روزہ: جسمِ انسانی پر اثرات

روزے کے جسمِ انسانی کے مختلف اعضاء پر مرتب ہونے والے اثرات کی ایک علمی و طبی تحقیق

بہت سے لوگ اس خوف کے پیش نظر روزہ نہیں رکھتے کہ روزہ کے سبب یا روزہ کی حالت میں کہیں ان کی بیماری میں اضافہ، پیچیدگی یا مزید کمزوری پید انہ ہوجائے حالانکہ ایسا ہرگز نہیں۔ جدید میڈیکل سائنس نے یہ ثابت کیا ہے کہ روزہ دار کے جسم میں دوسرے افراد کی نسبت قوت مدافعت کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور پھر روزہ کی حالت میں اندرونی اعضاء پر کام کا بوجھ ہلکا ہونے کے باعث انہیں آرام مل جاتا ہے اور بعد ازاں یہ اعضاء تازہ دم اور بہتر کارکردگی کے حامل ہوجاتے ہیں۔

قرآن مجید میں اللہ تعاليٰ نے روزہ کو مومنوں کے حق میں سراسر خیر اور بھلائی قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ.

’’اور تمہارا روزہ رکھ لینا تمہارے لیے بہتر ہے اگر تمہیں سمجھ ہو‘‘۔

(البقرة:۱۸۴)

اگر اس آیت مبارکہ کا طبی حوالے سے مطالعہ کریں تو واضح ہوجاتا ہے کہ روزہ عبادت کے ساتھ ساتھ صحت انسانی کے لئے مفید ہے جس سے بہت سے طبی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔

ابتداء میں روزے کے طبی فوائد کو صرف نظام ہضم تک محدود سمجھا گیا اور کہا جاتا رہا کہ اس سے زیادہ اور کوئی طبی افادیت نہیں ہے۔ مگر جوں جوں میڈیکل سائنس نے روزہ کی طبی افادیت کے موضوع پر تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ روزہ تو ایک طبی معجزہ ہے جو اپنے اندر متعدد طبی فوائد و ثمرات کو سموئے ہوئے ہے۔ روزہ کے انہی طبی فوائد کے پیش نظرِحضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

صوموا تصحوا۔

(اخرجه الربيع فی المسند، ۱/۱۲۲، رقم:۲۹۱)

’’روزے رکھو، صحت و تندرستی پاؤ گے‘‘۔

یعنی روزے سے جس طرح ظاہری و باطنی نقصانات زائل ہوتے ہیں اسی طرح اس سے ظاہری و باطنی مسرت بھی حاصل ہوتی ہے۔

اس حدیث مبارکہ کے مطابق روزہ کے جسم انسانی پر یقینی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے ایسے مریض جو عرصہ دراز سے کسی ایک بیماری کا شکار چلے آرہے ہیں اور وہ بیماری ان کے جسم میں جڑ پکڑ چکی ہے، روزہ رکھنے سے ان کے مرض میں کمی ہوجاتی ہے۔ اگر روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ انتہائی سادہ اور ہلکی غذائیں استعمال کی جائیں تو بیماری سے مکمل طور پر نجات ملنا بھی ممکن ہے۔

آیئے! ذیل میں ہم ان اثرات کا جائزہ لیتے ہیں جو روزہ رکھنے سے ہمارے جسم کے مختلف اعضاء پر مرتب ہوتے ہیں:

روزہ کے دل پر اثرات

روزہ کی حالت میں صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک چونکہ کچھ کھایا پیا نہیں جاتا جبکہ دوسری طرف روزمرہ کے امور میں مصروف ہونے، محنت کرنے سے توانائی بھی صرف ہورہی ہوتی ہے۔ نتیجتاً جب توانائی استعمال ہوگی تو خون میں کمی بھی آئے گی جس طرح مشینوں کے چلنے سے ایندھن بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ اثر دل کے لئے نہایت مفید اور اسے آرام پہنچانے کا باعث ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خلیات کے درمیان مائع کی مقدار میں کمی کی وجہ سے دل کے Tissues پر دبائو کم ہوجاتا ہے اور پٹھوں پر یہ کم دبائو دل کے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہوتاہے۔ روزے کے دوران یہ دبائو کم سطح پر ہوتا ہے یعنی اس صورت میں دل مکمل طور پر آرام کی حالت میں ہوتا ہے۔ اس لئے کہ اُسے خون کو تمام جسم میں پہنچانے، اسے صاف کرنے اور پورے جسم سے واپس دل میں لانے کے لئے کم سے کم قوت صرف کرنی پڑتی ہے۔

