فلسفہ صوم: معمولات نبوی ﷺ کی روشنی میں

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

مرتبہ: نازیہ عبدالستار

چند بنیادی مشاغل جو نبی اکرم ﷺ اس ماہ مبارک میں ادا فرماتے تھے ان میں سے چند ایک یہ ہیں:

پہلا معمول صیام رمضان: ماہ رمضان کے روزے رکھنا فرض کا درجہ رکھتا ہے۔ ارکان اسلام میں سے ایک رکن بھی ہے۔

دوسرا معمول قیام رمضان ہے جس کو نماز تراویح کہتے ہیں اور رمضان کی راتوں کا قیام ہے۔

تیسرا معمول نبی اکرم ﷺ کا ختم قرآن ہے رمضان المبارک میں قرآن مجید کو ختم کرنا۔

چوتھا معمول نبی اکرم ﷺ کا رمضان المبارک میں شب بیداری کامشغلہ ہے۔

پانچواں معمول نبی اکرم ﷺ کا اعتکاف کا تھا۔

چھٹا معمول نبی اکرم ﷺ کا نماز تہجد کو باقی گیارہ ماہ قائم رکھنے کا تھا۔

ساتواں معمول نبی اکرم ﷺ کا کثرت سے عبادت و ریاضت، ذکر و فکر، غوروفکر کرنے کا تھا۔

آٹھواں معمول رمضان المبارک میں کثرت سے صدقہ و خیرات کرنے کا تھا۔ یہ وہ چند معمولات نبوی ﷺ ہیں جن کی بنا پر اس ماہ مقدس کو بہتر طریقہ سے گزار سکتے ہیں۔

ارشاد فرمایا: جو کوئی تم میں سے رمضان المقدس کا ماہ پائے شرعاً عاقل و بالغ ہو اور شرعی لحاظ سے کوئی ایسا عذر نہ ہو جس کی بنا پر رخصت یعنی Exception یا سہولت مل جاتی ہے۔ وہ درپیش نہ ہو اس کے لیے فرض ہے کہ رمضان المبارک کے روزے رکھے۔ چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے اس حکم کے ضمن میں ارشاد فرمایا:

من صام رمضان ایمانا واحتسابا غفرله ماتقدم من ذنبه...

جس شخص نے رمضان المبارک کا پورا ماہ روزوں کے ساتھ گزارا اور وہ روزے عام سمجھ کر نہ رکھے بلکہ ایمان کے تقاضے بھی پورے کرے۔ نفس اور احوال باطنی کو قائم رکھا تو جس نے محاسبہ نفس کے ساتھ رمضان المقدس کے پورے روزے رکھے تو اللہ رب العزت کی طرف سے اسے یہ خوشخبری سنادی گئی کہ اس کی زندگی کے پہلے سارے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔

نبی اکرم ﷺ نے اپنی پوری زندگی میں حضر کی حالت میں کبھی رمضان المقدس کا روزہ قضا نہیں کیا۔ نبی اکرم ﷺ جب کبھی سفر کی حالت میں ہوتے۔ حضور اکرم ﷺ کو پوری امت کے لیے اسوہ کامل بناکر بھیجا تھا تاکہ حضور ﷺ کا نہ صرف طاقتور بلکہ کمزور سے کمزور تر فرد بھی حضور ﷺ کی سنت سے استفادہ کرسکے۔ حضور اکرم ﷺ جب سفر پر تشریف لے جاتے کبھی روزہ رکھ لیتے اور کبھی افطار فرمادیتے۔ بخاری اور مسلم میں کثرت سے احادیث آئی ہیں۔ مسافروں کی آسانی کے لیے ایسا بھی کیا کہ سفر روزے کی حالت میں شروع کیا مگر دیکھا کہ سفر کی شدت کی بنا پر ساتھیوں کی طبیعت خراب ہورہی ہے تو پانی کا پیالہ منگواکر اپنے ہاتھوں کو بلند کرکے بھرے مجمع کے سامنے روزہ افطار کردیا تاکہ ہر کوئی دیکھ لے کہ نبی اکرم ﷺ نے روزہ افطار کرلیا اور یہ سمجھے کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ سفر کی شدت کے باعث روزہ کو افطار کرنا کوئی عیب نہیں سمجھے تو کوئی کمزور امتی سفر کی حالت میں روزہ افطار کرے گا تو گناہ نہ ہوگا بلکہ اس کا افطار بھی سنت میں شامل ہوگا۔

