لیلۃ القدر۔ امت مسلمہ پر احسانِ عظیم

سعدیہ کریم

اسلامی تقویم کانواں مبارک مہینہ رمضان المبارک کا ہے جس کے روزے امت محمدیہ ﷺ پر فرض کیے گئے ہیں۔ اس ماہ مبارک کی عبادت کا ثواب عام دنوں کی نسبت ستر گنا زیادہ ہے یہ صبر و شکر اور عبادت کا مہینہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ رحمت، برکت اور مغفرت کا مہینہ بھی ہے۔

ابن جوزی بستان الواعظین میں بیان کرتے ہیں کہ

’’جس طرح حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹوں میں سے حضرت یوسف علیہ السلام اپنے والد ماجد کو زیادہ محبوب تھے اسی طرح سال کے بارہ مہینوں میں سے رمضان شریف خدائے لم یزل کو زیادہ محبوب ہے اور اس مہینے کی برکت سے اللہ تعالیٰ بندوں کے گیارہ مہینوں کے گناہوں کو معاف فرماتا ہے۔‘‘

اس مبارک مہینے کی فضیلت اس وجہ سے بھی زیادہ ہے کہ اس میں قرآن کریم نازل ہوا۔ جس مبارک رات میں یہ کتاب عزیز نازل ہوئی اسے شب قدر یا لیلۃ القدر کہتے ہیں۔ اس مبارک رات کا ذکر سورہ قدر میں آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ

اِنَّآ اَنْزَلَنٰـهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ.

(القدر، 97: 1)

’’بے شک ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل فرمایا ہے۔‘‘

رمضان المبارک اور قرآن کریم کے اس تعلق اور مناسبت کی وجہ سے ہی رمضان میں تلاوت قرآن کی بہت فضیلت ہے۔

ترمذی شریف اور مستدرک الحاکم میں حضرت ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’بے شک تم اللہ تعالیٰ کا تقرب کسی چیز کے ساتھ اس سے زیادہ حاصل نہیں کرسکتے ہو جتنا اس چیز کے ساتھ جو خود اس سے نکلا ہوا ہے یعنی قرآن کریم۔‘‘

اس کا مطلب یہ ہے کہ حق تعالیٰ کا جتنا تقرب تلاوت قرآن کریم کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے وہ کسی اور نیک عمل کے ساتھ انسان کو حاصل نہیں ہوتا اور بالخصوص رمضان المبارک میں تو تلاوت قرآن کریم حد درجہ افضل ہے۔

لیلۃ القدر کی وجہ تسمیہ:

تفسیر عزیزی میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام کی امتوں کی طویل عمروں اور اپنی امت کی قلیل عمروں کو ملاحظہ فرمایا تو تاجدار رسالت ﷺ کا دل بھر آیا اور آپ رنجیدہ ہوگئے کہ اگر میرے امت بہت زیادہ نیکیاں بھی کریں تب بھی ان کی برابری نہیں کرسکیں گے کیونکہ ان کے پاس زیادہ نیکیاں کرنے کا وقت نہیں ہوگا۔ اللہ رب العزت نے اپنے حبیب ﷺ کو تسلی و تشفی دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ ﷺ کی امت کو چند ایسی راتیں عطا کی جائیں گی جن کی عبادت کا ثواب ایک ہزار سال کی عبادت سے زیادہ ہوگا۔ لیلۃ القدر ایک ایسی ہی رات ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ

لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ.

(القدر، 97: 3)

’’کہ لیلۃ القدر ایک ہزار سال سے افضل اور بہتر ہے۔‘‘

یعنی کوئی انسان اگر اس رات میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے تو اسے ایک ہزار سال کی عبادت کا ثواب عطا کیا جائے گا۔

لیلۃ القدر کونسی رات ہے:

لیلۃ القدر یا شب قدر کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ کون سی رات ہے اس بارے میں امام ابو حنیفہؒ سے دو اقوال مروی ہیں:؟

1۔ لیلۃ القدر رمضان المبارک ہی میں ہے لیکن کوئی مقرر اور معین رات نہیں ہے جبکہ ان کے شاگرد سیدنا امام ابو یوسفؒ اور سیدنا امام محمدؒ کے نزدیک رمضان کی آخری پندرہویں راتوں میں لیلۃ القدر ہوتی ہے۔