آج کے دور میں ہر شخص کسی نہ کسی وجہ سے شدید دباؤ اور Tension کا شکار ہے۔ اس ذہنی دبائو کا علاج اور شفا یابی کا راز روزے میں موجود ہے۔ رمضان المبارک کے ایک ماہ کے مسلسل روزے بطورخاص دل کے پٹھوں پر دبائو کوکم کرکے انسان کو بے شمار فوائد پہنچاتے ہیں۔

روزے کا سب سے اہم اثر پورے جسم میں خون کے بہائو کے دوران دل سے صاف خون لے کر پورے جسم میں اس خون کو پہچانے والی شریانوں پر دیکھنے میں آتا ہے۔ شریانوں کا سکڑ جانا خون کے بہائو میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے اور شریانوں کے سکڑنے اور کمزور ہونے کی اہم ترین وجوہات میں سے ایک وجہ خون میں باقی ماندہ مادے کا پوری طرح تحلیل نہ ہوسکنا ہے۔ جب ہم روزہ رکھتے ہیں تو افطار کے وقت تک خون میں موجود غذائیت کے تمام ذرات تحلیل ہوچکے ہوتے ہیں۔ اس طرح خون کی شریانوں کی دیواروں پر چربی یا دیگر اجزاء کولیسٹرول (Colistrol) وغیرہ جم نہیں پاتے اور یہ شریانیں سکڑنے سے محفوظ رہتی ہیں۔

پس شریانوں کی دیوار کی سختی، ان کا سکڑنا اور کمزور ہونے کی شکل میں انتہائی شدید مرض سے بچنے کے لئے روزہ ایک انعام خداوندی ہے۔ چونکہ روزے کے دوران گردے جنہیں دوران خون کا ایک حصہ سمجھا جاتا ہے، آرام کی حالت میں ہوتے ہیں لہذا انسانی جسم کے اس عضو کی بحالی بھی روزے کی برکت سے بحال ہوجاتی ہے۔

روزہ اور خون کی تشکیل

خون ہڈیوں کے گودے (Bone Merrow) میں تشکیل پاتا ہے۔ جسم انسانی کو جب خون کی ضرورت ہوتی ہے تو ایک خود کار نظام ہڈی کے گودے کو حرکت میں لاتا ہے۔ حتی کہ انتہائی کمزور و نحیف لوگوں میں بھی یہ گودا بطور خاص سست حالت میں ہوتا ہے۔ روزے کے دوران جب غذائی مادے کم ترین سطح پر ہوتے ہیں تو Bone Merrow حرکت میں آجاتا ہے۔ اس طرح کمزور و لاغر لوگ روزہ رکھ کر با آسانی اپنے اندر زیادہ خون پیدا کرسکتے ہیں۔

روزہ اور معدہ

روزہ کی حالت میں انسانی معدہ پر بھی دل کی طرح مفید اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ روزہ کی وجہ سے معدہ سے نکلنے والی رطوبات متوازن ہوجاتی ہیں۔ اگرچہ عام قسم کی بھوک سے معدہ کی تیزابیت میں اضافہ ہوجاتا ہے مگر روزہ کی حالت میں معدہ سے نکلنے والی رطوبات کے متوازن ہونے سے معدہ میں تیزابیت (Acidity) جمع نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روزہ کے دوران معدہ کے اعصاب و رطوبات پیدا کرنے والے خلیے رمضان کے مہینے میں آرام کی حالت میں ہوتے ہیں اور ایک صحت مند معدہ افطار کے بعد زیادہ کامیابی سے ہضم کرنے کا کام سرانجام دیتا ہے۔

روزہ کے آنتوں پر اثرات

روزہ آنتوں کو آرام اور توانائی فراہم کرتا ہے۔ آنتوں کی شریانوں کے غلاف کے نیچے Endothelium محفوظ رکھنے والے مدافعتی نظام کا بنیادی عنصر موجود ہوتا ہے جیسے انتڑیوں کا جال۔ روزے کے دوران صحت مند رطوبت بننے اور معدہ کے پٹھوں کی حرکت سے ان کو نئی توانائی اور تازگی حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح روزہ دار ہضم کرنے والی نالیوں کی تمام بیماریوں سے محفوظ ہوجاتے ہیں۔