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں جو روزے میرے ذمہ رہ جاتے تھے ان کی قضا آئندہ شعبان المعظم میں کرتی تھیں۔ کیونکہ حضور اکرم ﷺ شعبان المعظم میں کثرت سے روزے رکھتے۔

سحری کی فضیلت:

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: سحری کیا کرو۔ سحری کا کھانا بڑی برکت کا باعث ہے۔ ایک برکت یہ ہے کہ دن بھر کے روزے کو تقویت ملتی ہے۔ دوسرا یہ کہ سحری سراسر نور ہے۔ خواہ پانی کا ایک گھونٹ ہی کیوں نہ پینے کا وقت ملے ضرور پی لیا کرو اور سحری ضرور کرلیا کرو کیونکہ یہ یہودیوں کی مخالفت ہے اور رسول خدا ﷺ کی سنت ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ہمارے روزے اور یہودیوں کے روزے میں فرق یہ ہے کہ ہم سحری کرتے ہیں اور یہودی سحری نہیں کرتے۔

حضور نبی اکرم ﷺ نے سحری میں تاخیر کو پسند فرمایا حضور ﷺ سحری جلد نہ فرماتے بلکہ آخری لمحات میں جاکر سحری فرماتے، روزے کا وقت ختم ہونے کے بالکل قریب تر ہوتا اور سحری آخری لمحات کو چھو رہی ہوتی اور میرے آقا ﷺ سحری کھا رہے ہوتے۔ آخری لمحات میں سحری کرنا مزید برکات کا حامل ہے۔

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا۔ ابوسعیدؓ روایت کرتے ہیں:

عجلوا الفطر واخروالسحر.

افطار میں جلدی کرو اور سحری میں تاخیر کیا کرو۔

سحری دیر سے کیا کرو اور افطار جلدی کیا کرو۔ گویا حضور ﷺ نے افطار کے لیے تعجیل کا حکم بھی صادر فرمادیا کہ میری امت کے لوگ اس وقت تک نیکی اور بھلائی پر قائم رہیں گے جب تک وہ افطار میں جلدی کریں گے۔ افطار میں تاخیر کرنا یہودیوں کا شیوہ ہے۔ دیر سے روزہ افطار کرنے کی ممانعت فرمائی۔ حضور ﷺ مغرب سے اول روزہ افطارفرمایا کرتے تھے سیدنا فاروق اعظمؓ اور دیگر صحابہ کا معمول بھی منقول ہے کہ وہ مغرب کے فرض پڑھ کر روزہ افطار فرمایا کرتے تھے اور یہ بھی یاد رکھے کہ صحابہ کرامؓ کا عمل حضور ﷺ کے عمل کی روح کے خلاف نہیں ہوسکتا اس سے ثابت ہوگیا۔ نماز سے پہلے روزہ افطارکرنا افضل ہے اور مغرب کے فرض پڑھ کر افطار کرنا جائز ہے۔

حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ میرے نزدیک دیر سے افطار کرنا کا معنی یہ ہے کہ تاروں کے نکلنے کا انتظار کیا جائے تو یہودیوں کی پیروی ہوگی اگر تاروں کے نکلنے سے پہلے افطار کرے اور سورج غروب کے دو منٹ بعد یا چار بعد میں کرنا یہ سارے احکام تعجیل کے ضمن میں آتے ہیں۔

اور یہ کوئی دو منٹ پہلے افطار کرنے کو افضل سمجھ رہا ہے کوئی دو منٹ بعد میں کھولنے کو افضل سمجھ رہا ہے تو یہ افضل اور مفضول کے جھگڑے ایمان اور کفر کے فیصلے نہیںہوا کرتے۔ حضور ﷺ کے معاملات میں سے یہ بھی تھا کہ حضور اکثر و بیشتر کھجور سے روزہ افطار کرتے میرے آقا نے فرمایا کہ روزہ افطار کیا کرو بے شک ایک کھجور کے ساتھ اور کسی کو ایک کھجور بھی میسر نہ ہو تو پانی کے ایک گھونٹ سے افطار کرلے۔ اس لیے کہ پانی پاک چیز ہے یعنی غریب سے غریب تر شخص کے لیے بھی حضور ﷺ نے اپنی سنت وضع فرمادی۔

