خدا کو کیوں مانیں؟ اور مذہب کو کیوں اپنائیں؟

مرتبہ: مریم اقبال

اَلَمۡ تَرَوۡا اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَلَکُمۡ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ وَ اَسۡبَغَ عَلَیۡکُمۡ نِعَمَهٗ ظَاهِرَۃً وَّ بَاطِنَۃً ط وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یُّجَادِلُ فِی اللّٰهِ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ وَّ لَاهُدًی وَّ لَا کِتٰبٍ مُّنِیۡرٍ.

(لقمان، 31: 20)

(لوگو!) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے تمہارے لئے ان تمام چیزوں کو مسخّر فرما دیا ہے جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں، اور اس نے اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں تم پر پوری کر دی ہیں۔ اور لوگوں میں کچھ ایسے (بھی) ہیں جو اللہ کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں بغیر علم کے اور بغیر ہدایت کے اور بغیر روشن کتاب (کی دلیل) کے۔

اللہ رب العزت نے قرٓن مجید میں ارشاد فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ لوگو! کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ رب العزت نے تمہارے لیے چیزوں کو مسخر بنا دیا ہے، یعنی کیا تم نے یہ نہیں دیکھا کہ اللہ رب العزت نے کائنات کی جملہ موجودات کو ایک خود کار نظام کے ذریعے تمہارے اوپر مسخر کر دیا ہے، اور ایسی نعمتیں بھی ہیں جن سے تم فیضیاب ہوتے ہو لیکن تم انہیں دیکھ نہیں سکتے۔ اور فرمایا کہ لوگوں میں کچھ ایسے بھی جو اللہ کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں، اور جھگڑا بھی بغیر علم و تحقیق، ہدایت اور بغیر روشن کتاب کے کرتے ہیں۔ اور نہ ان کے پاس کوئی قطعی دلیل ہے نہ ہی علم و دانش۔ اور ایسے لوگ بھی ہیں جن کو اللہ رب العزت نے کتاب دی، روشن ہدایت دی اور حبیب ﷺ یہ مبارک کتاب ہم نے آپ کی طرف نازل کی ہے تاکہ لوگ اس میں تدبر کریں۔ اور اس کتاب کے اندر مخفی حقیقتوں کو جانیں۔

اللہ رب العزت نے دراصل اس آیت کے ذریعے پیغام یہ دیا ہے کہ جنہوں نے جاننا ہو کہ اللہ کہاں ہے وہ کیا ہے، تو وہ دائیں بائیں کسی جانب نہ دیکھے اور نہ ہی کسی گمان پر بھروسہ کرے بلکہ اللہ کی کتاب کی طرف آجائے اسے اس کا پتہ مل جائے گا۔ اور دین کو کیوں اپنائیں اسے اس سوال کا جواب بھی قرآن مجید سے مل جائے گا۔

بعض ذہنوں میں یہ خیال آتا ہے کہ اگر خدا ہے تو کہاں ہے اس کا پتہ کیا ہے؟

اللہ پر جتنا یقین کامل ہوتا جائے گا اتنا ہی انسان اللہ سے جڑتا چلا جائے گا اور اتنا ہی بندہ اللہ کے قریب ہوتا چلا جائے گا اور بندے پر اس کی بندگی کا رنگ چڑتا چلا جائے گا۔

پتہ اس شخص کا ہوتا ہے جو صرف ایک جگہ موجود ہو، اس کا پتہ نہیں ہوتا جو ہر جگہ پر موجود ہوتا ہے۔ جس کے احاطے میں زمین و آسمان کی ساری کائنات ہو اس کا پتہ کہیں نہیں ہوتا۔

جو حقیقت ہر جگہ ہوتی ہے اس کا پتہ نہیں ہوتا۔ جیسے خون جسم میں ہر جگہ گردش کرتا ہے تو اس کا کوئی ایک پتہ نہیں ہوتا۔ جیسا کہ آپ کے جسم میں سیل (خلیہ) ہیں تو ان کو بھی کوئی پتہ نہیں ہوتا۔

اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں فرمایا:

وَ لِلّٰهِ الۡمَشۡرِقُ وَ الۡمَغۡرِبُ فَاَیۡنَمَا تُوَلُّوۡا فَثَمَّ وَجۡهُ اللّٰهِ ط اِنَّ اللّٰهَ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ.

