ارشاد باری تعالی ہے:
وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ
(طہ، 20: 14)
’’اور نماز کو میرے ذکر کے لیے قائم کرو۔ ‘‘
نماز اللہ کی یاد کے لیے ہے اور اس نماز کو باری تعالیٰ نے دین کا ستون بنایا ہے۔ نماز کو اپنی ذات میں قائم کرنا درحقیقت دین کی عملی تعلیمات کا ثبوت فراہم کرنا ہے۔ یہ نماز ایمان کا نور ہے اور یہ انسانی سینوں اور دلوں کے لیے شفا ہے اور یہ نماز اللہ کی بہترین حمدو ثنا ہے اور اس کی نعمتوں کا واضح اعتراف ہے اور عملِ صلاۃ سراسر شکرانہ نعمتِ ایزدی ہے۔ جملہ عبادات کی اصل یہ نماز ہے اور یہ نماز اپنے نمازی کو بے حیائی اور فحش چیزوں سے بچاتی ہے اور اس کو رزق کی تلاش پر آمادہ کرتی ہے۔ یہ ہمارے انسانی نفس کے سامنے گناہ کے وقت ڈھال بن جاتی ہے اور انسانی نفس کو گناہوں سے بچاتی ہے۔ نفس اپنے فطرتی رجحان میں برائی کی طرف میلان رکھتا ہے مگر نماز اس کے فطرتی رجحان کو نیکی و خیر کی طرف مائل کرتی ہے۔ ایک دن اور رات میں بندہ لازمی طور پر خود کو پانچ وقت کے لیے اللہ کے حضور لے کر جاتا ہے وہ بندہ بارگاہ خداوندی کے آداب کو بجا لاتے ہوئے خود کو پیکر خشوع و خضوع بناتا ہے اور اپنے نفس کی خواہشات کو اپنے قدموں کے نیچے ڈال دیتا ہے اور خود کو احکامات الہٰیہ کا پیکرِ مجسم بناتا ہے اور خود کو ہمہ تن اپنے معبود حقیقی کی طرف راغب کرلیتا ہے۔ ایک نمازی شخص اپنے نامہ اعمال میں سے گناہ صغیرہ کو دور کرتا ہے جب وہ پانچ وقت کے لیے نماز میں حاضری کے لیے اللہ کے حضور آتا ہے تو وہ عالم محسوس میں اپنے سر سے گناہوں کا بوجھ اتارتا ہے۔ کبھی وہ اپنے گناہوں کو رکوع کی صورت میں اپنے سر سے اتارتا ہے کبھی سجدہ اور قعدہ کی صورت میں اپنے صغیرہ گناہوں کو سر سے نیچے گراتا ہے۔ نماز اپنے نمازی کے دل میں اطمینان پیدا کرتی ہے اور یہی قرآن کا بیان ہے:
اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ
(الرعد، 13: 28)
’’ جان لو کہ اﷲ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔‘‘
نماز کا عمل مصائب و مشکلات میں انسان کے اندر جزع اور فزع کی کیفیات پیدا نہیں کرتا بلکہ نماز ہر گھبراہٹ اور ہر خوف سے انسان کو نجات دیتی ہے۔ نماز انسان کے اندر بہت بڑا عمل صبر و تحمل پیدا کرتی ہے۔ یہ صبرو تحمل اعمال و اخلاق میں سے سب سے اعلیٰ عمل اور سب سے بہترین خلق ہے جو نماز کے باعث باری تعالیٰ ایک نمازی کو عطا کرتا ہے۔ نماز کا عمل درحقیقت ایک ایسے بڑے سخی کی بارگاہ میں آنا ہے جس کی شان عطا ہی عطا ہے۔ نماز انسان کو حرص و لالچ سے بچاتی ہے اور اس کو ہر قسم کے خوف و خدشات سے محفوظ کرتی ہے اور انسان کو دوسروں کے لیے سراپا خیر بناتی ہے مگر یہ اثرات اس وقت ایک نمازی کے وجود میں پیدا ہوتے ہیں جب وہ اللہ کی مخلوق کے لیے سراسر نفع رساں بن جائے۔
گویا نمازی وہ ہے جس میں کسی قسم کی ھلوعاً حرص و لالچ نہ ہو جس میں کسی قسم کی گھبراہٹ جزوعاً نہ ہو اور نمازی وہ انسان ہے جس میں دوسروں کے لیے خیر ہی خیر ہو۔ ہمدردی ہی ہمدردی ہو، جس میں منوعاً دوسروں کو بھلائی سے روکنے کی کوئی صورت نہ ہو پھر جاکر وہ مصلین میں شمار ہوگ۔ نماز کا عمل انسان سے حرص ولالچ، گھبراہٹ و پریشانی اور بخل و کنجوسی کا خاتمہ کرتا ہے۔
اس لیے ارشاد فرمایا:
اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوْعًاۙ اِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوْعًاۙوَّ اِذَا مَسَّهُ الْخَیْرُ مَنُوْعًاۙاِلَّا الْمُصَلِّیْنَۙ
(المعارج، 70: 19۔22)
’’ بے شک انسان بے صبر اور بہت لالچی پیدا ہوا ہے۔ جب اسے پہنچتی ہے تو سخت گھبرا جاتا ہے۔ اور جب اسے دولت ملتی ہے تو بخل کرتا ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو نماز قائم کرنے والے ہیں۔‘‘