کوئی شخص اگر مختلف اقسام کے پھل اور کھانوں سے دستر خوان کو سجا نہیں سکتا تو کسی غریب کی نظر اس شخص کو دیکھ کر پریشان نہ ہو۔ پانی کے گھونٹ سے بھی افطار کرتا ہے تو یہ بھی میرے آقا کی سنت ہی پہ عمل کررہا ہے اور یہاں ایک بات یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ اگر نماز مغرب سے پہلے افطاری بہتر اور افضل ہے تو حضور ﷺ کی سنت بھی یہی ہے۔ہمارے ہاں بدقسمتی سے یہ معمول ہے کہ ادھر اذان مغرب ہوتی ہے۔ افطار ہوتی ہے۔ کوئی کلی کرسکتا ہے یا نہیں، کوئی کھا رہا ہے کسی کے ہاتھ ابھی صاف نہیں ہیں۔ ادھر تکبیر شروع ہوجاتی ہے اور مغرب نماز شروع ہوجاتی ہے۔ ایک بھگدڑ کا سما ہوتا ہے۔ مسجد میں کوئی دوڑ کے کلی کرنے کے لیے جارہا ہے کوئی جماعت میں مل رہا ہے۔کسی کی تکبیر تحریمہ رہ جاتی ہے کسی کی رکعت فوت ہورہی ہے تو یہ سارا معمول سراسر غلط ہے۔ نماز مغرب کا وقت اتنا بھی تنگ نہیں۔ جتنا ہم نے سمجھ رکھا ہے۔

جب اذان ہوجائے آرام سے افطار کریں دس منٹ لگ جائیں۔ اگر پندرہ منٹ بھی لگ جائیں اور تمام لوگ فارغ ہوجائیں پھر تکبیر کہہ کر نماز مغرب ادا کریں۔ پانچ دس منٹ کی تاخیر سے نماز مغرب مکروہ نہیں ہوتی۔ نماز کا صحیح وقت پھر بھی قائم رہتا ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ نماز مغرب کا وقت کم سے کم ایک گھنٹہ اور پندرہ منٹ ہے اور زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ گھنٹہ تک غروب آفتاب کے بعد جس وقت بھی نماز ادا کریں گے نماز مغرب ادا ہوتی قضا نہ ہوتی۔

اس لیے افطار میں پریشانی پیدا کرنے کی حاجت نہیں۔ اطمینان سے افطار کریں اور اطمینان سے نماز پڑھیں۔ اسلام آپ کی سہولتوں کو اتنا نظر انداز کرنے والا بھی نہیں ہے۔

حضور ﷺ نے تو یہاں تک فرمادیا کہ ایک طرف بھوک لگی ہو اور دستر خوان پر کھانا لگا ہوا ہو دوسری طرف نماز کا وقت ہو اور مجھے کہا جائے کہ بھوک کی حالت میں کھانے کو اور وقت پر نماز کو دونوں میں سے کس کو اپناتے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں بھوک کی شدت کو ختم کرنے کے لیے پہلے کھائوں گا۔ نماز بعد میں پڑھوں گا۔

اس لیے کہ اگر بھوک قائم رہی تو نماز کی لذت، انہماک اور روحانیت نصیب نہیں ہوسکتی۔ نماز تو مومن کی معراج ہے نماز تو وہ نماز ہے کہ آپ دنیا و مافیھا کے تصورات سے بے نیاز ہوکر خدا کے حضور میں اس طرح کھڑے ہوکہ پھر خدا ہی نظر آرہا ہو اور انسان حالت نماز میں خدا سے ہم کلام ہو۔ ایک طرف اپنے کھانے کی یاد ستار ہی ہے۔ بھوک کی شدت ذہن کو کھانے کی طرف لے جارہی ہے اور بھوک کی شدت کے باعث جلدی جلدی نماز کی رکعتیں ادا کریں گے تو کھانے کا وقت بھی ضائع ہوا اور خدا کی یاد بھی خلوت نصیب نہ ہوسکی۔ اگر نماز قضا نہ ہورہی ہو تو بھوک پہلے مٹالیں۔ پیٹ کے دھندے سے فارغ ہوجائیں اسی لیے کہ شیطان اللہ کی راہ میں بھی پیٹ کے تصور سے حملہ آور ہوا کرتا ہے۔ شیطان حرام خوری کی راہ پر لے جاتا ہے۔ رزق کی خاطر نماز کی حالت میں بھی پریشان رہتے ہیں۔ اسی لیے جب تک اس فکر اور پریشانی کا ازالہ نہ ہو جائے اس وقت تک عبادت کی مطلوبہ لذت نصیب نہیںہوتی۔

