ابحارِ علم و معرفت کا حسین سنگم

محمد شفقت اللہ قادری

’’یاد‘‘ سے مراد ’’خیال آنا‘‘ اور ’’رفتہ‘‘ سے مراد ’’پرانا ماضی‘‘ ہے۔ ’’یادِ رفتہ‘‘ کے لغوی معنی گزرے بھولے بسرے فراموش لمحات کی یاد آنا ہے۔ عربی زبان میں اس کے لیے ’’ذکر‘‘ کا لفظ ہے۔ یادِ رفتہ کو زمانۂ ماضی کی پرانی حسین یادیں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ یعنی ایسی پرانی یاد جو حافظہ میں موجود تو ہو مگر مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ اس کے سائے دھندلا چکے ہوں۔ پس عقل و خرد کے ذریعے انھیں ذہن میں لایا جائے۔

قارئین گرامی قدر! یادِ رفتہ بھی خوشبو کی دلفریب مہک کی مانند ہوا کرتی ہے اور ماضی کے بند دریچے کھول دیتی ہے۔ دورِ گم گشتہ میں یادِ رفتہ بھی کسی قدیم تاریخی قلعہ کی مانند ہوا کرتی ہے جو حالات کی ستم ظریفی کے باعث معدوم بھی ہوجائے تب بھی اس کی بنیادیں دورِ رفتہ میں اس کی عظمت رفتہ کی سربلندی کی گواہی ضرور دیتی ہیں۔

تیری یادیں بھی حسیں خواب کی طرح ہیں طاہر
وہ راتوں کو جگادیتے ہیں یہ دن میں مدہوش کیے دیتی ہیں

یادِ رفتہ ہماری دسترس سے باہر دور کسی وادیٔ تخیل میں سوچوں کی جھیل میں تیرتے ہوئے کنول کی مانند ہوا کرتی ہے جس کی جڑیں پانی کی گہرائی میں نمدار مٹی میں ہوا کرتی ہیں اور ظاہری وجود پانی کی بلندی پر تیرتا رہتا ہے۔ وقت کی دور بین سے اس کا نظارہ تو کیا جاسکتا ہے تاہم جھیل سے جدا کرنا ممکن نہ ہے۔

تیری حسیں یادوں کے جنگل میں میری چاہتوں کا کبوتر
پھڑپھڑاتا ہوا گزرا ہے اداس بہت تھا

پرانی یادیں رنگ برنگے حسیں پھولوں کا گلدستہ ہوا کرتی ہیں، جس میں گُم گشتہ ماضی کے حسین و جمیل لمحات پھولوں کی مانند اپنی خوشبو سے ہمیں معطر کردیتے ہیں۔

حسیں یادیں بھی سلگتی ہوئی لکڑیاں ہیں
اک دھواں سا اٹھتا رہتا ہے دل کےا ٓتش کدہ میں

قارئین گرامی قدر! عنوان مذکورہ بالا کے نفیس مطلب اور حکمت و اہمیت کے تحت زیرِ نظر صفحات پر میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی زندگی کے چند نئے گوشے صفحہ قرطاس کی زینت بنانے جارہا ہوں۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو دورِ رفتہ، عصرِ حاضر اور مستقبل کے ابحارِ علم و معرفت کا حسین سنگم کہا جائے تو بے جانہ ہوگا۔ مجدّد رواں صدی، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کی طلسماتی سحر انگیز شخصیت الوہی، فیوضاتی و روحانی اور علمی کمالات کا حسین امتزاج ہے۔ آپ کے علمی اور معارفی کرشماتی افکار و کمالات کو روح کی چشمان سے دیکھنے اور عقل و خرد کی کسوٹی پر جانچنے اور پرکھنے کے لیے فقط ایک عمومی زندگی کافی نہ ہے بلکہ کئی زندگیاں درکار ہیں۔ شیخ الاسلام کی شخصیت میں بیک وقت تین صدیوں کا علمی و روحانی رنگ موجود ہے۔ بیک وقت آپ کی نظر علومِ قدیم، موجودہ علوم اور آنے والے علمی تقاضوں پر رہتی ہے۔ شیخ الاسلام کی علمی اور معارفی گہرائی اور صلاحیتوں کو ماپنا کسی عام شخص کے بس کی بات نہ ہے کیونکہ یہ تاریخ ساز سحر انگیز علمی و روحانی شخصیت خداداد اور الوہی فیوضاتی کرشمہ گری کا عملی نمونہ ہے۔

