تعلیم سماجی و معاشی ترقی کا زینہ ہے

سمعیہ اسلام

علم دین کا ہو یا دنیا کے کسی شعبے کا، وہ بہر حال انسانیت کے لیے تمغہ فضلیت اور طرہ امتیاز ہے اور تعلیم کا مقصد فضل وکمال سے آراستہ ہونا اور میراثِ انسانیت کا حاصل کرنا ہے۔تعلیم معاشرے کے ہر فرد کی بنیادی ضرورت ہے۔ کسی بھی قوم یا معاشرے کیلئے علم ترقی کی ضامن ہے یہی علم قوموں کی ترقی اور ان کے زوال کی وجہ بنتی ہے۔اسلام نے شروع ہی سے علم حاصل کرنے پر حوصلہ افزائی کی ہے اس کے ابتدائی آثار ہمیں اسلام کے عہد نبوی میں ملتے ہیں چنانچہ غزوہ بدر کے قیدیوں کی رہائی کیلئے فدیہ کی رقم مقرر کی گئی تھی ان میں سے جو نادار تھے وہ بلا معاوضہ ہی چھوڑ دیئے گئے لیکن جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے انہیں حکم ہوا کہ دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں تو چھوڑ دیئے جائیں گے۔ چنانچہ سیدنا زید بن ثابتؓ نے جوکاتب وحی تھے اسی طرح لکھنا سیکھا تھا اسی بات سے ہم اندازہ لگاسکتے ہے کہ تعلیم کی کیا اہمیت ہے اور اس کا حصول کتنا ضروری ہے۔

اسلامی تاریخ میں ہمیں بڑے نامی گرامی علم دان، سائنسدان، اکنامسٹ اور سوشل سائنٹسٹ ملتے ہیں جہاں عمر خیام، ابن سینا، شرف الدین التوسی، ابو نصر منصور اور الخوارزمی جیسے آسٹرونومربھی پیدا ہوئے۔اسکے علاوہ نیورولوجی کے بانی ابن زھر، سائیکولوجی کے بانی الکندی، مینٹل ہیلتھ کے بانی احمد بن البلغی، نیوروسرجری کے بانی ابو قاسم الزھراوی، جدید کیمسٹری کے بانی جابر بن حیان، مشہور تاریخ دان و اکنامسٹ ابن خلدون،الماوردی، ناصر التوسی، ابن تیمیہ اور ابن النفیس جیسے معاشی ماہرین پیدا ہوئے۔

تعلیم اور ترقی کا آپس میں گہرا ربط ہے۔ کہتے ہیں تعلیم ترقی کا زینہ ہے لیکن عام طور پر ترقی کی اصطلاح کو محدود معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً یہ کہا جاتا ہے کہ تعلیم کے ذریعے ایک بہتر نوکری کا حصول آسان ہو جاتا ہے یا پڑھے لکھے شہری معاشی ترقی میں کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ ترقی کا محدود تصور ہے کیونکہ محض بڑے بڑے آبی ذخائر، ریلوے ٹریک، پختہ شاہراہیں، بلند و بالا عمارتیں اور شاپنگ پلازے کسی ملک کی ترقی کے آئینہ دار نہیں ہوتے۔

آج کے جدید اور ترقی یافتہ دور میں اگر کسی بھی ملک وقوم کو آگے بڑھنا ہے تو یہ بات تو طے ہے کہ ان کی ترقی کاسفر حصول علم اور فروغ علم کے بغیر جاری نہیں رہ سکتا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہر اس ملک میں جہاں تعلیم کی شرح تسلی بخش نہیں وہاں پر ترقی کی رفتار خود بخود سست پڑنے لگتی ہے۔ اس لیے اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ آج کادور تعلیم اور تحقیق کادور ہے۔ سائنس اور ٹیکنا لوجی کادور ہے۔

