اداریہ : ترکی میں احیائے اسلام کی کامیاب کاوش۔۔۔ ہمارے لئے خاموش پیغام

ملک میں جاری بدامنی کی لہر نے اہل وطن سے اعتماد اور یقین کی متاع عزیز کو چھین لیا ہے۔ وہ اضطراب مایوسی اور نا امیدی کی کیفیت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ یہی مایوسی دراصل پوری امت مسلمہ کا مرکزی مسئلہ ہے۔ مایوسی دراصل قوم کے افراد سے قوت عمل چھین لیتی ہے۔ کچھ کرنے کا حوصلہ اور عزم ہو تو کمزور شخص بھی حیران کن کارنامے سر انجام دینے کا اہل ہو جاتا ہے اور اگر دل و دماغ پر مایوسی کے بادل چھا جائیں تو تمام تر ذہنی اور بدنی صلاحیت کے باوجود انسان ناکارہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اضطراب اور بے چینی بعض اوقات ذہنی انتشار کا باعث بن کر انسان کو خود کشی کے اقدام تک لے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں مایوسی بھی بڑھ رہی ہے اور بے چینی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اس مرض کی تہہ میں معاشی ناہمواریاں، محرومیاں، معاشرے میں موجود غیر معمولی طبقاتی تفاوت اور تضاد ہے۔ ایک طرف سیاسی اور انتظامی اشرافیہ ہے جو لوٹ مار کے نت نئے طریقوں کے ذریعے وسائل پر قابض ہو رہا ہے۔ اس کے مفادات ملک سے باہر ہیں اس نے ہمیشہ وطن عزیز کو سیاسی اور اقتصادی مفادات کے حصول کا ذریعہ بنایا ہے، اس طبقے نے ملک کو دیا کچھ نہیں بلکہ جو کچھ ملک کے پاس تھا وہ لوٹا اور برباد کیا حتی کہ ملک کو دو لخت کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ اس وقت بھی اسلام آباد، لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ جیسے مرکزی اور صوبائی شہروں میں ہزاروں لوگ ایسے ہیں جو اس شدید ذہنی دباؤ کے دور میں بھی آرام اور سکون سے وسائل کی لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کراچی جیسے عالمی اور قومی کاروباری مرکز میں موت کا رقص جاری ہے۔ ٹارگٹ کلنگ کا کھیل ہر روز درجنوں قیمتی جانوں کو نگل لیتا ہے۔ بلوچستان صوبائیت کے تعصب کا شکار ہو کر خون میں لت پت ہے۔ محب وطن اور غیور بلوچوں کو ملکی سالمیت اور ترقی کے سفر میں خون پسینہ ایک کرنے کے باوجود، وفاق دشمن ثابت کر کے ان کے دل و دماغ میں تعصبات کی آگ بھڑکائی جا رہی ہے۔ یہی صورتحال اندرون سندھ اور پختون خواہ میں بھی پائی جاتی ہے۔ جہاں تک ملک کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی کا تعلق ہے وہ تو اب محض ایک حسین خواب ہی محسوس ہوتا ہے تاہم کچھ اہل درد، صاحبان یقین و ایمان ایسے موجود ہیں جو اس شب تاریک میں بھی روشنی پھیلانے کا قدسی مشن سنبھالے ہوئے ہیں اور انہی کے دم قدم سے ’’کام ابھی تک چل رہا ہے۔‘‘

ملک میں توانائی کا بحران ہو یا پٹرولیم مصنوعات میں آئے روز اضافوں کے باعث مہنگائی کے بڑھتے ہوئے طوفانوں کی تباہ کاریوں کا معاملہ، اس کا شکار بھی غریب عوام بن رہے ہیں۔ اشرافیہ کو نہ لوڈشیڈنگ کا سامنا ہے اور نہ مہنگائی ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہے۔

دریا کو ہے اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
 کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے

گذشتہ نصف صدی سے فوجی اور نام نہاد جمہوری حکمرانوں نے اقتدار کا شوق پورا کرنے کے لئے اس ملک کو حصول اقتدار کی سیڑھی کے طور پر استعمال تو کیا ہے، اسے ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کا کوئی قابل ذکر منصوبہ نہیں بنایا۔ تربیلا اور منگلا ڈیم بنا کر ہم نے ہاتھ پر ہاتھ دھر لئے اور کالا باغ کا پروجیکٹ سیاست کی نذر ہو گیا۔ ہم کتنی بد قسمت قوم ہیں جس کی تقدیروں کے فیصلے اس کے دشمن کرتے ہیں۔ دشمنوں کی بولیاں بولنے والے لوگ ہمارے سیاسی اور سماجی قائدین بن چکے ہیں۔ توانائی کا بحران ہماری معیشت کی کمر توڑ رہا ہے اور ہم اب بھی غیر ملکی آقاؤں کے کہنے پر کالا باغ جیسے عظیم منافع بخش منصوبے پر عمل درآمد کے لئے لرزاں و ترساں ہیں۔ ایران، چین اور دیگر ہمدرد ممالک کئی بار سستی بجلی فراہم کرنے کی آفر کر چکے ہیں مگر ہم نے کرائے کے مہنگے بجلی گھروں کو محض اس لئے حاصل کر رکھا ہے کہ ان سے کرپشن اور لوٹ مار کے مواقع ملتے رہتے ہیں۔ ان مسائل پر ہمارے تجزیہ نگار اکثر و بیشتر قلم اٹھاتے ہیں، ٹی وی پر گفتگو ہوتی ہے اور مجالس و مذاکروں میں یہ موضوعات زیر بحث آتے رہتے ہیں مگر مرض ہے کہ روز بہ روز بڑھ رہا ہے۔

اگر بغور سوچا جائے تو ہمارے اس معاشی، معاشرتی اور بالخصوص سیاسی بگاڑ میں ایک بڑا حصہ ہمارا اپنا بھی ہے۔ ہم نے جن نام نہاد جمہوری انتخابات کے ذریعے موجودہ حکومتی ڈھانچے کو ملک پر مسلط کیا ہے اس میں ووٹ کسی دوسرے ملک کے لوگوں نے نہیں ہم نے خود ڈالے ہیں۔ چلو سندھ، بلوچستان اورپنجاب میں اگر یہ کہا جائے کہ جاگیردار، سرمایہ دار کئی دہائیوں سے باری باری حکومت میں آ جا رہے ہیں انہوں نے مجبور لوگوں کی وفاداریاں خرید رکھی ہیں اور ان چند لوگوں کی وجہ سے ملک اچھی حکمرانی اور دیانتدار قیادت سے محروم ہے، مگر حال ہی میں خطہ آزاد کشمیر میں ہونے والے انتخابات کے نتائج ہمیں قومی سوچ کے پریشان کن دھارے کی خبر دے رہے ہیں کہ اجتماعی طور پر ہمارا طرز عمل اس قالب میں ڈھل چکا ہے کہ جن ہاتھوں کے ذریعے تباہ و برباد ہوتے ہیں، انتخابی سیٹوں میں تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ ان ہی افراد کو دوبارہ مسندِ اقتدار پر ’’فائز‘‘ کر دیتے ہیں۔ پاکستان میں رائج اس نظام انتخابات کے نتائج کو اگر صحیح تصور کر لیا جائے تو سوچنا پڑے گا کہ حکومت پر تنقید کرنے والے دانشور غلط ہیں یا ابھی تک ہم بحیثیت مجموعی اپنی اصلاح اور ترقی کے لئے سنجیدہ نہیں۔ کیا اس نظام کو اس طرح کے انتخابات تبدیل کر سکتے ہیں۔۔۔؟

ہمارے سامنے ابھی گذشتہ مہینے میں ترکی کے انتخابات اور ان کے حیران کن نتائج کی واضح مثال موجود ہے۔ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ عوام باشعور ہوں اور انہیں اپنا مستقبل عزیز ہو تو وہ قومی دھارے کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ وہی ترکی جہاں آج سے دس پندرہ سال قبل سیکولر نظام حکومت میں اللہ تعالیٰ کا نام لینا جرم تھا، جہاں مساجد کو تالے لگا دیئے گئے تھے اور دینی اقدار مفقود نظر آ رہی تھیں۔ وہاں ملکی معیشت کی یہ حالت تھی کہ آج کا ترکی لیرا 2003ء کے 12 سے 18 لاکھ لیروں کے برابر ہے۔ ترک قوم نے اس تباہ کن پست معیشت سے نجات حاصل کرنے کا عزم کیا، اللہ تعالیٰ نے انہیں نجم الدین اربکان اور طیب اردگان جیسے دین دوست دانشور قائدین سے نوازا، قوم نے آگے بڑھ کر ان کے ہاتھ پاؤں مضبوط کئے اور اس وقت وہی یورپ کا ’’مرد بیمار‘‘ حیران کن ترقی کے ریکارڈ قائم کر رہا ہے۔

ترکی ان دس سالوں میں پستی سے اٹھ کر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی قطار میں کھڑا ہو گیا ہے۔ وہ دنیا کی بارہویں بڑی معیشت بن چکا ہے۔ اب وہاں سیاسی استحکام بھی ہے اور معاشی خوشحالی بھی۔ دین پر عمل بھی ہو رہا ہے اور ان کے قومی ادارے بھی مضبوط ہو رہے ہیں۔