(البقرة، 2: 115)

اور مشرق و مغرب (سب) اللہ ہی کا ہے، پس تم جدھر بھی رخ کرو ادھر ہی اللہ کی توجہ ہے (یعنی ہر سمت ہی اللہ کی ذات جلوہ گر ہے)، بیشک اللہ بڑی وسعت والا سب کچھ جاننے والا ہے۔

اور مشرق و مغرب کی ساری سمتیں اللہ کیلئے ہیں سو تم جدھر بھی رخ کرو گے ادھر ہی اللہ کو ہی پاؤ گے۔ گویا کہ ساری کائناتیں اللہ رب العزت کے احاطے میں ہیں۔

پورے سولر سسٹم میں اربوں پلانٹ ہیں جو کہ گھوم رہے ہیں اور سورج بھی گھوم رہا ہے۔ وہ ایک کہکشاں ہے (ملکی وے گلیکسی) جس میں لاکھوں ستارے اور سیارے گھوم رہے ہیں اور یہ کہکشاں بھی گھوم رہی ہے۔ اس جیسی اور بھی کھربوں کائناتیں ہیں اور اللہ رب العزت ان ساری سماوی کائناتوں سے کہیں زیادہ وسیع ہے اور اللہ عرب العزت نے ان کائناتوں کو ایک خود کار نظام کے ذریعے مسخر بنایا ہوا ہے۔

اللہ کائنات کی ہر شے پر محیط ہے۔ چونکہ وہ ہر شے پر محیط ہے اس لیے وہ نظر نہیں آتا۔ کیونکہ نظر کی ایک حد ہے۔

اللہ رب العزت نے اپنا جو پہلا پتہ قرآن مجید میں خود دیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ لوگ ایمان والے ہیں جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔

قرآن مجید کہتا ہے کہ ان حقیقتوں پر ایمان لے آو جو دیکھائی نہیں دیتیں۔ یہ جملہ بہت سائنٹیفک ہے یعنی ایمان بالغیب جب تک نہیں ہوگا ایمان کا پودا آپ کے دل میں اْگ ہی نہیں سکتا۔

اللہ رب العزت نے یہ کیوں فرمایا کہ غیب پر ایمان لاؤ، غیب اس شے کو کہتے جو موجود تو ہو لیکن مشہو د نہ ہو۔ یعنی موجود تو ہو لیکن نظر نہ آئے۔ نظر کیوں نہیں آسکتیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے دیکھنے اور نگاہ کی ایک حد limitation ہے جس کی وجہ سے مذکورہ شے کو آنکھ دیکھ نہیں سکتی۔ کائنات میں لاکھوں چیزیں ایسی ہیں جو نظر نہیں آتیں لیکن ہم انہیں مانتے ہیں۔