روزے کے ضمن میں حضور ﷺ کا یہ معمول تھا کہ رمضان المبارک کے علاوہ کثرت کے ساتھ میرے آقا ﷺ شعبان کے روزے رکھتے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ فرماتے ہیں کہ میں ہر روز روزہ رکھتا تھا اور ہر رات قیام کرتا تھا۔ پوری زندگی کے لیے میں نے قسم کھالی تھی کہ میں پوری زندگی روزانہ روزہ رکھوں گا اور ساری رات عبادت کروں گا۔

حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت عبداللہ بن عمروؓ کو بلوابھیجا اور فرمایا عبداللہ بن عمروؓ کیا یہ سمجھتے ہو ہ تیرے معمول کی ہمیں خبر نہیں ہے۔ دست بستہ عرض کیا حضور ﷺ کو معلوم ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ عبداللہ تمہاری اگر یہی خواہش ہے کہ تمہاری ساری زندگی روزے میں گزرے تو تم رمضان کے روزے قضاء نہ کیا کرو اور ہر مہینے صرف تین روزے رکھ لیا کرو اللہ تعالیٰ تمہاری ساری زندگی روزے کی حالت میں لکھ دے گا۔ اس لیے کہ اللہ ایک نیکی کا اجر دس گناہ دیتا ہے۔ مہینے کے تیس دن ہوتے ہیں۔ اگر ہر مہینے تین روزے رکھو گے تو تیس دنوں روزوں کا ثواب ملے گا۔ صیام الدھر میں خدا شمار کردے گا۔

حضور ﷺ نے فرمایا عبداللہ بن عمروؓ ساری رات عبادت کرنا اور اتنا کثرت کے ساتھ قرآن پڑھنا یہ مناسب نہیں ہے۔ تیری جان کا بھی تیرے اوپر حق ہے تیری بیوی کا اور بچوں کا بھی تیرے اوپر حق ہے۔ تیرے ملاقاتیوں کا بھی تیرے اوپر حق ہے۔ حضور ﷺ نے یہاں تک فرمایا کہ اگر اتنی کثرت سے عبادت کرتے رہو گے تو تیری بینائی بھی کمزور ہوجائے گی تیرے جسم کی طاقت بھی مانند پڑ جائے گی۔

حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ عبداللہ بن عمروؓ اگر اتنی کثرت کے ساتھ عبادت کا بوجھ تجھ پہ قائم رہا فرمایا: تجھے کیا خبر کہ اللہ تجھے بڑی لمبی عمر عطاکرے گا تو جب تو بڑھاپے میں پہنچے تو تو چاہے گا کہ معمول کو قائم رکھے لیکن قائم نہ رکھ سکے گا اور فرمایا کہ نیک عمل اور فضیلت والا عمل وہ ہے جو بے شک تھوڑا سا ہی کیوں نہ ہو لیکن بڑی پابندی، مدافعت کے ساتھ پوری زندگی قائم رکھے۔ احب الامر الی اللہ مادام علیہ اللہ کو سبب سے زیادہ وہ عمل محبوب ہے کہ عمل کرنے والا ساری زندگی اسی پر عمل کرتا ہے۔ بے شک وہ تھوڑا سا کیوں نہ ہو۔ اسلام معتدل زندگی کی اجازت دیتا ہے۔

