عمرِ رفتہ اور عروجِ شیخ الاسلام

مسز فریدہ سجاد

سلسلہ تعلیمات اسلام کے چودھویں پراجیکٹ بعنوان ’’عمر رسیدہ افراد کے مسائل اور ان کا حل‘‘ کے موضوع پر کام کے دوران کئی کُتب کی ورق گردانی، سروے اور ریسرچ مجھے اس نتیجے پر لے آئی کہ انسان کے جسمانی قویٰ مرورِ زمانہ کے ساتھ مضمحل ہوتے جاتے ہیں۔ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانی صلاحیتوں پر کمزوری غالب آنے لگتی اور یادداشت کمزور ہونے لگتی ہے۔ مصروفیات محدود ہونے کی وجہ سے تنہائی کا شکار انسانی ذہن پریشانیوں اور اندیشہ ہائے دور دراز کی آماج گاہ بن جاتا ہے، جس سے انسان میں بعض اوقات مردہ دلی، مایوسی اور نااُمیدی بھی جنم لیتی ہے۔

انسان کی ذہنی اور جسمانی زوال پذیری کی حقیقت ایک خلش بن کر میرے قلب و ذہن کے نہاں خانوں میں گردش کرتی رہی۔ اسی ادھیڑ بن میں اچانک میری سوچ کا دھارا 70 سالہ ایک عظیم شخصیت کی طرف چلا گیا، تو میں ورطۂ حیرت میں مبتلا ہوگئی کہ عروج سے زوال کا یہ اصول اس عظیم شخصیت پر صادق ہی نہیں آتا، بلکہ فضلِ الٰہی سے گزرتی عمر اس پیکرِ انسانی کی ظاہری و باطنی شخصیت پر زوال کے بجائے مزید نکھار اور عروج لا رہی ہے۔ یوں 19 فروری 2021ء قائد ڈے کے موقع پر ’’عمرِ رفتہ اور شیخ الاسلام کا عروج‘‘ میرے آرٹیکل کا عنوان بنا۔ راقمہ زیرِ نظر آرٹیکل میں چند ایسی علامات مثلاً نصب العین کے حصول کی لگن، ظاہری اور باطنی حسن، مضبوط قوتِ ارادی، قوتِ حافظہ اور قوتِ استعداد میں بتدریج کمی کا تذکرہ کرے گی کہ جن کے ظاہر ہونے سے ایک عام انسان کا عروج سے زوال کی طرف سفر شروع ہوتا ہے، جب کہ شیخ الاسلام کی شخصیت عمر گزرنے کے ساتھ زوال کی بجائے جانبِ عروج محوِ پرواز ہے۔

1۔ نصب العین کے حصول کی لگن

اِنسان کی زندگی میں کامیابی کا معیار اُس کے طے کردہ مقصد اور نصب العین کا حصول ہے کہ وہ اس کے حصول میں کس قدر کام یاب ہوا ہے۔ ہر انسان اپنی زندگی کے عالمِ شباب میں تو اس مقصد کے حصول میں جان توڑ کوشش کرتا ہے، لیکن بالعموم عمر ڈھلنے کے ساتھ اس کا مقصد حیات اور نصب العین کے حصول کا جذبہ مفقود ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کی قدرتی وجہ عمر بڑھنے کے ساتھ ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں میں کمی کا آنا اور زندگی کے تلخ حقائق اور مشکلات کا ادراک ہوتا ہے لیکن شیخ الاسلام کی شخصیت پر طائرانہ نظر ڈالنے سے یہ حیرت انگیز انکشاف ہوتا ہے کہ اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ، سیرت مصطفوی ﷺ سے مستنیر آپ کا مقصدِ حیات اور نصب العین کے حصول کا جذبہ روزِ اَوّل کی طرح آج بھی اُسی طرح قائم و دائم ہے۔

