زوالِ امت کا بنیادی سبب: اسلاف کے علمی آثار و نقوش سے بے اعتنائی

میں اپنے قارئین کو اسلام کی ابتدائی صدیوں میں لے جانے کی کوشش کروں گا۔ ذرا اک نظر بنو امیہ اور بنو عباس کے خلفا و سلاطین اور ان کے وزراء پر ڈالی جائے اور پھر اس دور کے فقہا، متکلمین، محدثین، ائمہ، مجتہدین کو دیکھا جائے کہ وہ کس طرح ان خلفا و سلاطین کے ارد گرد نظر آتے ہیں اور دوسری طرف ادبا، مؤرخین، اطبا، فلکیات، ریاضیات، جغرافیہ، طبیعیات اور دوسرے علوم و فنون کے ماہرین کس طرح ایک دوسرے سے قریب ہیں اور ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔ ہر کوئی اپنے کام میں لگا ہے لیکن جب وہ اپنے کام سے فارغ ہوجاتا ہے تو اپنا ہاتھ دوسرے کے ہاتھ میں ڈال دیتا ہے۔ فقیہ؛ متکلم سے، محدث؛ طبیب سے، مجتہد؛ ریاضی داں اور فلسفی سے مصافحہ کرتا اور گلے ملتا نظر آتا ہے۔ ان میں سے ہر کوئی دوسرے کو اپنا معاون تصور کرتا ہے۔ اس طرح ہمیں نظر آتا ہے کہ ایک خانۂ علم وفکر میں تمام لوگ بحث و مباحثے میں مشغول ہیں۔

کتنا عجیب منظر ہے۔ حافظ السنۃ امام بخاری؛ عمران بن حطان خارجی کی حدیث صحیح بخاری میں شامل کرتے ہیں۔ جماعت معتزلہ کے سرکروہ عمرو بن عبید؛ تابعین میں سے حسن بصری جیسی شخصیت کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کررہے ہیں۔ ہم نگاہ اٹھاتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ، امام زید بن علی (زیدی شیعہ فرقے کے سربراہ و امام) کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کررہے ہیں اور ان سے اصولِ عقائد و فقہ کی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ ہر شخص کسی مجتہد فیہ اور متنازعہ فیہ مسائل میں دوسرے کی رائے کا احترام کرتا ہے۔ لگتا ہے یہ دونوں ایک ہی گھر سے تعلق رکھتے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے، جیسے یہ سارے لوگ ایک صف میں بیٹھے ہوں۔ ان کا رخ مختلف جہتوں میں ہے لیکن ان کا مقصود ایک ہے اور وہ علم ہے۔ ان میں سے ہر ایک اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ ایک لمحہ کا علمی تفکر ساٹھ سال کی عبادت سے بڑھ کر ہے۔ جیسا کہ بعض احادیث میں وارد ہوا ہے۔

خلفاء دین کے ائمہ اور مسائلِ شریعت میں اجتہادی نظر رکھنے والے ہوتے تھے۔ ان کے ہاتھ میں زمامِ اقتدار ہوتی تھی اور ان کے ماتحتوں میں فوج، فقہا، محدثین، متکلمین اور دوسرے ائمہ و مجتہدین ہوتے تھے ،جو اہلِ دین کے قائد تھے اور خلفاء کے لشکریوں میں سے تھے۔ مذہب اور عقیدے کو اوج اور برتری حاصل تھی۔ تمام اہلِ علم (جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے) ان کی ماتحتی اور نگرانی میں خیروسعادت، خوشحالی اور حریتِ فکر کی دولت سے مالا مال نظر آتے ہیں۔ اس رواداری کا تعلق صرف اپنے مذہب کے لوگوں کے ساتھ ہی نہیں تھا، بلکہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ بھی یکساں طور پر تھا۔ یہ مسامحت او رواداری کا حقیقی منظر تھا۔ مذہب؛ حلم اور کریمانہ اوصاف سے متصف نظر آتا تھا۔ اس منظر کو دیکھ کر سمجھ میں آتا ہے کہ کس طرح دین؛ جدید تہذیب کے ساتھ ہم آہنگ ہوسکتا ہے۔ ان علماء اور حکماء سے حریتِ فکر و نظر کا درس لیا جاسکتا ہے اور عقل و وجدان کے درمیان توافق قائم کیا جاسکتا ہے۔

