سبق جو ہم کو ملا تھا بھُلا دیا ہم نے

پروفیسر حلیمہ سعدیہ

بے شک زندگی عمل بنتی ہے وقار و تمکنت سے، بھر پور مقامات زندگی درحقیقت کو شش، محنت اور اچھے اصولوں پر عمل کرنے سے ہی حاصل ہوتے ہیں۔ قدرت کا احسان عظیم ہے کہ مسلمانوں کے لئے اللہ اور رسولؐ کے بتائے ہوئے اتنے اچھے اصول موجود ہیں کہ جن پر عمل کر کے ہمارے اسلاف اقبال مندی و خوشحالی کے نہایت بلند مقام پر پہنچ گئے۔ اگرآج ہم اسلام کی تعلیمات کو اپنی زندگی میں رائج کر لیں اور یہ تعلیمات ہمارے جینے مرنے کی اولین ترجیح ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم دور حاضر کے علوم و فنون پر بدرجہ اتم کمال حاصل نہ کریں۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ:

متاعِ سلف کو خود ہی جلا دیا ہم نے
نقوشِ کُہنہ کو یکسر مٹا دیا ہم نے
کہاں سے آئے گی بولو صدائے حق یارو
سبق جو ہم کو ملا تھا بُھلا دیا ہم نے

اگر آج بھی ہم اپنے اسلاف کی عمدہ روایات اور اقدار کو اختیار کر لیں اور اخلاص محبت امن، ایثار، رواداری کو اپنا شعار بنالیںتو اُمت محمدی کا ہر فرد ملت کا ستارہ بن کر اُبھرے گا۔ مگر ؎ ’’لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے‘‘

مندرجہ بالا صفات عالیہ جو کسی معاشرے کے عروج کا باعث ہوتے ہیں معاشرے میں قصئہ پارینہ ہو چکی ہیں۔ دورِ حاضر میں اخلاص و مروت کی جگہ کیا ملتا ہے وہ اس شعر میں پیش خدمت ہے:

اجلاس کا عنوان ہے اخلاص و مروت
بَد خوی میں مصروف ہیں حضرات مسلسل

ہمارے بظاہر مسلم معاشرہ میں ثقافتی میلوں کے نام پر بڑے بڑے ہوٹلوں میں انگنت انداز کے طعام تو سجائے جاتے ہیں لیکن ان حسین اور بلند و بالا عمار توں کے سائے میں بہت سے گھر ایسے ہیں جہاں ہماری آج کی مجبور مائیں اپنے معصوم بچوں سے ’’کھانا پکنے‘‘ کا جھوٹ بول کر انہیں بھوکا سُلادینے پر مجبور ہیں۔ ایک جانب وسائل کی فراہمی کا یہ عالم ہے کہ ظاہر ی حسن و جمال اورنمود و نمائش کے نام پر لاکھوں روپے لٹائے جاتے ہیں۔ اور دوسری جانب کتنے ہی فرزدندان شوق غربت کی اذیت میں مبتلا رہ کر تعلیمی درسگاہوں میں حصولِ علم سے محروم رہ جاتے ہیں۔ عہد حاضر میں ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ اقدارِ اسلامیہ سے دوری کا یہ عالم ہو گیا ہے کہ علم کے نام پر وہم بانٹے جاتے ہیں ظلم و بربریت کی داستان یہ ہے کہ کبھی جہیزکے نام پر تو کہیں فرقہ بندی کے نام پر مسلمان بچے اور بچیوں کو ابدی نیند سُلا دیا جاتا ہے۔ مرنے والا بھی مسلمان اور مارنے والا بھی مسلمان۔ حیاء بزرگوں کا احترام اور رشتوں کی پاسداری یہ ایسی صفات ہیں جو کبھی مسلمان بیٹوں کی پہچان ہو ا کرتی تھیں۔ لیکن اب’’ ٹک ٹاک اور سیلفی‘‘ کے شوق نے اُمت مسلمہ کی نسلِ نو کو جس طرح راہ راست سے ہٹایا ہے اس نقصان کی روک تھام وقت کی اہم ضرورت ہو گئی ہے بقول اکبر الہ آبادی:

بے پردہ کل جو نظر آئیں چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو اُن سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا

دورِ حاضر میں پیسے کی ایسی دوڑ لگی ہوئی ہے کہ بہنوں کی شادیوں کی پریشانی میں کتنے ہی بھائی رزق حلال کی پہچان کھو دیتے ہیں۔ لمبے چوڑے جہیز کے تقاضوں نے والدین کو ایسا پریشان کر رکھا ہے کہ اُن کی بیٹیوں کے گھر بیٹھے انتظا ر کر تے سر میں چاندی اُتر آتی ہے۔ آخر ان شریف زادوں کی قدر کرنے والے خاندان کیوں ناپید ہو تے جار ہے ہیں۔

ہم سب مل کر اپنے معاشرے میں سدھار پیدا کیوں نہیں کرتے یہی سوشل میڈیا جوہر معیار سے گری ہوئی حرکت کو جنگل کی آگ کی طرف لمحوں میں شہرت کے بام عروج پر پہنچا دیتا ہے وہ معاشرے کی ان تلخ حقیقتوں کو اُجاگر کرنے اور انکے سد باب کرنے میں کلیدی کردار ادا کیوں نہیں کرتا۔ نسل نو کو یہ کیوں نہیں سمجھایا جاتا کہ بے شک حضرت علامہ اقبال نے یہ فرما یا تھا کہ

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

لیکن اس رنگ سے مراد ’’اُمومیت‘‘ یعنی ’’ماں‘‘ کے کردار کو بہترین انداز میں نبھانا ہے۔ اقبال نے جس ’’وجود زن‘‘ کو کائنات کا رنگ کہا ہے وہ کہیں ماں ، کہیں بیٹی ، کہیں بہن اور کہیں بیوی کے پاکیزہ روپ میں نظر آتی ہے۔

اس سے مراد اغیار کی محفل میں شمع محفل بن کر جلوہ دکھانا اورٹک ٹاک اور فیس بک سٹیٹس سے سستی شہرت حاصل کرنا قطعاً نہیں ہے۔

درحقیقت اقبال جس وجود زن کو کائنات کی تصویر کا رنگ کہہ رہے ہیںوہ عورت کو وہ روپ ہے کہ جس کی گود میں غازی اور شہید جنم لیتے ہیں جس کی آغوش میں وہ مرد مومن تربیت حاصل کرتے ہیں۔

ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولا دہے مومن

کی عمدہ تصویر ہوتے ہیں۔ یہ عورت کا وہ روپ ہے جو گھر کی چار دیواری میں رازق بھی ہوتی ہے اور مسیحا بھی یہ عورت کا وہ انداز ہے جہاں چادر اور چاردیواری کی حرمت کی خاطر جان تک وار سکتی ہے۔ یہ عورت کا وہ رنگ ہے جس میں قرآن و سنت کے احکامات پر عمل پیرا ہو کر گھر میں ہی ولی کا درجہ پا جاتی ہے۔ یہ وہ عورت ہے جو اپنے شوہر سے اپنے تقاضے نہیں کرتی جن سے مجبور ہو کر مرد حرام کمائی کے گناہ میں مبتلا ہو جائے۔

یہی عورت علم یافتہ ہوتی ہے تو ’’نپولین‘‘ کہہ اُٹھتا ہے کہ تم مجھے پڑھی لکھی ماں دو میں تمہیں کامیاب قوم دوںگا۔

خدا کرے کہ اس عرض پاک پر موجود نسلِ نو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھے اور اس پاک دھرتی کا ہر قریہ اسلام کے بتائے ہوئے اصول و ضوابط پر چلنے والوںسے سجا رہے۔ د عا ہے کہ ہر مسلمان بچی کو اللہ رب العزت خاتون جنت کی قدرے عالیہ کی پیروی کی توفیق عطاء فرمائے۔ (آمین)

بےشک حکیم امت شاعر مشرق علامہ محمد اقبال صحیح فرما گئے۔

راز ہے، راز ہے تقدیر جہانِ تگ و تاز
جوش کردار سے کھل جاتے ہیں تقدیر کے راز
صف جنگاہ میں مردان خدا کی تکبیر
جوشِ کردار سے بنتی ہے خدا کی آواز