القرآن: عقائدِ صحیحہ اور باطلہ میں امتیاز (حصہ دوم)

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین

(حصہ اوّل)

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللهِ الْاِسْلَامُ قف وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ اِلاَّ مِنْ م بَعْدِ مَا جَآءَ ھُمُ الْعِلْمُ بَغْیًام بَیْنَھُمْ.

(آل عمران، 3: 19)

’’بےشک دین الله کے نزدیک اسلام ہی ہے اور اہلِ کتاب نے جو اپنے پاس علم آ جانے کے بعد اختلاف کیا وہ صرف باہمی حسد و عناد کے باعث تھا۔‘‘

عقائد کے باب میں درست اور غلط میں تفریق کرنا از حد ضروری ہے۔ اس حوالے سے ہمیں قرآن وسنت سے methodology (طریقہ کار) حاصل کرنا ہوگی، جس کی روشنی میں ہم اس مقصد کو حاصل کرسکیں۔ اس سلسلہ میں زیرِ نظر مضمون کے حصہ اول (شائع شدہ اپریل 2024ء) میں ہم بعض احادیث نبوی کا مطالعہ کرچکے ہیں جن سے یہ واضح ہوا تھا کہ جو احوال بنی اسرائیل یعنی یہود و نصاریٰ کو پہلے زمانوں میں درپیش آئے تھے، عقائد، اعمال اور اخلاق میں وہی احوال امت مسلمہ پر بھی آئیں گے اور آقا علیہ السلام  نے جوتے کے جوڑے کی مثال دے کر فرمایا :

لَیَأْتِیَنَّ عَلَی أُمَّتِي مَا أَتَی عَلَی بَنِي إِسْرَائِیلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ.

(ترمذی، السنن، أبواب الإیمان، 5: 26، 2641)

’’میری امت پر وہ کچھ ضرور آئے گا جو بنی اسرائیل پر آیا، جس طرح ایک جوتی دوسری جوتی کے برابر ہوتی ہے۔‘‘

اسی حدیث مباک میں آپ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ بنی اسرائیل میں 72 فرقے بن گے تھے اور میری امت میں 73 فرقے وجود میں آئیں گے۔ اُن میں سے 72 فرقے دوزخ کی طرف بلانے والے اور گمراہ کرنے والے ہوں گے اور ایک فرقہ نجات پانے والا ہوگا اور یہ فرقہ: ما انا علیہ واصحابی میری اور میرے صحابہl کی راہ پر گامزن ہو گا۔

یہاں ضمناً اس امر کی وضاحت بھی کرتا چلوں کہ جب آقا علیہ السلام  لفظ صحابہ استعمال فرماتے ہیں تو اُس میں صرف صحابہ ہی شامل نہیں ہوتے بلکہ اہل بیت اطہار بھی شامل ہوتے ہیں لیکن جب اہل بیت کا لفظ استعمال فرماتے ہیں تو اس میں اہلِ بیت کے علاوہ دیگر صحابہ کرامl شامل نہیں ہوتے۔ ان میں خصوص اور عموم کا تعلق ہے۔ اہل بیت اطہار کا اطلاق حضور علیہ السلام  نے جن قدسی نفوس پر کیا ہے، وہ صحابہ کرام بھی ہیں۔ ازواج مطہرات صحابیات ہیں، سیدنا مولا علی المرتضیؓ صحابی ہیں، سیدہ فاطمہ j صحابیہ ہیں، حضرات حسنین کریمین k صحابی ہیں۔ دوسری طرف حضورa نے ان کے بارے میں یہ بھی فرمایا: باری تعالیٰ یہ میرے اہل بیت ہیں۔ پس یہ صحابہ بھی ہیں اور اہل بیت اطہار بھی ہیں۔ اسی طرح جب کسی معاملے میں اہل بیت کا لفظ آقا  علیہ السلام  کی زبان اقدس سے صادر ہوگا تو اس میں جو فضیلت، شان یا تخصیص بیان کی گئی ہوگی، وہ تمام صحابہ کو حاصل نہیں ہوگی بلکہ وہ صرف ان ہی قدسی نفوس کے لیے ہوگی جن پر آقا  علیہ السلام  نے لفظ اہل بیت کا اطلاق فرمایا ہے۔