قارئین اندازہ کرسکتے ہیں کہ اسلامی تہذیب کے دور میں علم و عقل اور مذہب کے درمیان کوئی ٹکراؤ اور کوئی کشمکش نہیں تھی۔ ہاں اتنا ضرور تھا کہ اہلِ علم اور اہلِ دین کے درمیان مختلف امور میں رائے کا اختلاف تھا۔ بالکل اسی طرح جس طرح حریتِ فکر سے متصف افراد ،جنھوں نے تقلید کی زنجیروں کو توڑ دیا ہو، ہوتا ہے۔ ان دونوں فریق کے درمیان چشمک نہیں تھی۔۔۔ کوئی ایک دوسرے کو غلط نام نہیں دیتا تھا۔۔۔ چناں چہ نہ کوئی کسی کو زندیق کہتا تھا، نہ کافر اور نہ بدعتی وغیرہ۔۔۔ نہ کوئی کسی پر اس طرح الزام دے کر اسے اذیت دینے کی کوشش کرتا تھا، ا لاَّ یہ کہ وہ جماعت سے ہی نکل گیاہو اور امنِ عامّہ کو اس سے خلل پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ اگر ایسی صورت ہو تو پھر معاشرے کو اس کے وجود سے اسی طرح صاف کردینے کی کوشش کی جاتی تھی جس طرح ایک شل عضو کودوسرے اعضائے بدن کی سلامتی کے لیے کاٹ کر الگ کردیا جاتا ہے۔

مسلمانوں کی تکفیر و تفسیق کا مرض کب پیدا ہوا؟

مسلمانوں کے اندر دوسروں کو کافر و فاسق اور زندیق و بدعتی کہنے کا مرض کب پیدا ہوا؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ مرض ان کے اندر اس وقت پیدا ہونا شروع ہوا جب ان کی دینی حس کمزور ہوتی چلی گئی۔ جب فتنوں نے سرابھارا اور اہلِ دانش و بصیرت ان کی زد میں آگئے۔ یہ وہ فتنے تھے جن کو اعدائے اسلام مشرق و مغرب میں اس کے اقتدار و سطوت کو کم کرنے کے لیے اٹھا رہے تھے۔ جب اُن لوگوں نے دین کے معاملات میں اپنی رائے دینی شروع کردی جو اس کے اہل نہیں تھے۔۔۔ جن کا مزاج دین کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں تھا۔۔۔ جب مسلمان مسیحیت اور دوسرے مذاہب کی تقلید میں ایسی چیزوں کو بھی دین میں بدعت تصور کرنے لگے۔۔۔ جن کوخود مذہب کی تائید و تقویت کے لیے عمل میں لانا مستحسن تھا۔ اس تعلق سے انھوں نے دین کی اصولی تعلیمات اور اسلاف کے اقوال کو پسِ پشت ڈال دیا اور صرف چیخنے اور نعرہ لگانے والے مدعیانِ علم و بصیرت کی باتوں پر یقین کرنے لگے۔

جب مسلمانوں کے معاملات جاہل لوگوں کے ہاتھوں میں آگئے اور گمراہوں کو رہنماء کا مقام حاصل ہوگیا تو اس مرحلے میں مسلمانوں کے اندر دین میں غلو کا مرض پیدا ہوا اور مختلف جماعتوں کے درمیان آتشِ عداوت بھڑک اٹھی۔ ان میں سے ہر کسی کے لیے جہالت کی بنیاد پر یہ آسان ہوگیا کہ وہ معمولی بنیادوں پر دوسروں کی تکفیر میں کوئی حرج محسوس نہ کرے ۔ جیسے جیسے مسلمانوں میں جہالت کا مرض بڑھتا رہا، دین میں غلو کی کیفیت میں اضافہ ہوتا رہا۔ یہ غلو؛ علم اور فکرونظر میں جو دینِ اسلام کے لوازم ہیں ، سرایت کرگیا۔ اس صورتِ حال میں جو چیز واجب اور فرض کے درجے میں تھی اسے ممنوع اور حرام قرار دے دیا گیا۔

