اللہ رب العزت کا بے پایاں لطف وکرم اور احسانِ عظیم ہے کہ اُس کے فضل ورحمت اور آقا علیہ السلام کے نعلین پاک کے تصدق سے ہمیں منہاج القرآن کی صورت میں تجدید و احیائے دین اور اصلاحِ احوال کی عالمگیر تحریک عطا ہوئی۔ بلاشبہ آج اس زمانہ میں منہاج القرآن اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے اور ہمیں یہ نعمت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ذریعے ملی۔ حقیقت کی نگاہ سے دیکھیں تو تحریک منہاج القرآن کا پورار وجود شیخ الاسلام کی ذات سے پیوستہ ہے اور تحریک کے وجود کو جتنا نور اور کرنیں ملی ہیں، وہ شیخ الاسلام کی ذات کے سبب سے ہی ہیں۔ منہاج القرآن کی پوری فکر، اس کا نیٹ ورک، نظام، ادارے اور اُس کی سوچ، نظریے، فلسفے اور اُس کے اندر کارفرما روح کو اگر وسیع تناظر میں دیکھیں تو وہ تحریک کی شکل میں ہمارے سامنے ہے اور اگر اُس کو Micro لیول پر دیکھیں تو وہ شیخ الاسلام کی ذات ہے۔ یعنی شیخ الاسلام کی ذات کی عملی شکل تحریک ہے اور اس تحریک کی روحانی صورت شیخ الاسلام کا وجود ہے۔ روح؛ شیخ الاسلام ہیں اور جسم منہاج القرآن ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری عطائے مصطفی ﷺ ہیں اور اس عطاء کا عملی پیکر اور نمونہ منہاج القرآن ہے۔
یہ عظیم تحریک الحمدللہ تعالیٰ 42 سال پر محیط ایک سفر طے کرچکی ہے اور اس سفرکے دوران لاتعداد کامیابیاں اس کے دامن کی زینت ہیں اور ان شاء اللہ اِن کامیابیوں کا سلسلہ آئندہ بھی بتوفیقِ الہٰی جاری و ساری رہے گا۔ منہاج القرآن کو ہمہ جہتی حوالے سے ملنے والی تمام تر کامیابیاں حضور نبی اکرم ﷺ کی اس حدیث مبارکہ کے مصداق ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
تَرَکْتُ فِیْکُمْ أَمْرَیْنِ لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِھِمَا: کِتَابَ اللهِ وَ سُنَّةَ نَبِیِّهِ وفی روایة إِنِّي تَارِکٌ فِیْکُمُ الثَّقَلَیْنِ: کِتَابَ اللهِ وَعِتْرَتِي.
(مالک، الموطا، کتاب: القدر، باب: النهی عن القول بالقدر، 2: 899، رقم: 1594) (ترمذی، السنن، کتاب: المناقب، عن رسول الله ﷺ، باب: مناقب اھل بیت النبی ﷺ، 5: 663، رقم: 3788)
میں تمہارے پاس دو چیزیں چھوڑے جاتا ہوں اگر انہیں تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے یعنی اللہ کی کتاب اور اُس کے نبی کی سنت۔ دوسری روایت میں ہے کہ بیشک میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک الله تعالیٰ کی کتاب اور دوسری میرے اہل بیت۔
اس حدیث مبارکہ میں کسی خاص زمانے یا کسی خاص گروہ کو نہیں فرمایا کہ جب تک تم جڑے رہو گے بلکہ فرمایا جو بھی جڑا رہے گا، جب تک جڑا رہے گا، جس زمانے میں جڑا رہے گا، اُس کو خیرات اسی تمسک سے ملے گی۔ منہاج القرآن کو حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ سے جو عطاء میسر ہے، وہ اسی نسبت سے ملی ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا ایک ہاتھ قرآن مجید پر ہے اور دوسرا ہاتھ اہل بیت اطہار کی دہلیز پر ہے۔ تحریک کو ایک فیض قرآن مجید کا مل رہا ہے اور ایک فیض اہل بیت اطہار سے نصیب ہورہا ہے۔ یہ دونوں فیض مرج البحرین کی شکل تحریک منہاج القرآن میں جاری و ساری ہیں۔
