اسلام خیر و فلاح اور امن و رحمت کا دین ہے

تحریم رفعت

انسانیت دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے یہی وجہ ہے کہ مذاہب عالم میں انسانیت سب سے بلند ترین مذہب شمار ہوتا ہے۔ ادیان سماویہ میں دین اسلام کو عظمتِ انسانیت کا علمبردار اور کامل نمونہ مانا جاتا ہے۔ اسلام احترام انسانیت، شرف آدمیت اور بزرگی کا دین ہے۔ اسلام ہی نے جہالت و گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں گھری انسانیت کو اوصاف حمیدہ کا پیکر بنا کر بام عروج تک پہنچایا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو کائنات ہست و بود میں اپنا نائب اور خلیفہ بنا کر بھیجا تو اس میں اپنی صفات کے مظاہر کی خیرات بھی رکھی جس کی بدولت انسان میں ہمدردی، رحم دلی، اخلاق حسنہ اور اعلیٰ اوصاف کو جمع کر دیا۔ اگر انسانوں میں باہم ہمدردی، اخوت، بھائی چارہ اور ملنساری کا جذبہ مفقود ہو جائے تو انسان حیوانوں سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طلوع اسلام سے قبل انسانیت سسکتی اور دم توڑتی دکھائی دے رہی تھی۔ انسانی جان اتنی ارزاں تھی کہ اسی بلا خوف و خطر معمولی باتوں پر بہا دیا جاتا تھا تو کبھی کسی حیوان یا دیوتا کی رضا اور خوشنودی کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا تھا۔ اسی اثناء میں انسانیت پر اللہ رب العزت نے اپنا فضل کیا اور رہبر انسانیت کی صورت اپنے حبیب مکرم حضرت محمد مصطفی ﷺ کو جمیع انسانیت کیلئے سراپا رحمت بنا کر مبعوث فرمایا۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان عالی شان ہے:

وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَ رَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ وَ فَضَّلْنَاهُمْ عَلَی کَثِیرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیلاً.

(الاسراء، 70: 17)

اور بیشک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری (یعنی شہروں اور صحراؤں اور سمندروں اور دریاؤں) میں (مختلف سواریوں پر) سوار کیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور ہم نے انہیں اکثر مخلوقات پر جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے فضیلت دے کر برتر بنا دیا۔

تکریم انسانیت سے مراد کسی بھی بنی نوع انسان کو بلاتفریق مذہب و قوم، رنگ و نسل اور ذات پات کی تفریق و تقسیم سے بالا تر ہو کر شرف و عزت اور لائق تحسین ماننا ہے۔ چونکہ شرف انسانی کا مطلب ہی احترام انسانیت اور تکریم آدمیت ہے لہٰذا دنیا کا ہر فرد قابل احترام ہے۔ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسانوں کی دل آزاری اور ایذا رسانی سے منع فرماتے ہوئے حقوق انسانی کے تحفظ و فروغ کی تعلیم اور حکم ارشاد فرمایا ہے۔آپ ﷺ نے بڑوں سے ادب اور چھوٹوں سے شفقت سے پیش آنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔

رسالت مآب ﷺ کی بعثت مبارکہ کے بعد انسانیت کو وقار اور عظمت نصیب ہوئی۔ انسانیت پر پڑے ظلمت و تاریکی کے بادل چھٹ گئے۔ زندگی کو شعور اور سلیقہ اور معاشروں کو ڈھنگ سے جینے کا قرینہ عطا ہوا۔ جاہلانہ رسوم و رواج کا قلع قمع ہوا اور انسانی تہذیب و تمدن کو پروان چڑھنے کا موقع ملا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے مخلوق خدا کو انسانیت کے حقیقی معنی و مفاہیم سے روشناس کروایا اور انسانوں کو رب کے حضور جبین نیاز جھکانے کا شرف نصیب ہوا۔ آپ ﷺ نے جمیع مخلوقات کو اللہ تعالیٰ کا عیال کہہ کر پیغام سنایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ مخلوق سب سے زیادہ محبوب ہے جو اللہ کے عیال یعنی مخلوق خدا کے کنبہ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! کوئی بندہ مومن نہیں ہوتا یہاں تک کہ اپنے ہمسائے کیلئے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ (متفق علیہ)۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا، جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے، جو اپنے لیے کرتا ہے۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا کہ تم میں سے بہتر وہ لوگ ہیں جو دوسروں کیلئے فائدہ مند ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے ایک انسان کا قتل جمیع انسانیت کا قتل اور انسانی خون کو کعبہ کی حرمت سے بھی مقدم قرار دیا ہے۔