روزہ اور نظام اعصاب

کچھ لوگ روزہ کی حالت میں چڑ چڑے، بے چین اور لاغر ہوجاتے ہیں۔ اس کیفیت کا عصبی نظام (Nervous System) سے قطعی کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ایسی صورت حال ان لوگوں کے اندر طبیعت کی سختی کی وجہ سے ہوتی ہے جبکہ روزہ کے دوران Nervous System مکمل آرام و سکون کی حالت میں ہوتا ہے۔

روزہ کے دوران عبادات سے حاصل ہونے والے سکون و اطمینان تمام کدورتوں اور غصہ کو دور کردیتا ہے۔ ہماری پریشانیاں و اضطرابی کیفیات اور اعصابی مسائل روزے کے دوران رضائے الہی کے حصول کے لئے کی جانے والی ریاضت و مجاہدہ کی وجہ سے ختم ہوجاتے ہیں۔ نیز اس دوران جنسی خواہشات علیحدہ ہونے کی وجہ سے بھی اعصابی نظام پر منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔

روزہ اور وضو کے مشترکہ اثرات سے جو مضبوط ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے، اس سے دماغ میں دوران خون (Blood Circulation) کا بے مثل توازن قائم ہوجاتا ہے جو تندرستی کی نشان دہی کرتا ہے اور ذہنی تنائو و اضطراب کو دور کرنے میں مدد دیتا ہے۔

روزہ کے جگر پر اثرات

روزہ جگر پر حیران کن حد تک اثر انداز ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جگر تقریباً پندرہ طرح کے کام سرانجام دیتا ہے۔ ان کاموں کی ادائیگی سے بالآخر یہ تھکن کا شکار ہوجاتا ہے۔ جس طرح انسان مسلسل کئی گھنٹے کام میں مصروف رہنے سے لاغر و نڈھال ہوجاتا ہے۔

پس روزہ کے ذریعے جگر کو چار پانچ گھنٹوں کے لئے آرام میسر آتا ہے جو کہ بغیر روزہ کے ممکن نہیں کیونکہ بہت ہی معمولی خوراک یہاں تک کہ 100 گرام کے برابر بھی خوراک معدہ میں داخل ہوجائے تو مکمل نظام ہضم اپنا کام شروع کردیتا ہے اور جگر فوری مصروف عمل ہوجاتا ہے۔ طبی نقطہ نظر سے یہ کہا جاتا ہے کہ ایک سال میں جگر کو ان مصروفیات سے کم از کم ایک ماہ کے لئے سہولت و آرام ملنا ضروری ہے۔

جگر کے انتہائی مشکل کاموں میں سے ایک کام غیر ہضم شدہ خوراک اور تحلیل شدہ خوراک کے درمیان توازن برقرار رکھنا بھی ہے اور دوسرا کام خون کے ذریعے ہضم ہوجانے کے عمل کی نگرانی کرنا بھی ہے۔ روزہ کے ذریعے جگر توانائی پہنچانے والی غذا کو جمع کرنے سے بھی بڑی حد تک آزاد ہوجاتا ہے اور اپنی توانائی جسم کی قوت مدافعت کو تقویت دینے پر صرف کرسکتا ہے۔

روزے کے ذریعے ہمارے جسم میں گلے اور خوراک کی حساس نالی کو بھی آرام نصیب ہوتا ہے جو کسی اور صورت میں ممکن نہیں۔

حالت روزہ میں کمزوری کیوں؟

دن بھر روزہ گزار لینے کے بعد افطاری سے کچھ دیر قبل عموماً جسم میں ہلکی سی نقاہت (Weekness) کا احساس ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ آیئے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔

  • روزہ دار کے خون میں پوٹاشیم کی پیداوار میں اضافہ ہوجاتا ہے اور پوٹاشیم کی زیادتی، کمزوری اور سستی کا موجب بنتی ہے۔
  • خون میں شکر کی سطح (Blood Sugar Level) کے تناسب میں قدرے کمی کی وجہ سے تھکن اور کمزوری محسوس ہوتی ہے۔ روزہ کی حالت میں اس کمزوری کا سبب خون کے خلیات کی توڑ پھوڑ یا شکستگی نہیں بلکہ اسکا اصل سبب پوٹاشیم کی زیادتی اور خون میں شکر کی سطح کا نارمل سے کم ہوجانا ہے۔

خوراک میں مٹھاس کم ہو تو یہ مقدار کم رہتی ہے اور اگر انتہائی کم ہوجائے تو یہ صورت حال (Hypoglycaemia) کہلاتی ہے جس میں ٹھنڈے پسینے آتے اور دل ڈوبنے لگتا ہے۔

