فرمانِ الٰہی و فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

فرمان الہٰی

سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰـرَکْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰـتِنَاط اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ. وَاٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ وَجَعَلْنٰهُ هُدًی لِّبَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ اَلاَّ تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَکِیْلاً. ذُرِّیَّـةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍط اِنَّهٗ کَانَ عَبْدًا شَکُوْرًا.

بنی اسرائیل، 17: 1تا3

’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصے میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂِ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔ اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب (تورات) عطا کی اور ہم نے اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنایا (اور انہیں حکم دیا) کہ تم میرے سوا کسی کو کارساز نہ ٹھہراؤ۔ (اے) ان لوگوں کی اولاد جنہیں ہم نے نوح (علیہ السلام) کے ساتھ (کشتی میں) اٹھا لیا تھا، بے شک نوح (علیہ السلام) بڑے شکر گزار بندے تھے۔‘

(ترجمه عرفان القرآن)

فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

حَتْی جَاءَ سِدْرَةُ الْمُنْتَهٰی دَنٰی الْجَبَّارِ رَبُّ الْعِزَّةِ فَتَدَلّٰی حَتّٰی کَانَ مِنْهٗ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی.

’یہاں تک کہ آپ سدرۃ المنتہٰی پر آگئے، رب العزت اپنی شان کے لائق بہت ہی قریب ہوا یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔‘

صحیح البخاری، 3: 1130، کتاب التوحید، رقم: 7079

عَنْ جَابِرْ بِنْ عَبْدُاللّٰه قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلُ اللّٰه یَقُوْلُ: کَمَا کَذَّبْنِیْ قُرَیْشَ قُمْتُ فِیْ الْحِجِرْ فَجَلَّی اللّٰهُ لِیْ بِیْتُ الْمُقْدِسَ، فَطَفَقْتُ اَخْبَرُهُمْ عَنْ اٰیَاتِهٖ وَاَنَا اُنْظُرْ الیهِ.

’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب قریش نے میری (معراج کی) تکذیب کی اس وقت میں حجر اسود کے پاس تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس میری نظروں میں عیاں کردیا اور میں اسے دیکھ دیکھ کر اس کی تمام نشانیاں قریش کو بتانے لگا۔‘

صحیح البخاری، 3: 684، التفسیر، رقم: 4433