(قبل ازیں میں ماہنامہ منہاج القرآن کے شمارہ فروری 2020ء میں بعنوان ’’یہ قصہ نصف صدی کا ہے‘‘ اور شمارہ فروری 2021ء میں بعنوان ’’گل سے گلستان تک خوشبو کا سفر‘‘ میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کے بے شمار مخفی علمی فیوضات اور امتیازات و کمالات پر روشنی ڈال چکا ہوں، ان کا مطالعہ قارئین کرام کے لیے مفید رہے گا۔ )

آج شیخ الاسلام کی جو یادیں دامن قرطاس پر بصارتوں کی زینت بنارہا ہوں وہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کی مقناطیسی شخصیت کی طرح شیریں اور خوبصورت ہیں۔

یاد ماضی تلخ و شیریں لمحات کا حسیں سنگم ہے شفقتؔ
دو دریا جب ملتے ہیں تو قابو میں نہیں رہتے

شیخ الاسلام کے ماضی کی دلفریب حسین یادیں سبق آموز پُرکیف اور روح پرور ہیں جو ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں جن کے ذریعے ہم اپنی گم گشتہ منزل مراد حاصل کرسکتے ہیں۔

تیری یادوں کے خزانے نے مجھے مغرور کردیا ہے طاہر
تونگر ہوں میرے خزانے میں تیری یادیں بہت ہیں

معزز قارئین! شیخ الاسلام کی گزری زندگی کی خوبصورت یادیں ہمارے لیے انمول موتیوں کی مالا کی مانند ہیں جو ہمارے مقصد کی چوکھٹ پر لٹک رہی ہے کیونکہ آپ کا منور اور تاباں ماضی ہمارے روشن حال اور عظیم مستقبل کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

تیری یادوں کی مسجد میں نمازِ عشق پڑھنے آیا ہوں
مجھے خشوع و خضوع عطا کر جاناں یہ تیری دسترس میں ہے

یاد رہے کہ شیخ الاسلام کا درخشاں اور سنہرا ماضی ہمارے لیے Moral spiritual nuclear power ہے یعنی ایک اخلاقی، روحانی جوہری قوت ہے۔ جس کے ذریعے ہم اپنی کھوئی ہوئی طاقت و قوت بحال کرسکتے ہیں اور من حیث القوم اپنا کھویا ہوا وقار و اہمیت دوبارہ حاصل کرسکتے ہیں۔

خدا جانے کیسی کشش ہے اس کی یاد رفتہ میں
میں اس کا ذکر چھیڑوں تو ہوائیں رقص کرتی ہیں

قارئین گرامی قدر! میں اپنے مخصوص انداز میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کی بے مثل زندگی کے قیمتی گوشے آپ کی بصارتوں کی نذر کررہا ہوں اور گم گشتہ ماضی کے دفینے کھوجنے کی سعی مشکور کررہا ہوں۔ امید ہے کہ آپ کی بصارتیں ان کی روشنی سے چمک اٹھیں گی۔

پرانی یادوں کے جگمگاتے معصوم سے جگنو
اجالے بانٹتے پھرتے ہیں دل ویراں کی اندھیر نگری میں