کھجور سے افطار کی حکمت

کھجور سے افطاری اس نقاہت و کمزوری کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ کھجور میں موجود کیمیائی اجزاء خون کے اجزاء میں توازن پیدا کردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھجور سے افطاری کا بطور خاص اہتمام کرتے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:

کَانَ النَّبِيُ صلی الله عليه وآله وسلم يُفْطِرُ قَبْلَ اَنْ يُصَلِّيَ عَلَی رُطَبَاتٍ فَاِنْ لَمْ تَکُنْ رُطَبَاتٌ فَتُمَيْرَاتٌ فَاِنْ لَمْ تَکُنْ تُمَيْرَاتٌ حَسَا حَسَوَاتٍ مِنْ مَاءٍ.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (مغرب کی) نماز سے پہلے چند تازہ کھجوروں سے روزہ افطار فرماتے، اگر تازہ کھجوریں نہ ہوتیں تو خشک کھجور سے روزہ کھولتے، اگر یہ بھی نہ ہوتیں تو پانی کے چند گھونٹ پی لیتے‘‘۔

(جامع الترمذی فی السنن، کتاب الصوم، باب ماجاء ما يستحب عليه الافطار، ۳/۷۹، الرقم:۶۹۶)

کھجور سے افطاری جسمانی نقاہت کو اس طرح دور کرتی ہے کہ جب بھوک بیدار ہوتی ہے تو کھانے کی خواہش سے ہی منہ اور معدے میں مخصوص قسم کی رطوبات (Hunger Juice) ٹپکنے لگتی ہیں۔ افطاری کے وقت جونہی افطار کا الارم ہوتا ہے یا اذان کی آواز آتی ہے، اس کے ساتھ ہی منہ میں Hunger Juice ٹپکنے شروع ہوجاتے ہیں جسے Conditioned Reflex کا نام دیا گیا ہے۔

معدہ میں زیادہ تر Hydrochloric Acid پائے جاتے ہیں۔ معدہ کا اصل کام کھائی گئی خوراک کو عارضی طور پر کچھ عرصہ کے لئے روکے رکھنا یا ذخیرہ کرنا ہے۔ ہضم کا پورا عمل چھوٹی آنت میں انجام پاتا ہے۔ معدہ خوراک کو روک کر تھوڑی تھوڑی مقدار میں آنتوں میں بھیجتا رہتا ہے۔ اس انتظار کے دوران Hydrochloric Acid نشاستہ والی غذائوں کو Glucose میں تبدیل کردیتا ہے۔

کھجور سے افطاری کرنے میں فلسفہ یہ ہے کہ افطاری کے لئے اذان سننے یا الارم کے ساتھ ہی منہ میں رطوبات (لعاب دہن) جمع ہوجاتی ہیں۔ جب ہم کھجورسے افطاری کرتے ہیں تو چبانے کے دوران لعاب دہن میں موجود ایک جوہر کھجور میں موجود چند اجزاء کو Glucose میں تبدیل کردیتا ہے جس سے فوراً توانائی کی بحالی شروع ہوجاتی ہے۔

روزمرہ کی ضروریات کے لئے خون میں گلوکوز کی ایک مقررہ مقدار گردش کرتی رہتی ہے۔ فاقہ یا روزہ کے دوران خون میں 80 ملی گرام سے 120 ملی گرام گلوکوز ہمہ قت موجود رہتا ہے جبکہ کھانا کھانے کے بعد یہ مقدار 120 ملی گرام سے 180 ملی گرام خون کے 100 ملی لیٹر میں پائی جاتی ہے۔

خوراک میں مٹھاس کم ہوتو یہ مقدار کم رہتی ہے۔ اگر بہت کم ہوجائے تو یہ صورت حال Hypoglycaemiaکہلاتی ہے۔ جس میں ٹھنڈے پسینے آتے اور دل ڈوبنے لگتا ہے۔

کھجور کی کیمیائی ماہیت

کھجور کے اندر اللہ تعاليٰ نے قدرتی طور پر انسانی جسم کی نقاہت و کمزوری کو دور کرنے کا سامان رکھا ہے۔ درخت کے ساتھ پھل لگنے اور پھر اس پھل کے پکنے کے درمیانی عرصہ میں پھل میں کیمیائی تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ ان کیمیائی تبدیلیوں میں سے ایک تبدیلی یہ بھی ہے کہ جب کھجور پکنے پر آتی ہے تو اس میں خشک مادہ کی شرح بڑھ جاتی ہے اور پانی کی مقدار کم ہونے لگتی ہے اور مٹھاس کی مقدار 22 Invert Suger فیصد سے بڑھ کر 47 فیصد ہوجاتی ہے۔