غور کرنے کی بات ہے کہ مسلمانوں میں زندقہ کا لفظ ان کی پڑوسی قوموں کی دین ہے۔ وہ ہرطقہ (heresy) اور ہرطوقی (heretic) کا لفظ استعمال کرتے تھے۔ اگر قارئین یہ سمجھتے ہوں کہ تکفیرِ مسلم کا مظہرمسلمانوں میں دوسری قوموں سے آیا ہے تو وہ غلطی پر نہیں ہیں۔ پھر دوسری قوموں کی خرابیاں جو اس تیزی کے ساتھ مسلمانوں میں در آئی ہیں، اس کی وجہ مسلمانوں میں دینی حس کی کمی نیز دین کے اصول و اقدار سے ناواقفیت ہے۔ یہ بات کسی دلیل کی محتاج نہیں کہ جب طبیعت میں کوئی خرابی پیدا ہوجاتی ہے تو جسم میں مرض بہت تیزی سے پھیلتا چلا جاتا ہے۔

جب مسلمانوں میں دین کا علم پایا جاتا تھا تو وہ کائنات پر نظر رکھنے والے تھے اور دنیا کے امام تھے لیکن جب ان کے اندر دین کے تعلق سے جہالت پھیل گئی تو جیسے ان کا وجود ختم ہوکر رہ گیا اور وہ دنیا کے لیے لقمہ تر بن کر رہ گئے۔ ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں کی دین سے ناواقفیت صرف اس شکل میں سامنے آئی ہو کہ وہ ان لوگوں کی تکفیر کرتے ہیں، جو مسائلِ دین میں ان کے مخالف ہوں یا فلاسفہ کے نظریات کے قائل ہوں یا اسی طرح کی بعض دوسری بنیادیں جن پر وہ دوسروں کی تکفیر کرتے ہوں، بلکہ ان کا جہل انھیں اس حد تک لے گیا کہ ائمہ دین اور کتاب و سنت کے خادمین بھی اس سے محفوظ نہیں رہے۔ چناں چہ امام غزالی کی کتابیں خاص طورپر ’’احیاء علوم الدین‘‘ غرناطہ لے جائی گئیں اور انھیں شارعِ عام پر رکھ کر جلادیا گیا۔ حالاں کہ عرصہ دراز تک اسلامی دنیا ان سے مستفید ہوتی رہی تھی لیکن بربری قوم کے افراد امام غزالی کی تفسیق و تضلیل پر آمادہ ہوگئے۔ان جاہل لوگوں کی پیروی کرنے والے لوگ پیدا ہوتے رہے، جو علما ءو خدّامِ دین کو منہ بھر بھر کر گالیاں دیتے تھے۔ بلاشبہ اس کا گناہ انہی لوگوں کے سر ہے، جنھوں نے اس روایت کی مسلمانوں میں شروعات کی اور ان لوگوں کا گناہ بھی انہی کے سر ہے جو اس شنیع روایت کو فروغ دینے میں مصروف ہیں۔

اسلاف کے علمی آثار و نقوش سے لاپروائی

مسلمانوں نے دین کو پس پشت ڈال دیا اور اقوالِ سلف سے منہ پھیرلیا۔ اکثر اسلامی ممالک میں علومِ دین کے طلبہ کی حالت نہایت ناگفتہ بہ ہے۔ وہ علمِ کلام میں متاخرین کی مختصرات سے کام چلاتے ہیں۔ ذہین و فطین طالب علموں کی بھی یہ حالت ہے کہ وہ محض ان کتابوں کی عبارتوں میں الجھے ہوئے ہیں اور ان کے دلائل کا فہم ان کے بس سے باہر ہے۔ انھیں ان کے دلائل کے مقدمات کی تصحیح اور غلط و صحیح میں تمیز کا شعور نہیں ہے۔۔۔ وہ ان کتابوں کو اس طرح پڑھتے ہیں جیسے وہ خدا یا رسول کا کلام ہو، جس میں کسی بحث و مباحثے کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر ایک شخص کا دوسرے شخص کے ساتھ کسی مسئلے میں بحث ومباحثہ ہوتا ہے تو وہ اس کے جواب میں بس اتنا ہی کہہ دینا کافی سمجھتا ہے کہ مصنف یا شارح نے ایسا ہی لکھا ہے۔ خواہ مصنف یا شارح کا متعلقہ قول متفق علیہ نہ ہو۔ بلکہ بسا اوقات اس طرح کا قول محض ایک مصنف کی اپنی انفرادی رائے ہوتی ہے اور چاہے اس کا علمی درجہ یہ ہو کہ علمائے اسلاف اسے اپنا شاگرد بنانے پر بھی رضا مند نہ ہوں۔