تحریک منہاج القرآن اور اس کے روح رواں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ہاں ہمیں جو اخلاص، صدق، زبان کی تاثیر، علمی وفکری وسعت اور احیائے اسلام و تجدیدِ دین کی کاوشیں نظر آتی ہیں کہ اِن کے سبب اندھیرے چھٹ رہے ہیں اور علم و آگہی کا نور پھیل رہا ہے، عقیدے بحال ہو رہے ہیں، انسانیت کی خدمت، خیر اور برکت کے چشمے رواں ہیں، یہ سب قرآن مجید اور اہل بیت اطہارؓ سے متمسک ہونے کا فیض ہے۔
تحریک منہاج القرآن ایک تجدیدی تحریک ہے اور شیخ الاسلام مجدد رواں صدی ہے۔ اس تحریک اور اس کی قیادت میں اللہ تعالیٰ نے گزشتہ تمام شیوخ الاسلام اور مجددین کے رنگ جمع فرمادیئے ہیں اور تحریک اور شیخ الاسلام کو ان تمام کے اوصاف کا جامع بنایا ہے۔ اللہ رب العزت نے ان تمام اوصاف و کمالات کو آقا علیہ السلام کے اس مہمان خانے یعنی منہاج القرآن میں جمع کر دیا ہے۔
تحریک کے رفقاء و کارکنان، وابستگان اور محبت کرنے والے خوش قسمت ہیں کہ وہ صرف اور صرف حضور علیہ السلام کے مہمان خانے کے نوکر ہیں۔ یاد رکھیں کہ ہم اور کچھ نہیں، اگر ہیں تو حضور ﷺ کے مہمان خانے کے نوکر ہیں۔ جس در پر بارگاہِ مصطفی ﷺ سے خیرات آرہی ہو۔۔۔ جس مقام کو حضور ﷺ کی بارگاہ کی قربت حاصل ہو۔۔۔ وہاں رہ کر نوکری کرنا بڑے اعزاز کی بات ہے۔ ہر وہ مقام جہاں حقیقی معنوں میں حضور ﷺ کا فیض بٹتا ہے، وہ حضور ﷺ کا مہمان خانہ ہے۔
جب منہاج القرآن حضور نبی اکرم ﷺ کا مہمان خانہ ہے اور ہم اس مہمان خانے کے نوکر ہیں تو سوال یہ ہے کہ ہمیں نوکر کس نے بنایا ہے۔۔۔؟ اُس نوکری کے بھی تو کچھ تقاضے ہیں، نوکر ایسے ہی تو نہیں بنائے جاتے، اس کی بھی کہیں نہ کہیں سے سلیکشن ہوتی ہوگی۔ مثلاً: اگر ہم نے کسی کو ملازم رکھنا ہو تو کسی بندے کے انٹرویو کے لیے آنے سے لے کر اس کے بیٹھنے اور انٹرویو دے کر جانے تک کی اداؤں کو دیکھتے اور اس کی ہر شے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔ اس کے اٹھنے بیٹھنے اور بولنے کے سب انداز دیکھتے ہیں۔ اُس کے اخلاق، چہرے کے تاثرات اور اُس کی اہلیت دیکھی جاتی ہے۔ پھر اُس کا data دیکھا جاتا ہے، اُس کے ریفرنس دیکھے جاتے ہیں، اُس کی تعلیم اور تجربہ دیکھا جاتا ہے کہ کہاں کہاں سے پڑھا ہے، کیا گریڈ لیے ہیں، کہاں کہاں اور کتنا کتنا عرصہ نوکریاں کی ہیں، دورانِ ملازمت اس کی استقامت کا لیول کیا رہا ہے، کیا بار بار نوکریاں تبدیل کرتا رہا ہے، یا استقامت کے ساتھ کسی ایک در پر بیٹھا رہا ہے۔ اگر کافی عرصہ ایک ہی جگہ کام کیا تو اس کا مطلب ہے کہ وفادار بن کر رہا ہے اور اگر کبھی دو مہینے اِدھر کبھی اُدھر تو اس کا مطلب ہے کہ وہ کسی در کا نہیں ہوسکتا۔ جو در در سے کھاتا ہے، وہ کسی در کا نہیں ہوتا اور ہر در سے ٹھکرایا جاتا ہے۔ جو ہر دور پر جھکتا ہے اور چگتا ہے اور پھر کسی دوسرے در پر چلا جائے تو اسے قبول نہیں کیا جاتا۔ در در پر جھکنے والا بے در ہو جاتا ہے۔