علم وہنر میں مہارت اور مقابلے کادور ہے۔ غور کیاجائے تو تعلیم کی اہمیت اور ضرروت کوزمانہ قدیم سے ہی تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔ اگر ہم پانچ سوسال قبل مسیح سے آج تک کے ماہرین تعلیم اور حکماء کے خیالات اورنظریات کو یک جا کرکے دیکھیں تو ہمیں اس بات کا بہ خوبی اندازہ ہوجائے گا کہ تعلیم کا مقصد درحقیقت انسانی ذہن کی بہتر نشوونما، اخلاقیات اور انسانی قدروں کو سنوارنا، معاشرتی رویوں کو صحیح رخ فراہم کرنا اور انسانی ذہن کی علم کے ذریعے آبیاری کرکے فرد اور معاشرے کو صحت مند بنانا ہے، اس کے ساتھ ساتھ نئی نسل کوایسی تربیت دینی ہے جس کی بدولت وہ نہ صرف اپنے لیے بلکہ ملک کے لیے بھی ایک اچھا اور مفید شہری ثابت ہوسکیں۔ دنیا میں ہمیں اپنے مقاصد حاصل کرنے اور اپنی عزت کروانے کے لیے ہمیں پہلے اپنی کمزوریوں اور حقیقتوں کو تسلیم کرنا ہوگا پھر ان خرابیوں اور کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے عملی اقدامات کرنے ہونگے۔ آج کے دور میں قوموں کی ہار، جیت کا فیصلہ جنگوں اور ہتھیاروں سے نہیں بلکہ اس کی معاشرتی، سماجی، تعلیمی اور معاشی ترقی سے ہوتا ہے۔

ترقی کا ایک اوراہم پہلو اس کی پائیداری (sustainability) ہے۔ پرویز مشرف کے دورِحکومت میں 9/11 کے واقعے کے بعد پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر بلندیوں کو چھو رہے تھے اور معاشی اعداد و شمار بھی متاثر کن تھے لیکن کچھ ہی مدت میں معاشی نقشہ بدل گیا اور معاشی ترقی روبہ زوال ہو گئی۔ اس لیے کہ وہ ایک پائیدار ترقی نہیں تھی۔ عالمی کمیشن برائے ماحول اور ترقی کے مطابق پائیدار ترقی وہ ہے جو آنے والی نسلوں کا مستقبل داؤ پر لائے بغیرحال میں بہتری لائے۔

پائیدار معاشی ترقی کا تصور تعلیم یافتہ اور پڑھے لکھے لوگوں کے بغیر ادھورا ہے۔ یہ تعلیم ہی ہے جومفید مہارتیں، نظریات، قدریں اور وہ تصورات سکھاتی ہے جن کی بنیاد پرمعاشرے میں شہریوں کی سوچ تشکیل پاتی ہے۔تعلیم ہی ایک عام معاشرے کو تعلیم یافتہ معاشرے میں بدل سکتی ہے اور اسی کی بنیاد پرعصرِ حاضر کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تخلیقی قسم کے جوابات ملتے ہیں۔

معاشی واقتصادی ترقی کیلئے بھی اگر جدید علوم، جدید ٹیکنالوجی اور تحقیق ومعلومات نہ ہوں تو آپ آگے نہیں بڑھ سکتے اس لئے ہمیں ہر شعبے میں جدید علوم حاصل کرنا بہت ضروری ہے چاہے وہ نیچرل سائنس ہو، انجینئرنگ وٹیکنالوجی ہو، میڈیکل و ہیلتھ سائنس ہو، ایگریکلچرل سائنس ہو یا سوشل سائنس ہو۔ ہمیں اپنی درس گاہوں میں ان تمام علوم اور انکی تمام ذیلی شاخوں پرحقیقی معنوں میں علم وتحقیق کے دروازے کھولنے ہونگے۔ یوں تو سائنس کی ہر شاخ اور انکی ذیلی شاخوں کی جدیدتعلیم اورآگاہی بہت ضروری ہے اور ہمیں ہنگامی بنیادوں پر ہر اس جدید علم کے حصول کو یقینی بنانا چاہیے جس سے پاکستانی معیشت بہتر اور ترقی یافتہ ہو۔

یہاں ایک اہم سوال ابھرتا ہے کہ کیا محض شرح خواندگی ہی ترقی کے امکانات بڑھانے کاباعث بنتی ہے؟اس سوال کاجواب نفی میں ہے کیونکہ صرف شرح خواندگی نہیں بلکہ معیارِ تعلیم ہے جو کہ پائیدار معاشی و سماجی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے اگر ہم پاکستان کے مرکزی دھارے کے سکولوں میں تعلیم کے معیار کا جائزہ لیں تو ہمیں تعلیمی عمل معروف ماہرِ تعلیم پالو فریرے کے Banking Concept of Knowledge کے مطابق نظر آتا ہے جہاں طلبہ خاموش سامعین کی طرح پیچھے بیٹھتے ہیں۔ اساتذہ معلومات طلبہ تک معلومات منتقل کرتے ہیں اورطلبہ اپنی یاد داشت کی بنیاد پر امتحانات میں یہ معلومات پرچے پر منتقل کر دیتے ہیں اور یوں اعلیٰ گریڈزحاصل کرلیتے ہیں۔ تدریس و تعلیم کایہ طریقہ کار اس وجہ سے ناقص ہے کہ یہ محض روبوٹ پیدا کرتا ہے جو فہم وفراست سے عاری ہوتے ہیں۔