1۔ ’’محمد طاہر‘‘ کی منزل کا تعین کس نے اور کیسے کیا؟

رب کائنات خالق ارض و سماوات کا بے پناہ لطف و کرم اور میری خوش بختی ہے کہ مجھے آج شیخ الاسلام اور دور رفتہ کے ’’محمد طاہرالقادری‘‘ کی قربت خاص اور صحبت نشینی کا شرف اس وقت سے حاصل ہے جب’’محمد طاہرالقادری صاحب‘‘ نے 1968ء میں ایف۔ ایس۔سی کا امتحان اعلیٰ فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ اس وقت میری عمر تقریباً دس برس تھی۔ میں چند دیگر احباب کے ساتھ رزلٹ دریافت کرنے حبیب بنک بھکر میں شیخ الاسلام کے ہمراہ گیا کیونکہ آپ چند ایام کے لیے ہمارے پاس بھکر آئے ہوئے تھے۔ اُن دنوں میرے والد گرامی الحاج مہر غلام محمد (مرحوم) جو کہ شیخ الاسلام کے چچا جان بھی تھے، وہ تحصیلدار بھکر تعینات تھے۔ میری وجودگی میں جب شیخ الاسلام نے F.Sc کا رزلٹ ملاحظہ فرمایا تو پہلے بہت خوش ہوئے اور پھر کچھ افسردہ دکھائی دیئے۔ میں واقعہ کا سامع اور عینی شاہد ہوں۔ ہمارے پوچھنے پر کہ بھائی جان آپ افسردہ کیوں ہوگئے ہیں؟ جبکہ یہ خوشی کا موقع ہے اور آپ نے اعلیٰ فرسٹ ڈویژن بھی حاصل کی ہے۔ آپ مخاطب ہوئے کہ ایک مسئلہ درپیش ہے کہ قبلہ والد گرامی قدر (حضرت فرید ملتؒ) مجھے ڈاکٹرآف میڈیسن بنانے کے خواہاں ہیں جبکہ میرے ارادے کچھ اور ہی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ میں ڈاکٹر آف میڈیسن نہ بنوں بلکہ وہ بنوں جو قبلہ ابا جی نے مقام ملتزم پر دعا میں مانگا ہے یعنی روحانی امراض کا ڈاکٹر اور طبیب بن کر امتِ مسلمہ کا نام روشن کرسکوں۔ پھر فرمایا کہ میری دعا ہے کہ قبلہ ابا جی یہ اصرار چھوڑ دیں۔

جھنگ پہنچتے ہی قبلہ فرید ملت کی خواہش کے عین مطابق نشتر میڈیکل کالج ملتان میں حصولِ داخلہ کے لیے درخواست دی گئی۔ اللہ رب العزت نے محمد طاہر کی دعا مستجاب کی اور آپ میڈیکل میں Admission کے لیے فقط ایک نمبرسے رہ گئے۔ تاہم حضرت فرید ملتؒ نے ایک اور جگہ بھی ڈویژن improve کروانے کے بعد داخلے کے لیے Apply کیا مگر دوبارہ ایک نمبر سے مطلوبہ داخلہ نہ ہوسکا۔

محمد طاہرالقادری نے والد گرامی قدر قبلہ فرید ملت سے عرض کیا: دیکھا ابا جان! رب عظیم کو کچھ اور ہی منظور ہے۔ میں آپ کی دعا اور حضور اقدسﷺ کی عطا کا مظہر بننا چاہتا ہوں۔ فرید ملتؒ میرے اس موقف کو سننے اور کچھ بحث و تکرار کے بعد سوگئے۔ رات عالم خواب میں حبیب خدا محمد کریمﷺ کی کرم نوازی اور عنایت نصیب ہوگئی۔ حضور اقدس محمد مصطفیﷺ نے محمد طاہر قادری کو فتح یاب کیا اور فرید ملت کو بھی نوید نصرت سنادی۔

عالمِ خواب میں حضور فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ نے دیکھا کہ ایک خوبصورت لمبی کار آپ کے گھر کے سامنے رکی ہے اور اس کی فرنٹ سیٹ پر آقائے دو جہاں محمدمصطفیﷺ تشریف فرما ہیں اور فرید ملت کو مخاطب کرکے فرمایا:

’’فریدالدین! ہم آپ کو بشارت دیتے ہیں کہ آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے ہو اور ہمارا محمد طاہر ڈاکٹر ضرور بنے گا اور پھر گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کی طرف اشارہ فرمایا اور مخاطب ہوئے کہ ہم آپ کے بیٹے محمد طاہر کو ایسا ڈاکٹر بنائیں گے۔ ‘‘

