قرآن و سنت کی روشنی میں خواتین کی تربیت

سُمیَّہ اسلام

خواتین کو درپیش مشکلات کا حل، ان کی پسماندگی کا خاتمہ اور انہیں ان کا حقیقی معاشرتی مقام و مرتبہ دوبارہ واپس لانے کا مسئلہ جتنا اہم ہے اس قدر وہ نہایت ہی گہرا اور نازک بھی ہے۔ اس ضمن میں معمولی سی لاپرواہی یا اسے سادہ و آسان سمجھنا ایک ناقابل تلافی نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ موجودہ انسانی معاشروں میں عورتوں کے بڑھتے ہوئے مسائل کی اصل وجہ ان کے بارے میں مذہبی ثقافت کے سانچے میں ڈھلے ہوئے صحیح اور حقیقی تفکر کا فقدان ہے اور ان مشکلات کا مشترک سبب ایک فکری بحران ہے، عورت کی شخصیت کی پہچان ایک شعور بھی ہے اور تفکر و معرفت کا ایک ذریعہ بھی۔ قرآن و حدیث کی نظر میں عورت وہ افضل و برتر وجود ہے جو خود کو بھی اور پورے معاشرے کو بھی سعادت اور نیک نامی کے ساتھ ساتھ عظمت و نیک بختی کی راہ پر گامزن کرسکتی ہے۔ قرآن کی نگاہ میں یہ عورت ہی ہے جو براہ راست اپنی موجودگی سے بیوی کے شایانِ شان کردار اور بچوں کی صحیح تربیت کے ذریعے انسانیت کے مستقبل کی سمت کے تعین میں سنگ میل ثابت ہوسکتی ہے۔

قرآن مجید نے عورت کو ذلت و رسوائی کی پستیوں سے نکال کر عزت و احترام کا وہ بلند مقام بخشا جو اس کی اصل اور فطرت کے عین مطابق ہے۔ احکام دین کی بجا آوری میں اجر و ثواب کے اعتبار سے مرد و عورت کی کوئی شرط نہ رکھی، کوئی حد یا میدان مقرر نہ کیا کیونکہ دونوں کے ساتھ کامیابی اور جنت کا وعدہ ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:

وَمَن یَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِن ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَی وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُوْلَـئِکَ یَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ.

اور جو کوئی نیک اعمال کرے گا (خواہ) مرد ہو یا عورت درآنحالیکہ وہ مومن ہے پس وہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اوران کی تِل برابر (بھی) حق تلفی نہیں کی جائے گے۔

(النساء، 4: 124)

اس کے علاوہ الرعد ، الزخرف، الفتح، الحدید الاحزاب، محمد، البقرۃ، القصص، اٰل عمران میں بھی اجر و کامیابی کا وعدہ کیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کامیابیوں تک کیسے رسائی حاصل کی جائے؟ ان کے حصول کا طریقہء کار کیا ہو؟ اس گتھی کو بھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے خود ہی سلجھا دیا۔ ان مقامات تک پہنچنے کے تمام طریقے اور ان طریقوں کو اختیار کرنے کے تمام مراحل خود ہی متعین کردیئے۔ اس کے لئے باقاعدہ تربیتی منہج مقرر کرکے اسے ایک مکمل اور جامع لائحہ عمل دے دیا اور اس لائحہ عمل کی تطبیق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہء حسنہ کی صورت میں عطا کردی۔

قرآن عورت کی تربیت کس کس انداز سے کرتا ہے اور کہاں کہاں اس کے لئے راہیں متعین کرتا ہے اس کی وضاحت ملاحظہ ہو۔

