شیخ الاسلام کا نظریہ اعتدال و توازن

ڈاکٹر شفاقت علی البغدادی الازہری

اسلام اعتدال و توازن اور فطرت و وسطیت کا دین ہے۔ شریعت اسلامیہ اور اس کی جملہ تعلیمات متعدل و متوازن ہیں۔ امت مسلمہ سے عقیدہ و فکر ہو یا عمل ہو ہر سطح پر اعتدال توازن اور تناسب کا مطالبہ و تقاضا کیا گیا ہے چونکہ یہ امر اسلامی معاشرے کی خاصیات میں شمار ہوتا ہے۔

اعتدال اور وسطیت سے مراد ہے وہ امور جن میں افراط و تفریط نہ ہو۔ جو روح اور جسم کے مابین متوازن ہو۔ بلاشک و شبہ وسطیت منہج اسلامی کے اہم اوصاف میں سے میں شمار ہوتی ہے۔ امت مسلمہ امت وسط اور صراط مستقیم امت ہے جو اپنی تمام مساعی و قدرات افراط و تفریط، تربیتی و ثقافتی اور علمی تعمیر و ترقی کو پروان چڑھانے میں صرف کرتی ہے۔

اسی بنا پر اللہ رب العزت نے امت مسلمہ کو امت وسط قرار دیا ہے:

اللہ رب العزت نے فرمایا:

وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَکُونُواْ شُهَدَاءَ عَلَی النَّاسِ.

اور (اے مسلمانو!) اسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو۔

(البقرة، 2: 143)

اللہ تعالیٰ نے وسطیت کی تعلیم عطا فرمائی۔

حضور نبی اکرم ﷺ نے امت محمدی کو اپنی روز مرہ کی زندگی عبادات و معاملات میں اعتدال کا نظریہ عطا فرمایا بلکہ آپ نے انسانی زندگی کے جملہ امور میں توازن و اعتدال کی اہمیت کو صراحت کے ساتھ یوں بیان فرما دیا ہے۔ ارشاد فرمایا:

خیر الامور أوسطها.

بہترین امور وہ ہیں جن میں میانہ روی ہے۔

اللہ رب العزت نے عبادات میں اعتدال کو برقرار رکھنے کا امر دیا ہے، جیسے کہ دوران نماز اپنی آواز میں بلندی اور پستی میں اعتدال کا حکم دیا ہے۔

وَلاَ تَجْهَرْ بِصَلاَتِکَ وَلاَ تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذَلِکَ سَبِیلاً.

اور نہ اپنی نماز (میں قرات) بلند آواز سے کریں اور نہ بالکل آہستہ پڑھیں اور دونوں کے درمیان (معتدل) راستہ اختیار فرمائیں۔

(بنی اسرائیل: 110)

عبادت میں میانہ روی رکھنا بھی تعلیم اسلام کا اہم باب ہے لہذا حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ما احسن القصد فی العبادة.

عبادت میں میانہ روی کتنی اچھی ہے۔

(کنز العمال)

اسی طرح اللہ کی راہ میں بھی خرچ کرنے میں اعتدال کی تعلیم ہے اور بے اعتدالی و عدم اعتدال کو سخت ناپسند کیا گیا ہے اس لیے کہ ظلم وتشدد، افراط و تفریط، غلو، عدم مساوات وسطیت شریعت اسلامیہ کے خلاف اور منافی ہے۔ اسی لیے خرچ کرنے اور انفاق میں اعتدال اور میانہ روی کا حکم فرمایا گیا ہے:

اللہ رب العزت نے فرمایا:

وَلاَ تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُولَةً إِلَی عُنُقِکَ وَلاَ تَبْسُطْهَا کُلَّ الْبَسْطِ.

اور نہ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھا ہوا رکھو (کہ کسی کو کچھ نہ دو) اور نہ ہی اسے سارا کا سارا کھول دو (کہ سب کچھ ہی دے ڈالو)۔

(اسراء: 29)

اگر ہم اپنے زمانے میں احوال الناس پر غور و فکر کریں تومعلوم ہوتا ہے کہ اس دورمیں ہر شعبہ حیات میں امت مسلمہ کی تباہی اور بے سروسامانی کا سب سے اہم سبب عدم توازن اور بے اعتدالی ہے۔ مذہب ہو یا معاشرت ہر طرف بے اعتدالی و عدم تناسب کے بادل چھائے ہوئے تھے۔

شیخ الاسلام نے اس نقصان اور ضرر کے خاتمے کے لیے شبانہ روز جدوجہد اور مساعی سر انجام دیں۔ مذہب ہو یا معاشرت سیاست حتی کہ حیات انسانی کے ہر میدان میں توازن کو برقرار کرنے کی آپ کی کاوشیں نتیجہ خیز ثابت ہوئیں۔