قارئین گرامی قدر! خواب میں فرید ملت کی چیخ نکل گئی اور وہ حضور انور آقائے دو جہاںﷺ کےقدموں پر گرگئے۔ خواب میں حضورﷺ کی کرم نوازی اور بشارت پر خوشی اور خوش بختی پر زاروقطار رو رہے تھے۔ صبح تہجد میں اٹھے تو آپ کی چشمان آنسوؤں سے تر تھیں۔ فوراً محمد طاہر کے کمرہ میں گئے اور آواز دی: محمد طاہر اٹھو! آپ اپنے مصمم ارادے میں کامیاب ہوگئے ہو۔ ابھی ابھی آقائے دوجہاںﷺ تشریف لائے ہیں اور فرمایا ہے کہ دونوں کی دعائیں مستجاب ہوگئی ہیں۔ ہمارا محمد طاہر میرے دین کا ڈاکٹر ضرور بنے گا جو آپ کی دعاؤں اور خواہشات کا امین اور ضامن ہوگا۔ غرب تا شرق میرے دین کی نگرانی کرے گا اور اس کی شہرت کے ڈنکے چار سو بجیں گے۔

عقدہ جاں گسل کشا ہوگیا اور فرید ملتؒ نے محمد طاہر کی پیشانی پر بوسہ دیا اور فرمایا:بیٹا! میں آپ پر دل سے خوش ہوں، جو کچھ چاہتے ہو، وہ کرو، میں آپ کے ساتھ ہوں۔ مجھے اب معلوم ہوگیا ہے کہ آپ کی منزلِ مقصود اور نصرت و کامرانی کی چابی فقط آقائے دو جہاںﷺ کے دستِ اقدس میں ہے، مجھے اس میں مداخلت کی جرأت نہیں ہے۔

2۔ کشف القبور کی کرامت

لفظ کشف کے لغوی معنی ہیں کھولنا، ظاہر کرنا اور الہام و القاء ہے۔ کشف القبور، صوفیائے کرام کا وہ مرتبہ یا کرامت ہے جس میں انھیں قبر میں مُردے کے حالات معلوم ہوجاتے ہیں۔ کشف القبور؛ اہلیانِ تصوف کے نزدیک کسی صوفی باصفا کا حالت مراقبہ یا حالت استراحت میں صاحب مزار اور صاحب قبر سے ہمکلامی کرنا اور احوال قبر دریافت کرنا ہے۔ کاملین اولیائے کرام کا طریق بھی یہی رہا ہے۔ حضرت فرید ملتؒ نے شرق تا غرب فرحت روحانی کے باعث سفر فرمائے۔ ہزاروں میل کی طویل مسافت طے کرکے انبیائے کرامf اور اولیائے عظام رحمھم اللہ کے مزارات کی نہ صرف قدم بوسی کی بلکہ مراقبہ فرمایا اور کشف القبوری کی سعادت نصیب ہوئی اور صاحب قبر سے ہمکلام ہوئے اور آنے والے واقعات سے بھی آگاہی حاصل کی۔ یاد رہے کہ کبھی کبھار مراقبہ میں کشف القبوری نصیب ہوتی ہے اور کبھی کبھار صاحب کشف اولیائے کرام کو خواب اور حالتِ استرحت میں صاحبِ قبر سے ملاقات اور احوال قبر سے آگاہی ہوتی ہے اور صاحبِ کشف کو پوچھے گئے سوالات کا جواب صاحبِ قبر دیتے ہیں۔

قارئین گرامی قدر! کشف کے ذریعے احوالِ قبر معلوم کرنا اور صاحبِ قبر سے کچھ آگاہی لینے کے واقعات شیخ الاسلام کی زندگی میں بھی دیکھنے میں آئے ہیں۔ ذیل میں ان میں سے صرف دو واقعات نذرِ قارئین ہیں:

1۔ یکم اکتوبر 1968ء کی فجر طلوع ہورہی تھی اور شیخ الاسلام کا خورشید ممتا غروب ہورہا تھا۔ یعنی آپ کی والدہ محترمہ خورشید بیگم کا وصال مبارک ہوا۔ اس وقت مرحومہ کی عمر صرف 36 برس تھی۔ آپ نے اپنی محبوب والدہ ماجدہ کی رحلت کو حکم خداوندی کے تحت صبرو ضبط سے قبول کیا، تاہم محرومی مادر عظیم آج بھی قبلہ شیخ الاسلام کے قلب و روح کے دروازے پر دستک کناں ہے۔ محمد طاہرقادری قلیل عمری کے باوجود اپنی والدہ ماجدہ کی سادہ دلی، خوش خلقی، خوش طبعی، نیک سیرت، خوش خصائلی ہمہ وقت متبسم چہرہ، پیکر و عجز و انکساری، اچھی عادات و اطوار، مثالی شریک حیات، صلح جو شخصیت کے دلدادہ اور فریفۃ تھے اور یہ بھید بھی سمجھ چکے تھے کہ جس عظیم خاتون کے بطن سے میری پیدائش ہوئی ہے وہ کوئی عام خاتون نہ ہے بلکہ ایک خاص خاتون تھی جو نیک روح کے ساتھ اس دنیا میں بھیجی گئیں۔

1968ء میں اچانک داغ مفارقت جہاں آپ کی طبیعت پر گراں گزرا وہاں صوفی منش طبیعت میں کشف القبور کا سبب بھی بنا۔ دور رفتہ کے محمد طاہرالقادری اور آج کے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ نے تقریباً سترہ برس کی عمر میں باقاعدہ پہلا کشف القبور کیا اور اپنی والدہ معظمہ کے احوال قبر دریافت کیے۔ آپ نے چند سوالات اپنی والدہ ماجدہ سے کیے اور انھوں نے ان سوالات کے باقاعدہ جواب دیئے جس سے آپ کو تسکینِ روح اور اطمینان قلب نصیب ہوا۔

شیخ الاسلام فرماتے ہیں: میں نے تجسس اور حیرت سے پوچھا: اماں حضور فرمایئے! نکیرین آئے اور پھر آپ پر کیا گزری؟ محترمہ والدہ ماجدہ مخاطب ہوئیں اور فرمایا: طاہر بیٹے! میں نے نکیرین کے ہر سوال پر بتادیا کہ میں ڈاکٹر فریدالدین قادری کی بیوی ہوں۔ میرے زیادہ معاملات تو نہیں ہیں، ہاں اتنا ضرور ہے کہ ڈاکٹر فریدالدین صاحب کے لیے تہجد کا پانی گرم کرنا، ان کے معاملات میں کبھی غفلت نہ برتنا اور ہمہ وقت خدمت گزاری میرا شعار رہا ہے اور میں نے ساری زندگی ان کی طبع اور مرضی کے خلاف کوئی کام نہیں کیا۔ میں نے ان کے حکم کے عین مطابق زندگی گزاری ہے۔ مجھے اتنا یاد ہے کہ رخصت کے وقت ڈاکٹر فریدالدین قادری مجھ پر خوش اور راضی تھے۔ بیٹے! نکیرین نے میری طرف مسکراتے ہوئے دیکھا، آپس میں کوئی بات کی اور پھر چلے گئے۔ شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ میرا دل باغ باغ ہوگیا اور میں نے خداوند عظیم کا شکر ادا کیا۔

بچپن کا یہ واقعہ میرے ذہن نشین تو تھا اور میں نے شیخ الاسلام کی زبان سے سن رکھا تھا، تاہم پھر بھی تحریر کرنے سے پہلے میں نے 2018ء میں ایک نجی محفل میں چند اعزاء و اقارب کے روبرو قبلہ شیخ الاسلام سے دوبارہ سن کر تائید حاصل کرلی ہے۔

قارئین گرامی قدر! ذوق طبع وجدانی کے باعث گزارش ہے کہ میری نظر میں قبلہ شیخ الاسلام کی والدہ ماجدہ کا واقعہ کشف القبوری حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیg کے دھوبی کے واقعہ سے بھی مطابقت رکھتا ہے۔ کسی صاحب کشف نے حضور غوثیت مآب سے محبت رکھنے والے دھوبی سے وفات کے بعد بذریعہ کشف احوال قبر معلوم کیے۔ دھوبی خوش و خرم نظر آیا اور مخاطب ہوا کہ جناب! میرے پاس نکیرین آئے اور کچھ سوالات کیے، میں تو ان پڑھ تھا، میں نے ہر سوال کے جواب میں عرض کیا کہ جی میں تو حضور سرکار غوث اعظمg کا دھوبی ہوں۔ مجھے کچھ معلوم نہ ہے۔ نکیرین میری طرف دیکھ کر مسکرا رہے تھے، پھر چلے گئے اور لوٹ کر نہیں آئے۔