اس آیہ کریمہ نے الا المصلین کہہ کر نمازی انسان کو ھلوعاً بے صبری لالچ اور جزوعاً گھراہٹ اور منوعاً بخل سے استثنیٰ عطا کردیا ہے۔ گویا ہر انسان اپنی خلقت میں کچھ رذائل لے کر آتا ہے جب انسان نماز کا عمل شروع کرتا ہے تو باری تعالیٰ اس انسان کے اندر انسانی قدروں کو صیقل کرتا ہے اور اس کو مختلف رذائل اور متنوع زلزال سے بچا لیتا ہے۔ اس لیے بندگان خدا نماز کو اللہ کی یاد کے لیے قائم کرتے ہیں اور اللہ کی یاد کی تازگی کے لیے اسے ادا کرتے ہیں۔ ان کی نماز کا مقصد ذکر الہٰی ہوتا ہے۔ اس لیے فرمایا:
وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ
(طہ، 20: 14)
’’ نماز کو میرے ذکر یاد کے لے قائم کرو۔ ‘‘
یاد مولا کا تقاضا یہ ہے کہ بندہ اپنی زبان کے اعمال سے غافل نہ ہو بلکہ وہ اپنے جسم کے سارے اعمال سے بھی لاتعلق نہ ہو، ہر وہ چیز جو اس کو اس کے مولا سے دور کردے اور لاتعلق کردے اور اس کے ذکر سے اُسے محروم کردے اور اس سے اس کے ناطے کو کمزور کردے، وہ شے غفلت میں ڈالنے والی ہے۔ اس لیے بندہ وہ ہے جو جہاں ہو اپنے مولا کو بھی وہیں محسوس کرکے
فَثَمَّ وَجۡہُ اللّٰہِ
(البقرہ، 2: 115)
’’ جدھر بھی رخ کرو ادھر ہی اللہ کی توجہ ہے (ہر سمت اللہ کی ذات جلوہ گر ہے)۔‘‘
اس کا پیکر مجسم ہو۔ اس کا کاروبار ہو یا اس کا دفتر ہو، وہ اپنے عمل کے ذریعے اپنے مولا کو یاد کرنے والا ہو۔ اگر اس کا عمل، اس کا خلق، اس کا رویہ، اس کا انداز، اس کا اسلوبِ حیات مولا کے احکام کے مطابق ہے تو وہ اللہ کا ذاکر ہے اور اگر اس کے اعمال، اخلاق اور کردار میں اسلامی تعلیمات کی آئینہ داری نہیں ہے تو وہ بندہ غافل بندوں میں سے ہے۔ اس لیے ایسے بندوں کو متوجہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وَ لَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ
(الاعراف، 7: 205)
’’اور یاد الہٰی سے غافل ہوجانے والے بندوں میں سے نہ ہوجاؤ۔‘‘
غفلت کا خاتمہ یاد الہٰی سے ہے، یاد فقط زبان سے ہی نہ ہو بلکہ اعمال اور اخلاق سے بھی ہو۔ جب بندہ یہ جامع ذکر کرتا ہے تو وہ ذاکر بارگاہ خداوندی ٹھہرتا ہے وہ زمین پر پھرتا ہے مگر صفات بندگی سے آراستہ ہوتا ہے اور صفاتِ اولیائی سے مملو ہوتا ہے۔ ایسا بندہ پھر فقط ذاکر فی الصلوۃ نہیں رہتا بلکہ وہ ذاکر فی کل الاحوال ہوجاتا ہے۔ یہ بندہ ذاکر سے اللہ کی بارگاہ میں مذکور ہوجاتا ہے۔ یوں یہی ذکر اس بندے کو اللہ کی بارگاہ کا شاکر بنادیتا ہے اور اس کی نعمتوں کو پانے کا اعزاز انعمت علیہم کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ نماز ذکر الہٰی کا یہ راز اور اعزاز اس آیہ کریمہ کے ذریعے اپنے عمل صلاۃ اپنانے والوں کو بتاتی ہے۔
فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِیْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ۠
(البقرہ، 2: 152)
’’ سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور میری ناشکری نہ کیا کرو۔‘‘
اس لیے باری تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا:
وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ
(البقرہ، 2: 43)
’’اور نماز قائم کرو۔‘‘
اب اس نماز کو باری تعالیٰ نے قائم کرنے کے مختلف اوقات مختص کردیئے ہیں تاکہ ذکر کثیر کا عمل جاری رہے اور عدم ذکر انسان پر غفلت کے حجابات مسلط نہ کرے، نماز درحقیقت ذکر الہٰی ہے اور ذکر الہٰی تسلسل اور کثرت چاہتا ہے۔ مخصوص اوقات میں اس لیے نماز کو مقرر کردیا تاکہ انسان کا سارا دن یاد الہٰی سے معمور رہے۔ اس لیے فرمایا:
اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا
(النساء، 4: 103)
’’ بے شک نماز مومنوں پر اپنے مقررہ اوقات پر فرض کی گئی ہے۔‘‘
اب ان اوقاتِ مقررہ کی تفصیلات بھی قرآن حکیم نے بیان کردی ہیں نماز کے وہ مقررہ اوقات کتاباً موقوتاً کیا ہیں، اس حقیقت کو بھی قرآن کی مختلف آیات میں بیان کردیا ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ
(ھود، 11: 114)
’’ اور نماز دن کے دونوں سروں اور کچھ رات کے حصوں میں قائم کریں۔‘‘
