فکرِ شیخ الاسلام: صحبت و اخوت کے حقوق

مرتبہ: نازیہ عبدالستار

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خصوصی خطاب

یہ خطاب صحبت کے حقوق اور آداب سے متعلق ہے۔ دین سارا ادب ہے۔ اخوت و صحبت بھی احکام دین میں سے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یٰٓـاَیَّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَهْلِیْکُمْ نَارًا.

’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ۔‘‘

(التحریم، 66: 6)

ارشاد فرمایا اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ سے بچاؤ۔ آئمہ تفسیر نے اس سلسلے میں بیان کیا ہے ان کو ادب سکھاؤ دین کا۔

(ابن کثیر التفسیر القرآن العظیم، ج 4، ص: 392)

ان کو دوزخ سے بچنے کا ادب سکھاؤ جب وہ دین کا ادب سیکھیں گے تو احکام دین کو کماحقہ بجا لاسکیں گے تو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آداب کو بجالائیں گے پھر اہل بیت اطہار اولیاء و صالحین، اہل و عیال، اپنے دوستوں اور ہم مجلسوں کے حقوق بھی بجا لائیں گے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ادبنی ربی ماحسن تادیبی.

اللہ نے مجھے ادب سکھایا اور میرے ادب کو سب سے زیادہ حسین کیا۔

(عجلونی، کشف الخفاء، ج1، ص: 72، رقم: 164)

یہی وجہ ہے کہ ہر شعبہ زندگی کے بارے میں آداب ہیں۔ جانور کو ذبح کرنا ہے تو اس کے بھی آداب ہیں کہ اس کو کند چھری سے ذبح نہ کریں۔ پیاسا ذبح نہ کریں، ایک جانور کے سامنے دوسرے جانور کو ذبح نہ کریں۔

اللہ رب العزت کا ادب کمال توحید ہے۔ اس کے حقوق توحید کو بجالانا ہے۔ حضور علیہ السلام کا ادب کمالیت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی پیروی ہے۔ مخلوق خدا کا ادب حسن اخلاق ہے۔ جب مسلمان دوسرے مسلمان سے ملے تو سلام میں پہل کرے۔ جب وہ مجلس میں آئے اس کے لیے جگہ پیدا کرے۔ آنے والے کے لیے ادب یہ ہے کہ وہ لوگوں کو تکلیف نہ دے کہ کندھے پھلانگ کر آگے بیٹھنے کی کوشش کرے۔ تیسرا ادب یہ ہے کہ اس کو اچھے ناموں سے بلائیں جس کو وہ پسند کرے اور خوشی محسوس کرے۔

الغرض دین کا کوئی عمل ایسا نہیں جس کے آداب نہ ہوں پس جب کسی کے ساتھ اخوت و صحبت کا کام کیا جائے تو اللہ کے لیے ہو۔ صحبت و سنگت متقین اور پرہیزگاروں کی ہو اس فتنہ کے دور میں کوئی تنہا شخص اپنے دین و ایمان کی حفاظت نہیں کرسکتا۔ ہر شخص کو نیک صحبت کی ضرورت ہے تاکہ اس کے دین کی حفاظت ہو۔

پس تحریک منہاج القرآن یا کسی بھی دینی جماعت کی وابستگی اختیار کرنی چاہئے تاکہ اس سے دین اور ایمان کی نشوونما کا سامان بھی ملے اور ایمان کی حفاظت کا اہتمام بھی ہو۔ تنہا رہنے میں نقصان ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر ایک شخص تنہا ہو تو شیطان اس کے زیادہ قریب ہوتا ہے اگر دو شخص مل کر بیٹھیں گے تو شیطان کے لیے ورغلانا قدرِ مشکل ہوجاتا ہے۔ اگر تین ہوں گے تو شیطان کے لیے بہت ہی مشکل ہوجاتا ہے۔

سنگت و صحبت کی صورتیں

سنگت و صحبت کی کئی صورتیں ہیں۔ جس میں کتب کیسٹ، اعتکاف اور گوشہ درود اور دروس قرآن میں شریک ہونا اس سے ایمان کی تجدید ہوتی ہے۔ اللہ رب العزت نے فرمایا:

اَ لْاَخِلَّآءُ یَوْمَئِذٍم بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ.