شیخ الاسلام نے اپنی زندگی کا جو مطمعِ نظر اور نصب العین اپنے سامنے رکھا، وہ قرآن و سنت کے افکار کی اتباع پر مبنی فروغِ علم و شعور، اِصلاح اَحوالِ اُمت اور ترویج و اِشاعتِ اِسلام پر مشتمل تھا۔

قرآنی تعلیمات کی روشنی میں شیخ الاسلام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ وعدہ کیا تھا کہ میں جس مقصد کے لیے جیوں گا اور مروں گا اور جسے میں اپنا نصب العین سمجھوں گا وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور حضور نبی اکرم ﷺ کی توجہات اور عنایات کے طفیل اپنی زندگی میں ایسی جد و جہد کرنا ہے کہ جس سے اِسلام کی عظمتِ رفتہ بحال ہو، اَخلاقی و روحانی اَقدار کا اِحیاء ہو جائے، فکری اور نظریاتی افکار کا جمود ٹوٹ جائے۔

عموماً رسیدگی کے ساتھ انسان کے اعلیٰ مقاصد اور عزائم کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں، جب کہ شیخ الاسلام کی زندگی میں ان کا نصب العین وقت کے ساتھ ساتھ مزید واضح، مستحکم اور مؤثر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ آپ اپنے علم و عمل سے اسلام کا حقیقی پیامبر بن کر اپنے اس وعدہ کو پورا کرنے میں سرگرمِ عمل ہیں اور پوری دنیا شاہد ہے کہ کس طرح آپ نے اسلامی تعلیمات کی جدید، متوازن، مثبت، پُرامن اور جمہوری تعبیر کی اور اسلام کی اعتدال پر مبنی فکر کو چہار دانگِ عالم پہنچا رہے ہیں۔

2۔ ظاہری اور باطنی حسن

انسان کے پاس ظاہری اور باطنی حسن کا ہونا اللہ کا خاص فضل ہے۔ ظاہری حسن کا تعلق انسانی شخصیت یا چہرے کے نقش و نگار سے ہوتا ہے جب کہ باطنی حسن کا تعلق انسانی کردار، فضائل، عادات و اطوار اور اس کی فطرت سے ہوتا ہے۔ عمر ڈھلنے کے ساتھ خوبصورت، حسین، وجیہ، خوش نما اور بارعب چہروں کا ظاہری حسن ماند پڑ جاتا ہے اور ان کی خوبصورتی ڈھلتی چلی جاتی ہے۔ تاہم باطنی حسن ہمیشہ انسانی شخصیت کا خاصا رہتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جب شیخ الاسلام کی طلسماتی شخصیت پر نظر دوڑائی جائے تو وقت اور عمر ڈھلنے کے ساتھ ساتھ آپ کے باطنی حسن کی طرح آپ کا ظاہری حسن بھی زوال پذیری کی بجائے عروج کی جانب گام زن نظر آتا ہے اور یہ آپ پر اللہ کا خاص فضل و کرم ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

ذٰلِکَ فَضْلُ اللهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ.

یہ اللہ کافضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔

(المائدة: 5: 45)

اس سلسلہ میں 24 فروری 2012ء کو معروف ادیب و تجزیہ نگار حسن نثار نے شیخ الاسلام کے بارے میں اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے آپ کی خوبصورتی کا تجزیہ بڑے حسین پیرائے میں کیا ہے، جو کہ نذرِ قارئین ہے:

’’میں اکثر اپنے دوستوں کے ساتھ یہ بات کرتا ہوں کہ ہم نے سوشل میڈیا کے ذریعے صرف پاکستان کے ہی نہیں، بلکہ پوری دنیا کے حسین ترین لوگ دیکھے ہیں۔ جن کے چہرے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بجھ جاتے اور معدوم ہو جاتے ہیں۔ کتنا ہی بڑا handsome آدمی کیوں نہ ہو اور اسے اللہ تعالیٰ نے لمبی عمر بھی دی ہو مگر وہ ایک خاص عمر کے بعد پہچانا نہیں جاتا، اس کی خوبصورتی متاثر ہو جاتی ہے اور ہر ایک پر یہ بات اب تک میں نے بالکل fit بیٹھے دیکھی ہے۔ لیکن ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا بڑا ہی rare phenomenon ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بتدریج ان کے چہرے پر زیادہ خوبصورتی، زیادہ ملاحت، زیادہ نکھار اور زیادہ حسن آیا ہے اور یہ لاکھوں، کروڑوں لوگوں میں بہت rare کوئی ایک آدمی ہی ایسا ہوتا ہے کہ جس کو وقت مدہم نہیں کرتا بلکہ اسے جِلا بخشتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کی وجہ ڈاکٹر صاحب کا 18، 18 گھنٹے خدمتِ دین کا کام کرنا ہے۔‘‘

3۔ قوتِ اِرادی

قوت اِرادی دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو ودیعت کی گئی ایک معجزاتی قوت ہے۔ جو انسان اپنی اس کرشمہ ساز قوت کو بتدریج develope اور improve کرکے کسی کام کو کرنے کا عزمِ مصمم کر لیتا ہے، وہ اللہ کی توفیقِ خاص سے کامیابی کی راہ پر گام زن ہو جاتا ہے۔ یہ توفیقِ خاص اُسی کو ملتی ہے جو بارگاہِ اِلٰہی میں منتخب کیا جا چکا ہوتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اَللهُ یَجْتَبِیْٓ اِلَیْهِ مَنْ یَّشَآءُ.

اللہ جسے (خود) چاہتا ہے اپنے حضور میں (قربِ خاص کے لیے) منتخب فرما لیتا ہے۔

(الشوری، 42: 13)

عصرِ حاضر میں شیخ الاسلام کی شخصیت پر یہ بات صادق نظر آتی ہے کہ آپ کو خدمتِ دین کے اہم فریضہ کے لیے نہ صرف چنا گیا ہے بلکہ آپ کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل کے لیے آپ کو تمام ذہنی، فکری، عملی اور روحانی استعداد ودیعت کی گئی ہیں۔ اس مقدس فریضہ حیات کی احسن طریقے سے انجام دہی کے لیے آپ کو کردار کی تمام اَعلیٰ و ممتاز خصوصیات کے ساتھ ساتھ بہترین قوتِ ارادی سے بھی نوازا گیا ہے۔ اگرچہ آپ کو قرآنی تعلیمات اور حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرتِ طیبہ سے اپنی جد و جہد میں نتیجہ خیزی کا یقینِ کامل میسر ہے، لیکن عہدِ پُرآشوب کے نامساعد اور کٹھن ترین حالات میں بھی کبھی آپ کے پایۂ استقلال میں کوئی لغزش نہیں آئی۔

شیخ الاسلام کی 70 سالہ زندگی کا بغور جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ تجدید و اِحیاء دین کی جد و جہد میں آپ کو بہت سی مشکلات، مزاحمتوں اور جان لیوا تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا۔ کسی نے اپنی مذہبی سیادت کی بقاء کے لیے، کسی نے اپنی نام نہاد انقلابی راہ بَری کے لیے، کسی نے اپنی فرقہ وارانہ سرداری کے لیے، کسی نے مسلکی صدارت کے لیے اور کسی نے اپنی ناکام فکری قیادت کے تحفظ کے لیے آپ کی قیادت کے نقوش مٹانے کی بھرپور کوشش کی۔ اسی سلسلہ میں آپ کی کردار کشی کی بڑے منظم اور مربوط انداز میں مہم چلائی گئی، طعن و تشنیع کے تیر برسائے گئے، عیب جوئی کے نئے نئے حربے تلاش کیے گئے اور اس مقصد کے لیے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں بے پناہ وسائل جھونک دئیے گئے۔ مگر مخالفین اور شرپسند عناصر کی تمام تر کاوشیں اور مخالفتیں بے سود ثابت ہوئیں۔ بے جا مخالفت کی آندھیاں آپ کے راستے کی نہ تو رکاوٹ بنیں اور نہ ہی مخاصمت کے طوفان۔ بلکہ آپ نے درپیش مشکلات، مزاحمتوں اور جان لیوا تکالیف کا جس عزم اور حوصلہ کے ساتھ سامنا کیا، وہ آپ کی بے مثال قوتِ اِرادی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