اس ضمنی وضاحت کے بعد اصل موضوع کی طرف واپس آتے ہیں کہ جب امت مسلمہ میں 73 فرقے، مسالک، مکاتب فکر، گروہ اور اعتقادی طبقات وجود میں آ جائیں گے اورہر کوئی شریعت کی بات کر رہا ہوگا اور اپنی دلیل بھی قرآن وسنت سے بیان کررہا ہوگا تو پھر سوال پید ا ہوتا ہے کہ کیسے پتہ چلے گا کہ قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح کس شخص کی صحیح ہے اور کون غلط تعبیر اور تشریح کررہا ہے؟اگر ایک عام شخص بغیر راہنمائی کے غلط اور صحیح میں امتیاز کرنے کے قابل ہوجائے تو اسے کسی سے پوچھنے کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔اگر سننے والے کو از خود پتہ چل جائے کہ فلاں کی دلیل غلط ہے اور فلاں کی دلیل صحیح ہے، اِس کا ماخذ درست ہے اور اُس کا ماخذ غلط ہے، یہ قرآنی آیت اور حدیث کا غلط اطلاق کررہا ہے اور وہ درست اطلاق کررہاہے، اگر ایک عام بندے کو یہ خود سمجھ آ جائے تو وہ کسی معاملہ پر اہل علم سے پوچھنے کیوں جاتا؟

لہٰذا ضروری ہے کہ عقائد کے باب میں غلط اور صحیح کے تعین کے لیے ایک methodology ہونی چاہیے۔ عام طور پر ہر شخص اپنے موقف، عقیدے اور اپنے نظریے کی تقویت کے لیے اور اپنے نقطہ نظر کی تعبیر و تشریح کے لیے قرآن و حدیث سے ہی دلائل لاتاہے۔ اگر وہ کتاب و سنت کا حوالہ نہ دے اور اس سے اپنی دلیل اخذ نہ کرے تو سننے والے اس کو سنتے ہی مسترد کردیں گے کہ اس کے پاس کتاب و سنت کی دلیل ہی نہیں ہے۔ لہذا اس کا تو سودا ہی مارکیٹ میں فروخت نہیں ہوگا۔ اپنے عقیدے اور نظریے کا سودا بیچنے کے لیے اس کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ اپنی دلیل کو قرآن و سنت سے اخذ کرے۔ یہی وجہ ہے ہر شخص قرآن و حدیث کی بات کر رہا ہے۔

اس تمام صورتِ حال میں سوال یہ ہے کہ غلطی کہاں واقع ہوئی اور گمراہی کس نقطہ سے شروع ہوئی۔۔۔؟ یاد رکھیں! وہ غلطی قرآن مجید اور احادیث نبویہ کی نصوص میں واقع نہیں ہوئی۔ قرآن و حدیث دونوں منزّل من اللہ ہیں۔ قرآن وحی متلو ہے جو لفظاً اور معناً نازل ہوئی جبکہ حدیث نبوی وحی غیر متلو ہے، جو بذریعہ جبریل امین لفظاً نازل نہیں ہوئی، مگر اُس کا معنی آقا  علیہ السلام  کے قلبِ اطہر اور روح مبارکہ پر نازل ہوا ہے اور آقا علیہ السلام  نے اسے اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ اس لیے حدیث کی بھی شرعی حیثیت وحی کی سی ہے۔ حدیث مبارک کی حقانیت پر ہی نہ صرف قرآن مجید کی حفاظت ہے بلکہ خود اللہ رب العزت، اللہ کے نبی کی رسالت اور ختم نبوت کی حفاظت ہے۔بنیادی طور پر قرآن مجید اور حدیث نبویہ کے متون میں اختلاف نہیں ہے۔ احادیث نبوی کی بھی صرف صحت اور عدم صحت پر بحث ہوتی ہے مگر اصلاً اس پر اجماع ہے کہ حدیث میں کوئی غلط بات بیان کی گئی ہے، نہ کبھی ہو سکتی ہے۔ قرآن اور حدیث دونوں حق ہیں اوردونوں کی اصل ایک ہے۔ جب دونوں کی اصل ایک ہے تو وہ نقطہ، جگہ اور مقام کون سا تھا جہاں سے بندہ ٹھوکر کھا گیا، اس سے غلطی ہوگئی، گمراہی شروع ہوگئی اورفرقے بننے لگے؟