2۔ امام ابوحنیفہؒ کے مطابق ایک اور قول یہ ہے کہ لیلۃ القدر پورے سال گھومتی رہتی ہے کبھی ماہ رمضان میں ہوتی ہے اور کبھی دوسرے مہینوں میں یہی قول سیدنا عبداللہ ابن عباسؓ اور سیدنا عبداللہ ابن مسعودؓ اور سیدنا عکرمہؓ سے بھی منقول ہے لیکن امام شافعیؒ کے نزدیک شب قدر رمضان المبارک کے عشرہ اخیرہ میں ہے اور اس کا دن بھی معین ہے اور قیامت تک اس دن میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔

رمضان المبارک کی ستائیسویں شب لیلۃ القدر ہے:

لیلۃ القدر یا شب قدر کے تعین میں اختلاف ہے لیکن اکثریت کا اجماع اسی بات پر ہے کہ ہر سال رمضان المبارک کی 27 ویں رات کو ہی لیلۃ القدر ہوتی ہے۔ حضرت ابی بن کعبؓ نے بھی رمضان المبارک کی 27 ویں رات کو ہی لیلۃ القدر کہا ہے۔صحیح بخاری و مسلم کی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔

لیلۃ القدر کا لفظ نو حروف پر مشتمل ہے:

شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ فرماتے ہیں کہ لیلۃ القدر یا شب قدر رمضان کی ستائیسویں رات ہی کو کہتے ہیں۔ اس کی تائید میں ان کے دلائل موجود ہیں وہ لکھتے ہیں:

1۔ لیلۃ القدر کا لفظ نو حروف پر مشتمل ہے اور یہ کلمہ سورۃ القدر میں تین مرتبہ استعمال ہوا ہے اور اگر 3 کو 9 سے ضرب دیں تو 27 کا عدد حاصل ہوتا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ شب قدر رمضان کی ستائیسویں شب کو ہوتی ہے۔

2۔ اپنے بیان کی تائید میں دوسری توجیہ یہ پیش کرتے ہیں کہ اس سورہ مبارک میں تیس کلمات ہیں۔ ستائیسواں کلمہ ہی جس کا مرکز لیلۃ القدر ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیک لوگوں کے لیے یہ اشارہ ہے کہ رمضان شریف کی ستائیسویں شب لیلۃ القدر ہوتی ہے۔

شب قدر کی علامات:

امام شعرانیؒ لیلۃ القدر کی علامات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

یہ رات چمکدار اور صاف و شفاف ہوگی۔ نہ زیادہ گرم، نہ زیادہ ٹھنڈی ہوگی بلکہ معتدل ہوگی۔ اس رات بارش نہ ہوگی۔ ستارے نہیں ٹوٹتے جو شیطانوں کو مارے جاتے ہیں۔ اس رات صبح سورج بغیر چمک کے نکلے گا۔ اس رات کتے نہیں بھونکیں گے۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس رات میں سمندروں کا پانی میٹھا ہوجاتاہے اور انسانوں اور جنوں کے سوا تمام چیزیں سجدہ میں گرجاتی ہیں۔ مگر ان باتوں کا علم صرف صاحب کشف کو ہوتا ہے۔

لیلۃ القدر کے معنی:

قدر کے ایک معنی عظمت و شرف کے ہیں کیونکہ اس کو لیلۃ القدر کہنے کی وجہ اس رات کی عظمت و شرف ہے۔ ابوبکر وراق فرماتے ہیں کہ ’’اس رات کو لیلۃ القدر اس وجہ سے کہا گیا ہے کہ جس آدمی کی اس سے پہلے اپنی بے عملی کی وجہ سے کوئی قدرو قیمت نہ تھی اس رات میں توبہ و استغفار اور عبادت کے ذریعہ وہ صاحب قدر و شرف بن جاتا ہے۔‘‘

قدر کے دوسرے معنی تقدیر و حکم کے بھی آتے ہیں۔ جمہور مفسرین کے نزدیک امور تقدیر کے فیصلے اجمالی طورپر شب برات میں ہوجاتے ہیں پھر ان کی تفصیلات لیلۃ القدر میں لکھی جاتی ہیں۔ بعض نے کہا کہ شب برات میں کیے جانے والے فیصلے شب قدر میں متعلقہ فرشتوں کے سپرد کردیئے جاتے ہیں۔

لیلۃ القدر کی فضیلت احادیث کی روشنی میں:

لیلۃ القدر بہت عظمت و فضیلت والی رات ہے اور اس کے بارے میں بے شمار احادیث موجود ہیں۔

لیلۃ القدر میں عبادت گزشتہ گناہوں کی مغفرت کا باعث ہے:

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے قیام کیا اس کے گزشتہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔‘‘ (رواہ بخاری و مسلم)

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ ’’رمضان آیا تو رسول اکرم ﷺ نے فرمایا یہ جو مہینہ تم پر آیا ہے اس میں ایک رات ایسی ہے جو قدرو منزلت کے اعتبار سے ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو شخص اس سعادت کو حاصل کرنے سے محروم رہا وہ ہر بھلائی سے محروم رہا۔‘‘

ایک اور روایت کے مطابق ’’رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ لیلۃ القدر کی سعادت سے صرف بدنصیب ہی محروم کیا جاتا ہے۔‘‘ (رواہ ابن ماجہ)

لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرنا چاہیے:

’’حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں لیلۃ القدر کو تلاش کرو۔‘‘ (رواہ بخاری)

اس حدیث پاک سے یہ ترغیب دلائی گئی ہے کہ لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرنا چاہیے یعنی آخری عشرے میں بہت زیادہ عبادت کرنی چاہیے اور اپنے اہل و عیال کو عبادت کے لیے خصوصی ترغیب دینی چاہیے کیونکہ یہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کی سنت ہے۔ حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ

’’رمضان کے آخری عشرے میں نبی کریم ﷺ باقی دنوں کی نسبت عبادت میں زیادہ کوشش فرمایا کرتے تھے۔‘‘

ایک اور روایت میں ہے کہ ’’حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب رمضان کے آخری دس دن شروع ہوتے تو آپ ﷺ عبادت کے لیے کمر بستہ ہوجاتے راتوں کو جاگتے اور اپنے اہل و عیال کو بھی جگاتے۔‘‘ (رواہ بخاری و مسلم)

رمضان المبارک میں اپنے اہل و عیال کو بھی عبادت کی ترغیب دلانے کا حکم ہے۔

رمضان المبارک میں رسول اللہ ﷺ کی سخاوت:

’’حضرت عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنے میں بہت سخی تھے لیکن جب جبرئیل امین آپ ﷺ سے ملتے تو آپ ﷺ اور بھی سخی ہوجاتے اور آپؐ کی سخاوت تیز ہوائوں سے بھی زیادہ بڑھ جاتی۔‘‘ (رواہ بخاری و مسلم)

لیلۃ القدر کی مسنون دعا:

’’حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ میں نے پوچھا یارسول اللہ ﷺ اگر میں شب قدر پالوں تو کون سی دعا پڑھوں؟ آپؐ نے فرمایا کہو: یا اللہ تو معاف کرنے والا ہے، معاف کرنا پسند کرتا ہے لہذا مجھے معاف فرما۔‘‘ (رواہ ترمذی)

لیلۃ القدر کی فضیلت و خصوصیت:

فرشتوں کے نزول کا مقصد عظیم:

قرآن مجید میں لیلۃ القدر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ’’یہ وہ رات ہے جس میں فرشتے نازل کیے جاتے ہیں۔‘‘ جس سے بندوں کی شان ظاہر ہوتی ہے کیونکہ لیلۃ القدر میں فرشتوں کو نازل ہونے کا حکم دے کر یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ آخرت میں تو نیک لوگوں کے لیے عزتیں اور جنتیں تو ہوں گی لیکن اگر دنیا میں عبادت کا ذوق و شوق ہوگا تو نیک لوگوں کی زیارت کے لیے فرشتے نازل کیے جائیں گے۔ حضرت علی المرتضیٰؓ کا قول ہے کہ لیلۃ القدر میں فرشتے اس لیے نازل ہوتے ہیں کہ بندوں پر سلام پڑھیں اور ان کی شفاعت کریں سو جس کو فرشتوں کا سلام پہنچے گا اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔

لیلۃ القدر میں فرشتوں اور روح کا نزول:

قرآن مجید میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ:

’’لیلۃ القدر میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتے اور روح نازل ہوتے ہیں۔‘‘

یہ روح کیا ہے اور کس طرح اس کا نزول ہوتا ہے اس کے بارے میں مفسرین نے مختلف اقوال نقل کیے ہیں:

امام رازی لکھتے ہیں کہ

1۔ روح بہت بڑا فرشتہ ہے وہ اتنا بڑا ہے کہ تمام آسمان اور زمینیں اس کے سامنے ایک لقمے کی طرح ہیں۔

2۔ روح سے مراد مخصوص فرشتوں کی ایک جماعت ہے جس کو عام فرشتے صرف لیلۃ القدر میں ہی دیکھ سکتے ہیں۔

3۔ روح اللہ تعالیٰ کی ایک خاص مخلوق ہے جو نہ فرشتوں کی جنس سے ہے نہ انسانوں کی جنس سے ہوسکتا ہے۔

4۔ اس سے مراد خاص رحمت ہے کیونکہ رحمت کو بھی روح فرمایا گیا ہے جیسا کہ سورہ یوسف میں ہے کہ

لاتائیسو من روح اللہ.