4۔ قوتِ حافظہ

غیر معمولی شخصیات حیرت انگیز ذہانت و فطانت کے ساتھ ساتھ اَعلیٰ قوتِ حافظہ کی بھی مالک ہوتی ہیں۔ شیخ الاسلام کی یہ صلاحیت بھی اوائل عمری سے ہی نمایاں ہے۔ بچپن میں آپ جو بھی مطالعہ کرتے یا کسی کتاب پر ایک نگاہ ہی ڈال لیتے تو وہ سب کچھ آپ کی لوحِ ذہن پر مرتسم ہو جاتا۔ شیخ الاسلام کی مثالی یادداشت کا عالم یہ ہے کہ بسا اوقات ایک ایک خطاب میں قرآن مجید، احادیثِ نبویہ اور دیگر کتب کے بیسیوں حوالہ جات زبانی بیان کر دیتے ہیں۔

راقمہ کا یہ مشاہدہ رہا ہے کہ آج سے کم و بیش 24 سال قبل آپ کے لیکچرز بعنوان ’’دروس الشفاء‘‘ میں کئی بار شیخ الاسلام نے ایسے حوالہ جات دیے جو انہوں نے اپنے زمانہ طالب علمی میں پڑھے تھے۔ اسی طرح آپ کی قوتِ حافظہ سے متعلق بیسیوں واقعات ایسے ہیں جن کا عینی مشاہدہ خواص اور عام کر چکے ہیں اور وہ برملا اس کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن آپ کی اس خصوصیت کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ فطری طور پر جہاں لوگوں کی قوتِ حافظہ عمر ڈھلنے کے ساتھ ساتھ زوال پذیر ہوتی چلی جاتی ہے، وہاں شیخ الاسلام کی قوتِ حافظہ عمرِ رفتہ کے باوجود بھی عروج پر نظر آتی ہے۔ ایسے ہی حیرت انگیز دو واقعات پیش کیے جارہے ہیں:

1۔ محمد فاروق رانا (ڈائریکٹر FMRi) نے شیخ الاسلام کی قوتِ حافظہ کے بارے میں ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے بتایا:

جولائی 2006ء کے اَواخر میں ہونے والے سہ روزہ ’’دورہ صحیح البخاری‘‘ کے خطاب سے قبل رات تین بجے شیخ الاسلام نے برمنگھم سے فون پر یہ ہدایات فرمائیں کہ القادریہ 299 کے اسٹڈی روم میں ایک کتاب ’’بغیۃ الرائد فی شرح العقائد‘‘ موجود ہے، جس کا مطالعہ انہوں نے بچپن میں پڑھی جانے والی ابتدائی کتب میں کیا تھا۔ اس میں فلاں فلاں صفحہ پر یہ یہ حوالہ جات موجود ہیں۔ لہٰذا کتاب کے متعلقہ صفحات اسکین کروا کر فوری طور پر بذریعہ ای میل برمنگھم بھیج دیے جائیں۔ تعمیلِ اِرشاد میں اُسی وقت القادریہ ہاؤس کے اسٹڈی روم کے ذخیرہ کتب کو کھنگال کر یہ کتاب حاصل کی گئی، تو حیرت کی انتہا نہ رہی کہ آپ نے فون کال میں جن جن صفحات کی طرف اشارہ فرمایا تھا، من و عن اُنہی صفحات پر متعلقہ حوالہ جات موجود تھے۔ اِسے ہم کرامت بھی کہہ سکتے ہیں لیکن درحقیقت یہ آپ کی قوتِ حافظہ، کتاب کے ساتھ پختہ تعلق اور بے پناہ محبت کی غماز اَن گنت مثالوں میں سے ایک ہے۔