2۔ کشف القبور یعنی احوالِ قبر سے آگاہی لینے کا دوسرا واقعہ شیخ الاسلام کی زندگی میں ہم نے اس وقت ملاحظہ کیا جب آپ کے والد گرامی حضرت فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کا وصال ہوا۔ فرید ملت کا وصال 2 نومبر 1974ء بمقام جھنگ ہوا۔ تدفین کے دسویں روز عالم استراحت میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ سے آپ کے والد گرامی قبلہ فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کی ملاقات ہوئی اور احوال قبر سے آگاہی نصیب ہوئی۔

ایک فیملی میٹنگ میں حضور فرید ملت کی یادیں تازہ ہورہی تھیں تو قبلہ قائد محترم نے اس واقعہ سے ہمیں آگاہ فرمایا۔ قبلہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ خواب بصورت کشف القبور بعداز نماز ظہر حالت وضو میں جائے نماز پر مختصر آرام اور اونگھ کے دوران آیا۔ ایسے معلوم ہوا کہ قبلہ فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ میرے پاس تشریف فرما ہوکر قبر کے احوال اور جنازہ کے بعد کے حالات سے آگاہی فرمارہے ہیں۔ حضور فرید ملت سے کیے گئے شیخ الاسلام کے سوالات اور ان کے جوابات ملاحظہ فرمائیں:

فرید ملت کو دیکھتے ہی شیخ الاسلام نے عرض کیا: قبلہ ابا جی فرمائیں قبر میں نکیرین آئے تو کیا معاملہ ہوا؟فرمایا:طاہر بیٹے جب تدفین کے بعد نکیرین آئے تو میں نماز عصر پڑھ رہا تھا۔

عرض کیا:قبلہ ابا جی نکیرین سے کیا سوالات اور جوابات ہوئے؟فرمایا: طاہر بیٹے مجھے نماز عصر میں مشغول دیکھ کر نکیرین چلے گئے اور پھر واپس نہیں لوٹے۔

عرض کیا: قبلہ ابا جی جب آپ کے حکم کے مطابق میں نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور فوری بعد چہرے سے نقاب اٹھایا اور پوری خلقت نے دیکھا کہ آپ باقاعدہ مسکرا رہے تھے تو یہ کیا ماجرا تھا؟ فرمایا: بیٹے جنازہ کی قبولیت کے فوری بعد باذن اللہ میری روح مجھے لوٹادی گئی تھی۔ میں تھوڑی دیر کے لیے روحانی طور پر زندہ کردیا گیا تھا اور میں فوری طور پر مالائے اعلیٰ کے عجب نظاروں میں محو ہوگیا تھا، رحمتِ خاص کے باعث میرے درمیان حجابات اٹھادیئے گئے تھے اور میں اس دنیا و مافیھا سے بے خبر رب کائنات کی عنایاتِ فضلی میں گم ہوگیا تھا اور اس عنایت خاص پر مسلسل مسکرائے جارہا تھا۔

عرض کیا: قبلہ ابا جی آپ مجھے میری طلب کے مطابق کیوں نہیں ملے؟فرمایا: بیٹے کیونکہ میں عالم غیب کی مناظر اور نظاروں میں گم اور محو تھا، اتنا مصروف تھا کہ آج فارغ ہوا ہوں اور فوری چلا آیا ہوں۔

قارئین گرامی قدر! یہ تھا کشف قبور بصورت رویائے صادقہ (سچے خواب) یعنی کہ سچے خواب کے ذریعے قبر کے احوال سے آگاہی ہونا۔ یاد رہے کہ حدیث مبارکہ ہے کہ سچے خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہوا کرتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا:

الرؤیا الصالحة جزء من ستة وأربعین جزءاً من النبوة.