علاوہ ازیں نوکر اور ملازم رکھنے کے لیے امیدوار کا خاندانی پسِ منظر، جس جگہ مقیم ہے وہاں سے اس کے بارے معلومات اور تعلیمی میدان میں اس کے تخصص کو بھی پیش نظر رکھا جاتا ہے کہ تعلیمی میدان میں بھی ایک ہی مضمون کو اختیار کیے رکھا یا بدلتا رہا۔ اگر گریجوایشن ایک فیلڈ میں کی، ماسٹرز دوسری فیلڈ میں کیا، ایم فل کسی اور موضوع پر ہے اور Ph.D کسی اور میدان میں کررہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اسے معلوم ہی نہیں کہ اس نے کیا کرنا ہے، اس کو سکون نہیں، اس کو اپنی معرفت ہی نہیں۔ اُس کی طبعیت، مزاج اور شخصیت میں یکسوئی نہیں ہے۔
واضح کرنا یہ مقصود ہے کہ جب ہم نے کسی بندے کو دنیاوی نوکری پر رکھنا ہو تو یہ سارے تردّد کیے جاتے ہیں اور اگر کسی کو ملازم اور نوکر رکھ بھی لیں تو پہلے دن سے ہی اسے مستقل نہیں کرتے بلکہ عارضی رکھتے ہیں کہ کارکردگی کی بنیاد پر مستقل کیا جائے گا ور پھر اگر اس سے دو تین ماہ مطمئن اور خوش ہوں تو مستقل کرتے ہیں۔
اب اس بات کو دوسرے تصور میں لے کر آئیں کہ منہاج القرآن کے رفقاء و کارکنان ہونے کی صورت میں ہم کس کے نوکر ہیں۔۔۔؟ ہم آقا علیہ السلام کے نوکر ہیں۔ حضور علیہ السلام نے اپنی نوکری کے لیے جسے ذمہ داری سونپی ہے وہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہیں۔ ا ب آگے اس مصطفوی مشن اور مہمان خانہ مصطفی کی نوکری دینا شیخ الاسلام کے ذمے ہے کہ نوکر میرے ہیں مگر میرے طاہر! ان کو رکھنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ گویا شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ذمہ داری ایک نگران، انچارج اور امین کی سی ہے۔ اب مصطفوی مشن کی صورت میں اس نوکری کے جو تقاضے ہیں، اس کے مطابق نوکری اور ذمہ داری تفویض کرنا اور ان تقاضوں کو ملحوظ رکھنا شیخ الاسلام کی ذمہ داری ہے۔ وہ اپنے مالک سے پوچھ کر اور ان کی رضا مندی کے مطابق ہی اس مصطفوی مشن کی ذمہ داریاں سونپتے ہیں۔
اب سمجھ لیں کہ جب ہم کچھ بھی نہیں۔۔۔ ہماری کوئی اوقات اور کوئی وجود ہی نہیں۔۔۔ ہماری کوئی طاقت، حیثیت اور وقعت ہی نہیں۔۔۔ سب کچھ ہم سے ماورآء ہمارے صدق و اخلاص، محبت، اخلاق، نرمی، محنت اور للہیت کو دیکھتے ہوئے کسی اور مقام پر ہی طے ہونا ہے تو ہم کس چیز پر اِتراتے اور فخر کرتے ہیں۔۔۔؟ ہم تو تصور کر بیٹھے ہیں کہ یہ ہماری ملکیت ہے۔ بھئی ہماری اور آپ کی کیا ملکیت، ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ ہمارا عارضی دورانیہ ہے یا مستقل کردیئے گئے ہیں۔۔۔؟ ابھی تو ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ قبول بھی کرتے ہیں یا نہیں کرتے۔۔؟
یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ۔ کے مصداق وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے ٹھکرا دیتا ہے۔ لہذا اس مہمان خانۂ مصطفی اور اس مصطفوی مشن کی نوکری کی سعادت جسے میسر ہے، وہ اپنے آپ کو خوش قسمت تو تصور کرے مگر ہمہ وقت یہ خدشہ بھی اس کے دل و دماغ میں رہے کہ نہ جانے کب حضور ﷺ کس بات پر ناراض ہوجائیں اور میں اپنی بے عملی و بدعملی کے سبب اس مصطفوی مشن کی خدمت سے محروم ہوجائوں۔
لہذا ہم پرلازم ہے کہ ہم تجدید و احیائے دین اور اصلاحِ احوال کے اس عظیم مصطفوی مشن کی علمبردار تحریک منہاج القرآن اور شیخ الاسلام کی صورت میں حاصل اس نعمت پر اللہ کی بارگاہ میں شکر بجا لائیں۔۔۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں سراپا ادب و نیاز بنے رہیں۔۔۔ اور اس مصطفوی مشن کے فروغ کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور قابلیتوں کو خلوصِ دل سے انجام دیتے رہیں۔ یہ تصور ہمیشہ دل و نگاہ میں جاگزیں رہے کہ جب یہ مہمان خانہ مصطفی ہے تو حضور ﷺ کی نگاہ اپنے اس مہمان خانے پر تو پڑتی ہوگی اور وہ یہ ملاحظہ کرتے ہوں گے کہ کون یہاں کس کس طرح خدمات سرانجام دے رہا ہے؟ پس اپنی اداؤں سے اپنی سرکار ﷺ کو منا لیں۔
ہمہ وقت اللہ کی بارگاہ میں شکر ادا کیا کریں کہ مولیٰ! تیرا شکر اور کرم ہے کہ ہمیں اللہ والوں کی صحبت و مجلس عطا فرمائی۔ یہ در میسر نہ آیا ہوتا تو نہ جانے ہم کہاں ہوتے۔۔۔ ہمارے رات دن نہ جانے کیسے بسر ہوتے۔۔۔ زندگی کھیل کود میں بسر ہوتی۔۔۔ نہ اپنی کوئی خبر ہوتی نہ تیری فکر اور تیرا ذکر ہوتا۔۔۔ اور جب قبر کی رات آتی فرشتے پوچھتے کہ بتا تو اس مقام پر ہم بے بس ہو جاتے۔ مولیٰ! تیرا شکر کریں کہ ہمیں وہ مل گئے جن کے سبب ہم زندگی کے مقصد سے آشنا ہوگئے اور جنھوں نے ہمیں تجھ سے اور تیرے پیارے محبوب ﷺ سے آشنا کردیا۔
یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ انسان نوکری کرکے بھی اور ذمہ داریاں پوری کر کے بھی اپنا آپ نہ دکھائے کہ یہ میں نے کیا ہے۔ بس یہ تصور ہی نہیں بلکہ یقین کرے کہ یہ حضور نبی کریم ﷺ کی بارگاہ کا کام ہے، اُنہوں نے کروا لیا ہے۔ لہذا اس مصطفوی مشن میں خدمات سرانجام دیتے ہوئے وقت کو نہ دیکھیں کہ وقت گزر گیا۔ نوکروں کا کام وقت دیکھنا نہیں ہے بلکہ اُس وقت کا انتظار کرنا ہے کہ جب قبولیت ہو جائے۔ اِس وقت کو نہ دیکھیں بلکہ اُس وقت کو دیکھیں کہ جب ان کی بارگاہ میں خدمت اور نوکری قبول ہو جائے۔