سماجی اور معاشرتی ترقی کیلئے تعلیم کا کردار بے حد اہم ہے، تعلیم کو بہتر مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کیا جانا چاہئے، اعلیٰ کارکردگی کی بنیاد پر طلباء اور طالبات کی بلاامتیاز حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے۔تعلیم کا جامع تصور یہ ہے کہ اسے متعلمین کے علم، رویوں اور مہارتوں کو جِلا دینی چاہیے۔ تعلیم کا ایک اور بڑا مقصد جو کہ پائیدار ترقی کا ضامن ہے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ طلبہ میں آزادئِ فکر اور تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارا اور نکھارا جائے لیکن بدقسمتی سے یہ سوچ ہمارے مرکزی دھارے کے سکولوں میں خال خال ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ طلبہ کو تعلیم اس قدر توانا بنا دے کہ وہ سیکھے ہوئے علم کا نہ صرف نئی صورتحال میں اطلاق کرسکیں بلکہ اس کا مکمل ادراک بھی کر سکیں۔ تعلیم کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ وہ طلبہ میں تنقیدی سوچ کو پروان چڑھا سکے تاکہ وہ بحیثیت متعلمین نہ صرف معاشرے کے مرکزی دھارے میں شامل ہوسکیں بلکہ اس قدر جرات مند بھی ہوں کہ وہ معاشرے کے ممنوعات کو بھی للکار سکیں۔مگر ہم نے علم کے حصول کی طرف دھیان نہ دیا اور اغیار نے علم کی اہمیت اور افادیت کو سمجھا اسی لئے گذشتہ کئی صدیوں سے غیر مسلم تعلیمی میدان میں ہم سے بہت آگے رہے ہیں اور گذشتہ کئی صدیوں سے بے شمار جدید ایجادات کیلئے ہم غیر مسلم کے مرہون منت ہیں۔

ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ ترقی پذیراور یافتہ ممالک کے تعلیمی معیار میں تفاوت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں تعلیمی اداروں میں زیادہ تعداد میں اساتذہ فراہم ہی نہیں کئے جاتے نہ ہی وسائل دیئے جاتے ہیں جو معیاری تعلیم کے لئے ناگزیر ہیں،ٹیچر کو بھی بااختیار نہیں بنایا جاتا، اساتذہ کی عدم مشاورت سے حکومت بڑی بڑی پالیساں لے آتی ہے جو زمینی حقائق سے کوسوں دور ہوتی ہیں۔عالمی سطح پر انسانی ترقی ماپنے کا پیمانہ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس ہے،جس کی روشنی میں معاشرہ کی تعلیم، صحت اور فی کس آمدنی دیکھی جاتی ہے، لاکھوں بچوں اور بچیوں کو مدارس سے باہر رکھ کر معاشی ترقی کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعمیر نہ ہو سکے گا نجانے ارباب اختیار کی پہلی ترجیح شعبہ تعلیم کب ہوگی؟ جنوبی پنجاب کو دیگر علاقہ جات کے ہم پلہ لانے کا واحد راستہ اس خطہ میں بلا امتیاز تعلیمی ترقی کیلئے وسائل کی فراہمی اور نئے تعلیمی اداروں کا قیام ہے۔

آج وہی قومیں ترقی کررہی ہیں جنہوں نے روایتی شعبوں کے علاوہ اعلیٰ ٹیکنالوجی کی صنعتوں، تحقیق و نمو اور سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعلیم عام کی اور اس میں سرمایہ کاری کی ہے۔ یورپی ممالک تو ایک طرف رہے تھائی لینڈ، کوریا، ملائشیاء اور سنگاپور جیسے ممالک بھی تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں جدید علوم کے حصول اور اس پر سرمایہ کاری کرنے کی ہی وجہ سے آج دنیا میں اپنا ایک مقام بناچکے ہیں اور معاشی و اقتصادی طور پر ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہوچکے ہیں۔ ہم بھی اگر معاشی ترقی کی طرف اپنے ملک کو گامزن کرنا چاہتے ہیں تو اپنے ملک میں اعلیٰ ٹیکنالوجی کی صنعتوں، تحقیق و نمو اور سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعلیم کو عام کرنا ہوگا۔تاکہ ترقی کی منازل طے کرنے میں تعلیم تاریک راستوں میں مشعل کا کام کرے۔