(صحیح بخاری، کتاب التفسیر، رقم: 6989)

میرا گمان غالب ہے کہ شیخ الاسلام اب تک شرق تا غرب نجانے سیکڑوں اولیاء اور انبیائے کرام کے مزارات پر مراقبہ نشین ہوئے ہوں گے اور اسی طرح کا خصوصی فیض اور توجہات سمیٹی ہوں گی۔

3۔ کمال یادداشت کا عملی نمونہ

کمال یادداشت قائد عظیم المرتبت کا خاصہ ہے اور انسانیت کی قدر کرنا آپ کا ایمانی شیوہ ہے۔ یاد رفتہ کے زمرے میں آپ کی کمال یادداشت کا ایک دلچسپ اور ناقابل فراموش واقعہ یہ ہے کہ 2002ء کے جنرل الیکشن میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ نے جھنگ کے ایک انتخابی حلقہ سے ایم این اے کا الیکشن لڑا اور اسی طرح لاہور کے ایک حلقہ انتخاب سے بطور ایم این اے الیکشن میں حصہ لیا۔ جھنگ کا مکمل الیکشن حسب حکمِ قائد میری نگرانی اور سرپرستی میں انجام پذیر ہوا۔ ہوا یوں کہ ایک بہت بڑی انتخابی ریلی میں شرکت کے لیے قائد محترم لاہور سے جھنگ تشریف لائے۔ ریلی کا اہتمام حلقہ انتخاب کے ووٹرز اور جھنگ کے چند اہم سیاسی شخصیات نے کررکھا تھا۔ سیکڑوں ویگنوں، کاروں اور بسوں پر مشتمل قائد محترم کے عظیم قافلے کا استقبال چنیوٹ موڑ جھنگ پر ہزاروں افراد کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر نے بڑے تزک و احتشام سے کیا۔

میں انتخابی ٹرک میں سوار قائد محترم کے ہمراہ موجود تھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک شخص ریلی میں شریک مسلسل قائد محترم کی طرف دیکھ دیکھ کر مسکرائے جارہا تھا۔ ایک خاص خوشی اور تمکنت اس کے چہرہ سے نمایاں تھی۔ ایک جگہ ریلی نے تھوڑی دیر کے لیے توقف کیا۔ اسی اثنا جناب قائد محترم کی نظر اس شخص پر پڑی تو وہ خیالوں میں گم ریلی میں شریک تھا۔ قائد نے اس شخص کو اپنی طرف متوجہ کیا اور ہاتھ کے اشارے سے اپنی طرف بلایا۔ ایک لمحہ کے لیے وہ ورطۂ حیرت میں گم ہوگیا، دائیں بائیں دیکھنے لگا۔ اسی اثنا قائد محترم نے دوبارہ اشارہ کیا اور اسے اپنے پاس بلایا۔ تاہم عجیب تذبذب اور حیرانگی کے عالم میں وہ انتخابی ٹرک کے نزدیک آیا۔ قائد محترم نے اسے اوپر آنے کا حکم دیا اور وہ حیرت ناکی کے عالم میں اوپر آیا تو قائد محترم نے اچانک فرمایا: آپ کا نام لیاقت علی ہے۔ وہ مخاطب ہوا: جی حضور۔ پھر فرمایا کہ لیاقت صاحب آپ کا رول نمبر فلاں تھا ور آپ فرسٹ ایئر پری میڈیکل ایف۔ایس۔سی میں میرے ساتھ گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں 1966ء میں پڑھتے تھے اور میرے کلاس فیلو تھے۔ یہ سنتے ہی لیاقت صاحب پر بجلی سی گری۔ قائد محترم کے کمال حافظے اور ہیجان پر خوشی سے آنسوؤں میں بھیگ سا گیا۔ مخاطب ہوا حضور میں ریلی میں مسلسل یہی سوچ رہا تھا کہ 33برس کی پرانی بات ہے، کہاں اتنے بڑے قائد کو میری نامعلوم شخصیت یاد ہوگی لیکن آپ کی عظمت اور پہچان کو سلیوٹ کرتا ہوں اور فوری مائیک لے کر پاکستان عوامی تحریک میں اپنی برادری سمیت شامل ہونے کا اعلان کردیا۔