تاریخ کا یہی سبق ہے کہ قوم کو اگر اہل قیادت مل جائے جو کچھ کرنے کا جذبہ بھی رکھتی ہو تو قوم کبھی تباہ نہیں ہو سکتی۔ لیکن اصل بات تو یہ ہے اس جمہوری نظام میں قیادت بھی قوم کی اپنی منتخب کردہ ہوتی ہے۔ قوم خود لٹنے مرنے اور تباہ ہونے کے لئے تیار ہو تو دنیا کی کوئی طاقت اسے تباہی سے نہیں بچا سکتی۔ میں نے گذشتہ ماہ قیام استنبول کے دوران ترک مسلمانوں کی دانش، تحمل، اعلیٰ ظرفی اور حکمت و بصیرت کے کئی مظاہر دیکھے ہیں۔ کمیونسٹ اور یورپی سیکولر انقلابات کا شکار مسلم ترکی، پون صدی کے بعد طیب اردگان کی سیاسی قیادت میں دوبارہ ابھر رہا ہے۔ اسلامی ثقافت و اقدار کے احیاء کا مشن لے کر اکثر یتی پارٹی اور اسکے لاکھوں خاموش ورکرز کی طرف سے اتنی بڑی تاریخی کامیابی پر بھی کوئی نعرے بازی، ہنگامہ آرائی، جلسے جلوس، دھمکیاں، باطل کو مٹا دینے کے غیر دانشمندانہ دعوے کہیں نظر نہیں آتے۔ اس سے بڑھ کر اعلی ظرفی اور تحمل مزاجی ان لوگوں کی ہے جو اس ساری کامیابی کے پیچھے خاموشی کے ساتھ سال ہا سال سے دن رات محنت کر رہے ہیں۔ انہوں نے تعلیمی اداروں کا جال پھیلایا، اسلامی اقدار کے تحفظ کے لئے اسلامی تعلیمات کو لوگوں کے دلوں میں اتارا۔ عوام کو ان کا شاندار ماضی یاد دلایا جس کے نتیجے میں آج ترک نوجوان نسل، پورے احساس ذمہ داری اور دانشمندی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ یہ سارے لوگ مختلف دائروں میں کام کرنے کے باوجود ایک مشین کے مختلف پرزوں کی طرح اپنے اپنے معاملات میں محو ہیں۔ کوئی بھی دوسرے کے دائرے میں نہ صرف مداخلت نہیں کرتا بلکہ ایسا کرنا تحریک احیاء اسلام سے غداری تصور کرتا ہے۔

میں یہ سب کچھ اپنی نظروں سے دیکھ کر جب اسلام آباد ائیرپورٹ پر اترا اور الفاظ و خیالات کے ذریعے دونوں ممالک کی عوام کا موازنہ کرنا چاہا تو مجھے پاکستان اور ترکی کے عوام میں زمین و آسمان کا فرق محسوس ہوا۔ یہاں کی بدلتی ہوئی سیاسی وفاداریاں، بد زبانی، جذباتیت، مہنگائی، بدامنی اور سب سے بڑھ کر اس قدر بے حسی کہ کرپٹ اور موروثی سیاست کے حامل افراد کا ہی اس مفلوج سیاسی و انتخابی نظام کے ذریعے بار بار اقتدار میں آنا ایسے نظائر ہیں جو پریشان کن بھی ہیں اور تعجب انگیز بھی۔ کاش پاکستان جیسے اہم نظریاتی مسلمان ملک کے عوام بھی ترک بھائیوں سے سبق سیکھ سکتے۔ قدرتی حسن اور وسائل کی فراوانی میں پاکستان ترکی سے ہرگز پیچھے نہیں لیکن قوم کے رجحانات، احساسات اور لائحہ عمل میں ہم ان سے کوسوں دور ہیں۔ تحریک منہاج القرآن کے کارکنان اور قائدین کو یہی خلاء پورا کرنا ہے۔ اس لئے کہ پاکستان میں اخلاقی، روحانی اور تعلیمی بنیادوں پر بیداری شعور کی جو انقلابی فکر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دی ہے ترکی میں اسی طرح کی فکر نتیجہ خیز ثابت ہو کر ایک خاموش انقلاب لا چکی ہے۔ محنت، اخلاص اور دانشمندی شرط ہے۔ کوئی طاقت پاکستان میں مصطفوی انقلاب کو روک نہیں سکتی۔

ڈاکٹر علی اکبر قادری