نفس انسانی کی اخلاقی تربیت کا نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طریق

آمنہ افضل

دنیا میں اخلاقیات کے بڑے بڑے معلم پیدا ہوئے ہیں اور سب نے اخلاقیات پر عمل کرنے کی دعوت دی ہے۔ تمام مذاہب کی بنیاد بھی اخلاق حسنہ پر رکھی گئی ہے۔ دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر تشریف لائے سب نے اس بات کا اعادہ کیا کہ سچ بولنا اچھا عمل ہے اور جھوٹ بولنا برائی ہے۔ انصاف بھلائی ہے اور ظلم بدی ہے، خیرات نیکی ہے اورچوری جرم ہے، بخل عیب ہے۔ دوسرے کے کام آنا ایسی عادت ہے جو اللہ کے لیے پسندیدہ ہے اور حق تلفی کرنا اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ عمل ہے۔

تصوف کو آقا علیہ السلام نے اپنی زبان میں احسان فرمایا: احسان تصوف ہے اور احسان کا لفظ حسن سے ہے اور حسن کا معنیٰ ہے خوبصورتی، اچھائی یعنی احسان کا معنی کسی کے ساتھ بھلائی کرنا، اچھے اخلاق سے پیش آنا۔ اسی طرح ایمان امن سے ہے جس سے دلوں، جسموں، ذہنوں کو امن ملے وہ ایمان والا ہے اور جس سے عزت کو سلامتی ملے وہ اسلام والا ہے۔ اگر کسی کے اعمال، زندگی، اخلاق اور باتوں میں حسن ملے، اس کی مجلس میں بیٹھ کر اخلاق کا حسن آئے، عبادت میں حسن نظر آئے، ہر چیز کا حسن ملے تو گویا وہ احسان والا ہے۔ تصوف سارا حسن اخلاق کا نام ہے۔ حدیث مبارکہ میں ارشاد ہے:

عن مالک انه قد بلغه ان رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم: قال بعث لاتمم مکارم الاخلاق.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ کو یہ بات پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ اچھے اخلاق کی تکمیل کروں۔‘‘

(امام مالک، الموطا، رقم الحدیث: 1723)

بے شک آخر الزمان اچھے اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں تمام امت مسلمہ بڑے، چھوٹے، نوجوان، بچے سب کے لیے اخلاق کا نمونہ پیش کیا۔

فضائل اخلاق

اسلام کے نقطہ نگا ہ سے اخلاق کی دو اقسام ہیں۔ وہ اخلاق جن کو اللہ پسند فرماتا ہے، فضائل اخلاق کہلاتے ہیں اور وہ تمام کام جن کو اللہ ناپسند فرماتا ہے رذائل اخلاق کہلاتے ہیں۔ دین و دنیا کی سب سے بڑی نعمت محبت ہے اور لازوال محبت کے حصول کا بہترین ذریعہ حسن اخلاق ہے۔

وہ اعمال جو فضائل اعمال کہلاتے ہیں وہ درج ذیل ہیں:

  1. صدق
  2. وفائے عہد
  3. صبر
  4. عفو در گزر
  5. شکر
  6. احسان
  7. رحم
  8. حیاء
  9. ایثار
  10. امانت و دیانت
  11. اخوت و بھائی چارہ

صدق

صدق کے معنیٰ ہیں سچ بولنا۔ صدق سب نیکیوں کی جڑ ہے اور نیت سے اخلاقی خوبیوں کی بنیاد ہے۔ حضرت عبد اللہ مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

سچائی آدمی کو نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی بہشت کی طرف لے جاتی ہے اور آدمی سچ بولتے بولتے آخر کار سچا لکھا جاتا ہے اور جھوٹ بدکاری کی طرف لے جاتا ہے اور بدکاری جہنم کی طرف لے جاتی ہے اور آدمی جھوٹ بولتے بولتے اللہ کے ہاں جھوٹا لکھ لیا جاتا ہے۔

(بخاری، الصحیح، رقم الحدیث: 6094)

صبر

صبرکے لغوی معنیٰ ہیں: روکنا۔ یعنی اپنے نفس کو گھبراہٹ سے روکنا اور اس کو اپنی جگہ ثابت قدم رکھنا۔