’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔‘‘

5۔ اس سے مراد بہت بزرگ اور مکرم فرشتہ ہے۔

6۔ ابو نجیح نے کہا کہ روح سے مراد کراماً کاتبین فرشتے ہیں جو مومن کے نیک کام لکھتے ہیں۔

ایک اور قول کے مطابق روح سے مراد حضرت جبرئیل علیہ السلام ہیں۔ ان کی خصوصیت کی وجہ سے ان کو عام فرشتوں سے الگ ذکر کیا گیا ہے۔

شیخ عبدالقادر جیلانیؒ غنیۃ الطالبین میں فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ

’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لیلۃ القدر میں اللہ تعالیٰ جبرائیل کو حکم دیتا ہے کہ وہ سدرۃ المنتہیٰ سے ستر ہزار فرشتے لے کر زمین پر جائیں، ان کے ساتھ نور کے جھنڈے ہوں گے جب وہ زمین پر اترتے ہیں تو یہ جھنڈے چار جگہوں پر نصب کرتے ہیں۔ کعبۃ اللہ پر، روضہ رسول پر، بیت المقدس کی مسجد پر اور طور سینا کی مسجد پر پھر جبرائیلؑ تمام فرشتوں کو زمین پر پھیل جانے کا حکم دیتے ہیں اورجہاں مومنین مردو زن عبادت میں مشغول ہوتے ہیں وہاں پہنچ جاتے ہیں اور ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔‘‘

ان تمام اقوال سے مجموعی طور پر جو بات سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ لیلۃ القدر میں حضرت جبرائیلؑ جنہیں روح الامین کہا جاتا ہے۔ وہ اللہ کے حکم سے فرشتوں کی جماعت کے ساتھ نور، سلامتی،رحمت، مغفرت اور برکت لے کر زمین پر نازل ہوتے ہیں اور مومنین کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں اور مومن بندوں سے ملاقات کرانے کے لیے انہیں زمین پر نازل کیا جاتا ہے۔ مومن لوگوں سے آکر مصافحہ کرتے ہیں ان پر سلام بھیجتے ہیں۔

امام رازی لکھتے ہیں کہ ’’فرشتوں کا زمین پر اترنا اور سلام کرنا سلامتی کا ضامن ہے۔‘‘

سات فرشتوں نے آکر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سلام کیا تھا تو ان پر نمرود کی جلائی ہوئی آگ، گل و گلزار اور سلامتی والی بن گئی تھی۔ لیلۃ القدر میں عبادت کرنے والوں پر جب فرشتے نازل ہوتے ہیں اور انہیں سلام کرتے ہیں تو ان پر جہنم کی آگ حرام کردی جاتی ہے۔

حاصل کلام:

اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو بے شمار انعامات و احسانات عطا فرمائے ہیں۔ جن میں سے لیلۃ القدر ایک اہم اور خصوصی انعام ہے۔ اس رات کا عطاکیا جانا امت مسلمہ کی فضیلت و برتری کو ظاہر کرتا ہے اور امت مسلمہ کے گناہوں سے مغفرت کا ایک ذریعہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے قرب کا باعث ہے۔

اس رات میں اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمتوں کا ظہور ہوتا ہے۔ فرشتوں کی نیک اور مومن لوگوں سے ملاقات کروائی جاتی ہے۔ بندوں کے گناہ معاف کیے جاتے ہیں۔ فرشتوں سے سلام کروایا جاتا ہے۔ بندوں کے درجات بلند کیے جاتے ہیں۔ ایک ہزار مہینوں سے زیادہ عبادت کا ثواب صرف ایک رات میں عطاکردیا جاتاہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی نوازشات ہوتی ہیں۔

اس رات کی فضیلت اس وجہ سے بھی زیادہ ہے کہ آپ ﷺ اس رات میں خود بھی بہت زیادہ عبادت کرتے تھے اور امت کے لیے بھی اس رات کی عبادت کو پسند فرمایا ہے اور اپنے عمل کے ذریعے امت کو ترغیب دلائی ہے کہ وہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں عبادت کا خصوصی اہتمام کریں۔