علم کا حصول مرد اور عورت دونوں پر فرض ہے

ڈاکٹر زیب النساء

’’تعلیم نسواں‘‘ دو الفاظ کا مرکب ہے، تعلیم اور نسواں۔ تعلیم کا مطلب ہے ’’علم حاصل کرنا‘‘۔ نسواں ’’نسا‘‘ سے ہے۔ جس کا مطلب ہے عورتیں۔ گویا تعلیم نسواں سے مراد عورتوں کی تعلیم ہے۔ علم اور تعلیم دونوں کی اہمیت اپنی اپنی جگہ مسلم ہے۔

تاریخ مذاہب کے مطالعہ سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو تخلیق فرماکر جنت میں ٹھہرایا۔ حضرت آدمؑ نے تمام نعمتوں کے موجود ہونے کے باوجود تنہائی و کمی محسوس کی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت حواؑ کو پیدا فرمایا۔ گویا عورت کا وجود کائنات کی تکمیل کرتا ہے۔

اگر بزم ہستی میں عورت نہ ہوتی
خیالوں کی رنگین جنت نہ ہوتی

ستاروں کے دلکش فسانے نہ ہوتے
بہاروں کی نازل حقیقت نہ ہوتی

ہر اک پھول کا رنگ پھیکا سا رہتا
نسیم بہاروں میں نکہت نہ ہوتی

خدائی کا انصاف خاموش رہتا
سنا ہے کسی کی شفاعت نہ ہوتی

عورت اس کائنات کا جمال و شاہ کار اور دلکش وجود ہے۔ وہ گردش لیل ونہار کا ایک حسین اور کیف آور نغمہ ہے۔ جس کے دم سے حیات قائم ہے۔ عورت کے بغیر انسانی نسل کا استحکام اور نشوونما ناممکن ہے۔ بقائے حیات و معاشرے کا قیام و استحکام، جسمانی و روحانی آسودگی عورت ہی کے باعث ہے۔ عورت ماں کے روپ میں بے لوث محبت و شفقت و ہمدردی اور ایثار و قربانی کی انمول داستان ہے۔ عورت بیوی کی صورت میں خلوص، وفاداری اور چاہت کا حسین افسانہ ہے۔ عورت بہن کی شکل میں اللہ تعالیٰ کی بہترین نعمت ہے۔ تو بیٹی کے روپ میں خدا کی رحمت۔ سچ تو یہ ہے کہ عورت انسانیت کی عزت ہے۔

جس کے زلف و رخ سے ہے تشریح صبح و شام کی
الغرض عورت ہے اک جامع کتاب کائنات

مذہب اسلام نے عورت کو مرد کے برابر مقام و مرتبہ عطا فرماکر اس کی حیثیت متعین کردی ہے بلکہ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ اسلام نے عورت کو تحت الثریٰ سے اٹھا کر فوق الثریٰ تک پہنچادیا ہے۔

علم دلکش داستان اور بے مثال کہانی ہے۔ یہ لامحدود موضوع ہے۔ ایک جامع مضمون ہے جو ہر شے کے ہر پہلو کا احاطہ کیے ہوئے ہے یہ وہی طاقت و قوت جس نے دربار خداوندی میں انسان کی فضیلت فرشتوں پر ثابت کی ہے:

جو پایا علم سے پایا بشر نے
وہ پایا فرشتوں نے بھی نہ پایا

علم ایک لازوال دولت ہے جو تقسیم کرنے سے کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہے۔ یہ وہ روشنی ہے جو جہالت کی تاریکی کو مٹاتی ہے۔ یہ وہ زرخیز زمین ہے جس کے پھولوں اور پھلوں کی کوئی گنتی کوئی شمار نہیں۔ یہ وہ سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں۔ یہ وہ طاقت ہے جو انسان کو خود شناسی اور خدا شناسی سکھاتی ہے۔