احادیث اور آثار سے ثابت ہے کہ ایمان کے دو حصے ہیں نصف شکر اور نصف صبر۔ ان دونوں سے بے خبری کا مطلب ہے کہ ایمان سے محروم ہونا۔ صبر کا وصف اللہ تعالیٰ کی صفت بھی ہے اور صبر سے دوری کا مطلب اللہ کی صفت سے غافل ہونا بھی ہے۔ حضرت امام بخاری روایت کرتے ہیں کہ حدیث قدسی میں آتا ہے کہ:

میرے اس مومن بندے کی جزاء جنت کے سواء اور کیا ہے کہ جس کا پیارا اس دنیا سے اٹھا لیا اور اس نے ثواب کی امید پر صبر کیا۔

(بخاری، الصحیح، رقم الحدیث: 438)

احسان

احسان حسن سے مشتق ہے جس کے معنی خوبی اور خوبصورتی کے ہیں۔ احسان اچھی معاشرتی زندگی کا سرچشمہ ہے۔ عدل معاشرے میں برائیوں کو ختم کرتا ہے تو احسان اس میں خوشگواریاں پیدا کرتا ہے۔ احسان سے انسان میں محبت اور نرمی پیدا ہوتی ہے اور معاشرے میں امن قائم ہوتا ہے۔

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ایسے نہ بنو کہ اپنی عقل سے کام نہ لو اور دوسروں کی دیکھا دیکھی کام کرو اور کہنے لگو کہ اگر لوگ احسان کریں گے تو ہم بھی کریں گے اور اگر ظلم کریں گے تو ہم بھی کریں گے۔ بلکہ اپنے آپ کو اس پر مطمئن کر لو کہ اگر دوسرے احسان کریں تو تم بھی احسان کرو گے بلکہ اگر وہ برائی بھی کریں تو تم ظلم نہ کرو۔

(ترمذی، السنن، رقم الحدیث: 2007)

حیاء

حیاء کے معنیٰ ہیں شرم، لحاظ کرنا، حجاب وغیرہ۔

اسلامی نقطہ نگاہ سے حیاء انسان کا وہ فطری وصف ہے جس سے بہت سی اخلاقی خوبیاں پیدا ہوتی ہیں۔ حیاء انسان کو بھلائیوں کی طرف لے جاتی ہے اور برائیوں سے روکتی ہے۔ انسان کے اندر حیاء جتنی زیادہ ہو گی اتنے ہی زیادہ نیک اعمال وہ کرے گا اور حیاء جتنی کم ہو گی اتنے ہی اس سے برے اعمال سرزد ہوں گے۔ حدیث پاک میں ارشاد ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

الحیاء من الایمان.

حیاء ایمان میں داخل ہے۔

بخاری، الصحیح، رقم الحدیث: 24

امانت و دیانت

امانت و دیانت کا مطلب ہے ایمانداری۔ آپ کے لین دین کے معاملوں میں جو اخلاقی صفت مرکزی حیثیت رکھتاہے وہ امانت و دیانت داری ہی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان کا جس پر جتنا حق ہو اس کو پوری دیانت سے ادا کرے۔

حدیث مبارکہ میں امانت میں خیانت کرنے والوں کو منافق قرار دیا ہے۔

حضرت ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے اور جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھیں تو خیانت کرے۔

بخاری، الصحیح، رقم الحدیث: 33

ایفائے عہد

ایفائے عہد زبان اور عمل کی سچائی کا نام ہے۔ ایفائے عہد کے معنیٰ ہیں وعدہ پورا کرنا انسان کے باہمی تعلقات میں عہد کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ ہمارے اکثر معاملات کی بنیاد عہد پر ہوتی ہے۔ اگر وعدوں کی خلاف ورزی شروع ہو جائے تو سارے معاملات بگڑ جاتے ہیں۔ اسی لیے ہمارا مذہب اسلام عہد کی پاسداری کا حکم دیتا ہے۔ حدیث میں بھی عہد کو پورا کرنے اور عہد شکنی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت عمر بن عبد اللہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

قیامت کے دن عہد شکنی کرنے والے کا جھنڈا نصب کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔

(بخاری، الصحیح، رقم الحدیث: 6177)