2۔ اسی طرح محررہ کی شیخ الاسلام کی قوتِ حافظہ سے متعلق آپ کے پرسنل ریسرچ اسسٹنٹ محمد ضیاء الحق رازی صاحب سے 14 جنوری 2021ء کو گفت و شنید ہوئی، جس پر انہوں نے 2 یا 3 جنوری 2021ء کو کینیڈا میں رُونما ہونے والا واقعہ کچھ یوں بیان کیا:

’’میں شیخ الاسلام کی صحبت میں تھا اور حضور نبی اکرم ﷺ کے موئے مبارک کے مقدس تذکرے سے قلوب و اَذہان کو منوّر کرکے ذوقِ ایمانی کی تسکین کا ساماں ہو رہا تھا۔ دورانِ گفت گو شیخ الاسلام نے آج سے 50 یا 55 سال قبل اپنے زیرِ مطالعہ کتاب سے پڑھا گیا وہ واقعہ بیان فرمایا، جو حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی کتاب ’’اَنفاس العارفین‘‘ کے صفحہ 40 اور 41 پر درج تھا۔ آپ نے مجھے فرمایا کہ اس واقعہ کا حوالہ اصل کتاب سے confirm کر لیں۔ میں نے فوری طور پر لاہور میں محمد فاروق رانا صاحب سے رابطہ کیا کہ فریدِ ملّت رِیسرچ اِنسٹی ٹیوٹ (FMRi) میں مکتبہ فریدیہ قادریہ کی کتاب ’’اَنفاس العارفین‘‘ کے صفحہ 40 اور 41 کو اسکین کر کے بجھوائیں۔ اِس اِثناء میں، میں نے انٹرنیٹ سے کتاب کا فارسی version بھی download کرکے اس کا مطلوبہ صفحہ دیکھ لیا۔ انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کی گئی کتاب کے متعلقہ صفحات اور FMRi سے موصولہ اسکین شدہ صفحات کو دیکھنے کے بعد میری حیرت کی کوئی اِنتہا نہ رہی کہ کتاب کے صفحہ نمبر 40 اور 41 پر وہ پورا واقعہ من و عن ویسے ہی درج تھا جیسا کہ شیخ الاسلام نے بیان فرمایا تھا۔ واقعہ کچھ یوں ہے:

’’شاہ ولی اللہ محدث دیلوی ؒکے والد گرامی شیخ عبد الرحیمؒ کو ایک دفعہ طویل بخار ہو گیا اور وہ اپنی زندگی سے مایوس ہو گئے۔ دورانِ بیماری آپ پر غنودگی طاری ہوگئی اور اسی غنودگی میں ان کے بزرگ یعنی شیخ عبد الرحیمؒ صاحب کے شیخ عبد العزیزؒ تشریف لائے اور فرمایا کہ بیٹے! آقا علیہ الصلاۃ والسلام آپ کی بیمار پُرسی کے لیے تشریف لائیں گے۔ تو حضرت شاہ عبد الرحیمؒ جو بیماری کی حالت میں بول نہیں سکتے تھے، اسی وقت آپ نے اپنے قریبی رفقاء کو اشارہ کیا کہ میری چارپائی کا رُخ اس طرح کر دیں کہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام جب تشریف لائیں تو میرے پاؤں آقا علیہ الصلاۃ والسلام کی طرف نہ ہوں اور انہوں نے دیکھا کہ خواب میں اسی وقت آقا علیہ الصلاۃ والسلام تشریف لے آئے۔