’’سارے دوست و احباب اُس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے سوائے پرہیزگاروں کے (انہی کی دوستی اور ولایت کام آئے گی)۔‘‘

(الزخرف، 43: 67)

حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

لوگو! اللہ کی صحبت اختیار کیا کرو۔

فاصحب مع من یصحب مع الله.

(سهروردی، عوارف المعارف، ج1، ص: 229)

پھر اس کی صحبت اختیار کرو جو اللہ کی صحبت میں رہتا ہے تو ان کی صحبت تمہیں اللہ کی صحبت تک پہنچادے گی یہی حکم قرآن مجید میں ہے۔

وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ.

’’(اے میرے بندے!) تو اپنے آپ کو ان لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے رب کو یاد کرتے ہیں اس کی رضا کے طلب گار رہتے ہیں (اس کی دید کے متمنی اور اس کا مکھڑا تکنے کے آرزو مند ہیں)۔‘‘

(الکهف، 18: 28)

حضرت ابوجعفر الہداد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:

جو اللہ کے دوستوں سے انس اور محبت کرتا ہے درحقیقت اللہ سے محبت کرتا ہے۔

(سهروردی، عوارف المعارف، ج1، ص: 230)

اب یہ سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے۔ اس زمانے میں اہل اللہ نہ ملیں تو کیا کریں ان کے لیے ہے کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی بن جائیں۔ اپنی رفاقت و دوستی کو اللہ کی محبت کی نذر کریں۔ حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

کیا میں تمہیں خبر نہ دوں کہ تم میں سے بہترین لوگ کون ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کیوں نہیں۔

فرمایا تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جب انہیں دیکھو تو اللہ یاد آئے۔

(سنن ابن ماجه کتاب الزهد، ج: 2، ص: 1379، رقم: 4119)

اس کے دو معنی ہیں۔ ایک معنی یہ ہے کہ آثار باطن ان کے ظاہر سے نمایاں ہوتے ہیں۔ وہ تمہیں اللہ کی یاد دلاتے ہیں۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اگر ایسے لوگ نہ ملیں تو ایسے لوگوں سے قلبی تعلق رکھو۔ جہاں بھی تعلق ہو دوستی بنالیا کرو اور اس دوستی کی بنیاد اللہ کی صحبت کو رکھ لو۔ کہو ہم جب مل بیٹھے گے تو اللہ کی بات کریں گے جس میں غیبت، گپ شپ، چغلی دوسری کی تحقیر اور مذاق نہ ہو۔ ایک دو دوست ہر جگہ بنانے چاہئیں اس طرح دوستی کا نیٹ ورک بن جائے گا۔ ہر طرف خیر کا دور دورہ ہوجائے گا۔

آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اچھے لوگوں کی مجلسوں کو اختیار کرو کہ جن کو دیکھو تو اللہ یاد آئے۔ ان کی بات سنو تمہارے علم میں دین کی حکمت پیدا ہوجائے ان کے اعمال کو دیکھو تو آخرت یاد آجائے۔

(المسند، ج: 4، ص: 326، رقم: 2437)

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے مسند میں روایت کیا ہے:

ان احباء واولیاء الذین یذکرون یذکری واذکر بذکرهم.

(المسند، ج: 3، ص: 430)

بے شک میرے دوست اور اولیاء وہ لوگ ہیں کہ اگر میرا ذکر ہو تو ان کی یاد آجاتی ہے جب کبھی میرا ذکر ہو تو میرا ذکر ان تک جا پہنچتا ہے یعنی میرا ذکر اور ان کا ذکر باہم لازم و ملزوم ہے۔

ٍ جب اللہ کے لے سنگت اور صحبت ہوجاتی ہے تو پھر وہ سنگت کام آتی ہیں اور اس دنیا میں مجلس کو گناہوں سے بچالیتی ہیں۔