عفو و درگزر

عفو کے معنی ہیں کسی کی غلطی معاف کردینا۔ دین کی اصطلاح میں عفو سے مراد ہے کہ ظلم و زیادتی کا بدلہ لینے کی طاقت اور قدرت رکھتے ہوئے انتقام نہ لینا اور چھوڑ دینا۔

حدیث مبارکہ میں بھی عفو ودرگزر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حدیث میں ارشاد ہوتا ہے:

اور اللہ تعالیٰ اس شخص کی عزت بڑھا دیتا ہے جو عفو سے کام لیتا ہے۔

(بخاری، الصحیح، رقم الحدیث: 2038)

رحم

مکارم اخلاق میں رحم کو بلند مقام حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اپنی صفات رحمن اور رحیم ہیں۔ رحم کا لفظ بھی انہی سے نکلا ہے۔ اللہ تعالیٰ خود رحم کرنے والا مہربان اور رحم کو پسند فرمانے والا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رحم کے متعلق ارشاد فرمایا:

من لا یرحم لا یرحم.

جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا اس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا۔

(بخاری، الصحیح، رقم الحدیث: 6013)

مسلمان سب ملکر ایک دوسرے پر رحم کرنے، دوستی رکھنے اور مہربانی برتنے میں ایک جسم کی طرح ہیں۔ جسم میں ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو سارے اعضاء کو چین نہیں ملتا، سارا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے۔

ایثار

ایثار کا معنیٰ ہے کہ دوسروں کی ضرورتوں کو اپنی ذات پر مقدم رکھاجائے۔ سخاوت اور بخل کے بہت سے درجات ہیں اور سخاوت کے دو درجات میں سے سب سے بڑا درجہ ایثار کا ہے۔ ایثار کرنے والا اپنی ضرورت ہونے کے باوجود دوسرے کی ضرورت کو مقدم سمجھتا ہے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:

نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصار کو بلایا اور ملک بحرین بطور جاگیر دینا چاہا انہوں نے کہا ہم تو اس وقت تک نہ لیں گے جب تک ہمارے بھائی مہاجرین کو بھی ایسا ہی نہ دے دیں۔

(بخاری، الصحیح، رقم الحدیث: 980)

اخلاق حسنہ کا درس دنیا کے ہر مذہب نے دیا ہے مگر اسلام کے فضائل اخلاق زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتے ہیں، ایک خلق کی کڑی دوسرے خلق سے ملتی ہے اور زندگی کے ہر شعبہ کو خواہ معاش ہو یا معاشرتی، اقتصادی ہو یا سیاسی ہر شعبہ کو خوشگوار بناتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کامل حسن اخلاق تھی اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔

اچھے اخلاق انسانی وقار کا باعث بنتے ہیں اور انسان کی عزت بڑھاتے ہیں۔ اچھے اخلاق سے ہمیشہ انسانوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ اخلاق انسانوں کو انسانوں، جانوروں اور تمام مخلوق کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ اچھے اخلاق کی تمام تر تعلیمات حدیث قدسی میں انسانی رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔

رذائل اخلاق

رذائل کے معنی ہیں بری عادتیں، ناپسندیدہ عادات اور برے اخلاق، رذائل اخلاق سے افراداور معاشروں کو روحانی اور مادی نقصانات پہنچتے ہیں اور معاشرے تباہ ہو جاتے ہیں اگر کسی قوم میں یہ عام ہو جائیں تو اس قوم کو برباد کر دیتے ہیں۔

جس طرح انسان کے اندر حسن اخلاق ہے اسی طرح بد اخلاقی انسانیت اور کائنات کو برباد کرنے والی ہے اور مادی اور روحانی امراض کا سرچشمہ ہے۔

وہ رذائل اخلاق جن کو اللہ تعالیٰ اور اس کا حبیب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناپسند کرتا ہے اور ان سے بچنے کا حکم اللہ نے اپنے بندوں کو دیا ہے وہ درج ذیل ہیں:

  • جھوٹ
  • حسد
  • غیبت
  • چغل خوری
  • خیانت
  • بدگمانی
  • فحش گوئی
  • غرور
  • ریاکاری
  • غیظ و غضب
  • حرص و طمع