ہم سمجھتے ہیں ہماری بات اور کام پر واہ واہ ہو جائے جبکہ سربلندی اور واہ واہ خدا کے دین اور اس کی تعلیمات کی ہونی چاہیے۔ لہذا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رفعت کے لیے کام کیا کریں۔۔۔ آقا علیہ السلام کی ناموس اور اس دین کی کی سربلندی کے لیے کام کریں۔۔۔ اس مصطفوی مشن تحریک منہاج القرآن اور شیخ الاسلام کی سربلندی کے لیے کام کریں۔ اس دوران اگر کہیں معاشرے میں پذیرائی ملے تو یہ تصور کیا کریں کہ میرا تو کچھ بھی نہیں۔۔۔ میں تو وہ ایاز ہوں کہ جو اپنا صندوق کھول کر باقاعدگی سے روزانہ پھٹے پرانے اپنے اُن کپڑوں کو دیکھتا جو اس وقت اس کا لباس تھے جب وہ پہلی مرتبہ محمود غزنوی کے دربار میں آیا تھا۔ ان کپڑوں کو دیکھ کر وہ سوچتا کہ اے ایاز! تیری کیا مجال تھی کہ تو یہاں پہنچ سکے۔ یہ تو مالک کا کرم ہے کہ تجھے یہاں پہنچا دیا۔
اس کرم کا کروں شکر کیسے ادا
جو کرم مجھ پہ میرے نبی کر دیا
یعنی یہ تو حضور ﷺ کا کرم ہے۔۔۔ یہ اس مصطفوی مشن کی خیرات ہے۔۔۔ یہ تحریک سے وابستہ ہونے اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی مجالس اور صحبتوں کا اثر ہے کہ آج دنیا مجھے پہچان رہی ہے۔۔۔ درحقیقت یہ پذیرائی میری نہیں بلکہ میرے آقا ﷺ کی ہے۔۔۔ دین اسلام کی ہے۔۔۔ میرے قائد کی ہے۔۔۔ میں تو کچھ بھی نہیں۔ ہمارا مطمع نظر یہ ہو کہ ہم تو جن سے منسوب ہیں وہ بلند ہوجائیں اور اُن کے قدموں کے صدقے ہماری بھی نجات ہوجائے۔۔۔ ہم بھی اس خدمت کے صدقے ان کی نظروں میں آجائیں کہ یہ بھی میرے دین کا خدمت گزار ہے۔۔۔ وہ ہمارا ذکر بھی اپنی باتوں میں کبھی کر دیں کہ یہ میرا غلام ہے۔۔۔ اور میری تعلیمات کے فروغ کے لیے صبح و شام سرگرداں ہے۔
سیدنا سلمان فارسیg روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
رِبَاطُ یَوْمٍ وَلَیْلَةٍ خَیْرٌ مِنْ صِیَامِ شَهْرٍ وَقِیَامِهِ. وَإِنْ مَاتَ جَرَی عَلَیْهِ عَمَلُهُ الَّذِي کَانَ یَعْمَلُهُ وَأُجْرِيَ عَلَیْهِ رِزْقُهُ وَأَمِنَ الْفَتَّانَ.
(مسلم، الصحیح، کِتَابُ الْإِمَارَةِ، بَابُ فَضْلِ الرِّبَاطِ فِي سَبِیلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، 3: 1520، رقم: 1913)
ایک دن اور ایک رات سرحد پر پہرہ دینا ایک ماہ کے روزوں اور قیام سے بہتر ہے۔ اور اگر وہ مر گیا تو اس کا وہ عمل جاری رہے گا، اس کا رزق جاری رہے گا اور اس کو قبر کے فتنوں سے محفوظ رکھا جائے گا۔
اندازہ لگالیں کہ اگر اسلامی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت پر اتنا اجر ہے تو اسلامی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت اور آقا علیہ السلام کی دین کی خدمت کے لیے مارے مارے پھرنا، کاوشیں کرنا اور مصائب و مشکلات کو برداشت کرنے کا کتنا عظیم اجر ہوگا۔ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی خاطر کی جانے والی اس نوکری اور خدمت کے دوران اگر موت آگئی تو فرمایا کہ اُس کا اجر نہیں رکے گا بلکہ اُس کا اجر جاری رہے گا۔ پتہ چلا کہ بندہ قبر میں چلا جائے گا مگر اس نوکری کا اجر اسے روزانہ مل رہا ہوگا۔ یہ امر بھی نہایت قابلِ غور ہے کہ اگر ایک دن رات کی ڈیوٹی اور نوکری کا اجر یہ ہے تو وہ بندہ جو سالہا سال سے حضور ﷺ کے دین کی نوکری کررہا ہے، اس کے اجر اور درجات کی بلندی کا عالم کیا ہوگا۔