دراصل وہ غلطی اور گمراہی ہماری اس تعبیر اور تشریح سے نکلی ہے جو ہم نے قرآن کی آیت اور حدیث کے ضمن میں کی ہے۔ اس کامعنی بیان کیا، اس کی مراد بیان کی اور مختلف صورتوں میں اس کا انطباق کیا اور اس سے احکام اخذ کیے۔ جہاں انسان نے اپنی عقل، صلاحیت، رائے اور علم سے کام لیا اور ان کی بنیاد پر تشریح کی، وہاں سے اس غلطی کا امکان شروع ہوجاتاہے۔ صاف ظاہر ہے کہ قرآن و سنت کے متون میں ہر باریک چیز، ہرچھوٹی تفصیل اور ہر قسم کی تعبیر و تشریح نہیں بیان کی گئی ہے بلکہ اس میں بنیادی باتیں ہوتی ہیں، جیسے ہمارے آئین اور قانون کی کتابیں ہیں جسے مختلف وکلاء بیان کرتے ہیں اور ان کی بنیاد پر ہر وکیل اپنی سمجھ بوجھ، علم اور صلاحیت کے مطابق ان کی تشریح و تعبیر کرتا ہے۔

قرآنی آیات کی غلط تعبیر و تشریح کی بنیادی وجہ

قرآن مجید کی بعض آیات محکمات ہیں، انھیں مزید وضاحت کی ضرورت نہیں ہوتی اور بعض آیات متشابہات ہیں، یہ آیات ایک سے زائد مختلف معانی کا احتمال رکھتی ہیں۔ ان آیات کا کوئی ایک معنی کرتا ہے تو دوسرا اس آیت کا دوسرا معنی بیان کرتا ہے۔ ان متشابہات کی وجہ سے ان آیات کو آیاتِ متشابہات کہتے ہیں۔ اب سوچنا یہ ہے کہ اس غلطی، گمراہی یا بد اعتقادی کا آغاز کہاں سے ہوتاہے؟ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

ھُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِھٰتٌ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْہُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَآءَ تَاْوِیْـلِهٖ وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَهٗٓ اِلاَّ اللهُ م وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ.

(آل عمران، 3: 7)

’’ وہی ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جس میں سے کچھ آیات محکم (یعنی ظاہراً بھی صاف اور واضح معنی رکھنے والی) ہیں وہی (احکام) کتاب کی بنیاد ہیں اور دوسری آیات متشابہ (یعنی معنی میں کئی احتمال اور اشتباہ رکھنے والی) ہیں، سو وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے اس میں سے صرف متشابہات کی پیروی کرتے ہیں (فقط) فتنہ پروری کی خواہش کے زیراثر اور اصل مراد کی بجائے من پسند معنی مراد لینے کی غرض سے، اور اس کی اصل مراد کو الله کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور علم میں کامل پختگی رکھنے والے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے، ساری (کتاب) ہمارے رب کی طرف سے اتری ہے، اور نصیحت صرف اہلِ دانش کو ہی نصیب ہوتی ہے۔‘‘

اس آیت مبارکہ میں چار امور کا ذکر ہے:

1۔ اللہ تعالیٰ نے کتاب نازل فرمائی۔ یعنی امت کو اس قرآن کے منزل من اللہ ہونے میں اختلاف نہیں ہے۔ یہ کتاب گمراہی و ضلالت کا باعث نہیں ہوسکتی بلکہ سراپا ہدایت ہے۔

2۔ اس آیت کے دوسرے حصے مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ میں واضح فرمادیا کہ اس قرآن میں کچھ آیات ایسی ہیں جو محکم ہیں۔یعنی یہ آیا ت اپنے ظاہری معنی اور الفا ظ میں بھی واضح ہیں۔ ان میں معانی کا اشتباہ نہیں ہوتا بلکہ ان کے ظاہری اور باطنی معانی اتنے واضح ہیں کہ شبہ پیدا ہونے کا امکان بھی نہیں رہتا ہے۔ یہ محکم آیات کتاب کی بنیاد ہیں۔ تمام اساسی عقائد، احکام، اخلاق، تعلیمات اور اساسی معاملات کی بنیاد ان آیات محکمات پر ہے۔