اس آیہ کریمہ میں طرفی النھار میں تین نمازیں فجر، ظہر اور عصر شامل ہیں جبکہ زلفاً من اللیل میں مغرب اور عشاء کی نماز داخل ہے۔ کبھی ان اوقات صلوٰۃ کو قرآن لدلوک الشمس اور الی غسق اللیل کی صورت میں بیان کرتا ہے اور کبھی فجر کے لیے صراحۃً و قرآن الفجر (الاسراء،78) کا اسلوب اختیار کرتا ہے۔ کبھی ان ہی نمازوں کے لیے حین تمسون اور حین تصبحون اور حین تظھرون۔ (الروم، 17، 18) سے ان اوقات صلوٰۃ کو بیان کرتا ہے۔ ان سب اوقات صلوٰۃ کے تعین کا مقصد یہ ہے کہ بندہ اقم الصلوۃ کا عمل ہر گز نہ چھوڑے بلکہ صلوٰۃ مکتوبہ کو ہر حال میں قائم کرے کبھی قرآن نے کہا وسبح بحمد ربک (طہ،20: 130) کا عمل بھی نماز میں قائم کرتے رہو۔
اللہ کی تسبیح اور اللہ کے ذکر کو خصلتِ دوام کے ساتھ اپناتے رہو، اگر ہم فرضیت نماز کی حقیقت میں ڈوب جائیں اور اس میں غوروفکر کریں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ نماز فرض کرنے کا مقصد صرف ذکر الہٰی کا قیام ہے اور اس کے ذریعے شکرانِ نعمت کا عمل اختیار کرنا ہے۔ باری تعالیٰ نے سب سے بڑا احسان ہم پر یہ کیا ہے کہ اس نے ہم سب کو اعلیٰ ترین صورت پر پیدا کیا ہے۔ اس لیے ارشاد فرمایا:
وَّصَوَّرَکُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَکُمْ
(غافر، 40: 64)
’’اس خدا نے تمہاری صورتیں بنائی ہیں اور اس نے تمہاری صورتوں کو خوبصورت بنایا ہے۔‘‘
باری تعالیٰ نے انسانی صورت کو احسنِ تقویم کا حامل بنایا ہے۔
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْۤ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍؗ
(التین، 95: 4)
’’ بے شک ہم نے انسان کو عقل و شکل کے اعتبار سے بہترین اعتدال پر پیدا کیا ہے۔‘‘
اب اس حقیقت میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ باری تعالیٰ کی ساری مخلوقات ایک طرف اور خلق انسان دوسری طرف مگر باری تعالیٰ نے انسان کو تمام مخلوقات سے اشرف الخلق بنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی انسان حالت عقل و خرد میں کسی بھی مخلوق کو دیکھ کر یہ خواہش نہیں کرتا کہ کاش میں اس مخلوق جیسا ہوتا انسان کی صورت اور سیرت اتنی عظیم نعمت بھی تمام انسانوں اور تمام تر انسانی وجود کے حاملین سے تقاضا کرتی ہے کہ ان امتیازی اور خصوصی انعاماتِ خداوندی پر اس کی ذات کا شکر ادا کیا جائے اور شکر کی اعلیٰ ترین صورت بندے کے لیے نماز ہی نماز ہے۔ اس لیے نماز پڑھنا اپنے وجود کی نعمتوں پر اللہ کے حضور سجدہ شکر بجا لانا ہے۔گویا نماز شکرانِ نعمت کی اعلیٰ ترین صورت ہے۔ یہ انسان فاحسن صورکم اور فی احسن تقویم کی متشکل عظیم نعمت ہی تو ہے جس کے باعث باری تعالیٰ نے اسے تمام مخلوقات سے اعلیٰ اور افضل بنایا ہے۔
باری تعالیٰ نے یہ خوبصورت اعضاء جسد انسان کو بغیر کسی استحقاق کے محض اپنے فضل و کرم سے عطا کردیئے ہیں۔ ان خوبصورت اعضاء کی عطا پر بھی انسان پر اللہ کا شکر ادا کرنا بصورتِ نماز لازم ہے تاکہ ان اعضاء کو منعم کے حکم کی اطاعت میں استعمال میں لایا جائے اور یوں ان اعضاء کی طرف سے بھی شکرانِ نعمت کا فعل صادر ہو۔ انسان ان اعضاء کو کبھی حالتِ قیام میں کبھی حالتِ رکوع میں، کبھی حالتِ سجدہ میں اور کبھی حالتِ قعدہ میں جیسے چاہتا ہے استعمال کرتا ہے۔ اسی طرح انسان کے باطنی اعضاء ہیں وہ بھی مصروفِ عبادت ہوتے ہیں دل سے انسان نیتِ نماز کرتا ہے اور اس دل پر خوف و رجاء کی کیفیات طاری ہوتی ہیں۔ انسانی عقل اللہ کے حضور تعظیم و احترام بجا لاتی ہے یوں نماز میں ہر ہر عضو اپنے منعمِ حقیقی اور اپنے معبودِ حقیقی کا شکر ادا کرتا ہوا نظر آتا ہے۔(علی احمد الجرجاوی، حکمۃ التشریع ولفسفتہ، مترجم ذوالفقار احمد، زاویہ پبلشرز، ص129)
