پر اکڑ کر مت چل، بے شک الله ہر متکبّر، اِترا کر چلنے والے کو ناپسند فرماتا ہے۔‘‘

13۔ انسان کو خالقِ کائنات نے احسان کرتے ہوئے اپنا حق دوسروں کے لیے چھوڑنے کا حکم دیا مگر یہ مظلوم، یتیم، مسکین اور بیوہ کا جائز حق بھی غصب کرگیا۔ یاد رکھیں کہ احسان کا مطلب نیکی کرنا ہے:

وَاَحْسِنُوْا اِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ.

(البقرۃ، 2: 195)

’’اور نیکی اختیار کرو، بے شک الله نیکوکاروں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘

فطرت الہٰیہ پر پیدا ہونے والے انسان! تجھے غصہ پینے کا حکم ہوا تو تو نے شراب پینی شروع کردی۔ حتی کہ انسان کا خون بھی۔۔۔ تجھے حسد کی آگ سے بچنے کا حکم دیا گیا مگر تو حسد کی آگ میں صبح و شام جل کر خاکستر ہی ہوگیا۔۔۔ تجھے رحمن نے بلایا مگر تو شیطان کی طرف بھاگ گیا۔۔۔ تجھے خالق نے معاف کرنے کا حکم دیا مگر تم نے بدلہ لینے کی حد کردی۔۔۔ تجھے عدل و انصاف کا حکم ٰ ہوا مگر تو نے حق تلفی کی حد کردی۔۔۔ انسان تجھے صبر کا حکمِ الہٰی ہوا مگر تم نے جبر کی حد کردی۔۔۔ انسان تجھے فضول خرچی سے منع کیا گیا مگر تونے سخاوت سے بھی ہاتھ کھینچ لیا۔۔۔ انسان تجھے غربت ختم کرنے کا حکم ہوا مگر تم نے غریب ہی مار ڈالا۔۔۔ انسان تجھے اللہ کی رسی مضبوطی سے تھامنے کا حکم ہوا مگر تم نے رسی کا پھندا اپنے گلے میں ڈال کر خودکشی کرلی اور حرام موت مرگیا۔۔۔ انسان تجھے معلوم ہے کہ مومن عورتوں پر تہمت لگانا، دنیا اور آخرت دونوں میں لعنت ہے مگر حیرت ہے کہ تم کتنی مرتبہ لعنت کے حقدار ٹھہرائے گئے۔

اے انسان! اِن اعمال کے ہوتے ہوئے دل سے یہ بھول نکال دو کہ حضور نبی اکرمﷺ کی شفاعت ظالم اور غاصب پر بھی ہوگی۔ شفاعت رسالت مآب ﷺکا حقدار عفوو درگزر والا ہی ہوگا۔کیا تجھے معلوم ہے کہ معافی کی معراج مزید احسان کرنا ہے۔ اچھے اخلاق، حکمت، تدبر، دانائی، قانون، غور وفکر اور اسلامی تہذیب و تمدن کی بالادستی میں ہی تیری بقا ہے۔ اچھے اعمال اور فنا فی اللہ و فنافی رسالت مآب میں دائمی بقا کا رازمضمر ہے۔

فضیلت و شرفِ انسانی کے امتیازات

اللہ رب العزت کی طرف سے انسان کو فضیلت اور شرف کے جو امتیازات عطا ہوئے ہیں وہ درج ذیل ہیں:

1۔ انسان کو رب العزت کی جانب سے پہلا شرف اور فضیلت علم کی بنیاد پر ہے،جس نے آدمؑ کو فرشتوں میں بھی برتری عطا کردی اور انسان کو مسجودِ ملائکہ بنادیا۔

2۔ فضیلتِ انسانی کی برتری اور اشرف المخلوق ہونے کا دوسرا امتیاز اخلاقیات ہے۔ اخلاق عربی زبان کا لفظ ہے اور لفظ اخلاق؛ خلق کی جمع ہے۔ اچھے اخلاق کو فضائل اخلاق اور برے اخلاق کو رذائل اخلاق کہتے ہیں۔ محمد رسول اللہﷺ نے اپنی بعثت کا مقصد بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا:

انما بعثت لا تمم مکارم الاخلاق.

’’میں صرف اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ اخلاق حسنہ کی تکمیل کروں۔‘‘

یعنی مجھے ایسی تعلیمات کا منبع اور سرچشمہ بناکر بھیجا گیا ہے جو اخلاق حسنہ کی پیروی کی تعلیم سے سرشار ہے۔ قرآن نے محمد مصطفیٰ ﷺ کے اخلاق کو انسانیت کا شرف بنایا اور حضور اقدسﷺکے اخلاق کو نمونہ اخلاق کا کمال قرار دیا۔ ارشاد قرآنی ہے:

وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ.

(القلم، 68: 4)

’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)۔‘‘

3۔ اللہ نے انسان کے شرف اور برتری کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسے زمین پر اپنا نائب مقرر کرکے اسے شرف و امتیاز عطا فرمایا۔

4۔ بلاشبہ خالقِ عظیم کی طرف سے انسان کو آفاقی تعلیم سے سرفراز فرمانا اور صاحبِ تکریم بناکر بھیجنا ایک اعلیٰ انسانی امتیاز ہے۔

5۔ خالقِ کائنات نے انسان کو اشرف المخلوقات بنانے کے لیے اسے متناسب اعتدالی ساخت پر پیدا فرماکر اسے منفرد مقام عطا فرمایا۔

یہ بات قرآنی مطالعہ سے ثابت ہے کہ قرآن کا موضوع حضرت انسان ہے اور تہذیبی معاشرتی اقدار کے تمام سُوتے شرفِ انسانیت سے پھوٹتے ہیں۔ طبقاتی امتیازات اور انسانی برتری کے تمام ممتاز اصول قرآن نے واضح کردیئے ہیں۔ ھبوط آدمؑ یعنی کہ نزول آدم بھی مصلحتِ خداوندی اور حکمتِ الہٰی کا آئینہ دار ہے۔ انسان کو رب کائنات نے اپنی فطرت الہٰیہ کے عین مطابق تخلیق کیا اور اسی کی پیروی اور اطاعت کا حکم دیا ہے۔