شام، حجاز، تیونس اور الجزائر میں دینی علوم کا بازار سرد پڑا ہوا ہے۔ مغرب اقصیٰ میں اس کی سرگرمی نہایت محدود ہے۔ بس صرف بعض صحرائی ممالک میں کسی قدر اس کا اہتمام پایا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یا تو طریقۂ تعلیم کی مشکلات ہیں۔۔۔ یا اس میں بڑی مدت صرف ہوتی ہے۔۔۔ یا لوگوں کی اپنی ضروریات اس سے مانع ہیں کہ وہ ایسی چیزوں میں اپنی عمریں گنوائیں جن کا کچھ بھی حاصل نہیں ہے۔۔۔ یا اس کی وجہ یہ ہے کہ بچوں کے والدین مغربی طرز پر اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ یا ایسے اسکولوں میں انھیں پڑھانا چاہتے ہیں جہاں دینی تعلیم عنقا ہے۔۔۔ یا اگر دینی تعلیم کے نام پر وہاں کچھ ہے بھی تو اس کی حیثیت محض ہاتھی کے دانت کی ہے۔۔۔ یا پھر اس کی وجہ تقلید و جمود کی روش ہے،جس نے ان کی ہمتیں پست کردی ہیں۔ اس لیے دین سے بے خبری لوگوں میں عام ہے۔ انھیں ہر طرف سے بدعات و خرافات نے گھیر رکھا ہے۔سلف صالحین سے ان کا رشتہ تقریباً منقطع ہوچکا ہے۔

اسلام کے داعی

یہ سوال اہم ہے کہ کیا مسلمانوں کے درمیان حقیقی اور مخلص داعی ابھر کر سامنے آئے، جو صحیح دین کے واقف کار ہوں کہ مسلمان ان کی بات کو ماننے اور ان کے سامنے سرتسلیم خم کریں؟ جس طرح یورپ کے ملکوں میں مسیحی مبشرین پیدا ہوئے اور انھوں نے اپنی قوم کے اندر بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی، کیا اس طرح کی کوششیں مسلم ملکوں میں ہوسکیں؟ اس کا جواب ہے: نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ مختلف زمانوں میں متفرق طور پر سچے اور مخلص لوگ پیدا ہوتے رہے، لیکن ایسے لوگوں کی تعداد ایک صدی میں چار پانچ سے زیادہ نہ تھی۔ یہ لوگ اپنے طور پر اللہ کے نام پر کام شروع کردیتے تھے۔ وہ گفتار کے نہیں بلکہ کردار کے غازی ہوتے تھے۔ پھر لوگ ان کے گرد جمع ہونا شروع ہوجاتے تھے ۔پھر ان لوگوں اور ان کی پیروی کرنے والوں کی دل کی دنیا بدلنی شروع ہوجاتی تھی۔

بعض لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ یہ دعویٰ کیوں کر سکتے ہیں کہ مسلمانوں کے اندر علم و دین کے میدان میں کام کرنے والے لوگ کم ہیں، جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ مصر و شام کی فضاؤں میں ان کا غلغلہ نظرآتا ہے؟ ہر شخص ’’میرا دین، میری ملت، اسلام، مسلمان، قرآن و سنت، اسلام کی عظمتِ رفتہ، سلفِ صالحین ، تعلیم و تعلم، کتب قدیمہ و کتب جدیدہ‘‘ کے الفاظ استعمال کرتا نظر آتا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان علم کے داعی اور دین کے خادموں کی کمی نہیں ہے۔ عوام بھی ان لوگوں کی آواز پر کان لگاتے ہیں اور ان کی اتباع کرتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ان میں سچے اور مخلص لوگ زیادہ نہیں ہیں۔ ان میں مخلصین سے زیادہ تاجرین ہیں جو ان الفاظ و کلمات کی تجارت کرتے ہیں، تاکہ اس کے ذریعہ وہ اپنی جیبیں بھر سکیں۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ وہ ان الفاظ کو دہراتے ضرور ہیں، لیکن ان کے معانی و مطالب اور تقاضوں کی طرف کم ہی ان کی توجہ مبذول ہوتی ہے۔ ایک شخص دوسرے سے اس طرح کے الفاظ اچک لیتا ہے لیکن ان کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ تاہم ان میں بعض مخلصین بھی ہیں اور وہ صحیح آوازوں پر کان دھرنے اور دین و دنیا کے مصالح کے حصول کی فکر کرنے لگے ہیں۔ ایسے لوگ خاص طور پر ہندوستان میں اور روس کے علاقوں میں پائے جاتے ہیں لیکن اصلاح کوئی ہوا کی مانند نہیں ہے کہ وہ مشرق سے مغرب تک زمین کو چھوتی چلی جائے۔ اس کے لیے وقت درکار ہے اور ہمیں آنے والے وقت کاانتظار کرنا چاہیے۔