3۔ آیت مبارکہ کے تیسرے حصہ؛ وَاُخَرُ مُتَشٰبِھٰتِ میں اس امر کی صراحت ہے کہ اس کی کچھ آیات متشابہات ہیں۔یعنی ان آیات کے الفاظ تو بڑے واضح ہیں، ان میں کچھ ابہام نہیں ہے، مگر ان الفاظ کے معانی میں کئی احتمالات ہیں۔ ان کے معانی آپس میں ملتے جلتے ہیں، جس سے بندے کو مغالطہ لگ سکتاہے۔ ایک بندہ یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کا فلاں معنی ہے اور دوسرا کہہ سکتا ہے کہ نہیں بلکہ اس کا یہ معنی ہے۔

قرآن و سنت کے اطلاق اور تعبیر و تشریح میں غلطی کا تعلق قرآن و حدیث کی نصوص سے نہیں بلکہ تعبیر و تشریح کرنے والے کی ذہنی کجی اور اعتقادی بے راہ روی سے ہے

4۔ اس آیت کے چوتھے حصہ؛ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْہُ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے، صرف وہ ان آیات متشابہات کی پیروی کرتے ہیں۔

آیت کریمہ کے اس حصہ سے واضح ہے کہ یہ فرقے کس طرح پیدا ہوتے ہیں اور گمراہیاں کیسے جنم لیتی ہیں؟ اس آیت کریمہ کا ایک ایک لفظ بنیاد فراہم کررہا ہے، جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تفرقہ کیسے پیدا ہوتا ہے۔اللہ رب العزت نے واضح فرمادیا کہ یہ گمراہی اور غلط فہمی لوگوں کے دلوں میں کجی کا نتیجہ ہے۔ لوگوں کی دو قسمیں ہیں:

1۔ وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی اور گمراہی ہوگی، جن کے دل زنگ آلود اور سیاہ ہوں گے انھیں قرآنی آیات و احادیث میں جہاں جہاں مختلف معانی کے احتمالات ملیں گے تو غلط احتمالات کی طرف اُن کے دل راغب ہو جائیں گے، وہ معنی کے غلط اطلاق، غلط تعبیرات اور غلط تشریحات کی طرف چلے جائیں گے۔ ان کے دل غلطی اور گمراہی کی طرف موافقت پکڑیں گے۔ وہ متشابہ آیات سے اپنی مرضی کے معانی اخذ کریں گے۔ ان کا یہ عمل مختلف فرقوں کے جنم لینے کا سبب بنے گا۔

2۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں، جن کے دلوں میں نور، روشنی، صفائی، طہارت، تقویٰ، صدق اور اخلاص ہوگا، وہ قرآن اور حدیث نبوی ﷺ کے اس معنی تک رسائی پائیں گے جو اللہ اور اُس کے رسول کی مراد ہوگی اور جو اُس آیت و حدیث کا اصل معنی ہوگا۔

آیاتِ متشابہات سے کس طرح مختلف معانی اخذ کیے جاسکتے ہیں؟ ایک قرآنی آیت سے اسے واضح کرتا ہوں۔اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ہمیں مختلف مثالیں دے کرسمجھاتا ہے۔ مثالیں دینا اللہ کے کلام کی مجبوری نہیں بلکہ یہ ہماری مجبوری، کمزوری، کم فہمی اور کج فہمی ہے۔ ہمیں جو بات سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے، اللہ رب العزت ہمارے لیے آسانی پیدا کرنے کی خاطر اس کی مثالیں دے دیتاہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ ایک مثال اس طرح ہے کہ اس نے ارشاد فرمایا:

اللهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ مَثَلُ نُوْرِهٖ کَمِشْکٰوةٍ فِیْهَا مِصْبَاحٌ.

(النور، 24: 35)

’’اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال اُس طاق جیسی ہے جس میں چراغ روشن ہے۔‘‘

جہاں انسان نے اپنی عقل، صلاحیت، رائے اور علم سے کام لیا اور ان کی بنیاد پر قرآنِ مجید اور سنتِ نبوی ﷺ کی تعبیر و تشریح کی، وہاں سے غلطی کا امکان شروع ہوجاتاہے

یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آتی کہ آسمانوں اور زمینوں کا نور اللہ کیسے ہے؟ ممکن ہے جب سورج چڑھے اور دھوپ و روشنی نظر آئے توکوئی یہ سمجھے کہ نور کا چشمہ و منبع یہ ہے اور کہہ دے کہ سورج خدا ہے یا کسی نے چودہویں رات کے چاند کو روشن دیکھا تو اُس کے ذہن میں بھی یہی تھا کہ اللہ زمین اور آسمان کا نور ہے تو اس نے چاند کو ہی خدا کہہ دیا۔ اس طرح گمراہی جنم لیتی ہے جو کفر تک پہنچادیتی ہے۔ پہلے زمانوں میں سورج پرست، چاند پرست اور ستارہ پرست لوگ گزرے ہیں۔ گمراہیاں جب جنم لیتی ہیں تو اُن کے پیچھے کوئی ایک تصور، وجہ اور بنیاد ہوتی ہے۔ انسان جب اسے سمجھنے میں غلطی کرتا ہے یا اسے مغالطہ لاحق ہوتا ہے تو وہ گمراہ ہوتا چلا جاتاہے۔ اللہ رب العزت نے فرمایا کہ اللہ زمینوں اور آسمانوں کا نور ہے تو اس نے فوری طور پر اس کی مثال دے دی کہ مَثَلُ نُوْرِهٖ کَمِشْکٰوۃٍ اس مثال سے قرآن نے واضح فرمادیا کہ اللہ آسمانوں اور زمینوں کو نور مہیا کرنے والا ہے۔

وہ مثالوں کو ہماری ضرورت اور آسانی کے لیے بیان فرماتا ہے تاکہ ہمیں بات آسانی سے سمجھ آئے، مگر ان مثالوں کی وجہ سے بہت سے بھی لوگ گمراہ ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خود ارشاد فرمایا:

یُضِلُّ بِهٖ کَثِیْرًا وَّیَهْدِیْ بِهٖ کَثِیْرًا.

(البقرۃ، 2: 26)

وہ لوگ جنہوں نے فقط اس کے ظاہری معنی کو لے لیا اور اس کے حقیقی اطلاق پر نہ گئے، وہ ان مثالوں کو پڑھ کر گمراہ ہو گئے۔ یہ لوگ وہ تھے جن کے دلوں میں کجی، زنگ اور اندھیرا تھا، انھوں نے آیات متشابہات کے ظاہری معنی مراد لیے تو گمراہ ہو گئے۔ دوسری طرف بہت سے لوگ ان امثال کو پڑھ کر ہدایت بھی پاتے ہیں، اس لیے کہ ان کے دلوں میں طہارت اور تقویٰ کا نور تھا۔

یہ خیال کبھی نہ کریں کہ معاذ اللہ قرآن گمراہ کرنے والاہے۔ نہیں، ایسا نہیں ہے بلکہ قرآن تو ایک صاف بارش کی طرح ہے، اگر وہ بارش صاف ستھری زمین پر ہو تو اس زمین سے گھاس، پھل پھول اور باغات اُگتے ہیں اور وہی بارش اگر ایسی زمینوں پر ہو جہاں غلاظت ہوتو وہاں سے تعفن اور بیماریاں جنم لیتی ہیں اور اطراف میں بد بو پھیلتی ہے۔ اس میں بارش کا تو کوئی قصور نہیں۔ بارش تو اللہ کا فیض اور اس کا کرم تھا، خرابی یا اچھائی اس زمین کے سینے کی تھی۔ جس زمین کا سینہ صاف تھا، اُس نے اُس فیض کو اس طرح لے لیا کہ خوشبو، ہریالی، باغات بن گئے اور جس زمین کے سینے میں گندگی و غلاظت تھی، اُس سے بیماریوں اور تعفن نے جنم لیا اور ہر طرف بدبو پھیل گئی۔ قرآن مجید کی محکم و متشابہ آیات بھی بارش کی مانند انسان کے قلب و روح کے اوپر اترتی ہیں۔ دونوں طرح کی آیات اللہ کا کلام ہیں، اُن کے اندر فیوضاتِ ربّانی، انوارِ الٰہی اور ہدایت پر مبنی خیر، نفع اور روشنی موجود ہے۔ مگر ہم میں سے بعض کے دل کی زمین صاف ستھری ہوتی ہے سو وہ ہدایت پا جاتے ہیں اور بعض کے دل کی زمین گندگی اور غلاظت سے بھری ہوتی ہے، وہ گمراہ ہوجاتے ہیں اور ان سے گمراہی کا تعفن جنم لیتاہے۔

