ڈاکٹر عشرت افضل

اس کرہ ارض پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت پائی ہے۔ قرآن مجید میں سورۃ انبیاء (آیت نمبر 21:30) میں اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ہم نے ہر زندہ چیز پانی سے تخلیق کی ہے۔اس کائنات میں تمام جانداروں کی بقاء اور نشوونما پانی کے بغیر ممکن نہیں۔ انسانوں سے لے کر حیوان، چرند، پرند، حتی کہ درخت اور پھول کلیاں بھی اپنی بقاء کے لیے پانی کے محتاج ہیں۔ زراعت، انڈسٹری اور بجلی کا حصول سب پانی کے مرہون منت ہے۔

بین الاقوامی سطح پر پانی کی ضرورت و اہمیت کو سمجھتے ہوئے 22 مارچ کو ورلڈ واٹر ڈے منایا جاتا ہے۔

اس کرہ ارض پرتقریباً 1.454 بلین کیوبک کلومیٹر پانی موجود ہے اس میں سے %2.5 تازہ پانی ہے جو کہ قابل استعمال ہے باقی کا %97.5 انتہائی نمکین سمندری پانی ہے جو کہ قابل استعمال نہیں۔ تازہ پانی کا بھی دوتہائی بھی permafrost ،Glaciers ،Polar Icecaps کی شکل میں سے باقی کا 1 تہائی تازہ پانی کی شکل میں دستیاب ہے۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ کل پانی کا %1 سے بھی کم تازہ پانی کی شکل میں دستیاب ہے جو دریاؤں، جھیلوں اور ایکویز کی شکل میں موجود ہے۔

کائنات میں پانی کی مقدار یکساں یعنی Constant ہے جبکہ اس کی ڈیمانڈ دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ موسمی تبدیلیوں، ماحولیاتی تغیر، صنعتوں کے فروغ اور آبادی میں مسلسل اضافہ سے پانی کے ذخائر میں کمی واقع ہورہی ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق 2050ء تک 40 ممالک کو پانی کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ہر انسان کو سالانہ 1700 کیوبک میٹر پانی درکار ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں Falken Mark کا انڈیکیٹر ایک متفقہ سکیل ہے۔

Falken Mark Indicator

Availabblity of watter : Situation

Between 1000-1700m3 : Stress

Between 500-1000 : Scarcity

Less then 500 : Absolutely scracity

ہائیڈرولوجی کے مشہور شخص اسماعیل سیرا گلڈن کے مطابق اس صدی کی بہت سی جنگیں تیل کے لیے لڑی گئیں لیکن اگلی صدی کی جنگیں پانی پر ہوں گی۔ UNO کے سیکرٹری جنرل بطریس غالی کے مطابق دنیا کی اگلی جنگ، سیاسی یا معاشی معاملات پر نہیں بلکہ پانی پر لڑی جائے گی امریکی صدر بل کلنٹن نے بھی جنوبی ایشیاء کو پانی کے حوالے سے ایک حساس علاقہ قرار دے دیا تھا۔

قدرت نے پاکستان کو پانی کی وافر مقدار عطا کی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت ہر پاکستانی کو 5650 کیوبک میٹر پانی دستیاب تھا جو کہ آبادی کے بڑھنے اور چند موسمیاتی عوامل کی وجہ سے گھٹتے گھٹتے 1000کیوبک میٹر رہ گئی ہے۔

پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور اس کی زراعت کا انحصار دریاؤں کے پانی پر ہے پاکستان میں پانی کا سب سے بڑا ذریعہ انڈس بیسن ہے۔ پاکستان میں بہنے والے دریا ستلج، راوی اور انڈیا سے بہہ کر آتے ہیں جبکہ دریائے سندھ، چناب اور جہلم مقبوضہ کشمیر سے بہہ کر آتے ہیں۔ اسی لیے قائداعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہا تھا۔

قیام پاکستان کے وقت ہی پاکستان اورانڈیا کے مابین پانی کی تقسیم منصفانہ نہ تھی باؤنڈری کمیشن کے سربراہ ریڈ کلف نے وہ علاقے انڈیا کو دے دیئے جہاں سے ہیڈورکس پاکستان کی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے پانی سیلابی کرتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد انڈیا نے دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے اپریل 1948ء سے ایک ماہرین کی ٹیم انڈیا گئی اور طویل مذاکرات کے بعد انڈیا نے پانی جاری کرنے کی حامی بھرلی لیکن پاکستان کو اس پانی کے چار جز اداکرنے تھے پاکستان اور انڈیا کے آبی مسئلہ کی باز گشت دوسرے ممالک میں بھی سنائی دینے لگی اور ورلڈ بینک کی مداخلت سے 1960ء میں پاکستان اورانڈیا کے مابین ایک معاہدہ طے پایا۔ جسے سندھ طاس معاہدہ کہا جاتا ہے۔ اس معاہدہ پر پاکستان میں اس وقت کے پریذیڈنٹ ایوب خان پر سخت تنقید ہوئی کہ اس نے تین دریا بھارت کو بیچ دیئے۔ اس معاہدے کے مطابق تین مشرقی دریا راوی ستلج اور باس کی انڈیا کی ملکیت ہوگی جبکہ تین مغربی دریا سندھ، چناب اور جہلم پر پاکستان کی ملکیت ہوگی تین دریا انڈیا کے حوالے کرنے سے ان علاقوں کو سیراب کرنے کے لیے ڈیمز بنانے کی اشد ضرورت تھی۔ جن سے نہریں نکال کر ان علاقوں کو سیراب کیا جائے جوکہ پہلے مشرقی دریاؤں سے سیراب ہوتی تھیں۔