آ پ عالم باعمل، دوراندیش اور اپنے زمانے کے احوال پر گہری اور عمیق نظر رکھتے ہیں۔ آپ نے دین ِ اسلام کی خدمت مختلف میدانوں میں سر انجام دی ہے۔ تربیت و تعلیمی امتزاج آپ کی تعلیمات کا امتیاز ہے۔ جدت و دوراندیشی آپ کی شخصیت کے دو نمایاں پہلو ہیں۔ تدبر و تفکر،حکیمانہ اسلوب ِ دعوت آپ کا خاصہ ہے۔ اسی طرح آداب گفتگو، شستہ انداز تخاطب، جدید علوم اور قدیم کے امتزاج میں میانہ روی کو فروغ دینے بلکہ آپ نے دینی و اخلاقی اقدار کو پروان چڑھانے، اسلامی فکر و آئیڈیالوجی کی صحیح تعبیر پیش کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔

دور حاضر میں امت مسلمہ کو اکثر محاذوں پر چیلنجز اور تحدیات درپیش تھیں، علمی و فکری محاذ پر تعصب و شدت، تفرقہ پرستی، افراط و تفریط اور غلو زیادہ نمایاں عناصر تھے۔ امت مسلمہ کا شیرازہ بکھر چکا تھا، ایک مسلمان اپنے ہی مسلمان بھائی کا دشمن نظر آتا تھا۔

انتہا پسندی اور دہشت گردی کے گہرے بادل ہر طرف چھائے تھے، جہالت عام نظر آتی تھی۔ دین کی صحیح تعبیر مفقود ہوگئی تھی، حق گوئی چھپ چکی تھی، دین فروشی عام تھی، مختلف مسالک اور گروہوں کے مابین ایک جنگ جاری تھی۔ شیخ الاسلام کا نظریہ یہ ہے کہ دین اسلام نے عقیدہ و عمل، تعلیم و تربیت، خدمت دین کے تصور اور سوچ و فکر میں الغرض ہر شعبہ ہائے زندگی میں اعتدال و توازن کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس ضمن میں آپ کے طرز عمل کا جائزہ ذیل میں پیش خدمت ہے:

عقیدہ و عمل میں میں اعتدال

دور حاضر میں فردکو عقیدہ اعمال و افعال میں افراط و تفریط کا عنصر واضح طور پر شامل ہوچکا تھا، کچھ طبقات عقیدہ میں مضبوط اور عمل میں پہلو تہی برتتے تھے۔ شیخ الإسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے ایسا مضبوط اور پختہ منہج اختیار کیا کہ عقیدہ و عمل کو جمع کیا۔ عقیدہ و عمل کے مابین افراط و تفریط کے ظواہر کو ختم کرنے میں اہم کاوشیں سر انجام دیں۔

خدمت دین میں تصور اعتدال

شیخ الاسلام نے خدمت دین کے تصور میں موجود بے اعتدالی اور عدم توازن کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آپ کے زمانہ میں مسلکی و علاقائی بنیاد وں پر کام ہو رہا تھا بعض دینی جماعتیں مسلک پروری اور گروہی مفادات کے تحفظ میں مصروف عمل تھیں جس کی وجہ سے معاشروں میں نزاع و جھگڑے، طعن و تشنیع کا نہ ختم ہونے والا طویل سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ خدمت دین کا حقیقی تصور ہمارے معاشرے میں کمزور ہو چکا تھا۔ کچھ طبقات اور گروہ اپنی جماعت اور مسلک کی ترویج کو ہی خدمت گردانتے تھے اور دوسرے مسلک و گروہوں کے افراد کے ساتھ باہم میل جول، گفت و شنید اور اتحاد و اتفاق تو دور کی بات بلکہ ان کو کافر و غیر مسلم ثابت کرنے میں ساری قوت صرف ہو رہی تھی۔ فکری جمود نے معاشرے کو اپنے چنگل میں لے رکھا تھا۔ شیخ الاسلام نے اپنے معتدل طرز عمل، متوازن رویہ اور حکیمانہ پالیسی کے ذریعے اس فکری جمود کو توڑنے میں مساعی جلیلہ پیش کیں دین کے وسیع تصور کو پیش کیا۔ علمی و عملی اور فکری و تربیتی سطح پر آپ نے دین کے صحیح اور حقیقی تصور کو پیش کیا۔

بعض طبقات دین کے ایک پہلو پر کاوشیں مرکوز کیے ہوئے تھے انسانی زندگی کے دیگر شعبوں سے اس کا کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا تھا۔ چنانچہ معاشرے کی سیاسی و اقتصادی، سماجی و معاشرتی، تہذیبی و ثقافتی اور فکر و عملی زندگی کے ساتھ اس کا تعلق دور تک نظر نہ آتا تھا۔ شیخ الاسلام نے دینی زندگی کا جامع تصور دیا اور اس عدم تناسب کی صورت کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔دین کو زندگی کے ہر شعبہ میں قابل عمل اور اس کی تعلیمات میں موجود تصور اعتدال کو اجاگر کیا۔