بعض اوقات لوگ کہتے ہیں کہ ہم صحیح اور غلط میں فرق کیسے کریں؟ کس کی بات مانیں؟وہ بھی قرآن پڑھ رہا ہے اور یہ بھی قرآن پڑھ رہا ہے۔۔۔وہ بھی حدیث کی بات کرتا ہے، یہ بھی حدیث کی بات کرتاہے۔ یاد رکھیں! اس صورتِ حال میں بات اس کی ماننی ہے، جس کے دل میں کجی نہیں ہے، جس کے عقائد ونظریات میں ہر حوالے سے طہارت اور تقویٰ کا پہلو غالب ہے۔ جس کے دل کی زمین میں بے ادبی، گستاخی اور فتنہ و فساد کی غلاظت نہیں ہے۔ جو دین اسلام کی تعلیمات اور بنیاد کے بارے تشکیک نہیں بلکہ تیقن پیدا کرتا ہے۔ جو اسلام کی 1400 سال کی تاریخ کو مدنظر رکھتا ہے اور بالخصوص قرونِ اولیٰ کے ائمہ اور بزرگانِ دین سے اکتسابِ فیض کرتا ہے۔

فیوضاتِ قرآن و حدیث کا حصول کیونکر ممکن ہے؟

حضور  علیہ السلام  کے فرائض نبوت کے حوالے قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلًا مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰـتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ.

(البقرة، 2: 151)

’’اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہی میں سے (اپنا) رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفسًا و قلبًا) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ (اسرارِ معرفت وحقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔‘‘

یہ آیت چار مرتبہ قرآن مجید میں آئی ہے اور اس میں پوری methodology بیان ہوئی ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ اپنی نگاہِ کرامت، اپنی صحبت و قربت اور اپنی تربیت کے فیض سے قلب و باطن کا تزکیہ کرتے ہیں۔ مَن کے اندر موجود میل کچیل کجی کا باعث بنتی ہے، یہی کجی بغض و عناد اور گندگی و غلاظت پیدا کرتی ہے، من اور قلب و باطن میں اندھیرا پیدا کرتی ہے، جس سے گمراہی جنم لیتی ہے اور قرآن پڑھ کر بھی لوگ گمراہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس لیے کہ دل و دماغ کی زمین اور قرآن مجید کے نور کا آپس میں جوڑ نہیں بنتا۔ دل اس کجی کے باعث قرآن مجید کو حاصل کرنے کے قابل نہیں بن سکے، دلوں میں اتنا اُجلا پن اور نفاست پیدا نہیں ہو سکی کہ قرآن مجید کے فیض کو اپنے اندر سموسکیں۔اس لیے فرمایا: وَیُزَکِّیْکُمْ حضور نبی اکرم ﷺ تمہارا تزکیہ کرتے ہیں۔

پھر ارشاد فرمایا: وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ  یعنی جب تمہار ے دل و دماغ، قلب و باطن کا تزکیہ ہو جائے تو تب تمہیں کتاب یعنی قرآن اور حکمت یعنی سنت کا علم عطا کرتے ہیں۔ گویا قرآن اور سنت و حکمت کاعلم بعد میں عطا کیا جا رہا ہے، پہلے تزکیہ کے ذریعے دل و دماغ کے برتن کو صاف کیا جارہا ہے۔ ہماری روزمرہ کی زندگی میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ گندے برتن میں کوئی کھانے پینے کی چیز نہیں رکھتے، اسی طرح اگر دلوں کا برتن گندا اور غلیظ ہے توقرآن مجید کا نور اور ہدایتِ ربانی ان دلوں کا مقدر نہیں بنتی۔