تربیت

لغت میں تربیت ربَّی یُرَبِّی تُرْبِیَّۃً وربیّت فلاناً تربیۃ مصدر ہے باب تفعیل سے، جس کے معنی بچہ کی پرورش کرنا پالنا مہذب بنانا ہیں اور اصطلاح میں اس سے مراد انسان کے اندر کچھ خاص افکار و خیالات کا بیج بودیا جائے، اور اس کے جذبات و میلانات کو ایک خاص رخ عطا کیا جائے۔ اس طور پر کہ کچھ مخصوص رجحانات کی آبیاری ہوسکے اور اس کے اخلاق و کردار ایک مخصوص سانچے میں ڈھل جائیں۔ دور جاہلیت میں بدوی عورت کو خاص طور پر منتخب کیا جاتا تاکہ بچہ کی پرورش اسکی گود میں ہو۔

تربیت دراصل دعوت کی تیاری ہے کیونکہ قرآن اس دعوت کا داعی اور اس تربیت کا مربی ہے۔ لہٰذا وہ اپنی تربیت کا سب سے عظیم نمونہ ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں عطا کرتا ہے۔ جن کو نہ صرف قرآن اسوہء حسنہ گردانتا ہے بلکہ تمام عالم اس حقیقت کا معترف ہے کہ قرآن کی تربیت سے پرورش پانے والی یہ ہستی قیامت تک کیلئے تمام لوگوں کے لئے ایک بہترین اخلاقی نمونہ ہے۔

تربیت میں قرآن کا طرز عمل انتہائی حد تک فطری اور نفسیات کے عین مطابق ہے۔ قرآن نے ہر دو اصناف آدم مرد و عورت کی اپنے اپنے دائرہ عمل میں بہترین تربیت کی، اب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ عورت کی تربیت کس نہج پر کرتا ہے کیونکہ وہ انداز گفتگو سے لے کر ہر طرح کے معاملات میں قدم قدم پر اس کی اصلاح کرتا ہے۔ اس کی راہنمائی کرتا ہے۔ اس کے کردار و افعال کی حفاظت کرتا ہے۔ اسے شرور و آفات سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔

تربیت کا سب سے پہلا مرحلہ عقائد کی ثقافت

قرآن کی سب سے پہلی کوششیں عقائد کی صفائی ہے۔ اس لئے وہ عورت سے بھی سب سے پہلا عہد یہی لیتا ہے کہ

لاَ یُشْرِکْنَ بِاللّٰهِ شَیْئًا.

(الممتحنة، 60: 12)

جب عقیدہء توحید راسخ ہو جائے تو باقی معاملات خود بخود درست ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی قبول اسلام کے ضمن میں پہلا عہد عقیدہ توحید پر لیتے تھے کیونکہ یہی وہ بنیاد ہے جو معاشرے کو درست سمت عطا کرتی ہے۔ اس کے بعد معاملات کی طرف قدم بڑھایا جاتا ہے کہ:

اجتناب عن السرقة:

وَلاَ یَسْرِقْنَ کے کلمات سے ہر قسم کی جانی ومالی چوری سے اجتناب کا عہد لیا جاتا ہے تاکہ معاشرہ اخلاقی برائیوں سے نجات پا سکے۔

اجتناب عن الزنا:

زنا سے مکمل طور پر بچنا ہے۔ کیونکہ یہ ایک ایسا اجتماعی جرم ہے جو نسلوں کو برباد کرتا ہے۔ اس لئے وَلاَ یَزْنِیْنَ کا حکم لگا کر اسے ہر قسم کے زنا سے روک دیا گیا ہے تاکہ اسے قلبی وفکری طہارت کے ساتھ ساتھ جسمانی پاکیزگی بھی حاصل ہو سکے۔

منع عن قتل النفس:

اولاد کے قتل سے روکنے کیلئے چاہے وہ خَشْیۃ إملاق ہو یا خشیۃ العمران ہو ، سختی سے روک دیا گیا ہے کیونکہ کسی جان کو بغیر کسی جرم کے قتل کرنا حرام ہے۔ فرما دیا گیا:

وَلاَ یَقْتُلْنَ أَوْلاَدَهُنَّ.