انسان نماز میں ہاتھ باندھ کر بڑے ادب کےساتھ قیام کرتا ہے۔ یہ عمل درحقیقت انسان کی طبعی اور فطرتی عادت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جب وہ اپنے سے بلند مقام و منصب کے حامل شخص کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو وہ سارے آداب بجا لاتا ہے اور اس شخصیت کے ادب سے تجاوز نہیں کرتا، انسان کی یہ حالت عام مخلوق کے ساتھ ہے اور وہ ذات بلند و بالا جو مالک اعظم اور خالق عظیم ہے جب انسان اس کے سامنے قیام کرے تو اس کے خشوع و خضوع اور ادب و احترام کا عالم کیا ہوگ۔ وہ اپنے وجود کو سر سے پاؤں تک سراپا ادب بنادے گا اور تعظیم و احترام کی انتہائی حد کردے گا اور اپنے عقل و دل کی ساری کائنات کو اس کے حضور پیش کردے گا تاکہ اس کا ادب اس کی ذات کے شایانِ شان ہوجائے۔
پس انسان اس تصور کے ساتھ اس کے حضور ہاتھ باندھے قیام کرتا ہے پھر اپنے ہاتھوں کو ناف کے نیچے رکھتا ہے بائیں ہاتھ کو نیچے اور دائیں ہاتھ کو اس کے اوپر رکھتا ہے۔ بایاں ہاتھ عالم اسفلی کی نمائندگی کرتا ہے اور دایاں ہاتھ عالم علوی کی نمائندگی کرتا ہے۔ عالم اسفل اور عالم بالا کا نمائندہ بن کر انسان اللہ کے حضور حاضر ہوجاتا ہے۔ پھر انسان رکوع میں اپنی گردن اور اپنا سر جھکا دیتا ہے۔ گردن انسان کی صفتِ کمال اور اس کے عجب اور خود پسندی کو ظاہر کرتی ہے۔ انسان اپنے مولا کے حضور اسے جھکا دیتا ہے اور انتہائی خشوع و خضوع کا اظہار کرتا ہے۔
اس عمل کے ذریعے اللہ کی بارگاہ کا بے حد احترام بجا لاتا ہے اور اعتراف کرتا ہے کہ وہی ذات اس امر کی مستحق ہے کہ اسی کے حضور انسان کا سر جھکے اور اسی کے حضور انسان کی گردن عاجزی کا اظہار کرے۔ اس کے بعد حالت سجدہ میں انسان اپنا چہرہ زمین پر رکھ دیتا ہے۔ بلاشبہ انسانی اعضا میں سے سب سے زیادہ باعث عزت و احترام یہی چہرہ ہی ہے۔ جب انسان اپنے چہرے کو زمین پر رکھتا ہے تو یہ عمل اپنے رب کے حضور انتہائی عاجزی اور انکساری کا ہے اور مقام بندگی کا کمال مقام سجدہ میں ہے۔ ایک بندے مومن کے لیے یہی سجدہ ہی سب سے بڑی عزت کا باعث ہے۔ سجدہ میں انسان اپنا مقام تکریم پیشانی اور اپنی ناک اور اپنے چہرے اور اپنے سر کو اللہ کے حضور سب سے اسفل اور سب سے آفس چیز مٹی پر رکھ دیتا ہے تاکہ مقام بندگی کا عجز و انکسار، تعظیم و تکریم، ادب و احترام، عبادت و ریاضت میں حق ادا ہوجائے۔ قرآن نے کہا یہ سجدہ بندے کا رب کے ساتھ مقامِ قربت کی انتہا ہے یہ سجدہ ہی انسان کو اپنے مولا کے سب سے زیادہ قریب کردیتا ہے۔ اسی وجہ سے انسان سجدے میں رب کی ساری خدائی اور ساری ربوبیت کو اپنی طرف منسوب کرکے یوں کہتا ہے۔
سبحان ربی الاعلی، سبحان ربی الاعلی
اس کے بعد انسان حالت تشھد میں بیٹھتا ہے تو اب وہ رب کی قربت کو معرفت میں بدلنا چاہتا ہے اس مقصد کے لیے اس ذات پر درود و سلام بھیجتا ہے جس کو سب انسانوں سے زیادہ معزز اور سب انبیاء کا سردار بنا کر اور آپ کو خلعتِ سیدالمرسل اور تاج خاتم النبیین پہنا کر اپنی معرفت کے جام پلائے ہیں۔ ایک نمازی، حالت نماز میں بھی رسول اللہﷺ کی ان ساری صفات کا اعتراف کرتا ہے اور آپ کی بارگاہ میں درود و سلام کا نذرانہ پیش کرتا ہے تو باری تعالیٰ اس کی نماز کو قبول کرتا ہے۔ اس لیے وہ یوں کہتا ہے:
السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مزید آگے بڑھتے ہوئے:
اللہم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراہیم وعلی آل ابراہیم انک حمید مجید۔ اللہم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی ابراہیم وعلی آل ابراہیم انک حمید مجید۔
رسول اللہﷺ کے ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر بھی اس لیے کرتا ہے کہ رسولﷺ کی بعثت اور اس امت کی آپ کےساتھ نسبت دعائے ابراہیمی کا نتیجہ و ثمر ہے جو انہوں نے تعمیر کعبہ کے وقت مانگی تھی، اب باری تعالیٰ اپنے محبوب اور اپنے خلیل کے واسطوں کے ساتھ مانگی ہوئی دعا کو قبول کرتا ہے اور یہ دعا نماز کی قبولیت کی اور نماز کی تکمیل کی نوید ثابت ہوتی ہے۔ چنانچہ نمازی اپنے دائیں اور بائیں فرشتوں اور اہل ایمان کو سلام کرتے ہوئے اپنی نماز کو اختتام کی طرف لے کر آتا ہے اور یوں یہ نماز اس کو منزلِ عالی فاذکرونی اذکرکم (البقرہ،2: 152) پر فائز کردیتی ہے۔