سنگت و صحبت کے آداب

پہلا آداب: اظہارِ محبت

حضرت مقدان بن مادی کرب روایت کرتے ہیں کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

جب تم میں کوئی شخص اپنے بھائی سے محبت کرتا ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس کو بتادے کہ میں تم سے اللہ کے لیے محبت کرتا ہوں۔

(سنن ابی داؤد کتاب الادب، ج: 9، ص: 332، رقم: 5124)

یہ پہلی بات حقوق و آداب میں سے ہے کہ اگر اپنے دوست سے محبت کرے تو اسے بتادے۔

دوسرا ادب: شوق ملاقات

اللہ کے لیے بناتے ہوئے دوست کی زیارت کرنے کا اتنا اجر ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک شخص اپنے اللہ کے لیے بنائے ہوئے بھائی سے ملنے جائے تو اللہ تعالیٰ اس کے راستے میں ایک فرشتہ متعین فرماتا ہے اور وہ فرشتہ پوچھتا ہے کہ این ترید تم کہاں جارہے ہوتو وہ جواب دیتا ہے۔

اس بستی میں میرا ایک بھائی ہے اس سے ملنے جارہا ہوں وہ پوچھتا ہے کیا اس کے ساتھ رشتہ داری ہے؟ بتاتا نہیں۔ اس کے ساتھ کوئی کام ہے؟ بتاتا ہے نہیں۔ کوئی لین دین ہے۔ بتاتا ہے نہیں۔ کوئی کاروبار ہے؟ بتاتا نہیں۔ تو جب کوئی سبب نہیں تو وہ کہتا ہے کس وجہ سے جارہے ہو وہ کہتا ہے۔

میں صرف اس لیے ملنے جارہا ہوں۔ میں اس سے صرف اللہ کے لیے محبت کرتا ہے تو پھر فرشتہ بول پڑتا ہے:

میں تیری طرف اللہ کا بھیجا ہوا فرشتہ ہوں۔

(صحیح مسلم، کتاب البر و الصلة، ج: 4، ص: 1988، رقم: 2567)

(احمد بن حنبل المسند، ج: 2، ص: 292)

اللہ نے پیغام بھیجا ہے کہ اللہ تجھ سے محبت کرتا ہے جس طرح تو اس شخص سے محبت کرتا ہے۔

چوتھا ادب: مصافحہ کرنا

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب بھی دو بھائی آپس میں مل کر مصافحہ کرتے ہیں۔ اللہ پاک ہر مصافحہ پر ان دونوں کے گناہ جھاڑ دیتا ہے۔ ہر مصافحہ گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔

(موسوعة ابن ابی الدنیا، کتاب الاخوان، ج: 8، ص: 178، رقم: 110)

پانچواں ادب: گلے ملنا

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ یہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریق تھا کہ نہ صرف مصافحہ بلکہ معانقہ بھی فرماتے تھے۔

(سنن ابی داؤد کتاب الادب، ج: 4، ص: 354، رقم: 5214)

چھٹا ادب: مسکرا کر ملنا

چہرے پر ایک تبسم لانا صدقہ و خیرات اور عبادت ہے۔ حضرت جریر روایت کرتے ہیں۔ میں جب سے ایمان لایا ہوں آج تک ایک ملاقات آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایسی نہیں کی جب بھی آپ کے سامنے آیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے دیکھ کر مسکرا پڑے۔ یحییٰ بن کثیر روایت کرتے ہیں کہ ایک صحابی وہ کثرت کے ساتھ مسکراتے رہتے تھے ہر وقت ان کے چہرے پہ مسکراہٹ رہتی چہرے پر تبسم رہتا ہر صحابی جس سے ملتے اس سے مسکراتے۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا۔ یارسول اللہ یہ ہر وقت مسکراتا ہے تو آپ نے فرمایا انشاء اللہ وہ جنت میں مسکراتا ہی جائے گا۔

(موسوعة ابن ابی الدنیا کتاب الاخوان، ج: 8، ص: 128، رقم: 135)