کسی چیز کو ماننے کے دو طریقے ہوتے ہیں ایک تو یہ کہ پانچ خواس (خواس خمسہ) ان کے ذریعے اشیاء کو direct feel کیا جاتا ہے یا براہ راست ان کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ اور دوسرا یہ ہے کہ جو کچھ ہو رہا اس کا مشاہدہ کیا جاتا ہے اور پھر اس کا نتیجہ اخذ کرنا کہ کوئی نہ کوئی چیز ہے جو اس کی پیچھے ہے جس کی وجہ سے یہ کام ہورہا ہے۔ جو نتائج اخذ کیے جاتے ہیں وہ دکھائی نہیں دیتے۔ جو نظر آتے ہیں وہ ہیں اعمال اور ان اعمال کا نتیجہ غیب ہوتا ہے، مثال کے طور پر آپ پھول کو دیکھ سکتے ہیں لیکن اس کی خوشبو کو نہیں دیکھ سکتے۔ پھول کی قدرومنزلت خوشبو کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اس کی قدر منزلت اس کو دیکھنے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی خوشبو کی وجہ سے ہے جو نظر نہیں آتی۔ اسی طرح پھل کو دیکھ کر اس کی قدرومنزلت کا اندازہ نہیں ہوتا بلکہ اس کا ذائقہ ہے جو اسے قدرومنزلت دیتا ہے۔ زبان میں نروز (Nerves) ہوتی ہیں کئی ہزار نروز جو دماغ تک پیغام پہنچاتی ہیں۔ اور دماغ اس کی قدر ومنزلت کا فیصلہ کرتا ہے۔ اور اسے معنی دیتا ہے۔ اسی طرح کان آواز سنتے ہیں لیکن وہ ان آوازوں کا فیصلہ نہیں کرتے ان کا فیصلہ بھی دماغ ہی کرتا ہے۔

دماغ اس پوری کائنات میں سب سے بڑا قابل ترین عضو ہے۔ باوجود اس کے اگر آنکھ اس کو میسیج نہ بھیجے تو دماغ اسے کچھ بتا نہیں سکتا۔ اصل میں آنکھ نہیں دیکھتی دماغ بتاتا ہے اسی طرح باقی اعضاء کو کا بھی دماغ ہی بتاتا ہے کہ ان کے ہر عمل کا ردعمل کیا ہوگا۔ دماغ فیصلہ کرتا ہے کہ آنکھ نے کیا دیکھا ہے۔ دماغ ہی ہے جو اس کی تمیز کرتا ہے۔ آنکھ خود فیصلہ نہیں کرسکتی کہ یہ کیا ہے بلکہ دماغ ہے جو فیصلہ کر کے بتاتا ہے۔ اگر آنکھ، کان، ناک میسیج نہ بھیجیں تو دماغ کچھ نہیں بتا سکتا۔ لہذا اس سے یہ سمجھ آتا ہے کہ دماغ سارے کا سارا پیغامات کا محتاج ہے۔ دماغ کو میسیج ملتا ہے تو وہ اسے سمجھ کے واپس میسیج بھیجتا ہے۔

اگر خواس دماغ کو میسیج نہ کریں تو دماغ اس چیز کو کبھی سمجھ ہی نہیں سکتا۔ اگر خواس خمسہ کا کام ہی رک جائے تو دماغ کو کچھ سمجھ نہیں آئے گا۔ ہر چیز کا اپنا اپنا دائرہ ہے لیکن سب کی ڈائریکٹ کمیونیکیشن دماغ کے ساتھ ہے جو اس کو سمجھتا ہے۔

لہذا سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہماری بطور انسان محدودیت ہے اور ہمارا محدود ہونا اللہ کی موجودگی کی نفی (negate) نہیں کر سکتا۔

سیدنا مولا علی شیر خدا رضہ اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ علم میں وہی لوگ پختہ ہیں جو غیب کے پردوں میں چھپی ہوئی چیزوں پر اعتقاد رکھ لیتے ہیں۔ اسی لیے اللہ رب العزت نے ان کی مدح کی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ چیز ہمارے احاطہ علم میں نہیں ہے، اور وہ لوگ جو اپنے محدود ہونے کا اعتراف کر لیتے ہیں وہی راسخون فی العلم ہیں۔ چونکہ ہمارے ذرائع محدود ہیں اس لیے ہمارے دماغ کا سمجھنا بھی محدود ہے۔