’’آقا علیہ الصلاۃ و السلام نے آکر پوچھا کہ اے بیٹے! تم کیسے ہو؟ تو اس وقت مجھ پر درد و اضطراب اور آہ و بکا کی عجیب سی کیفیت طاری ہو گئی اور آقا علیہ الصلاۃ و السلام نے اس انداز میں مجھے اپنی بغل میں لے لیا کہ آپ ﷺ کی داڑھی مبارک میرے سر پر تھی اور آپ ﷺ کا جُبہ مبارک میرے آنسوؤں سے تر ہو گیا۔ اس وقت میرے دل میں یہ خیال آیا کہ ایک مدت سے موئے مبارک کے حصول کے لیے آرزو کرتا رہا ہوں۔ کیا ہی کرم ہو کہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام اپنے موئے مبارک عنایت فرما دیں۔ ابھی یہ خیال آیا ہی تھا کہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنی داڑھی مبارک پر ہاتھ پھیر کر دو موئے مبارک میرے ہاتھ میں تھما دیے۔ پھر میرے دل میں خیال آیا کہ جب میں بیدار ہوں گا تو کیا یہ میرے پاس رہیں گے یا نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ دونوں موئے مبارک عالم ہوش یا بیداری میں بھی آپ کے پاس ہی رہیں گے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے صحتِ کلی اور طویل عمری کی خوش خبری سنائی۔

’’شیخ عبد الرحیمؒ فرماتے ہیں کہ جب میں اُٹھا تو میں نے دیکھا کہ دونوں موئے مبارک موجود نہیں تھے۔ میں پریشانی کے عالم میں بارگاہ الٰہی کی طرف متوجہ ہوا تو پھر ہاتفِ غیبی سے آواز آئی کہ اے بیٹے! پریشان کیوں ہوتے ہو؟ وہ دونوں موئے مبارک تمہارے تکیے کے نیچے ہیں، وہاں سے لے لو۔ فرماتے ہیں کہ جب میں صبح اُٹھا تو وہ دونوں موئے مبارک میرے تکیے کے نیچے موجود تھے۔ میرا بخار بھی اتر چکا تھا اور جو مجھ پر نقاہت اور ضعف کی کیفیت تھی وہ بھی ختم ہو چکی تھی۔

’’محترم ضیاء الحق رازی کہتے ہیں کہ اس واقعہ کو پڑھنے کے بعد میں حیران تھا کہ اس وقت شیخ الاسلام کی زندگی کے 70 برس بیت چکے ہیں اور قوتِ حافظہ کا عالم یہ ہے کہ آپ کو ابھی بھی حوالہ جات اُسی طرح اَزبر ہیں جیسے چند دن قبل کسی کتاب کا مطالعہ کیا ہو۔‘‘

5۔ قوتِ اِستعداد

یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ انسان کی عمر ڈھلنے کے ساتھ ساتھ اُس کی قوتِ استعداد اور سکت بھی کم ہونا شروع ہو جاتی ہے کیونکہ عمر بڑھنے سے دماغ اور جسم کے درمیان مطابقت پیدا کرنے والے نیورون سست رفتار ہو جاتے ہیں۔ جس سے جسم اور ذہن کے درمیان معلومات کا تبادلہ سست روی کا شکار ہو جاتا ہے اور انسان بڑھاپے میں زیادہ دیر تک اپنی کارکردگی جاری نہیں رکھ پاتا، لیکن شیخ الاسلام کی قوتِ استعداد کو دیکھا جائے تو وہ اب بھی درجۂ کمال کو چھوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

راقمہ تقریباً 22 سالوں سے شیخ الاسلام کے خطابات سن رہی اور کتب کا مطالعہ کر رہی ہے اور مجھ سے قبل بھی جو افراد آپ کے خطابات تاحال سن رہے ہیں اور آپ کی تصانیف کا مطالعہ کر رہے ہیں، وہ میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ آج 70 سال کی عمر میں بھی آپ کئی کئی گھنٹے سلاست و روانی سے بلا توقف خطاب فرماتے ہیں اور آپ کی گفتگو کی معنویت و جامعیت، منطقی ربط و تسلسل، پُراثر الفاظ کا چناؤ، فصاحت و بلاغت، پرکشش لب و لہجہ اور افہام و ابلاغ میں ذرہ برابر بھی کمی دیکھنے میں نہیں آئی اور ہر طبقہ ہائے فکر کے لوگ آپ کے خطابات سے بیک وقت مستفید ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی مشاہدہ میں آئی ہے کہ آپ کے خطاب کرنے کی قوتِ استعداد کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ رہی ہے۔ قارئین و قارئیات اس کا اندازہ درج ذیل گراف سے لگا سکتے ہیں کہ زندگی کی چھٹی اور ساتویں دہائی میں بھی آپ نے کتنی زیادہ تعداد میں لیکچرز اور دروس و خطبات دیے ہیں۔