جھوٹ

انسان کے سارے اخلاق میں سب سے زیادہ بری اور مذموم عادت جھوٹ کی ہے۔ امر واقع کے خلاف کسی قول و فعل کو جھوٹ کہتے ہیں۔جھوٹ خواہ زبان سے بولا جائے یا عمل سے ظاہر کیا جائے یہ بری عادت ہے۔ ہمارے تمام اعمال کی بنیاد اس پر ہے کہ وہ واقع کہ مطابق ہوں اور جھوٹ اس کی ضد ہے کیونکہ یہ برائی کی ہر قسم کی قومی اور عملی برائیوں کی جڑ ہے۔ احادیث میں جھوٹ سے اجتناب کی بہت تاکید کی گئی ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لَّعْنَتَ ﷲِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ.

’’جھوٹوں پر اﷲ کی لعنت بھیجتے ہیں۔‘‘

(آل عمران، 3: 61)

غیبت

غیبت سے مراد کسی کو پیٹھ پیچھے برا بھلا کہنا ہے کسی کی عدم موجودگی میں ایسی بات کہنا کہ اگر وہی بات اس کے سامنے کی جائے تو وہ اس کا برا محسوس کرے۔

حضرت ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

غیبت یہ ہے کہ تمہارا اپنے بھائی کی اس چیز کا ذکر کرنا جو وہ ناپسند کرے۔ اگر وہ عیب اس میں موجود ہو تو یہ اس کی غیبت ہے اور اگر یہ عیب اس میں موجود نہیں تو بہتان ہے۔

(ابوداؤد، السنن، رقم الحدیث: 4878)

خیانت

اگر کسی کے پاس امانت رکھی جائے تو اس کے ادا کرنے یا واپس کرنے میں ایمانداری نہ برتنا خیانت کہلاتا ہے۔ اگر کوئی شخص دوسرے شخص کو اپنا بھید بھی بھروسہ کر کے بتا دے اور وہ شخص یہ بھید کھول دے تو یہ بھی خیانت ہے۔ اسی طرح اگر کوئی کام بھی کسی کے سپرد ہوا اور وہ اس کو دیانت داری سے انجام نہ دے تو یہ بھی خیانت ہے۔ دل اور زبان سے متضاد افعال کا کرنا بھی خیانت ہے۔ اسلام کی اخلاقی شریعت میں یہ ساری خیانتیں یکساں ممنوع ہیں۔ حضرت ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

منافق کی تین نشانیوں ہیں، جب بات کہے تو جھوٹ کہے اور جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھیں تو خیانت کر ے۔

(بخاری، الصحیح، رقم الحدیث: 33)

تکبر

شرعی لحاظ سے اپنے آپ کو برتر اور اعلیٰ تصور کرنا اور دوسروں کو حقیر سمجھنا تکبر کہلاتا ہے۔ انسان میں تکبر کا پایا جانا اللہ تعالیٰ کی شان کبریائی کے منافی ہے۔ یہ انتہائی قابل مذمت خصلت ہے۔

غرور و تکبر بدترین اخلاقی مرض ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام رذائل اخلاق کی بنیاد یہ ہے۔ اس لیے احادیث میں بھی اس کی مذمت آئی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

جس شخص کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔

(ابوداؤد، السنن، رقم الحدیث: 6024)

حسد

کسی آدمی کے فضل و کمالات کو دیکھ کر رنجیدہ ہونا اور پھر ان کمالات کے ختم ہونے کی خواہش کرنا حسد کہلاتا ہے۔ یہ بھی ان اخلاقی امراض میں سے ایک مرض ہے جس کی آگ کی تپش سے انسان کی عقل اور دل سب کچھ بھسم ہوتا ہے۔

حضرت ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

آپس میں حسد نہ کرو اور ایک دوسرے سے روگردانی نہ کرو نہ باہم بغض رکھو اور نہ ناطہ توڑو اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ۔

(بخاری، الصحیح، رقم الحدیث: 6064)