(الممتحنة، 60: 12)

گویا قرآن وہ اخلاقی تربیت گاہ ہے جس نے ہر قسم کے قتل اولاد پر آج سے سو سال پہلے پابندی لگا دی تھی تاکہ وہ بعد کے جدید ادوار میں بھی ناجائز طریقوں کو بروئے کار لاکر نسل انسانی کا خاتمہ نہ کر پائے۔

بہتان تراشی:

بہتان تراشی چونکہ ایک گھناؤنا جرم ہے اسلئے اسلام نے اسے کبائر میں شامل کر کے شدید نفرت دلائی ہے اور کھلے الفاظ میں کہہ دیا کہ:

ولا یأتین ببهتان یفترینه بین أیدیهن وأرجلهن.

ان عقائد و معاملات پر ان سے عہد لینے کے بعد قرآن تربیت کے مزید مدارج طے کرواتا ہے۔ اسے ایک سنجیدہ انداز زندگی عطا کرتا ہے تاکہ وہ لوگوں کے ساتھ تعلقات کے قیام میں محتاط رہے کیونکہ اسے معاشرے میں اپنی بقا کیلئے لوگوں سے کسی نہ کسی مقام پر ضرور آمنا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس صورت حال کا مقابلہ اسے کیسے کرنا ہو گا اسے قرآن بہت ہی خوبصورت انداز میں پیش کرتا ہے۔

بناؤ سنگار کی ممانعت:

قرآن عورت کو ضرورت کے پیش نظر گھر سے باہر نکلنے کی اجازت تو دیتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ ہر ممکن خطرات سے بچاوء کی تدابیر بھی کرتا ہے۔ وہ اس بات کی سختی سے مذمت کرتا ہے کہ عورت گھر سے باہر بن سنورکر نکلے اور نہ صرف خود کو بلکہ پورے اسلامی معاشرے کو خطرات سے دوچار کرے۔ لہٰذا تربیتی اندازسے راہنمائی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ

وَلاَ تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیّة الْاُوْلٰی.

الاحزاب، 33: 33

جیسے کہ ظہور اسلام سے قبل عورتوں میں بن سنور کر بازاروں میں گھومنے کی عادت تھی لہٰذا اسلام نے اس عادتِ قبیحہ کے خلاف واشگاف الفاظ میں علم جہاد بلند کرکے عورت کو عزت و احترام کا لباس بنایا۔

افسوس صد افسوس کہ آج اسلامی معاشرے کی اخلاقی حالت پھر اس مقام پر پہنچ چکی ہے کہ تربیت کے اس حکم کو ذکرِ زبان زد ِخاص و عام کیا جائے تاکہ خواتین میں تبرج کی عادت ختم کی جاسکے۔

نگاہ کی پاکیزگی:

قرآن نے عورت کی تربیت کے مراحل میں ایک ایک نکتہ پر گہری نظر رکھی ہے لہٰذا ہر اس نکتہ کی وضاحت کی ہے جو معاشرتی فساد کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ چونکہ عورت ضرورتاً گھر کی چار دیواری سے بازار کے ماحول میں قدم رکھتی ہے اور وہاں جگہ جگہ شیطان گھات لگاکر بیٹھا ہے لہٰذا بہت ہی مفکرانہ انداز میں عورت کو حکم دیتا ہے کہ یَغْضُضْنَ مِنْ أبْصَارِهِنَّ (النور، 24: 31) جیسے کہ مرد کو جائز نہیں کہ وہ عورت کو دیکھے ، اسی طرح عورت کو جائز نہیں کہ وہ مرد کو دیکھے۔

غض بصر کی تعمیل کے ساتھ ہی ذہنی و قلبی خطرات کا سدِّباب ہوجاتا ہے۔ اس وقت معاشرے میں خواتین کو جو مسائل درپیش ہیں۔ اُن میں ایک بڑا مسئلہ اسی نگاہ کی پاکیزگی کے اہتمام کا فقدان ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ سماجی مسائل دن بدن جنم لے رہے ہیں۔ جن کو قابو کرنا مشکل ہورہا ہے اور اس کی اصل وجہ قرآن کے اس پیغام سے روگردانی ہے۔ کچھ شک نہیں اگر خواتین نگاہ کی پاکیزگی کا اہتمام کرلیں تو معاشرے کے آدھے مسائل خود بخود حل ہوجائیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خود اللہ تعالیٰ قٰصِرَاتُ الطَّرفِ کو پسند فرماتا ہے۔ حورانِ جنت کی تعریف بھی انہی الفاظ سے کی گئی ہے۔