علومِ دین میں رسوخ سے محرومی کیوں؟

آخر کیا بات ہے کہ مسلمان علومِ دین میں رسوخ پیدا کرنے سے قاصر ہیں۔۔۔؟ اسی طرح آخر کیا وجہ ہے کہ وہ تکوینِ ثروت اور کسبِ مال کے فن اور قوت و عزت کے حصول میں دوسری قوموں کے مقابلے میں پیچھے ہیں۔۔۔؟ میں اس حوالے سے یہ کہوں گا کہ انھوں نے خود کو تقدیر کے حوالے کردیا ہے کہ وہ اسے جہاں چاہے، لے جائے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا داری کے دلدل میں ان کے پاؤں دھنسے ہوئے ہیں۔ پھر عجیب بات ہے کہ نہ تو صحیح طور پر انھیں دنیا حاصل ہوپائی ہے اور نہ ہی دین۔

میں ایسے شخص سے کہنا چاہوں گا کہ مقلد اس شخص سے جس کی وہ تقلید کرتا ہے، ہمیشہ زیادہ بدترین حالت میں ہوتا ہے۔ تقلید کرنے والا اس شخص یا قوم کی جس کی وہ تقلید کررہا ہوتا ہے، اس کے صرف ظاہر کو دیکھتا ہے اور اس کے باطن اور اس کی خفیہ صلاحیتوں کو دیکھنے کی کوشش نہیں کرتا۔ اس لیے مسلمان ان لوگوں یا قوموں کے مقابلے میں جن کی تقلید کے مرض میں وہ مبتلا ہیں، زیادہ المناک اور تاسف انگیز حالت میں پہنچ گئے ۔ تقلید کی بنیاد پر انھوں نے مزید ایسی چیزیں دین کے اندر داخل کردیں جن کا دین متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ اس طرح وہ ایک طرح کے گردابِ شر میں پھنس کر رہ گئے۔ وہ ایک جہت میں کوشش کرتے ہیں، انھیں ناکامی ہاتھ آتی ہے تو پھر اسے چھوڑ کر دوسری جہت میں کوششیں کرنے لگتے ہیں۔ پھر اس میں تھک کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اخیر میں ان کے لیے یہ چیلنج ہوتا ہے کہ یاتو وہ صحیح راستے پر گامزن ہوں یا خود کو موت کے حوالے کردیں۔

جب مسلمانوں میں علم وفکر کی قوت زندہ تھی تو ان کے پاس دو آنکھیں ہوا کرتی تھیں: ایک آنکھ سے وہ دنیا کو اور دوسری آنکھ سے آخرت کو دیکھتے تھے لیکن جب انھوں نے دوسری قوموں کی تقلید شروع کی تو انھوں نے اپنی ایک آنکھ بند لی اور دوسری آنکھ کو باہر کے خس وخاشاک سے بھرلیا۔ اس طرح ان کے دونوں مقصود ان کے ہاتھ سے نکل گئے۔ اب جب تک وہ بند آنکھ کو نہ کھولیں اور گرد سے اٹی آنکھ کو صاف نہ کریں، اس وقت تک وہ اپنے مقصود کو دوبارہ حاصل نہیں کرسکتے۔

( ماخوذ از: اسلام دین العلم والمدنیۃ، مفتی محمد عبدہ)