آج کی جدید دنیا میں انسان کے پاس اپنی صحت اور جسمانی ورزش کے لیے بھی ٹائم نہیں ہے۔ اگرچہ اس نے اپنے جسم کو اپنے کام کاج میں بہت زیادہ مصروف کرلیا ہے مگر اس کے پاس جسم کو تندرست، صحت مند اور توانا و چست رکھنے کے لیے وقت کی بہت قلت ہے۔ ایسی صورت حال میں پانچ وقت کی نماز کی اہمیت جسمانی ورزش اور طبی فوائد کے تناظر میں مزید بڑھ جاتی ہے۔ یہ نماز کا عمل انسان کے لیے ایک ہلکی پھلکی ورزش ہے اور یہ ایسی جسمانی ورزش ہے جو ایک انسان دن میں پانچ مرتبہ کرتا ہے اس میں تسلسل ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ فائدہ میسر آتا ہے۔ اس لیے فزیو تھراپی کے ماہرین کہتے ہیں اس ورزش کا کوئی فائدہ نہیں جس میں تسلسل نہ ہویا اتنی زیادہ کی جائے کہ جسم ہی تھک جائے۔
باری تعالیٰ نے اپنے حکم کو بھی انسانی منفعت میں ڈھالتے ہوئے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ نماز ایک ایسا عمل عبادت ہے جس میں ورزش اور فزیو تھراپی کی تمام صورتیں اعلیٰ اندازمیں پائی جاتی ہیں۔ اس لیے باری تعالیٰ نے ایک مومن اور ایک منافق کی نماز میں یہی فرق بیان کیا ہے کہ مومن کی نماز نشاط و چستی اور تروتازگی ار بھرپور توانائی کےساتھ ہوتی ہے جبکہ ایک منافق کی نماز سراسر سستی و کاہلی کی نماز ہوتی ہے۔ اس لیے ارشاد فرمایا:
وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوْا کُسَالٰی
(النساء،4: 142)
’’ جب وہ منافق نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو سستی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔‘‘
نماز تعدیل ارکان کے ساتھ ادا کی جاتی ہے۔ ڈھیلے ڈھالے طریقے سے نماز کا نہ کوئی شرعی روحانی فائدہ ہے اور نہ ہی طبی و جسمانی جب انسان صحیح طور پر تعدیل ارکان کے ساتھ نماز پڑھتا ہے تو نماز کی ادائیگی کا یہی طریقہ کار انسان کے کولیسٹرول لیول کو معتدل اور متوازن رکھتا ہے اور یہی طریقہ صلاۃ انسان کے لیے شفا بن جاتا ہے۔ اس لیے رسول اللہﷺ نے امت کے ہر چھوٹے اور بڑے شخص کو نماز کے عملی قیام کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
فان فی الصلاۃ شفاءٌ
(احمد بن حنبل، المسند،2: 390)
’’بے شک نماز میں شفاء ہے۔‘‘
جدید سائنسی تحقیق کے مطابق کولیسٹرول وہ چربی ہے جو ہماری شریانوں میں جم جاتی ہے اور رفتہ رفتہ ہماری شریانوں کو تنگ کردیتی ہے۔ اس کے نتیجے میں بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے۔ امراض قلب میں اضافہ ہوجاتا ہے اور فالج کا حملہ ہونے لگتا ہے۔ یہ ساری بیماریاں ورزش نہ کرنے کی وجہ سے لاحق ہوتی ہیں جو شخص پابندی سے نماز پڑھتا رہے وہ ان امراض سے محفوظ رہتا ہے اور یہ نماز کا عمل ایک نمازی کو روزانہ پانچ مرتبہ ہلکی پھلکی ورزش سے گزارتا ہے۔ کھانا کھانے کے بعد ہمارے کولیسٹرول کی مقدار بڑھ جاتی ہے اس کو تحلیل کرنے کا ایک فطرتی اور سادہ طریقہ یہی ہے کہ انسان خود کو نماز پنجگانہ کے عمل میں مصروف کرلے۔ جن اوقات میں انسان عموماً کھانا کھاتا ہے ان نمازوں کی تعدادِ رکعت زیادہ رکھی گئی ہے جیسے ظہر اور عشاء کی نماز ہے۔ اسی طرح رمضان المبارک میں بھرپور افطاری کی وجہ سے صلوٰۃ عشاء کے ساتھ مزید 20 رکعتوں کا اضافہ کردیا ہے۔
رسول اللہﷺ نے کولیسٹرول کی مقدار اور لیول کو معتدل رکھنے کے لیے نماز میں پابندی کی امت کو ہدایت عطا کردی تھی اور یہی وہ حقیقت ہے جس کو آج چودہ سو سال کے بعد سائنس پارہی ہے جبکہ اس حقیقت کو رسول اللہﷺ نے امت پر یوں منکشف کیا تھ۔ ارشاد فرمایا:
اذیبو طعامکم بذکراللہ والصلاۃ
(طبرانی، المعجم الاوسط، 5: 500، رقم الحدیث 4949)
’’اپنی خوراک (کے کولیسٹرول) کو اللہ کی یاد اور نماز کی ادائیگی سے حل کرو۔‘‘