انوارِ الہٰی اور قرآن مجید سے فیض یاب ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ نے خود تمام مراحل بیان کیے ہیں۔ لہذا تزکیہ کے حصول کے لیے ایک ریاضت اور مجاہدہ درکار ہے۔ ہم لوگ جب مجاہدہ کے بغیر علم کی طرف جاتے ہیں تو زندگی میں گمراہ ہونے کے ہزار ہا امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ فقط علم میں ہدایت کی کوئی گارنٹی موجود نہیں ہے۔ خواہ قرآن مجید کا علم ہو یا تفسیر، حدیث، فقہ یا سائنس کا علم، علم جو بھی ہے، محض اس علم کے اندر ہدایت کی گارنٹی نہیں ہے۔ اس سے ہدایت بھی پا سکتے ہیں اور اور گمراہ بھی ہو سکتے ہیں۔ اس علم سے ہدایت پانے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے قلب و باطن اور دماغ کو صاف ستھرا کیاجائے اور اسے میل کچیل سے پاک کیا جائے، تب انوارِ الہٰیہ کی کھڑکی کھلے گی اور نور قلب کے اندرآئے گا۔ پھر اس باطنی نور کا قرآن کے ساتھ ایک جوڑ، ربط اور مماثلت بنے گی اور اس مناسبت کی وجہ سے پھر قرآن کی ہدایت کے سرچشمے جاری ہوں گے اور اگر تزکیہ کا یہ طریقہ نہ اپنایا تو گمراہی مقدر بنتی ہے۔

گمراہ ہونے والوں اور ہدایت پانے والوں میں فرق ہے۔ سورہ الزمر کی آیت نمبر22 میں ارشاد فرمایا:

اَفَمَنْ شَرَحَ اللهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ فَھُوَ عَلٰی نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖ.

’’بھلا، اللہ نے جس شخص کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا ہو تو وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر (فائز) ہوجاتا ہے۔‘‘

سینے کے کھل جانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ رب العزت کی طرف سے اسے نور عطا ہوتاہے۔ جو اُس کے قلب و باطن کو روشن و منور کر دیتاہے اور تاریکیوں کو دور کر دیتاہے۔ قلب و باطن کے اندر آنے والا یہ نور قرآنی مفاہیم، قرآنی آیات، قرآنی مطالب و معارف اور قرآنی ہدایت کے نور کے ساتھ ایک مناسبت و موافقت پیدا کرتا ہے۔ جب تک یہ مناسبت پیدا نہ ہوجائے، قرآن مجید سے اخذ ہدایت ممکن نہیں۔

قرآن مجید کی محکم و متشابہ آیات بارش کی مانند انسان کے قلب و روح کے اوپر اترتی ہیں۔ بعض کے دل کی زمین صاف ستھری ہوتی ہے سو وہ ہدایت پا جاتے ہیں اور بعض کے دل کی زمین گندگی اور غلاظت سے بھری ہوتی ہے، وہ گمراہ ہوجاتے ہیں

اگر ہم نے اپنے ٹی وی یا ریڈیو پر کسی چینل کی نشریات دیکھنی یا سننی ہوں تو اُس کے لیے پہلے اُس چینل کے نمبر کو فکس کرتے ہیں پھر وہ چینل ہمارے ٹی وی اور ریڈیو پر نشریات دیتا ہے۔ یہ طریقہ ہر جگہ کارفرما ہے۔ جوں ہی ہم نے چینل کے نمبر کو فکس کیا تو مناسبت پیدا ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس نظام کائنات میں ایک مماثلت پیدا کی ہے۔ ہماری مادی دنیا کی زندگی ہو یا نباتاتی، جماداتی، حیواناتی یاروحانی زندگی، اصول اُس وحدہ لاشریک نے ایک جیسے پیدا کیے ہیں۔

بالکل اسی طرح قرآن اورحدیث کا نور لینے کے لیے قلب و باطن کے اندر نور کا ہونا ناگزیر ہے۔ قرآن و سنت کا نور حاصل کرنے کے لیے قلب و باطن کے انوار کے ساتھ ربط (connection) ہونا ضروری ہے تب ہی نورِ الہٰی اور ہدایت ملے گی۔ جب کوئی یہ مناسبت ہی پیدا نہیں کرتا اور اس کے قلب و باطن میں اندھیرے اور سیاہی ہے اور وہ نور الہٰی بھی لینا چاہتا ہے تو یہ امر communication کے اصولوں کے خلاف ہے۔ اس کو کبھی نورِ ہدایت نصیب نہیں ہوسکتا۔

جن کے دلوں میں کجی ہے وہ آیاتِ متشابہات کی پیروی کیوں کرتے ہیں؟ قرآن مجید اس حقیقت کو بھی آشکار کرتا ہے۔ ارشاد فرمایا:

فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْہُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَآءَ تَاْوِیْـلِهٖ.