نبی رحمت ﷺ نے تکریم انسانیت اور احترام آدمیت سکھانے کیلئے تمام مسلمانوں کو آپس میں بھائی بھائی قرار دیا اور ارشاد فرمایا کہ تمام مسلمان آپس میں ایسے شیر و شکر، اتفاق و اتحاد اور یگانگت سے رہیں جس طرح ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ہوتی ہیں۔ حسن معاشرت کے قیام کیلئے نبی اکرم ﷺ نے رنگ و نسل کی تفریق سے بالاتر ہو کر اسلامی تعلیمات کو مقدم و محترم رکھا تاکہ لوگ اسلامی تعلیمات کو فوقیت دیتے ہوئے نسلی و قبائلی تفاخر کو بھلا کر دوسرے مسلمان بھائی کے ساتھ مضبوط و مربوط رشتے میں پیوست ہو کر رہیں۔ انسانی تکریم کے اسی اصول کے تحت سیدنا بلال حبشی رضی اللہ عنہ جنہیں عرب کے مغرور و متکبر سرداران سیاہ رنگ ہونے اور اعلیٰ نسب و حسب نہ ہونے کی وجہ سے کم تر اور حقیر سمجھتے تھے حضور نبی اکرم ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر پورے عرب معاشرے کے سامنے خانہ کعبہ کی چھت کے اوپر کھڑا کیا اور آذان دینے کا حکم فرمایا جس سے انسانیت کو بلا تفریق رنگ و نسل تکریم ملی۔ احترام انسانیت کا ایسا مظاہرہ دیکھ کر عرب کے امراء کفار و مشرکین حیران رہ گئے۔

اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو مختلف اوصاف و کمالات اور صلاحیتوں سے نوازا ہے، انسانوں کے پیشے الگ، زبان اور بولیاں الگ، رنگ نسل الگ، مذہب و قوم الگ ہیں مگر شرف انسانی میں تمام انسان برابر ہیں۔ یہی حسنِ کائنات اور حق تعالیٰ کی کرشمہ سازیاں ہیں۔چونکہ اسلام جمیع انسانیت کیلئے خیر و فلاح اور امن و رحمت کا دین ہے، اسلامی نظام عدل میں بھی انسانیت کیلئے برابری کا تصور ہے۔ عہد رسالت مآب ﷺ میں بنی مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی جس پر اہل قریش نے معافی کیلئے سفارش پیش کرنا چاہی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قوم بنی اسرائیل میں جب کوئی معزز جرم کرتا تھا تو چھوڑ دیا جاتا تھا لیکن جب کوئی کمزور کوئی جرم کرتا تھا تو اسے سزا دی جاتی تھی اگر آج فاطمہ بنت محمد (سلام اللہ علیہا)نے بھی چوری کی ہوتی تو اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ قانون عدل و انصاف میں انسانیت ہی عظیم اور بلند تر ہے۔ اسلام جنگ و امن ہر صورت میں ظلم و جبر کی ممانعت کی تعلیم دیتا ہے۔ اسی وجہ سے جنگ کے دوران بھی عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے، بستیوں کو جلانے حتیٰ کہ درخت کاٹنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔

رہبر انسانیت ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع میں واضح طور پر پیغام دیا کہ تمام انسان آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور آدم علیہ السلام مٹی سے تخلیق کیے گئے تھے، کسی عربی کو عجمی پر، کسی گورے کو کالے پر، کسی امیر کو غریب پر ذات قبیلے یا رنگ و نسل کی وجہ سے کوئی برتری یا فوقیت حاصل نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بلندی کا معیار تقویٰ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسان کے مقصد تخلیق کو معدہ و مادہ سے نہایت بلند عظیم قرار دیا کہ صرف کھانا پینا اور مال و دولت جمع کرنا انسان کی تخلیق کا مقصد نہیں ہے بلکہ حقوق اللہ کی بجاآوری کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی پاسداری بھی شعائر انسانیت اور مقصد تخلیق انسان کا جزو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نہ صرف انسان کی زندگی میں اسے عظمت و بزرگی کے لائق سمجھتا ہے بلکہ مرنے کے بعد بھی چاہے وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو انسان ہونے کے ناطے احترام و اکرام کے قابل سمجھتا ہے۔ بلکہ یوں کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ اسلام جانوروں کے ساتھ بھی حسن سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور انہیں ایذا و تکلیف پہنچانے کی ممانعت کرتا ہے۔

احترام انسانیت کے ناطے عورت بھی لائق احترام ہے۔ اگر تخلیق انسانی پر غور کیا جائے تو تمام انسان حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت اماں حوا علیہا السلام کی اولاد ہیں۔ یہی تمام انسانوں کے والدین ہیں جن سے انسانی نسل کی ابتداء ہوئی۔ انسان ہونے کے ناطے مرد اور عورت دونوں برابر ہیں لہٰذا شرف و تکریم میں بھی دونوں برابر کے مستحق ہیں۔ اسلام نے عورتوں کے ساتھ رعائت و احسان کا معاملہ برتنے کا حکم دیا ہے۔ مرد کو زیادہ یا عورت کو کم عزت و احترام والا تصور کرنا عقل و دانشمندی ہرگز نہیں ہو سکتا۔ اسلام نے قانون انسانیت کی رو سے مرد و خواتین کو بنیادی حقوق عطا کیے ہیں۔ ادیان عالم میں جو عزت و تکریم اور حقوق نسواں اسلام نے عطا کیے ہیں وہ اتنے فقید المثال ہیں کہ جنت کو بھی ماں کے قدموں کے نیچے کہا گیا ہے۔ اسلام نے عورت کو ماں، بہو، بہن بیٹی کے روپ میں جہاں فرائض منصبی مقرر فرمائے ہیں وہیں ان کے حقوق بھی متعین کیے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے عورت کو انسانوں کے بنائے ہوئے خود ساختہ معاشرتی و سماجی قوانین اور رسم و رواج کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ معاشرے میں عورت کو حقیر اور مرد کو عظیم سمجھا جاتا ہے۔ عورتوں کو وراثت میں بھی حصہ دار نہیں سمجھا جاتا۔ بعض معاشروں میں جہالت اور کم علمی کے باعث لڑکی کی پیدا کو باعث شرم سمجھا جاتا ہے جبکہ لڑکے کی پیدائش پر شادیانے اور جشن منائے جاتے ہیں۔

محسن انسانیت ﷺ نے لڑکی کی پیدائش کو رحمت پروردگار فرمایا ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ ایک بار جب آپ کی رضائی والدہ سیدہ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا جب تشریف لائیں تو رسالت مآب ﷺ استقبال کیلئے کھڑے ہو گئے اور اپنی کملی مبارک بچھا کر سیدہ حلیمہ سعدیہ کو بٹھایا۔ احادیث مبارکہ میں درج میں ہے جب سیدہ فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا سے رسول اللہ ﷺ ملتے تو آپ کے ہاتھ چومتے تھے۔ صحابی رسول بارگاہ نبوی میں تین مرتبہ دست سوال دراز کیا کہ میرے حسن سلوک کا سب سے بڑھ کر حقدار کون ہے؟ آپ ﷺ نے تینوں مرتبہ ارشاد فرمایا کہ تیری ماں۔ والدین کیلئے آپ ﷺ کا فرمان ذیشان ہے کہ جس نے دو بیٹیوں کی اچھی تعلیم و تربیت کی تو وہ شخص اور میں اکٹھے جنت میں داخل ہونگے۔

آج معاشرے میں تکریم انسانیت اور احترام آدمیت کی اشد ضرورت ہے۔ انسان نما درندے جب معصوم بچوں اور پیکر عصمت حیاء حوّا کی بیٹیوں کی آبرو ریزی کرتا، درندگی اور سفاکی کی حدوں کو پار کرتے ہوئے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے تو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا معاشرہ احترام انسانیت کے باب میں حیوانوں سے بھی بدتر نظر آتا ہے۔ عزتوں کی پامالی، ذاتی مفاد و عناد کی خاطر دوسروں کی تحقیر، ہتک آمیز رویہ، گالی گلوچ، چوری، بدکاری جیسے دیگر افعال سمیت معاشرہ تنزلی کی پستوں میں جا چکا ہے۔

ہمیں حسن معاشرت اور تکریم انسانیت کا علمبردار اور عملی پیکر بننا ہوگا۔ ہمیں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہے جس سے انسانیت کا مذہب سب سے بلند ہو، جہاں ہر انسان کے اندر خیر اور بھلائی کا جذبہ کارفرما ہو، جہاں انسان دوسرے انسان کیلئے ایسی خیر چاہتا ہو کہ خود تو بھوکا رہنا گوارہ کر لے مگر دوسرے بھائی کو اپنے حصہ کا کھانا کھلائے۔ دوسروں کیلئے جذبہ خیر سگالی، عمل خیر و فلاح اور ہمدردی و غمگساری کی بدولت ہی انسان کو اشرف المخلوقات کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل امن کا داعی، تکریم انسانیت و احترام آدمیت کا سفیر اور معاشرے کیلئے خیر و فلاح کا باعث بنائے۔ آمین