عفت و حیاء

قرآن عورت کی تربیت شرم و حیاء کے اُن خطوط پر کرتا ہے جو عورت کو ایک من پسند قابل احترام ہستی بنادیتے ہیں۔ ہر اُٹھنے والی بے راہ رو نگاہ ان کے احترام میں جھک جاتی ہے وہ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَھَنَّ وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ (النور، 24: 31) کے الفاظ کے ساتھ عورت کو ایک ایسی پاک دامن اور باحیا تصویر فراہم کردیتا ہے جو نہ صرف اسلامی معاشرے کے لئے بلکہ دوسری تہذیبوں کے لئے بھی ایک قابل ستائش پیکر ہے۔

معاشرے کی گرتی ہوئی اخلاقی حالت اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ عورت نے اپنے مربّی کے پیغام کو بھلاکر خود کو ایک ایسا سجاوٹی سامان (show piece) بنا لیا ہے جو نگاہ کو تو خیرہ کرسکتا ہے لیکن گھر کی زینت نہیں بنایا جاسکتا کیونکہ عفت و حیا ایک ایسا زیور ہے جو نہ صرف عورت کو حسن عطا کرتا ہے بلکہ اس کے وقار میں اضافہ بھی کرتا ہے۔

باوقار چال

عورت پر قرآن کی کرم نوازیاں دیکھنے کے قابل ہیں۔ انتہائی محبت سے اس کے قدم رکھنے کے انداز کو بھی وضع کرتا ہے۔ لہٰذا اپنے تربیتی منہج میں سے ایک اور عمل نجات مرحمت فرماتے ہوئے کہتا ہے: وَلاَ یضرِبْنَ بِاَرْجُلِھِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتَھُنَّ (النور، 24: 31) چلتے ہوئے قدم دھیرے دھیرے رکھو۔ زور سے یا چھلانگیں لگاکر بازاروں سے نہ گزرو۔ ایک تو دیکھنے میں نگاہ کو بُرا لگتا ہے اور دوسرے وہ اسرار آشکارہ ہونے کا احتمال ہوتا ہے جن کی پوشیدگیوں کی خاص کوشش کی گئی۔ عورت کی نازکی کا جو اہتمام اس آیت میں ہے۔ انسانی عقل اس کا ادراک نہیں کرسکتی۔ قرآن چاہتا ہے کہ عورت کے قدموں کی چاپ بھی کسی کان میں جانے نہ پائے گویا عفت و حیاء کے قیام کے اہتمام میں انتہا کردی۔

اندازِ گفتگو

قرآن کی شان دیکھئے کہ وہ کس انداز سے کائنات کے اس حسین وجود کی تربیت کرتا ہے۔ ایک معصوم بچے کی طرح پیار و محبت سے اُسے بات کرنے کا طریقہ سکھاتے ہوئے سمجھاتا ہے کہ جب بوقت ضرورت صنفِ مخالف سے بات کرنی پڑی تو فَلاَ تَخْضَعْنَ بِالْقَوْل گفتگو میں نزاکت پیدا کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ سیدھے سادھے الفاظ میں اصل بات کہہ کر گفتگو ختم کی جائے تاکہ جنس مخالف کو کسی قسم کا شیطانی خیال دل میں نہ گزرے اور وہ کوئی اُمید لگاکر نہ بیٹھ جائے۔ آج خواتین جس ناز و ادا سے مردوں سے محو گفتگو رہتی ہے وہ اخلاقی گراوٹ کے اسباب میں سے ایک ایسا عظیم سبب ہے جو معاشرے کو پستیوں کی اس دلدل میں دھکیل دیتا ہے جہاں سے نکلنا ناممکن ہوتا ہے۔