اسی افادیت کے پیش نظر اللہ تعاليٰ نے کھجور کا تذکرہ قرآن مجید میں اٹھائیس (28) مقامات پر مختلف حوالوں سے فرمایا اور کتب حدیث میں سینکڑوں مقامات پر کھجور کی افادیت، غذائی اہمیت اور طبی منفعت واضح کی گئی۔

100گرام کھجور کے اندر موجود غذائیت درج ذیل ہے:

  • 15.3% پانی
  • 2.5% پروٹین
  • 0.4% چکنائی
  • 2.1% معدنی اجزاء
  • 3.9%ریشے
  • 75.8% کاربوہائیڈریٹس
  • 317% کلوریز

کھجور میں پائے جانے والے نمکیات اور وٹامن کا تناسب کچھ اس طرح ہے:

  • نمکیات 2.1%
  • کیلشیم120 ملی گرام
  • آئرن7.3 ملی گرام
  • فاسفورس50 ملی گرام
  • وٹامن C، 3ملی گرام
  • وٹامن B، 0.5%

ان اجزاء کے علاوہ کھجور میں کیلشیم، میگنیشیم پوٹاشیم ور نشاستہ بھی پائے جاتے ہیں۔

کیمیائی تجزیات نے یہ ثابت کیا کہ کھجور حیاتین، معدنی اجزاء، پروٹینز اور مٹھاس سے بھرپور ایک مکمل غذا ہے۔ جب ہم کھجور سے افطاری کرتے ہیں تو اس کی مٹھاس منہ کی لعاب دار جھلی (Mucous Membrane) میں فوری جذب ہوکر گلوکوز میں Convert ہوجاتی ہے جس سے جسم میں حرارت اور فوری توانائی بحال ہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس اگر کسی بھی دوسری شے مثلاً پکوڑے سموسے یا اسی نوع کی چٹخارے دار خوراک استعمال کریں تو اس سے معدے میں گرمی اور HCL بڑھ جاتا ہے۔ کثرت تیزابیت کے باعث سینے کی جلن اور بار بار پیاس لگتی ہے جس سے خامرات ہضم (Digestive Enzymes) ہوجاتے ہیں جو معدہ کی دیواروں کو کمزور کرنے اور گیس کا سبب بنتے ہیں جبکہ کھجور سے افطاری کرنے سے نہ تو معدے میں بوجھ ہوتا ہے اور نہ ہی معدے میں Hydrochloric Acid کی زیادتی ہوکر گیس کی صورت پیدا ہوتی ہے۔

انسانی معدہ روزہ کے ذریعے جو اثرات حاصل کرتا ہے وہ بے حد فائدہ مند ہوتے ہیں۔ اس کے ذریعے معدہ سے ٹپکنے والی رطوبت بھی متوازن ہوجاتی ہیں اور کھجور ان فائدوں کو مزید تقویت بخشتی ہے۔

پانی سے افطاری کی حکمت

احادیث مبارکہ کی روشنی میں افطاری کے لئے جن افضل چیزوں کا ذکر آیا ہے ان میں کھجور اور پانی سرفہرست ہیں۔

اللہ رب العزت نے زندگی کو زمین پر پانی سے نمودیا۔ ارشاد فرمایا:

وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ کُلَّ شَيْئٍ حَیٍّ اَفَـلَا يُؤْمِنُوْنَ.

(الانبياء:۳۰)

’’اور ہم نے (زمین پر) پیکرِ حیات (کی زندگی) کی نمود پانی سے کی، تو کیا وہ (قرآن کے بیان کردہ اِن حقائق سے آگاہ ہو کر بھی) ایمان نہیں لاتے‘‘۔