بہت سی چیزیں ہیں جو نظر نہیں آتیں لیکن ہم اس کو مانتے ہیں۔ سائنس میں سب atom کو جانتے ہیں لیکن کسی نے بھی ایٹم کو دیکھا نہیں ہے۔ صرف یہ نہیں کہ ننگی آنکھ سے نہیں دیکھا، بلکہ دنیا کی کسی بھی پاور فل خوردبین سے بھی آج تک ایٹم نہیں دیکھا جا سکا۔ لیکن سب اس کو مانتے ہیں تو مان لیں کہ یہی علم غیب ہے۔ ایٹم اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ روشنی جس کی مدد سے انسان دیکھتا ہے ایٹم اس کی wavelength سے بھی چھوٹا ہوتا ہے اس وجہ سے نظر نہیں آتا۔

انسانی جسم اربوں کھربوں سیلز (خلیوں) سے مل کر بنا ہوا ہے۔ ہر سیل کے اندر نیوکلیس nucleus ہوتا ہے اور پورے سیل کا مدار اس پر ہوتا ہے سائنس کی ہر کتاب میں اس کی تصویر دکھائی جاتی ہے لیکن آج تک کسی سائنس دان نے اس نیوکلیس کو بھی نہیں دیکھا، جس روشنی سے انسان دیکھتا ہے اس کی wavelength 200- 500nm تک ہو تب ہی انسان دیکھ سکتا ہے، اس سے کم ویو لینتھ ہو تو انسان دیکھ نہیں سکتا اور ایٹم کی ویولینتھ 1/10 nm ہوتی ہے۔ آج سائنس یہ کہتی ہے کہ ایٹم کو دیکھا نہیں جا سکتا۔ گویا ایٹم کو نہیں دیکھا، سیل کو نہیں دیکھا پھر بھی لوگ مانتے ہیں۔ پہلے یہ سوچا جاتا تھا کہ کائنات کا سب سے چھوٹا وجود ایٹم ہے پھر پتہ چلا ایٹم بی ٹوٹتا ہے اور تین حصوں میں تقسیم ہوتا ہے پروٹون، نیوٹرون اور الیکٹرون میں۔ سائنس کی ہزاروں لاکھوں کتابیں اس سے بھری پڑی ہیں۔ نیوٹرون، الیکٹرون اور پروٹون بھی آج تک کسی سائنس دان نہیں دیکھے۔ انسان نے نہ ہی ایٹم دیکھا ہے، نہ ہی سیل دیکھا ہے اور نہ انسان نے پروٹون، نیوٹرون اور الیکٹرون دیکھے ہیں۔ جب انسان اس کو مانتا ہے جو سائنس نے بھی نہیں دیکھا تو وہ کیوں اس کو نہیں مانتا جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نےبتایا ہے۔

پروٹوں ایٹم سے ایک لاکھ گنا چھوٹا ہوتا ہے، اس لیے سائنس کے مطابق کبھی بھی ممکن نہیں ہوگا کہ اس کو دیکھا جا سکے۔ یعنی کسی نے اس کو دیکھا نہیں ہے لیکن پھر بھی ہر سائنس دان اس پر یقین رکھتا ہے۔

سائنس سے یہ سوال ہے کہ جب یہ سب کچھ دیکھا نہیں تو مانتے کیوں ہیں تو سائنس کہتی ہے: I can’t see it, but I can see its effects

یعنی کہ میں اسے دیکھ نہیں سکتا لیکن اس کے اثرات نظر آتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ ہے جو اس کے پیچھے ہے۔ اسی طرح جب ہم کائنات کے نظام کو دیکھتے ہیں تو پتی چلتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی چلانے والا ہے اور وہ ہے اللہ۔

ہمیشہ یاد رکھیں کہ کسی نتیجے پر پہنچنے کیلئے بنیاد علم پر رکھیں۔

جب آپ دو چیزوں کے درمیان موزانہ کرتے ہیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے تو یہ ضروری ہے کہ دونوں طرف کا علم آپ کے پاس ہو۔

اس لیے اللہ رب العزت نے فرمایا کتنے لوگ ایسے ہیں جو اللہ کی موجودگی کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں ان کے پاس نہ تو ہدایت ہے اور نہ ہی اللہ کی طرف سے کوئی کتاب۔