پردہ

قرآن وہ مربی ہے جو اپنی تربیت گاہ میں تیار ہونے والوں کی ایک ایک نقل و حرکت کو نظر میں رکھتا ہے۔ خالقِ کون و مکان نے اپنی اس آخری سماوی کتاب کو بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے ایک ایسا مرقع نور بنادیا ہے کہ جس کی ضیاء پاشیوں سے لوگ قیامت تک راہنمائی پاتے رہیں گے۔ اس عظیم مرتبت کتاب نے پردہ اور حدودِ پردہ متعین کرکے عورت کو گھر کے اندر اور گھر سے باہر دونوں جگہ بھرپور تحفظ فراہم کرتے ہوئے فرمایا: یُدْنِیْنَ جَلاَ بَیْبِھِنَّ اور پھر اُن محرموں کی پوری فہرست فراہم کردی جن کا داخلہ گھر کے اندر ہونے کی صورت میں ہر ممکنہ خطرات سے بچنے کے لئے اُن سے پردے کا حکم دے دیا گیا تاکہ وہ ہر طرح کے شیطانی خطرات سے محفوظ رہ کر پوری تندہی سے اپنی خدمات سرانجام دے سکے۔ صرف ان مذکورہ اشخاص کے سامنے وہ اپنی آرائش کا اظہار کرسکتی ہے:

بُعُوْلَتِھِنَّ أوْ اٰبآئِھِنَّ أوْ اٰبآء بُعُوْلَتِھِنَّ أوْ اَبْنَائِھِنَّ أوْ اَبْنَاء بُعُوْلَتِھِنَّ.

(النور، 24: 31)

آج ہم خواتین قرآن کے ان احکام سے جس طرح غافل ہیں اس کی مثال امتِ مسلمہ کی تاریخ میں نہیں ملتی اور ہم آج جن اخلاقی فسادات کی زد میں ہیں اس کا سدِّباب قرآن کے اس پیغام پر عمل کے سوا دوسرے کسی راستے کو اختیار کرنے میں نہیں۔ اگر اب بھی اس پیغام کو نہ سمجھا گیا توگزشتہ امتوں کی طرح ایک قصہ پارینہ بن کر رہ جائیں گے کوئی ہم پر آنسو بہانے والا بھی نہیں ہوگا۔

تمسخر کی ممانعت:

اللہ تعالیٰ نے تمام اولادِ آدم کو اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کرکے اُسے سب سے اکرم بنادیا اور اس بات کی سختی سے مذمت کی کہ کوئی کسی کو حقیر نہ جانے اور نہ کوئی کسی کا مذاق اُڑائے کیونکہ یہ عمل اللہ کے ہاں انتہائی حدتک ناپسندیدہ ہے؛ فرمایا:

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا یَسْخَرْ قَومٌ مِّن قَوْمٍ عَسَی أَن یَکُونُوا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَی أَن یَکُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّ.

اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے وہ لوگ اُن (تمسخر کرنے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے وہی عورتیں اُن (مذاق اڑانے والی عورتوں) سے بہتر ہوں۔

(الحجرات، 49: 11)

روحانی و اخلاقی تربیت کے بعد قرآن عورت کو عائلی ذمہ داریاں تفویض کرتا ہے۔ تاکہ قرآن کی درس گاہ سے تربیت حاصل کرنے کے بعد وہ معاشرے کا ایک فعّال رکن بن سکے۔ جس دین میں عورت دُنیا کی بہترین نعمت ہو اس میں بھلا یہ کیونکر برداشت کیاجاسکتاہے کہ اُسے ایک بے کار پرزہ سمجھ کر نظرانداز کیا جائے بلکہ یہ سوال اُٹھتا ہے کہ نیک عورت بہترین پونچی ، کیوں ہے؛ اگر غور کیا جائے تو یہ مسلمہ حقیقت خود بخود منکشف ہوجاتی ہے کہ گھر کا تمام نظام اس کے دم سے منظم ہے۔ شوہر کی تسکین اور بچوں کی تربیت جیسے اہم امور اسی کی کاوشوں سے انجام پاتے ہیں۔ قرآن سے تربیت پانے والی خواتین کی ذمہ داریاں اور ان کا مقام بھی قرآن ہی متعین کرتا ہے۔

ماں

ماں کو قرآن نے انتہائی اہم ذمہ داری سونپی ہے ایک تو وہ جسمانی طورپر اولاد کا بوجھ اُٹھائے پھرتی ہے اور درد پر درد اُٹھائے اسے جنم دیتی ہے۔ پھر اس کی رضاعت کرتی ہے اور سب سے اہم فریضہ جو نسلوں کی آبیاری کرنا ہے وہ تربیت کا ہے اور اسلام نے ماں کی گود کو پہلا مدرسہ قرار دے کر تربیت کے فریضہ کو اور حساس بنادیا ہے۔ تربیت کی ذمہ داری ماں کو سونپی بھی اس لئے گئی ہے کہ اس کے اندر وہ حوصلہ، صبر، برداشت پیدا کردی گئی ہے جو اولاد کی تربیت کے لئے ضروری ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اُسے کفالت کی ذمہ داریوں سے بری الذمہ قرار دیکر مکمل طورپر یکسو ہوکر اولاد کی تربیت کرسکے اور اولاد کو اس کی اطاعت کا حکم دیا کہ:

وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْه اِحْسَانَا.

(الاحقاف، 46: 15)

اور ہم نے انسان کو اس کے والدین سے نیک سلوک کا حکم فرمایا اور اُسے اولاد کے لئے اُس مقام پر فائز کردیا جس پر عظمتوں کی انتہاء ہوجاتی ہے یعنی اَلْجَنّةُ تَحْتَ اَقْدَام الْاُمْهَاتَ.

بیوی

بیوی کو اسلام نے شوہر کی امین بنادیا ہے کہ وہ میاں کی موجودگی اور عدم موجودگی ہر دو صورتوں میں اس کے مال اور عزت کی حفاظت کرے گی۔ کیونکہ هُنَّ لِبَاسَ لَکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاس لَھُنَّ (البقره، 2: 187) کے مطابق دونوں ایک دوسرے کا لباس ہیں اور عورت کے لئے مرد کو بہترین معاشرت کا حکم دیا ہے کہ وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْف۔ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہترین شوہر اور امھات کو بہترین ازواج کی ایک جیتی جاگتی تصویر پاتے ہیں۔ آپa کا فرمان ہے:

خیرکم خیرکم لاهله وانا خیرکم لاهلی.

گھریلو ناچاکی یا غلط فہمیوں کی صورت میں اختلاف پیدا ہونے کا احتمال رہتا ہے۔ لہٰذا اس صورت میں عورت کو قدم قدم پر سوچنے، اپنی اصلاح کرنے اور بُرائی سے بچنے کا موقع فراہم کیا اور انتہائی تدریجی انداز میں جیسے کہ قرآن کا طریقہ کار ہے اُسے میاں کے ساتھ رہنے کی تلقین کی ہے الا کہ حالات ناگزیر ہوجائیں۔ یعنی جہاں تک ممکن ہو سمجھوتہ کرے کیونکہ جدائی کی صورت میں بہت سے گھرانے مصائب سے گزریں گے لیکن اگر صلح کی کوئی صورت نہ بن پائے بلکہ مزید بگاڑ کا خدشہ ہو تو پھر تفریق کو ترجیح دی ہے۔ باوجود یہ کہ شارح قرآن نے واضح الفاظ میں طلاق کو حلال چیزوں میں مبغوض ترین چیز قرار دیا ہے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

أبغضُ الحلال عند اللّٰه الطلاق

اور یہ صرف اس صورت میں ہے کہ ہر دو فریق صلح کے تمام طریقے آزما چکے ہوں اور سمجھوتے کی کوئی صورت ممکن دکھائی نہ دیتی ہو تو اس میں اللہ کی وسعتوں پر تکیہ کرکے فیصلہ کیا جائے گا۔ جیسے کہ ہم تاریخ میں ایسے بین واقعات پاتے ہیں جہاں دونوں فریق کی طلاق کی صورت میں اللہ نے انہیں بہترین ساتھی عطا فرمائے۔