اگر اس حدیث مبارکہ کے مطابق ہم پنجگانہ نماز کے عمل کو اختیار کرلیں تو ہم عمل صلاۃ کے ذریعے اپنے جسم کے ہر عضو کو ہلکی پھلکی ورزش سے گزار سکتے ہیں یوں اس احسن طریق سے ہم جسم کو تمام امراض سے محفوظ اور صحت مند بنا کستے ہیں۔ جب ایک نمازی حالت نماز میں اپنے ہاتھوں کو کانوں تک اٹھاتا ہے تو اس عمل کے ذریعے اس کے بازوؤں، گردن اور شانوں کے پٹھوں کی ورزش ہوتی ہے۔دل کے امراض میں مبتلا لوگوں کے لیے یہ ورزش اور یہ عمل انتہائی مفید ہے اور اس عمل سے فالج کا خطرہ بھی ٹل جاتا ہے اور نماز میں قیام کرنے سے بھی دل کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے۔
یوں انسان کا وزن دونوں پاؤں پر یکساں پڑتا ہے آنکھیں سجدہ کی جگہ لگی رہنے سے دل بھی یکسو ہوجاتا ہےاور خون کی روانی بھی بآسانی ہونے لگتی ہے۔ رکوع کا عمل کرنے سے بالائی نصف جسم جھکتا ہے جس کی وجہ سے خون کی پمپنگ Pumping زیادہ ہوجاتی ہے۔ رکوع کے ذریعے پنڈلیوں، ریڑھ کی ہڈی، ناف اور گردن کے عضلات کو فائدہ پہنچتا ہے اور اعصابی تناؤ سے ان کو قوت حاصل ہوتی ہے اور اندرونی سطح پر پیٹ کے عضلات پر دباؤ بڑھتا ہے اور یوں انسانی جگر، آنتوں، گردوں اور مثانے کی مالش ہوتی ہے جس سے ان اعضا کو تسکین و فرحت ملتی ہے اور رکوع کے عمل سے معدے اور آنتوں کی خرابیاں دور ہوتی ہیں اور پیٹ کے عضلات کا ڈھیلا پن ختم ہوجاتا ہے، رکوع سے حرام مغز کی کارکردگی میں اضافہ ہوتا ہے اور جن لوگوں کے اعضا سن ہوجاتے ہیں وہ رکوع کے ذریعے اس تکلیف سے نجات پانے لگتے ہیں اور اس رکوع سے کمر درد کے مریض بھی جلد صحت یاب ہونے لگتے ہیں اور رکوع کے ذریعے گردوں میں پتھری بننے کا عمل سست پڑ جاتا ہے اور حتی کہ پتھری جلدی جسم سے نکل جاتی ہے۔ رکوع سے ٹانگوں کی بیماریوں اور فالج کے مریض جلد چلنے پھرنے لگتے ہیں۔
رکوع کے ذریعے آنکھوں کی نسوں میں دوران خون کا بہاؤ تیز ہوجاتا ہےاور یوں دماغ و نگاہ کی کارکردگی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ حالت رکوع میں جب ایک نمازی اپنے گھٹنوں کو پکڑتا ہے تو اس کی ہتھیلیوں اور انگلیوں میں پیدا ہونے والی بجلی نماز قوت گھٹنوں میں جذب ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے گھٹنوں کا صحت مند لعاب برقرار رہتا ہے اور ایسے لوگ گھٹنوں اور جوڑوں کے درد سے محفوظ رہتے ہیں۔ رکوع کرنے سے چہرے اور سر کا دورانِ خون نارمل ہوجاتا ہے جس سے شریانوں میں لچک کی استعداد بڑھنے سے ہائی بلڈ پریشر اور فالج کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔
اسی طرح ہم نماز میں سجدہ کرتے ہیں اس کا دورانیہ اگرچہ چند سیکنڈ ہوتا ہے لیکن نمازی جب سجدہ کرتا ہے تو اس کے دماغ کی شریانوں کی جانب خون کا بہاؤ زیادہ ہوجاتا ہے اور حالت سجدہ میں ہی انسان کے دماغ، اعصاب، آنکھوں، سر اور دیگر اعضائے جسم کی طرف خون کی ترسیل متوازن ہوجاتی ہے۔ جس کی وجہ سے دماغ اور نگاہ کی کارکردگی بڑھ جاتی ہے۔ سجدے کے دوران خون اور زمین کی کشش کا اضافہ دباؤ ہاتھوں، پیشانی، چہرے، سینے اور دل کی طرف بڑھ جاتا ہے اور سجدے سے اٹھتے ہی صرف چند سیکنڈ میں یہ دباؤ نارمل ہوجاتا ہے۔ اس طرح حالت سجدہ میں ہی پیشانی کو دو سے تین منٹ تک دبایا جائے تو اس سے ذہنی انتشار کا خاتمہ ہوجاتا ہےسجدے میں ٹانگوں اور رانوں کے پچھلے عضلات کھنچے ہوئے ہوتے ہیں اور حالت سجدہ میں انسان کی کمر اور پیٹ کے عضلات کی بھی بہترین ورزش ہوتی ہے اور اس سجدے کے عمل کے ذریعے ریڑھ کی ہڈی مضبوط اور لچک دار ہوجاتی ہے اور اندرونی اعصاب تقویت پاتے ہیں۔ یوں سجدہ جہاں انسان کی جسمانی قوتوں کو طاقت دیتا ہے وہاں روحانی طور پر بندے کو اللہ کے بہت زیادہ قریب کرتا ہے۔
خلاصہ کلام