ساتواں ادب: تعظیماً بوسہ دینا

اپنے دوستوں کے ماتھے اور ہاتھ کو چومنا حقوق صحبت میں سے ہے۔ حضرت عطا خراسانی رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملتے ہر ملاقات پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ چومتے۔

(موسوعة ابن ابی الدنیا کتاب الاخوان، ج: 8، ص: 180، رقم: 151)

عربوں کا آج تک یہ طریقہ ہے جب ملتے ہیں بزرگ چھوٹے کا ہاتھ چومتا ہے چھوٹا بڑے کے ہاتھ چومتا ہے پورے عالم عرب آج تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور صحابہ کی سنت سمجھ کر ہاتھ چومتے ہیں۔

آٹھواں ادب: سخاوت

اخوت و صحبت کے آداب و حقوق میں سے سخاوت ہے۔ دوستوں پر خرچ کرنا آپس میں تعلق بنائیں تو کوشش ہونی چاہئے دین میں اپنے سے اونچا ڈھونڈیں تاکہ اس کے دین سے نفع لے سکیں۔

نواں ادب: دوسرے کو جگہ دینا

دوستوں میں جن کو دین سے زیادہ دیکھیں تو ان کے لیے جگہ چھوڑ دیں۔ یہ نہ سمجھے کہ ہم پہلے آکے بیٹھے تھے اور آنے والا یہ توقع نہ کرے کہ میرے لیے پہلے جگہ چھوڑے مگر بیٹھنے والا دیکھے کہ اگر کوئی دین میں اعلیٰ و ارفع مقام کا آیا ہے تو خود جگہ چھوڑ کر اس کو بٹھا دینا یہ دونو ںکے حقوق ہیں۔

اہل اللہ کی صحبت

اچھی صحبت کے لیے حضرت ابراہیم بن ادھم کا طریقہ یہ تھا کہ جب بھی مجلس یا صحبت کسی کے ساتھ ہوتی تو شرائط قائم کرتے کہ خدمت میں کروں گا۔ اذان میں دوں گا اور جو کچھ ملے گا اللہ کی طرف سے وہ برابر شریک کیا جائے گا اور ہر ایک مجلس اختیار کرتے وقت یہ تین شرائط لیتے۔

ابراہیم بن ادھم کا ایک عمل تھا وہ باغوں کی رکھوالی کیا کرتے تھے اور کٹائی کرتے تھے اور وہ محنت مزدوری کرکے جو پیسے لاتے وہ اپنے اخوت اور محبت کرنے والے لوگوں پر خرچ کردیتے تو ان کے ڈیرے پر زیادہ لوگ جمع ہوتے تھے۔ رات قیام کرتے اور دن کو روزہ رکھتے۔ وہ باغوں کی کٹائی کرتے۔ مزدوری کرکے لاتے اور اپنے دوستوں کو کھانا پکا کے کھلاتے۔ انہیں اس شرط پر ٹھہراتے تھے کہ میں خدمت کروں گا تم قبول کرو گے۔ سلطان بن ابراہیم بن ادھم کو ایک رات دیر ہوگئی اس لیے کہ کمائی تھوڑی ہوئی ہے جو مہمان ٹھہرے ہوئے تھے انہوں نے انتظار نہ کیا اور سوگئے۔ جب ابراھیم بن عدم تشریف لائیں تو انہوں نے افسوس کیا سمجھا کہ ان کے پاس کھانا نہیں ہوگا اور کھائے بغیر سوگئے۔ آپ نے آگ جلائی، آٹا گوندھا، روٹیاں پکائیں، اتنے میں مہمان اٹھے انہوں نے پوچھا کہ کیا کررہے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ آج دیر سے آنے کی وجہ سے آپ کھانا کھائے بغیر سوگئے۔ ان کو شرم آئی ایک دوسرے کو دیکھ کر کہنے لگے کہ دیکھو ہمارا عمل کیا تھا اور ابراہیم کا عمل کیا ہے؟ اللہ والے اپنی صحبت مجلس اور تعلق میں آجانے والوں کے حقوق اس طرح اداکرتے ہیں کہ ان کی خدمت کو عبادت سمجھتے ہیں۔