ریاکاری

ریاکاری کا مطلب ہے دکھاوا۔ اللہ کی عبادت اور اطاعت کا اصل مقصد تو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہے تاکہ جو بندگی بھی کی جائے اس سے اللہ تعالیٰ راضی ہو اگر اس مقصد میں دکھاوا کی نیت ہو تو یہ عمل ضائع ہو جاتا ہے اسی لیے صوفیاء کرام نے اللہ کی بندگی اور اطاعت میں ریا کو بہت بڑا گناہ قرار دیا ہے۔

حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

بے شک اللہ تمھاری صورتوں اور اموال کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمھارے قلوب اور تمھارے اعمال کی طرف دیکھتا ہے۔

(مسلم، الصحیح، رقم الحدیث: 6418)

حرص و طمع

طمع سے مراد لالچ ہے۔ طمع برے اخلاق میں سے ایک ہے اور اس سے بہت سی برائیاں جنم لیتی ہیں۔جو انسان لالچ کرتا ہے ایک تو حلال و حرام کی تمیز چھوڑ دیتا ہے دنیا کی ہر چیز خصوصاً مال کو فروخت سے زیادہ حاصل کرنے کی خواہش رکھنے کا نام لالچ ہے۔ حرص و لالچ انسان کو بے شمار مشکلات میں مبتلا کر دیتی ہے۔ حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اگر ابن آدم کے لیے مال کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری وادی کو تلاش کرے گا اور ابن آدم کے پیٹ کو صرف مٹی ہی بھر سکتی ہے اور جو شخص توبہ کرے اللہ اس کی توبہ قبول فرمائے گا۔

(بخاری، الصحیح، رقم الحدیث: 6436)

رذائل اخلاق وہ برے اعمال ہیں جو معاشرے کو نقصان پہنچاتے ہیں اور افراد معاشرہ میں اتحاد و یکجہتی کو کمزوری کرتے ہیں۔ اسی لیے اسلام ان کو ناپسند کرتا ہے اور ان سے باز رہنے کی تاکید کرتاہے۔ رذائل اخلاق معاشروں اور قوموں کو برباد کر دیتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ نفس انسانی کا بگاڑ بنتے ہیں۔ انہی رذائل اخلاق کی وجہ سے انسانی نفس اخلاقیات سے دور ہوتا چلا جا رہاہے۔ اور اخلاقی قدروں کو پامال کیا جا رہا ہے۔ اخلاقیات کسی بھی معاشرے کی بنیاد ہوتی ہیں۔ اخلاقیات تربیت کی بنیاد ہوتی ہے۔ اور اگر اخلاقیات نہ رہے تو انسان حیوان بن جاتا ہے۔

رذائل اخلاق انسان کی شخصیت کو مسخ کرتے ہیں ہیں۔ یہ دین کی نگاہ میں حرام ہیں اسی لیے ہر مذہب اور معاشرے نے بھی اسے ناپسند کیا ہے۔ اگر ان کاموں کو جائز قرار دے دیا جائے تو باہمی حقوق ختم ہو جائیں گے اور کسی کی جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ نہ رہے گی۔ اسی لیے ان سے بچنے کی تلقین فرمائی گئی ہے تاکہ نفس انسانی کی اخلاقی تربیت بآسانی ہو سکے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز میں جو دعا مانگا کرتے تھے ان میں یہ جملہ بھی ہوا کرتے تھے:

اے میرے اللہ! تو مجھ کو بہتر سے بہتر اخلاق کی رہنمائی کر، تیرے سوا کوئی بہتر سے بہتر اخلاق کی راہ نہیں دکھا سکتا اور برے اخلاق کو مجھ سے پھرا دے اور ان کو سوائے تیرے کوئی نہیں پھیر سکتا۔

(عظمی، احسان و تصوف، ص 52)

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اچھے اخلاق کی دعا کرتے اور برے اخلاق سے بچنے کی دعا کرتے بے شک آپ پوری امت کے لیے سرچشمہ ہدایت اورسرا پہ خلق عظیم تھے۔

ان احادیث کی روشنی سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نفس انسانی نہ صرف پوری امت مسلمہ کی کس طرح تربیت کی اور ان کو رزائل اور فضائل اخلاق کی تربیت سے نوازا۔

اللہ تعالیٰ انسانی نفس کو فضائل اخلاق پر عمل کرنے اور رزائل اخلاق سے دور رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