صلوٰۃ کا لغوی معنی دعا کرنا ہے اور نماز پڑھنا ہے جبکہ شرعی مفہوم یہ ہے کہ ایک مخصوص طریقے سے اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے انجام دی جانے والی عبادت کا نام نماز ہے جو مخصوص اور معلوم افعال اور اقوال پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے ہوتا ہے اور اختتام سلام پھیرنے سے ہوتا ہے۔ اس عبادت کو صلاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ یہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے۔ عربی زبان میں صلاۃ ہر قسم کی دعا کے لیے بولا جاتاہے۔ بعد ازاں یہ لفظ مخصوص شرعی عبادت نماز کے لیے مختص ہوگیا ہے۔ اس دعا میں بندہ اپنے رب سے بزبان قال اپنی حاجات اور اپنی ضروریات کا سوال کرتا ہے۔ کوئی سوال اس کا صرف اور صرف نفع و فائدے کے لیے ہوتا ہے اور کوئی سوال صرف نقصان و خسران سے بچنے کے لیے ہوتا ہے اور کوئی سوال اللہ ے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے اجر و ثواب کے لیے ہوتا ہے اور کوئی سوال فقط ہدایت طلبی کے لیے ہوتا ہے۔ کوئی سوال نعمتوں کی طلب و تمنا کے لیے ہوتا ہے کوئی سوال ضلالت و گمراہی سے بچنے کے لیے ہوتا ہے، کوئی التجا اللہ کے غضب سے پناہ مانگنے کی ہوتی ہے۔ باری تعالیٰ اپنے تمام بندوں سے مطالبہ صلوۃ کرتاہےا ور ان کو واقیموالصلوۃ کا پابند بناتا ہے۔ کبھی تمام اہل ایمان کو مخاطب کرکے فریضہ نماز کا اعلان یوں کرتا ہے:
اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰـبًا مَّوْقُوْتًا
(النساء،3: 103)
’’ بے شک نماز مومنوں پر مقررہ وقت کے حساب سے فرض ہے۔‘‘
کبھی سب بندوں کو اپنی عبادت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ نمازوں کو پابندی سے ادا کیا کرو اور ان کی ادائیگی کی محافظت کیا کرو۔
حٰـفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ
(البقرہ،2: 238)
’’ سب نمازوں کی محافظت کیا کرو۔‘‘
کبھی بلا استثنا سب بندوں کو اپنی فرمانبرداری اور اطاعت گزاری کی طرف یوں متوجہ کرتا ہے:
وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ
(البقرہ،2: 238)
’’ اﷲ کے سامنے ادب اور فرماں بردار بن کر کھڑے ہوا کرو۔‘‘
کبھی قرآن پیروی رسالت میں ہر مسلمان و مومن کو حکم قیام صلاۃ کا یوں دیتا ہے:
اَقِمِ الصَّلٰوۃَ
(العنکبوت،29: 45)
’’نماز قائم کرو۔‘‘
کبھی قرآن حکم عبادت میں تاکید پیدا کرتے ہوئے یوں متوجہ کرتا ہے:
اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآئَ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ
(البینۃ،98: 5)
’’اور انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا وہ اللہ کی عبادت کریں کہ اللہ کی بندگی کو یکسو ہوکر صرف اسی کے لیے خالص رکھیں۔‘‘
اور کبھی باری تعالیٰ گھر کے سربراہ سے لے کر گھر کے ایک ایک فردکو قیام صلوۃ کی طرف یوں متوجہ کرتا ہے:
وَاْمُرْ اَھْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْھَا
(طہ،20: 132)
’’ اور آپ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور خود بھی اس پر ثابت قدم رہو۔‘‘
رسول اللہﷺ نے احادیث مبارکہ میں نماز کو اللہ کا بندے پر اللہ کا حق واجب قرار دیا ہے۔ اس لیے فرمایا:
الصلوۃ حق واجب
(مسند احمد بن حنبل، 1: 60)
’’نماز اللہ کا حق ہے اور ہم پر فرض ہے۔‘‘
کبھی ارشاد فرمایا:
صلوا خمسکم
(ترمذی، السنن، کتاب الجمعہ، 2: 516، رقم الحدیث 616)
’’پانچ وقت کی نماز ادا کرو۔‘‘
کبھی ارشاد فرمایا:
خمس صلوات افترضہن اللہ تعالیٰ علی عبادہ
(سنن ابی داؤد، کتاب الصلوۃ، باب فی المحافظہ علی وقت الصلاۃ، 1: 115، رقم الحدیث 425)
’’پانچ نمازیں ہیں جن کو باری تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرض کردیا ہے۔‘‘
وہ نماز جس کا مقصد اللہ کی رضا اور خوشنودی ہو ایسی نماز کی وجہ سے گناہ درخت کے پتوں کی طرح جھڑ جاتے ہیں۔
اس لیے رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
یرید بھا وجہ اللہ فتھافت عنہ ذنوبہ کما یتھافت ھذا الورق عن ھذہ الشجرۃ
(مسند احمد بن حنبل، 5: 179، رقم 21596)
’’وہ نماز جس سے مقصود اللہ کی رضا ہوتی ہے اس کے باعث بندے سے گناہ ایسے جھڑتے ہیں جیسے درخت سے پتے جھڑتے ہیں‘‘۔