عمل اس میں مدامت ہونی چاہیے پابندی اور باقاعدگی ہونی چاہیے اور یہی وہ تصور ہے جس تصور کو کسی اور روپ میں مغرب کی دنیا نے اپنا لیا اور بدقسمتی سے مسلمانوں نے الا ماشاء اللہ چھوڑ دیا۔ اس مدامت کے اصول میں دنیا کی کامیابی کا راز مضمر ہے اور آخرت کی کامیابی کا راز بھی مضمر ہے۔ اس کے بعد دوسرا عمل نبی اکرم ﷺ کا رمضان المبارک میں قیام تھا حضور ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے رمضان کی راتوں میں قیام کیا بڑی لگن و محبت و شوق انہماک اور استغراق کے ساتھ اللہ کی رضا کے لیے ایمان کی دولت لوٹنے اور اپنے نفس کا محاسبہ کرنے کے لیے خود کو اللہ کی بارگاہ میں حاضر کرنے کے لیے ایک مجرم جان کر جس نے ان تصورات کے ساتھ رمضان کی راتوں میں قیام کیا نماز تراویح باجماعت باقاعدگی کے ساتھ پڑھی۔ حضور ﷺ نے فرمایا اس کی پچھلی ساری زندگی کے گناہ معاف ہیں۔ نماز تراویح سنت موکدہ ہے جان بوجھ کر تراویح کو چھوڑنا گناہ ہے۔ جماعت کے ساتھ نماز تراویح ادا کرنا سنت کفایہ ہے۔

حضرت عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں: تراویح کا لفظ اس کا واحد ہے ترویحہ اور یہ راحت سے نکلا اور راحت کہتے ہیں آرام کو۔ تراویح اس نماز کو کہتے ہیں جو بڑے آرام و سکون سے ادا کی جائے۔ ترویحہ لغواً آرام و راحت کرنے کو کہتے ہیں۔ اصطلاحاً ترویحہ کہا جاتا ہے کہ جب چار رکعت پڑھنے کے بعد تھوڑی دیر بیٹھتے ہیں، تسبیح پڑھتے ہیں، اللہ اللہ کرتے ہیں، استغفار پڑھتے ہیں، کلمہ پڑھے اور اس کے بعد پانچویں رکعت ادا کرنے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اگر آٹھ رکعت پڑھنی ہو چار پہلے اور چار بعد میں۔ درمیان میں ایک ترویحہ آئے گا ایک کو واحد کہا جاتا ہے۔ اگر بارہ رکعتیں پڑھنی ہوں تو دو ترویحے آئیں گے۔ پہلا چار رکعات کے بعد آئے گا دوسرا آٹھ رکعت کے بعد آئے گا۔ دو تریحوں کو ترویحاتان کہتے ہیں۔ اگر کم از کم سولہ رکعتیں پڑھنی ہیں تو پھر تین ترویحے آئیں گے اور ہر ترویحہ چوتھی رکعت کے بعد دوسرا ترویحہ آٹھ رکعتوں کے بعد تیسرا ترویحہ بارہ رکعتوں کے بعد اور پھر تین یا تین سے زائد ترویحے آئیں تو اس کو تراویح کہتے ہیں۔

چونکہ تراویح جمع کا صیغہ ہے ایک کو ترویحہ کہتے ہیں دو کو ترویحاتان کہتے ہیں تین یا تین سے زائد ہوں تو ان کو تراویح کہتے ہیں چونکہ نماز تراویح بیس رکعتوں پر مشتمل ہوتی ہے اور بیس رکعتوں میں چار تراویح آتے ہیں اس کو نماز تراویح کہتے ہیں۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اکرم ﷺ کے ساتھ 20 رکعت نماز تراویح ادا کرتے تھے چار ترویحے نماز تراویح کے اندر اور پانچواں ترویحہ وتر سے پہلے یہ حضور ﷺ کا معمول تھا۔ یہ نماز تراویح کا انتظام اس لیے کیا گیا تاکہ اس بہانے میرے امتی رمضان کے مقدس ماہ میں قیام کرسکیں۔

رمضان ہی کا مہینہ ہے جس میں اللہ رب العزت چاہتے ہیں کہ میرا بندہ زیادہ گھڑیاں کھڑا ہوکر میرے حضور گزارے۔ اللہ کا رسول بھی چاہتا ہے کہ میرا امتی اللہ کا قرآن پڑھتے پڑھتے اس کے حضور کھڑے ہوکر گزار دے۔ جتنی گھڑیاں نماز تراویح کے بہانے سے حالت قیام میں گزر جائیں آپ تصور نہیں کرسکتے کہ ایک ایک گھڑی خداوند کے نزدیک کتنی فضیلت کی حامل ہے۔