علم کا عمل تعلیم سے مکمل ہوتا ہے۔ تعلیم کے ذریعے ایک نسل اپنا تہذیبی اور تمدنی ورثہ دوسری نسل کو منتقل کرتی ہے۔ اس مقصد کے لیے ہر سوسائٹی اپنے تہذیبی مسائل اور تمدنی حالات کے مطابق ادارے قائم کرتی ہے اور ہر ادارے کی اپنی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ وہ قوم اور ملک کی توقعات پر پورا اترے۔ لیکن ایک چیز سب میں مشترک ہے کہ پچھلی نسل اگلی نسل کو اپنے سارے تجربات منتقل کرے بلکہ یہی نہیں پوری انسانیت کے تجربات اور علوم پوری طرح منتقل کرے تاکہ اقوام عالم کے شانہ بشانہ زندگی کی دوڑ میں شریک ہوا جاسکے۔

مذہب اسلام کو دیگر مذاہب کے مقابلے میں ایک امتیاز یہ بھی حاصل ہے کہ یہ حصول علم پر زور دیتا ہے۔ قرآن حکیم میں تقریباً پانچ سو کے لگ بھگ مقامات پر بلاواسطہ یا بالواسطہ حصول علم کی اہمیت اور فضیلت بیان کی گئی ہے۔ پھر یہ مذہب مرد کی طرح عورت کے لیے بھی تعلیم کا حصول لازم قرار دیا ہے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:

طلب العلم فریضة علی کل مسلم و مسلمة.

(صحیح بخاری)

’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے‘‘۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن حکیم میں اس دعا کی ہدایت فرمائی گئی ہے:

رَبِّ زِدْنِیْ عِلْما.

(طه: 114)

’’اے میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما‘‘۔

یوں گویا بالواسطہ طور پر مسلمانوں کے حصول علم کی رغبت و تعلیم دی گئی ہے۔ ایک اور مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علم و حکمت کو مومن کی گمشدہ متاع قرار دیا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مردوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ عورتوں کی تعلیم و تربیت کا خاص اہتمام فرمایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دن عورتوں کی تعلیم و تربیت کے لیے بھی مخصوص فرمارکھا تھا۔ ازواج مطہرات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دین کی باتیں سیکھ کر دیگر مسلمان خواتین کو سکھاتی تھیں۔ یوں دین کی تعلیم عورتوں تک بھی باقاعدہ پہنچتی رہی۔

بدقسمتی سے اسلامی تعلیمات کی ادھوری تفہیم اور انہی معاشرتی رسوم و رواج میں خلط ملط کرنے کے باعث خواتین کو ماضی میں علوم کے ذرائع اور تابع تک آزادانہ رسائی کا حق حاصل نہیں رہا۔ جس کی وجہ سے وہ نسل در نسل زیور تعلیم سے محروم رہیں اور اگر انہیں گھر میں بھی دین کی تعلیم دی گئی تو وہ بھی اس معیار کی نہ تھی جس سے دین اسلام کا صحیح مفہوم انہیں معلوم ہوسکے اور وہ نئی نسل کی تربیت صحیح انداز میں کرسکیں۔

یہ بات خصوصاً برصغیر پاک و ہند کی مسلم خواتین پر صادق آتی ہے۔ انہوں نے اسلام کی تعلیمات کو صحیح طرح نہ سمجھایا انہیں سمجھایا ہی نہ گیا اور انہوں نے مغربی تہذیب کی پیروی کرنا شروع کردی۔ جدید مغربی تعلیم مسلمان عورت کے لیے موزوں نہیں کہ یہ اسے اس کے اصل فرائض سے پہلو تہی پر اکساتی ہے۔

سر سید احمد خان کو بجا طور پر جدید تعلیم کا محرک و داعی سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ عورتوں کے لیے جدید مغرب زدہ تعلیم کو نقصان دہ سمجھتے ہیں وہ لکھتے ہیں:

’’اے میری بہنو! میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم اپنا پرانا تعلیمی طریقہ اختیار کرنے کی کوشش کرو وہی طریقہ تمہارے لیے دین اور دنیا میں بھلائی کا پھل دے گا اور کانٹوں میں پڑنے سے محفوظ رکھے گا۔ تمہارا فرض ہے کہ تم اپنے ایمان اور اسلام سے واقف ہو اور اس کی نیکی اور خدا کی عبادت کی خوبی کو تم جانو، اخلاق کی نیکی اور نیک دلی، رحم و محبت کی قدر سمجھو اور ان باتوں کو برتاؤ میں لاؤ۔ گھر کا انتظام اپنے ہاتھ میں رکھو، اپنے گھر کی مالکہ رہو۔ اس پر مثل شہزادی کے حکومت کرو اور مثل ایک لائق وزیر زادی کے منتظم رہو‘‘۔

سر سید احمد خان نے اس گفتگو میں خواتین کے طریقہ تعلیم، لازمہ تعلیم اور استعمال کا بہترین نقشہ کھینچا ہے۔ علامہ نے انہی خیالات کو یوں پیش کیا ہے:

لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ

روش مغرب ہے مد نظر
وضع مشرقی کو جانتے ہیں گناہ

یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ

علامہ اقبال نے اور کئی دیگر رہنما و شعرا نے عورت کو اسلامی اقدار کے مطابق حصول علم پر اکسایا ہے۔ مثلاً مولانا کی اپنی نظم ’’چپ کی داد‘‘ میں عورت میں حصول تعلیم کے احساس کو بیدار کرنے کے لیے یوں گویا ہیں:

اے بے زبانوں کی زبانو، بے بسوں کی بازؤ
تعلیم نسواں کی مہم جو تم کو اب پیش آئی ہے

یہ مرحلہ آیا ہے تم سے پہلے جن قوموں کو پیش
منزل پہ گاڑی ان کی استقلال نے پہنچائی ہے

درحقیقت تعلیم ہی وہ زیور ہے جس سے عورت اپنے مقام سے آگاہ ہوکر اپنا اور معاشرے کا مقدر سنوار سکتی ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ کچھ بزرگ تعلیم نسواں کے متعلق بڑی غلط فہمی رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تعلیم صرف لڑکوں ہی کو دینا ضروری ہے۔ تعلیم صرف روزگار کے لیے چاہیے۔ اس میدان میں صرف مردوں کو آنا چاہیے۔ عورتیں صرف باورچی خانے کے لیے پیدا ہوئی ہیں اور ان کی زندگی باورچی خانے سے شروع ہوکر دستر خوان پر ختم ہوجاتی ہے۔

اک مرد پیر بولے یہ عورت کی ذات ہے
’’اے مومنو! پڑھانا اسے واہیات ہے‘‘

میں نے کہا ’’عائشہ صدیقہؓ ہیں‘‘
ادیب بولے کہ ’’ آپ چپ رہیں، یہ اور بات ہے‘‘

لیکن اس طرح کی باتیں ہرگز درست نہیں۔ عورتیں بھی انسان ہیں۔ علم کی روشنی انسان کو جینا سکھاتی ہے۔ تاریخ اسلام میں بے شمار ایسی مثالیں موجود ہیں جب علم کی روشنی کی وجہ سے خواتین کی ہمت و جرات اور تدبر و فراست سے بڑے بڑے انقلابات ظہور پذیر ہوئے۔ مثلاً حضرت موسیٰؑ کی والدہ اور زوجہ فرعون حضرت آسیہؑ کی مثال قرآن میں موجود ہے۔ حضرت آسیہ نے حضرت موسیٰؑ کو فرعون کے ظلم و ستم سے محفوظ رکھ کر اپنی آغوش میں پروان چڑھایا۔ زوجہ رسول مکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت خدیجہؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شادی کے بعد اپنی تمام دولت خدمت اسلام کے لیے وقف کردی۔ ایسے ہی بنت رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمہؓ نے آغوش میں حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ جیسے سپوت پروان چڑھائے۔

حضرت امام حسنؓ نے دو گروہوں میں صلح کرواکر ملت کو خون خرابے سے بچایا اور حضرت امام حسینؓ نے جان قربان کر اسلام کی حفاظت کی۔ عالم اسلام کی عظیم ترین شخصیت عبدالقادر جیلانی کی ماں ہی تھی کہ جن کی تربیت کا اثر تھا کہ بچپن میں آپ کے دست مبارک پر ڈاکوؤں نے توبہ کی۔ اگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو برصغیر پاک وہند کے بادشاہ جہانگیر کی ملکہ نور جہاں ایک پڑھی لکھی خاتون ہونے کے ساتھ ساتھ امور خانہ داری میں بھی ماہر تھیں۔ وہ نت نئے لباس تیار کروانے میں خاص مہارت رکھتی تھیں۔ کئی خوشبوئیں انہوں نے ایجاد کیں علاوہ ازیں شعرو ادب میں بھی ان کے تخیل کی پرواز بلند تھی۔ اپنے خاوند جہانگیر کو بھی مشوروں سے نوازتی تھیں۔ ملکی امور میں ان کے مشوروں سے گراں قدر ترقی کی راہیں ہموار ہوئیں۔ اسی طرح چاند بی بی، رضیہ سلطانہ، برطانیہ کی وزیراعظم تھیچر، ترکی کی وزیراعظم تالسولیز، برطانیہ کی ملکہ الزبتھ اور پاکستان کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو وغیرہ شامل ہیں۔ یہ خواتین اپنے نام تاریخ میں روشن حروف میں درج کرواچکی ہیں۔

جاننا چاہیے کہ مرد اور عورت زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ اگر ایک پہیہ تعلیم میں کافی آگے ہو اور دوسرا پنکچر ہو تو زندگی کا چکر تیز رفتاری سے نہیں چل سکتا اور گاڑی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتی۔ کوئی معاشرہ اور کوئی قوم اس وقت تک شاہراہ ترقی پر گامزن نہیں ہوسکتی جب تک مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی زیور تعلیم سے آراستہ نہ کیا جائے۔

کسی دانا کا قول ہے کہ ماں کی گود بچے کی پہلی درس گاہ ہے۔ بچہ جو کچھ اس درس گاہ سے سیکھتا ہے وہ اس کی آئندہ زندگی پر بہت اثر انداز ہوتا ہے۔ بچے کی بہترین تربیت کے لیے ماں تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے۔ مفکرین کی رائے ہیں:

’’مرد کی تعلیم ایک فرد کی تعلیم ہے، جبکہ عورت کی تعلیم ایک خاندان کی تعلیم ہے‘‘۔

فرانس کے مشہور بادشاہ نپولین کا قول ہےـ:

’’ آپ مجھے اچھی مائیں دیں، میں آپ کو بہترین قوم دوں گا‘‘۔

یہ حقیقت ہے کہ ہر کامیاب شخص کے پیچھے کسی عورت کا ضرور ہوتا ہے۔ خواہ وہ سکندر اعظم کی ماں ہو یا شیوا جی کی جیجا ماتا۔ انگریزی زبان میں اس کا مفہوم یوں ادا کیا ہے۔

"The hand that rock the craddle rule the world"

’’جو ہاتھ جھولا جھولاتے ہیں۔ یقینا وہی ہاتھ اس دنیا پر راج کرتے ہیں‘‘۔

علامہ اقبال کے فارسی شعر کا مفہوم ہے:

’’قوموں کو کیا پیش آچکا ہے؟ کیا پیش آسکتا ہے؟ اور کیا پیش آنے والا ہے یہ سب ماؤں کی جبینوں سے دیکھا جاسکتا ہے‘‘۔

گھر کی مثال ایک چھوٹی سی سلطنت جیسی ہے جس میں خاوند بادشاہ اور بیوی اس کی وزیر ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ بادشاہ تنہا اپنی سلطنت کا انتظام وانصرام نہیں سنبھال سکتا۔ اسے لازماً اپنے وزیر سے بھی مدد لینا پڑتی ہے۔ بادشاہ خواہ کتنا ہی منظم اور لائق کیوں نہ ہو اگر اس کا وزیر عقل مند اور مدبر نہ ہو تو وہ سلطنت کے امور میں بادشاہ کو صحیح مشورہ نہ دے پائے گا اور ایسی سلطنت بدنظمی کا شکار ہوکر رہ جائے گی۔ پھر اس کا زوال بھی یقینی ہوگا۔ لہذا گھریلو سلطنت کے انتظام کو چلانے کے لیے عورت کا تعلیم یافتہ ہونا انتہائی ضروری ہے۔

کسی بھی گھر کا نظام درست انداز میں چلانے کے لیے گھر کا بجٹ بنانا بہت ضروری ہے۔ ایک پڑھی لکھی عورت گھر کا حساب کتاب اچھے طریقے سے کرتی ہے۔ وہ کفایت شعار ہوتی ہے۔ وہ قرینے اور تربیت سے گھر کا نظام چلاتے ہوئے کچھ رقم بچا بھی لیتی ہے جو کہ مصیبت میں اس کے کام آتی ہے جبکہ ان پڑھ جاہل عورت ایسا نہیں کرسکتی۔ وہ حساب کتاب درست انداز میں نہیں کرسکتی۔ قدم قدم پر ٹھوکریں کھاتی ہے۔ مہینے کے آخر پر گھر میں جھگڑے ہوتے ہیں۔ جس کا منفی اثر معصوم بچوں کے ذہنوں پر پڑتا ہے۔ ایسی ماؤں کے بچے مفید شہری بننے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ یوں وہ ملکی ترقی میں مثبت کردار بھی ادا نہیں کرسکتے۔

بچوں کی مختلف بیماریوں سے حفاظت کے لیے اور صحت مندی یہ ضروری ہے کہ ماں حفظان صحت کے اصولوں سے پوری طرح آگاہ ہو اور یہ علم کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے۔ پڑھی لکھی عورت ان اصولوں سے باخبر ہوتی ہے۔ وہ گھر کے ماحول کو صحت مند رکھ سکتی ہے۔ لیکن ایک جاہل عورت صحت و صفائی کے اصولوں سے بے خبر ہوتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ غیر صحت مندانہ ماحول سے بچے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

مذہب کو انسانی زندگی میں خاص مقام حاصل ہے۔ مذہب کی بنیادی تعلیمات اور اہم مسائل سے آگاہی مرد کے ساتھ ساتھ عورت کے لیے بھی اشد ضروری ہے۔ دین ہی وہ کامیاب راستہ ہے جس پر چل کر انسان دنیوی و اخروی زندگی کو کامیاب و کامران بناسکتا ہے۔ پڑھی لکھی عورت مذہبی و دینی تعلیمات وسائل سے اچھی طرح آگاہی ہوتی ہے۔ وہ اپنی اولاد کی تربیت دینی اصولوں کی روشنی میں بہتر انداز میں کرسکے ملک و ملت کی تقدیر سنور سکتی ہے۔ بقول اقبال

یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی

لیکن ایک جاہل عورت دین و مذہب کی تعلیمات سے نا آشنا ہوتی ہے۔ وہ غیر سلیقہ شعار ہوتی ہے اور پھوڑ ہوتی ہے۔ لہذا وہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے فرائض بھی اچھے طریقے ادا نہیں کرسکتی۔ جان لاک کا کہنا ہے کہ

’’بچے کا ذہن ایک نادیدہ سلیٹ کی مانند ہے اور وہ جو اس پر رقم کردیا جائے وہ رقم تو ہوجاتا ہے لیکن مٹایا نہیں جاسکتا‘‘۔

موجودہ دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ دنیا ایک عالمی گاؤں میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اب وہی قوم یا ملک جہان پر حکمرانی کرسکتا ہے جو علم اور ٹیکنالوجی میں آگے ہے۔ اگر کسی ملک کی نصف آبادی یعنی خواتین پسماندہ ہوں گی۔ تو وہ قوم کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتی۔ لہذا عورتوں کے لیے تعلیم کا حصول اور واقفیت عامہ یا معلومات عامہ کا جاننا نہایت ضروری ہوچکا ہے۔ آج کی دنیا نہایت تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی منازل طے کررہی ہے۔ اس لیے ایک پڑھی لکھی عورت ہی اس نئے ماحول سے مطابقت پیدا کرسکتی ہے۔

ایک تعلیم یافتہ عورت اپنا مافی الضمیر آسانی سے دوسرے تک پہنچاسکتی ہے۔ وہ اپنی رائے کا اظہار بہتر طریقے سے کرسکتی ہے۔ ایک تعلیم یافتہ عورت ملکی ترقی کے لیے اپنا کردار بہتر طریقے سے ادا کرسکتی ہے۔ وہ اپنے خاندان اور معاشرتی ذمہ داریوں سے آگاہ ہوتی ہے۔ جبکہ غیر تعلیم یافتہ عورتیں مفید شہری ثابت نہیں ہوسکتیں۔

عورتوں کی تعلیم کے لیے جو علوم درکار ہیں وہ مردوں کے مضامین سے یکسر مختلف ہیں۔ مثلاً سب سے پہلے عورت کے لیے مذہب اور امور خانہ داری کی تعلیم ضروری ہے۔ کیونکہ اس شعبے کا عورت کی زندگی سے براہ راست تعلق ہے۔ اس کے علاوہ اسے دست کاری سکھائی جائے تاکہ بوقت ضرورت وہ اس فن سے فائدہ بھی اٹھا سکے۔ اسے اخلاقیات کی تعلیم دی جائے تاکہ وہ بچوں کی تربیت بہتر طریقے سے کرسکے۔

روزمرہ سائنس اور بچوں کی نفسیات کی تعلیم دی جائے۔ نیز ان کے نصاب میں ان کی عملی زندگی کی ضروریات کو شامل کیا جائے۔ زبان کی تعلیم دینا بھی اہم ہے۔ ضروری نہیں کہ عورت پڑھ لکھ کر ڈاکٹر، انجینئر یا پائلٹ ہی بنے۔ عورت کی اولین ذمہ داری اس کا گھر ہے۔ وہ پڑھی لکھی ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے روپ میں اپنی ذمہ داریوں کو زیادہ بہتر طریقے سے نبھا سکتی ہے۔

’’جنت ماں کے قدموں تلے ہے‘‘۔

یعنی ماں کی خدمت کرکے جنت کا حق دار بنا جاسکتا ہے اور یہ سنت تب ہی ممکن ہے جب عورت پڑھی لکھی ہو۔ خود سے آشنا ہو اور رب شناس ہو۔ کچھ پیشے ایسے ہیں جو عورتوں کے مزاج اور طبیعت سے خاص مناسبت رکھتے ہیں۔ مثلاً ڈاکٹری یا نرسنگ اورمذہبی و دنیوی تدریس کے شعبے۔ بطور ڈاکٹر عورت مریض کی بہتر دیکھ بھال کرسکتی ہے۔ بطور نرس مریضوں کی مرہم پٹی اور دیکھ بھال احسن طریقے سے سرانجام دے سکتی ہے۔ بطور مذہبی و دنیوی استاد نئی نسل کی بہترین تربیت کرکے قوموں اور ملتو ںکی تقدیر بدل سکتی ہے۔ یہاں اس امر کا ذکر بے جانہ ہوگا کہ ہماری حکومتوں نے مخصوص معاشرتی رجحانات کے پیش نظر خواتین کے لیے مردوں سے جدا یونیورسٹیاں اور دیگر پیشہ وارانہ اداروں کے قیام کا اہتمام کیا ہے۔ اس ضمن میں فاطمہ جناح یونیورسٹی، فاطمہ جناح میڈیکل کالج اور لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ لڑکوں کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی انہیں اوپن میرٹ پر داخلے کے حقوق میسر ہیں۔ ان تعلیمی اداروں میں بھی پوسٹ گریجوایٹ سطح پر طالبات بھاری اکثریت میں موجود ہیں لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ تعلیم نسواں کے لیے بہت کچھ کرلیا گیا ہے۔