اور اسی طرح نماز کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا نماز ہی ایسا عمل عبادت ہے جس کے بارے میں قیامت کے روز سب سے پہلا سوال کیا جائے گ۔
مایحاسب بہ العبد الصلاۃ
(طبرانی، معجم الاوسط، 2: 240، رقم 1859)
’’قیامت کے روز سب سے پہلا سوال بندے سے نماز کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘
اس لیے فرمایا اپنی اولادوں کو سب سے پہلا عمل تربیت نماز کی صورت میں دو اور ارشاد فرمایا:
مروا اولادکم بالصلوۃ
(ترمذی، السنن، کتاب الصلاۃ، باب ماجاء متی یومر الصبی بالصلاۃ، 20: 259، رقم407)
’’اپنی اولادوں کو نماز پڑھنے کا حکم دو۔‘‘
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
علموا الصبی الصلاۃ
(سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب متی یومر الغلام بالصلاۃ، 1: 133)
’’اپنے سات سال کے بچوں کو نماز کی تعلیم دو۔‘‘
یہ نماز اپنے اندر قد افلح (وہ فلاح پاگیا) اور قد انجح (وہ نجات پاگیا) کا پیغام رکھتی ہے۔
(سنن نسائی، کتاب الصلاۃ، باب المحاسبۃ علی الصلاۃ، 1: 232، رقم 465)
وہ رب اپنے بندوں پر انتہائی مہربان ہوتے ہوئے پانچ وقت میں یاد دہانی کے لیے ان کو نماز کی طرف بصورت اذان دعوت دیتا ہے اور ان کو اپنی یاد کے لیے بلاتا ہے حی علی الصلوۃ حی علی الفلاح نماز کی طرف آؤ اور خیرو فلاح کی طرف آؤ۔ وہ رب ہوکر اور بے نیاز ہوکر لوگوں کو نہ صرف نماز کی طرف بلاتا ہے بلکہ اُن کو آگاہ بھی کرتا ہے کہ فلاح کا راستہ نماز ہی ہے اور اذان کی صورت میں نماز کا تعارف ہی یہ کرایا جارہا ہے کہ نماز درحقیقت فلاح ہی فلاح ہے اور نجات ہی نجات ہے۔ اس فلاح اور نجات کی طرف رسول اللہﷺ کی ذات و تعلیمات ہمارے لیے مذکر (ماد کرانے والی) ہیں۔ اس لیے فرمایا:
فذکر انما انت مذکر۔
’’آپ بار بار ان کو خیرو نصیحت کی طرف یاد دہانی کراتے رہیے۔‘‘
حق ونصیحت اور ہدایت و فلاح کی بات کہتے رہیے، آپ کی تعلیمات میں سے قرآن و سنت ہمارے لیے ہر لمحہ پیغام
ہدایت سے بھرپور اور معمور ہیں اور صلاۃ جیسے عملِ فلاح کی طرف ہمیں متوجہ کرنے کے لیے پانچ وقت کی نماز سے قبل اذان کے عمل کو ہمارے لیے شروع کیا ہے۔ اذان شہادت توحید و رسالت کے بعد دعوت صلاۃ اور دعوت فلاح ہے۔ حی علی الصلوۃ اور حی علی الفلاح کے کلمات جب ایک سلیم الفطرت شخص سنتا ہے تو وہ لبیک اللہم لبیک کہتا ہوا شریک صلوۃ ہوتا ہے۔ اس لیے کہ وہ جانتا ہے ایاک نعبد وایاک نستعین ہی ہماری حیات کی کل حقیقت اور ہمارا وظیفہ حیات اقم الصلوۃ لذکری میری یاد کی خاطر عمل صلاۃ قائم کرو۔ ہماری نماز تمام تر عقلی و طبی، سائنسی و علمی، معاشرتی و سماجی اور تہذیبی و تمدنی اور فکری و نظری فوائد کی حامل ہے۔ اگر یہ اپنے طریق ادائیگی میں رسول اللہﷺ کے اس منہج و اسلوب کی حامل ہوجائے۔
ان تعبداللہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانک یراک۔
’’تو اللہ کی نماز و عبادت اس طرح ادا کر گویا تو اس کے حسن مطلق کی دید کررہا ہے اگر یہ نہ ہوسکے تو یوں تصور دید بناؤ کہ وہ تمھیں دیکھ رہا ہے۔ ‘‘
نماز کے ذکر الہٰی ہونے کا یہی مفہوم کامل ہے۔ نماز کی سب سے بڑی حقیقت یہی ہے کہ عمل صلاۃ انسان کو اس کائنات کی حقیقت عظمیٰ کے حسن مطلق کی دید کے لیے سارے حجابات مرتفع کر دے اور ایک طالبِ مولا اور ایک بندہ حق کی یہی آرزو و تمنا صادق ہوتی ہے۔ جس کو لے کر وہ نماز میں آتا ہے اور اس کے حسن مطلق کی دید کے لیے یوں التجا کرتا ہے:
اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ حجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبینِ نیاز میں
نماز کا یہ تصور جب مزید ذہن و دل میں راسخ ہوتا ہے تو انسان کے انگ انگ سے یہ صدا بلند ہوتی ہے اور وہ فنا فی اللہ کی قربتوں کو پانے کے لیے ماہی بے آب کی طرح یوں تڑپ تڑپ کر عالم ھو میں یہ آرزو اور تمنا کرتا ہے۔
اک میں ہوں اور فقط تو ہو اور عالمِ ھو ہو
اے حسنِ ازل سارے حجابات اٹھا دے