لہذا سندھ طاس معاہدے کے مطابق پاکستان میں دو بڑے ڈیم اور 7 رابطہ نہریں تعمیر کی گئیں۔ واپڈا کے 2021ء وژن کے مطابق پاکستان کو بڑے اور چھوٹے ڈیمز کی اشد ضرورت ہے خصوصاً کالا باغ ڈیم وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پاکستان کے تمام صوبوں کو چاہیے کہ وہ صوبائی ایشوز کو چھوڑ کر قومی سوچ اپنائیں اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو یقینی بنائیں پاکستان میں کم و بیش 155 ڈیمز بنائے گئے ہیں۔ پاکستان کے چند بڑے ڈیمز درج ذیل ہیں:

تربیلا ڈیم:

یہ ڈیم پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخواہ کے ضلع ہری پور میں واقع ہے۔ یہ ڈیم حجم کے لحاظ سے ایشیا کا دوسر ابڑا ڈیم ہے یہ منگلہ ڈیم سے دوگنا اور اسوان ڈیم (مصر) سے تین گنا بڑا ہے اور دنیا میں مٹی کی بھرائی کا سب سے بڑا ڈیم ہے۔ تربیلا ڈیم دریائے سندھ پر تربیلا کے مقام پر تعمیر کیا گیا ہے۔ اس ڈیم کے تین مقاصد تھے:

  1. سیلاب کو کنٹرول کرنا
  2. فصلوں کو سیراب کرنا
  3. بجلی پیدا کرنا

1967ء میں عالمی بینک نے اس کی منظوری دی اور دوست ممالک کے تعاون سے 1976ء میں تکمیل ہوئی۔ اس کی لاگت 149 بلین ڈالر تھی۔

منگلا ڈیم:

پاکستان کا دوسرا بڑا ڈیم منگلا ڈیم ہے جو کہ دنیا کا 9 واں بڑا ڈیم ہے۔ یہ ڈیم آزاد کشمیر کے ضلع میر پور میں بنایا گیا۔ یہ دریائے جہلم پر بنایا گیا ہے۔ ڈیم کی اونچائی 147 میٹر ہے۔ اس ڈیم پر ہونے والے اخراجات بھی ورلڈ بینک نے اٹھائے تھے۔

وارسک ڈیم:

وارسک ڈیم خیبرپختونخواہ میں پشاور کے شمال مغرب میں دریائے کابل پر بنایا گیا ہے۔یہ دو مرحلوں میں مکمل ہوا۔ پہلا فیز 1960ء میں مکمل ہوا اور دوسرا 1981ء میں۔

میرانی ڈیم:

میرانی ڈیم صوبہ بلوچستان میں دریائے دشت پر بنایا گیا ہے۔ اس ڈیم کی تکمیل 2002-06 کے عرصے میں ہوئی۔ اس پر 5,267.90 روپے خرچہ آیا تھا 39 میٹر اونچا یہ ڈیم سیلاب کے پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔

خانپور ڈیم:

خانپور ڈیم صوبہ خیبرپختونخواہ کے ضلع ہریپور میں دریائے ہرو پر واقع ہے۔ یہ اسلام آباد سے چالیس کلومیٹر دور ہے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی شہروں کو پانی پہنچانے کا سب سے بڑا ذریعہ یہی خانپور ڈیم ہی ہے۔ اس ڈیم پر 1352 ملین لاگت آئی۔ اپنی خوبصورتی کی بدولت پانی کی ضرورت پوری کرنے کے ساتھ ساتھ یہ ڈیم سیاحوںکی دلچسپی کا مرکز بھی ہے۔

حب ڈیم:

حب ڈیم بھی اک آبی ذخیرہ ہے جو کراچی سے 56 کلومیٹر دریائے حب پر واقع ہے۔یہ ڈیم صوبہ سندھ اور صوبہ بلوچستان کی سرحد پر ہے۔ اس کا مجموعی رقبہ 24300 ایکٹر ہے اور اس میں 857000 ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش موجود ہے۔