اس کے علاوہ عورت کے لئے موقع محل کی مناسبت سے تربیتی منہج کے مطابق وقتاً فوقتاً احکام نازل ہوتے رہے تاکہ معاشرے میں نسلوں کی آبیاری ایسے ہاتھوں سے ہوسکے جو امت کو وہ تربیت گاہ فراہم کرسکیں جو خالصتاً نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سائے میں پروان چڑھی۔ ان میں چند ایک ماوئں کی مثالیں پیش خدمت ہیں۔

امہات المومنین

قرآن کا پہلا بہترین مدرسہ جس کی تربیت شارح قرآن صلی اللہ علیہ وسلم نے کی وہ ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں انہوں نے امت کی جس طرح تربیت کی تاریخ عالم ان کی مثال لانے سے قاصر ہے۔ انہوں نے خود بھوکے رہ کر دوسرے کو کھلایا۔ اپنے ہاتھوں کی کمائی سے صدقات دیجئے اور جب دُنیا کی طرف معمولی سا میلان ظاہر کیا تو فوراً حکم ہوا۔

اِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَهَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْکُنَّ وَاُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلاً.

’’اگر تم دنیا اور اس کی زینت و آرائش کی خواہش مند ہو تو آؤ میں تمہیں مال و متاع دے دوں اور تمہیں حسنِ سلوک کے ساتھ رخصت کر دوں۔ ‘‘

(الاحزاب، 33: 28)

اس آیت کے نزول کے ساتھ ہی زوجات النبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً اپنی معمولی خواہشات سے بھی برأت ظاہر کردی تاکہ وہ امت کے لئے شرمندگی کا سبب نہ بنیں۔ جن بیبیوں نے ایسی تربیت پائی ہو۔ بھلا وہ امت کی بہترین مائیں ثابت نہ ہوں گی تو کون ہوگا؟

صحابیات و تابعیات

قرآن کی تربیت کا نظارہ صحابیات کے ہاں عجیب منظر پیش کرتا ہے۔ ماں کی آنکھوں کے سامنے اس کے جگر گوشے جام شہادت نوش کرتے ہیں لیکن اس ماں کی ہمت و حوصلہ دیکھنے کے قابل ہے جب وہ ان کی لاشوں کو سولی پر لٹکے پاتی ہے تو کہتی ہے یہ شہسوار ابھی تک سواری سے نہیں اترا۔ ان ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو قرآن نے صراط مستقیم کی جانب جو رہنمائی دی اور پھر نسلوں کی تربیت کا منصب جس طرح ان کے ہاتھ میں دیا کہ انہیں نمونہ بنادیا۔ اُسے قلم رقم کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ ان کا مربّی قرآن ہے اس لئے قرآن نے اپنے شارح کے سائے میں وہ منارہ نور تیار کیے ہیں کہ خود قرآن ان کے درجات متعین کرتا ہے۔

عادلانہ طرزِ تفکر جوکہ مذہبی ثقافت اور قرآنی تدبر سے عبارت ہے۔ وہ عورت کی اصل اور جوہر وہی انسانی جوہر ثابت کرتا ہے جو مرد میں ہے۔ اس لحاظ سے عورت انسانی معاشرے میں اپنے مختلف پہلووئں کی بناء پر ایک اہم اکائی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسلام نے ہمیشہ عورت کی قدر و منزلت پر بھرپور توجہ دی۔ اس کی بہترین تربیت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ گویا کہ قرآن وحدیث کردار سازی کی ایک ایسی تربیت گاہ ہے جو امتوں کی تعمیر میں انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے اور اپنے تربیت یافتہ کو نہ صرف معاشرے میں فخر سے جینا سکھاتی ہے بلکہ زندگی کے ہر مرحلے میں اسے کافی و شافی بھی ہوتی ہے۔