لہذا تحریک اور اس مصطفوی مشن کے لیے دیئے گئے وقت اور قربانیوں کو شمار نہ کیا کریں۔ ہم اپنے وقت اور قربانیوں کا ذکر کرکے کس پر احسان جتلا رہے ہیں۔۔۔؟ کیا ہم حضور ﷺ کو بتا رہے ہیں کہ یا رسول اللہ! ہم نے یہ آپ کے لیے کیا۔۔۔؟ غلام بھی کبھی آقا کو بتائے گا کہ آقا آپ کے لیے کیا۔۔۔؟ نہیں، نہیں، نہیں۔ ان چیزوں کو دلوں سے نکال دیں۔ یہ بہت بڑی نعمت ہے اور مصطفوی مشن اور اس تحریک کی صورت میں حاصل نعمت پر کبھی احسان مت جتلائیں۔ کہیں اس روّیہ سے ہم اپنے آپ کو اس خدمت سے محروم نہ کر بیٹھیں۔ یہی تو ہے جو یہاں اور وہاں کام آنے والا ہے۔
دنیا بھر میں قائم منہاج القرآن کے مراکز پر خدمات سرانجام دینے والے یاد رکھیں کہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کے اس مشن کے امین ہیں۔ اس تحریک کا ہر اثاثہ اور ہر چیز حضور نبی اکرم ﷺ کی امانت ہے۔ خدا کی عزت کی قسم! شیخ الاسلام اتنی فکر اپنے ذاتی پیسوں کی نہیں کرتے، جتنے منہاج القرآن کے پیسوں کی کرتے ہیں۔ حتی کہ اپنی عمر بھر کی کمائی بھی منہاج القرآن کے نام وقف کر رکھی ہے۔ لہذا رفقاء و کارکنان کو بھی اس مصطفوی مشن میں اپنے قائد کی پیروی کرنی چاہیے۔ پیسوں سے محبت نہ کریں بلکہ اس مشن سے محبت کریں۔ اس مشن اور اس کی ایک ایک شے اور اثاثہ کی حفاظت اور فکر کریں۔
یاد رکھیں! شیخ الاسلام سمیت ہم میں سے کوئی اس مصطفوی مشن کا مالک نہیں، اس کے مالک صرف اور صرف حضور نبی اکرم ﷺ ہیں۔ ہم تو یہاں صرف نوکر ہیں۔ نوکر خرچ نہیں کرتا بلکہ مالک خرچ کرتا ہے اور جب مالک کسی کو ذمہ داری دے تو وہ خرچ کرتا ہے مگر یہ امین بھی تو اپنے مالک کو جوابدہ ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور ہم یہاں پر اس امانت پر جو حضور نبی اکرم ﷺ نے ہمیں دی ہے، اس کے امین ہیں۔ اگر اچھے امین ہو گئے تو اچھے خادم اور نوکر ہو جائیں گے اور یہ نوکری چلتی رہے گی اور کل جب ہم حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں پہنچیں گے تو ہمارا نام بھی ان کے مقدس لبوں پر فخریہ انداز میں موجود ہوگا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس مصطفوی مشن کی خدمت کی توفیق مرحمت فرمائے۔۔۔ ہمیں مزید ہمت و حوصلہ سے نوازے۔۔۔ ہماری جدوجہد قبول فرمائے۔۔۔ ہمیں استقامت، عاجزی اور انکساری کے ساتھ تحریک منہاج القرآن کے ساتھ وابستہ رہنے اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا دست و بازو بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس لیے کہ جن پیڑوں پر پھل لگتے ہیں وہ جھکے ہوئے ہوتے ہیں اور جن پر کچھ نہیں لگتا وہ اکڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ خدا اور مصطفی ﷺ کو جھکے ہوئے پسند ہیں، اسی لیے جھکنے میں عظمت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین و دنیا کی بھلائیاں اور سلامتی عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