4۔ ذاتی ملازمین سے حسنِ سلوک

شیخ الاسلام کے نزدیک نجی ملازم اور مالک میں فرق روا نہ رکھنا فقط گفتار اور تحریر کی حد تک نہیں ہے بلکہ میرا ذاتی طویل زندگی کا مشاہدہ ہے کہ آپ اپنے گھریلو ملازمین کے لیے بھی کھانے اور لباس کے لیے وہی کچھ پسند کرتے ہیں جو اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے کرتے ہیں۔ یہ پسند کرنا صرف خواہش کی حد تک نہیں بلکہ آپ اس کی عملی تفسیر بنے نظر آتے ہیں۔ آج کے دور میں گھریلو ملازمین سے کسی امتیازی سلوک کا مظاہرہ نہ کرنا دراصل ایک عجوبہ نظر آتا ہے۔

2009ء میں قبلہ شیخ الاسلام کی صاحبزادی کی شادی کا موقع تھا۔ گھر میں نجی طور پر ایک محفل میلاد منعقد کی گئی، جس میں فقط خاندان کے مرد و زن شریک ہوئے۔ محفل کے بعد قبلہ ہاؤس پر ہی شاندار ضیافت کا اہتمام تھا۔ خاندان کے سب افراد انواع و اقسام کے کھانے تناول فرما رہے تھے۔ شیخ الاسلام ضیافت میلاد کی خود نگرانی اور میزبانی فرمارہے تھے۔ اچانک کھانا رکھتے ہوئے گھریلو ملازمہ سے غلطی سے کولڈ ڈرنک ایک بچی پر گرگئی۔ بچی اور اس کی والدہ نے انتہائی غصہ کے عالم میں برے طریقہ سے ملازمہ کو ڈانٹا۔ ملازمہ معذرت کر رہی تھی اور معافیاں مانگ رہی تھی کہ مجھ سے غلطی سے ایسا ہوا ہے، میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا جبکہ بچی اور اس کی والدہ بات بڑھائے جارہی تھیں۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ یہ منظر خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے، آپ کی طبیعت پر ناگوار گزرا۔ کھانا رکوا دیا اور بچی اور اس کی والدہ کی سخت سرزنش کی، خوب ڈانٹا۔ آپ کے حکم پر نہ صرف بچی اور اس کی والدہ نے ملازمہ سے معافی مانگی بلکہ محفل میں موجود سب نے فرداً فرداً معذرت کی۔ بعد ازاں ملازمہ کو کھانے کے خصوصی ضیافت کے دستر خوان پر بٹھایا گیا اور اپنی قریبی عزیزہ بچی اور اس کی ماں کو حکم دیا کہ ملازمہ دستر خوان پر بیٹھ کر کھائے گی اور آپ اسے کھانا لاکر کھلاؤ گے اور بعد میں آپ کھانا کھائیں گے اور پھر ایسا ہی ہوا۔ اتنی بڑی عالمی شخصیت کی طرف سے دلجوئی اور پیار پر ملازمہ کے حلق سے نوالہ نہ اتر رہا تھا بلکہ واقعہ پر روتی جارہی تھی، اسے خاموش کروایا، انعام سے نوازا اور بچی اور والدین کو غلط رویہ کا احساس دلوایا اور پھر حکماً کھانا کھلاکر گھر بھیجا۔ رب عظیم ایسے مصلح اور شفیق قائد کا سایہ ہمیشہ ہم پر قائم و دائم رہے۔

قارئین گرامی قدر! قبلہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خوبصورت ماضی کی حسیں یادوں کی ایک طویل فہرست ہے وقت اور ماہنامہ منہاج القرآن کے صفحات مجھے قطعی اجازت نہیں دیتے وگر نہ ماضی کی گم گشتہ یاد رفتہ کے دروازے پر آپ کی حسیں یادوں کی بارات منتظر ہے۔