یہ حقیقت بھی بہت دل چسپ ہے کہ ایک ہی نشست میں سات سات، آٹھ آٹھ گھنٹے طویل محققہ خطابات بھی اِنہی دو دہائیوں میں ہوئے ہیں۔ نیز یہ گراف صرف ریکارڈڈ اور ریلیز شدہ خطابات کا ہے۔ ریکارڈ نہ ہونے والے لیکچرز اور مجالس ان کے علاوہ ہیں۔

معزز قارئین! جس طرح عمر ڈھلنے کے باوجود شیخ الاسلام کی قوتِ گویائی بڑھ رہی ہے، اسی طرح آپ کی ذہنی قوتِ استعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ آپ کی قوتِ استعداد کا عالم یہ ہے کہ آپ سے آج بھی اس عمر میں کوئی بھی کسی بھی موضوع پر سوال کر دے تو آپ اس موضوع کی اتنی جہات کھول دیتے ہیں کہ گویا ایک پوری کتاب کا سیر حاصل خلاصہ پوچھنے والے کے سامنے بیان ہو جائے۔

اِس کا سبب آپ نے 8 مئی 2011ء کو تسلیم صابری صاحب کے ساتھ ایک انٹرویو میں یوں بیان فرمایا:

’’میری عادت ہے کہ میں تحریک منہاج القرآن کے دعوتی، تبلیغی اور تنظیمی دورہ جات کے لیے دنیا بھر میں جہاں بھی سفر کرتا ہوں، ہر ملک میں دو تین دن کے قیام کے دوران میں ایک پورا دن، کم و بیش 12 گھنٹے صرف کُتب خانوں، لائبریریز اور book Centres کے لیے وقف کرتا ہوں۔‘‘

شیخ الاسلام کا اوڑھنا، بچھونا تجدیدی، علمی اور تحقیقی کام ہے۔ ہر طرح کی مصروفیات اور مسائل اور علالت کے باوجود اب تک آپ کی شہرہ آفاق 600 سے زائد تصانیف اردو، عربی اور انگلش میں زیورِ طبع سے آراستہ ہو کر منظرِ عام پر آچکی ہیں اور آپ کی درجنوں تصانیف کا دنیا کی اکثر زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ 400 سے زائد مسودات طباعت کے مختلف مراحل میں ہیں۔ مشاہدہ میں یہ بات بھی آئی ہے کہ شیخ الاسلام کے لکھنے کی رفتار پہلے سے زیادہ ہے۔ قارئین اس کا اندازہ درج ذیل گراف سے لگا سکتے ہیں۔

معزز قارئین! شیخ الاسلام کی شخصیت کے بے شمار قابلِ ذکر پہلو ہیں، جن میں سے صرف چند ایک پر ہی اظہارِ خیال کر سکی ہوں۔ اس کا سبب میری اپنی تنگ دامنی ہے، وگرنہ آپ کی شخصیت ایسا بحر ہے جو جواہر سے بھرا پڑا ہے۔ جو کوئی جس قدر غوطہ زنی کرتا ہے اُسی قدر اَسرار و معارف سے فیض یاب ہوتا ہے۔ بلاشبہ یہ سب آپ پر اللہ تعالیٰ کی خاص عنایات اور حضور نبی اکرم ﷺ کے اِنعامات ہیں۔

ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