قرآن مجید میں 856 آیات ایسی ہیں جس میں اللہ رب العزت نے علم کی دعوت دی ہے اور قرآن مجید کی کل آیات 6 ہزار 6 سو سے زائد ہیں۔

اور 900 سے زائد ایک ہزار کے قریب آیات مبارکہ ایسی ہیں جن میں اللہ رب العزت نے مختلف سائنسی حقائق بیان کیے ہیں۔ یعنی پونے 2 ہزار آیات مبارکہ ایسی ہیں جن میں علم اور تدبر کا ذکر کیا گیا ہے۔

قرآن مجید نے انسانیت کی ابتدا کا ذکر کیا اور انسان کی جو فضیلت بیان کی وہ بھی علم پر مبنی ہے۔

وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّھَا.

(البقرة، 2: 31)

آخری نبی ﷺ اور ان پر جو آخری کتاب نازل ہوئی اس کی ابتداء بھی اقراء سے ہوئی کہ پڑھ یعنی اس کی ابتداء بھی سائنس اور علم سے ہوئی۔

اللہ رب العزت نے قرآن حکیم میں جا بجا فرمایا کہ اس طرح ہم اپنی نشانیاں بیان کرتے ہیں تا کہ علم والوں کو سمجھ آ جائے۔ اور فرمایا ہم اپنی نشانیاں بیان کرتے ہیں ان لوگوں کیلئے جو تفکر رکھتے ہیں۔

جو کتاب جگہ جگہ آپ کو علم، تفکر اور تدبر کی دعوت دے اور ساتھ پیغام دیتی ہے کہ ان سے پوچھو جو علم والے ہیں۔ تو یاد رہے کہ جو کتاب 2ہزار مرتبہ علم، تفکر اور تدبر کی دعوت دے وہ کبھی غلط نہیں ہو سکتی۔

قرآن مجید تدبر کی دعوت دیتا ہے فرمایا : یہ لوگ تدبر کیوں نہیں کرتے، اگر یہ کتاب اللہ کے سوا کسی کی طرف سے نازل ہوتی تو یہ لوگ اس میں غلطیاں دیکھتے۔

فرمایا: یہ لوگ قرآن میں تدبر کیوں نہیں کرتے کیا ان کے دل و دماغ پر تالے لگے ہوئے ہیں۔

قرآن پاک کے سائنسی احکامات کو سن کر کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب سائنس کچھ ایجاد کر لیتی ہے تو دینی طبقہ پھر اس کو قرآن پاک میں سے تلاش کرلیتا ہے، تو سوال یہ ہے کہ جب سائنسی تحقیق ہو جاتی ہے تو کیوں صرف مسلمان ہی اس کو ڈھونڈ نکالتے ہیں باقی مذاہب اپنی کتب سے اس کو کیوں نہیں ڈھونڈ پاتے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ان کتب میں یہ سائنسی حقائق بیان ہی نہیں ہوئے ہوتے۔

اب سوال یہ ہے کہ تحقیق ہوجانے کے بعد ہی کیوں نکالتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے قرآن مجید میں بہت سے سائنسی حقائق کا بیان ہے۔ جب انسان کے پاس سائنسی علم آتا ہے تو وہ اس کی تہہ تک پہنچتا ہے۔ اللہ رب العزت نے سورہ نوح میں فرمایا اے لوگو! اللہ رب العزت نے تمہاری تخلیق مرحلہ وار کی ہے، قرآن مجید نے یہ بات 1400 سال پہلے بیان کردی تھی تو یہ جو الفاظ ہیں کہ مرحلہ وار انسان کی تخلیق کا ہونا اس کا علم انسان کو پچھلی صدی میں ہوا ہے۔ سائنس نے مائیکروسکوپ کے ذریعے بچے کی تخلیق کے مراحل کا پتہ 1941ء میں لگایا قرآن مجید نے وہی بات 1400 سال پہلے بیان کی تھی۔ تو یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ قرآن مجید کی آیات مبارکہ تب ہی مطابقت میں بیان ہوں گی جب سائنس کا علم اور تحقیق بیان کی جائے گی۔ سو رہ عبس کی آیت 19 میں فرمایا: ’’اللہ رب العزت نے انسان کو نطفہ بنایا ‘‘، مرد کا سیل اووم ہوتا اور عورت کا اووم بناتا ہے اور دونوں کے ملنے سے جو بنتا ہے وہ نطفہ ہے جس کے اندر سارے خدوخال رکھ دیے جاتے ہیں۔ اسی نطفے میں اس کی سب ٹریٹس کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جو قرآن مجید نے 1400 پہلے بیان کر دی ہے۔ جب سائنس نے تحقیق کے بعد بتایا تو علماء کی نگاہ گئی کہ یہ بات تو 1400 سال پہلے قرآن مجید میں بیان ہوچکی ہے۔

اللہ رب العزت نے فرمایا جب تم ماں کے رحم میں ہوتے ہو تو جو کچھ تم نے بننا ہوتا ہے اس کا فیصلہ کر لیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں حقائق موجود ہیں اور ان حقائق کو سمجھنے کیلئے انسان سائنسی علم کا محتاج ہے۔

قرآن مجید نے اس چیز کا بھی اشارہ دے دیا کہ کس طرح وقت کے ساتھ ساتھ حقائق کھلیں گے۔ فرمایا: ’’ ہر خبر جو ہم قرآن میں دے رہے اس کے ظاہر ہونے کا ایک وقت مقرر ہے۔‘‘ یعنی خبر دے دی ہے اور بتا دیا کہ جب وقت آئے گا تم اس کو جان جاو گے۔

اہم نکات

  • اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا کہ قرآن مجید کی آیات پر غور و تدبر کریں اور اہل عقل و دانش ان سے ہدایت و راہنمائی حاصل کریں۔
  • قرآن مجید نے اپنے ماننے والوں کو بار بار دعوت دی کہ غور کرو، تدبر سے کام لو، تحقیق سے کام لو علم سے تعلق جوڑو، جو کتاب اپنے ماننے والوں کو غوروفکر کی دعوت دے کیا وہ کتاب غلط ہو سکتی ہے؟ اسی لیے قرآن کا دعویٰ ہے کہ دنیا بھر کے اہل زبان مل کر اس جیسی کوئی ایک آیت یا سورۃ لے آؤ؟
  • جو چیزیں حواس خمسہ کے ذریعہ محسوس ہوں ان کو انسان جان لیتا ہے مگر جو چیزیں حواس خمسہ سے ماورا ہوں انہیں سائنسدان اور سائنس کچھ نشانیوں سے جانتی اور پہچانتی ہے، جیسے پھول کو تو ہم دیکھ سکتے ہیں مگر خوشبو کو نہیں دیکھ سکتے۔ مگر اس کے وجود سے انکار بھی نہیں کر سکتے۔
  • سائنسی ایجادات اور فتوحات کی عمر گزشتہ دو صدیاں ہیں، اس سے پہلے تو سائنس خود ٹامک ٹوئیاں مار رہی تھی۔ قرآن نے 14 سو سال قبل اعلان کر دیا تھا کہ وقت آئے گا تو تم جان لو گے کہ اللہ نے اس کتاب میں جو بیان کر دیا وہ حق ہے۔ وقت مقررہ پر تم یہ سب جان لو گے اور ساری گتھیاں سلجھتی جائیں گی۔
  • ایمان بالغیب ہی وہ صفت ہے جس سے ایمان کا راستہ نکلتا ہے، غیب عربی زبان کا لفظ ہے، غیب اس چیز کو کہتے ہیں جو موجود تو ہو مگر مشہود نہ ہو یعنی دکھائی نہ دے سکے، جس چیز کو دیکھا نہ جا سکے اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ موجود نہیں ہے، بہت ساری چیزیں ہیں جو موجود تو ہیں مگر ہماری آنکھ انھیں دیکھ نہیں سکتی۔
  • جو ہر جگہ موجود ہو اس کا کوئی ایک پتہ نہیں ہوتا، جس کا ایک پتہ ہوتا ہے وہ ہر جگہ موجود نہیں ہوتا، اللہ ان جگہوں پر بھی ہے جس کا ہمیں علم نہیں ہے۔
  • خدا ہر جگہ موجود ہے اس دعوے کا جواب قرآن نے ان الفاظ میں دیا ہے کہ ساری کائنات اس کے احاطہ میں ہے، شرق تا غرب سب کچھ اسی کی دسترس میں ہے، ساری کہکشائیں جن کی تعداد اربوں میں ہے یہ نظام شمسی اور یہ سارا سولر سسٹم ایک چھوٹی سی چیز ہے، اللہ ان سب سے بڑا ہے۔
  • نوجوان اپنا تعلق علم اور کتاب سے جوڑیں، علم میں پختگی کے لیے خوب محنت کریں اور مطالعہ کا شوق پیدا کریں۔ قرآن مجید پر غور و فکر کریں اور تحقیقی موازنہ کی طرف آئیں۔ قرآن میں 856 آیات ایسی ہیں جن میں اللہ نے علم کی ضرورت و اہمیت پر زور دیا ہے، جب کہ ایک ہزار کے قریب آیات میں بالواسطہ یا بلاواسطہ سائنسی حقائق بیان کیے گئے ہیں۔ قرآن مجید میں پونے دو ہزار آیات ایسی ہیں جن میں علم اور سائنس کی بات کی گئی ہے۔
  • کہا جاتا ہے کہ سائنس ایجادات کرتی ہے اور پھر بعد میں انھیں قرآن کے اندر سے ڈھونڈ نکالا جاتا ہے کہ یہ سائنسی حقیقت قرآن میں موجود ہے۔ سوال کرنے والے کہتے ہیں اگر یہ قرآن میں موجود تھا تو مسلمانوں نے یہ ایجادات خود کیوں نہیں کیں؟ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ کسی اور مذہب نے اپنی مذہبی کتاب سے یہ حقائق کیوں نہ ڈھونڈ نکالے؟ قرآن میں یہ حقائق موجود ہیں تو نکالے گئے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ ان حقائق تک رسائی کے لیے دونوں طرف کا پختہ علم ہونا شرط اول ہے، جوں جوں سائنس کائنات کے پردے اٹھاتی چلی جائے گی وہ قرآن کے دعوؤں اور معارف و معانی کی توثیق کرتی چلی جائے گی کیونکہ یہ سب حقائق 14 سو سال قبل قرآن نے بیان کر دیے ہیں۔
  • قرآن مجید نے 14 سو سال قبل جو حقائق بیان کیے انھیں آج کے دن تک کوئی جھٹلا نہیں سکا اور قرآن نے جو چیلنج کیے وہ چیلنج بھی آج کے دن تک کوئی قبول نہیں کر سکا، جو کتاب چیلنج کرے، غوروفکر کی دعوت دے ایسی کتاب جھوٹ ہو سکتی ہے؟
  • قرآن کہتا ہے کہ اگر زمین و آسمان میں موجود نشانیوں پر غور کرو گے تو ان میں سے ہر نشانی اللہ کی ذات کا پتہ دے گی، اللہ ہر چیز پر محیط ہے اس لیے وہ نظر نہیں آتا، نظر کی ایک حد ہے، نظر کی استعداد حواس خمسہ کی مرہون منت ہے اور ان کے دائرہ کار کی ایک حد ہے جب کہ اللہ لا محدود اور بے حد ہے، حد والے حواس بے حد کو نہیں دیکھ سکتے اسی لئے فرمایا گیا غیب پر ایمان لاؤ۔
  • جب یقین کمزور ہوجاتا ہے تو پھر بعض ذہنوں میں یہ خیال جنم لیتا ہے کہ اگر خدا ہے تو وہ کہاں ہے اور اس کا پتہ کیا ہے؟