تعلیم و تربیت

انسانی معاشرے کی تعمیر و ترقی میں ایسے تعلیمی ادارے بنیادی کردار ادا کرتے ہیں جو بیک وقت تعلیم اور تربیت کا انتظام و انصرام کرتے ہیں بدقسمتی سے ہماے تعلیمی نظام و نصاب میں اس گوشے کو مکمل طور پر اوجھل رکھا گیا ہے۔ ہمیں اپنے معاشرے میں ایسے ادارے نظر آتے ہیں جو ماڈرن تعلیم تو دیتے ہیں لیکن جدت و ماڈرنزم کے نام پر دینی اقدار، اخلاقی اور تربیتی امور سے بے بہرہ افراد تیار کر رہے ہیں۔ دوسری طرف ماضی قریب میں کثیر ایسے تعلیمی ادارے نظر آتے ہیں جن میں دینی علوم تو پڑھائے جا رہے ہیں لیکن عصر علوم سے طلبہ مکمل طور پر لاعلم نظر آتے ہیں ان اسباب کی بنا پر معاشرے میں افراط و تفریط پیدا ہوا رہا ہے شیخ الاسلام نے جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے ساتھ ساتھ ملکی، بین الاقوامی سطح پر ہزاروں تعلیمی مراکز قائم کیے۔ جن میں آپ نے ایسا متعدل تعلیمی نظام متعارف جو عصریت و قدیمیت کا حسین مرقع ہے جہاں پر متعدل و باوقار افراد کی تیاری ہو رہی ہے۔

سوچ و فکر میں اعتدال

معاشرتی و سماجی زندگی میں سوچ و فکر میں اعتدال کا ہونا بہت ضروری ہے۔ سوچ و فکر میں اعتدال سے ہی تحمل و برداشت کا ملکہ پیدا ہوتا ہے۔ حضور شیخ الاسلام کی سوچ میں نہ صرف وسعت ہے بلکہ آپ کی معتدل افکار کے مالک ہیں۔ موجودہ زمانے میں مختلف مکاتب فکر میں اس چیز کی کمی نے انتشار و افراتفری کی راہ کو ہموار کیا ہے۔ لیکن اس کے برعکس آپ نے ہمیشہ مسلکی و گروہی تعصب سے بالاتر ہو ہر ایک کو اپنے ساتھ شانہ بشانہ ساتھ چلنے کی دعوت دی۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک منہاج القرآن کے پلیٹ فارم پر تما م مکاتب فکر یکجا صورت میں نظر آتے ہیں۔ اس ضمن میں آپ نے کثیر علمی ورثہ عطا فرمایا۔

خوش طبعی میں اعتدال

انسان کے اندر جہاں دوسرے امور میں اعتدال ہونا ضروری ہے وہاں پر مزاج میں اعتدال بھی انسان کی شخصیت کو نکھارنے کا سبب بنتا ہے۔ خوش طبعی اور مزاح فطرتا ہر شخص کے موجود ہوتا ہے۔ اسلام قطعاً ایسے طرز حیات کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا کہ انسان خشک طبیعت بن کر ہر وقت دوسرے سے سختی اور کرختگی سے پیش آتا رہے۔ اسلام میں تو کسی دوسرے مسلمان کی طرف مسکرا کر دیکھنا بھی صدقہ ہے۔ لیکن دوسری طرف بے جا ہنسی مزاق کی بھی ممانعت کی گئی اور ہروقت کے ہنسے کو دل کے مردہ ہوجانے کا سبب قرار دیا۔ چنانچہ حضور شیخ الاسلام کی طبیعت اور مزاج میں اس حد تک ہے کہ آپ اپنی نجی مجالس میں ہلکا پھلکا ہنسی مزاق بھی فرماتے ہیں۔ آپ کی مجلس میں بیٹھنے والے کبھی بھی بوریت محسوس نہیں کرتے۔ اکثر اوقات آپ دوست احباب سے خوش طبعی فرماتے ہیں۔ لیکن آپ نے اعتدال اور میانہ روی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا کہ کسی دوسرے کو آپ کی بات سے دکھ پہنچے۔

کھانے پینے میں اعتدال

ہر شخص کو زندگی کی بقا اور صحت کے حصول کے لیے کھانے پینے کی ضرورت و حاجت درپیش رہتی ہے۔ لیکن اسلام نے کھانے پینے میں بھی اعتدال اور میانہ روی کا حکم دیا۔ حد سے زیادہ کھانا انسان کی صحت کے لیے نہ صرف مضر ہے بلکہ خلاف سنت بھی ہے۔ ہمارے لیے حضور علیہ السلام کا طرز عمل نمونہ ہے۔ آپ ﷺ کی غذا سادہ اور متعدل تھی ۔اگر ہم شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی زندگی کو دیکھیں تو آپ کھانے پینے میں حد درجہ احتیاط برتتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ہمیشہ کھانے پینے میں اعتدال رکھنے کی تعلیم دیتے ہیں۔

الغرض اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کو استقامت و اعتدال کا حکم دیا ہے اور غلو و انحلال سے منع فرمایا ہے۔ شریعت اسلامیہ انتہا پسندی اور تعصب کو رد فرماتی ہے اور مختلف ثقافتی و دینی صورتوں کا احترام کرتی ہے۔ اسلام نے زندگی کے ہر شعبہ میں اعتدال و توازن کو برقرار رکھنے اور اس پر چلنے کی تعلیمات عطا فرمائیں ہیں کیونکہ اعتدال و توازن دین اسلام کی خاصیت ہے۔