(آل عمران، 3: 7)

’’اس میں سے صرف متشابہات کی پیروی کرتے ہیں (فقط) فتنہ پروری کی خواہش کے زیراثر اور اصل مراد کی بجائے من پسند معنی مراد لینے کی غرض سے۔‘‘

جب وہ اصل معنی و مراد کے بجائے من پسند معنی لینا چاہتے ہیں تو اس سے ان کا مقصود فتنہ پروری ہوتی ہے۔ قرآن مجید واضح کررہا ہے کہ وہ اصل مراد کو چھوڑ کر من پسند معنی و مراد لیناچاہتے ہیں، اس وجہ سے وہ آیات جن کی تفصیلات بیان نہیں کی گئیں یافروع بیان نہیں کی گئیں اور مزید تشریح و تعبیر اور مزید تفصیل مطلوب ہے، اس کے لیے وہ اپنا دماغ استعمال کرتے ہیں، اپنے فہم سے اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر اس سے فتنہ پیدا کیا جاتا ہے یا اپنے مکتبۂ فکر، عقیدے اور مسلک و فرقہ کی تائید میں معنی نکالا جاتا ہے۔

پھر ارشاد فرمایا:

وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗٓ اِلاَّ اللهُ م وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ.

(آل عمران، 3: 7)

یعنی ان (آیات متشابہات) کی اصل مراد اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے۔ ان آیات کی اصل مراد تک رسائی اُنہی کو نصیب ہوتی ہے جو علم میں رسوخ رکھتے ہیں۔ اس آیت کا معنی بھی دو طریقے سے کیا گیا ہے:

  1. الا اللہ کے بعد وقف کے ساتھ
  2. والراسخون فی العلم، کے بعد وقف کے ساتھ

اللہ تعالیٰ ان آیات متشابہات کی معرفت اور اصل مراد ان لوگوں تک پہنچاتاہے جن دلوں کو معرفت میں کامل بنایاہے، جنھیں علم میں رسوخ اور پختگی عطا کی ہے۔ والراسخون فی العلم کون ہیں؟ وہ لوگ جن کی Frequency اس ملاء اعلیٰ اور اُس عالم لامکان کے ساتھ مل گئی ہے جہاں سے انوارِ قرآن اترے ہیں۔ جس کی Frequency بارگاہِ الوہیت اور بارگاہِ نبوت کے ساتھ ایسی ملی کہ وہ قرآن کے انوار وصول کرنے کے قابل ہو گیا تو دل و دماغ انوارِ الوہیت اور انوارِ نبوت اخذ کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ پھر اس آیت کے آخر پر اللہ رب العزت نے فرمایا:

وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ.

(آل عمران، 3: 7)

’’اور نصیحت صرف اہلِ دانش کو ہی نصیب ہوتی ہے۔‘‘

معلوم ہوا کہ ہر شخص اس نصیحت کا حق دار نہیں ہے۔

خلاصۂ کلام

گزشتہ کلام سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ عقائد کے درست یا غلط کے تعین کے لیے ہمیں ایک methodology، اصول اور ایک قاعدہ و ضابطہ چاہیے، جس سے ہم قرآن و سنت کی صحیح تعبیرو تشریح اور غلط تعبیرو تشریح میں امتیاز پیدا کرسکیں۔ اس امتیاز کا فہم نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ قرآن کی آیات کا غلط اطلاق کر کے قوم و ملت کو گمراہ کر رہے ہیں۔ اسی طرح وہ حدیث کو سیاق و سباق سے ہٹا کر پڑھتے ہیں اور اُن کا اطلاق غلط جگہ پر کرکے لوگوں کو گمراہ کر دیتے ہیں۔ سننے والے کو تو خود قرآن اور حدیث کا ترجمہ نہیں آتا، انھیں قرآن کا صحیح اطلاق معلوم ہے اور نہ حدیث کا سیاق و سباق معلوم ہے، اُس کے پاس تو علم نہیں ہے، لوگ ان سے صرف یہ سن کر متاثر اور مرعوب ہوجاتے ہیں کہ قرآن اور حدیث سے دلیل دے رہا ہے۔ لہٰذا ہمیں ایک آسان methodology وضع کرنی ہو گی جس کی روشنی میں عامۃ المسلمین یعنی تھوڑی سمجھ بوجھ اور معمولی علم رکھنے والے کے لیے بھی سمجھنے میں آسانی ہو جائے۔

(جاری ہے)