اس کرہ ارض پہ جتنے بھی جاندار ہیں ان کی زندگی پانی سے ہے۔ جسم انسانی میں پانی کثیر مقدار میں موجود ہے مگر جسم انسانی سے اپنی اصلی ہیئت میں پانی کہیں سے بھی برآمد نہیں ہوتا بلکہ یہ نامیاتی مرکب کی صورت میں ہوتا ہے۔ جس طرح خون کا 95 فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ لحمیات خون کے خلیات اور نمکیات ہوتے ہیں۔ اس طرح لعاب دہن، آنسو اور معدہ کی رطوبات سبھی پانی ہی ہوتے ہیں۔ پسینہ اور دیگر خارج ہونے والی چیزوں کے ذریعے پانی کی کثیر مقدار جسم سے نکل جاتی ہے۔ ضرورت اس بات کی رہتی ہے کہ جسم میںپانی کی آمد و رفت کے درمیان ایک باقاعدہ تناسب موجود رہے۔ اگر کسی بیماری، پانی کی کم فراہمی یا عدم دستیابی کے باعث جسم میں پانی کی کمی (Dihydration) ہوجائے تو خون گاڑھا اور پیشاب کا اخراج کم یا مفقود ہوجاتا ہے۔

اس طرح گردوں میں ورم کے باعث یوریا (Urea) کریٹانین (Creatanin) جیسے زہریلے اجزاء خون میں شامل ہوکر تمام جسم میں سرایت کرجاتے ہیں جس سے بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہوجاتیں اور زندگی خطرے میں پڑجاتی ہے۔

پانی کی کمی سے خون گاڑھا ہوجاتا ہے اور دل اسے پمپ کرکے دوران خون جاری رکھنے کے قابل نہیںہوتا اور یہ گاڑھا خون شریانوں میں کبھی داخل نہیں ہوسکتا۔ نتیجتاً ہمارے جسم کا نظامِ دوران خون مکمل نہیں ہوسکتا۔ وہ شریانیں جس کے ذریعے دل پورے جسم میں خون بھجواتا ہے، ان کا جسم میں ایک وسیع و پیچیدہ جال (Net Work) ہے۔ ایک تخمینہ کے مطابق ایک انسان کے جسم میں پانچ ارب عروق شعریہ ہوتی ہیں۔ اگر ان کی لمبائی جمع کی جائے تو ان کی کل طوالت تقریباً 950 کلومیٹر ہوگی۔ کیونکہ خون کو ان بال سے باریک رگوں میں سے گزرنا ہوتا ہے۔ گاڑھا ہونے کی صورت میں نظام دوران خون مکمل طور پر ناکارہ ہوجاتا ہے۔

روزوں کے دوران جسم میں عام دنوں کی نسبت پانی کی کم مقدار داخل ہونے سے خون میں گاڑھا پن آجانا فطری ہے اور بعض اوقات کمزور اشخاص کو دل کے بھی جھٹکے محسوس ہونے لگتے ہیں۔ ایسی حالت میں پانی سے افطاری کرنے سے یہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی۔ جب روزہ دار پانی سے افطاری کرتا ہے تو منہ کی خشکی دور ہوگی، پیاس کی شدت میں کمی محسوس ہوگی اور فوراً بعد ہی اسے Vitality محسوس ہوگی۔

روزہ کی حالت میں دن بھر پانی استعمال نہ ہونے اور پسینہ وپیشاب وغیرہ کے اخراج سے جسم میں پانی کی یہ کمی امراض گردہ یا امراض جگر پیدا کردیتی ہے اور بعض اوقات پانی کی یہ کمی موت کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ پانی سے افطاری کی وجہ سے پانی کی مذکورہ کمی دور ہوکر جسم میں نئی زندگی کی لہر پیدا ہوجاتی ہے۔ احتیاط رہے کہ پانی کو گھونٹ گھونٹ کرکے پیا جائے۔ ایک ہی سانس میں پانی پینے میں خرابیاں ہیں۔

اللہ تعاليٰ نے روزہ کی شکل میں مسلمانوں کو جو نعمت عطا فرمائی ہے اصل میں یہ سال بھر کے لئے جسم انسانی کے لئے ٹیوننگ کا کام دیتی ہے۔ جس طرح ہم اپنے زیر استعمال گاڑیوں، موٹر سائیکلوں کی ایک مقررہ مدت کے بعد ٹیوننگ کرواتے ہیں تاکہ گاڑی کے تمام پرزے صحیح کام کرتے رہیں۔ اس طرح اللہ نے روزوں کے ذریعے بھی اس قدرتی ٹیوننگ کا اہتمام کیا ہے۔ نیز اس ٹیوننگ کے دوران بھی ہمیں اعضائے جسم کے لئے جن مفید اشیاء (کھجور/پانی) کی طرف متوجہ کیا وہ بھی اپنے اندر صحت اور تندرستی کا ایک خزانہ لئے ہوئے ہے۔ افطاری کے لئے جن اشیاء کو اولیت اور فوقیت حاصل ہے طبی لحاظ سے وہی صحت کے لئے مفید ہیں۔