رمضان کے روزوں میں غروب آفتاب سے لے کر اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر تشریف لاکر اپنے گناہ گار بندوں کو پکار پکار کر کہتی ہے اے میری رحمت سے بغاوت کرنے والے اے میری اطاعت سے منہ پھیرنے والے اے میری مغفرت سے بے نیاز لیٹنے والے، اُٹھ ہے کوئی تم میں سے جو مجھ سے رو کر میری مغفرت مانگے اور میری مغفرت تجھ پر اپنی رحمتوں کا انعام کردے۔ ہے کوئی جو آج جاگ کر میری رضا کو طلب کرے اور میری رضا کی جھولی اسے اپنے دامن میں چھپالے، ہے تم میں سے کوئی جو آج رات جاگ کر میری رضا کو طلب کرے میں اسے بخش کر جنت کی نعمتوں سے گزار دوں۔ کتنے بدنصیب ہیں ہم خداوندی کی ذات اپنی ہماری بخشش کرنے کے لیے ہمیں پکار رہی ہے اور ہم اس کی نماز کو جلدی ختم کرکے بستروں کی طرف جارہے ہوں۔

اس میں نہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت میں اضافہ ہوتا ہے نہ اس کی قدرت میں کوئی زیادتی ہوتی ہے نہ اس کی رحمت کو کوئی وسعت نصیب ہوتی ہے۔ لیکن نادان ہے یہ انسان کہ اس کی رضا کو ٹھکرا کر بستر کی طرف جارہا ہے۔ رمضان کی راتوں میں شیطان پکارتا ہے کہ اے انسان ادھر آرام کی نیند سو، رحمان پکارتا ہے نہیں تو تیری بارگاہ میں کھڑا ہوکر مجھ سے ہمکلام ہو۔ کتنا فرق ہے کہ ایک طرف نفس کا آرام ہے اور ایک طرف رحمان سے ہمکلام ہونا ہے ہم نفس کے آرام کی خاطر اللہ رب العزت کی ذات سے ہمکلامی کا شرف ترک کردیتے ہیں۔

مقتدیوں کا یہ عالم ہے کہ آہستہ پڑھنے والوں حاففظ کو پسند نہیں کرتے وہ کہتے ہیں کہ فلاں تو ایک گھنٹہ ہی نماز تراویح ختم کروادیتا ہے تم سوا یا ڈیڑھ گھنٹہ لگاتے ہو۔ ارے! کوئی محبوب کے پاس تھوڑی یا زیادہ دیر ٹھہرنے پر بھی جھگڑتا ہے۔ اگر محبوب کی بارگاہ میں حاضری نصیب ہو تم گھنٹہ سوا گھنٹہ کی بات کرتے ہو جن کی اس کے ساتھ لو لگی ہو اگر ان کی ساری رات گزر جائے تو پھر بھی دم نہیں لیتے۔

حضرت فاطمۃ الزہراؓ راتوں میں نفل کی نماز ادا کرتے ہوئے سجدے میں جاتیں۔ ساری رات اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سجدہ ریزی میں بسرکردیتیں۔ نماز فجر کے لیے جب سحر طلوع ہوتی اور تہجد کی اذان کا وقت آتا اس کے بعد نماز فجر کا وقت آتا موذن اللہ اکبر کہتا وہ سجدے سے سر اٹھاتیں ٹھنڈی سانس بھر کر عرض کرتیں۔ اے باری تعالیٰ! تو نے کتنی چھوٹی راتیں بنائی ہیں کہ جی بھر کر تیرے حضور ایک سجدہ بھی نہیں کیا۔ ارے کچھ لوگوں کی پیشانیاں سجدہ کرنے کو وقت کو ترستی ہیں لیکن ہم بدنصیب ہیں کہ ہمیں اللہ رب العزت نے اپنی بارگاہ میں ہمکلام ہونے کا مرقع فراہم کیا لیکن یہ تراویح کو چھوڑ کر گھر کو لوٹ رہے ہیں۔ لہذا بڑی لگن کے ساتھ تراویح پڑھا کیجئے۔ اس حافظ کے پیچھے پڑھیے جو صحت و درستی کے لحاظ سے پڑھتا ہو خشوع و خضوع سے پڑھتا ہو۔ محبت سے پڑھتا ہو۔ صرف خوش الحانی کے پیچھے نہ جایا کرو۔ نماز تراویح دراصل قیام رمضان ہے جتنا وقت اس کے بہانے قرآن کی تلاوت میں گزر جائے اتنی غنیمت ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں ان احکامات کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین